باسمہ تعالی
مظلوم ہندوستانی مسلمانوں کا ترجمان
از: خورشید عالم داؤد قاسمی ٭
Email:
qasmikhursheed@yahoo.co.in
بہ روز سوموار: 30/جنوری سن 2006ء
کو، بندہ ایک طویل اور لمبے سفر کے لیے روانہ ہوا، بنصرت خداوندی خیریت و عافیت کے
ساتھ منزل مقصود پر پہنچ کر، اپنی مشغولیات میں مصروف ہوگیا۔ بہ روز دو شنبہ: 6/فروری سن 2006ء کو،
بہ وقت عشاء، کچھ احباب و متعلقین سے ملاقات کرکے، اپنی عارضی آرام گاہ پر قدم
رنجہ ہوا؛ تو اچانک ایک دوست نے یہ اطلاع دی کہ ابھی بذریعہ فون یہ خبر موصول ہوئی
ہے کہ قوم و ملت کا نگہبان، کشتی ملت کا ناخدا، ملک و ملت کا سیاسی و روحانی قائد،
مظلوم ہندی مسلمانوں کا ترجمان، معاندین اسلام کے خلاف سینہ سپر رہنے والا انسان،
باطل قوت کے خلاف شمشیر بے نیام، سرگرم دینی و ملی رہنما، فہم و فراست اور قوت عمل
کا حامل، حسین احمد مدنی –رحمہ اللہ – کا جانشیں اور ان کے مجاہدانہ کارنامے کا
عکس جمیل، ہندی مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم "جمعیۃ علماء ہند"
کا صدر، دارالعلوم، دیوبند کی مجلس شوری کا معزز رکن،
سینکڑوں مدارس و جامعات کا سرپرست و نگران اورمشہور ومعروف عالم دین، شیخ طریقت،
فدائے ملت، امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ کچھ دیر قبل، اپنے مالک حقیقی
سے جا ملے۔ جوں ہی یہ خبر پردہ سماعت سے ٹکرائی، احقر حواس باختہ وجگر سوختہ ہو
گیا اور بمشکل خشک زبان سے ادا ہو سکا، "انا للہ وانا الیہ راجعون"؛
لیکن موت ایسی حقیقت ہے جس کے پنجہ خونی سے جب محمد رسو ل اللہ –صلی اللہ علیہ
وسلم- کو خلاصی نہیں تو پھر کون بچ سکتا ہی، ارشاد ربانی ہے:
"وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ
عَلَى أَعْقَابِكُمْ."
(آل عمران، آیت: 144)۔ چنان چہ امیر الہند جیسے بیدار
مغز، اولو العزم، نباض امت، صالح طبیعت اور خطیب و نقیب کو بھی اس دار فانی سے دار
جاودانی کا سفر کرنا پڑا، اورہمارے اور آپ کے درمیان جو بھی ہے اسے بھی ایک دن
جانا ہو گا۔ کیا ہی خوب ایک شاعر نے کہا ہے ؎
یاصاحبي لا تغترر بتنعم ÷
فالعمر ینفد والنعیم یزول
اذا حملت علی القبور جنازۃ ÷ فاعلم بأنک بعدھا محمول
یوں تو آپ کا خاندانی وطن
"اتر پردیش" کا ضلع: "فیض آباد" میں واقع قصبہ: "ٹانڈہ" ہے ـ
جو مقام: "ایودھیا" اور "بابری مسجد" کی وجہ سے مشہور و معروف
ہے؛ لیکن آپ کے والد ماجد شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، دارالعلوم کے سابق
شیخ الحدیث اور بے مثال مجاہد آزادی نے دیوبند ـ
جو اپنے بہت ساری: دینی ، ملّی، اصلاحی،تہذیبی ،جہادی، علمی و فنی انقلابوں کی علم
برداری کے باعث عالمی شہرت کا حامل شہر ہےـ
کو اپنا وطن ثانی بنا لیا؛ لہذا آپ کی ولادت دیوبند میں ہی بہ روز جمعہ: 27/اپریل سن 1928ء = موافق:6/ذو الحجہ سن 1346ھ
کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے گھر میں ہی اپنے والد صاحب ؒسے پانے کے بعد،
آپ نے ایشیاء کی عظیم الشان یونیورسیٹی دارالعلوم، دیوبند میں داخلہ لیا، اپنے
والد محترم سے ہی "بخاری شریف" وغیرہ پڑھی اور سن 1947ء میں فضیلت حاصل کی۔
آپ دارالعلوم سے فراغت کے
بعد، مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ وہاں تقریبا 5/ سال مقیم رہ کر، پھر
ہندستان ہی کارخ کیا اورلوٹ آئے۔ دارالعلوم، دیوبند میں مدرسی قبول کر لی اور سن
1950ء سےسن 1962ء تک ایک معلم و استاذ کی حیثیت سے
مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائی۔ جو شخص قوم و ملت کے لیے دل دردمند رکھتا ہو،
وہ کسی ایک جگہ میں قید و بند ہو کر کیسے رہ سکتاہے اور حقیقت یہ ہے کہ مدرسی کے
ساتھ دوسری مشغولیات و خدمات بہت حد تک مشکل ہوجاتی ہیں؛ لہذا آپ نے دارالعلوم کے تدریسی
سلسلہ سے مستعفی ہو کر، امت کی خدمت کے
لیے "جمعیۃ علماء ہند" کے پلیٹ فارم سے میدان عمل میں اتر گئے۔
آپؒ سن 1963ء میں "جمعیۃعلماء
یوپی" کی صدارت کی باگ و ڈور سنبھالی۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے نیک نیتی سے بحسن
و خوبی قوم و ملت کی خدمت کی۔ پھر اراکین جمعیۃ نے، آپ کی اولوالعزمی اور فکری
بالیدگی کو دیکھ کر، اگست 1963ء
میں تنظیم کے کل ہند جنرل سکریٹری کی ذمہ داری سپرد کردی۔ آپ اس عہدہ پر 1973ء (دس سال) تک رہتے ہوئے
پوری تندہی اور اخلاص و للہیت کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمے داری نبھائی۔ یہی وجہ تھی کہ
آپ حضرت مولانا فخر الدین احمد صاحب ؒ (سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین درالعلوم،
دیوبند) کی وفات کے بعد باتفاق رائے "جمعیۃعلماء ہند" کے عہدہ جلیلہ
(صدارت) پر فائز ہوئے اور اپنی حیات کے آخری لمحہ تک اس منصب پر رہ کر جمعیۃ کے
عزت و وقار کو برقرار رکھا۔ جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے آپ نے جو عظیم الشان کارنامے
انجام دئیے، ان میں سے بعض کی جھلک ذیل کے سطورمیں پیش کی جارہی ہی:
جب پاکستان حکومت نے "فرقہ
قادیانیت" کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا؛ تو مرزا غلام احمد قادیانی کے
متبعین اور چیلوں نے ہندستان کا رخ کیا، فتنہ قادیانیت کی دعوت و تبلیغ زور و شور
سے شرورع کردی، سیدھے سادے، بھولے بھالے اور سادہ لوح مسلمانوں کو مال و زر کا
لالچ دے کر اور عقیدہ ختم نبوت کی غلط تشریح و توضیح کر کے کفر و ارتداد کی ہوا
چلا دی، ایسے نازک وقت میں حضرت امیر الہندؒ کیسے سکوت و خاموشی اختیار کر سکتے
تھی؛ چنان چہ 20/
جون 1998ء
کو "جعفر آباد، دہلی" کے وسیع وعریض عید گاہ میں، ایک عظیم الشان اجلاس
بہ عنوان "دوسری تحفظ ختم نبوت کانفرس" منعقد کیا اور کھلے لفظوں میں
قادیانیت کی تکفیر کا اعلان کر کے اپنی غیرت کا ثبوت دیا۔ اس اجلاس کی تیاری کے
لیے "جمعیۃ علماء ہند" کے کارندوں، نمائندوں اور ذمے داروں کو مسلسل ایک
مہینہ تک متعدد اسفار کروا کے، کئی مسجدوں میں خطبات و بیانات کے ذریعے لوگوں کو
اس فتنہ سے پیشگی آگاہ کیا گیا اور اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی، پھر وقت معینہ
پر اجلا س منعقد کیا گیا، اس محنت اور کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اجلاس کے دن تمام
عاشقان رسالت مآب ؐ اور شیدائیان شریعت محمدیہ دیوانہ وار آکر "فتنہ قادیانیت"
کے مکر و فریب، ریشہ دوانی اور عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ زنی کی حقیقت سے واقف ہوئے
اور ضال و مضل فرقہ سے اپنی شدید نفرت و بغض کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کی صدارت کرتے
ہوئے حضرت امیر الہندؒ نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا تھا:
"سامعین گرامی قدر!
اس وضاحت (قرآن کریم کی آیت اور عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے مضبوط و مستحکم دلائل
مراد ہیں جو اوپر کے پیراگرف میں مذکور ہی) سے صاف معلوم ہو گیا کہ مسلمان ہونے کے
لیے محض "کلمہ طیبہ" زبان سے پڑھنا کافی نہیں ہے؛ بل کہ تمام ایمانیات
پر یقین رکھنا لازم ہے۔ آج قادیانی جماعت کے لوگ تمام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے
لیے زبانی طور پر کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں، اپنی دکانوں، اپنی نششت گاہوں وغیرہ پر "کلمہ"
کا اسٹیکر لگا کر اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ اور علماء کا شکوہ کرتے ہیں کہ
"دیکھئے کلمہ پڑھنے کے باوجود ہمیں دائرہ اسلام سے خارج کیا جارہا ہے"
اس لیے یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہوجانی چاہیے کہ آدمی کا کلمہ طیبہ : "لا
الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" پڑھ لینا اس وقت
تک مفید نہیں ہو سکتا، جب تک کہ کلمہ کے تقاضوں کو قبول نہ کرے اور ان تقاضوں میں
سے ایک اہم ترین تقاضہ یہ ہے کہ "آں حضرت ؐ کی ختم نبوت" بلا کسی تاویل
توجیہ کے قبول کی جائے۔ عقیدہ ختم نبوت کو تسلیم کیے بغیر کلمہ پڑھنا بے سود ہے۔"
اس کے بعد آپ نے خطبہ میں
"عقیدہ ختم نبوت" کے جزو ایمان ہونے پر قوی اور ٹھوس دلائل پیش کیے ہیں،
پھر علامہ اقبالؒ کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کیا اور قادیانیوں کی تکفیر کا اعلان
کرتے ہوئے علماء اسلام مثلا: مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ، مولانا رشید احمد
گنگوہیؒ، شیخ الہندؒ، حضرت تھانویؒ، علامہ کشمیریؒ، مفتی عزیز الرحمنؒ، مفتی کفایت
اللہؒ، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی، محدث اعظمیؒ اور حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ
وغیرہم کے اقوال و فتاوے نقل کیے ہیں۔ مزید "المجمع الفقہی" سعودی عرب
کا فتوی بھی نقل کیا ہی۔ پورا خطبئہ صدارت عقیدہ ختم نبوت کے موضوع پر اچھے خاصے
علمی مواد پر مشتمل ہی۔
جب آیت اللہ روح اللہ
خمینی (متوفی: 1989ء)
سن 1979ء میں ایران کی "پہلوی
سلطنت" کا تختہ پلٹ کر، اقتدار پر قابض ہوا اور سن 1979ء میں "اسلامی
انقلاب اور حکومت اسلامیہ" کے نام پر ایک ہنگامی کیفیت برپا کردی، رسائل و
پمفلیٹس، مضامین و مقالات اور تقاریر و خطبات اس کی حمایت میں پیش کیے جانے لگے،
صحیح العقیدہ سنی مسلم نوجوان حلقے میں غیر معمولی عقیدت و شیفتگی کے جذبات ابھرنے
لگے اور اس نام نہاد اسلامی؛ بل کہ ایرانی انقلاب ہی کو سب کچھ سمجھا جانے لگا، جو
حقیقت میں ضال و مضل، فاسق و فاجر، زایغ و مزیغ اورنہایت ہی بد اخلاق وبدکردارشخصیت:
آیت اللہ روح اللہ خمینی کی، اسلام اور شریعت محمدیہ کو مسخ کرنے، قرآن و حدیث سے
لوگوں کا اعتماد اٹھانے اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ بدعقیدگی و بد گمانی پیدا کرنے کی
زبردست سوچی سمجھی سازش تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسا وقت آیا کہ خمینی کے ڈیڑھ
لاکھ رضا کاروں نے مطابق: 13/جولائی
1987ء = موافق: 6/ذو الحجہ 1407ھ کوعین حج کے موقع
پر "حرم شریف" کے تقدس کو پامال کیا اور "مکہ مکرمہ" میں
سنگین خون ریز جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس وقت مولانا مدنی نے اپنی دینی حمیت کا ثبوت
دیتے ہوئے مسلمانان ہند کی آبرو "دارالعلوم، دیوبند" سے امام خمینی کی
تکفیر کا فتوی صادر کر وایا اور بہ مطابق: 8/نومبر 1987ء کو ہندستان کی سلطنت: دہلی کے سپر ہائوس
میں ایک کام یاب اجلاس "تحفظ حرم کانفرنس" کا انعقاد کیا؛ تاکہ لوگوں کو
اور خاص کر نوجوان طبقہ کو امام خمینی کی غلط نیت اور "حرم شریف" میں کی
جانے والی بدتمیزی سے واقف کیا جاسکے۔ اجلاس کی ابتداء و افتاح "امام حرم"
نے کیا تھا۔ امیر الہندؒ نے حرم شریف میں ہونے والی قتل و غارت گری کو ایرانی
حکومت کی سازش قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"اس سال حج کے موقع
پر حرم مکہ میں جو حادثہ پیش آیا وہ کوئی "تہران" میں تیار کی گئی سازش
کا نتیجہ ہے۔ اب یہ بات قطعی طور پر پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ "ایران"
نے مکمل تیاری کے ساتھ، ہزاروں کی تعداد میں تربیت یافتہ سپاہی اور فوجی حرمین میں
قتل و غارت گری مچانے کے لیے بھیجے تھے۔ دنیا کے بہت سے اخبارات میں یہ خبریں شائع
ہوئی تھیں کہ خمینی کے بیٹے "احمد" نے سوئزر لینڈ میں اسرائیل کے بعض
ذمہ داروں سے ملاقات کی تھی اور اسی ملاقات میں یہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ ایران
کی موجودہ روش اور سیاست کے پیش نظر اس کو بعید از قیاس اور خارج از امکان قرار
نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ مصدقہ اطلاعات اور ذمہ دارانہ شہادتوں کے بموجب، جب
ایرانی فوج کے پاس بڑی تعداد میں اسرائیلی اسلحہ ہے تو یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل یہ
ہتھیار بلا قیمت اور بلا شرط ایران کو مہیا کردی۔"
آج جو کچھ ایران، امریکہ
اور اسرائیل کے حوالے سے سننے کو مل رہا ہے، اس سے یہ ہرگز قیاس نہیں کیا جاسکتا
کہ مندرجہ بالا عبارت میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ ہے، ان دنوں ایرانی صدر محمود
احمدی نژاد، امریکی صدر بش، امریکی وزیر خارجہ کو نڈولیزارائس اور اسرائیلی حکمراں
کی جو بیان بازی سنائی دے رہی ہے، یہ سب سیاسی عروج و زوال کی علامت ہے اور دوسری
طرف ایران کو ایٹمی توانائی کے حصول کے بہت قریب دیکھ کر انسانیت کے دشمن جارج
ڈبلیو بش کے عمل پر، ایرانی صدر احمدی نژاد کا رد عمل ہے؛ (اور امید ہے کہ یہ عمل
جاری بھی رہے گا چاہے امریکی صدر ایران پر فوج کشی تک کی حماقت کیوں نہ کرلی) نہیں
تو ماضی میں ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ اندرونی طور پر ایران و اسرائیل بہت قریب
تھی۔
دارالعلوم، دیوبند کا ہدف
و مقصد، اس کے یوم تاسیس سے ہی مسلمان بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنا، جہالت و گمراہی
کی تاریکی کو علم و معرفت کی روشنی سے ختم کرنا، محبان وطن پید اکرنا، علماء و
عوام کو باہم مربوط کرنا، بدعت کا خاتمہ اورسنت کی ترویج کرنا، اسلام مخالف فرقوں
کی سرکوبی کرنا، حق کی بلندی کے لیے پوری قوت و توانائی صرف کرنا اور باطل قوتوں
کے خاتمے کے لیے کفن بر دوش ہوکر میدان کارزار میں کھڑا ہوجانا ہی؛ چنان چہ اسی
سلسلہ کی ایک کڑی، فتنہ عیسائیت جو اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں کو اسلامی
تعلیمات سے برگشتہ کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، اس کی ارتدادی مہم کے خاتمے کے لیے
دارالعلوم نے "جامع رشید" کی بالائی منزل کے شمالی ہال میں، ایک دو روزہ
تربیتی کیمپ، بہ تاریخ: 4-5/جولائی 2001ء
کو منعقد کیا، اس کیمپ میں امیر الہندؒ کو بھی مدعو کیا گیا تھا؛ مگر قلت و قت، کثرت
مشاغل اور شدید امراض کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے؛ لیکن آپ نے جو بصیرت افروز
تحریری خطاب بھیجا تھا، اس میں بنگلہ دیش میں عیسائیت کی صورت حال، عیسائی تنظیموں
کی کار کردگی اور فریب دہی وغیرہ کے تعلق سے ایک تحقیقی تحریر تھی جس کا ایک حصہ
ملاحظہ ہو:
"ہم آپ کے علم میں
لانا چاہتے ہیں کہ موجودہ دور میں عیسائی مشنریاں، انگلش میڈیم اسکول، کالج،
ہسپتال، عورتوں کی سماجی تنظیمیں بنا کر، نیز غلہ پیسہ دے کر اور چھوٹی صنعتیں
قائم کرکے عیسائیت کے فرغ کے لیے کام کر رہی ہیں، تعلیم کے نام پر غریب اور معاشی
طور پر کمزور، دین کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ عام طور پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ
عیسائی مشنریاں اسکول قائم کر کے ناخواندگی کو دور کرنے میں بڑی معاون ثابت ہو رہی
ہیں؛ لیکن در حقیقت تعلیم کا فروغ قطعا مقصود نہیں ہے؛ بل کہ عیسائیت کی ترویج و
اشاعت مقصود ہے۔ اگر تعلیم ہی مقصود ہے تو مسلمانوں کی طرف سے قائم کیے جانے والے
مسلم انگلش میڈیم اسکولوں کی مخالفت عیسائی مشنریاں کیوں کر رہی ہیں؟"
حضرت فدائے ملتؒ ہمیشہ
باطل قوتوں کی سر کو بی کے لیے شمشیر بے نیام رہے، خواہ وہ اسلام اور شریعت محمدیہ
کے خلاف ہو یاقوم و ملت اور سماج و معاشر ہ سے متعلق ہو جیسے: تحفظ ختم نبوت، تحفظ
سنت، تحفظ شریعت، تحفظ حرم، تحفظ آئین حقوق، سیاہ بل، یکساں سول کوڈ، مسلمانوں کی
شہریت، قضیہ بابری مسجد، مسئلہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی، اوقاف کی نگہبانی و حفاظت
یا پھر فرقہ پرستوں کی طرف سے، مسلمانوں کے خلاف فساد اور اس موقع سے مسلمانوں کا
جانی و مالی نقصان جیسے: میرٹھ، مراد آباد، راورکیلا، گودھرا، احمد آباد، بڑود ہ
اور اندور، یہ ایسے مواقع تھے کہ ہر کوئی اپنی جان و مال اور تجارت کی فکر میں سر
بگریبان تھا؛ لیکن حضرت نے آگ و خون کی ہولی میں قدم ڈال کر اور اپنی جان ہتھیلی
پر رکھ کر فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا، مظلومین و متأثرین کی داد رسی کی، ہر
ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی، ریلیف کیمپس قائم کرکے مدد و نصرت کا انتظام و
انصرام کیا، باز آباد کاری کی پوری کوشش کی، برسر اقتدار حکومت، اس کے کارندوں اور
نمائندوں کی نا اہلی، بر وقت ثابت کردکھایا۔
صوبہ گجرات جو اپنی
شاندار روایات اور مال و زر کی وجہ سے پورے ہندستان میں مشہور ہے، مگر کچھ دنوں سے
کسی بد نظر کی نظر لگ گئی ہے کہ کبھی سماوی آفات اور کبھی فرقہ وارنہ فسادات کی
نذر ہو رہا ہے۔ گودھرا میں 26/فروری
2002ء کو "حادثہ سابرمتی اکسپریس" کے
بعد، فرقہ پرستوں نے جو آگ و خون کی ہولی شروع کردی؛ بوڑھے، بچے، جوان، مرد و عورت
سب کو ایک صف میں کھڑا کردیا، قتل و غارت گری کی گئی، لوگوں کو زندہ جلا یا گیا،
عصمت دری اور آبرو ریزی کی ذلیل حرکت کا بھی ارتکاب کیا گیا، ظلم و جور اور
حیوانیت و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے بلوائیوں نے حاملہ عورت کے پیٹ سے بچہ نکال
کر نیزہ پر لٹکا دیا، مکاتب و مدارس اور مساجد و خانقاہ میں آگ لگائی گئی، قرآن
کریم کو نذر آتش کیا گیا، مکانوں اور گھروں کو برباد کیا گیا اور دکانوں اور
اسٹوروں کو لوٹا گیا، جو لوگ دوسرے کے پیٹ بھرتے تھے انہیں در در ٹھوکر کھانے پر
مجبور کیا گیا۔ یہ پورا ڈرامہ ہوتا رہا اور صوبائی و مرکزی حکومت ہاتھ پر ہاتھ
دھرے بیٹھی رہی؛ بل کہ اس وقت کی مرکزی حکومت نے تو اپنی گندی ذہنیت کا ثبوت دیتے
ہوئے اسے ایک عمل کا رد عمل قرار دیا، جس نے ہندستان کی سیاسی تاریخ کو گند ہ اور
پراگندہ بنادیا۔ مولانا مدنیؒ نے اس موقع سے مظلومین و متاثرین کی حالت سے واقف ہونے
کے لیے جمعیۃ کے وفد کو بھیجا، مدد و نصرت کے لیے رلیف کیمپ لگوائی، جمعیۃ کے ہی
پلیٹ فارم سے، باز آبادکاری کی غرض سے درجنوں کا لونیاں بنوائی گئیں، سینکڑوں
مکانات تعمیر کروائے گئے اور اجڑے دیار والوں کو ان میں بسایا گیا۔ بہت سی مساجد
اور مدارس (جنھیں بلوائیوں نے تباہ و برباد کر دیا تھا) باز آباد کرائے گئی، اس
طرح اہل گجرات کی حتی الوسع مدد کی گئی، دلاسہ دلایا گیا اور انھیں احساس دلایا
گیا کہ اگر حکومت مردہ ضمیر ہو چکی ہے؛ تو کوئی بات نہیں، دنیا میں ابھی بہت سے
انسانیت نواز وزندہ دل لوگ موجود ہیں۔ اس مثالی باز آباد کاری سے حکومت شرم سار
ہوگئی کہ جسے حکومت نہیں کرسکی اسے ایک غیر سرکاری تنظیم اور اس کے قائدنے کر
دکھایا۔
جب بھی قوم وملت اور ملک
و وطن نے جیسی ضرورت محسوس کی، امیر الہندؒ اس کے لیے حاضر ہو گئے اوراس میں ایک
ایسا مثالی رول ادا کیا کہ سب کے لیے نمونہ بن گئی: چاہے وہ ضرورت علمی و اصلاحی
ہو یا سماجی و سیاسی، جلسے و جلوس کی شکل میں ہو یا سفر و حضر کی صورت میں۔ انھوں
اپنی عمر عزیز کا باضابطہ 18/سال
سیاسی طور پر قوم کی حاجت میں صرف کیا۔ وہ تین ٹرمس (1968 تا 1974، 1980 تا 1986 اور 1988 تا 1994) ملک کی برسر اقتدار اور
جنگ آزادی میں حصہ لینے والی "کانگریس پارٹی" کی طرف سے "ایوان
بالا" کے رکن نامزد کیے گئے۔ آپ اس عہدہ پر رہتے ہوئے اس کے منافع و فوائد
اور مراعات کو صر ف اپنی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال نہیں کیا؛ بل کہ "راجیہ
سبھا" کی کرسی سے ہمیشہ اقلیتوں اور بالخصوص مظلوم ہندستانی مسلمانوں کے حقوق
کی باز یابی کی جنگ لڑتے رہے۔ ضرورت پڑنے پر حکومت وقت کو سلیقہ مندی اور دانائی
کے ساتھ للکارا اور کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں بھی کی۔ جب بھی مسلم
اقلیت کو کسی نے بد نام کرنے کی کوشش کی، اسے بھر پور اور تشفی بخش جواب دیا اور
سامنے والے کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا؛ جب کہ بہت سے لوگ ایسے مناصب پر
فائز ہونے کے بعد، یکسر قوم وملت کو فراموش کر دیتے ہیں اور ان کی زبان میں تالا
لگ جاتا ہے؛ لیکن آپ نے بے باکی کے ساتھ اپنے حق کا استعمال کیا اور کسی کا دبائو
قبول نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک وہ
پارلیمنٹ میں رہے، مولانا حفظ الرحمنؒ کی یاد تازہ کردی۔ آپ بر وقت جبری نس بندی،
متبنی بل، تعدد ازواج، نکاح رجسٹریشن بل اور پولیس و فوج میں مسلمانوں کا داڑھی
رکھنا وغیرہ جیسے مسائل کے حوالے سے ہمیشہ صدائے احتجاج بلند کیا۔ ستمبر 1969ء میں "بڑودہ"
اور "احمد آباد" میں ہونے والے ہولناک فسادات کے بعد 19/نومبر 1969ء کو، آپ نے ولولہ انگیز
اور جو شیلی تقریر سے اراکین پارلیمنٹ کو سکتہ میں ڈال دیا اور ہندستانی مسلمانوں
کو برا بھلا کہنے والے کے منہ میں تالا لگاتے ہوئے فرمایا:
"میں ملک کی اس
جماعت اور اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جس نے ہندستان کی آزادی کی جد وجہد میں
عظیم الشان قربانیاں دی ہیں اورہندستان کی تقسیم کے خلاف تحریک میں حصہ لیا ہے اور
مجھے یہ ناپسند ہے کہ پاکستان ہمارے معاملات میں شرارت کرے ہمارے اندر اتنی صلاحیت
ہے کہ ہم اپنے معاملات سلجھا سکیں؛ لیکن یہیں پوری صفائی کے ساتھ میں یہ بات بھی
واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ بات بالکل ناپسندیدہ اور شر انگیز ہے کہ جب ظلم و
ناانصافی کی بات آئے، مسلمانوں کی تباہی و غارت گری کی بات آئے اس کا رشتہ پاکستان
یا کسی بیرونی طاقت سے جوڑنے کی کوشش کی جائے، یہ ہندستانی مسلمانوں کی توہین ہے،
عزت و وقار کی تذلیل ہے اور مظلومیت کے خلاف ایک منصوبہ بندسازش ہے۔ پہلے بھی ایسا
ہوتا رہا ہے اور ابھی اندور میں ایسا ہوا اور احمد آباد میں بار ہا اس کا اعادہ
ہوا ہے۔ میں مسلمانوں کی اس توہین کے خلاف سخت احتجاج کرتا ہوں۔"
مولانا مدنیؒ کی زندگی کا
ایک اہم پہلو "خانقاہی سلسلہ" بھی تھا۔ شیخ الاسلامؒ کی وفات کے بعد، ان
کے مریدین و معتقدین اور منتسبین و مسترشدین نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا لیا، دیدہ
و دل فرش راہ کیے اور آپ پورے طور پر اس کے مستحق بھی تھے۔ آ پؒ نے ان کے استقبال
کا خوب احترام کیا؛ بل کہ قلت و قت و کثرت مشاغل اور یکے بعد دیگرے اسفاری سلسلے
ہونے کے باوجود، مسلمان ہند و بیرون ہند کو دامن اصلاح و تزکیہ سے وابستہ کیے رہے۔
ان کے درمیان ایک شیخ طریقت اور مرشد کامل کی حیثیت سے اپنے قیمتی اوقات صرف کیے۔
آپؒ سال کے 11/
مہینے بغیر کسی پابند ی کے کہیں بھی گزارتے؛ لیکن رمضان کا مہینہ پابندی کے ساتھ
"دیوبند" میں ہی گزارتے اور رمضان کا حق ادا کردیتے۔ رمضان کے مہینے میں
ایک زمانہ تک "مدنی مسجد" میں اپنی خانقاہ لگاتے رہے، پھر مریدین کی
کثرت کی وجہ سے دارالعلوم کی حسین و جمیل، وسیع و عریض اور فلک بوس "مسجد
رشید" کے تہہ خانہ میں یہ سلسلہ اپنی حیات مبارکہ کے آخری سال تک جاری رکھا۔
رمضان کا مہینہ جوں ہی آتا، آپ کے قرب و جوار اور دور و دراز کے تمام مریدین حاضر
ہو جاتے، مسجد رشید میں اعتکاف کرتے اور آپ کی ذات سے خوب استفادہ کرتی۔ ذکر و
اذکار، نوافل و تلاوت اور لوگوں کی آمد و رفت کی وجہ سے مسجد گونجتی رہتی، اس کا
حسن دو بالا ہو جاتا اورایسا محسوس ہوتا کہ کوئی بہت بڑاجلاس و کانفرنس منعقد ہونے
جارہا ہو۔ آپ نے اپنی تمام مشغولیات کے باوجود اعتکاف کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا،
حتی کہ سال رواں اتنی نقاہت و ضعف کے باوجود بھی اعتکاف کیا۔ مولاناؒ کے یہاں ذکر
و اذکار اور بیعت ارشاد کا سلسلہ ماہ رمضان کے علاوہ میں بھی جاری رہتا۔ آ پ کے نو
تعمیر شدہ مہمان خانہ: "الزاویۃ المد نیۃ" (مدنی خانقاہ) میں مریدین صبح
و شام تسبیح و تلاوت میں مشغول رہتے۔ امیر الہندؒ نے اس شکوک و شبہا ت اور دہریت و
الحاد کے دور میں جتنے لوگوں کی اصلاح کی وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے۔
فدائے ملتؒ اپنی عمر کے 78/ بہاریں دیکھ چکے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ اتنی عمر میں انسان زندگی کے مقابلے میں موت سے زیادہ قریب ہوتا ہے؛
چنان چہ اس بڑی عمر میں وفات کوئی اچانک حاثہ نہیں سمجھا جاتا ہے؛ بل کہ بڑی عمر
کا طبعی نتیجہ سمجھا جاتا ہے؛ لیکن حضرت کی وفات ان کے عظیم کارناموں کی وجہ سے
لوگوں کے لیے خسران عظیم ہے۔ آپ نے عید کی نماز کے بعد طبی معائنہ کے لیے
اپولواسپتال، دہلی تشریف لے گئے، ڈاکٹر کے اطمینان دلانے پر 5/نومبر کو "دیوبند"
آئے اور نماز کے لیے مسجد جارہے تھے کہ دروازے پروہیل چیر سے گر گئے، سر میں چوٹ
آئی فالج کا اثر ہوا اور بے ہوش ہو گئے۔ آپ کے برادران اور صاحب زادہ محمود مدنی،
آپ کو لے کر "اپولو اسپتال، دہلی" پہنچے۔ اسپتال کے خصوصی نگہداشت والے
یونٹ میں رکھا گیا، وزیر اعظم کی تشکیل کردہ اپولو اور آل انڈیا میڈیکل کے ڈاکٹروں
کی ٹیم نے علاج کرنا شروع کر دیا۔ سرکا دو مرتبہ آپریشن ہوا جو کام یاب رہا، رو
بصحت ہونے لگے اور دل و دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا؛ لیکن پھر "کوما"
میں چلے گئے اور دوبارہ ہوش نہیں آیا۔ اس طرح تین ماہ، پانچ دن، موت و حیات کی کش
مکش سے دو چار ہونے کے بعد بہ روز: سوموار6/فروری 2006 = 7/محرم
1427ھ کی شام کو یہ متحرک و
فعال قائد، روحانیت و عزیمت کا کوہ ہمالہ، خلوص للہیت کا پیکر، شیخ طریقت اور
جرأت و بسالت کا آفتاب عالم، جو دیوبند میں طلوع ہوا "نئی دہلی" کے افق
میں غروب ہوکر، دیوبند ہی کے "مزار قاسمی" میں اپنے والدؒ کے جوارمیں
ابدی نیند سوگیا۔
مندرجہ بالا سطور میں،
حضرت امیر الہندؒ کے تعلق سے جو کچھ جذبات واحساسات اور ان کے کارنامے کو تحریری
جامہ پہنایا گیا ہے، وہ برائے نام ہے؛ نہیں تو ان کی سیاسی و سماجی اورعلمی
واصلاحی خدمات اور ان کی زندگی کے تمام گوشوں کے بحر بے کراں کو سمو نے کے لیے
دفاتر اور سفینے چاہیے جو ان شاء اللہ ان کی "سوانح حیات" کی صورت میں
آئیں گی۔ انہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے جو کچھ بھی کمالات و کارنامے، اپنے خصوصیات
و امتیازات کی وجہ سے پیش کیے، لوگوں کو فائدہ پہنچایا اور افراد امت نے جو ان سے
فائد ہ اٹھائے، اب ان کی وفات کے بعد وہ سلسلہ ختم ہوگیا، جس کا احساس ایک عرصہ
دراز تک رہے گا؛ بایں وجہ ان کی وفات کو ایک حادثہ فاجعہ اور سانحہ عظیمہ سے یاد
کیا جائے گا۔ ان کے خدمات و کارنامے کا اصل بدلہ تو روز مکافات میں، اللہ تعالی کی
طرف سے ملے گا، جن کی خوشنودی و رضا کے لیے انھوں نے یہ سب کچھ کیا۔ احقر نے یہ
چند سطور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے رقم کیا ہے جسے عباسی شاعر ابن معتز کے
شعر میں قدرے ترمیم کی ان کی روح سے معذرت کے ساتھ ختم کر رہا ہے۔ ؎
قد ذھب الناس و مات الکمال٭و صاح صرف
الدھر این الرجال؟
ھذا أسعد المدني في نعشہ ٭ قوموا انظروا کیف تسیر الجبال!
٭ لکچرر: مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ
ریسرچ سینٹر، انکلیشور، گجرات، ہند
No comments:
Post a Comment