Saturday, October 3, 2020

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ : حیات وخدمات

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب ؒ  : حیات وخدمات

 

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

دار العلوم مرکز اسلامی کے بانی ومدیر ،ہمارے مشفق ومربی حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب   – رحمہ اللہ– تقریبا اسّی سال کے تھے۔ اس عمر میں بھی آپ اپنی ذمے داریوں کو بر وقت انجام دینے کے حوالے سے بہت ہی متحرک ونشیط تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجودبھی، آپ ہمیشہ تندرست وتوانا نظر آتے تھے۔ قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہو۔  بہرحال، 31/جولائی 2020 ء کوآپ کے بارے میں ایک مختصر سی خبر واٹس ایپ پر پڑھنے کو ملی کہ آپ دو دوز سے کچھ علیل چل رہے ہیں۔ پھر5/اگست کو یہ خبر ملی کہ آپ تقریبا چار بجے کواپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! سوشل میڈیا کے توسط سے آپ کی وفات کی خبر صبح ہوتے ہوتے ہند وبیرون ہند میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ مرکز اسلامی کے فضلا اور آپ کے محبین ومتعلقین کی طرف سے سوشل میڈیا پر دعائیہ اور  تعزیتی پیغامات موصول ہونے لگے۔

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ ایک نیک، صالح،منکسر المزاج،خوش اخلاق، ملنسار اور بزرگ عالمِ دین تھے۔ آپ کی سادگی، شرافت، حسن اخلاق، خاکساری اور تواضع کا ہر کوئی معترف تھا۔آپ بڑے  سیدھے سادھے اور بھولے بھالے انسان تھے۔اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد عربی –صلی اللہ علیہ وسلم–کی حدیث: «المؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ» (ترمذی: 1964)(ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور نیک دل ہوتا ہے۔) آپ پر پورے طور پر منطبق ہوتی ہے۔ آپ سے  ملاقات کے بعد، دلی  احساس کچھ اس طرح ابھر کر سامنے آتا تھا کہ

بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

        اللہ تعالی نے حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ کے دل میں اہل علم،  علما وفضلا اور اولیاء اللہ کے لیے بڑی محبت ودیعت فرما رکھی تھی۔ آپ اہل علم اور بزرگانِ دین سے بڑی محبت کرتے تھے۔ آپ علماء کرام اور بزرگان دین کو دعوت دیتے اور مرکز اسلامی میں مدعو کرتے۔ جب کوئی عالم وفاضل اور بزرگ شخصیت کی علاقے کے کسی ادارے میں آمد ہوتی؛  تو آپ ان کو مرکز اسلامی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ان سے بڑی محبت کا  اظہار فرماتے۔ ان کے سامنے خود کو اس طرح پیش کرتے کہ گویا ایک تلمیذ رشید اپنے شفیق استاذ کے سامنے کھڑا ہو۔ اپنے گھر سے کھانے کا انتظام کرتے اور ان کی ضیافت کرتے۔ جب طلبہ کو خطاب کرتے اور اکابر علما میں سے کسی کا کوئی واقعہ سناتے؛ تو آپ بڑے ادب واحترام اور پیار کے ساتھ ان کا نام لیتے۔ رویدرا میں حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ کے نکاح کی مجلس تھی۔ حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلیفہ حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈوی ؒ(شیخ الحدیث: مدرسہ  عربیہ امدادیہ، مراد آباد) نکاح سے قبل حاضرین مجلس کو خطاب  کر رہے تھے۔ انھوں نے دوران خطاب کوئی واقعہ بیان کیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ حضرت مولانا فورا کھڑے ہوئے، اپنی جیب سے رومال نکالا اور ان کے آنکھوں سے آنسو پوچھنے لگے۔ یہ تھی حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ  کی ایک عالمِ دین کے ساتھ محبت کا عالم۔

        حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ نمازکے بڑے پابند تھے۔ آپ پیرانہ سالی کے باوجود چاہے موسم گرما یا سرما یا موسم برسات آپ نماز  مدرسہ کی مسجد میں آکر ادا کرتے تھے۔  فجر کے وقت کبھی کبھی آپ خود ہی طلبہ کو بیدار بھی کرتے تھے۔  عصر کی نماز کے بعد، عام طور پر دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کے ساتھ بیٹھ جاتے اور ان کے ساتھ کچھ مذاکرہ کرتے۔دفتر اہتمام میں بھی بڑی پابندی کے ساتھ،آپ وقت پر تشریف لاتے۔ آپ صبح میں دفتر پہنچ جاتے اور چھٹی کے وقت تک رہتے۔ جو بھی کام ہوتا اسے بروقت انجام دیتے۔ آپ چھٹی کے وقت اپنے گھر جاتےاور اپنے گھر پر ہی کھانا تناول فرماتے۔ مدرسہ میں آکر ظہر کی نماز با جماعت ادا کرتے اور پھر دفتر میں داخل ہوجاتے اور  جو کام ہوتا اسے انجام دیتے۔ چاہے جتنا بھی کام کا بوجھ ہوتا، مگر آپ کسی طرح کی جھنجھلاہٹ کا اظہار نہیں کرتے۔ آپ ہمیشہ خوش نظر آتے۔

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ اور آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ  بندے  کےساتھ جو شفقت وکرم فرمائی اور پیار ومحبت کا معاملہ کرتے، اپنے گھر کے ایک فرد جیسا سلوک کرتے، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے بحیثیت مدرس تقریبا ڈھائی سال اس ادارہ میں خدمت انجام دی۔ مدرسہ میں کوئی پروگرام ہوتا؛ تو عام طور پر پروگرام کی نظامت کی ذمے داری اس راقم کو سپرد کرتے۔ ایک بار مرکز اسلامی کے جلسہ دستار بندی کی نظامت کی ذمے داری بھی اس بندے کو سپرد کی۔ اس جلسہ کی صدارت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی (دامت برکاتہم) فرما رہے تھے۔

جب کسی ادارہ میں کسی تقریب کا انعقاد ہوتا؛ تو اس راقم کو اس تقریب میں شرکت کے لیے ضرور بھیجتے۔  جب وہاں سے واپس آتا؛ تو دفتر میں بلا کر، تقریب کی پوری کارگزاری سنتے۔ اس طرح بندہ کو گجرات کے کئی مدارس کی زیارت کاموقع ملا۔ جب کہیں سے کوئی نئی کتاب یا رسالہ آتا؛ تو اس راقم کے حوالے کرتے،اس کی خواندگی کا حکم کرتے اور فرماتے کہ بھیجنے والوں کو شکریہ کا خط لکھ دوں۔

حضرت  کی انسانیت نوازی، خلوص اور اپنائیت آج کے دور میں تلاش بسیار کے بعد بھی مشکل سے ملتی ہے۔ بہرحال، اب آپؒ اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک کامیاب زندگی گزارکر ، آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مجھے  یقین ہے کہ آپ کے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے بہت سے آپ کے محبین ومتعلقین اور خاص طور پر مرکز اسلامی سے استفادہ کرنے والے سیکڑوں طالبان علوم نبوت آپ کو مدتوں یاد کریں گے۔

کچھ ایسی ہستیاں بھی عالمِ فانی میں آتی ہیں

فنا  کے  بعد بھی  جن کو زمانہ  یادکرتا ہے

اس جہان اور ہم سب کے خالق ومالک اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت مولانا موسی صاحب ماکروڈؒ کے لیے یہی وقت اور تاریخ مقرر کررکھا تھا؛ چناں چہ وہ اپنے وقت پر چلے گئے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مرکز اسلامی کی آبیاری میں صرف کیا۔ اللہ کے فضل وکرم سے، انھوں نے اس  ادارہ کو ایک چھوٹے سے پودے کی شکل میں شروع کیا اور اسے ایک بڑا ثمر آور درخت بنایا ۔ اس ادارہ سے سیکڑوں طالبان علوم نبوت نے استفادہ کیا اور کر رہے ہیں۔ اب ان کی ذمے داری ہے کہ وہ حضرت والا کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، ان کے لیے ایصالِ ثواب کریں، اپنی استطاعت کے مطابق ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کریں اور ان کے پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کریں۔

آپ کی ولادت اور آبائی وطن:

        حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب کی پیدائش مورخہ: 22/نومبر 1939 کو اپنے آبائی گاؤں:"دیوا"، ضلع: بھروچ، گجرات  میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام جناب اسماعیل ماکروڈ تھا۔آپ کے والد ماجد معاش کی تلاش میں، ہندوستان سے افریقی ملک ساؤتھ افریقہ کے لیے رخت سفر باندھا۔ پھر ساؤتھ افریقہ کے مشہور شہر: ڈربن میں  مقیم رہ کر، اپنے اہل عیال کی کفالت کے لیے جد وجہد میں لگے رہے۔

تعلیم وتعلم:

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی۔ پھر ثانوی درجے کی تعلیم کےحصول کے لیے سن 1952 میں، جامعہ حسینیہ، راندیر، سورت میں داخلہ لیا۔ آپ نے اس ادارہ سے فضلیت تک کی تعلیم کی حاصل کی۔  سن 1959ء میں، آپ نے  دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگردحضرت مولانا احمد صاحبؒ سے بخاری شریف پڑھی اور اجازتِ حدیث حاصل کی۔

جامعہ حسینیہ سے فراغت کے بعد، دار العلوم دیوبند کے اساتذۂ کرام سے استفادہ کےلیے "دیوبند" کا سفر کیا۔ آپ تقریبا دو سال تک دیوبند میں مقیم رہے۔ اس دوران آپ نے اساتذۂ دار العلوم، دیوبند  کے اسباق میں شرکت کرکے استفادہ کیا۔ آپ نے حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی صاحبؒ، حضرت علامہ فخر الدین صاحبؒ اور حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ  کے دروس میں خاص طور پر شرکت کرکے استفادہ کیا۔ دیوبند میں قیام کے دوران، آپ دار العلوم کے کبار اساتذہ کرام کی مجلسوں میں بھی شرکت کرتے  اور ان کے ملفوظات سے استفادہ کرتے۔

بیعت وسلوک اور اجازت وخلافت:

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ کا ایک طویل زمانے تک حضرت تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ سے اصلاحی تعلق رہا۔ ان کی وفات کے بعد، حضرت شیخ الحدیث کے خلیفہ اجل، حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈویؒ، (سابق شیخ الحدیث: مدرسہ عربیہ امدادیہ، مرادآباد، یوپی) سے اصلاحی تعلق رہا۔ ان کی وفات کے بعد، آپ نے  شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی مدظلہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ حضرت مولانا الہ آبادی –مدظلہ العالی–اور حضرت مولانا منیر صاحب–دامت برکاتہم–نے آپ  کو خلافت سے بھی نوازا، الحمد للہ۔

آپ کی وفات:

حضرت مولاناکروڈ صاحبؒ مختصر سی علالت کے بعد،  5/اگست 2020 کو، صبح چار بجے، انکلیشور میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔

آپ کے پس ماندگان

حضرت مولاناموسی ماکروڈ صاحبؒ کو اللہ تعالی نے تین بیٹے اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ آپ کے ایک صاحب زادے: حضرت مولانا اسماعیل ماکروڈ صاحبؒ نائب مدیر: دار العلوم مرکز اسلامی وڈائریکٹر: مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر تھے جن کی وفات 17/نومبر2018 کو، جودھپور سے انکلیشور آتے ہوئے ایک کار حادثہ میں ہوگئی۔مولانا مرحوم کو اپنے اس صاحبزادے سے بہت امیدیں وابستہ تھی۔ مگر اللہ سبحانہ وتعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بہرحال، جب تک مولانا اسماعیل صاحب آپ کے ساتھ رہے،آپ  کے بڑے ہی معاون، بہت سے تعلیمی وانتظامی کاموں میں آپ کے رفیق  اور سیکڑوں کام کی انجام دہی  میں وہ آپ کا ہاتھ  بٹاتے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک بیٹے کے لیے اپنے والد کا  جنازہ اٹھانا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا ایک بوڑھے باپ کے لیے اپنے جوان بیٹے  کا جنازہ اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا موسی صاحبؒان کی وفات سے بہت متاثر ہوئے۔  ان کی وفات کے بعد، جب بھی مولانا سے میری بات ہوتی؛ تو  وہ اپنے صاحبزادے کا ذکر خیر ضرور کرتے ۔

آمدم بر سر مطلب! مولانا اسماعیل صاحب کی وفات کے بعد،آپ کے  پس ماندگان میں، آپ کی  اہلیہ محترمہ–حفظہا اللہ –،دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ آپ کےایک صاحبزادے جناب اقبال موسی ماکروڈصاحب ہیں جو اپنی اہلیہ کے ساتھ لیسٹر، انگلینڈ میں مقیم تھے۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ کی وفات کے بعد، اپنے والد کے معاون ومددگار کی حیثیت سے دار العلوم مرکزاسلامی میں، خدمت انجام دینا شروع کیا اور اب تک مرکز سے منسلک ہیں۔  دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے!

آپ کے دوسرے صاحبزادےجناب زبیر موسی ماکروڈ صاحب ہیں۔ وہ نیو یارک، امریکہ میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ آپ کی چار بیٹیوں میں سے ایک  بلقیس یوسف ٹوپیا ہیں۔ وہ ایک خاتونِ خانہ ہیں۔ وہ   گلاسٹر، انگلینڈ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ پھر آپ کی دوسری صاحبزادی  نفیسہ سعید حجازی ہیں جو نیویارک، امریکہ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ آپ کی تیسری صاحبزادی ہاجرہ جاوید جوگیات ہیں جو  نونیٹن، برطانیہ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ آپ سب سے چھوٹی صاحبزادی  خدیجہ سعید پٹیل ہیں۔ وہ بھی اپنے خاوند کے ساتھ نیو یارک، امریکہ میں مقیم ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور ان کے  پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے! آمین!

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب ؒ  کی تعلیمی خدمات

دار العلوم مرکز اسلامی کا قیام:

ہمارے حضرت مولاناموسی ماکروڈ صاحبؒ نے چھوٹی بڑی درجنوں خدمات امت کے لیے انجام دی۔ ہم آپ کی  تعلیمی خدمات کو یہاں مختصرا پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کی خدمات کا عظیم شاہ کار دار العلوم مرکزِ اسلامی کا قیام ہے۔ آپ نے اس ادارہ کی تاسیس وقیام کے روز اول سے اپنی موت تک، اپنے چند رفقاء کرام کی معیت میں، اس ادارہ کو احسن طریقے سے چلایا۔ یہ ادارہ کیسے قائم ہوا اور کیوں قائم ہوا، ہم ذیل میں اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ پھر اس ادارہ کی خدمات کو بھی مختصرا ہم پیش کریں گے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کرام کو معلوم ہوسکے کہ مولانا ماکروڈؒ نے اس ادارہ کو کیوں قائم کیا اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ پھر اس ادارہ نے  امت کے لیے کیا خدمات پیش کی۔

گجرات کی سرزمین پر "دار العلوم مرکزِ اسلامی، انکلیشور" ایک جانا پہچانا نام ہے۔اس ادارہ کی تاسیس کے حوالے حضرت مولانا موسی صاحب رحمہ اللہ بتایا کرتے تھے کہ وہ ذریعۂ معاش کے لیے، اپنے گاؤں کے قریب کے شہر"انکلیشور" میں، ایک اسٹیشنری کی دوکان کا آغاز کیا اور اس میں مشغول ہوگئے۔ آپ کے استاذ حضرت مولانا محمد سعید صاحب راندیریؒ، مھتمم: جامعہ حسینیہ، راندیر، سورت،نے آپ کو مشورہ دیا کہ دوکان کے ساتھ ساتھ، آپ انکلیشور میں، ایک مکتب قائم کریں اور وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں! حضرت راندیریؒ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے، آپ نے سن 1975ء میں، انکلیشور مسافر خانہ میں"انوار الاسلام" کے نام سے ایک مکتب قائم کیا اور اپنی دوکان چلانے کے ساتھ ساتھ، جز وقتی طور پر  بچے اور بچیوں  کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف ہوگئے۔

کچھ سالوں کے بعد، طلبہ کی کثرت کی بنا پر مسافر خانے کی جگہ تنگ ہونے لگی؛ لہذا دوست واحباب کے مشورے سے آپ نے انکلیشور میں ایک بڑی جگہ پر، ایک ادارہ قائم کرنے کی نیت کرلی۔آپ نے انکلیشور میں جی جی سی ایل (گجرات گیس کمپنی لمیٹیڈ) کے قریب، بتوفیق خداوندی ایک بڑی زمین کا انتظام کرلیا۔ پھر سن1405ھ = مطابق: 1984ء میں،"دار العلوم مرکزِ اسلامی" کے نام سےاس ادارہ کا سنگ بنیاد، وقت کی دو عظیم شخصیات حضرت مولانا رضا احمد صاحب اجمیری ؒ، شیخ الحدیث: دار العلوم اشرفیہ، راندیر، سورت، گجرات اور حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈویؒ، شیخ الحدیث: مدرسہ عربیہ امدادیہ، مراد آباد کے ہاتھوں ڈلوایا۔

جب تک یہ اکابرباحیات رہے، ادارہ ان کی سرپرستی میں چلتا رہا۔ حضرت مولانا رضا احمد اجمیری صاحبؒ کی وفات کے بعد، حضرت مولانا معین الدین صاحبؒ گونڈوی اس ادارہ کی سرپرستی کا فريضہ انجام دیتے رہے۔ حضرت گونڈوی کی وفات کے بعد، اس وقت ادارہ کی سرپرستی شیخِ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی (حفظہ اللہ) فرمارہے ہیں۔ حضرت شیخ طریقت کی سرپرستی اور حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب –رحمہ اللہ– کے زیر اہتمام، اب تک یہ ادارہ  دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر رہا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس ادارہ کو حضرت مولانا  کا نعم البدل عطا فرمائے اور مستقبل میں مزید ترقیات سے نوازے اور یہ دین کا قلعہ ہمیشہ سر سبزو شاداب رہے!

دار العلوم مرکزِ اسلامی میں، اردو کے ابتدائی درجات سے عالمیت تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وقت اور تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے "نصاب" میں قدرے ترمیم کرکے، عربی چہارم تک کے طلبہ کے لیے انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی تعلیم کا بھی نظم ہے۔ اب تک اس ادارے  سے تقریبا پانچ سو طلبہ کرام عالمیت کی تکمیل کے بعد، ہند وبیرون ہند میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

عالمیت کے علاوہ، اس ادارہ میں  حفظ القرآن الکریم کے گیارہ حلقے ہیں۔ان حلقوں میں 260 طلبہ کرام، 11 ماہر اساتذۂ حفظ کی زیر نگرانی، کلام اللہ شریف کو زبانی یاد کرتے ہیں۔ اب تک دار العلوم کے شعبہ حفظ سے 536 طلبہ نے حفظ القرآن الکریم کی تکمیل کی ہے۔

قرآن کریم کو صحیح طریقے سے تجوید کے ساتھ پڑھنا لازم اور ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو تجوید کے ساتھ نہیں پڑھتا؛ تو وہ گنہگار ہے۔حضرت مولانا موسی صاحبؒ نے اس بات کا خیال کرتے ہوئے، مرکز میں تجوید وقرات کا ایک شعبہ قائم کیا۔ سن 1440ھ کی رپورٹ کے مطابق، اس شعبے سے 120 طلبہ نے حفص، 94 طلبہ نے سبعہ، 42 طلبہ نے ثلاثہ اور 9/طلبہ نے عشرۂ کبیر کی تکمیل کرکے قاری کی سند حاصل کی ہے۔ یہ طلبہ ہند وبیرون ہند میں تجوید کی تدریس اور مساجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

دار العلوم مرکزِ اسلامی سے فارغ ہونے والے طلبہ میں، فقہ وفتاوی کی دل چسپی کو محسوس کرتے ہوئے، دار العلوم نے سن 2010ء میں "تخصص في الفقہ" کا شعبہ قائم کیا۔ اس شعبہ میں طلبہ کرام داخل ہوکر، مفتیان کرام کی نگرانی میں، فقہ اسلامی میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ اب تک  29/علماء کرام نے یہاں سے مفتی کی سند حاصل کی ہے اور وہ قوم وملت کی خدمت میں مشغول ہیں۔

جو طلبۂ کرام دار العلوم میں زیر تعلیم ہیں، ان میں تقریری وتحریری صلاحیت پیدا کرنے کے لیے دار العلوم میں تین انجمنیں بھی ہیں جن کا ہفت واری پروگرام، اساتذۂ کرام کی نگرانی میں، بڑی پابندی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ "انجمن تربیت الطلبہ" کے نام سے جو انجمن ہے، اس کے تحت طلبہ اردو زبان میں تقریر وتحریر کی مشق کرتے ہیں۔ عربی زبان میں تقریری وتحریری صلاحیت کو بیدار کرنے کے لیے "النادي الأدبي" کے نام سے ایک انجمن قائم ہے۔ اسی طرح تلاوت، اذان، امامت اور خطبۂ جمعہ وغیرہ کی تربیت کے لیے بھی ایک انجمن ہے جسے "انجمن تحسین القرآن الکریم" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سن 1984ء  میں طلبہ اور اساتذہ کی معمولی تعداد سے،حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ نے دار العلوم مرکز اسلامی قائم کیا۔ اللہ تعالی نے اس ادارے کو مقبولیت سے نوازا  اور آج اس ادارے میں تقریبا 550/ طلبہ کرام مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنھیں دار العلوم تعلیم اور حسن اخلاق کے زیور سے سنوارتا ہے۔ ان طلبہ کی تعلیمی وذہنی آبیاری کے لیے جہاں 44/اساتذۂ کرام شب وروز مشغول رہتے ہیں، وہیں دوسرے 15/ملازمین مطبخ، واشنگ روم، صفائی وغیرہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب اللہ پاک کی مہربانی اور حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ کے حسن انتظام کا نتیجہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی خدمات کو قبول فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور اس ادارہ کو ہر طرح کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے!

مرکزِ اسلامی گجراتی اسکول کا قیام:

عصر حاضر میں اسلامی اسکول کی اہمیت وافادیت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا؛ بل کہ آج بہت سے مفکرین واہل قلم حضرات اپنے خطابات ومقالات میں وقت کی اس اہم ضرورت کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ جس شخص یا تنظیم وادارہ کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اسلامی اسکول چلاسکتے ہیں؛ تو وہ ضرور چلائیں۔  الحمد للہ،  حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ نے اس ضرورت کو بہت پہلے محسوس کیا اور تقریبا چار دہائی قبل، سن 1984 میں، دار العلوم مرکزِ اسلامی کے زیر انتظام، ایک اسلامک  اسکول بہ نام: "مرکزِ اسلامی گجراتی اسکول" قائم کیا۔یہ اسکول "گویا بازار، انکلیشور" میں، دار العلوم کی عمارت میں چل رہا ہے۔اس اسکول کا مقصد مسلم بچوں کو اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے ساتھ حسن اخلاق سے بھی سنوارنا ہے۔یہ اسکول گجرات حکومت سے دسویں جماعت تک منظور ہے۔ اس میں تقریبا 432/ طلبہ، 15 اساتذہ کرام کی نگرانی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ اس اسکول سے تعلیم کی تکمیل کے بعد، مختلف کالجز اور یونیور سٹیز میں اعلی تعلیم کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔ الحمد للہ علی ہذا!

مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کا قیام:

عصر حاضر میں انگریزی زبان کی اہمیت وافادیت چاہے وہ مختلف علوم وفنون کو جاننے اور سمجھنے کے حوالے سے ہو یا پھر دین متین کی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے،کسی بھی اہل عقل وخرد پر مخفی نہیں ہے۔ چناں چہ حضرت مولانا موسی صاحبؒ نے اپنے چھوٹے صاحبزادےحضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ "مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، دہلی" میں انگریزی زبان کے حصول کے لیے بھیجا۔ انھوں نے اس ادارے میں رہ کر انگریزی زبان سیکھی۔ پھر جب اپنے وطن لوٹے؛ تو انھوں مرکز المعارف کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ نے اپنے والد ماجدؒ کو علماء کرام کے لیے انگریزی زبان وادب کی اہمیت وافادیت کا بار بار ذکر کرتے رہے۔ کئی بار آپ نے اپنے والد صاحبؒ  کو ادارہ قائم کرنے کی جانب متوجہ بھی کیا۔

دوسری طرف حضرت مولانا موسی صاحبؒ کے ذہن میں بھی یہ بات آئی کہ مدارس اسلامیہ ہندیہ سے ہر سال کئی ہزار طلبہ فارغ ہوتے ہیں۔ ان جدیدفارغین کو انگریزی سکھانے کے لیے صرف ایک مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کافی نہیں ہے؛ بل کہ اس ادارے کے طرز اور نہج پر اور بھی اداروں  کا قیام  وقت کی اہم اور اشد ضرورت ہے؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ فضلاء مدارس اسلامیہ انگریزی زبان وادب سے مسلح ہوکر، عصر حاضر میں، بغیر کسی جھجھک کے کسی سے بھی مخاطب ہوکر، بہ سہولت دینی ودعوتی خدمات انجام دے سکیں۔

حضرت مولانا موسی صاحبؒ شعبہ انگریزی کے قیام کے لیے تیار ہوگئے؛ مگر انھوں نے قیام سے قبل یہ مناسب سمجھا کہ اکابر علما کرام سے اس سلسلے میں مشورہ کرلیا جائے کہ دار العلوم کے احاطہ میں اس شعبہ کا قیام کیسا رہے گا۔ پھر حتمی طور پر ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا جائے۔ پھر آپ نے متعدد اکابر علما سے درخواست کی کہ وہ حضرات اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ان اکابر نے انگریزی زبان کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے، اس شعبہ کے قیام کی موافقت کی۔ ان علما کی موافقت سے ہمت وحوصلہ پاکر، حضرت مولانا موسی صاحب نے احاطۂ دار العلوم مرکز اسلامی میں اس شعبہ کے قیام کا پختہ ارادہ کرلیا۔

سینٹر کی تاسیس:

مشورہ کے بعد، مولانا ماکروڈ صاحبؒ نے اس شعبے کے قیام کےلیے منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس منصوبے کے تحت دار العلوم مرکزِ اسلامی، انکلیشور کے زیر انتظام، دار العلوم کے ہی احاطے میں "مرکزِ اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر" کے نام سے انگریزی زبان وادب کے شعبے کاقیام عمل میں آیا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ انگریزی زبان وادب کا دوسالہ کورس ایک دینی مدرسہ کے احاطہ میں قائم ہورہا تھا۔  اس شعبے کی نظامت کی ذمہ داری  مولانا ماکروڈ صاحبؒنے اپنے صاحبزادے مولانا اسماعیل صاحبؒ کو سپرد کی۔ مولانا اسماعیل صاحب ؒنے اس خاکہ میں رنگ بھرنے کی پیہم کوشش شروع کردی؛ چناں چہ اپنے ہی ایک ساتھی حضرت مولانا شمس الہدی صاحب قاسمی کی تقرری اس شعبہ کے استاذ اور ہیڈ ٹیچر کے طور پر کی۔ اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف مدارس وجامعات کے نو فارغ، ان فضلا کو داخلہ دیا گیا جن کو دعوت وتبلیغ اور زبان وادب کے سیکھنے میں دل چسپی تھی۔ پھر اس ادارہ نے عملی طور پر اپنی خدمات شروع کی۔

سینٹر کے فیض یافتگان کی تعداد اوران کی خدمات:

ہر سال مختلف مدارس اور جامعات سے فارغ ہونے والے علما کی ایک بڑی تعداد، اس شعبے میں داخلے کے لیے کوشش کرتی ہے؛  تاکہ وہ دینی ودعوتی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر انگریزی زبان سیکھ سکیں۔ شروع میں تو تقریبا پچیس علما کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ اب چند سالوں سےتقریبا30-35/ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ،  یہ ادارہ تقریبا 17/سالوں سےمدارس وجامعات کے فضلا کو انگریزی زبان وادب سے مسلح کر رہا ہے۔ اس قلیل مدت میں اب تک اس ادارے سے جتنے علماء کرام نے انگریزی زبان وادب کےحوالے سے استفادہ کیا ہے، ان کی تعدادتقریبا"دو سو ستر" ہے، الحمد للہ۔ ان میں سےاکثر علما تدریسی خدمات میں مشغول ہیں۔ ان میں سے درجنوں دوسرے ممالک مثلا: برطانیہ، امریکہ، کناڈا، ساؤتھ افریقہ، زامبیا، زمبابوے، بوسٹوانا، آسٹریلیا وغیرہ میں تدریسی اور دینی ودعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور شعبہ کی نیک نامی کا ذریعہ بنائے! آمین!●●●

Thursday, June 4, 2020

An Exemplary Teacher of Hadeeth: Mufti Saeed Ahmad Palanpuri (Rahimahulllah)


An Exemplary Teacher of Hadeeth: Mufti Saeed Ahmad Palanpuri (Rahimahulllah)

By: Khursheed Alam Dawood Qasmi
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

In the blessed month of Ramadhan, a renowned exemplary teacher of Hadeeth and towering scholar of Islamic jurisprudence, Mufti Saeed Ahmad Palanpuri (May Allah have mercy on him and grant him Jannah!) passed away. From the time we started learning from him, we realised and understood his great personality and the value and significance of his teaching. As the scholars from the world expressed their pain and grief over his sad demise, it added more importance and worth to our hearts than ever before. He spent his noble and beautiful life in studying, teaching, lecturing, addressing the gathering of masses and authoring and compiling precious books on several topics of Islamic sciences. He rendered his services within the country and abroad like European and African countries, the USA and Canada etc. Keeping his works in mind, it can be admitted that such personalities are born after a long time.

The Teaching Services:

            There are numerous prominent aspects of Mufti Sahib’s services to be covered. He was an able teacher, favourite lecturer, orator, acclaimed author, famous publisher and a businessman too. I am blessed and honoured to say that the Almighty Allah gave me a golden chance to learn two books of Hadeeth: SunanTirmidhi and SharhuMaa’ni Al-Aathar from him. So, for me, he was a great, respected and exemplary teacher and mentor. In this piece of writing, therefore, I would like to highlight his teaching services and characteristics of teaching briefly, In Shaa Allah. He was an ideal teacher with his unique style and typical teaching methodology. One and all appreciated and acknowledged his this quality. The student always desired to emulate him in his teaching methodology, if they were to get a chance for teaching in order to get their students satisfied with their lessons.

Mufti Sahib (Rahimahullah) began his teaching while he was a learner. When he was a student of Iftaa Course at DarulUloom Deoband, in 1382 AH, he started teaching “Hifz Al-Quran Al-Kareem” to his younger brother, Mufti Muhammad Ameen Palanpuri (Hafizahullah). Mufti Ameen Sahib writes: “He (Mufti Saeed Ahmad) took me to Deoband in 1382 AH along with him. He got this humble person (Mufti Ameen) enrolled in the Hifz class of Qari Kamil Sahib Doebandi. I could not benefit from Qari Sahib. Then he took the full responsibility of teaching me Hifz of the Holy Quran. He made me Haafiz within one and a half year.” (Al-Khair Al-Kathir, P: 48)

Teaching Service in Darul Uloom Ashrafiyah, Rander:
Following the completion of Iftaa Course, Mufti Sahib remained as an Assistant Mufti for some period of time at Darul Uloom Deoband. Later, at the recommendation of Allamah Muhammad Ibrahim Baliavi (RA), he was appointed as a teacher in Darul Uloom Ashrafiyah, Rander, Surat, Gujarat in 1384 AH. Over the time of almost nine years, he served in Ashrafiyah as a teacher from Dul-Qa’adah 1384 AH till Shaban 1393 AH. During this period, he taught several books of higher level like: Sunan Tirmidhi, Sunan Abi-Dawood, Tahawi, Muwattein, Sunan Nasa’aee, Sunan Ibn-Majah, Mishkat, Jalalein, Al-Fauz Al-Kabeer, Translation of the Qura’an, Hidayah, Sharh Aqaaid, Husaami etc. (Al-Khair Al-Kathir, P.: 50)

Appointment at DarulUloom Deoband:
Very few people are blessed with such instructive and teaching capability as that of Mufti Sahib. Not only his students, but also his teachers bear witness to   this fact. In 1393 AH, when there was a vacancy for teacher in Darul Uloom Deoband, his teacher Sheikh Hashim Bukhari (Rahimahullah), then the teacher of Darul Uloom Deoband, asked him to apply for the said post and he did so. In the month of Shaban of the same year, his application was accepted in the meeting of the governing body of Darul Uloom Deoband and he was informed about his appointment at Darul Uloom Deoband. Then in Shawwal in 1393 AH, he joined Darul Uloom Deoband as a respected teacher. Since then the journey started in 1393 AH in Darul Uloom Deoband, continued till he breathed his last on 19 May 2020.

He served in Darul Uloom Deoband nearly 48 years. The management also appreciated and acknowledged his teaching ability and expertise of the books assigned to him and the academic council continued promoting him. The books that he taught are Sullamul Uloom, Mullah Hasan, Hadyah Saeediyyah, Mebzi, Hidayah, Husami, Musallam Al-Thubut, Al-Fauz Al-Kabeer, Talkhis Al-Itqaan, Sharh Aqaaid, Siraji, Rashidiyah, Musaamrah, Hujjatullahi Al-Balighah, Diwan Al-Mutanabbi, Diwaan Al-Hamasah, Saba’ah Muallaqah, Jalalein, Tafseer Baidhavi, Tafseer Mazhari, Tafseer Madaarik, Nukhbah Al-Fikr, Muqaddamah Ibn Salaah, Mishkaat, Tahawi, Muwatta Imam Malik, Muwatta Imam Muhammad, Sunan Ibn Majah, Sunan Nasa’aee, Sunan Tirmidhi, Sunan Abi-Dawood, Sahih Muslim and Sahih Bukhari. Presently he held the posts of Sheikhul Hadeeth and Head-Teacher.

Some Characteristics of Mufti Sahib in Teaching:
Mufti Sahib was a distinguished figure due to his matchless teaching methodology. There were many characteristics and distinctive features in his teaching which are not altogether found generally in a teacher. Here, I am going to mention few of them as I came across while learning from him:

He was very much punctual of attendance. He used to come to the class on time. His lesson planning was so well that he would teach it within the period and leave the class as the bell rang.

He used to avoid going on a long journey during academic year so that it would not disturb the syllabus to complete during the assigned time.

His lecture carried on at the same pace, be it in the beginning of the year or at its end until he completed the syllabus.

The students were bound to follow his rules and regulations set in the class. The students were not allowed to enter the class, after he has had arrived in the classroom.

Apart from the lesson, he used to spend few minutes every day to make the students memorise some Ahaadith and Asmaaul Husna. He used to advise the students to do the same with their students so that it will become a continuous charity.

In the beginning of the year, he used to deliver some introductory lectures on the science of Hadeeth. During these lectures, he used to cover the topics like: Hadeeth, Tadween Hadeeth, Wahi, Kinds of Wahi, Hujjiatul Hadeeth, Ijmaa, Qayaas, Taqleed etc. These lectures were keys to the treasure of knowledge. Now, it is preserved and recorded in the first volume of “Tohfatul Al-Maee”, Al-Hamdulliah.

He worked hard in studying the books and did not think to waste his precious time at all. He was a favourite and perfect teacher. He knew the psychology of the students and taught them according to their level of understanding. It was, therefore, easy for the students to grasp the lessons easily to their best satisfaction.

He was blessed with such teaching talent that whenever a difficult and complicated topic was raised, he used to cite some examples that even the slow learners used to understand and comprehend his lesson effortlessly.

Due to his teaching methodology, he was a beloved celebrated teacher among the students. They loved him from the bottom of their hearts. They attended his lessons happily with punctuality.

He delivered his lecture with such velocity that the students were easily able to note down his lectures on papers. That is the reason thousands of his students noted down his lectures on Tirmidhi and well preserved it.

Whenever he explains the difference of opinions among the different schools of thought in Fiqh, he avoided giving preference to the opinion of a certain Imam; instead his focus remained on highlighting the basis and reason of the difference, so that the students can understand the reason behind the view of each Imam about the contentious issue.

Every student was not permitted to read the text of Hadeeth in Sunan Tirmidhi class. Whoever wished to do so, he had to pass the test. The criteria of passing the test were reading Ibaarah with proper pause understanding the punctuation, with clear voice, with average speed and without making a grammatical mistake in the Arabic text.

At the end of the year, he divided the graduating students into several categories like: those who would go for further studies, those who will start teaching, those who will do business and those who will go in Tablighi Jama’ah. He used to advise them accordingly.

Mufti Sahib was expert in several sciences of Islamic studies. He was an exemplary teacher as well as a renowned Mufti in the world. He issued hundreds of Fataawa which are documented in the register. He was a good manager too. As a director, he ran “Majlise Tahaffuze Khatme Nabuwwat” at Darul Uloom Deoband. The Majlis played a key role in creating awareness among the masses about our beloved prophet and messenger Muhammad (SAWS) being the last and final prophet and messenger of Allah as the Majlish also made them aware of the false prophet-hood of Mirza Ghulam Ahmad Qadiyani. He was a well-known orator and preacher. For this purpose, he was invited from across the world and he would travel within the country and abroad. Specially, in the long holiday of Ramadahn, he used to visit England, USA, Canada and several African countries. The people eagerly gathered in crowd to listen to his speeches. Little bit, I have tried to highlight his prominent service as a teacher in this piece of writing only.

Mufti Sahib was about 80 years old. He used to fall sick frequently for last several years and got recovery. This year too, he fell sick in the month of Rajab. In the last lesson of Bukhari, he became seriously ill. He reached Mumbai. The treatment started. He recovered as well and was able to deliver speeches after Tarawih Salaah regularly. Later on, he fell sick again and was admitted in Sanjeevani Hospital in Malad (East) where he breathed his last in the morning on 25th Ramadhan 1441 AH =19th May 2020. The news of his death was announced by his son. His relatives and the students scattered all over the world were saddened following the news of the demise spread. The social media was abuzz with news of making Duaa, reading the Qura’an and passing the condolences via letters and video and audio clips. On the same day, he was buried in Oshiwara Muslim Qabristan of Jogeshwari (West) in Mumbai. The Janazah Salah was led by his son, Maulana Ahmad Saeed Sahib. May the Almighty accept his services! May Allah grant him Jannatul Firdause! Aameen! ***

قرآن کریم کے ساتھ اسلاف واکابر کا شغف

قرآن کریم کے ساتھ اسلاف واکابر کا شغف

از: خورشید عالم داؤد قاسمی
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

اللہ تعالی نے قرآن کریم کو جہاں امت محمدیہ کی رشدوہدایت کے لیے نازل فرمایا، وہیں اس میں بہت سے برکات بھی رکھے ہیں۔ اس کتاب میں تدبروتفکر اور سمجھ کر پڑھنے سےانسان بخوبی نشانِ منزل کو پالیتا ہے۔ اگر کوئی شخص عربی زبان وادب کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے، مگر اسے پڑھنے پر قادر ہے؛ تو ایسے شخص کو بھی اس کتاب ہدایت کی تلاوت ضرور کرنی چاہیے۔ یہ ایسی بابرکت کتاب ہے کہ اسے بغیر سمجھے ہوئے، صرف الفاظ کو  پڑھنے سے بھی آدمی اجر وثواب کا مستحق ہوتا ہے۔  ایک حدیث شریف میں تو یہاں تک آیا ہے کہ اگر کوئی حافظ قرآن نہیں ہے اور وہ شخص قرآن کریم کی تلاوت اٹک اٹک کر، مشقت کے ساتھ کرتا ہے؛ تو اس شخص دوگنا ثواب ملے گا۔ حضرت عائشہؓ  بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ، وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ، وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ، فَلَهُ أَجْرَانِ". (صحیح بخاری: 4937) ترجمہ: "اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے؛ جب کہ وہ قرآن کریم  کا حافظ ہے،(تو وہ) مکرم اور نیکی لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور اس شخص کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہےاور وہ بار بار پڑھتا ہے؛ جب کہ وہ اس کے لیے دشوار ہے(یعنی وہ شخص حافظ نہیں ہے اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہے)؛ تو اسے دوگنا ثواب ملے گا"۔
قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے کو جو اجر وثواب ملے گا، ا س کی تفصیل ایک حدیث شریف میں آئی ہے کہ ایک حرف کے پڑھنے پر ایک نیکی ملے گی۔ پھر وہ ایک نیکی دس گنا کردی جائے گی۔  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لاَ أَقُولُ الْم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلاَمٌ حَرْفٌ، وَمِيمٌ حَرْفٌ". (ترمذي: 2910) ترجمہ: "جس نے اللہ کی کتاب (قرآن کریم) کا ایک حرف پڑھا؛ تو اس کے بدلے اس شخص کے لیے ایک نیکی ہے اور وہ نیکی دس گنا ہوگی ۔ میں نہیں کہتا ہوں کہ "الم" ایک حرف ہے؛ بلکہ "الف" ایک حرف ہے، "لام" ایک حرف ہے اور "میم" ایک حرف ہے"۔
اگر کوئی شخص اس قرآن کریم کی تلاوت پر قادر نہیں ہے، مگرکسی کو پڑھتے دیکھتا ہے؛  تو رغبت ومحبت سے اسے غور سے سنتا ہے؛ تو اس پر بھی اس کو ثواب ملے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ، وَمَنْ تَلَاهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ " (مسند احمد: 8494) ترجمہ: جو شخص قرآن کریم کی ایک آیت بھی غور سے سنے؛ تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے، جو بڑھتی چلی جاتی ہے اور جو قرآن کریم کی ایک آیت کی بھی تلاوت کیا، وہ اس کے لیے قیامت کے دن روشنی ہوگی۔ " ایک دوسری روایت میں  ہے کہ جو شخص وضو کی حالت میں قرآن کریم کا ایک حرف سنتا ہے؛ تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے دس درجے بلند کیے جاتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:  "مَنْ اسْتَمَعَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ طَاهِرًا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ." (شعب الإيمان: 1918)
قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ، ایک آدمی قرآنی احکامات پر عمل بھی کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی ایسے شخص کو جنت میں داخل فرمائيں اور اس کی سفارش قبول فرمائيں گے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے، قرآن کریم زبانی یاد کرتا ہے، اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے؛ ایسے شخص کو اللہ تعالی جنت میں داخل فرمائیں اور اس کے گھر کے دس لوگوں کے سلسلے میں اس کی سفارش بھی قبول فرمائیں اور وہ دس لوگ اس کی سفارش کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ، فَأَحَلَّ حَلاَلَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ". (سنن ترمذي: 2905) ترجمہ: جس نے قرآن کریم پڑھا اور اس کو حفظ کیا۔ پھر قرآن نے جس چیز کو حلال کیا ہے، اس کو حلال سمجھا اور جس چیز کو حرام کیا ہے، اس کو حرام سمجھا(یعنی قرآن کے احکام پر عمل کیا)؛ تو اللہ اس کو اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل فرمائیں گے اور اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے حوالے سے اس کی سفارش قبول فرمائیں گے، جن کے لیے دوزخ واجب ہوچکی ہوگی۔
قرآن کریم کی تلاوت کے حوالے سے اور بھی بہت ساری حدیثیں ہیں، جن میں قرآن کریم کی تلاوت کے فوائد اور اجر وثواب کو ذکر کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم سے شغف کا یہ عالم تھا کہ کہ کبھی کبھی  نفل نماز کی پہلی رکعت میں پوری سورہ بقرہ  پڑھ لیتے، دوسری رکعت میں پوری سورہ آل عمران پڑھ لیتے، تیسری رکعت میں پوری سورہ نساء پڑھ لیتے اور چوتھی رکعت میں پوری سورہ مائدہ یا پھر سورہ انعام پڑھ لیتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے: فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَقَرَأَ فِيهِنَّ الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ، وَالنِّسَاءَ، وَالْمَائِدَةَ، أَوِ الْأَنْعَامَ، شَكَّ شُعْبَةُ. (سنن ابو داؤد: 874) ترجمہ: پس آپ  صلی الہ علیہ وسلم نے چار رکعتیں پڑھی؛ چناں چہ ان میں سورہ بقر، سورہ نساء، سورہ مائدہ یا (راوی شعبہ کو شک ہوا) سورہ انعام پڑھی۔
قرآن کریم میں تدبر وتفکر، اس کی تلاوت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کے متعدد فضائل وفوائد، انعامات وبرکات اور اجر وثواب احادیث شریفہ میں مذکور ہیں، جن میں سے کچھ کو میں نے یہاں ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ ہمارے اسلاف واکابر کی دل چسپی حیران کن تھی۔  قرآن کریم کے ساتھ علماء وصلحا کا شغف قابل رشک تھا۔  آج اگر قرآن مجید کے ساتھ ان اکابر واسلاف کے تعلق ورشتہ کو ذکر کیا جائے؛ تو لوگوں کو بہت تعجب ہوگا۔  ہم یہاں  چند اسلاف واکابر اور علماء وصلحاء کی قرآن کریم کے ساتھ تدبر وتفکر اور قرات وتلاوت کی حقیقت کو ذکر کرتے  ہیں۔ ممکن ہے کہ اسے پڑھ کر ہمیں بھی حوصلہ ملے اور بتوفیق خداوندی ہم بھی اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنا رشتہ قرآن کریم سے مضبوط کرنے کی فکر کریں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ایک رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ سلف وصالحین کی ایک جماعت کے بارے میں بھی یہی بات منقول ہے۔ (غذاء الألباب في شرح منظومۃ الآداب 1/ 403)
سعید بن  جبیر اسدی  رحمہ اللہ تابعی ہیں۔ آپ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ تفسیر وفقہ کے امام شمار ہوتے تھے۔  آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ مغرب وعشاء کے دوران نماز میں ایک مکمل قرآن ختم کرلیتے تھے۔ آپ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر، ایک بیٹھک میں پورا قرآن ختم کرلیتے تھے۔  کبھی کبھی آپ خانہ کعبہ میں ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کرلیتے تھے۔   (البدایۃ والنہایۃ 9 / 116)
امام احمد بن حنبل (780 – 855ء) کے صاحبزادے عبد اللہ فرماتے ہیں: "میرے والد ہر دن ورات میں تین سو رکعات (نوافل) پڑھتے تھے۔ پھر جب ان کوڑے کی وجہ سے بیمار ہوئے جس نےان کو کمزور کردیا تھا؛ پھر دن ورات میں ایک پچاس رکعات (نوافل) پڑھتے تھے؛ جب کہ آپ (کی عمر) اسّی برس کے قریب تھے۔ ہر دن (قرآن کریم کا) ساتواں حصہ پڑھتے اور سات دنوں میں ایک قرآن ختم کرتے تھے اور آپ ہر سات راتوں میں بھی ایک قرآن ختم کرتے تھے"۔ (صفۃ الصفوۃ 1/484)
محمد بن عبد اللہ بن شاذان فرماتے ہیں: "کہا جاتا ہے  کہ کنانی (ابو بکر محمد بن علی بن جعفر کنانی) نے طواف کے دوران بارہ ہزار مرتبہ قرآن کریم ختم کیا۔"  (صفۃ الصفوۃ 1/539) کنانی اصلا بغداد کے تھے۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ آپ کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی۔
حمانی فرماتے ہیں: "ابو بکر بن عیاش کی وفات کا وقت قریب آیا؛ تو ان کی بہن رونے لگی۔ پھر انھوں نے اپنی بہن سے کہا: کس وجہ سے رو رہی ہو؟ گھر کے اس کونے کی طرف دیکھو۔ اس کونے میں تیرے بھائی نے اٹھارہ ہزار دفعہ قرآن کریم ختم کیا ہے۔"  (صفۃ الصفوۃ 2/96) ابو بکر بن عیاش  کے بیٹے ابرہیم فرماتے ہیں کہ جب میرے والد کی وفات کا وقت قریب آیا؛ تو میں ان کے پاس رونے لگا۔  انھوں نے فرمایا کیوں روتے ہو؟ کیا تمھارا خیال ہے کہ اللہ تیرے والد کو ضائع کردیں گے جس نے چالیس سال تک ہر رات ایک قرآن ختم کیا؟" (صفۃ الصفوۃ 2/96)
حسین بن عمرو منقزی فرماتے ہیں: "جب (عبد اللہ) بن ادریس کی موت کا وقت قریب آیا؛ تو اس کی لڑکی رونے لگی۔ پھر انھوں نے کہا: مت روؤ! میں نے اس گھر میں چالیس ہزار دفعہ قرآن کریم ختم کیا ہے۔  (المنتظم في تاريخ الأمم والملوك 9/ 205)
ابو عبد اللہ محمد بن یوسف بناء لوگوں کو فتوی دینے پر اجرت لیتے تھے۔ اس اجرت میں سے ایک دانق اپنی ذات پر خرچ کرتے تھے اور باقی صدقہ کردیتے تھے۔  ہر دن ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ چھ سو شیوخ سے استفادہ کیا اور اور بہت سی حدیثیں حاصل کی"۔ (صفۃ الصفوۃ 2/287)
عبد العزیز مقدسی فرماتے ہیں: "میں نے بلوغ کے دن سے آج تک کا اپنا محاسبہ کیا؛ چناں چہ میری لغزشیں چتھیس سے زیادہ نہیں ہیں۔  میں ہر لغزش کےبدلے اللہ عزوجل سے ایک لاکھ دفعہ استغفار کیا۔ ہر لغزش کےبدلے ایک ہزار رکعتیں پڑھی۔ ہر لغزش کے بدلے ایک قرآن کریم ختم کیا۔ اس کے باوجود بھی میں اپنے پروردگار کے غصہ سے مامون نہیں ہوں کہ وہ ان لغزشوں کی وجہ سے میری گرفت فرمائے"۔ (صفۃ الصفوۃ 2/395)
ابو نصر محمد بن محمد طوسی شافعی خراسان کے مفتی تھے۔ انھوں نے حدیث پر توجہ دی اور حدیث کے لیے متعدداسفار کیے۔۔۔۔۔۔ انھوں نے رات کو تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا: ایک تہائی تصنیف کے لیے، ایک تہائی تلاوت قرآن کریم کے لیے اور ایک تہائی سونے کےلیے۔ (مرآۃ الجنان 2/252) امام ابو بکر محمد بن احمد، لوگوں کے درمیان ابن حداد سے معروف تھے۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ"وہ ایک دن ناغہ کرکے روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ورات میں ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (مرآۃ الجنان 2/252)
ابن عون کی یہ عادت تھی کہ ایک دن ناغہ کرکے روزہ رکھتے تھے۔ ایک ہفتہ میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ (تاريخ الإسلام ووفيات المشاہير والأعلام 9 / 461) احمد بن عمر الباجیّ فرماتے ہیں کہ میں نے احمد بن نفیس کو کہتے ہوئے سنا: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس ایک ہزار بار قرآن کریم ختم کیا۔" (تاريخ الإسلام ووفيات المشاہير والأعلام 30 / 337)
صالح بن محمد بن عبد اللہ بن عبد الرحمن ابو الفضل شیرازی فرماتے تھے کہ میں چار ہزار دفعہ قرآن کریم ختم کیا۔ (المنتظم في تاريخ الأمم والملوك 12/ 362) عبد الملک بن حسن بن احمد بن احمد بن خیرون ایک زاہد شخص تھے۔ آپ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ (المنتظم في تاريخ الأمم والملوك 16 / 207)
یزید بن ہارون ابو بکر بن عیاش کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے پہلوؤں کو چالیس سال تک زمین پر نہیں رکھا۔ ساٹھ سال تک اس حالت میں گذارا کہ ہر روز ایک مکمل قرآن ختم کرتے تھے۔ (البدايۃ والنہایۃ 10 / 243)
ابن  حاجب کہتے ہیں: ابو الحسن السلمی فقیہ تھے۔ ایک دن و رات میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔  (الدارس في تاریخ المدارس 1 / 153)
احمد ابو الحواري فرماتے ہیں: "میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں اور اس کی آیتوں میں غور وفکر کرتا ہوں؛ تو اس سے میری عقل حیران ہوجاتی ہے۔  مجھے قرآن کے حافظوں پر تعجب ہوتا ہے کہ کیسے انھیں سکون سے نیند آتی ہے، کیسے یہ ان کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ دنیوی امور میں مشغول رہیں؛ جب کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ وہ جس (قرآن مجید)کی تلاوت کرتے ہیں، اگر اسے سمجھ لیں، اس کے حق کو جان لیں، اس کی لذت محسوس کرنے لگیں اور اس سے سرگوشی کی چاشنی محسوس کرنے لگیں؛ تو انھیں جو کچھ عطا کیا گیا ہے، اس کی خوشی میں ان (کی آنکھوں) سے نیند اڑ جائے گی۔" (لطائف المعارف لابن رجب 1/ 173)
حضرت شیخ الہند مولانا محمو حسن دیوبندی کا معمول، قرآن کریم کی تلاوت کے حوالے سے، کچھ اس طرح نقل کیا جاتا ہے: "۔۔۔۔پھر و‌ضو فرمانے کے بعد، تلاوت قرآن شریف، دلائل الخیرات، حزب الاعظم وغیرہ میں مشغول ہوجاتے۔ مگر قرآن کریم بہت زیادہ پڑھتے تھے۔ غالبا روزانہ دس بارہ پارے پڑھتے تھے۔"(مفتی عزیز الرحمن بجنوریؒ، تذکرۂ شیخ الہندؒ، ص:153)
قرآن کریم دنیا کی واحد کتاب ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندے کی فلاح وکامیابی کے راستے بتائے ہیں۔  اس کتاب میں اللہ پاک نے اپنے بندے کے لیے بہت سے برکات وانعامات رکھے ہیں۔  اس عظیم کتاب کی تلاوت پر اجرو ثواب طے فرمایا ہے۔اللہ تعالی قیامت کے دن اس کتاب کے حفظ کرنے والے اور اس کتاب کے احکامات پر عمل کرنے کی سفارش ایسے شخص کے حوالے قبول فرمائیں گے جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔ اس بابرکت کی کتاب کی یہ وہ خوبیاں جو دنیا کی کسی بھی کتاب میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اس کتاب سے ہمارا تعلق، عشق اورشغف اسی طرح مثالی اور لازوال ہونا چاہیے جس طرح ہمارے اسلاف واکابر اور علماء وصلحا کا تھا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں، تو یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ جو شخص قرآن کریم کی تلاوت سے اپنے سینے کو معمور ومنوّر نہیں کرتا اور قرآن کریم کے ان عظیم برکات وانعامات سے خالی ہے؛ تو گویا وہ شخص اس گھر کی طرح ہیں جو اجڑا ہوا۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ القُرْآنِ كَالبَيْتِ الخَرِبِ". (ترمذی: 2913) ترجمہ: "بے شک وہ شخص جس کے پیٹ میں قرآن کریم میں سے کچھ بھی نہیں، وہ شخص اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے۔ ····