Thursday, June 29, 2017

بلند پایہ محدث حضرت الاستاذ شیخ ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ (1940-2017)



....ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے


بلند پایہ محدث حضرت الاستاذ شیخ ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ (1940-2017)

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی



دارالعلوم، دیوبند کےعظیم المرتبت استاذ حدیث، حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی ظفر بجنوری –رحمہ اللہ– انتہائی موقر ومحترم شخصیت، بلند پایہ محدث اور اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اللہ تعالی کا بلاوا آیا اور حضرت الاستاذ اس دار فانی سے دار جاودانی کےلیے کوچ کرگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔  انسان کر بھی کیا سکتا ہے، جب اللہ بلائیں؛ تو جانا ہی ہوگا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کی وفات کا اثر ایک محدود دائرے تک ہی رہتا اور چند دنوں کے بعد، آدمی صبر کرکے خاموش ہوجاتا ہے؛ جب کہ کچھ لوگوں کی شخصیت ہمہ جہت ہونے کی وجہ سے، ان کی وفات کا اثر دور دور تک پہنچتا ہے، ان کی یاد آتی رہتی اوران کے انمٹ نقوش ہمیشہ کے لیےباقی رہتے ہیں۔ حضرت الاستاذ کی شخصیت بھی انھیں معدودے چند عظیم المرتبت لوگوں میں سےتھی؛ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شیخ بجنوری –رحمہ اللہ– کی  وفات صرف ان کے اہل وعیال اور خاندان والوں کے لیے ہی حادثۂ فاجعہ نہیں؛ بل کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ان کے ہزاروں شاگردوں کے لیے  بھی "عظیم علمی خسارہ" کا باعث ہے۔ اللہ تعالی حضرت کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!

کڑے سفر کا تھکا مسافر،  تھکا ہے  ایسا کہ سو  گیا  ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے

حضرت الاستاذ کا وطن اصلی موضع: "حبیب والا"، ضلع: "بجنور"، یوپی تھا۔ آپ 9/مارچ 1940 عیسوی کو "علی گڑھ" کے محلہ: "حکیم سرائے" میں پیدا ہوئے، جہاں آپ کے والد ماجد جناب منشی فراست علی صاحب (رحمہ اللہ) بسلسلہ درس وتدریس، مع اہل وعیال مقیم تھے۔

حضرت الاستاذ نے ابتدا سے پرائمری درجہ چہارم تک کی تعلیم، اپنے وطن میں حاصل کی۔ سن 1951 عیسوی میں پرائمری کے درجہ چہارم کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اپنے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق ذاکر فاروقی صاحب –رحمہ اللہ– (وفات: 1407ھ) ، سابق ناظم: کتب خانہ دار العلوم، دیوبند، کے ساتھ دیوبند تشریف لائے اور 1951ء میں، دار العلوم، دیوبند میں داخلہ لیا۔ آپ نے 1958ء میں دار العلوم، دیوبند سے فضیلت کے امتحان میں امتیازی نمبرات کے ساتھ کام یاب ہوئے۔

دار العلوم، دیوبند میں قیام کے دوران آپ نے فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین احمد مرادآبادی (1307-1393ھ)، جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی(1886-1967ء)، حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب بلند شہری(وفات: 1966ء)، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی (1897-1983ء)، سابق رئیس دارالعلوم، دیوبند، ماہرِ معقول ومنقول، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ محمد حسین بہاری (1905-1992ء)،حضرت مولانا جلیل احمد کیرانوی (وفات: 1968) اور حضرت مولانا ظہور احمد دیوبندی (1900-1963)  –رحمہم اللہ– جیسے اساطین علوم وفنون سے استفادہ کیا۔ فراغت کے بعد 13/سال تک اپنے محترم استاذ شیخ سید فخر الدین احمد –رحمہ اللہ– کی زیر نگرانی رہ کر علمی استفادہ کرتے رہے۔ اسی دوران علی گڑھ سے "ادیب کامل" کا امتحان، اول پوزیشن سے پاس کیا اور "سر سید میڈل" سے نوازے گئے۔

استاذ محترم شیخ بجنوری کی تعلیم وتربیت میں جہاں آپ کی رات دن کی محنت، جہد مسلسل اور آپ کے اساتذہ کرام کی رہنمائی نے اہم رول ادا کیا؛ وہیں آپ کے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق فاروقی –رحمہ اللہ– کی تربیت کا بھی بہت بڑا دخل تھا۔ آپ اپنے پھوپھا محترم کی تربیت کو سراہتے ہوئے  ایضاح البخاری کا "انتساب" کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "پھوپا جان حضرت مولانا سلطان الحق ذاکرفاروقی رحمہ اللہ (المتوفی: 1407ھ)سابق ناظم کتب خانہ دار العلوم، دیوبند، اس دنیائے آب ورنگ میں، راقم کے لیے حقیقی مسبّب الاسباب کے بعد، سب سے بڑے مربّی تھے۔ اس سلسلے میں انھیں جن جانکاہیوں کا سامنا کرنا پڑا، انھیں خداوند قدوس بہتر جانتے ہیں۔اس موقع پر اپنی اس متاع حقیر کو انھیں کے نام سے منسوب کرتا ہوں۔" (ایضاح البخاری 1/3)

حضرت الاستاذ کا تقرر، دار العلوم، دیوبند میں، استاذ کی حیثیت سے سن 1972ء میں ہوا۔ آپ نے 45/سال تک دار العلوم، دیوبند میں مخلصانہ خدمات انجام دی۔ آپ دار العلوم میں تدریسی ذمے داری کے ساتھ ساتھ مختلف مواقع سے چند دوسری اہم  انتظامی ذمے داریاں بھی بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ آپ 1982 سے 1984 تک ماہ نامہ "دار العلوم" (اردو)  کی ادارت کی ذمے داری انجام دی اور ماہ نامہ کے مدیر محترم رہے۔ 1985ء میں آپ شعبہ تعلیمات کے ناظم کی حیثیت منتخب کیے گئے اور آپ نے اس  مفوضہ ذمے داری کو بڑے حسن اسلوب کے ساتھ نبھایا۔ 1988ء میں، مجلس شوری نے آپ کو دار العلوم دیوبند کے شعبہ تحقیق وتالیف اور صحافت "شیخ الہند اکیڈمی" کا نگراں منتخب کیا۔آپ کی نگرانی میں، "شیخ الہند اکیڈمی" سے متعدد معیاری اور علمی کتابیں شا‏ئع ہوئیں۔ تقرری کے وقت سے تادم واپسیں، 45/سال دارالعلوم میں رہے؛ بل کہ دار العلوم کے ہی ہو کر رہ گئے اور مختلف ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ، علم وفن کی اکثر کتابوں کا درس دیا۔ ابھی حال میں، مشہور محدث أبو عيسى محمد بن عيسى بن سَورة بن موسى بن الضحاك (متوفى: 279ھ) کی کتاب: سنن الترمذي،جلد: اول اور البلاغۃ الواضحۃ کے اسباق آپ سے متعلق تھے۔ اللہ تعالی آپ کی  خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے!

اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرکس نے، کچھ گل نے
چمن  میں  ہر  طرف  بکھری  ہوئی  داستاں  میری

حضرت الاستاذ کوئی کثیر التصانیف مصنف نہیں تھے؛ مگر جو بھی تصنیف آپ کے قلم سے نکلی، اس کی زبان بڑی سلیس، صاف ستھری اور دلکش ہے۔ آپ کی مشہور تصنیف "شوری کی شرعی حیثیت" ہے، جو اپنے موضوع پر انوکھی اور اکلوتی ہے کتاب ہے۔ اصول فقہ کے موضوع پر استاذ محترم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی –حفظہ اللہ– کے ساتھ، آپ نے مشترکہ طور پر "تسہیل الأصول" نامی رسالہ لکھا جو دار العلوم، دیوبند کے درجہ عربی چہارم میں داخل درس ہے۔ اسی طرح آپ نے "مقدمہ تفہیم القرآن کا تحقیقی وتنفیدی جائزہ" لکھا جو شائع شدہ ہے۔ آپ کو حدیث شریف سے بھی مثالی تعلق تھا؛ چناں چہ جہاں برسوں حدیث شریف کی تدریسی خدمات انجام دی، وہیں اپنے مشفق ومربی استاذ شیخ فخر الدین صاحب –رحمہ اللہ– کی تقریرِ بخاری بھی "ایضاح البخاری" کے نام سے ترتیب دیا، جو ترتیب، زبان وبیان اور علمی مواد کی وجہ سے بخاری شریف کی اعلا درجے کی شرح ہے۔

استاذ محترم نے فضیلت کے سال میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سید فخرالدین احمد کی بخاری شریف کے درسی افادات قلم بند کیے تھے۔ فراغت کے اگلے سال(1378ھ-1959ء)دار العلوم میں رہ کر، حضرت شیخ  کے درسی افادات کو دوبارہ بہ اہتمام ضبط کیا۔ سال کے خاتمہ پر اپنے بڑوں ، بزرگوں اور دوستوں کے مشورے سے، اس درسی افادات کو ترتیب دے کر شائع کرنے کا ارادہ کیا؛ چناں چہ دونوں سال کے افادات کو سامنے رکھ کر، آپ نے تیسرا مقالہ تیارکیا اور درمیان میں ذیلی سرخیاں قائم کی۔ پھر اس کی اشاعت کا انتظام کیا اور بہ نام "ایضاح البخاری" شائع کرکے، جہاں اپنے مشفق استاذ کی درسی تقریر کو محفوظ کیا؛ وہیں اساتذہ وطلبۂ حدیث کی خدمت میں، ایک اہم قیمتی سوغات بھی پیش کی۔ ایضاح البخاری کی اب تک 6/جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کے اس کار عظیم کا اپنے شایانِ شان بدلہ نصیب فرمائے!

حضرت الاستاذ بلند پایہ محدث ومنتظم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب کے کہنہ مشق ادیب اورصاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ نثرنگاری  ہو یا نظم نگاری، آپ لکھتے تو ادبی شہہ پارے بکھیرتے جاتے۔ شعرو سخن میں آپ مفسر قرآن، مملکت شعر وسخن کے خاموش تاج دار حضرت مولانا محمد عثمان کاشف الہاشمی –رحمہ اللہ– کے شاگردوں میں تھے۔ آپ شاعری کی ہر صنف پر دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے بہت کم شعری کلام کہے؛ مگر جو کچھ بھی کہا، اسے ارباب علم وادب نے سراہا اور دادِتحسین سے نوازا۔ آپ نے دار العلوم، دیوبند کے صدسالہ اجلاس (1980ء=1400ھ) کی مناسبت سے "ترانۂ دار العلوم، دیوبند" لکھا۔ اس ترانے کو جو شہرت ملی، وہ شاید ہی کسی اور ترانہ کو ملی ہوگی۔ آپ کا مجموعۂ کلام "نغمۂ سحر" کے نام سے کئی سالوں پہلے چھپا اور علماء وادباء نے اس کی بڑی پذیرائی کی۔

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں 
 ہو تخیّل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں

شیخ بجنوری نے 45/سال تک، دار العلوم، دیوبند میں اپنی تدریسی خدمات پیش کرکے، ہزاروں آرزومندوں وتشنگان علوم دینیہ کو سیراب کیا۔ احاطۂ دار العلوم میں، طلبہ کے لیے شیخ بجنوری کی محبت والفت دیدنی تھی۔آپ سے کوئی طالب علم ملنے جاتا؛ تو آپ خوش طبعی اور کشادہ دلی سے ملتے۔ طلبہ کے لیےشیخ کی شخصیت ایک باپ نما شفیق وکریم استاذ ومربی اور ناصح و واعظ کی تھی۔ آپ کی زبان بڑی میٹھی اور پیاری تھی۔  آپ طلبہ کو ہمیشہ "بیٹے" کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے۔ آپ جب لفظ "بیٹے" کا تلفظ کرتے تھے؛ تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ آپ کا دل پیار ومحبت سے معمور ہے۔ ہاں، یاد آیا کہ کلاس میں، کسی طالب علم کے نام کے ساتھ "بھائی" بھی لگادیا کرتے تھے؛ مگر یہ لفظ ان کے معمول کا نہیں تھا؛ بل کہ مزاح فرمانے کےلیے کبھی کبھار ایسا کرتے تھے۔

سن 2003ء میں، راقم الحروف کو حضرت والا سے معروف محدث ابن ماجہ أبو عبد الله محمد بن يزيد القزوينی –رحمہ اللہ– (متوفى: 273ھ) کی حدیث کی کتاب "سنن ابن ماجہ" پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی؛ پھر 2004 ء میں، "تکمیل ادب" میں "البلاغۃ الواضحۃ" پڑھنے کا شرف حاصل رہا۔ آپ تکمیل ادب کی درس گاہ میں آتے؛ تو طالب علم عبارت پڑھتا۔ پھر آپ سبق کی تشریح کرتے۔ البلاغۃ الواضحۃ میں، ہر سبق کے اختتام پر تمرین میں، طلبہ چاہتے کہ تمرین اردو زبان میں بہ عجلت کرکے سبق سے چھٹکارا حاصل کیا جائے؛ مگر حضرت کہتے کہ بیٹے ایسا نہیں! تمرین تو آپ کو عربی میں ہی کرنی ہوگی۔ اب آپ عربی زبان وادب کے طالب علم ہیں۔ بہرحال، طلبہ کو تمرین عربی میں ہی کرنی ہوتی تھی اور دوران تمرین اگر کوئی غلطی ہوتی؛ تو آپ اصلاح فرماتے۔ طلبہ کی غلطیوں پر آپ ناراض نہیں ہوتے؛ بل کہ ان غلطیوں کی اصلاح خندہ پیشانی کے ساتھ کرتے۔  دوران درس کبھی آپ کے چہرے سے ناگواری کے آثار نمایاں نہیں ہوتے۔ دوران درس آپ کا لب ولہجہ پیار ومحبت سے لبریز ہوتا  اور آپ کو ہمیشہ یہ خیال رہتا کہ:

وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
 دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے

حضرت الاستاذ نے اپنی عمر عزیز کی تقریبا 77/بہاریں دیکھ چکے تھے۔ اِن دنوں آپ پر پیرانہ سالی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ کی طبیعت بھی ادھر کچھ مہینوں  سے ناساز تھی۔ چند مہینے قبل سوشل میڈیا پر یہ خبر نشر  ہوئی تھی کہ آپ شدید بیمار ہیں۔ مگر اُس وقت اللہ تعالی نے آپ کو رو بصحت کیا۔ آپ کا وقت موعود آچکا تھا؛ چناں چہ اپنے ہزاروں شاگردوں، قدر دانوں اور اہل خانہ سے منھ موڑ کر اور ان کو روتا بلکتا چھوڑ کر، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے 20/مئی، 2017 کا سورج  نکلے سے پہلے غروب ہوگئے۔ آپ کی نماز جنازہ اُسی دن، بعد نماز ظہر، تقریبا ساڑھے تین بجے حضرت الاستاذ مولانا قاری سیّد محمد عثمان صاحب منصورپوری –حفظہ اللہ–، استاذ حدیث: دار العلوم، دیوبند نے "احاطۂ مولسری" میں پڑھائی اورہزاروں لوگوں نے آپ کو دیوبند کے "قبرستان قاسمی" میں سپرد خاک کردیا۔ یقین ہے کہ آپ کے شاگرد، قدردان اور اولاد واحفاد آپ کے حق میں دعا اور ایصال ثواب کرکے، آپ کے رفع درجات کا ذریعہ بنیں گے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کی مغفرت فرماکر،جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل! آمین!

اے جہاں آباد! اے گہوارۂ علم وہنر
 ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام ودر
٭٭٭

اعتکاف: یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی


ہندوستان کی تعمیر میں دارالعلوم دیوبند کا کردار



ہندوستان کی تعمیر میں دارالعلوم دیوبند کا کردار

از: خورشید عالم داؤد قاسمی


انگریز سامراج نے جب شاہان مغلیہ کے آخری چشم و چراغ ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر(1775-1862)کو گرفتار کرکے "رنگون" کے قید خانہ میں بھیج دیا، لال قلعہ پر ہندوستانی پرچم کی جگہ "یونین جیک" لہرانے لگا، حکومت "ایسٹ انڈیا کمپنی" کے ہاتھوں سے نکل کر ملکہ وکٹوریہ کے ہاتھوں میں چلی گئی اور ملک کی باگ ڈور وقت کے فرعون انگریز کے قبضہ و قدرت میں آگئی؛ اس وقت ہندوستان کے باشندے، وطن عزیز کی آزادی کے لیے کفن بر دوش ہوکر، میدان جہاد میں کود پڑے اور جان و مال، دولت و ثروت کی قربانی پیش کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا۔

        وہ محبین وطن جنھوں نے وطن دوستی کا ثبوت دیا، ملک کی آزادی کے لیے اپنی جد و جہد شروع کی اور انگریزوں کو ہندوستان سے حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی، ہمیشہ برطانوی سامراج کے نشانے پر رہے۔ ان مجاہدین آزادئ ہند کے سرخیلوں میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ (1832-1879)  بانی دارالعلوم، دیوبند کا نام جلی حروف سے لکھنے کے لائق ہے۔ مرحوم نے انگریز  حکمرانوں کی سازش کو اپنی مومنانہ فراست سے بہت پہلے سمجھ لیا کہ یہ انگریز "ہندوستانیوں کو غلام بنانے کے ساتھ ساتھ دین متین اور شریعت محمدی پر بھی وار کرے گا"؛ لہذا آپ نے ان انگریزوں سے مقابلہ آرائی شروع کردی اور جہاں ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں سے مقابلہ کیا؛ وہیں اسلام کی خاطر پادریوں سے مناظرہ بھی کیا؛ لیکن اس وقت ہندوستان کے مقدر میں، آزادی میسر نہ  ہونے کی وجہ سے، ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ناکامی کو کامیابی میں اور شکشت کو فتح میں بدلنے کے لیے ایک عربی مدرسہ دیوبند کی "چھتّہ مسجد" میں چند رفیقوں کی معیت میں قائم کیا (جو بعد میں ازہر ہند دارالعلوم، دیوبند کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوا)؛ تاکہ اس کے سایہ تلے ایسے جاں باز مجاہدین کی ٹیم تیار کی جائے جو ملک کی آزادی اور شریعت محمدی کی  بقا و تحفظ کے لیے بے دریغ اپنے خون بہاسکے۔

        رئیس التحریر مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ  نے دارالعلوم کے اولین طالب علم، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ (1851-1920)  کا قول "احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن" میں نقل کیا ہے کہ ایک دن آپ نے فرمایا: "حضرت الاستاذ(حضرت نانوتوی) نے اس مدرسہ کو کیا درس و تدریس، تعلیم و تعلم کے لیے قائم کیا تھا؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہواہے، جہاں تک میں جانتا ہوں کہ 1857 میں ناکامی سے نجات اور اس کی تلافی کے لیے 1866میں، استاذ محترم نے دارالعلوم دیوبند کا قیام کیا۔" آخر میں ارشاد فرمایا: "اپنے لیے تو اسی راہ کا انتخاب میں نے کیا ہے، جس کے لیے دارالعلوم، دیوبند کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ (مولانا محمد قاسم نانوتوی) نے قائم کیا تھا۔"

        حضرت شیخ الہند نے آزادی ہند کی خاطر متعدد تحریکیں چلائیں۔ آپ کی مشہور تحریک "تحریک ریشمی رومال"تھی۔ پنجاب "سی آئی ڈی" کے ذریعے اس تحریک کا راز فاش ہونے  کی پاداش میں "بیت الحرام" سے سنگینیوں کے سایہ میں لاکر، مالٹا کے قلعے میں نظر کیے گئے۔ تقریبا چار سال تک برطانوی سامراج کے ظلم و جور برداشت کرکے، مالٹا سے ہندوستان لوٹے؛ تو لوگوں نے آپ کو "شیخ الہند" کا معزز لقب دیا۔ آپ نے دارالعلوم میں طلبہ کو فنون سپہ گری سکھلانے کا بندو بست بھی کیا، ان کے سامنے جہاد کی فضیلتیں بھی بیان اور وطن پر جان نثار کرنے کی ترغیب بھی دی۔ آپ کی اس عمدہ تربیت کے نتیجے میں ایسے ایسے مجاہدین نے دارالعلوم، دیوبند  کی کوکھ سے جنم لیا جنھوں نے حریت ہند کے لیے اپنی رگ جاں کے آخری قطرہ تک کو نچوڑ دیا؛ لیکن ان کے پائے ثبات میں کبھی لغزش تک نہ آئی۔

        "تحریک ریشمی رومال"کیا ہے؟  شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے انگریزی حکومت  کے خلاف ایک مسلح انقلاب کا منصوبہ بنایاتھا۔ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسلحے کی ضرورت پیش آئی؛ لہذا شیخ الہند اور ان کے رفقاء کار نے برطانیہ مخالف  کچھ ممالک کا دورہ کیا۔ ان ممالک میں افغانستان، ترکی اور روس سر فہرست تھے۔  مختلف ممالک کے دورے کے دوران، حضرت شیخ الہند اور ان کے رفقاء، خطوط کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے تھے۔ ایک خط جس میں انگریزوں سے لڑنے کے لیے رضاکاروں کی بھرتی اور ایک قومی حکومت کے قیام کا منصوبہ وغیرہ تھا وہ "ریشمی رومال" پر لکھ کر بھیجا گیا تھا، جو پنجاب سی آئی ڈی کو ہاتھ لگ گیااور تحریک ناکام ہوگئی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ پوری تحریک "تحریک ریشمی رومال" کے نام سے مشہور ہوئی؛ جب کہ برطانوی حکومت نے اپنی رپورٹ میں اس تحریک کو "سلک لیٹرز سازش کیس" قرار دیا تھا۔ اس تحریک کا راز فاش ہونے کے بعد، شیخ الہند گرفتارکر لیے گئے۔

اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ دارالعلوم، دیوبند کے سپوتوں نے 1926 میں کولکاتا میں منعقدہ  جمیعت علماء ہند کی ایک میٹنگ میں، یہ اعلان کیا تھا کہ ہم اس جماعت کی حمایت کریں گے جو انگریزی حکومت سے "مکمل آزادی" کے حق میں ہوگی۔ پھرجمیعت کی اس میٹنگ کے تین سال کے بعد، "انڈین نیشنل کانگریس" نے اپنے لاہور کے اجلاس میں انگریز حکومت سے ہندوستان کی مکمل آزادی کو اپنے منشور میں داخل کیاتھا۔

        دارالعلوم دیوبند کے فارغین اور شاگردان شیخ الہند کی ایک طویل فہرست ہے جوہندوستان کو انگریز وں کے چنگل سے نکالنے کے لیے پیہم جدو جہد میں لگے رہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ (1872-1944) جو آپ کے  فیض یافتہ دست راست تھے، جن کو برطانوی حکومت کی رپورٹ میں، تحریک ریشمی رومال کا بانی بتایا گیا ہے، مسلسل آزادی کی جد وجہد میں لگے رہے، طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں، جلاوطنی کی زندگی بسر کی، مگر ظالم و جابر انگریز کی غلامی اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو پسند نہیں کیا۔

        شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (1879-1957) امام حریت حضرت شیخ الہند کے تلمیذ بھی اور مالٹا کے رفیق بھی ہیں، آزادی کے لیے اس وقت تک کوشش کی؛ جب تک کہ اپنے گلے سے غلامی کا طوق نکال نہ پھینگا۔ "آل انڈیا کانگریس" کے اجلاس (منعقدہ کراچی) میں برطانوی حکومت کی پولس اور فوج میں ملازمت کو حرام قرار دینے کی تجویز پیش کرکےانگریزی حکمرانوں کے خیمے میں آگ لگادی۔ پھر اس حق گوئی و بے باکی کے جرم میں، دو سال قید با مشقت کی سزا بھگتنی پڑی۔ یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ حضرت شیخ الاسلام اپنی جہادی پالیسی، سرگرم سیاست اور پرجوش خطابت  کے نتیجے میں پچاسوں دفعہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور کيے گئے۔

        اس طرح ہندوستان کی آزادی میں دارالعلوم، دیوبند نے ایک اہم اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ سیکڑوں فارغین دیوبند نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ آزادی کی جد وجہد میں لگا دیا۔ مگر آج افسوس اس بات پر ہے جس دارالعلوم، دیوبند نے ہندوستان کی آزادی و تعمیر میں اپنے جیالوں کا خون پانی کی طرح بہایا، جس کے جیالے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رات و دن گزارے اور جس کے سپوتوں نے مادر وطن کو آزاد کراکر ہی دم لیا، آج اس کی قربانیوں کو فراموش کرکے اس کے فرزندوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے!

        اس مضمون کا اختتام سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان (1890-1988)کے ایک بیان پر کرنا چاہوں گا۔خان صاحب نے 1969 میں  ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں وہ دارالعلوم، دیوبند کی زیارت کے لیے دیوبند تشریف لائے تھے۔ اس موقع سے انھوں نے کہا تھا: "میرا تعلق دارالعلوم، دیوبند سے اس وقت سے ہے، جب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (رحمۃ اللہ علیہ) با حیات تھے۔ یہاں پر بیٹھ کر ہم لوگ تحریک آزادی کے سلسلے میں منصوبہ بندی کرتے تھے کہ کیسے ہم انگریزوں کو اس ملک سے بھگائیں اور  کس طرح ہندوستان کو برطانوی غلامی سے آزاد کرائیں؟ اس ادارہ نے اس ملک کی آزادی کے لیے عظیم خدمات پیش کیا ہے۔"

(مضمون نگار دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا کے استاذ ہیں۔)

صدقہ وخیرات کےبعد احسان مت جتائے!


صدقہ وخیرات کےبعد احسان مت جتائے!


صدقہ وخیرات کےبعد احسان مت جتائے!



صدقہ وخیرات کےبعد احسان مت جتائے!


از: خورشید عالم داؤد قاسمی ٭


مال اور دولت و ثروت اللہ تعالی کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) "پھر جب نماز پوری ہوچکے، تو تم زمین پر چلو پھرو اور خدا کی روزی تلاش کرو۔ اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو، تاکہ تم کو فلاح ہو۔" (سورہ جمعہ/10) ایک دوسری جگہ ہے: ( ترجمہ) "اور مال اور بیٹوں سے ہم تمھاری امداد کریں گے اور ہم تمھاری جماعت  بڑھادیں گے۔" (سورہ اسراء/6) نوح  -علیہ السلام - کی دعوت و تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) "کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا۔ اور تمھارے مال و  اولاد میں ترقی دے گااور تمھارے لیے باغ لگادے گااور تمھارے لیے نہریں بہادےگا۔" (سورة نوح/11-12) ان آیات سے پتہ چلا کہ مال ودولت ایک بڑی نعمت ہے۔

جب اللہ نے آپ کو مال و دولت دیا ہو؛  تو اس میں غرباء و مساکین کے جو حقوق ہیں، انھیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جو غرباء و مساکین کی اس طرح مدد کرتے ہیں کہ داہنے ہاتھ سے دیتے ہیں؛ تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہیں چلتا۔ کچھ ایسے اہل ثروت بھی ہیں جن کو اللہ نے مال و دولت تو دیا ہے؛ مگر غرباء و مساکین پر خرچ نہیں کرتے، صدقات و خیرات اور زکاۃ و عطیات جیسے الفاظ سے ناواقف ہیں اور کبھی کبھار خرچ کرتے بھی ہیں؛  تو بخل ان پر غالب آجاتا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے وہ سب ان کی جدّ و جہد اور سعی و کوشش کا نتیجہ۔ پھر اس میں سے کسی کو کیوں دینا! قیامت کے دن ایسے لوگوں کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ: یہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟  ہمارے معاشرہ میں رہنے والے ایک تیسری قسم کے بھی  اہل دولت و ثروت ہیں، جو اپنے مال سے صدقات و خیرات تو ضرور کرتے ہیں؛  مگر ان کی نیت اور مقاصد بڑے بھدے  ہوتے ہیں۔ وہ جن کو کچھ دیتے ہیں، ان کو اپنی رعایا کے درجے میں اتاڑ لیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ غریب و مسکین،  اس کی ہر بات پر اطاعت و فرماں برداری کےلیے حاضر باش ہو اور اس کی کسی بات پر گرفت نہ کرے،  چاہے وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیوں نہ کہے۔

اہل ثروت جو کچھ غریب و  مسکین اور مجبور و مفلس کو عنایت کرتا ہے،  اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ اللہ کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ اس ذات نے اس کو  یہ دولت دی، اس میں ان غرباء و مساکین کا حق متعین فرمایا ہے اور وہ اس ذمے داری کو ادا کر رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذات باری تعالی اسے اس کا اجر آخرت میں عطا فرمائیں گے ۔ کچھ لوگ دینے کو تو دیتے ہیں؛ لیکن اس کا بدلہ ان غریبوں پر احسان جتا کر وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ فعل نہایت ہی مذموم اور یہ عمل نہایت ہی مطرود ہے، جس پر اللہ تعالی کے یہاں ان سے ضرور پوچھ ہوگی۔

بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمے داری ہے کہ اگر اللہ نے ہمیں مال و دولت دیا ہے؛ تو ہم اسے اللہ کی راہ میں،  اللہ کی ہدایت کے مطابق خرچ کریں۔ آج ہم نے قرآن کریم کے فرمان کو فراموش کردیا اور احادیث شریفہ سے حاصل ہونے والے اسباق کو سمجھنےکی ضرورت ہی محسوس نہیں کی؛ ورنہ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں ایک مومنانہ زندگی بسر کرنے کے حوالے سےتمام پہلووں پر بھرپور مواد موجود ہے۔

قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے: ( ترجمہ) "مناسب بات کہہ دینا اور در گزر کرنا بہتر ہے ایسی خیرات سے، جس کے بعد آزار پہنچایا جاوے اور اللہ غنی ہیں، حلیم ہیں۔" (سورہ بقرہ/263) مفتی محمد شفیع صاحبؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "جو خرچ کرتا ہے وہ اپنے نفع کےلیے کرتا ہے، تو ایک عاقل انسان کو خرچ کرنے کے وقت اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ میرا کسی پر احسان نہیں۔ میں اپنے نفع کےلیے خرچ کر رہا ہوں اور اگر لوگوں (مساکین و فقراء) کی طرف سے کوئی ناشکری بھی محسوس ہو؛تو اخلاق الہیہ کے تابع ہو کر، عفو و درگزر سے کام لے۔" (معارف القرآن، 1/632)

آیت مذکورہ سے آگے ارشاد خداوندی ہے: (ترجمہ) "اے ایمان والو! تم احسان جتلا کر اور ایذا پہنچاکر اپنی خیرات کو برباد مت کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کو دکھلانے کی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یوم قیامت پر ،سو اس شخص کی حالت ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر جس پر کچھ مٹی ہو ، پھر اس پر زور کی بارش پڑ جاوے ،سو اس کو بالکل صاف کردے، ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی اور اللہ تعالی کافرلوگوں کو رستہ نہ بتلاویں گے۔" (سورہ بقرہ/264)  مذکورہ بالا آیت کریمہ جو کچھ بیان کیا گیا اسی مضمون کو اس آیت کریمہ میں مزید موکد کرکے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت مفتی صاحب ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اس سے واضح ہوگیا کہ جس صدقہ و خیرات کے بعد احسان جتلانے یا مستحقین کو ایذاء پہنچانے کی صورت ہوجائے، وہ صدقہ باطل، کالعدم ہوجاتا ہے، اس پر کوئی ثواب نہیں۔ اس آیت میں صدقہ کے قبول ہونے کی ایک اور شرط کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص لوگوں کے دکھاوے اور نام و نمود کے واسطے خرچ کرتا ہے اور اللہ تعالی اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر کچھ مٹی جم جائے اور اس پر کوئی دانہ بوئے پھر اس پر زور کی بارش پڑجائے اور وہ اس کو بالکل صاف کردے ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی، اور اللہ تعالی کافر لوگوں کو راستہ نہ دکھلائیں گے۔ اس سے قبولیت صدقہ و خیرات کی یہ شرط معلوم ہوئی کہ خالص اللہ تعالی کی رضا جوئی اور ثواب آخرت کی نیت سے خرچ کرے، دکھلاوے یا نام و نمود کی نیت سے نہ ہو، نام ونمود کی نیت سے خرچ کرنا، اپنے مال کو برباد کرنا ہے اور آخرت پر ایمان رکھنے والا مومن بھی اگر کوئی خیرات محض نام ونمود اور ریا کےلیے کرتا ہے؛ تو اس کا بھی یہی حال ہے کہ اس کو کوئی ثواب نہیں ملتا۔ پھر اس جگہ "لایؤمن باللہ" کے اضافہ سے شاید اس طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ "ریاء کاری" اور نام و نمود کےلیے کام کرنا،  اس شخص سے متصور ہی نہیں جو اللہ تعالی اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ ریاء کاری اس کے ایمان میں خلل کی علامت ہے۔" (معارف القرآن، 1/633)

جس طرح مذکورہ بالا آیتوں سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ اگر کوئی شخص صدقہ وخیرات کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کی دھاک ان فقیر و مسکین کے دل میں بیٹھ جائے، یا وہ احسان جتانا چاہتا ہے، یا اس کو ایذاء پہونچانا چاہتا ہے، یا لوگوں کو دکھانے کےلیے صدقہ و خیرات کرتا ہے؛ تو اس کی اللہ تعالی کے یہاں کوئی حیثیت نہیں ہے؛ بل کہ وہ شخص گنہگار ہوگا اور اس کے اس عمل پر ان کو روز محشر سزا دی جائے گی۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کےلیے اپنے مال و دولت غرباء و مساکین پر خرچ کرتا ہے، کوئی ریاء و نمود اور شہرت مقصود نہیں ہوتی ہے اور صدقہ وخیرات کر کے کسی پر احسان جتانا مقصد نہیں، ایذاء رسائی ہدف نہ ہو؛ تو اللہ تعالی ایسے شخص کو بہت زیادہ ثواب سے نوازیں گے اور جتنا وہ خرچ کرتا ہے اس کا سات گنا اور بسا اوقات سات سوگنے تک کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں درج کیا جاتا ہے۔  اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) "جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کیے ہوئے مالوں کی حالت ایسی ہے، جیسے ایک دانہ کی حالت، جس سے سات بالیں جمیں، ہر بال کے اندر سو دانے ہوں اور یہ  افزونی خدا تعالی جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالی بڑی وسعت والے ہیں، جاننے والے ہیں۔" (سورہ بقرہ/ 261)

اس آیت کریمہ میں، ان لوگوں کےلیے بہت بڑی بشارت اور خوش خبری ہے، جو صرف رضائے اِلٰہی کی خاطر فقیر و مسکین اور یتیم و بیوہ پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ خوش خبری یہ ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اس کا سات سو گنا ان کو دیا جائے گا۔ اسے ایک حسی مثال سے یوں سمجھایا گیا ہے کہ جیسے کوئی شخص گندم کا ایک دانہ زرخیز زمین میں بوتا ہے، اس ایک دانہ سے ایک ایسا گیہوں کا پودا نکلتا ہے جو سات بالیوں پر مشتمل ہوتاور ہر بالی سوسو دانے کو حاوی ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص ایک روپیہ خرچ کرتا ہے، تو اسے سات سو روپے کا ثواب ملےگا۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ دینے والے کی نیت خالص ہو اور محض رضائے الہی کے لیے دیا ہو؛ چناں چہ اس آیت کریمہ کے بعد والی آیت اس کی وضاحت یوں کرتی ہے: (ترجمہ) "جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو احسان جتلاتے ہیں اور نہ آزار پہنچاتے ہیں، ان لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا، ان کے پروردگار کے پاس اور نہ ان پر کوئی خطرہ ہوگااور نہ یہ مغموم ہوں گے ۔" (سورہ بقرہ/ 262)

اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کا باقی نہیں رکھتے؛ بل کہ اس سے کہیں زیادہ اس کو نواز دیتے ہیں۔   ارشاد خداوندی ہے: (ترجمہ) "اور جو چیز تم خرچ کروگے، سو وہ اس کا عوض دےگا۔" (سورہ سبا/ 39) اور ایک دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (ترجمہ) "اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اپنے فائدہ کی غرض سے کرتے ہو، اور تم اور کسی غرض سے خرچ نہیں کرتے، بجز رضا جوئی ذات پاک حق تعالی کے اور جو کچھ مال خرچ کرتے ہو، یہ سب پورا پورا تم کو مل جاوے گا اور تمہارے لیے اس میں ذرا کمی نہ کی جاوے گی۔" (سورہ بقرہ/272)

جو چیز انسان کے لیے مرنے کے بعد باقی رہتی ہے، وہ صدقہ و خیرات ہی ہے؛ نہیں تو جتنی چیزیں دنیا میں جمع کی ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ کے یہاں کام نہیں دےگی اور نہ باقی رہے گی۔ ایک دفعہ جناب محمد رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کے یہاں بکری ذبح کی گئی اور ایک دست کے علاوہ پورا گوشت تقسیم کردیا گیا۔ آپؐ  نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ -رضی اللہ عنہا- سے پوچھا کہ کیا باقی رہا؟ عائشہ صدیقہ -رضی اللہ عنہا- نے جواب دیا کہ صرف ایک دست باقی رہا۔ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو گوشت تقسیم کیا گیا ہے وہ باقی ہے۔ یعنی جو گھر میں دست محفوظ تھا وہ باقی نہیں رہا اور جو تقسیم ہوگیا وہ باقی رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ثواب اللہ کے یہاں ملے گا اور جو گھر میں رہ گیا اس کا ثواب نہیں ملےگا۔ حدیث شریف  کا ترجمہ ملاحظہ فرمائے:

حضرت عائشہ ـ رضی اللہ عنہاـ روایت کرتی  ہیں کہ "انھوں نے ایک بکری ذبح کی (اور اس کا گوشت فی سبیل اللہ تقسیم کردیا گیا)، تو نبی  –صلی اللہ علیہ وسلم– نے سوال کیا: "اس میں سے کچھ باقی ہے؟" حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: صرف ایک دست باقی ہے (یعنی مابقی تقسیم کردیا گیا)۔  پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: "اس کے دست کے علاوہ سب باقی ہے (یعنی جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا وہ سب باقی ہے اور جو بچ کر گھر میں ہے وہ باقی نہیں ہے)۔" (سنن ترمذی،  حدیث : 2470)

ایک حدیث ہے  کہ جو شخص اپنا مال و دولت پسندیدہ اعمال میں خرچ کرتا ہے؛ تو فرشتے اس کے مال و دولت میں اضافہ کی دعا کرتے ہیں۔ جو شخص اپنا مال و دولت اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا، فرشتے  اس کے مال کے ضیاع کی دعا کرتا ہے۔ ذیل میں حدیث کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
"ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں، دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما! دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک کردے!" (صحیح بخاری، حدیث: 1442)

بخاری شریف میں ایک دوسری حدیث ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کی تکمیل کرے گا اور اس کی حاجات پوری کرے گا؛ تو اللہ تعالی اس کی ضروریات اور حاجات کی تکمیل غیب سے فرمائیں گے۔ حدیث شریف کا ترجمہ ملاحظہ فرمائے: "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے (مدد چھوڑ کر دشمنوں کے) حوالے کرے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری  کرتا ہے؛ تو  اللہ اس کی حاجت  (غیب سے) پوری کرے گا۔" (صحیح بخاری، حدیث: 2442)

حضرت اسماء بنت ابو بکر ر-ضی اللہ عنہما -فرماتی  ہیں کہ وہ نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- کی کے پاس آئیں؛ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: "(مال کو )تھیلیوں میں بند کرکے مت رکھو؛ ورنہ اللہ تعالی بھی تیرا (رزق) بند کردیں گے۔ جہاں تک ہوسکے خیرات و صدقات کرتی رہو"۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1434)

خالق کائنات اس دنیا کے نظام کو بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آج جو مالدار ہے، وہ کل غربت و افلاس میں مبتلا ہوجائے اور جو آج غریب ہے وہ کل امیر ہوجائے۔ حضرت امام ابو یوسف - رحمۃ اللہ علیہ - نے کیا خوب کہا ہے: "المال غاد ورائح"، یعنی مال ودولت ایسی چیز ہے جو صبح آتی ہے اور شام میں رخصت ہوجاتی ہے۔ یہ قادر مطلق اللہ تعالی کا ایک نظام ہے کہ وہ جب چاہتا ہے، اپنے بندوں میں کچھ لوگوں کے دامن کو مال اور دولت سے بھر کر غنی اور بےنیاز کردیتا ہے، اسے کسی کے پاس ہاتھ پھیلانے کی ضرووت نہیں پڑتی اور کچھ لوگوں کو افلاس و مسکنت کی حالت میں رکھ کر، ان کا حق و حصّہ اہل ثروت کے مال و دولت میں رکھ دیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالی اپنے ہر دو طرح کے بندوں کا امتحان لیتا ہے کہ مال و دولت کی عظیم نعمت پر کون اس ذات پاک کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اس نعمت سے محرومی پر کون پیمانۂ صبر کو لبریز نہیں ہونے دیتا ہے۔

آج دنیا میں جہاں بہت سے لوگ غربت و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں، وہیں کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے مال ودولت کی نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اہل دولت غرباء و مساکین کی دیکھ ریکھ بھی –ماشاء اللہ–  بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اپنے مال و دولت کو اوّلا غریبوں پر خرچ کرنا نہیں چاہتے اور اگر خرچ کرتے ہیں؛ تو کرنے کے بعد، اپنی نیت اور کم علمی کی وجہ سے، اخروی فائدے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؛  اس لیے ہر وہ شخص جس کو اللہ نے مال و دولت کی نعمت عطا کی ہے،  وہ بہت بڑی چیز ہے۔ وہ شخص اس کا درست اور مناسب استعمال کرے اور کسی کو دیتے وقت احسان، ایذاء، تند مزاجی اور ریاء و نمو سے پاک ہوکر دے۔ پھر اس کا بےشمار فائدہ ہوگا۔  اس مضمون کا اختتام ایک حدیث کے ترجمہ پر کرتا ہوں:

"بخیل اور خرچ کرنے والوں کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہےجو لوہے کے دو کُرتے (زرہیں) چھاتیوں سے ہنسلیوں تک پہنے ہوں، خرچ کرنے والا جب کچھ خرچ کرتا ہے؛ تو وہ کُرتا پھیل جاتا ہےاور پورے جسم پر بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کو چھپالیتا ہےاور نشان قدم مٹانے لگتا ہے۔ بخیل جب کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے؛ تو ہر حَلقہ اپنی جگہ چمٹ کررہ جاتا ہے۔وہ اسے کشادہ کرنا چاہتا ہے، مگر وہ کشادہ نہیں ہوتا"۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1443)

٭     ہیڈ : اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا۔