Friday, August 13, 2021

بجھ گئے کتنے شبستانِ محبّت کے چراغ

 

بجھ گئے کتنے شبستانِ محبّت کے چراغ

حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلیؒ (1950-2021) ، نائب مہتمم دار العلوم دیوبند

 

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

استاذ محترم حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلیؒ  کئی مہینوں سے علیل تھے۔ رمضان کے بعد،طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوئی۔ آپ کو ماہِ جون میں، مظفر نگر کے ایک ہاسپٹل میں علاج کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔ جب وہاں کچھ افاقہ محسوس نہیں ہوا؛ تو دہلی کے ایک اسپتال میں ٹرانفسر کیا گیا۔ طبیعت میں کچھ افاقہ محسوس ہوا اور آپ دیوبند واپس لائے گئے۔ مگر اِدھر کچھ دنوں سے صورت حال کچھ زیادہ ہی سنگین ہوچکی تھی؛ لہذا ان کو مظفرنگر بغرض علاج لے جایا گیاتھا۔ وہ  زیر علاج ہی تھے کہ 30/جولائی 2021 کو بعد نماز جمعہ یہ خبر موصول ہوئی کہ آپ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ تقریبا 72/سال کے تھے۔آپ کی تاریخ پیدائش 4/جنوری 1950ء بتائی جاتی ہے۔بہرحال، جب  وقت معین آجائے؛ توعمر بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ کیا بڑا، کیا چھوٹا، کیا کمزور اور کیا توانا: ہر کسی کو اپنے  وقت معین پر، اس دار فانی سے کوچ کرناپڑتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: "وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ." (سورہ الاعراف/34)  ترجمہ: "اور ہر قوم کے لیے ایک میعاد مقرر ہے۔ چنانچہ جب ان کی مقررہ میعاد آجاتی ہے؛ تو وہ گھڑی بھر بھی اس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔"

 

استاذ محترمؒ کا جنازہ مظفرنگر سے دیوبند لایا گیا۔ اسی تاریخ میں، رات کے تقریبا گیارہ بجے نماز جنازہ ادا کی گئی۔ دار العلوم کے موقر ومحترم مہتمم:حضرت مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی(حفظہ اللہ) نے نماز جنازہ ، دار العلوم کے "احاطۂ مولسری" میں پڑھائی اور تدفین"مزار قاسمی" میں ہوئی۔ یکے بعد دیگرے، چند مہینوں میں کئی اساتذۂ کرام اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللہ پاک ان سب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!

بجھ گئے کتنے شبستانِ محبّت کے چراغ  – محفلیں کتنی ہوئی شہر خموشاں، کہیے

 

اللہ پاک نے استاذ محترمؒ میں بہت ساری خوبیاں رکھی تھی۔ آپ ایک قابل وباصلاحیت،  نرم دل، شیریں گفتار، خوش نوا، مشفق ومربی  استاذ تھے۔ آپ   تواضع وانکساری کا پیکر، اخلاق حمیدہ سے متصف اورسادگی پسند انسان تھے۔ آپ کی پوری زندگی درس وتدریس اور پڑھنے پڑھانے میں گذری۔ آپ تقریبا نصف صدی تک درس وتدریس سے لگے رہے۔ ہزاروں طالبانِ علوم نبوت نے آپ سے اپنی علمی پیاس بجھائی اور سیرابی حاصل کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (صحیح مسلم عن ابی ہريرة رضی اللہ عنہ: 1631)کے مطابق، آپ کی تدریسی خدمات آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہوں گی، ان شاء اللہ۔ بہرحال، علم کی وہ شمع جو نصف صدی سے روشن تھی، وہ اپنے ہزاروں چاہنے والے کو چھوڑ کر  بجھ گئی ۔

کون سا جھونکا بجھا دے گا کسے معلوم – زندگی کی شمع روشن ہے ہوا کے سامنے

 

جب بھی استاذ محترمؒ کا ذکر آئے گا؛ تو آپ سے استفادہ کرنے والوں کے سامنے آپ کا ہنستا اور مسکراتا چہرہ  آجائے گا۔ آپ کا نام آتے ہی آپ کی گفتگو کا دل چسپ انداز، پر لطف نکتہ سنجی، آپ کے مسجع جملے بھی یاد آئيں گے۔ آپ  اردو کے الفاظ کی وجہ تسمیہ بیان کرنے میں بھی طاق تھے، جو آپ  کی طباعی کا اختراع ہوتا اور طلبہ کو گھنٹے میں دل چسپی اور نشاط فراہم کرتا تھا۔آپ ہمیشہ خوش مزاج رہتے تھے۔ آپ  درس گاہ میں، کسی طالب علم پر غصہ نہیں ہوتے تھے۔ اگر کسی طالب علم سے غلطی ہوجاتی؛ تو آپ خود اس کی مناسب تاویل کرلیتے۔ جب ایک طالب کوئی عذر پیش کرتا؛ تو آپ "العذر عند کرام الناس مقبول" فرماتے اور عذر قبول کرلیتے۔ آپ کا یہ مذہب تھا کہ کسی کا دل نہ دکھاؤ؛ کسی کو اذیت نہ پہنچاؤ اورکسی کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ آپ اس حدیث پر صد فی صد عامل تھے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ.» (سنن ابن ماجہ، 2341) ترجمہ: "کسی کو نہ ابتداءً نقصان پہنچایا جائے اور نہ بدلے میں نقصان پہنچایا جائے۔"

 

ہر کسی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے؛ اگر کوئی ایسا کرتا ہے؛ تو اسے انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حضرت ابو صرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ ضَارَّ أَضَرَّ اللهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَقَّ اللهُ عَلَيْهِ.» (سنن ابن ماجہ، 2342) ترجمہ:  "جو (کسی کو) نقصان پہنچائے، اللہ اس کو نقصان پہنچائے اور جو (کسی دوسرے پر) سختی کرے، اللہ اس پر سختی کرے۔"

 

استاذ محترمؒ کا طریقۂ تدریس:

جب بندہ دار العلوم میں طالب علم تھا، اس وقت استاذ محترمؒ سے دیوان متنبی، ہدایہ، انشاء وغیرہ کے اسباق متعلق تھے۔ بندہ کو آپ سے تکمیل ادب کے سال میں استفادہ کا موقع ملا۔آپ تکمیل ادب میں "انشاء" یعنی اردو سے عربی اور عربی سے اردوترجمہ نگاری کی مشق کراتے تھے۔ کبھی کبھی تازہ  عربی اخبار کا تراشہ بھی لاتے اور اس کا ترجمہ کراتے۔ وہ دن آج بھی یاد ہے کہ شیخ احمد یاسینؒ (1937-2004) کی شہادت کی خبرجو "الشرق الاوسط" میں چھپی تھی، آپ نے اس خبر کا  اردو ترجمہ ہم ساتھیوں سے کرایا تھا۔ جس طالب علم کی تمرین کی کاپی گھنٹہ میں چیک نہیں ہوپاتی، وہ بلا تکلف آپ کے گھر پر چلا جاتا اور آپ خوشی خوشی  ان کی کاپی  چیک کرتے۔ آپ کے پڑھانے کا انداز بہت ہی نرالا تھا۔ اللہ پاک نے آپ کو تفہیم کی بھی خوب صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ جب کوئی طالب علم کچھ پوچھتا؛ تو پوری بشاشت کے ساتھ جواب دیتے۔ آپ پابندی سے گھنٹہ میں حاضر ہوتے اور پڑھاتے۔آپ ناغہ نہیں کرتے تھے۔ اگر آپ درس گاہ میں نہیں آتے؛ تو  اس کا سیدھا مطلب یہ ہوتا کہ آپ دیوبند سے باہر کہیں گئے ہوئے ہیں۔

 

استاذ محترمؒ کا علمی سفر:

استاذ محترمؒ نے اپنے علمی سفر کا آغاز سنبھل کے محلہ سرائے ترین میں واقع  مدرسہ وحید المدارس سے کیا۔ ان کا سنبھل کے اسی محلہ تھے وطنی تعلق تھا۔ اُن دِنوں ایک  اہل علم اورلائق وفائق استاذ، حضرت مولانا مفتی محمد آفتاب علی صاحبؒ اس مدرسہ میں پڑھاتے تھے۔ پھر مفتی صاحبؒ نے ایک دوسرے ادارہ "مدرسہ شمس العلوم" سے تدریسی رشتہ قائم کرلیا۔ پھر استاذ محترمؒ بھی مدرسہ شمس العلوم چلے گئے۔ اس ادارہ میں اوّلا آپ نے جناب حافظ فرید الدین صاحب کی نگرانی میں حفظ القرآن الکریم مکمل کیا۔ پھر آپ نے مفتی محمد آفتاب صاحبؒ سے پڑھنا شروع کیا۔ آپ نے ان سے شرح جامی (چہارم عربی) تک کی تعلیم حاصل کی۔  اس کے بعد، سن 1968ء میں، آپ نے دار العلوم ، دیوبند میں داخلہ لیا اور سن  1972 ء میں سند ‌فضیلت حاصل کی۔ آپ طالب علمی کے زمانے میں دار العلوم کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے۔ دورۂ حدیث شریف میں آپ امتیازی نمبرات سے کام یاب ہوئے اور اپنی جماعت میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔

 

عربی زبان وادب سے دل چسپی کی وجہ سے استاذ محترمؒ مزید ایک سال "شعبہ تکمیل ادب عربی" میں داخل رہے۔ انھوں نے تکمیل ادب کے سال میں، عربی زبان وادب کے بے نظیر معلم، جوانوں میں عقابی روح بیدار کرنےوالےاستاذ، رجال ساز، عظیم مدرس ومربی حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ (1930-1995)سے خوب استفادہ کیا۔ زبان وادب کے حوالے سے ان کا  ذوق بہت عمدہ تھا۔ وہ فصیح وبلیغ کلام پر قادر تھے۔ وہ عربی میں تقریر اور تدریس بسہولت انجام دے لیتے تھے۔ وہ حضرت کیرانوی سے بڑی محبت کرتے تھے۔ انھوں  نے ایک بار فرمایا کہ دارالعلوم میں مدرسی کے لیے جب  انٹرویو ہوا؛ تو ان سے  پوچھا گیا کہ کیا آپ عربی زبان وادب سے بھی دل چسپی رکھتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ دار العلوم کی طالب علمی کے دور میں حضرت کیرانویؒ کی جوتیاں سیدھی کرنے والوں میں ایک میں بھی تھا۔

 

استاذ محترمؒ نے دار العلوم میں حضرت شیخ فخر الدین مراد آبادیؒ، حضرت شیخ فخر الحسن مرادآبادیؒ، حضرت شیخ شریف الحسن دیوبندیؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، حضرت مولانا نصیر احمد خان بلندشہریؒ، حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ، حضرت کیرانویؒ، حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ وغیرہم جیسے آفتاب وماہتاب سے استفادہ کیا۔

 

تدریسی خدمات:

دار العلوم سے فراغت کے بعد، سن 1973ء میں، استاذ محترمؒ نے مشہور دینی درس گاہ، مدرسہ خاد م الاسلام، ہاپوڑ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا۔آپ نے اس ادارہ میں تقریبا چھ سال پڑھایا۔ پھر سن 1979ء میں،آپ نے جامع الہدی، مرادآباد سے تدریسی تعلق قائم کرلیا۔اس ادارہ میں تدریسی خدمات کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ آپ کے رفیقِ درس حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی اس ادارہ میں پڑھاتے تھے۔ استاذ محترمؒ مولانا قاسمی سے ملنے جلے کی غرض سے  جامع الہدی جایا کرتے تھے۔ پھر جامع الہدی کے مہتمم حضرت مولانا عالم صاحب قاسمیؒ نے آپ کو  تدریسی خدمات کی پیشکش کی، جسے آپ نے قبول کرلیا۔  اس ادارہ میں تقریبا تین سال تک رہے اور وسطی وعلیا کی کتابیں زیر درس رہیں۔ سن 1982ء میں، بحیثیت مدرس آپ کا تقرر دار العلوم دیوبند میں ہوا۔  سن 2008ء میں، آپ  دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم منتخب کیےگئے۔ آپ دم واپسیں تک، دار العلوم کے مدرس و منتظم کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔

 

قلمی خدمات:

استاذ محترمؒ عربی واردو ہر دو زبان کے حوالے سے بہت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ آپ کی تقریر وتحریر فصیح وبلیغ اور صاف وشستہ ہوتی تھیں۔آپ مودویت کے سلسلے میں تکمیلات (مثلا: تکمیل افتا، تکمیل ادب وغیرہ )کے طلبہ کو جمعرات کو ظہر بعد کے گھنٹے میں، محاضرات پیش کرتے۔ آپ کے یہ محاضرات پانچ اجزاء پر مشتمل ہیں۔  جز اول: انتالیس صفحات، جز دوم: چوالیس صفحات، جز سوم: پینتیس صفحات، جز چہارم: چالیس صفحات اور جز پنجم: بیالیس صفحات پر مشتمل ہیں۔ آپ نے فتاوی ہندیہ (فتاوی عالمگیری) کے "کتاب الایمان" کا ترجمہ کیا۔  آپ نے "کتاب التوحید" کا ترجمہ کیا جو پانچ سو صفحات پر مشتمل ہیں اور شائع شدہ ہیں۔ یہ کتاب عرب مصنف عبد الحمید زندانی کی ہے جو جامعہ عین شمس کے فاضل اوریمن کے رہنے والے عالم دین اور مشہور سیاست داں ہیں۔

 

 پس ماندگان:

آپ کے پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ، چار لڑکیاں اور تین لڑکے: مولانا محمد سہیل قاسمی، مولانا محمد عزیر قاسمی اور مولانا محمد زبیر قاسمی ہیں۔ آپ کے سب لڑکے دار العلوم دیوبند سے سند یافتہ عالم  وفاضل ہیں۔ وہ سب آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کے اہل وعیال کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے! ⦁⦁⦁⦁

No comments: