افریقی ملک زامبیا میں چند دن
از: (مولانا) محمد اکرم قاسمی صاحب
ڈائریکٹر: مکاتب دار المعارف، اٹارسی، ضلع: ہوشنگ آباد، ایم پی
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله ربّ العلمین،
والصَّلاةُ والسلام علی سیّدنا و حبیبنا محمد بن عبد الله الامین، وعلی آله وصحبه اجمعین،
أمَّا بعد:
ایک مسلمان کے لیے سب
سے قیمتی چیز اس کا ایمان ہے۔ اس دنیا میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور ایمان کی حالت
میں اس دنیا سے رخصت ہونا ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔ ایمان کے اس قیمتی سرمائے کی حفاظت
کے لیے ہمارے پاس "علم دین" کا ہونا بہت اہم اور ضروری ہے۔ دین کی بنیادی
تعلیم ہی مسلمانوں کی نسلوں میں ایمان کے بقا کا بہترین ذریعہ ہے۔
جس طرح سے مسلمانوں نے
ہر دور میں علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کیا ہے وہ یقینا من جانب اللہ ہے
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کی واضح دلیل ہے۔ تاریخ گواہ
ہے کہ اللہ رب العزت نے دین اسلام کی حفاظت کے لیے ہر دور میں کچھ ایسے افراد کو منتخب
کیا جنہوں نے نبی خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوے آخری دین کو اپنے بعد آنے
والے لوگوں تک پہونچانے کا فریضہ انجام دیا۔ اللہ نے جن لوگوں کو دین اسلام کی حفاظت
کے لیے منتخب کیا، بیشک وہ حضرات اپنے وقت کے سب سے خوش قسمت اور کامیاب ترین لوگ تھے،
چاہے دنیا انہیں جو کچھ کہتی رہی ہو۔
اسی سلسلے کا ایک نظارہ
گذشتہ دنوں زامبیا (افریقہ) کے سفر پر دیکھنے کو ملا۔ ہندوستان سے زامبیا کا یہ سفر
وہاں کے کچھ مکاتب دیکھنے اور اس پرائے ملک میں بڑی قربانیوں کے ساتھ علم دین کی خدمات
میں مشغول کچھ احباب سے ملاقات کے مقصد سے ہوا تھا۔ حضرت مولانا ابراہیم صاحب شولاپوری
جیسے تجربہ کار داعی اور جہاں دیدہ ساتھی کی رفاقت نے اس سفر کی کامیابی کو دوبالا
کر دیا تھا۔
۱٦، فروری ۲۰۲۰ء زامبیا کی راجدھانی 'لوساکا'
پہونچنا ہوا، اور اسی روز مفتی عزیز الرحمان صاحب(استاد جامعہ اسلامیہ، لوساکا) کی
رہبری میں وہاں کے مرکزی ادارہ 'جامعہ اسلامیہ، لوساکا اور دارالیتامی مکینی جانا ہوا۔
اہل علم اور ذمہ داران سے ملاقاتیں ہوئیں اور ملک کے موجودہ تعلیمی حالات پر تبادلۂ
خیال ہوا نیز وہاں کے طریقۂ تعلیم اور نصاب پر بھی کچھ گفت و شنید ہوئی۔
اگلے دن یعنی ۱۷ فروری
کو لوساکا سے پولونگو کے سفر پر نکلنا ہوا۔ پولونگو ایک شہر ہے جو زامبیا کی راجدھانی
لوساکا سے ۱۰۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔ یہ شہر دنیا کے میٹھے پانی کے سب سے لمبے
تالاب 'لیک ٹنگانکا' کے کنارے واقع ہے۔ اس تالاب کے کناروں پر آباد گاؤں، دیہاتوں میں
اور کچھ جزیروں میں مسلم آبادیاں موجود ہیں۔ یہ سب یہاں کے پرانے قبیلائی سیاہ فام
لوگوں کی بستیاں ہیں، جو دنیا کے موجودہ تعلیمی، تکنیکی اور اقتصادی نظام سے تقریبا
پوری طرح کٹی ہوی ہیں۔ یوں تو پولونگو تک ہی پہونچنا کافی دشوار گذار ہے، مگر ان قبیلائی
دیہاتوں تک پہونچانا اور بھی مشکل ہے۔
آج سے کچھ سال پہلے، مچھلیوں
کے کاروبار کی ایک کمپنی یہاں آئی، جسکے مالک جناب 'شاہد بھائی مُتالا'
بھی یہاں آئے اور اس جگہ آباد ہو گئے۔ جب انکے بچے بڑے ہوے تو انہیں اپنے بچوں کی تعلیم
کی فکر ہوئی، اور اس طرح دو/چار بچوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا مدرسہ انہوں نے اپنے یہاں
شروع کیا۔ جب لوگوں میں اس بات کی تشہیر ہوئی تو انہوں نے بھی اپنے بچوں کو بھیجنا
شروع کر دیا اور یوں ایک بڑی تعداد اس گھرنما مدرسہ میں علوم نبویہ کو حاصل کرنے والوں
کی جمع ہونے لگی۔ لوگوں میں جہالت اور بے دینی کے مناظر دیکھ کر یوں تو ہر مؤمن کا
دل دکھتا ہے، مگر جہالت کے سمندر جیسے علاقے میں لوگوں میں علم دین کا شوق ہونا کرشمۂ
قدرت ہی کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال اللہ تبارک و تعالی کو یہاں کے لوگوں کی پراگندہ حالی
پر رحم آیا جسکے نتیجہ میں کچھ اہل خیر حضرات کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی۔
ان اہل خیر حضرات نے یہاں
ایک اسکول اور مدرسہ قائم کیا۔ پھر دیہاتوں میں بسنے والے مسلمانوں کے ایمان و عقائد
کی فکر کرتے ہوے، وہاں مکاتب کا نظام شروع کیا۔ یہ مکاتب جنگلاتی، پہاڑی علاقوں میں
واقع ہیں اور راستے انتہائی دشوار گذار ہیں۔ بعض جگہوں پر صرف کشتی ہی سے جانا ممکن
ہے۔ ان مکاتب کی تعداد آج سے چند ماہ پہلے تک ۷۰ سے متجاوز تھی۔ ان ۷۰ سے زائد جگہوں
میں سے بجلی (لائٹ) صرف دو یا تین جگہوں پر ہی ہے۔ ان جگہوں پر کام کرنے میں دیگر بہت
سی دشواریوں کے ساتھ ایک بڑی دشواری زبان ہے۔ مقامی لوگ علم سے ناآشنا ہیں اور باہر
سے آنے والے یہاں کی زبان نہیں جانتے۔ فی الحال ان مکاتب میں اساتذہ وہ مقامی نوجوان
ہیں جو اسکول کے بعد 'معلم کورس' کیے ہوے ہیں۔ 'معلم کورس' یہاں پر بطور خاص مکاتب
میں اساتذہ کی فراہمی کے لیے چلایا جانے والا ایک تین سالہ کورس ہوتا ہے، جس میں بنیادی
دینی معلومات، قرآن پڑھانے کا طریقہ، امامت کا طریقہ و غیرہ جیسی بنیادی چیزیں سکھائی
جاتی ہیں۔
ان مکاتب میں کہیں کثیر
تعداد میں بچّے ہیں تو کہیں کم۔ اگر کسی جگہ مسلم بچّوں کی تعداد کم بھی ہو اور کوئی
وہاں بچّوں کو پڑھانے بیٹھ جائے، تو غیر مسلم بھی اپنے بچّوں کو حصول علم کے لیے بھیجنا
شروع کر دیتے ہیں۔ جن جگہوں پر اسکول ہیں، وہاں طلبہ انگریزی جانتے ہیں اور جہاں کوئی
اسکول نہیں ہے، وہاں لوگ انگریزی نہیں جانتے اور بیمبا (یہاں کی مقامی زبان) ہی بول
سکتے ہیں۔ اساتذہ انگریزی سمجھتے اور بول لیتے ہیں۔
بہرحال، مکاتب کا جو سلسلہ
یہاں جاری تھا، ان میں کوئی ترتیب نا ہونے کی وجہ سے تعلیم کبھی کسی معیار کو نہیں
پہونچ سکی۔ ممکن ہے دیگر کچھ اور وجوہات بھی رہی ہوں جنکی بناء پر کوئی خاطر خواہ نتیجہ
نا مل سکا ہو۔ لہذا آج سے تقریبا ۸ مہینے قبل، ٹرسٹی حضرات نے کوئی نتیجہ ناملنے کی
وجہ سے اس سلسلے کو موقوف کر دیا تھا۔ بعد میں خود ٹرسٹی حضرات اور زامبیا میں پڑھانے
والے کچھ ساتھیوں نے اس نظام کو دوبارہ شروع کرنے کی فکریں کیں اور کسی نتیجہ خیز ترتیب
و نظام کے ساتھ دوبارہ کام شروع کرنے کی فکریں ہوئیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے ساتھیوں
میں مشورے ہوتے رہے اور اسی نسبت پر میرا بھی یہاں آنا ہوا۔
یہاں پہونچنے کے بعد ساری
چیزوں پر غور کیا گیا اور پہلے سے چلنے والے مکاتب میں سے ۳٦ اور نئے ۱٦ مکاتب شروع کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ چونکہ پرانے مکاتب سے متعلق پہلے
سے کوئی بات طے نہیں تھی، اس لیے وہاں کے اساتذہ کو جمع نہیں کیا جا سکا تھا۔ نئے اساتذہ
کے ساتھ طریقے تعلیم پر ایک سہ روزہ تدریبی کیمپ رکھا گیا، جس میں انہیں ابتدائی بچوں
کو قاعدہ پڑھانے کا انداز بتایا گیا۔ آئندہ آنے والے چھے مہینوں کے لیے قاعدہ اور
'زبانی دعاؤں' کا ایک نصاب بنا کر بھی دیا گیا۔ آنے والے دو ماہ میں سبھی مکاتب کی
تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ ایک دفعہ مکمل رپورٹ تیار ہونے
کے بعد آگے کی ضروریات کے لحاظ سے کام کیا جائےگا، ان شاء اللہ۔
مکاتب کی ان ساری سرگرمیوں
کا مرکز 'جامعہ عرفانیہ' ہے۔ جامعہ عرفانیہ پولونگو ہی میں واقع ایک ادارہ ہے، اس ادارے
میں ناظرہ و ابتدائی عربی درجات کے ساتھ معلم کورس بھی چلایا جاتا ہے۔ جامعہ عرفانیہ
کے اساتذہ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں مگر قلت وقت کی بناء پر معلم کورس کے نظام و نصاب
کو اچھے سے دیکھنے سمجھنے کا موقع نہیں مل سکا۔
مکاتب کے امور سے فراغت
کے بعد 'مون ریژ اسکول' بھی جانا ہوا۔ 'مون ریژ اسکول' ایک پرائویٹ اسکول ہے، جہاں
طلباء و طالبات کو اسلامیات بھی پڑھائی جاتی ہے۔ استاذ محترم مولانا خورشید عالم داؤد
قاسمی صاحب اس اسکول میں اسلامیات کے ہیڈ (ذمہ دار) ہیں؛ جبکہ مفتی نعمان صاحب انتظامی
امور دیکھتے ہیں اور ہمارے دوست مفتی آصف صاحب گرلژ سیکشن (لڑکیوں) میں اسلامیات کے
اہم استاذ ہیں۔ مفتی صاحب کے ساتھ گرلژ سیکشن کی درسگاہوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ الحمد
للہ، بچّیاں بڑا عمدہ قرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ضروری مسائل دین سے بھی واقف تھیں۔ اللہ
اس اسکول کو مزید ترقیات سے نوازے اور سارے معاونین و ٹرسٹی حضرات کے حق میں اسے ذخیرۂ
آخرت بنائے۔
بالآخر ۲٤ فروری کو پولونگو سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔
راستے میں کچھ غیر متوقع پریشانیوں کی وجہ سے واپسی کے سفر میں دو روز لگ گئے۔ پولونگو
سے ہم لوگ سیدھے پیٹاؤکے کے لیے روانہ ہوے۔ پیٹاؤکے میں مفتی عبد القوی صاحب قاسمی
اور مولانا ذکی صاحب قاسمی ہیں اور یہاں یہ حضرات ایک اسکول کے زیر انتظام خدمات انجام
دے رہے ہیں۔ اس اسکول کے زیر نگرانی بھی کئی مکاتب چل رہے ہیں۔ ان مکاتب میں سے دو
جگہوں پر جانا ہوا۔ الحمد للہ، یہ مکاتب قدرے غنیمت ہیں۔
پیٹاؤکے سے کچھ آگے دو
اور حضرات: مولانا منظر صاحب قاسمی اور مولانا نسیم صاحب قاسمی رہتے ہیں۔ پہلے ہمارا
ارادہ تھا کہ ان حضرات سے ملاقات کے لیے ان کے گھر پہونچا جائے۔ مگر راستے میں کچھ
ناخوشگوار حالات کی وجہ سے ہمیں وقت زیادہ لگ گیا تھا۔ اس لیے ہم لوگ ان احباب سے ملاقات
کے لیے نہیں پہونچ سکتے تھے۔ جب یہ بات ان احباب کو پہونچی تو وہ حضرات پیٹاؤکے تشریف
لائے، فجزاھم اللہ خیرا۔
پیٹاؤکے سے ۲٦ فروری کو ہم لوساکا چلے آئے۔ لوساکا میں
۲۷ فروری کو کچھ ٹرسٹی حضرات ریحان بھائی کے گھر پر جمع ہوے اور مکاتب کے تعلق سے کئی
اہم مشورے ہوے۔ الحمد للہ، کافی کام کی باتیں ہوئیں اور سب کو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے
سے کام کرنے کا حوصلہ ملا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب العالمین تمام احباب کو جزائے
خیر عطا فرمائے اور ان مکاتب کو اچھے مضبوط ترتیب و نظام تک پہونچا دے ۔ آمین!
محمد اکرم قاسمی، سورت، گجرات، انڈیا
٤ مارچ ۲۰۲۰
No comments:
Post a Comment