Sunday, May 30, 2021

القسّام نےباور کرادیا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں








القسّام نےباور کرادیا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں

القسّام نےباور کرادیا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں

 

بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق:

غاصب اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر مسلط کی گئی گیارہ روزہ ہلاکت خیز جنگ، مصر کی ثالثی میں 21/مئی 2021 کو، جمعہ کی شب میں، مقامی وقت کے مطابق دو بجے بند ہوگئی۔ مصر نے فریقین کو غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز پیش کی جسے انھوں نے قبول کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ، اسرائیل کی سکیوریٹی کابینہ کے اجلاس میں، جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کے بعد کیا گیا ہے۔ حماس کے عہدیدار طہیر ناونو نے بھی جنگ بندی کی تصدیق کی۔ پھر غزہ کی پٹی میں لوگ سڑکوں پر نکل کر جشن منانے لگے۔حماس کا کہنا ہے کہ یہ ہماری جیت ہے۔ ہم نے جنگ بندی کے لیے دو شرطیں رکھی تھی کہ مشرقی بیت المقدس کے علاقہ "شیخ جراح "میں یہودی بازآبادکاری کو فورا روکا جائے اور مسجد اقصی کے احاطہ سے اسرائیلی فوج اور پولیس کو دور رکھا جائے؛ کیوں انھیں دو وجہوں سےجنگ شروع ہوئی تھی۔

 

جنگ بندی کے علاوہ اسرائیل کے پاس کوئی چارہ نہیں :

اسرائیلی حکومت  کوجنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ غزہ پر اسرائیلی دہشت گردی کے حوالے سے بروز: جمعرات، 20/مئی کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس نیویارک میں منعقد ہواتھا۔ اس اجلاس کا مطالبہ کرنے والوں میں عرب اور مسلم ممالک تھے جن میں ترکی، پاکستان، ملیشیا، انڈونیشیا، برونئی وغیرہ پیش پیش تھے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ  چین اور روس جیسی طاقتیں بھی اس اجلاس کے مطالبہ ان میں ممالک کے ساتھ تھیں۔ اجلاس میں ترکی،پاکستان، ایران، ملیشیا اور فلسطین کے نمائندوں نے اسرائیلی دہشت گردی پر کھل اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چینی اور روسی نمائندے بھی ان کے ساتھ نظر آئے۔ سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے خطاب میں فریقین کے درمیان غزہ میں لڑائی کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ سکریٹری جنرل نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی بازآبادکاری کی کاروائیاں، وہاں کے (مسلمانوں کے) مکانوں کی مسماری اور باشندوں کی جبری  بے دخلی سے باز آئے۔

 

اسرائیل کے لیے یہ بھی تشویش کا باعث رہا کہ غزہ کی پٹی میں، وحشیانہ بمباری کےبعد سے دنیا کے متعدد ممالک میں آباد یہودیوں کو پہلے کی بہ نسبت زیادہ سخت خطرات پیدا ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ 14/مئی کو اسرائیلی سفیر برائے جرمنی نے  جرمنی حکام سے درخواست کی کہ موجودہ فلسطین اسرائیل جنگ کی وجہہ سے جرمنی کے یہودیوں کو خطرات کا سامنا ہے؛ لہذا ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے یہ مسئلہ بھی لمحہ فکریہ بنا رہا کہ اندرونِ ملک عرب مسلمان شہریوں کے احتجاج کی وجہ سے مسلمان اور یہودی شہریوں کے درمیان فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شہریوں کے درمیان امن وسلامتی ایک اہم مسئلہ بن گیا؛ تا آں کہ مسلمانوں کے احتجاج کو کچلنے  کے لیے حکومت نے فوج کی مدد حاصل کی۔ ان وجوہات نے اسرائیلی سکیوریٹی کابینہ کو جنگ بندی کی مصری تجویز پر، فورا اتفاق کرنے پر مجبور کیا۔  اگر یہ جنگ لمبی چلتی؛ تو یہ بھی ممکن تھا کہ روس اس جنگ میں کود پڑتا، جو اسرائیل کو بڑا مہنگا پڑتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ روس اور چین "حماس" کی مزاحمت کو دہشت گردی سے نہیں جوڑتے ہیں۔

 

عالمی رہنماؤں کے اسرائیل کے خلاف سخت لہجے:

غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری اسرائیلی ریاستی دہشت گردی تھی۔اسرائیل نے  اس دہشت گردی کو چھپانے کے لیے کئی غیر ملکی میڈیا اداروں کے دفاتر کو بھی زمیں بوس کردیا۔ اس دہشت گرانہ کاروائی کو بہت سے عالمی رہنماؤں نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسرائیل کو سخت لہجے میں جنگ بندی کے لیے کہا تھا۔

 

بی بی سی کی 19/مئی کی ایک خبر کے مطابق "روسی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ملک کے ایک سینیئر اہلکار نے اسرائیلی سفیر کو بتایا ہے کہ ایسے کوئی اقدامات اب قابل قبول نہیں ہوں گے جن سے غزہ میں مزید ہلاکتیں ہوتی ہیں۔" روس عالمی سطح پر ان ممالک میں شامل ہوگیا تھا، جنھوں نے غزہ میں سیز فائر کا مطالبہ کیا تھا۔

 

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین اس وقت 2014 کے بعد سے، اب تک کا سب سے بڑا تنازع پیدا ہوا ہے۔ اس کے حل کے لیے امریکہ کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے۔  اسرائیل کو تحمل سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف تشدد، دھمکیوں اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ بند کرنا چاہیے۔

 

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کی حمایت کرنے پرامریکی صدر جو بائیڈن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ آج ہم نے دیکھا کہ جوبائیڈن نے اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے کی ڈیل پر دستخط کیے ہیں۔  بائیڈن اپنے خون آلود ہاتھوں سے تاریخ لکھ رہا ہے۔  امریکا نے اپنے رویہ سے ہمیں یہ کہنے پر مجبور کیا؛ کیوں کہ فلسطینی خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے امن کے منتظر ہیں۔ اب ہم مزید خاموش نہیں رہ سکتے اور ہم فلسطین کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ رجب اردوان نے اتنا سخت لہجہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ عین جنگ کے دوران، 18/مئی 2021 کو امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے غاصب اسرائیل کو ساڑھے تہتّر کروڑ ڈالر کی مالیت کے گائیڈ ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔

 

بیت المقدس سرخ لکیر:

اس جنگ کے دوران پہلی بار غزہ پٹی اور مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کے درمیان زبردست اتحاد و اتفاق دکھا اور مغربی کنارے والوں نے جم کر غزہ والوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی۔ حماس کے حوالے سے فلسطینی متحد نظر آئے۔ حماس کی عسکری ونگ "القسام بریگیڈ"نے بھی یہ ثابت کردیا کہ بیت المقدس سرخ لکیر ہے،اس پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔ مسجد اقصی پر جو بری نظر ڈالے گا، اس کو  سنگین نتائج  کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حماس کے سربراہ  اسماعیل ہانیہ نے جنگ بندی کے بعد اپنے پیغام میں کہا کہ فلسطینی قوم نے ایک بار پھرثابت کیا ہے کہ قبلۂ اوّل ہمارا ہے اور القدس سرخ لکیر ہے۔  آج فلسطینی قوم کی قابض اور غاصب دشمن پر فتح کا دن ہے۔آج پوری مسلم دنیا، فلسطینی قوم اور دنیا کے زندہ ضمیر لوگ خوش ہیں۔ فلسطینی قوم نے جس بہادری  اور ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا ہے، اس نے پوری فلسطینی قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ قدس اوراقصی کی آزادی کا مرحلہ ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ انھوں نے اس عظیم فتح  پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔

 

فلسطینیوں کا جانی ومالی نقصان:

فلسطینی عوام مسجد اقصی کی حفاظت اور اپنے وطن کی تعمیر کے لیے جس طاقت سے ٹکر لے رہے ہیں، جنگی ساز وسامان کے اعتبار سے اس طاقت کے مقابلے میں فلسطینی کچھ بھی نہیں ہیں؛ لہذا اس جنگ میں فلسطینیوں کا جانی ومالی نقصان بڑے پیمانے پر ہونا تھا، وہ ہوا۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت اطلاعات ونشریات کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وحشیانہ  بمباری میں ایک لاکھ ساتھ ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔ اس میں 322/ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تقریبا 1335/رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوئی ہیں اور 13/ہزار رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ 184/ ٹاور مسمار کیے گئے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق کہ 30/اسپتال تباہ ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارت تعلیم نے 27/طلبہ کے شہیداور 46/اسکول کے تباہ ہونے کی خبر دی ہے، جن میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی "اونروا" کے اسکول بھی شامل ہیں۔ وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق اس بمباری میں تقریبا 243/ فلسطینی  شہید ہوے ہیں، جن میں 66/بچے، 39/خواتین اور 17/عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔ خواتین اور بچے سمیت تقریبا 1910/افراد زخمی ہوئے ہیں۔

 

غاصب اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب:

جنگ کے بھی کچھ اصول وضوابط ہیں۔  عام شہریوں کی جان ومال کا تحفظ اور پریس کی آزادی کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر  کوئی ملک جنگی جنون میں آکر، ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے؛ تو وہ  جنگی جرائم کا مرتکب ہوگا۔ اِس جنگ میں اسرائیلی افواج نے معصوم شہریوں پر ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے شدید گولہ باری اورعام شہریوں کے  رہائشی علاقوں  اور ان کی املاک پر میزائل سے حملےکیے ہیں۔ کئی بین الاقوامی ابلاغی اداروں کے دفاتر پر حملہ کیا گيا اور صحافیوں کو زخمی کیا گیا ہے۔ فلسطینی پریس یونین کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج کے حملے میں ابلاغی اداروں کے 33/مراکز تباہ اور 170/صحافی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ وہ وحشیانہ کاراوائیاں ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل جنگی جرائم کامرتکب ہے۔

 

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم، "یورو مڈل ایسٹ ہیومن رائٹس آبزر ویٹری" نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی توپ خانے کے ذریعے کی گئی وحشیانہ گولہ باری اور اس میں بے گناہ فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوے اسے جنگی جرم قرار دیا ہے۔ تنظیم  کا کہنا ہے کہ یہ گولہ باری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی  اور جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ اسرائیلی فوج نے زمینی اور فضائی کاروائیوں میں،سیکڑوں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو شہید کرکے، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو کھلے عام پامال کیا ہے۔

 

اسرائیلیوں کا جانی ومالی نقصان:

اسرئیل کو لگ رہا تھا کہ وہ معمولی سی کاروائی میں حماس کی عسکری ونگ "القسام" کا خاتمہ کرکے ان کی مزاحمت سےچھٹکارا پالیں گے۔ یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ فلسطینی مزاحمت کار ہمیشہ تازہ دم ہوکر، میدان میں آئے ہیں۔ اگر مستقل میں ایسی نوبت آتی ہے؛ تو امید ہے کہ وہ پھر تازہ دم ہو کر آئیں گے۔ اس بار القسام کے راکٹ اسرائیلی دار الحکومت تل ابیب، اس کے مضافات اور بن گورین طیران گاہ تک پہنچنے میں کام یاب رہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ"القسام" نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی! راکٹ حملے کی وجہ سے اس گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کے کئی شہروں اور قصبوں میں ہر وقت بھگدڑ مچی رہی۔ ڈھائی سو کلو میٹر کے اندر آنے والے اسرائیلی شہر اور قصبات میں راکٹوں کی بارش ہوتی رہی۔ وہاں کے باشندے اپنا کام کاج چھوڑ کر، بار بار زیر زمیں بنی پناہ گاہوں میں چھپنے کو ہی عافیت سمجھتے رہے۔ ماضی میں جب بھی اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کرتا؛ تو بے حس اسرائیلی شہری اس سے خوش ہوتے تھے۔ اس بار ایسا نہیں ہوا؛ بل کہ وہ خطرے کا سائرن بجتے ہی، زیرِ زمیں پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور تھے۔

 

 اس جنگ میں "القسام" کے راکٹ حملے میں، تقریبا 12/اسرائیلی شہری مارے گئے۔ راکٹ حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہوں گے؛ مگر اسرائیل اپنی ہزیمت کو چھپانے کے لیے اعدا د وشمارنہیں بتا رہا ہے۔ راکٹ حملے میں اسرائیل میں متعدد تجارتی ورہائشی عمارتیں زمیں بوس  ہوئیں اور گیس پائپ لائن تباہ ہوا ہے۔ یہ خبر بھی گشت کر رہی ہے کہ القسام کے حملے میں گائڈیڈ میزائل سے اسرائیلی آرمی کی ایک بس اڑادی گئی۔ اس کے ایک سمندری جنگی جہاز کو بھی تباہ کیا گیا؛ لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس ایسی صلاحیت نہیں؛ یہ کام ایران نے انجام دیا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کے مالی نقصان کی بات ہے؛ تویہ  ظاہر ہے کہ جہاں چار ہزار راکٹ داغے گئے ہوں، وہاں بہت کچھ مالی نقصان بھی ہوا ہوگا۔

 

اسرائیل کوئی ناقابل تسخیر نہیں:

اس جنگ میں اسرائیل کو ایک چھوٹی سی تنظیم کی  مزاحمت کی وجہ سے جن مشکلات کا سامنا رہا، اس حوالے سے  اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جو ملک اب تک طاقت کے نشے میں مست ہوکر، عرب ممالک کے سامنے شیر باور کرانے کی کوشش کرتا تھا، وہ بری طرح سے "القسام"  کی مزاحمت میں ذلیل ورسوا ہوگیا۔ "القسام" کے مخلص جاں بازوں اوربہادر فلسطینیوں نے اپنی مزاحمت سے یہ باور کرا دیا  کہ اسرائیل کوئی ناقابل تسخیر طاقت  نہیں ہے۔ القسام نے اسرائیل کو یہ بتا دیا کہ اب وہ وقت گیا جب وہ اپنی درندگی کے ذریعے جب چاہے اور جسے چاہے میزائل اور بم پھینک کر موت کی ابدی نیند سلادیا کرتے تھے۔ اسرائیل نے ماضی میں حماس کے صف اوّل کے رہنماؤں: شیخ احمد یاسین (1937-2004) کو 22/مارچ 2004 کواور عبد العزیز الرنتیسی (1947-2004) کو 17/اپریل 2004 کو اچانک میزائیل حملے میں شہید کر دیاتھا۔ "القسام" نے، اِن گیارہ دِنوں (10 تا 21/مئی) میں، تقریبا چار ہزار راکٹ برساکر، یہ ثابت کردیا کہ اب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ مسجد اقصی اور اپنے وطن کی حفاظت کے لیےاسرائیل کو لگام لگا سکتا ہے۔

 

فلسطین کے ساتھ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل: مسجد اقصی کا مسئلہ جڑا ہوا ہے؛ اس لیے یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا قضیہ ہے۔ فلسطین کو صرف عرب کا مسئلہ قرار دینا غلط ہے۔ اس کے حل کے لیے عرب اور مسلم ممالک کو اپنی صف میں اتحاد کے ساتھ آگے آنا چاہیے۔ ابھی ایک سنہرا موقع ہے۔ عرب اور مسلم ممالک کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور انصاف پسند دوسرے ممالک کو ساتھ لے کر، اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242 (1967) کے مطابق،  سن 1967 کی عرب اسرائيل  جنگ کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقے خالی کرے۔پھر آزاد فلسطین ریاست قائم کی جائے، جس کا دار الخلافہ "بیت المقدس" ہو۔ اگر اسرائیل اس پر آمادہ نہیں ہوتا ہے؛ تو اس کا عالمی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ ●●●●

قضیہ فلسطین اور ہندوستانی حکومت




قضیہ فلسطین اور ہندوستانی حکومت

قضیہ فلسطین اور ہندوستانی حکومت

 

بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس

رمضان کے مبارک مہینہ میں، ناجائز و غاصب ریاست اسرائیل نے "مشرقی بیت المقدس" کے علاقہ "شیخ جرّاح" میں ظلم وزیادتی، بے انصافی وبے رحمی اور زور وزبردستی شروع کی۔ یہ سلسلہ  دراز ہوتا ہوا، 10/مئی 2021 ء کو غزہ کی پٹی میں پہنچ گیا۔ اس دن سے اسرائیلی قابض افواج اپنے لڑاکا طیارے کے ساتھ غزہ کی پٹی میں اپنی مکروہ اور خوفناک آواز کے ساتھ ایک سمت سے دوسری سمت میں چکر لگا تے ہوئے اپنے نشانہ پر بمباری کرکے معصوم شہریوں کے قتل کا ارتکاب کررہی ہے۔عالمی برادری کو نوٹ کرنا چاہیے کہ یہ کھلی دہشت گردی ہے جوایک غاصب قابض ریاست کے حکم پر، بے خوف وخطر  انجام دی جارہی ہے۔ کچھ عالمی رہنماؤں کی طرف سے بے گناہ فلسطینیوں کے جانی ومالی نقصان پر متنبہ کیے جانے کے باوجود بھی اسرائیلی وزیر اعظم نے کوئی توجہ نہیں دی۔

 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ کا بیان

غزہ کی پٹی میں مزید جانی ومالی نقصان کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، بروز: جمعہ 14/مئی کو اجلاس منعقد کرنا چاہ رہی تھی؛ مگر امریکہ نے اسے ویٹو کردیا۔ پھر بروز: اتوار، 16/مئی  کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے "مشرق وسطی کی صورت حال پر کھلی بحث" کے عنوان سے اجلاس منعقد کیا۔ اس بحث میں ہندوستانی حکومت کی ترجمانی کرتے ہوے، ہندوستان کے مستقل نمائندہ برائے اقوام متحدہ، جناب ٹی ایس تیرومورتی نے، اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر زبردستی تھوپی گئی اِس جنگ  کے حوالے سے، اپنے بیان میں جو کچھ کہا، اس سے قضیہ فلسطین کے حوالے سےبی جے پی کی قیادت والی موجودہ این ڈی اے حکومت کا موقف سب کے سامنے آگیا۔ انھوں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جاری کشیدگی کو فورا ختم کرنے کرنے کو وقت کی ضرورت بتایا۔ انھوں نے کہا کہ "ہندوستان ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتا ہے اور فوری طور پر تناؤ ختم کرنے کی اپیل کرتا ہے۔" انہوں نے کہاکہ "ہندوستان غزہ پٹی سے راکٹ حملوں کی "مذمت" کرتا ہے۔" غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت کو انتہائی افسوسناک بتایا؛ مگر انھوں نے اس اسرائیلی بمباری کو انتقامی کاروائی (Retaliatory Strikes) سے تعبیر کیا۔ ہندوستانی حکومت کے پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوے انھوں نے کہا کہ "ہندوستان فلسطین کے جائز مطالبے کی مضبوط حمایت کرتا ہے اور (اس قضیہ کے) دو ریاستی حل کےاپنے موقف پر پر عزم ہے۔"

 

ہندوستانی سفیر برائے اقوام متحدہ تیرومورتی کے بیان کی کچھ لوگوں نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ رہا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی ہندوستان کے دیرینہ روایات مطابق عالمی سطح پر اپنے موقف کو پیش کیا ہے۔  جب ہم تیرومورتی صاحب کے بیان کا باریکی سے جائزہ لیتے ہیں؛ تو کم از کم اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ انھوں نے "صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں" والی حکمت عملی سے کام لیا۔ انھوں نے اپنے بیان کے شروع میں  رمضان کے مقدس مہینہ میں بیت المقدس، مسجد اقصی میں قابض افواج  کی طرف سے تشدد اور پھر "شیخ جرّاح" کے باشندوں کی بحکم عدالت ممکنہ بے دخلی کی کاروائی کے حوالے سے  گہری فکرمندی کا اظہار  کیا ہے۔ پھر اسی بیان میں دہشت گرد اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر بمباری کو "انتقامی کاروائی" کہہ رہے ہیں۔ اس انتقامی کاروائی کے ذکر سے پہلے، وہ حماس کی طرف سے غاصب اسرائیل کے خلاف راکٹ حملے کی مذمت بھی کر رہے ہیں۔

 

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی کورٹ کے فیصلے کے بعد، طاقت کے بل پر، اسرائیلی قابض فوج نے شیخ جرّاح کے باشندوں کو غاصبانہ طریقے سے ان کے گھر سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ پھر قابض فوج نے  مسجد اقصی کی بے حرمتی کی اور روزہ داروں اور نمازیوں پر حملہ کیا؛ تب جاکر حماس کی عسکری ونگ "القسام بریگیڈ" کی طرف سے، اپنے شہریوں اور مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے انتقامی کاروائی کی گئی۔ اس کا ذکر ہندوستانی نمائندہ کی تقریر میں بھی ہے۔ پھر اسرائیل بھی غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کردیتا ہے۔  اس حقیقی صورت حال کے باوجود، حماس کی کاروائی  کی مذمت کرنا اور اسرائیل کی بمباری کو انتقامی کاروائی قرار دینا بالکل ناقابل فہم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا ہندوستانی نمائندہ "شیخ جرّاح" کے مظلوم وبے بس لوگوں خلاف عدالتی وفوجی کاروائی، ان کو نقل مکانی پر مجبور کرنا، مسجد اقصی میں فوجی کاروائی  اورپھر غزہ کی پٹی پر بمباری کی مذمت کرتے۔  حماس کی طرف سے کیے جانے والے راکٹ حملے کو انتقامی کاروائی قرار دیتے؛ کیوں کہ حقیقی صورت حال یہی ہے،  مگر ایسا نہیں ہوا۔ نہ ہونے کی وجہہ یہ ہے کہ ہندوستانی ایلچی موجودہ مرکزی حکومت کے نظریے کی ترجمانی کر رہے تھے۔ مرکز کی موجودہ حکومت بی جے پی چلا رہی ہے۔ اس کے لیے فلسطینی قضیہ سے دل چسپی کی بہ ظاہر کوئی خاص وجہہ نہیں ہے۔ مزید بر آں موجودہ ہندوستانی حکومت کا اسرائیلی حکومت سے بہت گہرا تعلق ہے۔

 

فلسطین کے حوالے سے ہندوستان کا موقف

ماضی میں ہندوستانی حکومت، قضیہ فلسطین کے حوالے ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ ہندوستان اپنی آزادی کے روز اوّل سے ہی فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے۔ سن 1948 میں،  ہندوستان ان تیرہ ممالک میں تنہا غیر عرب ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں، فلسطین کے اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ غیر عرب ممالک میں ہندوستان پہلا ملک ہے جس نے سن 1975ء میں، فلسطینی عوام کے نمائندے کے طور پر پی ایل او کو تسلیم کیا۔ پھر ہندوستان کے دار الحکومت دہلی میں اسے دفتر کھولنے کو کہا گیا۔ مارچ 1980 میں، اس دفتر کو سفارتی حیثیت دی گئی۔ جب پی ایل او نے مشرقی یروشلم میں اپنے دارالحکومت کے ساتھ فلسطین کی ایک آزاد ریاست کا اعلان کیا؛ تو ہندوستان نے فورا ہی اسے 18/نومبر 1988 کو منظور کرلیا۔

 

فلسطینی رہنما یاسر عرفات (1929-2004) کے ہندوستانی حکومت سے بہت اچھے روابط تھے۔ جب بھی وہ ہندوستان کے دورے پر آتے؛ توان کا استقبال اسی طرح کیا جاتا، جیسا کہ کسی ریاست کے سربراہ کا استقبال کیا جاتا ہے۔ یاسر عرفات کی کی سن 2004 میں وفات کے بعد، فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے محمود عباس نے ان کی جگہ لی۔ یو پی اے کے2004 سے 2014 تک دس سالہ حکومتی دور میں،انھوں نے ہندوستان کا چار بار دورہ کیا۔ دس سال میں چار دورے، ہندوستان کے فلسطین کے ساتھ گہرے رشتے کو بتاتا ہے۔

 

فلسطین کے بارے میں گاندھی جی کا نظریہ

باباے قوم مہاتما گاندھی کی ایک تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعدد خطوط آرہے تھے کہ وہ فلسطین میں یہودی اور عرب کے حوالے سے اپنے نظریہ کی وضاحت کریں۔  گاندھی جی نے ان خطوط کے جواب میں، 26/نومبر 1938 کو اپنے ہفت روزہ انگریزی اخبار"ہریجن" میں، عرب کےساتھ  فلسطین کے گہرے رشتے کو واضح کرتے ہوےتحریر کیا تھا کہ یہودیوں کے لیے ایک علاحدہ ملک کا مسئلہ ان کچھ زیادہ اپیل نہیں کر رہا ہے۔ وہ جہاں پیدا ہوں، اس جگہ کو اپنا ملک اور وطن سمجھیں۔ گاندھی جی لکھتے ہیں: "دوسرے لوگوں کی طرح ان (یہودیوں) کو اُس ملک کو اپنا وطن کیوں نہیں بنالینا چاہیے، جہاں وہ پیدا ہوے اور جہاں وہ اپنی روزی روٹی میں لگے ہیں؟ فلسطین پر عربوں کا حق بالکل اسی طرح ہے، جس طرح انگریزوں کا انگلینڈ پر ار فرانس والوں کا فرانس پر۔ یہودیوں کو عرب پر تھوپنا، غلط اور غیر انسانی عمل ہے۔"

 

بابائے قوم مہاتما گاندھی  کے اس انصاف پر مبنی نظریہ کو ہندوستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کھلے دل سے قبول کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم مسٹر جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سابق صدر مسٹر پرنب مکھرجی وغیرہم نے ہمیشہ قضیہ فلسطین کی کھل کر حمایت کی۔ مسٹر مکھرجی نے سن 2015ء میں، اپنے اردن اور فلسطین کے دورے پر گاندھی جی کی اس تحریر کے اقتباسات کو اپنی تقریروں میں کئی بار پیش کیا۔

 

عالمی برادری میں ہندوستان کی حیثیت مسلم ہے۔ ہندوستان کی سابقہ حکومتوں نے ہمیشہ فلسطین کی آزادی اور حق خود ارادیت کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت کی ہے۔ اب فلسطین کا قضیہ بالکل نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ کئی شہر وں اور قصبوں کو اسرائیل نے زبردستی قبضہ کر کے اپنے ساتھ انضمام کرلیا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنا بسابسایا گھر چھوڑ کر، نقلِ مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ تا ہنوز رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہندوستان کو چاہیے کہ اپنے پرانے موقف پرقائم رہتے ہوئے، ایک عالمی لیڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے،فلسطین کے حق میں آواز بلند کرے اور مظلوم فلسطینیوں کو انصاف دلائے۔●●●●

 

امریکی صدربائيڈن اسرائیلی دہشت گردی پر مہر بلب





امریکی صدربائيڈن اسرائیلی دہشت گردی پر مہر بلب

امریکی صدربائيڈن اسرائیلی دہشت گردی پر مہر بلب

 

بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں کام یابی کے بعد،کچھ لوگ ان سے پر امید تھے کہ وہ  مشرق وسطی اور خاص طور پرقضیۂ فلسطین کے حوالے سے کچھ مثبت طریقہ اختیار کریں گے۔ اس کی وجہہ یہ تھی سابق امریکی صدر ٹرمپ نے کھلے طور پر غاصب ریاست اسرائیل کی حمایت میں، امریکی سفارت خانہ کو "تل ابیب" سے  بیت المقدس منتقل کرنے کاایک ظالمانہ کام کیا۔ پھر اس نے "صدی کی ڈیل" کے نام پر، جس طرح فلسطین کو حرف غلط کی طرح روئے زمین سے مٹانے کی سازش رچی کہ اس سے اس کا مکروہ چہرہ ہرکسی کے سامنے کھل کر آگیا۔ مگر20/جنوری کو صدارتی منصب پر فائز ہونے بعد، بائیڈن کے حوالے سے لوگوں کی خوش فہمی دن بہ دن دور ہوتی جارہی ہے۔ مشرقی بیت المقدس میں واقع"شیخ جراح"  اور مسلمانوں کے قبلۂ اوّل"مسجد اقصی" میں نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ کرکے، 7/مئی 2021 ء سے شروع کی جانی والی موجودہ اسرائیلی دہشت گردی  اور حماس کے عسکری ونگ "القسام" کی طرف سے دفاعی کاروائی کے حوالے سے 12/مئی 2021 کو امریکی صدر کی طرف سے جاری ایک  پریس ریلیز میں، انھوں نے جہاں اسرائیل کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے، وہیں انھوں نے  یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے۔ اپنے قوم اور وطن کی طرف سے دفاع کرنے والی تنظیم "حماس" کی طرف سے اسرائیلی شہروں پرراکٹ داغے جانے کی صدرنے اپنے پریس ریلیز میں مذمت بھی کی ہے۔

 

دنیا بھر کے انصاف پسند لوگ اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں کہ امریکی صدر کی طرف سے غاصب اسرائیل کے دفاعی حق کی وکالت کا مطلب کیا ہے! اس کی وجہہ یہ ہے پچھلے ہفتہ سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی طرف سے جو دہشت گردانہ کاروائی ہو رہی ہے، وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر کسی کو پہنچ رہی ہے۔ لوگ بخوبی واقف ہیں کہ اسرائيلی کورٹ نے "شیخ جراح" کے فلسطینی باشندوں کو اپنے مکانات خالی کرنے کا جو حکم صادر کیا، وہ دنیا کا کوئی بھی شخص قبول نہیں کرسکتا۔  جب انھوں نے کورٹ کا یہ حکم ماننے سے انکارکیا؛ تو صہیونی قابض فوجیوں نے زبردستی ان سے مکانات خالی کرانے کی کوشش کی۔ جب انھوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا، تو فوجیوں نے طاقت کے زور پر اس احتجاج کوکچلنے کی کوشش کی۔ پھر ان فوجیوں نے مسجد اقصی میں نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ کیا۔ یہ دہشت گردی اور درندگی غاصب ریاست اسرائیل کی طرف سے شروع کی گئی۔ پھر اس  کے بعد، جب فلسطینیوں کی طرف سے رد عمل کا اظہار ہوا، غاصب ریاست نے غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کردی۔ اس طرح حقائق کےعیاں ہونے کے باوجود، امریکی صدر کا اسرائیلی دہشت گردی پر مہر بلب رہنا اور حماس کی دفاعی کاروائی کی مذمت کرناانتہائی مضحکہ خیز ہے۔ بائیڈن کے اسرائیل کی حمایت کےاعلان پر، ان کی ہی جماعت کے بعض کانگریس ارکان نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔

 

بدھ کے روز صدر جو بائیڈن، وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اور وزیردفاع لائیڈ آسٹن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلی وان نے اپنے اپنے اسرائیلی ہم منصبوں سے بات چیت کی تھی۔ ان سب کا اپنے اسرائیلی ہم منصبوں سے رابطہ میں رہنا، کھلے طور پر اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت ہے؛ جب کہ ٹرمپ کے صدارتی دور میں وزیر خارجہ کے عہدہ پر رہ چکا مائیک پومپیونے اپنے سابق بوس ٹرمپ  کی زبان استعمال کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ "امریکی خارجہ پالیسی کمزور ہے اور اسے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔" اس نے ٹویٹ کیا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کمزور ہے جو دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور دنیا کے لیے خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکی قیادت کو واضح کرنا چاہیے کہ ہم غیر متزلزل انداز میں اپنے اتحادی اور دوست اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔" مسٹر مائیک نے 12/مئی کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ (America Stands with Israel) یعنی "امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے" ۔ فرانس کے صدر ایمانوئل ماکرون نے بھی اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے جمعہ کو فون پر بات چیت کی اور حماس کے راکٹ حملوں کی مذمت کی ہے۔

 

اس اسرائیلی دہشت گردانہ بمباری اور میزائل حملے میں درجنوں انسانی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ اسرائیل غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر خونریزی اور تباہی وبربادی کا مرتکب ہورہا ہے۔آج کے نام نہاد مہذب ممالک کے حکمرانوں میں سے کسی کی زبان اس دہشت گردی کے خلاف نہیں کھل رہی ہے۔ سب کے سب خاموش ہیں۔  مگر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے والی تنظیم "حماس" سب کو دہشت گرد نظر آتی ہے۔ جن ممالک اور ان کے قائدین کو دہشت گردی سے زیادہ دل چسپی ہے، ان کو چاہیے کہ وہ غاصب قابض ریاست اسرائیل پر ایک نظر ڈال لے۔صرف اِن  چند دنوں میں، اسرائیلی دہشت گردانہ بمباری میں، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 15/مئی 2021 کی شام تک خواتین اور بچے سمیت شہداء کی تعداد150 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ان شہید ہونے والوں میں 32 بچے اور 21 خواتین بھی شامل ہیں۔ اب تک اس ظالمانہ حملے میں،  زخمی ہونے والوں کی تعداد 1330 سے متجاوز کرچکی ہے۔ غزہ کی پٹی میں اسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں۔ اب ان کے پاس مزید زخمیوں کے  علاج کے لیے گنجائش نہیں ہے۔خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، قابض فوج غزہ کی شمالی سرحد پر بھاری توپ خانہ اور ٹینک منتقل کرچکی ہے۔ کسی بھی وقت بری کاروائی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

 

اسرائیلی جنگی طیارے غزہ میں بغیر کسی امتیاز کے  بمباری کر رہے ہیں۔ ان بمباری میں رہائشی عمارتوں  اور بڑے بڑے تجارتی ٹاوروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔اب تک ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ تقریبا دس ہزار لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں تیس سے زائد اسکولوں کو بھی اسرائیلی بمباری نے نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل غزہ پٹی کے لوگوں کو اپنی قیادت سے متنفر کرنے کے لیے عام طور پر رہائشی علاقوں پر بمباری کر رہا ہے۔ کئی رہائشی مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ شاطی مہاجر کیمپ میں ایک تین منزلہ رہائشی عمارت کو اسرائیلی جنگی طیارے نے نشانہ بنایا، جس میں ابو حطاب فیملی کے آٹھ بچے اور دو خواتین شہید ہوگئیں۔ اس اسرائیلی دہشت گردی میں کافی جانی ومالی نقصان ہو رہا ہے۔ پوری کی پوری آبادی کو تباہ وبرباد کیا جارہا ہے۔

 

اسرائيل یہ نہیں چاہ رہا ہے کہ دنیا کے سامنے فلسطینیوں کے خلاف اس کی دہشت گردانہ کاروائی کی حقیقت کھل کر سامنے آئے؛ چناں چہ 15/مئی کی صبح کو غزہ کی پٹی میں واقع تیرہ منزلہ"الجلا ٹاور"پر چار میزائل داغ کر، زمین بوس کردیا۔ اس ٹاور میں متعدد بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز: الجزیرہ ، ایسوسی ایٹڈ پریس، مڈل ایسٹ آئی وغیرہ کےدفاتر تھے۔ ان میڈیا ہاؤسز کے صحافی یہاں سے اپنی صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے اسرئیلی دہشت گردی کو اجاگر کر رہے تھے۔اسرائیلی فوج نے ایک گھنٹے کی مہلت دی کہ جو لوگ اس ٹاور میں ہیں، وہ یہاں سے نکل جائیں۔ میزائل داغنے سے کچھ دیر پہلے ٹاور کے مالک نے کسی اسرائیلی آفیسر سے فون پر بات کرتے ہوئے درخواست کی کہ آپ مزید دس منٹ کا وقت دیں؛ تاکہ صحافی اپنے ساز وسامان یہاں سے اٹھالیں؛ مگر اس نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی اور میزائل داغ دیے۔ اسرائیلی دہشت گردی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ اس نے فلسطین اور فلسطینیوں کے حالات بد سے بدتر کردیا ہے۔ ان موجودہ صورت حال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جمعہ کو اجلاس منعقد کرنا چاہتی ہے، جسےبائیڈن انتظامیہ نے روک دیا۔جب بھی اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے؛ تو امریکہ اسے ویٹو کردیتا ہے۔ اب "اسلامی تعاون تنظیم" کے وزراء خارجہ سطح کا اجلاس، سعودی عرب کی درخواست پر، بروز: اتوار، 16/مئی کو منعقد ہونے جارہا ہے۔ خدا کرے کہ اس تنظیم کی طرف سے کوئی مناسب تجویز سامنے آئے!

 

"القسام بریگیڈ" کی طرف سے دفاعی کاروائی میں، اسرائیل میں ہزاروں راکٹ داغے جاچکے ہیں۔ اس جوابی کاروائی میں اب تک دس اسرائیلیوں کے  ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔  یہ پہلا موقع ہے کہ القسام بریگیڈ غزہ سے ڈھائی سو کلو میٹر کے فاصلہ تک، اسرائیل میں راکٹ داغ رہا ہے۔  اسرائیل نے اپنے جنوبی اور وسطی علاقوں میں راکٹ حملے کے خطرے کے پیش نظر سائرن بجا دیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسرائیل کی آئل ریفائنری ، اسرائیلی شہر عسقلان کابجلی گھر اور بندرگاہ، کئی بڑی عمارتیں،ایک پائپ لائن اورایک فوجی چھاونی تباہ ہوچکی ہیں۔ القسام بریگیڈ کے راکٹ سے اسرائیلی شہری جس طرح اس بار خوفزدہ ہیں، اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔  بہت سے شہری زیر زمین پناہ گاہوں میں رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ تل ابیب میں بہت سے سرکاری دفاترزیرزمین  منتقل کیے جارہے ہیں۔

 

اندرون ملک یعنی اسرائیل کے کئی شہروں میں مسلمان اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کی وجہ سے مسلمانوں اور  یہودیوں کے درمیان شدید کشیدگی پائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے یہودی شہری ان  کے خلاف ظلم وجبر کر رہے ہیں۔ اندروں ملک بھی نیتن یاہو کی حکومت کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس شدید کشیدگی اور جھڑپوں کی وجہہ سے نتن یاہو نے ملک میں مسلمان مظاہرین کو کچلنے کے لیے پولیس کی مدد کےلیے فوج طلب کرلیا ہے۔ فوج کریک ڈاؤن کرکے مسلمان شہریوں کو گرفتار کررہی ہے۔

 

امریکہ، انگلینڈ اورکچھ مغربی ممالک کا اپنے طاقت کے بل پر، اقوام متحدہ کی آڑ میں، عرب کے قلب یعنی فلسطین میں، "اسرائیل" کے نام سے، ایک یہودی ریاست کی کاشت بہت سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ ان طاقتوں کا اسرائیل کے قیام کا اہم ہدف مشرق وسطی کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے اپنا ایک نمائندہ اور داروغہ کو بیٹھانا تھا، جس میں وہ کام یاب ہوگئے۔پھر بہت ہی جلدی اس نو زائیدہ ناجائز ریاست کو اس طرح اپنے مال وزر اور خاص طور پر اپنے ہتھیاروں سے لیس کردیا کہ وہ چند سالوں میں نہ صرف اپنے حریف اوّل فلسطین؛ بل کہ پورے عرب ممالک کو شکشت سے دوچار کرکے، پورے مشرق وسطی میں اپنی برتری ثابت کرنے میں کام یاب رہا۔ آج اسرائیل کی فوجی طاقت اور اسلحہ کے مقابلے سارے عرب ممالک ہیچ نظر آرہے ہیں۔ جن طاقتوں نے اسرائیل کے قیام کو وجود بخشا، آج ان طاقتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مخلصانہ کوشش کرکے، فلسطین نام کی ایک آزاد ریاست قائم کروادے اور قبلۂ اوّل کو مسلمانوں کے لیےآزاد کروادے،نادانی ہے۔ اس حوالے سے اگر مسلم ممالک مل کر کوشش کرتے ہیں؛ تو عین ممکن ہے کہ یہ قضیہ جلدی حل ہوجائے۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے جتنی جلدی ہوسکے پہل کریں! لوگوں کو میری بات سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ آج کی تاریخ میں فلسطینی لوگ ایک چھوٹی سی تعدادمیں ہونے کے باوجود جو کوششیں کررہے ہیں، وہ بیکار ہے؛ بل کہ ان کی یہ کوشش اس قضیہ میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگی۔

 

کچھ لوگ حماس کو بدنام کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی لوگ بے کار اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ان کو کسی طرح کا سمجھوتہ کرکے خاموش ہوجانا چاہیے۔ مگر موجودہ صورت حال اس کی شہادت دیتی ہے کہ فلسطینیوں کی سمجھ ان سے بدرجہا بہتر ہے۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ قبلۂ اوّل کی حفاظت اور فلسطین کو ایک آزاد ریاست بنانے کے لیے ان کو اپنی کوشش جاری رکھنی ہوگی۔ اگر وہ کوشش کرنا چھوڑ دیں گے؛ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو انصاف نہیں دلا سکتی ہے۔فلسطینی اس سے بھی واقف ہیں کہ یہ دنیا "دار المحن" ہے۔ اللہ پاک اس دنیا میں اپنے بندوں کا مختلف طریقے سے امتحان لیتے ہیں؛ اس لیے جو حالات و حوادث پیش آئیں اور جوجانی و مالی نقصان ہو، ان پر مسلمانوں کو گھبرانا نہیں چاہیے؛ بل کہ صبر سے کام لینا چاہیے۔ جو بندے صبر سے کام لیں گے، ان کے لیے اللہ کی طرف سے بشارت وخوش خبری کا پیغام ہے۔سورہ بقرۃ کی آیت نمبر: 155 میں اللہ پاک نے اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں: (ترجمہ)  "دیکھو، ہم تمھیں آزمائیں کے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے اور (کبھی) مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں، ان کو خوشخبری سنا دو۔"


قبلۂ اوّل کی بے حرمتی اور نہتے فلسطینیوں کا قتل






قبلۂ اوّل کی بے حرمتی اور نہتے فلسطینیوں کا قتل

قبلۂ اوّل کی بے حرمتی اور نہتے فلسطینیوں کا قتل

 

بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

Email: qasmikhurshee@yahoo.co.in

 

عالمی ادارہ "ہیومن رائٹس واچ" کی طرف سے ابھی پچھلے مہینے بروز: منگل، 27/اپریل 2021 کو 213/ صفحات پر مشتمل  ایک رپورٹ آئی تھی کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں کے خلاف ریاستی جبر واستبداد، ظلم وجبر اور نسلی امتیاز کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد، کچھ زندہ دل اور  انسانیت پسند لوگ  اس  پر اپنے رد عمل کا اظہار کر تے ہوئے مذمتی بیان دےہی  رہے تھے کہ گذشتہ جمعہ 7/مئی 2021  سے ایک بار پھر غاصب ریاست کی قابض دہشت گرد فوج نے مسجد اقصی میں روزہ داوں اور نمازیوں پر حملہ کر کے اپنی بربریت ودرنگی اور جبر واستبداد کا نیا ثبوت پیش کر دیا۔ اس دن سے اب تک فلسطینیوں کے خلاف ریاستی سطح پر دہشت گردانہ عمل جاری ہے۔ اب مشرقی بیت المقدس کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی وغیرہ میں بھی اسرائیل قابض فوجوں نے بمباری شروع کردی ہے۔  اس اسرائیلی دہشت گردی میں اب تک کئی معصوم جانیں شہید ہوچکی ہیں۔

 

اس دفعہ اسرائیلی دہشت گردی کی ابتدا کی وجہ یہ ہوئی کہ "مشرقی بیت المقدس" کا ایک علاقہ "شیخ جراح" ہے۔ ظالم غاصب دہشت گرد اسرائیل کا یہ معمول ہے کہ اپنی دہشت گردی کے ذریعے نہتے فلسطینیوں کو فلسطین کے مختلف مقبوضہ علاقوں سے زبردستی خالی کراکر، یہودی بستی تعمیر کرتا ہے۔ یہ نہایت ہی شرم کا مقام  ہے کہ وہاں عدالت میں بیٹھے ججز بھی اپنی حکومت کے اس بدبختانہ عمل میں، ایک عرصے سے معین ومددگار رہے ہیں اور وہ اپنے فیصلے سے حکومت کو اس حوالے سے مدد کرتے رہے ہیں۔  ابھی پچھلے ہفتے اسرائیل کے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا کہ مشرقی بیت المقدس کے علاقہ "شیخ جراح" میں بس رہے فلسطینی مسلمان اپنے مکانوں کو خالی کردیں۔ اس فیصلہ کا مقصد یہ ہے کہ "شیخ جراح" میں یہودی بستی تعمیر کی جائے اور وہاں یہودی آبادکاروں کو آباد کیا جاسکے۔ جن مکانوں کے مکینوں کو اپنے مکانات خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ  سب کے سب "شیخ جراح" کے باشندے ہیں۔ وہاں کئی دہائیوں سے بسے ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ بات بغیر کسی شک وشبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ تاریخ اس طرح کے سارے فیصلوں کو سیاہ ترین فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔ یہ قابل افسوس بات ہے کہ اسی شیخ جراح سے سن 2002ء میں 43/فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو  چھوڑ کر نقل مکانی  پر مجبور کیا گیا اور انھیں ہجرت کرنی پڑی۔ یہی دہشت گردانہ عمل 2008  اور 2017 میں  بھی پیش آیا اور کئی فلسطینی خاندانوں کو اپنے گھروں کو دہشت گردوں کے حوالے کرکے ہجرت کرنا پڑی۔

 

غاصب ریاست کے اشارے پر، ظلم وجبر پر مبنی دیا گیا یہ ایسا فیصلہ ہے کہ اسے کوئی بھی شخص قبول نہیں کرسکتا ہے۔ یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک ملک کی سپریم عدالت ایک گھر کے باشندے کے خلاف یہ حکم جاری کردے تم اپنے گھر کو اپنے دشمنوں کے لیے خالی کردو! اس طرح کاظالمانہ فیصلہ  کوئی آدمی قبول بھی کیسے کرسکتا ہے؛ چناں چہ یہ فیصلہ قبول نہیں کیا گیا! پھر اسرائیلی فوج ان گھروں میں آباد فلسطینیوں کو وہاں سے طاقت کے ذریعے بے دخل کرنے کا عمل شروع کردی۔ اس طرح کے کسی بھی فیصلے کے خلاف عوامی رد عمل کا سامنے آنا فطری امر ہے؛ چناں چہ اس فیصلے سے ناراض فلسطینی عوام نے احتجاج شروع کردیا۔ انھوں نے سڑکوں پر آکر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ عوامی احتجاج سے ناراض اسرائیلی قابض فوجیوں نے پہلے ان مظاہرین پر حملہ کیا۔ پھر اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کی ایک بڑی تعداد، جمعہ (7/مئی 2021) کو  مسجد اقصی کے احاطے میں داخل ہوگئی۔ انھوں نے وہاں موجود نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ شروع کر دیا۔  اس حملہ میں میں درجنوں فلسطینی زخمی ہوئے۔

 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشرقی بیت المقدس یہ وہ شہر ہے جسے اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے موقع سے قبضہ کرلیا تھا۔ اقوام متحدہ اور  عالمی برادری کئی بار یہ بات  کہہ چکی ہے کہ مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ وہاں یہودی آبادکاروں کو بسانا غیر قانونی اور جرم ہے۔ اسرائیل کے اس عمل سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھیں گے۔ ابھی حال ہی میں یورپ کے پانچ ممالک: فرانس، جرمنی، اسپین، اٹلی اور برطانیہ نے اپنے مشترکہ بیان میں اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ "وہ تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی توسیع کی پالیسی کو منجمد کرے۔" اب مشرقی بیت المقدس کے  یہودی آبادکاروں نے اس شہر پر اسرائیلی قبضہ کو قوت بخشنے اور قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے قانونی جنگ چھیڑ دی ہے۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرئیلی عدالت سے فلسطینیوں کے حق میں فیصلے کا آنا تقریبا ناممکن ہے۔ مشرقی بیت المقدس کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں "مسجد اقصی" واقع ہے۔ یہ مسجد مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ یہ شہر فلسطین کا اہم حصہ ہے۔  فلسطینی اس مقام کو مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست فلسطین کا دار الحکومت مانتی ہے۔

 

مشرقی بیت المقدس میں کے علاقہ "شیخ جراح" اورمسجد اقصی میں اپنی دہشت گردی کاروائی کے ساتھ ساتھ اب اسرائیل دہشت گرد فوجیوں نے غزہ کی پٹی پر بھی فضائی حملہ شروع کردیا ہے۔ فضائی حملے کے ساتھ ساتھ، غزہ کی سرحد پر بھی اسرائیل اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ اس حملے میں اب تک حماس کے زیر استعمال عمارت، غزہ کی پٹی میں پولیس کمان کے صدر دفتر کی عمارتیں ، غزہ شہر کے وسط میں رہائشی عمارت الجوہرہ ٹاور اور کئی شہریوں کے مکانات کو  نشانہ بناکر انھیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ کئی سڑکیں بھی ٹوٹ گئیں ہیں۔ غزہ کی پٹی کےکئی خاندانوں نے اپنے مکانات چھوڑ کر، نقل مکانی شروع کردی ہے۔ اس دہشت گردانہ فضائی حملہ میں، غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے جاری 12/مئی کی رپورٹ کے مطابق،  اب تقریبا 43/ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں13/بچے اور تین خواتین بھی شامل ہیں۔ تقریبا 233/ فلسطینی شہری زخمی بھی بتائے جارہے ہیں۔ سیکڑوں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو قید کرکے پس زنداں کردیا گیا۔ "غزہ کی پٹی" فلسطین کا وہ حصہ ہے جو بہت ہی زیادہ گنجان آبادی پر مشتمل ہے۔  ایک سروے کے مطابق غزہ پٹی کی موجودہ  آبادی دو ملین سے زیادہ ہے۔

 

حماس کے عسکری ونگ "القسام بریگیڈ" کی طرف سے جاری دفاعی کاروائی میں، سیکڑوں راکٹ غاصب اسرائیل پر داغے گئے ہیں۔ جن سے اسرائیل کے کئی شہر مثلا: تل ابیب، بیئر شیبہ، اسدود اور عسقلان  بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ القسام کی طرف سے داغے گئے راکٹ کی زد میں ان شہروں کے علاوہ گیس پائپ لائن اور نیو کلیر ری ایکٹر بھی آئے ہیں؛ جب کہ اسرائیل کے پاس آئیرن ڈرون جیسا دفاعی نظام موجود ہے۔ غزہ کی پٹی سے فائر کیے گئے راکٹ کے حملوں میں تقریبا پانچ  اسرائیلی شہریوں  کے ہلاک اور متعدد لوگوں کے زخمی ہونے کی بھی خبر آرہی ہے۔

 

اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے ساتھ روز وشب جو کاروائی کر رہی ہے، وہ صاف طور پر دہشت گردی ہے۔ اسی ماہ یعنی 5/مئی 2021 کو اسرائیلی فوج کی درندگی اور دہشت گردی کی ایک ایسی خبر شائع ہوئی کہ اسے پڑھ کسی بھی انسانیت نواز شخص کا دل دہل جائے گا۔ہوا یہ کہ  گذشتہ 2/مئی کی شام کو غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم کے نواحی علاقے نحالین سے تعلق رکھنے والی ایک ساٹھ سالہ بوڑھی خاتون: رحاب محمد موسیٰ خلف زعول کو مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر" بیت لحم" میں، ایک اسرائیل فوجی نے اپنے بندوق کی گولی سے اس کے سر پر حملہ کردیا۔ وہ بوڑھی خاتون اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاکر، دم توڑدی۔ دہشت گرد اسرائیلی فوجی نے اپنے اس دہشت گردانہ عمل کو جواز فراہم کرنے کےلیے یہ  کہانی سنانا شروع کردیا کہ وہ خاتون چاقو سے حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔ جب کہ دوسری طرف ایک ویڈیو فوٹیج اس واقعہ کی پورے طور پر تردید کر رہا ہے۔ اس ویڈیو فوٹیج سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ دہشت گرد اسرائیلی فوجی ایک نہتی خاتون پر بندوق تانے اسے پیچھے ہٹنے کو کہہ رہا ہے۔ پھر اس خاتون کے سر میں گولی مار دیتا ہے۔

 

ایک غاصب ریاست اپنی فوجی طاقت وقوت کے بل پر بار بار مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہے۔ وہ نہتے فلسطینی مرد وخواتین اور بوڑھے بچوں پر بغیر کسی امتیاز کے حملہ کرتی ہے۔ ہر وقت ایک نہ ایک شخص دہشت گرد فوجی کی گولی کا شکار بنتا ہے۔ جب یہ خبر عوام تک پہنچتی ہے؛ تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ اسرائیل دہشت گرانہ حملہ نہ صرف امت مسلمہ؛ بل کہ انصاف پسندپوری انسانیت کے ضمیر کو زخمی کرتا ہے کہ آخر فلسطینی بھی تو انسان ہیں اور ان کو بھی اپنی سرزمین پر پورے شان وشوکت کے ساتھ جینے کا پورا حق ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ57/ مسلم ممالک قبلۂ اول کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف ایک چیز کی کمی ہے وہ یہ ہے کہ ان ممالک کی صفوں میں حقیقی اتحاد نہیں ہے۔پورے عالم کے مسلمانوں کی اولین خواہش ہے کہ کم از کم "قضیۂ قبلۂ اول" کے حوالے سے یہ سارے ممالک میں آپسی اتحاد ہوجائےاوروہ اسرائیل کی ناپاک حرکتوں پر قدغن لگانے کے لیے موثر اقدام کریں۔ وہ مسجد اقصی کا مسئلہ جلد از جلد حل کریں! وہ ریاست فلسطین کے قیام کو یقینی بنائیں؛ تاکہ فلسطینی اپنے ملک میں چین وسکون اور اطمینان کے ساتھ رہ سکیں۔ انھیں ادھر ادھر بھٹکنا نہ پڑے۔ کاش کہ ان 57/مسلم ممالک کے زعماء وقائدین قبلۂ اول اور فلسطین جیسے اہم مشترکہ قضیے کی طرف توجہہ دیتے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی دعاؤں سے اپنے دامنوں کو بھر لیتے! ●●●●