Sunday, August 9, 2015

حج: ایک عاشقانہ سفر


حج: ایک عاشقانہ سفر
بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

حج کی فرضیت:
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہےجن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے جیسا کہ نماز، روزہ اور زکاۃ کی فرضیت ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ" (سورہ آل عمران، آیت: 97) ترجمہ : "اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے، یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو؛ تو اللہ تعالی تمام جہاں والوں سے غنی ہیں۔" یہ  آیت کریمہ حج کی فرضیت کے حوالے سے  نصّ قطعی ہے۔

رسول اللہ-صلی اللہ علیہ وسلم- نے ان پانچوں ارکان کو ایک حدیث شریف میں بیان فرمایا ہے۔ "بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ." (بخاری شریف، حدیث نمبر: 8) ترجمہ: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)  اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا،  حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔"

ایک عاشقانہ سفر:
انسانی طبیعت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتہ داراور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے؛ تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے  اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔  یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان  کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا،  مہبط وحی و رسالت کی دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اور  سب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا  اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔ ذیل کے سطور میں، حج کےاجر و ثواب احادیث شریفہ کی روشنی میں، ملاحظہ فرمائے!

حج  انتہائی نیک عمل ہے:
حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالی عنہ- بیان کرتے ہیں: سُئِلَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ" قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: "جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: "حَجٌّ مَبْرُورٌ." (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1519) ترجمہ : (ایک بار)نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپ  –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ارشاد فرمایا : "اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔" پوچھا گيا پھر کون؟  فرمایا : "اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔" پوچھا گیاپھر کون ؟  ارشاد فرمایا: " حج مبرور۔"

حج مبرور  کیا ہے؟
·       وہ حج  جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔
·       وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔
·       وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔
·       وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان  بڑھ جائے ۔
·       وہ حج جس کے بعد آدمی  دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلہ میں دل چسپی دکھا ئے ۔

حج مبرور کی فضیلت:
ابو ہریرہ -رضی اللہ عنہ -  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا : "العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الجَنَّةُ." [بخاری شریف، حدیث: 1773، مسلم شریف، حدیث: 437 - (1349)] ترجمہ: "ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان( گناہوں)کا کفارہ  ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔"

حج پچھلے سارے گناہوں کو مٹادیتا ہے:
ابن شِماسہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص –رضی اللہ عنہ- کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ وہ کافی دیر تک  روئے، پھر انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انھوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے) فرمایا: جب اللہ نے میرے قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا؛  تو میں رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم- کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کیا: آپ –صلی اللہ علیہ وسلم-اپنا داہنا  دست (مبارک )پھیلائے، تاکہ میں بیعت کروں ۔  آپ –صلی اللہ علیہ وسلم-نے پھیلایا۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا : اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟  میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: تمہاری کیا شرط ہے؟  میں نے کہا:  میری مغفرت کردی جائے۔ آپ–صلی اللہ علیہ وسلم-  نے فرمایا : "أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟" [مسلم شریف، حدیث: 192 - (121)] ترجمہ: "کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا)  پہلے (کے تمام گناہوں) کو مٹا دیتا ہے؟  ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے(کے کیے ہوئے گناہوں) کو مٹا دیتا ہے ۔"

ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ عنہ - نے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  –صلی اللہ علیہ وسلم-نے ارشاد فرمایا: "مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ." (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1521) ترجمہ: "جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی یا جماع اور گناہ نہیں کیا ؛ تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔"

"رفَث" کا معنی جماع، ہم بستری اور جو کچھ بھی شوہر و بیوی کے درمیان حالت جماع میں ہوتا ہے، جیسے بوس و  کنار وغیرہ کے ہیں۔ ابو عبیدہ نے فرمایا: "رفَث" کا مطلب "فحش کلامی" ہے۔ پھر کنایۃ جماع اور متعلقات جماع کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ 22/275)

مسئلہ: حالت احرام میں جماع کرنا فقہاء کرام کے نزدیک اتفاقی طور پر حرام ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَال فِي الْحَجِّ۔" (سورہ بقرہ، آیت: 197) ترجمہ: " سو جو شخص ان میں حج مقرر کرے، تو پھر نہ کوئی فحش بات ہے اور نہ کوئی بے حکمی ہے اور نہ  کسی قسم کا نزاع زیبا ہے۔"

مسئلہ: اگر کسی نے حالت احرام میں عمدا (جان بوجھ کر) جماع کیا ہو؛ تو اس کا حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا۔ اگر کسی نے حالت نسیان(بھول )  میں جماع کیا ہو؛ تو حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس صورت میں بھی حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا؛ لیکن شافعیہ کے نزدیک حج فاسد نہیں ہوگا؛ بل کہ صرف کفارہ لازم ہوگا۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ 22/276-277)

        " فِسْق" سے مراد معاصی و گناہ ہے۔ "كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ"  کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن حجرعسقلانی –رحمہ اللہ- فرماتے ہیں : "کسی گناہ کے بغیر، اس کا ظاہری مطلب صغائر و کبائر (چھوٹے اور بڑے): سارے  گناہوں کا معاف کیا جانا ہے۔" (فتح الباری 3/382-383)

بوڑھے، کمزور اور عورت کا جہاد:
حضرت ابوہریرۃ  -رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے  نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "جِهَادُ الْكَبِيرِ وَالضَّعِيفِ وَالْمَرْأَةِ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ " (السنن الکبری للنسائی، حدیث: 3592، مسند احمد، حدیث: 9459، السنن الکبری للبیھقی، حدیث: 8759) ترجمہ : "بڑی عمر والے،  کمزور شخص اور عورت کا جہاد : حج اور عمرہ ہے ۔"

ام المومنین عائشہ -رضی اللہ عنہا- فرماتی ہیں: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلاَ نَغْزُو وَنُجَاهِدُ مَعَكُمْ؟ فَقَالَ: "لَكِنَّ أَحْسَنَ الجِهَادِ وَأَجْمَلَهُ الحَجُّ، حَجٌّ مَبْرُورٌ." فَقَالَتْ عَائِشَةُ "فَلاَ أَدَعُ الحَجَّ بَعْدَ إِذْ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ." (بخاری شریف، حدیث: 1861) ترجمہ : میں نے کہا: اے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ وسلم-! کیا ہم آپ -صلی اللہ علیہ وسلم-کے ساتھ جہاد اور غزوہ میں شریک نہ ہوں؟  تو آپ-صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا : "لیکن سب سے بہتر اور اچھا جہاد حج : حج مبرور ہے۔" حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ" جب سے میں نے  رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- سے یہ سنا ہے؛ تو اس کے بعد سے میں حج نہیں چھوڑتی ہوں ۔"

حج افضل جہاد ہے:
ام المومنین عائشہ -رضی اللہ عنہا-نقل کرتی ہیں  کہ انھوں نے کہا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَرَى الجِهَادَ أَفْضَلَ العَمَلِ، أَفَلاَ نُجَاهِدُ؟ قَالَ: "لاَ، لَكِنَّ أَفْضَلَ الجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ." (بخاری شریف، حدیث: 1520، السنن الکبری للبیہقی، حدیث: 17805) ترجمہ : اے اللہ کے رسول! ہم جہاد کو افضل العمل سمجھتے ہیں ، تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟  آپ  -صلی اللہ علیہ وسلم -نے فرمایا : "نہیں، لیکن بہترین جہاد حج مبرور ہے۔"

فقرا ور گناہ کو مٹانے والے اعمال:
حضرت ابن عباس –رضی اللہ عنہما- سے روایت ہے کہ نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا : "أَدِيمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذَّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ." (المعجم الاوسط، حدیث: 3814) ترجمہ : "حج اور عمرہ پر دوام برتو؛  کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہا سے زنگ کو دور کردیتی ہے۔"

ایک دوسری حدیث ہے جس میں رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم-نے ارشاد فرمایا: "تَابِعُوا بَيْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ، وَالذَّهَبِ، وَالفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ المَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الجَنَّةُ." (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 810) ترجمہ: "حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو؛ کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہا ، سونا اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔"

برائے حج خرچ کرنے کی فضیلت:
ابو زہیر –رضی اللہ عنہ– نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– سے روایت کرتے ہیں آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ارشاد فرمایا : "النَّفَقَةُ فِي الْحَجِّ كَالنَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ." (مسند احمد، حدیث: 23000، شعب الایمان، حدیث: 3829) ترجمہ : "حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح، (جس کا ثواب) سات سو گنا تک ہے "۔

حاجیوں کی دعائیں:
ابن عمرـ رضی اللہ عنہماـ فرماتے ہیں: "الْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللهِ تَعَالَى يُعْطِيهِمْ مَسْأَلَتَهُمْ، وَيَسْتَجِيبُ دُعَاءَهُمْ، وَيَقْبَلُ شَفَاعَتَهُمْ، وَيُضَاعِفُ لَهُمْ أَلْفَ أَلْفَ ضِعْفٍ." (اخبار مکۃ للفاکہی، حدیث: 902) ترجمہ : "حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کےمہمان  ہیں، اللہ تعالی ان کی مانگ ان کو عطا فرماتے ہیں، ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہیں، ان کی شفارش قبول کرتے ہیں اور ان کے لیے ہزار ہزار گنا تک ثواب بڑھایا جاتا ہے"۔

حضرت ابن عمرـ رضی اللہ عنہماـ نبی کریم  -صلی اللہ علیہ وسلم -  سے روایت کرتے ہیں کہ "الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، دَعَاهُمْ، فَأَجَابُوهُ، وَسَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ." (ابن ماجہ، حدیث: 2893) ترجمہ : اللہ کے راستے کا مجاہد اور  حج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔  اللہ نے انھیں بلایا؛ لہذا  انھوں نے اس پر لبیک کہا اور انھوں نے اللہ تعالی سے مانگا ہے؛  تو اللہ  نے ان کو نوازا ہے۔"

حج کرنے میں جلدی کیجیے:
ابن عباس –رضی اللہ عنہما- روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: "تَعَجَّلُوا إِلَى الْحَجِّ - يَعْنِي: الْفَرِيضَةَ - فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَا يَعْرِضُ لَهُ." (مسند احمد، حدیث: 2867) ترجمہ : "حج –یعنی فرض حج–  میں جلدی کرو ؛ کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے۔"

حج نہ کرنے پر وعید:
حضرت علی -رضی اللہ عنہ -  نے کہا کہ اللہ کے رسول –صلی اللہ علیہ وسلم–نے ارشاد فرمایا: "مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا". [آل عمران: 97] (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 812) ترجمہ:  "جو شخص اتنے توشہ اور سواری کا مالک ہو جائے،  جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے ؛ تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے: "اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی۔"

حضرت عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ- نے فرمایا: "لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ رَجُلًا إِلَى هَذِهِ الْأَمْصَارِ، فَلْيَنْظُرُوا إِلَى كُلِّ رَجُلٍ ذِي جَدَةٍ لَمْ يَحُجَّ، فَيَضْرِبُوا عَلَيْهِمُ الْجِزْيَةَ، مَا هُمْ مُسْلِمِينَ، مَا هُمْ مُسْلِمِينَ." (السنۃ لابی بکر بن الخلال 5/44) ترجمہ: "میں نے ارادہ کیا  کہ کچھ لوگوں کوان شہروں میں بھیجوں، پھر وہ  ان لوگوں کی تحقیق کریں کہ   جنھوں نے استطاعت کے باوجود  حج نہیں کیا، پھر وہ ان لوگوں پر ٹیکس  لاگو کریں؛ (کیوں کہ) وہ مسلمان نہیں ہیں،  وہ مسلمان نہیں ہیں۔"

حرف آخر:
حج کے اجر و ثواب جو احادیث مبارکہ کی روشنی میں لکھے گئے ہیں، وہ کسی بھی مسلمان کو حج و عمرہ کا شوق دلانے کے لیے کافی ہیں۔ جن مسلمانوں کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا ہے، ان کو چاہیے کہ خود کو حج و عمرہ کے عظیم ثواب سے محروم نہ  کریں؛ کیوں کہ ہم ہمہ دم نیکیوں کے حصول اور گناہوں و  سیئات سے مغفرت کے سخت محتاج ہیں ۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہ کاغذ کی ایک ناؤ ہے، جہاں تک پہنچ جائے یہ ایک غنیمت ہے۔ آپ کی یہ ڈھیڑ دن کی زندگی چلی گئی؛ تو پھر کبھی واپس نہیں آئے گی۔ پھر حج  کرنے میں کیوں تاخیر!


(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

Hakeemul Umaat H Maulana Ashraf Ali Thanvi (RA)

Hakeemul Umaat H Maulana Ashraf Ali Thanvi (RA)


By: Khursheed Alam Dawood Qasmi


Introductory Words:
Hazrat Maulana Ashraf Ali Thanwi (Rahmatullah Aleih), popularly known as “Hakeemul Ummah” (Spiritual Physician of Muslim Ummah) in the Indian subcontinent, was a prominent and celebrated Islamic scholar for his all qualities, Allah had bestowed him. He was a distinguished graduate of Islamic University, Darul Uloom, Deoband, India. He was a wise preacher, well-versed teacher, famous Sufi, prolific writer and dynamic orator. In brief, at a time he was preacher, teacher, Sufi, writer and lecturer; all in one. He used the most part of his living without wasting an hour, for reformation, rectification and betterment of the Muslim community. In this write-up, I would make an effort to highlight his life as well as his services rendered to the Muslim community.

Birth & Place of Birth:
Thanwi (RA) was born in a dignified family of a village, “Thana Bhawan” to Abdul Haqq Al-Hanafi on 5th Rabi Al-Thani, 1280 (19th August, 1863). His noble lineage goes back to the second caliph of Islam, Umar Bin Khattab (RaziAllah Anhu). “Thana Bhawan” in North West India, is a small town of district, “Shamli” of “Uttar Pradesh” in India. It is situated at the distance of 180 kms from India’s capital city, New Delhi and 28 kms from Muzaffarnagar district under which “Thana Bhawan” fell previously. Though it’s a small town, but known in India thanks to the knowledge, piety, mysticism, patriotism, martyrdom and freedom struggle of its towering personalities. A famous martyr and scholar, Sheikh Dhamin Al-Shaheed (RA) belonged to the very town.

Learning & Education:
Thanwi (RA) acquired his basic and primary education in his birth place “Thana Bhawan” from Sheikh Fath Muhammad Thanwi  (1322 AH), one of the Darul Uloom, Deoband’s graduates and Sheikh Manfat Ali Deobandi (1322 AH). In 1295 AH (1880 AC) when he was 15 years old, got admission in Darul Uloom, Deoband, for the secondary and higher Islamic education. He remained as a learner there in Darul Uloom, Deoband, for five years and was taught all the Islamic subjects of “Darse Nizaami” by the towering figures and outstanding scholars of the time, like Sheikhul Hind Mahmood Hasan Deobandi (1268-1339 (1851-1920), Sheikh Sayyad Ahmad Dehlvi (1322 AH), Sheikh Yaqoob Nanautavi (1249-1302 AH) and Imam Muhammad Qasim Nanautavi (1833-1880). Thus, he completed his graduation in Islamic Studies from the prestigious Islamic University, Darul Uloom, Deoband, India in 1299 (1884).

At the end of the final year of Thanwi (RA) and his calss-fellows, the convocation ceremony was held and Maulana Rasheed Ahmad Gangohi (Rahmatullahi Aleih) (1244-1323=1828-1905), Patron of Darul Uloom, Doeband, was invited to bless the occasion with his presence. He arrived for the ceremony. Sheikhul Hind (RA) informed him about Thanwi’s intelligence and calibre. Gangohi (RA) wanted to test him by asking the most difficult questions that he could think of. Thanwi’s answers utterly amazed and pleased Gangohi (RA), who himself tied the graduation turban (that marks the completion of the course) to Thanwi’s head.

While learning in Darul Uloom, Deoband, he had many relatives in the town. They used to invite him for having lunch or supper with them frequently, but he never accepted their invitations saying, “I have come here just for learning”. So, he spent five years in Deoband, but never visited any of his relatives’ houses.

Following his graduation, when Thanwi (RA) went for Hajj, he received the science of Tajweed and Qiraat from an Indian scholar, Sheikh Muhammd Abdullah, who had migrated to Makkah and was teaching in “Madrasa Sawltiyyah” (Established in 1292 (1875) by an Indian Islamic scholar, Sheikh Rahmatullah Usmani Kairanvi [1818-1891]) in Makkah Mukarramah.

An Admonitory Story:
A story of Thanwi (RA) which Mufti Muhammad Taqi Usmani (HafizahuAllah) has quoted in his “Foreword of Ilaaus Sunan” will be an admonitory one for the readers, particularly for the students in today’s scenario and for educational standard. When Thanwi (RA) came to know that Darul Uloom is going to hold a convocation for them, he got stunned and along with his some classmates went to the then Head-Teacher, Sheikh Yaqoob Nanautavi (RA) and said, “We hear that Madrasa is going to grant us graduation certificate and turban will be tied to our heads. But the fact is that we don’t deserve this certificate and the turban. We fear that the people may doubt the Madrasa quality that it produces like us students who have no knowledge.” Sheikh Yaqoob Nanautavi (RA) replied, “You think so, because you are amongst your teachers, so you consider your knowledge nothing in front of them. I bear witness that once you are graduated and step out of this institution, you will realize your worth and importance, InshaAllah. You will be superior in the field of knowledge and you will be incomparable.”

First Journey for Hajj:
Following his graduation, Thanwi (RA) left for Makkah Mukarramah accompanying his father in Shawwal 1300 AH to perform Hajj. In the same journey, he took the oath of allegiance to Sheikh Al-Hajj Imdadullah Rahmatullahi Aleih (1233-1317=1818-1899), an Allah-fearing person of Thanwi’s birth place, who had migrated to Makkah Mukarramah. Taking oath of allegiance, he accompanied Sheikh Imdadullah (RA) in Makkah Mukarramah for a short period of time.

Though, Thanwi (RA) had taken the oath of allegiance to Sheikh Imdadullah (RA), but he was attached to Sheikh Rashid Ahmad Gangohi (RA) spiritually. Once he said, “Among my teachers, I was spiritually attached to Maulana Gangohi more than anyone else, with the exception of Sheikh Imdadullah Muhajir Makki. I have never witnessed such a unique personage, one in whom external and internal goodness merged so cohesively, like Hazrat Gangohi (RA).”

Career & Teaching:
After his return from Hajj, Thanwi (RA) was sent by his teachers to Madrasah, “Faize Aam”, in Kanpur on the request from the Madrasa’s management committee as a teacher in Safar, 1300 AH. He worked in the Madrasa as a teacher and head for few years. Later, he established another Madrasa in the same city of Kanpur namely “Jamiul Uloom” and started heading and teaching in that Madrasa. His teaching attracted many students. He got sound position as a teacher and mentor among the learners and the students became fond of his teaching.

Second Journey for Hajj:
When Thanwi (RA) was in Kanpur in 1310 AH, he planned for the second Hajj and went to Makkah Mukarramah. Having performed Hajj, he stayed there in Makkah Mukarramah for six months in the company of his Sheikh, Al-Haajj Imdadullah (RA) for spiritual guidance and soul rectification. Reflection of being in the Sheikh’s company was apparent in Thanwi’s life and developed in piety, righteousness and morality very soon.

Coming back to India, he continued in Kanpur’s Madrasa about 4 years. In Safar 1315, he retired from the Madrasa and made one of his students, Sheikh Muhammad Ishaq Bardawani its Principal. Within 14-year of his teaching, he produced some such students who became the world’s renowned scholars for their works. Some of his noteworthy students include: Sheikh Muhammad Ishaaq Bardawani (1283-1357 AH), who had memorised the whole Bukhari Shareef, his nephew Sheikh Zafar Ahmad Usmani Thanwi (1310-1394 AH), who compiled the famous book of Hanafi school of thought: إعلاء السنن, in 22 volumes published by “Idartul Quran Wal Uloomil Islamia”, Karachi, Pakistan, Sheikh Abdul Hai Al-Hasani (1286-1341=1869-1923), father of Sayyad Abul Hasan Ali Nadvi (RA) and author of الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام المسمى بـ (نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر) in 8 volumes published by “Daar Ibne Hazm”, Beirut, Lebanon and rector of Nadwatul Ulama, Lucknow, India and Sheikh Hakeem Muhammad Mustafa Bijnori (Deceased 1941 AC).

Back in Thana Bhawan:
Having retired from teaching, finally, he came back to his birth place, Thana Bhawan. In Thana Bhawan, he devoted himself to re-establish the “Khanqaah Imdadiyah” (spiritual centre) of his Sheikh Al-Hajj Imdadullah Muhajir Makki (RA) on his Sheikh’s behest. Re-establishing the Khanqaah over a short period of time, he acquired a reputable position as a Sheikh of mysticism. The people, with the intention of manners’ reformation and soul rectification, from the different parts of India (India-Pakistan-Bangladesh), started visiting the Khanqaah. Not to speak of Ulamaa, even the secular educated people took the oath of allegiance to him. This continued, until he breathed his last in Thana Bhawan.


Disciples of Thanwi (RA), who took the oath of allegiance to him, settled in different parts of India and engaged themselves in rectification of the Muslim community like Thanwi (RA) did. Some of his well-known disciples are: Sheikh Muhammad Abdul Ghani Phulpuri (1876-1963), Mufti Muhammad Hasan Amritsari (1880-1961), Allamah Sayyad Sulaiman Nadvi (1884-1953), Khwaja Azizul Hasan Majdhub (1884-1944), Sheikh Muhammad Ilyas Kandhlawi (1885/86-1944), Sheikh Abdul Bari Nadvi (1886-1976), Sheikh Wasiullah Fatehpuri (Deceased 1976), Sheikh Zafar Ahmad Uthmani (1310-1394 AH), Qari Muhammad Tayyib Qasmi (1897-1983), Mufti Muhammad Shafi Usmani (1897-1976), Dr. Abdul Hai Arifi (1898-1986), Sheikh Muhammad Idris Kandhlawi (1899-1974), Sheikh Muhammad Yusuf Binnori (1908-1977), Sheikh Maseehullah Khan (1911/12-1992) and Sheikh Abrarul Haq Haqqi Hardoi (1920-2005) (Rahmatullahi Aleihim Ajmaeen).

Speeches & Public Talks:
Thanks to his sincere practice for speech and elocution while learning in Deoband, Thanwi (RA) became one of the most famous speakers and orators of his time. He had command over oratory and public talks. He had an eloquent and fluent language to present his inner feelings. The desire to reform the masses intensified in him during his stay in Kanpur. So, being in Madrasa, he didn’t restrict himself to only teaching books, but he engaged in delivering public talks, uprooting the spread innovations, strengthening the true beliefs, compiling the precious books and reforming and rectifying the worst conditions of the masses. During these years, he travelled to various cities and villages delivering public talks in the hope of reforming the Muslim community.

Thanwi (RA) wasn’t famous only in giving public talks among masses, but he was also the most welcomed speaker in colleges and Universities. His book, Al-Intibaahaa Al-Mufeedah Anil- Ishtibaahaat Al-Jadeedah was actually written following his speech delivered in Aligarh Muslim University (Established 1875) at the invitation of the management in November 1909.

His public talks were full with positive aspects and comprehensive messages. The sole purpose of his talks was to benefit the audience, and non else. He wasn’t in the habit of touching a disputed topic in his talks. If it was required, he used to bring it up in details and in the best of manners with wisdom, insight and good counsel, so that none gets hurt. He never targeted his opponents. He never tried to humiliate his rival in public talk. He was a reputed orator, but never cashed his reputation for personal gain. He never accepted a penny for his public talks.

Generally the printed versions of his lectures and discourses would usually become available shortly after the tours. Until then, just few Islamic scholars had had their lectures printed and widely circulated in their own lifetimes. Al-Hamdulillah, today, his published discourses are a lamp for the young generation.

Works & Compilations:
The Almighty Allah blessed Thanwi (RA) with writing skill along with expertise in the arts of oratory and teaching; therefore, he compiled about eight hundred books touching to the crying needs of Muslim community of the Indian subcontinent. Wherever he felt a call for a book or booklet for the reformation of the Muslim community, he compiled and produced one, be it small or big, but he didn’t leave the people go unguided. His works and compilations are well known in Islamic institutions and well-received by Islamic scholars. None from his contemporary could surpass him in this field. His prestigious work is in form of Bayaanul Quraan, in Urdu Language, a commentary of the Glorious Quraan in 4 volumes. Some of his books are:

Bayaanul Quraan, 4 volumes, At-Taqseer Fit-Tafseer, Jamiul Aathaar, Imdadul Fataawaa, 6 volumes, Bahisthti Zewar, Tahdheerul Ikhwaan Anir Ribaa Fil-Hindustaan, Raafiu Al-Dhank An Manaaf Al-Bank, Al-Iqtisaad Fit-Taqleed Wal-Ijtihaad, Al-Heelah Al-Naajizah Lil-Heelah Al-Aajizah, Al-Intibaahaa Al-Mufeedah Ani- Ishtibaahaat Al-Jadeedah, Al-Masaalih Al-Aqliyyah Lil-Ahkaam Al-Naqliyyah,  Shahadatul Aqwaam Al’a Sidqil Islam, Masaailis Sulook Min Kalaami Malikil Mulook, At-Tasharruf Bi Marifati Ahaadeeth Al-Tasawwuf, Hayaatul Muslimeen, Taleemud Deen, Huququl Islam, Huququl Waalidain, Huququl Ilm, Islaahun Nisaa, Islaahur Rusoom, Aghlaatul Awaam, Nashrut Teeb Fi Zikri Al-Nabi Al-Habeeb, Jazaaul Aamaal, Anwaarul Wujud Fee Atwaar Al-Shuhud, Tahzeer Al-Ikhwaan An Tazweer Al-Shaytaan and Al-Qaul Al-Faasil Bein Al-Haq Al-Baatil.

Daily Schedule:
Thanwi (RA) knew that “The time is more precious than the gold”. He was very much punctual of his timetable. He never wasted the time. He used to follow the time according to the schedule. No excuse could disturb his daily schedule, except in some emergency cases. Even this exception was rarest of the rare. After performing Fajr, he used to take a pew separating from the people. In this time, he used to get busy with his activities, like reading and compiling books. Then he used to have lunch. Following lunch, he had siesta, thereafter he used to go for Zuhr Salaah. No one was allowed to bother him from Fajr until he offers Zuhr Salaah. After Zuhr Salaah, his Majlis (Gathering/Assembly) with his disciples was held. In this Majlis, he used to sit with them. One person used to read a certain book and he used to explain some scholarly points of the read text, which weren’t boring and tedious, rather a food for thought for them. This Majlis used to continue up to Asr. Between Zuhr and Asr, he also used to reply the received letters. After Asr, he used to get busy with his day-to-day family affairs until he offers Ishaa Salaah. No one could disturb him in this time as well.

Final Journey:
Benefiting the people with his knowledge, lectures and spiritual guidance in the “Khanqaah Imdadiyah” for 48 years, Thanwi (RA) breathed his last in Thana Bhawan on July 4, 1943 AC = Safar, 1362 AH; while he was 82-year old. His funeral prayer was led by his nephew, Sheikh Zafar Ahmad Usmani Thanwi (RA). He was buried in the graveyard of Ishq-e-Bazan that is actually his garden. Thanwi (RA) is no more now, but he will be remembered for his inspiring, lucid, rational writings, balanced approach and reformative teachings for a long period of time. May Allah accept his services and shower His blessing and mercy at his grave! Aameen!

(The author is a Darul Uloom, Deoband alumnus and presently teacher of Moon Rays Trust School, Zambia, Africa. He can be reached at qasmikhursheed@yahoo.co.in)


Friday, July 17, 2015

حضرت مولانا ابرار الحق –رحمہ اللہ- ہردوئی

....ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حضرت مولانا ابرار الحق  –رحمہ اللہ- ہردوئی
بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی ٭

حرف اول:
17اور 18 مئی کی درمیانی شب، جب کہ گھڑی کی سوئیاں ، نو بجارہی تھی، یہ وقت عالم اسلام کے لیے ایک جان کاہ حادثہ اور سانحہ کی خبر لے کر آیا کہ : بزم اشرف کے آفتاب ضیاء افروز ، خدا کی اطاعت و بندگی کا پیکر ، صالح طبیعت اورتقوی طہارت کا جامع ، قرآن و حدیث کا خادم ، احیاء سنت اور عشق رسول کا متوالا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا داعی ، محی سنت و مصلح امت ، حق گوحق پرست اور حضرت تھانوی قدس سرہ کا جیتا جاگتا نمونہ اور آخری یاد گار :حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی(رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دار فانی کو خیر باد کہہ دیا ـانا للہ و انا الیہ راجعون ـ یہ خبر امت مسلمہ پر بجلی بن کر گری اور ہر کوئی سکتے میں آگیا ؛ لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں اور ہر چھوٹے بڑے ، امیر و غریب اور شاہ و گدا کو فنا ہونا ہے   " كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ. وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ." (سورہ رحمن، آیت: 26-27)
ڈھونڈھو گے ہمیں ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

ولادت و وطن :
 آپؒ  کا خاندانی وطن "دہلی" کے قریب ایک  "پلول" (Palwal) نامی گاؤں میں تھا؛ لیکن نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا اور آخر میں آپ کے والد محترم جناب وکیل محمود الحق ؒ صاحب نے  "ہردوئی" (یو پی ) میں سکونت اختیار کرلی ۔آپؒ  کی پیدائش20/  دسمبرسن 1920ء کو "ہردوئی "  میں ہوئی ۔ یہیں پلے ، بڑھے ، پھولے پھلے اور اسی سرزمین پر ایک "چراغ اشرفی" جلا کر ، دنیا کو روشن کرنے لگے ۔

تعلیم و تعلم :
حضرت کی رسم بسم اللہ ، عارف باللہ مولانا اصغر حسین صاحب دیوبندی ؒ استاذ :دارالعلوم ، دیوبند نے کرائی۔ شروع سے حفظ قرآن کریم تک کی تعلیم "انجمن اسلامیہ ، ہردوئی" میں ، صرف ۸ سال کی ننھی سی عمر میں ، خدا داد ذکاوت و ذہانت اور شو ق و لگن کی وجہ سے پوری کی ۔ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیےسن 1347ھ میں ، ایشیاء کی مشہور دینی و اسلامی درس گاہ  "مظاہر علوم ، سہارن پور" کا سفر کیا۔ سن 1356ھ میں آپ نے اسی ادارہ سے سند فضیلت حاصل کی ۔ دوران طالب علمی آپ نے "مظاہر علوم"  میں نابغہ روزگار شخصیات : حضرت مولانا عبد اللطیف ، مولانا اسعد اللہ ، مولانا عبد الشکور ، شیخ الحدیث مولانا زکریا اور مولانا عبد الجبار ـرحمہم اللہ ـ وغیرہم سے اکتساب فیض کیا ۔

بیعت و خلافت:
آپ کے والد ماجد حناب محمودالحق ؒصاحب مرحوم بڑے ہی نیک خصلت ، پاک طینت ، پابند شرع اور حضرت حکیم الامت ؒ کے مرید تھے ۔ باپ سے بیٹے کا متأثر ہونا ایک فطری امر ہے ؛ چنان چہ والد صاحب سے متأثر ہوکر ، انھیں کے شیخ و مرشد حضرت تھانوی ؒ کے سامنے زمانہ طالب علمی میں ہی دست بیعت دراز کردیا۔  حضرت تھانوی نے بیعت فرمالیا ، پھر تو تعلیمی ایام "مظاہر علوم"  اور تعطیلی ایام "خانقاہ اشرفیہ ، تھانہ بھون" میں گزرنے لگے ۔ اب جہاں شریعت کی شناخت ہوئی؛ تو طبیعت کو بھی پہچاننے لگی، شریعت و طبیعت کی حقیقت واضح ہوگئی اور نیکی و بدی کا فرق منشرح ہوگیا ۔ حضرت تھانویؒ  کی دوررس نگاہ نے ان خوبیوں کو تاڑ لیا اور صرف 22/سال کی عمر میں خلعت خلافت سے نواز کر "شیخ طریقت" بنادیا ۔  پھر سن 1941ء میں، عین آغاز شباب کے زمانے میں،  آپ کا شمار حضرت تھانوی ؒ کے عالی مقام خلفاء میں ہونے لگا   ؎
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا  ٭  روشن  شرر تیشہ سے خانہ فرہاد

درس و تدریس :
 علوم دینیہ کی رسمی تکمیل کے بعد ، درس و تدریس کی غرض سے ، حضرت حکیم الامتؒ کے مشورے سے "جامع العلوم ، کان پور" ـجہاں حضرت تھانویؒ نے بھی ایک مدت تک تعلیم و تربیت کا فرض منصبی انجام دیا تھا ـ تشریف لے گئے ۔ یہاں دو سال تک طالبان علوم نبوت نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرکے علمی پیاس بجھائی ۔ پھر یہاں کے بعد "مدرسہ اسلامیہ ،فتح پور ، ہنسوا"  میں بہ حیثیت مدرس تعلیمی خدمت کے لیے مامور کیے گئے ۔ اسی دوران حکیم الامت ؒ کے ہی ایماء پر ، اپنے وطن عزیز میں ، ایک تعلیمی و تربیتی درس گاہ بہ نام "اشرف المدارس" کی بنیاد رکھی ؛  جو اسم با مسمی ہونے کے ساتھ ساتھ ،  اپنے ان گنت کارہائے نمایاں کی وجہ سے،  داد تحسین حاصل کررہا ہے ۔ اللہ اس شجر مثمر کو تادیر باقی رکھے اور اس کی مرکزیت کو دوام بخشے   !  ؎
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو  ٭  گلشن تیری یادوں کا مہکتا  ہی رہے گا

تصنیف و تالیف :
 تصنیف و تالیف باضابطہ آ پ کا پیشہ نہیں تھا ؛ لیکن پھر بھی جب کوئی بات مناسب معلوم ہوتی ، امت کا فائدہ نظر آتا ؛ تو اسے ضبط تحریر کرلیتے اور اصلاح امت کے لیے اسے شائع کردیتے ۔  آپ کی مصنفہ کتابوں کی تعداد تقریبا دو درجن ہیں ، جن میں سے : "ایک منٹ کا مدرسہ" ، "اصلاح معاشرہ" ، "اصلاح معاملات" ، "اصلاح المنکرات" اور "اشرف الاصلاح"وغیرہ ہیں ۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سارے علمی و اصلاحی رسائل و پمفلیٹس منظر عام پر آچکے ہیں ۔ آپ کے ملفوظات کا مجموعہ "مجالس ابرار" (مرتبہ: مولانا حکیم اختر صاحب )اصلاح امت کے حوالے سے بے نظیر ہدایات و ارشادات کا مجموعہ ہے ۔

اصلاح امت:
اللہ عز و جل نے آپؒ  کو اصلاح امت کے لیے ایسا "درد مند دل " عطا کیا تھا ، جس کی نظیر اس قحط الرجال کے دور میں عنقا نظر آتی ہے ۔  اپنی خانقاہ میں ہوتے یا جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے ، امت کی اصلاح کی فکر دامن گیر رہتی اور اپنی حکمت و دانائی اور فراست مومنانہ سے  "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر"  کا کام شروع کردیتے ۔افراد امت کو صلاۃ و صوم ، احیاء سنت ، زہد و تقوی اور ذکر و فکر کی دعوت دیتے ۔آج کے اس دور میں ، جہاں بڑے بڑے دستار و جبہ والے قائدین امت  "نہی عن المنکر"  کے فريضہ کو ایسا فراموش کر بیٹھے ہیں کہ گویا اس کی ذمے داری ان کے سروں پر جاتی ہی نہیں اور مقام تأسف تو یہ ہے کہ منکرات کی ایسی مجلسوں کے دعوت نامے قبول کرتے ہیں؛ بل کہ بہ صد رغبت شرکت کا ارتکاب کرتے ہیں جہاں تصویر کشی ہوتی ہے ، ویڈیو کیسٹ تیار کی جاتی ہے اور بے حجاب عورتیں مسند نشیں ہوتی ہیں؛ مگر حضرت ؒ  ایسی مجلسوں کے دعوت نامے ٹھکرادیتے اور اگر کہیں ان کی موجودگی میں ایسا ہوتا؛  تو بلاخوف "لومۃ لائم"   بغیر کسی کی رضا ء اور عدم رضاء کا خیال کیے ہوئے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں روکتے اور اللہ و رسول کے احکام کی پیروی میں ہی اپنی کام یابی و کام رانی سمجھتے   ۔   ؎
سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے  ٭  مد نظر تو مرضی  جانان  چاہیے

آپ ؒ نے اپنے دعوت و تبلیغ کے دائرے کو وسیع ترین بناتے ہوئے ، ملت اسلامیہ میں دینی رجحان کو فروغ دینے ، دینی جذبہ پیدا کرنے اور صراط مستقیم پر جمے رہنے کے لیے ، پچیسوں ایشیائی ، یورپی اور افریقی ممالک کا دورہ کیا  ـ الحمد للہ ـ آپ کے ارشاد و ہدایات اور دعوت و تبلیغ سے لاکھوں بندگان خدا فیض یاب ہوئے اور آج ہند و بیرون ہند میں ، آپ کے خلفاء و مجازین کی تعداد بے شمار ہے ، جو آپؒ  کے ورثاء اور معنوی اولاد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔  اب ان کی یہ ذمے داری ہے کہ حضرت والاکے اس مشن کو جاری و ساری رکھے اور دعوت و تبلیغ میں مؤثر کردار ادا کریں ۔

قیمتی تحفہ:
قرآن کریم کی تعلیم تجوید و مخارج کے حوالے سے، ہمارے دیار میں بڑی غفلت برتی گئی؛ چنان چہ حضرت ؒ نے اس سلسلے میں بھی بڑی پیش رفت کی ،  پھر "نورانی قاعدہ"  کی تصحیح اور اس کی تعلیم کو عام کر کے "نونہالان ہند" کو ایک قیمتی تحفہ پیش کیا، جس سے لوگوں میں قرآن شریف کو مخارج حروف ، حسن ادا ، حسن صوت اور مجہول سے بچتے ہوئے معروف پڑھنے پڑھانے کا داعیہ پیدا ہوا ۔ اب "نورانی قاعدہ" ہر مکاتب و مدارس میں لازمی طور پر پڑھائی جاتی ہے ۔ تصحیح قرآن کے حوالے سے حضرت نے اتنی محنت کی کہ علماء و فضلاء کو بھی قرآن بالتجوید پڑھنے کا ذوق و شوق بیدار ہوا؛  لہذا  "اشرف المدارس"  میں باضابطہ "نورانی قاعدہ"  کا کورس شروع کیا ۔ یہ ایسی عظیم خدمت ہے جسے ملت اسلامیہ کبھی فراموش نہیں کر پائے گی اور اس کا اجر غیر ممنون آپ ؒ  کو ملتا رہے گا ۔

وفات:
موت ایک ایسی حقیقت ہے؛  جس سے کسی کو انکار نہیں،  ہرکسی کو اپنے اپنے وقت پر جانا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے: "فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ." (سورہ نحل، آیت: 61) حضرت بھی ایک طویل علالت کے بعد، ضعف و نقاہت کی حالت میں ،  بہ عمر85/ سال (17/مئی 2005ءکو) جان، جاں آفریں کے سپرد کردیا ۔ خویش واقارب اور خلفاء  و مجازین کے ایک جم غفیر نے ان کے جسد خاکی کو، گورستان ہردوئی میں،  پیوند خاک کرکے عمر بھر کی بے قراری اور دنیا کے ہنگاموں سے نجات بخشا ۔
جان کر  منجملہ خاصان میخانہ  تجھے  ٭  مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
٭   مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، انکلیشور، گجرات، ہند