القسّام نےباور کرادیا کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں
بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق:
غاصب اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر مسلط کی گئی گیارہ روزہ ہلاکت خیز جنگ، مصر کی ثالثی میں 21/مئی 2021 کو، جمعہ کی شب میں، مقامی وقت کے مطابق دو بجے بند ہوگئی۔ مصر نے فریقین کو غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز پیش کی جسے انھوں نے قبول کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ، اسرائیل کی سکیوریٹی کابینہ کے اجلاس میں، جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کے بعد کیا گیا ہے۔ حماس کے عہدیدار طہیر ناونو نے بھی جنگ بندی کی تصدیق کی۔ پھر غزہ کی پٹی میں لوگ سڑکوں پر نکل کر جشن منانے لگے۔حماس کا کہنا ہے کہ یہ ہماری جیت ہے۔ ہم نے جنگ بندی کے لیے دو شرطیں رکھی تھی کہ مشرقی بیت المقدس کے علاقہ "شیخ جراح "میں یہودی بازآبادکاری کو فورا روکا جائے اور مسجد اقصی کے احاطہ سے اسرائیلی فوج اور پولیس کو دور رکھا جائے؛ کیوں انھیں دو وجہوں سےجنگ شروع ہوئی تھی۔
جنگ بندی کے علاوہ اسرائیل کے پاس کوئی چارہ نہیں :
اسرائیلی حکومت کوجنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ غزہ پر اسرائیلی دہشت گردی کے حوالے سے بروز: جمعرات، 20/مئی کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس نیویارک میں منعقد ہواتھا۔ اس اجلاس کا مطالبہ کرنے والوں میں عرب اور مسلم ممالک تھے جن میں ترکی، پاکستان، ملیشیا، انڈونیشیا، برونئی وغیرہ پیش پیش تھے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین اور روس جیسی طاقتیں بھی اس اجلاس کے مطالبہ ان میں ممالک کے ساتھ تھیں۔ اجلاس میں ترکی،پاکستان، ایران، ملیشیا اور فلسطین کے نمائندوں نے اسرائیلی دہشت گردی پر کھل اپنی رائے کا اظہار کیا۔ چینی اور روسی نمائندے بھی ان کے ساتھ نظر آئے۔ سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے خطاب میں فریقین کے درمیان غزہ میں لڑائی کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ سکریٹری جنرل نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی بازآبادکاری کی کاروائیاں، وہاں کے (مسلمانوں کے) مکانوں کی مسماری اور باشندوں کی جبری بے دخلی سے باز آئے۔
اسرائیل کے لیے یہ بھی تشویش کا باعث رہا کہ غزہ کی پٹی میں، وحشیانہ بمباری کےبعد سے دنیا کے متعدد ممالک میں آباد یہودیوں کو پہلے کی بہ نسبت زیادہ سخت خطرات پیدا ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ 14/مئی کو اسرائیلی سفیر برائے جرمنی نے جرمنی حکام سے درخواست کی کہ موجودہ فلسطین اسرائیل جنگ کی وجہہ سے جرمنی کے یہودیوں کو خطرات کا سامنا ہے؛ لہذا ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے یہ مسئلہ بھی لمحہ فکریہ بنا رہا کہ اندرونِ ملک عرب مسلمان شہریوں کے احتجاج کی وجہ سے مسلمان اور یہودی شہریوں کے درمیان فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شہریوں کے درمیان امن وسلامتی ایک اہم مسئلہ بن گیا؛ تا آں کہ مسلمانوں کے احتجاج کو کچلنے کے لیے حکومت نے فوج کی مدد حاصل کی۔ ان وجوہات نے اسرائیلی سکیوریٹی کابینہ کو جنگ بندی کی مصری تجویز پر، فورا اتفاق کرنے پر مجبور کیا۔ اگر یہ جنگ لمبی چلتی؛ تو یہ بھی ممکن تھا کہ روس اس جنگ میں کود پڑتا، جو اسرائیل کو بڑا مہنگا پڑتا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ روس اور چین "حماس" کی مزاحمت کو دہشت گردی سے نہیں جوڑتے ہیں۔
عالمی رہنماؤں کے اسرائیل کے خلاف سخت لہجے:
غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری اسرائیلی ریاستی دہشت گردی تھی۔اسرائیل نے اس دہشت گردی کو چھپانے کے لیے کئی غیر ملکی میڈیا اداروں کے دفاتر کو بھی زمیں بوس کردیا۔ اس دہشت گرانہ کاروائی کو بہت سے عالمی رہنماؤں نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسرائیل کو سخت لہجے میں جنگ بندی کے لیے کہا تھا۔
بی بی سی کی 19/مئی کی ایک خبر کے مطابق "روسی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ملک کے ایک سینیئر اہلکار نے اسرائیلی سفیر کو بتایا ہے کہ ایسے کوئی اقدامات اب قابل قبول نہیں ہوں گے جن سے غزہ میں مزید ہلاکتیں ہوتی ہیں۔" روس عالمی سطح پر ان ممالک میں شامل ہوگیا تھا، جنھوں نے غزہ میں سیز فائر کا مطالبہ کیا تھا۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین اس وقت 2014 کے بعد سے، اب تک کا سب سے بڑا تنازع پیدا ہوا ہے۔ اس کے حل کے لیے امریکہ کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے۔ اسرائیل کو تحمل سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف تشدد، دھمکیوں اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ بند کرنا چاہیے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کی حمایت کرنے پرامریکی صدر جو بائیڈن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ آج ہم نے دیکھا کہ جوبائیڈن نے اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے کی ڈیل پر دستخط کیے ہیں۔ بائیڈن اپنے خون آلود ہاتھوں سے تاریخ لکھ رہا ہے۔ امریکا نے اپنے رویہ سے ہمیں یہ کہنے پر مجبور کیا؛ کیوں کہ فلسطینی خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے امن کے منتظر ہیں۔ اب ہم مزید خاموش نہیں رہ سکتے اور ہم فلسطین کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ رجب اردوان نے اتنا سخت لہجہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ عین جنگ کے دوران، 18/مئی 2021 کو امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے غاصب اسرائیل کو ساڑھے تہتّر کروڑ ڈالر کی مالیت کے گائیڈ ہتھیار فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔
بیت المقدس سرخ لکیر:
اس جنگ کے دوران پہلی بار غزہ پٹی اور مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کے درمیان زبردست اتحاد و اتفاق دکھا اور مغربی کنارے والوں نے جم کر غزہ والوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی۔ حماس کے حوالے سے فلسطینی متحد نظر آئے۔ حماس کی عسکری ونگ "القسام بریگیڈ"نے بھی یہ ثابت کردیا کہ بیت المقدس سرخ لکیر ہے،اس پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔ مسجد اقصی پر جو بری نظر ڈالے گا، اس کو سنگین نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے جنگ بندی کے بعد اپنے پیغام میں کہا کہ فلسطینی قوم نے ایک بار پھرثابت کیا ہے کہ قبلۂ اوّل ہمارا ہے اور القدس سرخ لکیر ہے۔ آج فلسطینی قوم کی قابض اور غاصب دشمن پر فتح کا دن ہے۔آج پوری مسلم دنیا، فلسطینی قوم اور دنیا کے زندہ ضمیر لوگ خوش ہیں۔ فلسطینی قوم نے جس بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا ہے، اس نے پوری فلسطینی قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ قدس اوراقصی کی آزادی کا مرحلہ ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ انھوں نے اس عظیم فتح پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔
فلسطینیوں کا جانی ومالی نقصان:
فلسطینی عوام مسجد اقصی کی حفاظت اور اپنے وطن کی تعمیر کے لیے جس طاقت سے ٹکر لے رہے ہیں، جنگی ساز وسامان کے اعتبار سے اس طاقت کے مقابلے میں فلسطینی کچھ بھی نہیں ہیں؛ لہذا اس جنگ میں فلسطینیوں کا جانی ومالی نقصان بڑے پیمانے پر ہونا تھا، وہ ہوا۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزارت اطلاعات ونشریات کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وحشیانہ بمباری میں ایک لاکھ ساتھ ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔ اس میں 322/ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تقریبا 1335/رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوئی ہیں اور 13/ہزار رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ 184/ ٹاور مسمار کیے گئے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق کہ 30/اسپتال تباہ ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارت تعلیم نے 27/طلبہ کے شہیداور 46/اسکول کے تباہ ہونے کی خبر دی ہے، جن میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی "اونروا" کے اسکول بھی شامل ہیں۔ وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق اس بمباری میں تقریبا 243/ فلسطینی شہید ہوے ہیں، جن میں 66/بچے، 39/خواتین اور 17/عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔ خواتین اور بچے سمیت تقریبا 1910/افراد زخمی ہوئے ہیں۔
غاصب اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب:
جنگ کے بھی کچھ اصول وضوابط ہیں۔ عام شہریوں کی جان ومال کا تحفظ اور پریس کی آزادی کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی ملک جنگی جنون میں آکر، ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے؛ تو وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہوگا۔ اِس جنگ میں اسرائیلی افواج نے معصوم شہریوں پر ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے شدید گولہ باری اورعام شہریوں کے رہائشی علاقوں اور ان کی املاک پر میزائل سے حملےکیے ہیں۔ کئی بین الاقوامی ابلاغی اداروں کے دفاتر پر حملہ کیا گيا اور صحافیوں کو زخمی کیا گیا ہے۔ فلسطینی پریس یونین کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج کے حملے میں ابلاغی اداروں کے 33/مراکز تباہ اور 170/صحافی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ وہ وحشیانہ کاراوائیاں ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل جنگی جرائم کامرتکب ہے۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم، "یورو مڈل ایسٹ ہیومن رائٹس آبزر ویٹری" نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی توپ خانے کے ذریعے کی گئی وحشیانہ گولہ باری اور اس میں بے گناہ فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوے اسے جنگی جرم قرار دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ گولہ باری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ اسرائیلی فوج نے زمینی اور فضائی کاروائیوں میں،سیکڑوں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو شہید کرکے، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو کھلے عام پامال کیا ہے۔
اسرائیلیوں کا جانی ومالی نقصان:
اسرئیل کو لگ رہا تھا کہ وہ معمولی سی کاروائی میں حماس کی عسکری ونگ "القسام" کا خاتمہ کرکے ان کی مزاحمت سےچھٹکارا پالیں گے۔ یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ فلسطینی مزاحمت کار ہمیشہ تازہ دم ہوکر، میدان میں آئے ہیں۔ اگر مستقل میں ایسی نوبت آتی ہے؛ تو امید ہے کہ وہ پھر تازہ دم ہو کر آئیں گے۔ اس بار القسام کے راکٹ اسرائیلی دار الحکومت تل ابیب، اس کے مضافات اور بن گورین طیران گاہ تک پہنچنے میں کام یاب رہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ"القسام" نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی! راکٹ حملے کی وجہ سے اس گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کے کئی شہروں اور قصبوں میں ہر وقت بھگدڑ مچی رہی۔ ڈھائی سو کلو میٹر کے اندر آنے والے اسرائیلی شہر اور قصبات میں راکٹوں کی بارش ہوتی رہی۔ وہاں کے باشندے اپنا کام کاج چھوڑ کر، بار بار زیر زمیں بنی پناہ گاہوں میں چھپنے کو ہی عافیت سمجھتے رہے۔ ماضی میں جب بھی اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کرتا؛ تو بے حس اسرائیلی شہری اس سے خوش ہوتے تھے۔ اس بار ایسا نہیں ہوا؛ بل کہ وہ خطرے کا سائرن بجتے ہی، زیرِ زمیں پناہ گاہوں میں چھپنے پر مجبور تھے۔
اس جنگ میں "القسام" کے راکٹ حملے میں، تقریبا 12/اسرائیلی شہری مارے گئے۔ راکٹ حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہوں گے؛ مگر اسرائیل اپنی ہزیمت کو چھپانے کے لیے اعدا د وشمارنہیں بتا رہا ہے۔ راکٹ حملے میں اسرائیل میں متعدد تجارتی ورہائشی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں اور گیس پائپ لائن تباہ ہوا ہے۔ یہ خبر بھی گشت کر رہی ہے کہ القسام کے حملے میں گائڈیڈ میزائل سے اسرائیلی آرمی کی ایک بس اڑادی گئی۔ اس کے ایک سمندری جنگی جہاز کو بھی تباہ کیا گیا؛ لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس ایسی صلاحیت نہیں؛ یہ کام ایران نے انجام دیا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کے مالی نقصان کی بات ہے؛ تویہ ظاہر ہے کہ جہاں چار ہزار راکٹ داغے گئے ہوں، وہاں بہت کچھ مالی نقصان بھی ہوا ہوگا۔
اسرائیل کوئی ناقابل تسخیر نہیں:
اس جنگ میں اسرائیل کو ایک چھوٹی سی تنظیم کی مزاحمت کی وجہ سے جن مشکلات کا سامنا رہا، اس حوالے سے اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جو ملک اب تک طاقت کے نشے میں مست ہوکر، عرب ممالک کے سامنے شیر باور کرانے کی کوشش کرتا تھا، وہ بری طرح سے "القسام" کی مزاحمت میں ذلیل ورسوا ہوگیا۔ "القسام" کے مخلص جاں بازوں اوربہادر فلسطینیوں نے اپنی مزاحمت سے یہ باور کرا دیا کہ اسرائیل کوئی ناقابل تسخیر طاقت نہیں ہے۔ القسام نے اسرائیل کو یہ بتا دیا کہ اب وہ وقت گیا جب وہ اپنی درندگی کے ذریعے جب چاہے اور جسے چاہے میزائل اور بم پھینک کر موت کی ابدی نیند سلادیا کرتے تھے۔ اسرائیل نے ماضی میں حماس کے صف اوّل کے رہنماؤں: شیخ احمد یاسین (1937-2004) کو 22/مارچ 2004 کواور عبد العزیز الرنتیسی (1947-2004) کو 17/اپریل 2004 کو اچانک میزائیل حملے میں شہید کر دیاتھا۔ "القسام" نے، اِن گیارہ دِنوں (10 تا 21/مئی) میں، تقریبا چار ہزار راکٹ برساکر، یہ ثابت کردیا کہ اب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ مسجد اقصی اور اپنے وطن کی حفاظت کے لیےاسرائیل کو لگام لگا سکتا ہے۔
فلسطین کے ساتھ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل: مسجد اقصی کا مسئلہ جڑا ہوا ہے؛ اس لیے یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا قضیہ ہے۔ فلسطین کو صرف عرب کا مسئلہ قرار دینا غلط ہے۔ اس کے حل کے لیے عرب اور مسلم ممالک کو اپنی صف میں اتحاد کے ساتھ آگے آنا چاہیے۔ ابھی ایک سنہرا موقع ہے۔ عرب اور مسلم ممالک کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور انصاف پسند دوسرے ممالک کو ساتھ لے کر، اسرائیل کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242 (1967) کے مطابق، سن 1967 کی عرب اسرائيل جنگ کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقے خالی کرے۔پھر آزاد فلسطین ریاست قائم کی جائے، جس کا دار الخلافہ "بیت المقدس" ہو۔ اگر اسرائیل اس پر آمادہ نہیں ہوتا ہے؛ تو اس کا عالمی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ ●●●●
No comments:
Post a Comment