بسم
اللہ الرحمن الرحیم
کوئی
بھی شخص مسلمانوں کاووٹنگ کا حق نہیں چھین سکتا
بہ
قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی
مادر
وطن ہندوستان کی آزادی میں مسلم شہریوں کی قربانی، پھر ہندوستان کی تعمیر و ترقی
میں ان کا کردار اور کارنامہ کسی بھی
دوسرے مذاہب کے ماننے والے شہریوں سے کم
نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ، جب بھی کوئی شخصی و انفرادی موضوع ہوتا ہے ؛ تو کچھ
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دشمن اور گنگا
جمنی تہذیب کے قاتل کی زبان وقلم سے سارے مسلم شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور
ان کا قلم و زبان صرف زہر ہی اگلتی ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی وطن دوستی اور حب الوطنی تک پر سوال اٹھایا
جاتا ہے اور کچھ نفرت کے سوداگر یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا حقّ رائے دہی کو منسوخ
و مسترد کردیا جائے اور ان کا یہ حق چھین لیا جائے۔ یہ زہر افشانی کرنے والے کبھی حزب
اقتدار کے لیڈر مسٹر سبرامانین سوامی ہوتے ہیں، تو کبھی شیوسینا کے راجیہ سبھا کے رکن اور پارٹی کے
اخبار روزنامہ "سامنا" کے ایکزیکٹیو
ایڈیٹر: مسٹر سنجے راؤت اور ان کی تائید میں بی جے پی کے "اترپردیش"
کے "انّاؤ" حلقہ سے لوک سبھا کے منتخب رکن مسٹر ساکشی مہاراج بھی آجاتے
ہیں۔
گزشتہ
12/اپریل کو شیو سینا کے روزنامہ "سامنا" میں مسٹر سنجے راؤت نے
ایک مضمون : "ممبئی میں اویسی کی اچھل کود-ساؤدھان- بل میں سپونلے
ہیں" کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ "مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافی کے
خلاف جد و جہدکے نام پر ووٹ بینک کی سیاست کی جارہی ہے۔ جب تک ان (مسلمانوں) کا استعمال ووٹ بینک کے طور پر ہوتا رہے گا، وہ
کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے۔مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا، جب تک وہ ووٹ بینک کی سیاست کے طور پر استعمال
کیے جاتے رہیں گے؛ لہذا ایک بار بالا صاحب نے کہا تھا کہ مسلمانوں سے حق رائے دہی
چھین لی جائے۔ " جو کچھ انہوں نے کہا تھا ، وہ درست ہے"۔
ایسا
لگتا ہے کہ مہاراشٹرا کی سرزمین پر گزشتہ اسمبلی انتخابات میں مجلس اتحاد المسلمین
کی آہٹ نے ان لوگوں کو کچھ زیادہ ہی
بوکھلا دیا ہے۔ اور پھر ابھی ضمنی انتخاب میں مجلس نے اپنا امیدوار کو پیش کرکے، ان لوگوں کے سوچنے کی قوت کو بھی ختم کردیا ہے؛
اسی لیے جو کچھ زبان و قلم پر آرہا ہے،
اسے کہتے اور چھاپتے چلے جارہے ہیں۔
اسی مضمون میں مسٹر راؤت نے اپنے بوگھلاہٹ کا مزید ثبوت دیتے ہوئے یہاں تک
پوچھ لیا کہ "مسلمانوں کو ایسے اویسیوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ انھیں کوئی
کام کرنے والا اچھا لیڈر کیوں نہیں ہضم ہوتا؟" ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ
مسلمانوں نے آزادی سے آج تک، بغیر کسی
بھید بھاؤ کے جو لیڈر ملا اسے قبول کیا ہے، ان میں معدودے چند کو مستثنی کیا
جاسکتا ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ آج مسٹر راؤت کا قلم اتنی روانگی سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگل
رہا ہے؛ نہیں تو ایسے جملے لکھنے سے پہلے، ان کو سو بار سوچنا ہوتا۔
جہاں
تک اویسی برادران کا تعلق ہے؛ تو ان کو
سارے ہندوستانی مسلمانوں نے اپنا نمائندہ نہیں بنا رکھا؛بل کہ وہ ایک پارلیمانی
حلقہ کے منتخب نمائندہ ہیں۔ مگر مسلمان اس
بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہی اویسی ہے جو
روڈ سے لیکر پارلیامنٹ تک مسلمانوں کے مسائل کو اٹھاتے ہیں اور ان کو ان کا حق
دلانے کی بات کرتے ہیں۔مہاراشٹرا اسمبلی میں اویسی برادران نہیں ہیں، مہاراشٹرا کے
مسلمانوں نے اویسی برادران کوپارلیامنٹ اور اسمبلی کے لیے منتخب بھی نہیں کیا ہے۔
انھوں نے اویسی کے علاوہ دوسرے لیڈروں کو ہضم کیا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پچھلی
سرکار نے مسلمانوں کے لیے جو ریزرویشن طے
کیا تھا، اسے موجودہ حکومت نے ختم کردیا؛
جب کہ مراٹھیوں کے لیے جو ریزرویشن متعین کیا گیا تھا وہ جوں کا توں باقی
ہے؟ مسٹر راؤت اپنی زہر افشانی میں تنہا
اور واحد نہیں ہیں؛ بل کہ اس طرح کی بات کرنے والے اوربھی ہیں۔
مسٹر
راؤت کے بیان پر جب ساکشی مہاراج کی رائے پوچھی گئی؛ تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر
اپنے زہریلے بیان سے اپنے زبان کو آلودہ کیے بغیر نہیں رہ سکے اور یہاں تک کہہ دیا
کہ "میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا صفایا کردیاجائے؛ لیکن
ہر کوئی کےلیے یکساں سول کوڈ اور فیملی پلاننگ لازمی طور پر ہونی چاہیے۔ جب ہم چار
بچے کا معاملہ اٹھاتے ہیں، تو لوگ بہت ہی شور و شرابہ کرتے ہیں اور جب وہ (مسلمان)
چار بیویوں سے چالیس بچے پیدا کرتے ہیں؛ تو کوئی اس کو کچھ نہیں کہتا ہے"۔ انہوں نے
مزید کہا: "فیملی پلاننگ ہونی چاہیے۔ جب ملک آزاد ہوا تھا اس وقت صرف تیس
کڑور کی آبادی تھی، آج ایک سو تیس کڑور کی آبادی ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی: سب کے لیے یکساں قانوں ہونا چاہیے۔ چاہے ایک، دو، تین یا چار بچے ہوں، جب تک ہم سب
کے لیے یکساں قانون نافذ نہیں کرتے، ملک کو فائدہ نہیں ہوسکتا؛ لہذا حزب اقتدار
اور حزب مخالف کو اجتماعی طور پر ایک سخت قانون نافذ کرنا چاہیے اور وہ لوگ جو اس
قانون پر عمل نہیں کریں ان کا حق رائے دہی چھین لیا جائے۔"
میں
ان کے اس متنازعہ بیان پر تبصرہ کرنا نہیں
چاہتا، مگر اتنا بتا دیتا ہوں کہ مسٹر مہاراج
یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے کچھ ہی دنوں قبل بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام
گوڈسے کو محب وطن اور وطن دوست قرار دینے
کی وجہ سے پارلیامنٹ میں معافی مانگنے پر مجبور کیے گیے تھے۔ یہی نہیں؛ بل کہ یہ
وہی آدمی ہے جس نے ہندو آبادی میں اضافہ
کے لیے ہندو خواتین کو چار چار بچے جنم دینے کا مشورہ بھی دیا تھا، جس پر ہر چہار
جانب سے ان کے بیان کی مذمت کی گئی تھی اور بی جے پی نے ان کی اس حرکت پر، ان کو
شو کاؤز نوٹس جاری کیا تھا؛ لیکن پھر بھی مسٹر مہاراج کی زبان ہے کہ زہر اگلنے سے
باز نہیں آتی ۔
اسی
طرح 16/جولائی 2011 کو "جنتا دل"
کے سابق صدر مسٹر سبرامانین سوامی نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ "ہمیں بحیثیت ہندو، اسلامی دہشت گردی کے
خلاف کھڑے ہونے کے لیے یکساں ذہنی سوچ کی ضرورت ہے۔ اگر ایک مسلمان اپنے ہندو نسل سے ہونے کا اعتراف کرتا ہے؛ تو ہم ہندو اسے
ایک عظیم ہندو سماج کے طور پر قبول کرسکتے ہیں جو کہ ہندوستان ہے۔ اور دوسرے جو اس
کا اعتراف نہیں کرتے ، یا وہ غیر ملکی جنھوں نے رجسٹریشن کے ذریعے ہندوستانی شہریت حاصل کی
ہے، وہ ہندوستان میں رہ تو سکتے ہیں؛ لیکن
حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرسکتے (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نمائندہ منتخب نہیں کیے جاسکتے)"۔
جس
طرح ان لوگوں کو اویسی چبھ رہا ہے اور مسلمانوں سے الٹا سیدھا سوال کرتے ہیں اور
حق رائے دہی کے سلب کرنے کی بات کرتے ہیں، ان سے بھی تو یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ
آپ کو پورے ہندوستانیوں کا ترجمان اور نمائندہ کس نے بنارکھا ہے؟ آپ کو یہ کیسے
معلوم کہ مسلمانوں کو کوئی اچھا لیڈر ہضم نہیں ہوتا ہے؟ کیا آپ کو اپنے بڑوں کی
غلطی پر فخر ہے کہ آپ اسے دہرارہے ہیں اور سالوں پرانی بات کو لوگوں کےخانۂ خیال
میں لارہے ہیں؟ اگر کوئی خود کو ہندو نسل سے نہیں مانتا ہے یا فیملی پلاننگ کے حق
میں نہیں ہے؛ تو اس کا حق رائے دہی کس قانون کی بنیاد پر ختم کیا جائے گا؟
ان
جیسے لوگوں کی زہریلی تحریر اور متنازعہ بیان بازی سے تو کوئی صاحب عقل و دانش اتفاق نہیں کرسکتا۔ ہاں، یہ
واضح ہے کہ یہ لوگ اپنی سیاسی روٹی سیکنے اور
خود کو قومی سطح کا لیڈر اور قائد بننے کے زعم میں اس طرح کی تحریر اور بیان بازی
وقتا فوقتا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت، بہت
سے مسلمانوں نے ہندوستانی شہری بن کر رہنا
پسند کیا۔ اگر وہ چاہتے تو ان کو یہ
اختیار تھا کہ وہ پاکستان ہجرت کرجاتے۔آج یہ کون ہوتے ہیں جو مسلمانوں کی حب الوطنی کا امتحان لیں اور ان کےووٹنگ کے حق
کو چھینیں؟ جو حق ملک کا دستور ایک شہری کو دے رکھا ہے، اسے کیسے کوئی سرپھرا چھین
سکتا اور منسوخ کرنے کی بات کرسکتا ہے۔ اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے مسلمانوں کا وہی حق ہے، جو دوسروں کا ہے۔ صرف ووٹنگ ہی کیا، ان کا کوئی بھی حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ اگر کوئی
سیاسی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے؛ تو یہ اس کی ضمیر فروشی اور ذمے داری سے منھ پھیرنے والی بات ہے۔ جہاں
تک مسلمانوں کا تعلق ہے، تو وہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کے لیے اچھاکیا ہے اور برا کیا ہے۔ وہ
اپنا فیصلہ اپنے حساب سےکرنے کا حق رکھتے ہیں ۔
لوگ
ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی اکٹریس نے نیوز چینل اور اخباروں کی ہیڈ لائنس میں چھانے
کےلیے،کسی چوپاٹی پر برہنہ ہوکر گھومنا شروع کردی۔ پھر کیا تھا، وہ ہفتوں نیوز چینلس اور اخبارات میں چھائی رہیں۔ ہمارے
کچھ مفاد پرست سیاستداں بھی اس روش پر گامزن لگ رہے ہیں، نہیں تو یہ لوگ اس بات سے
بخوبی واقف ہیں کہ ان کی تحریر اور بیان بازی سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار
نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی ذہنیت کے لوگ معاشرہ و سوسائٹی اور ملک کے امن و
امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اگر ان کی بر وقت اصلاح نہیں کی گئی؛ تو صدیوں سے چلی آرہی
ملک کی گنگا جمنی تہذیب مٹی میں مل جائے گی اور اس کی ذمے دارحکومت ہوگی۔
(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور
مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)