Wednesday, May 13, 2015

ہم جنس پرستی: فطرت سے بغاوت

ہم جنس پرستی: فطرت سے بغاوت

از: محمدخورشیدعالم داؤدقاسمی

حرف آغاز:
ہزار بار افسوس اور تف ہو اس موڈرن اور نام نہاد مہذب اقوام اور بہت سے ممالک اور ان کے رہنماؤں پر،  جس نے "ہم جنس پرستی" جیسی مہلک وبا میں بھی شخصی آزادی اور فطرت کے دشمن افراد کے جذبات کا ناجائز احترام کو سیکولرزم اور آزادی سے تعبیر کرکے، دنیا کو قعر مذلت میں ڈالنے پر تلے ہیں۔ یہ ایک ایسا خلاف فطرت فعل ہے جس کی کوئی مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ کوئی مہذب معاشرہ۔ اس فعل کا مقصد محض فطرت سے بغاوت اور غلط و ناجائز طریقے سے خواہشات نفس کی تکمیل اور جنسی ہیجان کی تسکین ہے، جو در حقیقت ایک بہت بڑی بے چینی اور عدم اطمینان ہے۔

        "ہم جنس پرستی" کا لفظ اردو زبان و ادب میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی ہی جنس کے انسان کے ساتھ مل کر، اپنی جنسی خواہشات پوری کرے۔ یعنی مرد مرد کے ساتھ اور عورت عورت کے ساتھ مل کر اپنی جنسی خواہشات پوری کرے۔ اس فعل کو انگریزی میں  (جب مرد مرد سے اس فعل کا ارتکاب کرے تو) Homosexuality   اور (جب عورت عورت سے اس فعل کو انجام دے تو)Lesbianism  کہا جاتا ہے۔

ہم جنس پرستی کی ابتداء:
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: "وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ." (سورہ: اعراف، آیت: ۸۰) ترجمہ: "ہم نے لوط کو بھیجا؛ جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا، کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا والوں سے نہیں کیا۔" قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کے بہ موجب، اس شیطانی فعل کی ابتداء سیدنا حضرت ابراہیم –علیہ السلام- کے بھتیجے، اللہ کے نبی، حضرت لوط –علیہ السلام- کی قوم (اہل سدوم، سدوم: یہ بیت المقدس اور اردن کے درمیان ایک مقام تھا، جہاں حضرت لوط –علیہ السلام- نبی بنا کر مبعوث کیے گئے تھے) نے کیا۔ "اہل سدوم" سے پہلے دنیا میں، اس بدترین فعل کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس قوم سے قبل کسی نے اس کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ یہ اتنا گھناؤنا فعل ہے کہ دنیا کی کسی قوم کا ذہن بھی، اہل سدوم سے قبل، اس فعل کی طرف نہیں گیا۔ حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ اس قوم (اہل سدوم) سے پہلے دنیا میں کبھی ایسی حرکت کا ارتکاب نہیں کیا گیا۔ پھر وہیں سے یہ قبیح فعل شروع ہوا، جو آج تک ایک مہذب معاشرہ اور سوسائٹی کو ذلیل و خوار کرنے کے درپے لگا ہوا ہے۔

        آیت مذکورہ کے متصلا بعد ایک دوسری آیت ہے: "إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ." (سورہ: اعراف، آیت:۸۱) ترجمہ: "(یعنی) تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر، بل کہ تم حد  ہی سے گزر گئے ہو۔" جہاں پہلی آیت کریمہ میں "ماسبقکم بہا" سے یہ سمجھ میں آیا کہ قوم لوط سے پہلے، اس کام کا کسی نے ارتکاب نہیں کیا ہے۔ اسی طرح دوسری آیت کریمہ میں جو "بل انتم قوم مسرفون" آیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ کچھ لوگ بسا اوقات کچھ گناہوں کو دھوکہ اور فریب میں آکر ارتکاب کرلیتے ہیں، جن کو اپنے آباء و اجداد کو کرتے دیکھتے ہیں؛ لیکن اس فعل کے بارے میں اللہ تعالی نے کہا کہ اس میں تو دھوکہ کھانے اور کسی کو دیکھنے کی کوئی بات ہی نہیں؛ بل کہ تم نے ایک ایسے فعل کا ارتکاب کیا ہے، جس کا تم سے پہلے کسی نے ارتکاب نہیں کیا۔ یعنی اس سلسلہ میں تم نے خود دوسری اقوام کے مقابلے میں تجاوز کیا ہے ۔ اس آیتِ کریمہ سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ "ہم جنس پرستی" کے فعل کا آغاز "اہل سدوم" نے ہی کیا۔ (معارف القرآن،3/615-616)

قوم  لوط پر عذاب اِلٰہی:
جب قوم لوط نے ہم جنس پرستی جیسی بدترین عادت سے توبہ و استغفار نہیں کیا اور نہ ہی حضرت لوط –علیہ السلام- پر ایمان لائے؛ تو اللہ نے اس قوم پر عذاب واقع کرنے کےلیے فرشتوں کو بھیجا۔ جب وہ فرشتے عذاب واقع کرنے کےلیے حسین لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط –علیہ السلام- کے گھر مہمان بن کر ٹھہرنے آئے؛ تو اہل سدوم، انھیں حسین لڑکے سمجھ کر بدفعلی کی نیت سے حضرت لوط کے گھر پہنچ گئے۔ اس موقع پر حضرت لوط –علیہ السلام- بہت پریشان ہوئے کہ وہان مہمانوں (فرشتوں) کو ان خبیثوں اور شیطانوں سے کیسے بچائیں۔ آپ –علیہ السلام- کی پریشانی دیکھ کر فرشتوں نے آپ –علیہ السلام- سے بتلایا کہ وہ فرشتے ہیں، عذاب دینے آئے ہیں اور وہ لاکھ کوششوں کے باوجود، اہل سدوم کے قابو میں نہیں آسکتے ہیں۔ نیز حضرت لوط –علیہ السلام-سے یہ بھی کہا کہ آپ رات کے آخری حصہ میں اپنے اہل و عیال کو لےکر یہاں سے نکل جائیں۔ پھر اگلی ہی صبح،  اللہ تعالی کا عذاب اس قوم پر اس طرح نازل ہوا کہ آسمان سے ایک زبردست چیخ  آئی۔ پھر حضرت جبریل –علیہ السلام- نے اس بستی کو اٹھاکر پلٹ دیا اور مزید ان پر پتھر کی بارش کی گئی اور سارے کے سارے مرگئے۔ آج بھی وہ جگہ بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان "بحر میت" (ایک سمندر) کی شکل میں موجود ہے۔

قرآن کریم اور حدیث شریف میں ہم جنس پرستی کی قباحت اور سزا:
ہم جنس پرستی "گناہ کبیرہ" میں شمار ہوتا ہے۔ اس فعل کو بہت بڑا گناہ گردانا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل کی قباحت یوں بیان کی گئی ہے: "أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ." (سورہ: اعراف، آیت: ۸۰) یعنی تم لوگ ایسا فحش کام کرتے ہو، جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا والوں میں سے نہیں کیا۔ اس آیت شریفہ کی تفسیر میں مفسرین حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ: "الفَاحِشَة" کو "الف لام" کے ساتھ مقید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا خلاف فطرت فعل ہے جو گویا کہ ہر طرح کے فواحش کا مجموعہ ہے اور یہ فعل زنا سے بھی بڑھا ہوا جرم ہے۔

        نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم- نے بہت سی حدیثوں میں اس خلاف ِ طبعِ انسانی فعل کی شناعت بیان فرمائی ہے۔ کہیں اس کو نزول تباہی کی علامت بتایا، تو کہیں علامات قیامت میں شمار کرایا اور کہیں اس فعل کے فاعل اور مفعول: دونوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- : "مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الفَاعِلَ وَالمَفْعُولَ بِهِ." (ترمذی،  حدیث نمبر: 1456،  ابو داؤد، حدیث نمبر: 4462، ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2561، مسند احمد، حدیث نمبر: 2732)

ترجمہ: حضرت ابن عباس -رضی اللہ تعالی غہما - روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - نے فرمایا: "تم جس شخص کو بھی قوم لوط کا عمل کر تے ہوئے پاؤ؛ تو فاعل و مفعول: دونوں کو قتل کردو۔"

صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین نے اس فعل کی شناعت و قباحت بیان کی ہے اور شدید ترین  گناہ قرار دیا ہے۔ امام  مالک  -رحمہ اللہ- نے فرمایا  کہ عمل قوم لوط کے کرنے والے  فاعل و مفعول کو رجم کیا جائے، چاہے وہ محصن ہو یا غیر محصن۔  (القوانین الفقہیہ: 3/232) اس حوالے سے امام ابو حنیفہ –رحمہ اللہ - کی رائے ہے کہ اس فعل کے مرتکب کو حد تو نہیں لگائی جائے گی؛ بل کہ تعزیر و عقوبت سے کام لیا جائے گا۔ امام ابو یوسف اور محمد –رحمہما اللہ- نے فرمایا کہ جو شخص ہم جنس پرستی کرتا ہے،  اسے وہی سزا دی جائے، جو ایک زانی کو دی جاتی ہے یعنی اگر وہ غیرشادی شدہ ہے تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں اور اگر شادی شدہ ہے تو اس کو رجم کردیا جائے۔ حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق ،اگر کسی نے اس  عمل کی تکرار کی؛  تو اسے قتل کیا جائے گا۔ (فتح القدیر مع الہدایہ: 4/150) امام  احمد بن حنبل  - رحمہ اللہ - نے فرمایا کہ اس عمل کے کرنے والے فاعل اور مفعول: ہر دو کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک زانی کو دی جاتی ہے۔ (کشاف القناع: 6/94) امام شافعی -رحمہ اللہ- کے ایک قول کے مطابق، فعل قوم لوط کے مرتکب پر حد زنا نافذ کی جائے گی؛ جب کہ دوسرے قول کے مطابق فاعل کو قتل کیا جائے گا، چاہے وہ محصن ہو غیر محصن۔  (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہم جنس پرستی کی حمایت میں تحریک:
گزشتہ سال ۱۸؍ ۱۲؍ ۲۰۰۸ء کو "اقوام متحدہ" کی "جنرل اسمبلی" میں فرانس اور ہالینڈ جیسے نام نہاد مہذب و مثقف ممالک کے اراکین نے "ہم جنس پرستی" کے حق میں یہ کہتے ہوئے تحریک پیش کردی کہ: "ہم جنس پرستی کو حق سمجھا جائے اور اسے جرائم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔" پھر کیا تھا یہ تحریک پیش ہوتے ہی ۶۶؍ ممالک کے رہنماؤں نے اس شنیع فعل کی حمایت میں دستخط ثبت کرکے حمایت کا اعلان کردیا۔ مگر شامی ممبر عبداللہ الحلاق نے بر وقت اس تحریک کے خلاف تحریک پیش کردی اور انھیں بھی۶۰ ؍ ممالک کے ممبران کی حمایت مل گئی اور مسئلہ رک گیا۔

ہم جنس پرستی اور اقوام عالم:
اس حقیقت سے شاید کوئی انکار کرسکے کہ عصر حاضر میں ہم جنس پرستی کو بڑھاوا دینے اور پروان چڑھانے میں مغربی ممالک اور مغربی میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیاہے۔ اس بدترین فعل کو کئی مغربی اور یورپی ممالک نے قانونی جواز فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کرکے اخلاق وکردار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ آج امریکہ، کنیڈا، آسٹریلیا، بعض یورپی ممالک اور اسی طرح جنوبی افریقہ میں ہم جنسوں کی شادی کو قانونی منظوری دے کر، اسے جرائم کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ شخصی آزادی کے عنوان سے یہ ایسی بےراہ روی کی اجازت دے رکھی جو معاشرہ کی تباہی و بربادی کا بہت بڑا سبب ہے۔ ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دینے کا سلسلہ مغربی اور یورپی ممالک سے شروع ہوا؛ چنان چہ آج نیدرلینڈ، ناروے، اسپین، سویڈن، کنیڈا اور بیلگام جیسے ممالک نے ہم جنس پرستی جیسے ملعون فعل کو شخصی آزادی کے نام پر ،قانونی جواز دے رکھا ہے اور ان ممالک میں ایک ہی جنس کے لوگ آپس میں شادی کرتے ہیں۔ حال آں کہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا پہلے سے ہی ایڈس جیسے مرض سے پریشان اور بدحال ہے؛ کیوں آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی جیسے مہلک مرض اور فاسد اخلاق فعل کو قانونی جواز فراہم کیا جارہا ہے؟!

ہم جنس پرستی اور ہندوستان:
ہندوستان دینا کا ایک ایسا ملک ہے جو قدیم زمانے سے ہی تہذیب وتمدن کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کسی مخرب اخلاق فعل وعمل کی اجازت کبھی نہیں دی گئی۔ ہندوستان ہمیشہ سے صوفی، بزرگ اور رہسہ وادی دھرتی رہی ہے۔ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے شروع سے ہی پائے جاتے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی یا کسی بھی مذہب کی کتاب میں، ہم جنس پرستی جیسے بدترین فعل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدائی زمانہ سے ہی یہاں کا شہری اور حکومت اس بدترین فعل کے مخالف رہی ہے۔ یہی وجہ ہے ہم جنس پرستی جیسے خبیث فعل کو کبھی بھی قانونی جواز فراہم نہیں کیاگیا۔ اسی جیسے مخرب اخلاق فعل اور خلاف فطرت عمل کو روکنے کےلیے ایک لمبے زمانے سےقانون کی شکل میں"دفعہ: ۳۷۷" چلا آرہا ہے۔ اب اسے زمانہ کی گردش اور ایام کا الٹ پھیر کہا جائے یا پھر موجودہ آزادی کہ آج ہم جنس پرستی کو بھی شخصی آزادی کے نام پر قانونی جواز بخشا جارہا ہے۔

دفعہ ۳۷۷ ایک نظر میں:
دفعہ ۳۷۷ میں جو کچھ تحریر ہے وہ یہ ہے:
        377. Unnatural offences: Whoever voluntarily has carnal intercourse against the order of nature with any man, woman or animal, shall be punished with imprisonment for life, or with imprisonment of either description for term which may extend to ten years, and shall also be liable to fine.

        اس دفعہ کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص بھی رضاکارانہ طور پر (بھی) خلاف ترتیب فطرت کوئی فعل کسی مرد، عورت یا جانور کے ساتھ کرتاہے؛ تو عمر قید کی سزا یا پھر دس سال تک کی قید اور جرمانہ بھی لاگو کیا جائے گا۔

دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ:
دہلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم "ناز فاؤنڈیشن" نے ۲۰۰۱ء، دہلی ہائی کورٹ میں، ایک پٹیشن داخل کرکے دفعہ ۳۷۷ کو ختم کرنے اور لغو قرار دےکر ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کرنے درخواست کی؛ دہلی ہائی کورٹ ۲۰۰۳ء میں اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ درخواست گزار اس مسئلہ میں کوئی جائز مسلمہ حیثیت و اختیار (Locus Standi) نہیں رکھتا ہے۔ پھر ناز فاؤنڈیشن نے سپریم کورٹ میں اس فیصلہ کے خلاف عرضی پیش کی۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کو دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کےلیے واپس کردیا۔

پھر دہلی ہائی کورٹ میں اس پر سماعت شروع ہوئی، آخر کار دہلی ہائی کورٹ کے دو محترم جج: چیف جسٹس اجیت پرکاش اور جسٹس ایس مرلی دھرکی بنچ نےعرضی کی سماعت کے دوران، اپنے تاریخ ساز فیصلہ میں، بہ روز: جمعرات،۲؍ جولائی۲۰۰۹ء کو، تعزیرات ہند کی ۱۵۰؍ سالہ قدیم دفعہ ۳۷۷ کا دائرہ محدود کرتے ہوئے، رضامندی کے ساتھ کی جانے والی ہم جنس پرستی کو قانونی اجازت دےدی ہے۔ جج حضرات نے ہم جنس پرستی کو جرم ماننے کو دفعہ ۲۱ کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ دفعہ۲۱ کا حاصل یہ ہے کہ ہر شہری کو اپنے طور پر زندگی گزارنے کا مساوی موقع ملنا چاہیے اور قانون کی نظر میں ہم سب برابر ہیں۔
       
اب اس فیصلہ کے آنے کے بعد، اس کا نتیجہ یہ مرتب ہوگا کہ اب تک ہندوستان میں، ہم جنس پرستی جو ایک جرم کے دائرے میں آتی تھی، اب وہ جرم نہیں رہی۔ اب تک جو لوگ اس شیطانی فعل کا ڈھکے چھپے طور پر ارتکاب کرتے تھے اور خود کو مجرم سمجھتے تھے، اب انھیں کسی طرح کا کوئی ڈر اور خوف نہ ہوگا اور اس جنونی فعل کا ارتکاب کھلے طور پر بھی چاہیں تو کرسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی ہائی کورٹ سے یہ فیصلہ جوں ہی صادر ہوا، ہم جنس پرستوں نے دیدہ دلیری کے ساتھ، کھلے عام سڑکوں پر آکر جشن منانا شروع کردیا اور ایک دوسرے کو مبارکبادی کا پیغام ارسال کرنے لگے۔

سیاست کے گلیاروں میں ہم جنس پرستی کی موافقت و مخالفت:
"یو پی اے" سرکار ہم جنس پرستی کے موضوع پر کچھ زیادہ ہی نرم دل معلوم ہورہی ہے؛ کیوں کہ گزشتہ یو پی اے سرکار میں بھی یہ مسئلہ زیر غور آیا تھا اور اب بھی زور پکڑے ہوا ہے۔ یو پی اے سرکار نے، ہم جنس پرستوں کے مطالبہ سے مرعوب ہوکر، جس طرح ہم جنس پرستی پر کھلے عام بحث ومباحثہ کے ذریعے عام اتفاق بنانے کی بات کہی ہے، یہ انتہائی ہی غیرمعقول بات ہے۔ یہ ایک ایسا غیر مناسب قدم ہے، جسے ہندوستانی سماج کا مہذب اور سنجیدہ طبقہ ہرگز قبول نہیں کرسکتا ہے؛ کیوں کہ یہ فعل ہندوستانی تہذیب وثقافت کے بالکل متصادم ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود، غضب تو یہ ہے کہ اس شیطانی فعل کی حمایت کرنے والوں کو مہذب، ترقی پسند اور آزادی کا پاسدار مانا جارہا ہے؛ جب کہ اس کی مخالفت کرنے والوں کو پرانے خیال کا آدمی سمجھا جارہا ہے۔

        گزشتہ دنوں بھی مرکز میں جب کانگریس کی قیادت میں یو پی اے سرکار تھی، تو ہم جنس پرستی کا مسئلہ سامنے آیا تھا۔ اس موقع سے سابق وزیر صحت جناب امبونی رام داس نے ہم جنس پرستی کے خلاف نافذ ہونے والی دفعہ ۳۷۷ کو ختم کرنے کےلیے عدالت تک اپنی شفارش و پیروی شروع کردی تھی۔ جب کابینہ میں رام داس کی تجویز پر بحث ومباحثہ ہوا، تو سابق وزیر داخلہ جناب شیو راج پاٹل نے دفعہ ۳۷۷ کو ختم کرنے کی زبردست مخالفت کی تھی اور یہ موضوع کچھ دنوں کےلیے دب گیا۔ اب پھر یو پی اے سرکار کے وزیر قانون نے جناب ویرپا موئیلی نے اپنے پیشرو کی طرح، ہم جنسی کی موافقت میں آواز اٹھانی شروع کردی ہے۔ موجودہ وزیر داخلہ، سابق وزیر داخلہ کے برخلاف، اس موضوع پر نرم گوشہ رکھتے معلوم ہورہے ہیں؛ جب کہ وزیر صحت غلام نبی آزاد نے بھی اس موضوع پرپارلیامینٹ کے باہر اور اندر عام اتفاق کےلیے بحث ومباحثہ کی حمایت کی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور دفعہ۳۷۷ ختم کردیا جاتا اور کھلے عام ہم جنس پرستی جیسے شیطانی فعل کی اجازت مل جاتی ہے، تو ہندوستانی عوام یو پی اے سرکار کو معاف نہیں کریں گے اور اس کی سزا ایک نہ ایک دن سرکار کو بھگتنی ہی ہوگی۔ اس لیے اس حساس موضوع پر یو پی اے سرکار کو اپنا موقف بہت سخت رکھنا چاہیے اور تعزیر  ہند کی دفعہ ۳۷۷ بدستور قائم رکھنی چاہیے۔

حرف آخر:
آج جب ہم یورپی ممالک کے حکمراں اور عوام سب کے سب خود کو مہذب اورشائشتہ قوم سمجھتے ہیں اور دوسروں کو غیرمہذب اور ناشائشتہ، بیوقوف اور سفیہ سمجھتے ہیں؛ حال آں کہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ مغربی ممالک نے آج آزادی کے نام پر صنف نازک کو گھر سے باہر نکال کر دوکانوں اور دفتروں کی زینت بناکر، ان پر دوہرا بوجھ ڈال دیا ہے۔ اسی مغربی ممالک نے آرٹ وکلچر اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مذہبی پیشواؤں کی تنقیص و بیجا تنقید اور ان کے مضحکہ خیز کارٹونوں کے بنانے کا لائسنس فراہم کیے ہیں۔  انھیں مغربی ممالک کے قائدین نے شخصی آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی جیسے ملعون فعل کو درست قرار دیا۔ آج ہندوستانی حکام وقائدین بھی، تہذیب وتمدن اور اعلی اقدار کے مرکز، وطن عزیز ہندوستان کی پرانی اور مثالی روایات کو مٹانے کے درپے لگے ہوئے ہیں اور بےسلیقہ اور ناشائشتہ اقوام کے بھوڈے، بھدے اور خلاف فطرت افعال کو تہذیب وتمدن کے طور پر قبول کر رہے ہیں اور آزادی کے نام پر انھیں قانونی جواز فراہم کر رہے ہیں۔ اگر اسی طرح آزادی کے نام پر جو کچھ ہورہا، ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ اللہ تعالی اجتماعی طور پر نہیں؛ تو انفرادی طور پر یکے با دیگرے اِن اقوام عالم پر بھی وہی عذاب مسلط کردے جو قوم لوط پرکیا؛ کیوں کہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرتا اور ارشاد خداوندی ہے:  "وماهِی من الظلمین ببعید."  یعنی جس طرح قوم لوط پر پتھر کی بارش برسائی گئی، آج کے لوگ بھی اگر وہ کام کریں تو کوئی دور نہیں کہ ان پر بھی پتھر کی بارش کی جائے۔


(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in    پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

No comments: