Thursday, March 26, 2015

عصر حاضر میں صحافت کی اہمیت و افادیت اور ہم

باسمہ سبحانہ و تعالی

عصر حاضر میں صحافت کی اہمیت و افادیت اور ہم

از: خورشید عالم داؤد قاسمی


صحافت کی تعریف:
"صحافت" عربی زبان و ادب کا لفظ ہے، جس کا معنی کتاب یا رسالے کے آتے ہیں۔ اردو زبان میں "صحافت" بول کر "اخبار نویسی" مراد لیتے ہیں؛ جب کہ "صحافی" کو "اخبار نویس" کہا جاتا ہے۔ "من شاہ جہانم" میںExploring Journalism  کے حوالے سے صحافت کی تعریف یوں تحریر ہے: "صحافت جدید ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی معلومات، رائے عامّہ اور عوامی تفریحات کی باضابطہ اور مستند اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے"۔ (من شاہ جہانم، ص:38)

صحافت کی اہمیت:
آج کے اس برق رفتار عہد میں، صحافت کی اہمیت و افادیت سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت انسانی اقدار کے تحفظ کی ضامن اورمظلوم و مجبور عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ آج کے اس دور میں، جہاں بیشتر ممالک میں جمہوری حکومتیں ہیں، وہاں صحافت کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ کسی بھی جمہوری حکومت میں عوام کی تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود اور نظم و ضبط کے نفاذ کے لیے تین ادارے ہوتے ہیں: "مقنّنہ"، "انتظامیہ" اور" عدلیہ"۔ ان تینوں اداروں کی سلامتی کے لیے صحافت کا وجود ضروری اور لازمی ہے۔ صحافت کے بغیر ان مذکورہ اداروں کا جمہوریت پسند ہونا متزلزل اور مشکوک  ہوجاتا ہے۔ صحافت کی قوت دراصل عوام کی قوت ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوامی ادارے اس کے احترام پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی بات حکومت وقت سے منوانی ہو، اسی طرح کسی جماعت، تحریک یا حکومت کی پالیسی کو کام یابی یا ناکامی میں بدلنا ہو؛ تو اس حوالے سے بھی صحافت ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے، جیسا کہ  ہم اس کا مشاہدہ صبح و شام کرتے ہیں۔

موضوع کے اعتبار سے صحافت کی قسمیں:
موضوعی طور پر صحافت کی تین قسمیں ہیں، جسے ہم ذیل میں "صحافت کیا ہے؟" کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:

عوامی صحافت:
اس زمرے میں ایسے اخبار و رسائل آتے ہیں جو کم پڑھے لکھے یا عام قاری کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ ایسے قاری کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود حالات و حاضرہ سے واقف ہونا چاہتے ہیں اور علاقائی خبروں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اپنے مسائل کو اخبار کے ذریعے پوری دنیا کو واقف کروانا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان اخباروں میں مقامی اور علاقائی خبروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تصاویر کی کثرت ہوتی ہے، سرخیاں بڑی بڑی ہوتی ہیں، خبریں ڈرامائی لیکن سادہ انداز میں لکھی جاتی ہیں۔ زبان و بیان سادہ اور سلیس ہوتی ہے۔ قارئین کے ذہنی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے عام نوعیت کے فیچر شامل کئے جاتے ہیں اور ذوق کی تسکین کے لئے فکاہیے شامل اشاعت کئے جاتے ہیں۔ ان اخباروں کی اشاعت وسیع ہوتی ہے۔ آبادی کا بڑا حلقہ ان اخباروں سے متاثر رہتا ہے۔ اشتہارات کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔ ادارتی صحافت پر قومی اور بین الاقوامی موضوعات کے بجائے مقامی مسائل جیسے راشن کی سپلائی، کیروسین کی قلت، برقی کٹوتی جیسے عام موضوعات پر اداریے لکھے جاتے ہیں۔

معیاری صحافت:
ایسے اخبار و رسالے جو علمی اعتبار سے اونچے طبقے میں پڑھے جاتے ہیں وہ ادبی رسالے، ماہنامے، سہ ماہی یا ششماہی یا سالانہ مجلے معیاری صحافت یا ادبی صحافت کے زمرے میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ ان کی اشاعت کم ہوتی ہے مگر دانشور طبقہ میں پڑھے جاتے ہیں؛ اس لئے اثر زیادہ رہتا ہے۔ ان اخبارات و رسائل کی قیمت خرید بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اتنے اشتہار ضرور مل جاتے ہیں کہ کاروبار خوشگوارانداز میں چلتا ہے۔

زرد صحافت:
ایسے اخبار و رسالے جن میں اکثر جنس و جرائم کی خبریں شائع کی جاتی ہیں۔ زنا بالجبر، اغواء، ڈکیتی، محبت، جنس، جرائم غرض ہر خبر میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہر واقعہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان اخباروں و رسالوں کی اشاعت بھی وسیع ہوتی ہیں اور قارئین کے سستے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ و ترسیل کے حوالے سے صحافت کی دو قسمیں ہیں:
"مطبوعہ صحافت" جسے ہم عام طور پر پرنٹ میڈیا (Print Media) سے جانتے ہیں۔ مطبوعہ صحافت سے مراد چھپنےاور طبع ہونے والے اخبار و رسائل ہیں، جیسے روزنامہ، سہ روزہ، ہفت روزہ اخبارات؛ اسی طرح پندرہ روزہ، ماہ نامہ، سہ ماہی، شش ماہی اور سال نامہ رسائل و جرائد اور مجلّات و ڈائجسٹس بھی مراد ہوتے ہیں؛ کیوں کہ یہ سب بھی چھپائی اور طباعت کے مراحل سے گزرتے ہیں۔

"برقیاتی صحافت" یا "کہربائی صحافت" جسے ہم عام طور پر الیکٹرانک میڈیا (Electronic Media) سے جانتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا سے مراد ہر وہ ذرائع ابلاغ و ترسیل ہیں جو الیکٹرانکس اور الیکٹرومیکینیکل قوت کے استعمال سے چلتے ہیں۔ اس میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے اخبارات و رسائل: سبھی شامل ہیں۔

آج جس طرح سائنسی ایجادات اور انفارمیشن ٹکنالوجی (Information Technology) دن بہ دن تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی جانب محو سفر ہے کہ اس نے پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کردیا ہے۔ ان ایجادات کی وجہ سے آج "برقیاتی صحافت" کا دائرہ کافی وسیع ہوگیا ہے؛ لہذا اس دائرے میں عوامی رابطے کی ویب سائٹس، جیسے: فیس بک، ٹویٹر، گوگل پلس وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر یہ رفتار یوں ہی برقرار رہی؛ تو "برقیاتی صحافت" کے میدان میں، مستقبل قریب میں بہت کچھ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

صحافی کا ضابطۂ  اخلاق:
ایک صحافی کا ضابطۂ اخلاق کیا ہونا چاہیے؟ ایک صحافی کے لیے رہنما اصول کیا ہیں؟ ایک صحافی کو کن قوانین و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے؟ ذیل کی سطروں میں ہم ان پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ اس حوالے سے "من شاہ جہانم" ص:56 پر لکھا ہے:
·        اپنا کام مشنری جذبہ کے ساتھ کرے۔
·        دیانت داری کے ساتھ سچی اور صحیح معلومات دے۔
·        خبروں اور دوسرے مواد میں اپنی پسند اور نا پسند کے مطابق رنگ آمیزی نہ کرے۔
·        کسی خاص نقطۂ نظر کی تشہیر کے لیے اطلاعات کو مسخ نہ کرے۔
·        سنسنی خیزی کے لیے واقعات کی صحت کو مجروح نہ کرے۔
·        قارئین کو گمراہ نہ کرے۔
·        آزادی کے ساتھ کام کرے، خوف اور طمع کو قریب نہ بھٹکنے دے۔
·        وسیع تر قومی و ملکی مفادات کو ملحوظ رکھے۔
·        صحافت کے مسلمہ فرائض کی ادائیگی کو مقصود نظر سمجھے۔
·        اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے؛ تو اس کو چھپانے یا اس پر اصرار کے بجائے اس کا اعتراف کرے اور اس کا ازالہ کرے۔

صحافت کے اغراض و مقاصد:
صحافت کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ صحافت کے ذریعے ایک صحافی قوم و ملت اور وطن کےلیے کیا کرسکتا ہے؟ سماج و عوام کی خدمت کے حوالے کیا کچھ پیش کرسکتا ہے؟ ان سوالوں اور اس طرح کے دوسرے سوالوں کا جوابات ذیل کی سطروں میں قلم بند کیا جارہا ہے:
·        حالات و اقعات کی تازہ صورت حال سے عوام کوغیر جانب دارانہ، صداقت، امانت اور شجاعت کے ساتھ مطلع کرنا۔
·        رائے عامہ کو ہموار کرنا۔
·        عوام میں غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرنا۔
·        خبر کو مسخ کرکے پیش کرنے سے کلی اجتناب کرنا۔
·        رائے عامہ کی تشکیل کرنا۔
·        عوام کے احساسات کی نمائندگی کرنا۔
·        عوام کو ان کی اچھائی و برائی سے مطلع کرنا۔
·        عوام میں سیاسی و سماجی شعور پیدا کرنا۔
·        عوام کو عمدہ تفریح فراہم کرنا، جس میں برائی، بے حیائی اور بد اخلاقی کا کوئی عنصر نہ ہو۔ (تلخیص، از: صحافت کیا ہے؟)

مغربی میڈیا، مسلم اور اسلام:
ان مذکورہ بالا صحافی کے ضابطۂ اخلاق اور صحافت کے اغراض و مقاصد کو ذہن میں رکھیے اور سوچیے کہ آج کا "مغربی میڈیا" کس حد تک ان ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرتاہے، کہاں تک صحافت کے اغراض و مقاصد کی پاسداری کرتا ہے اور کس حد تک خبر کی حرمت کا خیال رکھتا ہے؟! پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کا نشانہ اور ہدف صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی شکل میں پیش کرنا۔ اب اسلام کی بدنامی چاہے کسی بھی طرح سے ممکن ہو، وہ کریں گے۔ اس کے لیے وہ اسلام مخالف قوتوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ذرا بھی موقع ہاتھ لگ گیا؛ تو اسلام کی صورت کلی طور پر مسخ کرکے پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔ آزادی کے نام پر پیغمبر اسلام –علیہ الصلاۃ و السلام – کی صاف و شفاف شخصیت کو ایک دہشت کے معلم اور ظالم و جابر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی دل آزاری ان کا محبوب مشغلہ ہے۔

مسلم صحافي اور قوم و ملت کی خدمت:
ایک وقت تھا کہ بڑے بڑے اور نمایاں مسلم قائدین صحافت سے منسلک تھے۔ ان کا صحافت سے منسلک ہونا تجارت کے لیے نہیں تھا؛ بل کہ ایک مشن اور قوم و ملت و وطن کی خدمت کے لیے تھا۔ وہ حضرات صحافت کو مشن اور خدمت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سر سید احمد خان کے اخبار "سائنٹفک سوسائٹی" اور رسالہ "تہذیب الاخلاق"، مولانا ظفر علی خان کا اخبار "زمیندار"، مولانا حسرت علی موہانی کا رسالہ "اردوئے معلّی"، مولانا محمد علی جوہر کا اخبار "کامریڈ" اور "ہمدرد"، مولانا ابوالکلام آزاد کے "الہلال" اور "البلاغ" اور حامد الانصاری غازی کا اخبار "مدینہ" نے وہ کام کیا کہ ہندستان کی تاریخ میں اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔

ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، مولانا محمد علی جوہر کا نظریۂ صحافت یوں نقل کرتے ہیں: "صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے۔ ملک و ملت کی خدمت ہے اور اگر ایک مختصر مضمون سے صحیح طور پر ملک و ملت کی رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں وہ بھی لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا۔ اگر انیس نہیں اڑتیس کالموں کے مضمون سے صحیح رہنمائی ہوسکتی ہے تو میں اتنا طویل مضمون لکھ سکتا ہوں اور ضرور بالضرور لکھوں گا۔ غرض ملک و ملت کی خدمت ہے جس طرح بہترین طریقے پر ملک و ملت کی خدمت ہوسکے گی انشاء اللہ کی جائے گی۔"

آج کا مسلم سماج اور صحافت:
آج المیہ یہ ہے کہ مسلمان صحافت کے میدان میں صفر  (Zero) ہیں۔ مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی معقول "میڈیا ہاؤس " (Media House) نہیں ہے۔ یہ المیہ صرف کسی ایک مخصوص خطے، علاقے یا ملک تک ہی منحصر نہیں؛ بل کہ پورے عالم اسلام کی یہی صورت حال ہے۔ ہاں، چند ایک اخبار یا ٹی وی چینل ہیں، جسے ہم آٹے میں نمک کے برابر بھی تسلیم نہیں کرسکتے۔

اسی طرح مسلمانوں کے پاس قابل اور باشعور صحافیوں کی ایک ایسی ٹیم بھی نہیں ہے، جن کی آواز مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تک مؤثر انداز میں سنی جائے۔ جو صاحب اس میدان میں ہیں، ان میں سے اکثر کے لیے یہ صحافت کوئی مشن اور خدمت نہیں؛ بل کہ روزی روٹی کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر کوئی صحافی اپنے سماج اور قوم و ملت کے مفاد میں کوئی مسئلہ اٹھانا بھی چاہے، تو ان کو میڈیا ہاؤس کی پالیسی خاموش کردیتی ہے۔ جو مسلمان اپنا میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں، ان میں بھی اکثر اپنے ذاتی مفاد میں، ایسا کچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس سے سماج کا فائدہ تو ہوجائے؛ لیکن مستقبل میں ان کا نقصان ہو۔ مگر ان مذکورہ بالا حقیقتوں کے باوجود، کچھ ایسے غیور اور خدمت کے جذبہ سے سرشار صحافی اور اخبار و رسائل ہیں، جو سماج کے مسائل اور قوم وملت کی خدمت کو سب پر مقدم رکھتے ہیں؛ لیکن سیکڑوں کے بیچ میں ایسے ایک آدھ مخلص کی آواز ہمیشہ دب کر رہ جاتی ہے۔

ہماری ذمے داری:
میرے خیال میں مسلمانوں کے قابل، باشعور اور اہل ثروت طبقہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ میدان صحافت میں خدمت کی غرض سے آئیں، اپنا میڈیا ہاؤس چلائیں اور مکر و فریب، دروغ گوئی و کذب بیانی اور گندگی و بے حیائی کی دبیز چادر میں دبی ہوئی موجودہ صحافت کو اسلامی اسلوب میں پیش کرنے کا فریضہ انجام دیں۔ ان کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کو یہ محسوس کرائیں کہ اسلام کیا ہے؟ اسلام کی حقیقت کیا ہے؟ کیا اسلام کی وہی حقیقت جو مغربی میڈیا سے، یہودیوں کی چھنّی سے چھن کر دنیا کے سامنے آرہی ہے  یا پھر کچھ اور؟ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو تاریخ اسلامی ہمیں معاف نہیں کرے گی اور ہم عند اللہ بھی ماخوذ ہوں گے۔

اسی طرح میرا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کے قابل، باشعور اور اہل ثروت طبقہ کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ میدان صحافت میں آکر اپنی قوم و ملت اور سماج کے پیش آمدہ مسائل کو مضبوطی، دیانت داری، ذمےداری، قربانی اور صداقت کے ساتھ اٹھائیں اور ان کے حل کی پوری کوشش کریں۔ اگر بروقت ہم اپنے مقصد میں کام یاب نہیں بھی ہوں، پھر بھی ہمیں امید کے ساتھ لگا رہنا چاہیے؛ کیوں کہ یہ تو مسلم ہے کہ The pen is mightier than the sword, یعنی قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ مرحوم اکبر الہ آبادی  نے کیا خوب کہا ہے:
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو   ٭   جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو

میری مخلصانہ دعا ہے کہ اللہ تعالی "قومی بصیرت" کو سماج اور قوم و ملت کا حقیقی ترجمان بنائے! آمین! ٭٭٭


(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in    پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

What is Zakaah (Poor Due)?

What is Zakaah (Poor Due)?

By: Khursheed Alam Dawood Qasmi


Foreword:
Zakaah, which is called “Poor Due” or “Compulsory Alms” in English language, is a unique and rarest system found in Islam and amongst Muslims. This is the best plan to remove poverty from the people suffering from. It’s not only interest free support for the poor peoples, but it’s also the favour free. When a Muslim is bestowed with the wealth and it reaches the requisite amount (Nisaab) for Zakaah, it’s his duty, at that time, to pay Zakaah to the needy and poor people without expressing any favour and hoping any thanking word. If every human being who has the requisite mount to pay Zakaah and he gives, not a single person will die of hunger in the world, In-Shaa-Allah.

Definition of Zakaah:
Zakaah (زكاة) is an Arabic root word that linguistically means “To Purify”, “Purification” and “Growth”. In Shariah, Zakaah is paying a 2.5% of wealth by the owner, each lunar year, to the needy and poor Muslims as stipulated in the glorious Qur’an and thereby making them the owners of the given wealth. It’s also known as “Poor Due” and “Compulsory Alms”.

When Zakaah was Made Fardh:
Zakaah was made Fardh in the 2nd Hijrah in Madinah Manawwarah, because the verses of the Quran regarding Zakaah were revealed in Madinah Manawwarah. And it’s also proved by the Hadeeth narrated by Qais bin Saad (ra). The Hadeeth is as follow:
       "أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بصدقة الفطر قبل أن تنزل الزكاة، ثم نزلت فريضة الزكاة فلم يأمرنا ولم ينهنا، ونحن نفعله۔" (رواه النسائي)
Translation: “Is Allah’s Apostle (saws) commanded us about Sadaqatul Fitr before the revelation of (the verse of) Zakaah, latter the Zakaah was made compulsory by revelation, so neither he commanded us nor stopped us (regarding Sadqatul Fitr), and we were doing as usual.” (Al-Nasaai)

Zakaah in the Qur’an and Hadeeth:
Allah, the Almighty said in the holy Qur’an in Surah Baqarah:
 "وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة"( البقرة: ۴۳ )
(Translation) And be steadfast in Salaah (prayer), and pay Zakaah.

The Almighty Allah said at another place in Surah Muzzammil:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا۔ (المزّمّل: ۲۰)
(Translation) And establish Salaah, and pay Zakaah, and advance to Allah a goodly loan. And whatever good you will send ahead for your own-selves, you will find it with Allah much better in condition, and much greater in reward.
Similarly Allah, the Almighty has described Zakaah at numerous places, for instance, Surah Al-Mujadalah: 13, Surah Al-Noor: 56, Surah Al-Hajj: 78, etc.
Our beloved Nabi Muhammad (Sallallahu Aleihi Wa Sallam) said:
  
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان. (صحیح البخاري)

(Translation) It is narrated on the authority of Ibne Umar (ra) that the Messenger of Allah said: “Islam is based on (the following) five (principles): to testify that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is the Messenger of Allah, to offer the (compulsory congregational) prayers dutifully and perfectly, to pay Zakaah (poor due), to perform Hajj and to observe fast during the month of Ramadhan. (Bukhari)

Messenger of Allah, Muhammad (saws) sent Muaad (ra) to Yemen and said to him:
"أعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة في أموالهم تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم۔" (رواه البخاري)
Translation: “Make them know that Allah has made Sadqah (Zakaah) Fardh upon their wealth that would be taken from their rich people and will given to their poor people.” (Bukhari)

قال أبو بكرٍ: واللّه لأقاتلنّ من فرّق بين الصّلاة والزّكاة ، فإنّ الزّكاة حقّ المال. واللّه لو منعوني عناقًا كانوا يؤدّونها إلى رسول اللّه صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها قال عمر: فواللّه ما هو إلاّ أن قد شرح اللّه صدر أبي بكرٍ رضي الله عنه ، فعرفت أنّه الحقّ۔ (صحیح البخاري)

(Translation) Abu Bakar (ra) said, “By Allah, certainly I will fight against the one who differentiates between Salaah and Zakaah, because the Zakaah is the right of the wealth. By Allah, if they stop me from a rope were paying it to the Messenger of Allah (saws), I will fight against them on its stopping.” (Hearing it) Umar (ra) said, “By Allah, verily Allah has satisfied the heart of Abu Bakar (ra), so, I know that he is right.” (Al-Bukhari)

Status of Zakaah in Shariah:
Zakaah is one among those which Allah Taa’alaa made Fardh-Compulsory on His servants. It’s one among the five pillars of Islam. Allah has commanded in His Noble Book the Zakaah being Fardh at around 32 places as saying: “Establish Salaah and give Zakaah”. One who denies its being Fardh is no more in the fold of Islam; rather he is a non-Muslim.

Upon whom Zakaah is Fardh?
Zakaah is Fardh on the one who has the following qualities. The qualities are as follow:
1.      To be Muslim. So, Zakaah is not Fardh upon a non-Muslim.
2.      To be mature. So, Zakaah is not Fardh upon an immature person.
3.      To be sensible. So, Zakaah is not Fardh on a mad person.
4.      To be Free. So, Zakaah is not Fardh upon a slave.
5.      To own the wealth in the quantity of Nisaab for one lunar year. So, if someone owns the wealth in the quantity of Nisaab less than one lunar year, Zakaah is not compulsory on him.
6.      The wealth must be Zakaatable, as gold, silver, money or the trading goods.
7.      The wealth must be extra from the Real Needs of owner. So, the Zakaah is not Fardh in the residential building or house, the furniture of the house, the clothes for wearing and the vehicle and car for personal use. 

What is Complete Requisite Amount (Nisaab) for Zakaah?
The complete requisite amount (Nisaab) for Zakaah is to owe 200 Daraahim of Silver or 20 Mithqaal of Gold or the equivalent of either amount in the prevalent currency or a trader owing the trade goods to the value of either amount.

200 Daraahim of Silver and 20 Mithqaal of Gold:
In modern weight, 200 Daraahim is equal to 595 grams and 20 Mithqaal is equal to 85 grams. So, if a person owns the things as mentioned above; at that time he must pay Zakaah.

Upon Whom Can Zakaah Fund Be Spent?
Allah, the Exalted has mentioned in the Glorious Qur’an that upon whom the fund of Zakaah should be spent. He says:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبۃ: ۶۰)

(Translation) The Sadaqat (prescribed alms) are (meant) only to be given to the poor, the needy, to those employed to collect them, to those whose hearts are to be won, in the cause of the slaves and those encumbered with debt, in the way of Allah and to a wayfarer. This is an obligation prescribed by Allah. Allah is All-Knowing, Wise.


According to the above mentioned verse of the Quraan, thus there are eight categories upon whom the Zakaah fund can be spent. They are:
1.      Fuqaraa: Those who have minimal possession which does not reach the requisite amount (Nisaab).
2.      Masaakeen: Those who don’t have anything.
3.      Those who are employed to collect Zakaah: Those who are working to collect the Zakaah fund from the Muslims.
4.      Those whose hearts are to be own: They were of three types: Kuffar whom Rasulullah (saws) gave to soften their hearts to enter Islam, some whom he (saws) gave Zakaah in order to avert their evil, and some who had embraced Islam but were weak and needed strengthening. When Islam gained victory and became independent, then ruling of spending Zakaah to such people were dropped.
5.      Slaves: Those who have a contract with their owners that if they pay the owners a certain amount, then he will be set free.
6.      Those encumbered with debt: Those who is so indebted that he is unable to repay it from his wealth.
7.      In Allah’s way: Those who have gone to wage Jihaad and have been separated from their groups and are in need of money for expenses.
8.      Wayfarers or Travelers: Those who don’t have money on his journey even if they have money at the home.

These were some necessary points on the topic, so I have noted it down here. But before I’m going to conclude this piece of writing, I would like to highlight that  according to the above mentioned criteria, If someone is entitled to receive Zakaah, then he/she should take Zakaah that can fulfill his/her need and shouldn’t try to receive Zakaah to make wealth. And if someone has the request amount to give Zakaah, he must give Zakaah and doesn’t worry that the wealth will decrease and lessen; but it will grow and you will get the rewards and benefits.

Benefits of Giving Zakaah:
1.      Allah’s pleasure.
2.      Growth in the wealth.
3.      Protection of wealth from losses.
4.      Safety of wealth from calamities.
5.      Shelter on the Day of Judgment.

Chastisement and Threat on not Paying Zakaah:
If being eligible, one doesn’t give Zakaah he must know the following chastisement and threat by Allah and His messenger Muhammad (saws):
Allah says in the glorious Quraan:

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ۔ (التوبۃ: ۳۴ و ۳۵)

(Translation) As for those who accumulate gold and silver and do not spend it in the way of Allah, give them the good news of a painful punishment. On the day it (the wealth) will be heated up in the fire of Jahannam, then their foreheads and their sides and their backs shall be branded with it. This is what you had accumulated for yourselves. So, taste what you have been accumulating.


Now we present here some of Ahaadeeth of our beloved Nabi (saws) in which he mentioned the thread about those who are not giving Zakaah being qualified to do:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من آتاه الله مالا، فلم يؤدي زكاته، مثل له يوم القيامة شجاعا أقرع، له زبيبتان، يطوقه يوم القيامة، ثم يأخذ بلهزميه، يعني شدقيه، ثم يقول: أنا مالك، أنا كنزك ۔ (صحيح البخاري)

(Translation) It has been narrated on the authority of Abu Hurairah (ra) that he says the Messenger of Allah (saws) said, “On whoever is bestowed wealth by Allah and doesn’t pay Zakaah for his wealth, on the Resurrection Day his wealth will be shaped into a bald-headed venomous snake with two black spots over its eyes. The snake will enclose his neck and grasp his cheeks and say, ‘I am your wealth, I am your treasure.”  


Rasulullah (saws) said, “If anyone possessing gold or silver does not pay what is due on it, then on the Day of Resurrection, his gold and silver will be converted into plates that will be heated in the Fire of Jahannam till they become like plates of fire itself. And then his side, forehead and back will be branded with them, again and again, during a day which will be fifty thousand years long. Thereafter, he will go to his destined Jannah or Jahannam.

May Allah give us guidance to understand Islam and the Islamic teachings and to abide by it! Aameen!

 (The author, Khursheed Alam Dawood Qasmi, is a graduate of Darul Uloom, Deoband and at present teacher of Moon Rays Trust School, Zambia, S. Africa. He can be reached at qasmikhursheed@yahoo.co.in)