....ملنے کے نہیں نایاب ہیں
ہم
حضرت مولانا ابرار الحق –رحمہ
اللہ- ہردوئی
بہ قلم: خورشید عالم داؤد
قاسمی ٭
حرف اول:
17اور 18
مئی کی درمیانی شب، جب کہ گھڑی کی سوئیاں ، نو بجارہی تھی، یہ وقت عالم اسلام کے
لیے ایک جان کاہ حادثہ اور سانحہ کی خبر لے کر آیا کہ : بزم اشرف کے آفتاب ضیاء
افروز ، خدا کی اطاعت و بندگی کا پیکر ، صالح طبیعت اورتقوی طہارت کا جامع ، قرآن
و حدیث کا خادم ، احیاء سنت اور عشق رسول کا متوالا ، امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کا داعی ، محی سنت و مصلح امت ، حق گوحق پرست اور حضرت تھانوی قدس سرہ کا
جیتا جاگتا نمونہ اور آخری یاد گار :حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی(رحمۃ اللہ
علیہ ) نے اس دار فانی کو خیر باد کہہ دیا ـانا للہ و انا الیہ
راجعون ـ یہ خبر امت مسلمہ پر بجلی بن کر گری اور ہر کوئی سکتے میں آگیا ؛
لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں اور ہر چھوٹے بڑے ، امیر و
غریب اور شاہ و گدا کو فنا ہونا ہے " كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ. وَيَبْقَى وَجْهُ
رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ." (سورہ رحمن، آیت: 26-27)
ڈھونڈھو گے ہمیں ملکوں
ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و
غم ، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم
ولادت و وطن :
آپؒ کا
خاندانی وطن "دہلی" کے قریب ایک "پلول" (Palwal) نامی گاؤں
میں تھا؛ لیکن نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا اور آخر میں آپ کے والد محترم جناب
وکیل محمود الحق ؒ صاحب نے "ہردوئی"
(یو پی ) میں سکونت اختیار کرلی ۔آپؒ کی
پیدائش20/ دسمبرسن 1920ء کو "ہردوئی " میں ہوئی ۔ یہیں پلے ، بڑھے ، پھولے پھلے اور
اسی سرزمین پر ایک "چراغ اشرفی" جلا کر ، دنیا کو روشن کرنے لگے ۔
تعلیم و تعلم :
حضرت کی
رسم بسم اللہ ، عارف باللہ مولانا اصغر حسین صاحب دیوبندی ؒ استاذ :دارالعلوم ،
دیوبند نے کرائی۔ شروع سے حفظ قرآن کریم تک کی تعلیم "انجمن اسلامیہ ، ہردوئی"
میں ، صرف ۸ سال کی ننھی سی عمر میں ، خدا داد ذکاوت و ذہانت اور شو ق و لگن
کی وجہ سے پوری کی ۔ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیےسن 1347ھ میں ، ایشیاء کی مشہور دینی و اسلامی درس گاہ "مظاہر علوم ، سہارن پور" کا سفر کیا۔
سن 1356ھ میں آپ نے اسی ادارہ سے سند فضیلت حاصل کی ۔ دوران طالب علمی آپ نے "مظاہر
علوم" میں نابغہ روزگار شخصیات :
حضرت مولانا عبد اللطیف ، مولانا اسعد اللہ ، مولانا عبد الشکور ، شیخ الحدیث
مولانا زکریا اور مولانا عبد الجبار ـرحمہم اللہ ـ وغیرہم سے اکتساب فیض
کیا ۔
بیعت و خلافت:
آپ کے والد
ماجد حناب محمودالحق ؒصاحب مرحوم بڑے ہی نیک خصلت ، پاک طینت ، پابند شرع اور حضرت
حکیم الامت ؒ کے مرید تھے ۔ باپ سے بیٹے کا متأثر ہونا ایک فطری امر ہے ؛ چنان چہ
والد صاحب سے متأثر ہوکر ، انھیں کے شیخ و مرشد حضرت تھانوی ؒ کے سامنے زمانہ
طالب علمی میں ہی دست بیعت دراز کردیا۔ حضرت تھانوی نے بیعت فرمالیا ، پھر تو تعلیمی
ایام "مظاہر علوم" اور تعطیلی
ایام "خانقاہ اشرفیہ ، تھانہ بھون" میں گزرنے لگے ۔ اب جہاں شریعت کی
شناخت ہوئی؛ تو طبیعت کو بھی پہچاننے لگی، شریعت و طبیعت کی حقیقت واضح ہوگئی اور
نیکی و بدی کا فرق منشرح ہوگیا ۔ حضرت تھانویؒ کی دوررس نگاہ نے ان خوبیوں کو تاڑ لیا اور صرف 22/سال کی عمر میں خلعت خلافت سے نواز کر "شیخ طریقت" بنادیا
۔ پھر سن 1941ء میں، عین آغاز شباب کے زمانے میں، آپ کا شمار حضرت تھانوی ؒ کے عالی مقام خلفاء
میں ہونے لگا ؎
بے محنت پیہم کوئی جوہر
نہیں کھلتا ٭ روشن شرر تیشہ سے خانہ
فرہاد
درس و تدریس :
علوم دینیہ کی رسمی تکمیل کے بعد ، درس و تدریس
کی غرض سے ، حضرت حکیم الامتؒ کے مشورے سے "جامع العلوم ، کان پور" ـجہاں حضرت تھانویؒ نے
بھی ایک مدت تک تعلیم و تربیت کا فرض منصبی انجام دیا تھا ـ تشریف لے گئے ۔ یہاں
دو سال تک طالبان علوم نبوت نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرکے علمی پیاس بجھائی
۔ پھر یہاں کے بعد "مدرسہ اسلامیہ ،فتح پور ، ہنسوا" میں بہ حیثیت مدرس تعلیمی خدمت کے لیے مامور کیے
گئے ۔ اسی دوران حکیم الامت ؒ کے ہی ایماء پر ، اپنے وطن عزیز میں ، ایک تعلیمی و
تربیتی درس گاہ بہ نام "اشرف المدارس" کی بنیاد رکھی ؛ جو اسم با مسمی ہونے کے ساتھ ساتھ ، اپنے ان گنت کارہائے نمایاں کی وجہ سے، داد تحسین حاصل کررہا ہے ۔ اللہ اس شجر مثمر کو
تادیر باقی رکھے اور اس کی مرکزیت کو دوام بخشے
! ؎
آتی ہی رہے گی تیرے
انفاس کی خوشبو ٭ گلشن تیری یادوں کا مہکتا
ہی رہے گا
تصنیف و تالیف :
تصنیف و تالیف باضابطہ آ پ کا پیشہ نہیں تھا ؛
لیکن پھر بھی جب کوئی بات مناسب معلوم ہوتی ، امت کا فائدہ نظر آتا ؛ تو اسے ضبط
تحریر کرلیتے اور اصلاح امت کے لیے اسے شائع کردیتے ۔ آپ کی مصنفہ کتابوں کی تعداد تقریبا دو درجن ہیں
، جن میں سے : "ایک منٹ کا مدرسہ" ، "اصلاح معاشرہ" ، "اصلاح
معاملات" ، "اصلاح المنکرات" اور "اشرف الاصلاح"وغیرہ ہیں
۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سارے علمی و اصلاحی رسائل و پمفلیٹس منظر عام پر آچکے
ہیں ۔ آپ کے ملفوظات کا مجموعہ "مجالس ابرار" (مرتبہ: مولانا حکیم اختر
صاحب )اصلاح امت کے حوالے سے بے نظیر ہدایات و ارشادات کا مجموعہ ہے ۔
اصلاح امت:
اللہ عز و جل نے آپؒ کو اصلاح امت کے لیے ایسا "درد مند دل "
عطا کیا تھا ، جس کی نظیر اس قحط الرجال کے دور میں عنقا نظر آتی ہے ۔ اپنی خانقاہ میں ہوتے یا جہاں کہیں بھی تشریف لے
جاتے ، امت کی اصلاح کی فکر دامن گیر رہتی اور اپنی حکمت و دانائی اور فراست
مومنانہ سے "امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر" کا کام شروع کردیتے ۔افراد
امت کو صلاۃ و صوم ، احیاء سنت ، زہد و تقوی اور ذکر و فکر کی دعوت دیتے ۔آج کے اس
دور میں ، جہاں بڑے بڑے دستار و جبہ والے قائدین امت "نہی عن المنکر" کے فريضہ کو ایسا فراموش کر بیٹھے ہیں کہ گویا
اس کی ذمے داری ان کے سروں پر جاتی ہی نہیں اور مقام تأسف تو یہ ہے کہ منکرات کی
ایسی مجلسوں کے دعوت نامے قبول کرتے ہیں؛ بل کہ بہ صد رغبت شرکت کا ارتکاب کرتے
ہیں جہاں تصویر کشی ہوتی ہے ، ویڈیو کیسٹ تیار کی جاتی ہے اور بے حجاب عورتیں مسند
نشیں ہوتی ہیں؛ مگر حضرت ؒ ایسی مجلسوں کے
دعوت نامے ٹھکرادیتے اور اگر کہیں ان کی موجودگی میں ایسا ہوتا؛ تو بلاخوف "لومۃ لائم" بغیر کسی کی رضا ء اور عدم رضاء کا خیال کیے
ہوئے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں روکتے اور اللہ و رسول کے احکام کی پیروی میں ہی
اپنی کام یابی و کام رانی سمجھتے ۔ ؎
سارا جہاں خلاف ہو پروا
نہ چاہیے ٭ مد نظر تو مرضی جانان چاہیے
آپ ؒ نے
اپنے دعوت و تبلیغ کے دائرے کو وسیع ترین بناتے ہوئے ، ملت اسلامیہ میں دینی رجحان
کو فروغ دینے ، دینی جذبہ پیدا کرنے اور صراط مستقیم پر جمے رہنے کے لیے ، پچیسوں
ایشیائی ، یورپی اور افریقی ممالک کا دورہ کیا
ـ الحمد للہ ـ آپ کے ارشاد و ہدایات اور دعوت و تبلیغ سے لاکھوں بندگان خدا فیض
یاب ہوئے اور آج ہند و بیرون ہند میں ، آپ کے خلفاء و مجازین کی تعداد بے شمار ہے
، جو آپؒ کے ورثاء اور معنوی اولاد کی
حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب ان کی یہ ذمے داری
ہے کہ حضرت والاکے اس مشن کو جاری و ساری رکھے اور دعوت و تبلیغ میں مؤثر کردار
ادا کریں ۔
قیمتی تحفہ:
قرآن کریم
کی تعلیم تجوید و مخارج کے حوالے سے، ہمارے دیار میں بڑی غفلت برتی گئی؛ چنان چہ
حضرت ؒ نے اس سلسلے میں بھی بڑی پیش رفت کی ، پھر "نورانی قاعدہ" کی تصحیح اور اس کی تعلیم کو عام کر کے "نونہالان
ہند" کو ایک قیمتی تحفہ پیش کیا، جس سے لوگوں میں قرآن شریف کو مخارج حروف ،
حسن ادا ، حسن صوت اور مجہول سے بچتے ہوئے معروف پڑھنے پڑھانے کا داعیہ پیدا ہوا ۔
اب "نورانی قاعدہ" ہر مکاتب و مدارس میں لازمی طور پر پڑھائی جاتی ہے ۔
تصحیح قرآن کے حوالے سے حضرت نے اتنی محنت کی کہ علماء و فضلاء کو بھی قرآن بالتجوید
پڑھنے کا ذوق و شوق بیدار ہوا؛ لہذا "اشرف المدارس" میں باضابطہ "نورانی قاعدہ" کا کورس شروع کیا ۔ یہ ایسی عظیم خدمت ہے جسے
ملت اسلامیہ کبھی فراموش نہیں کر پائے گی اور اس کا اجر غیر ممنون آپ ؒ کو ملتا رہے گا ۔
وفات:
موت ایک
ایسی حقیقت ہے؛ جس سے کسی کو انکار نہیں، ہرکسی کو اپنے اپنے وقت پر جانا ہے ۔ ارشاد
خداوندی ہے: "فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا
يَسْتَقْدِمُونَ." (سورہ نحل، آیت: 61) حضرت بھی ایک طویل علالت کے
بعد، ضعف و نقاہت کی حالت میں ، بہ عمر85/ سال (17/مئی
2005ءکو) جان، جاں آفریں کے سپرد
کردیا ۔ خویش واقارب اور خلفاء و مجازین
کے ایک جم غفیر نے ان کے جسد خاکی کو، گورستان ہردوئی میں، پیوند خاک کرکے عمر بھر کی بے قراری اور دنیا کے
ہنگاموں سے نجات بخشا ۔
جان کر منجملہ خاصان میخانہ تجھے ٭ مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
٭
مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، انکلیشور، گجرات، ہند