حسد کی آگ اور ہمارا معاشرہ
از : خورشید عالم داؤد قاسمی
تمہید:
اعضاء جسمانی میں سب سے بہتر اور اعلی عضو "قلب"ہے، جسے اردو میں "دل" اور انگریزی زبان میں “Heart” کہا جاتا ہے۔ دل درست اور صحیح ہو؛ تو سب کچھ ٹھیک رہتا ہے اور اگر دل خراب ہوجائے؛ تو اس کا اثر پورے اعضاء جسمانی پر ہوتا ہے۔ دل کی خرابی سے جو اندرونی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، انھیں "امراض باطنیہ" کہا جاتا ہے؛ جیسے: کینہ، بغض، حسد،تکبر، ریاکاری، حب مال وحبّ جاہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ امراض ہیں، جن سے انسان کی صرف دنیا ہی برباد نہیں ہوتی؛ بل کہ آخرت بھی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے۔ ان امراض باطنیہ میں سے ایک حسدبھی ہے۔ ہم ذیل کے سطور میں "حسد" کے موضوع پر کچھ باتیں اس امید کے ساتھ تحریر کررہے ہیں کہ اللہ تعالی ہماری اور تمام مسلمانوں کی اس سے حفاظت فرمائے!
حسد کی تعریف:
ایک شخص کا کسی آدمی کی نعمت کے زوال کی تمنا کرنے کو حسد کہتے ہیں، اب چاہے اس نعمت کی اپنے لیے تمنا کرے یا نہ کرے۔ اس تمنا کرنے والے کو حاسد اور جس کی نعمت کے زوال کی تمنا کی جائے، اسے محسود کہتے ہیں۔ مختصر لفظوں میں "حاسد محسود کے نعمت کی زوال کی تمنا کرتا ہے۔" (۱)
غبطہ اور رشک:
حسد کے قبیل سے ایک دوسرا لفظ ہے، جسے عربی میں "غبطۃ" اور اردو میں "رشک " کہتے ہیں۔ غبطۃ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص یہ تمنا کرے کہ اللہ تعالی اسے بھی اس نعمت سے نواز دے، جس سے دوسرے بھائی کو نواز رکھا، دوسرے بھائی سے بغیر زوال کی تمنا کیے ۔ (۲)
حسد کے اسباب:
حجۃ الاسلام محمد بن محمد الغزالیؒ (450-505ھ) نے حسد کے مختلف اسباب اپنی مقبول عام تصنیف "احیاء علوم الدین" میں ذکر کیا ہے۔ ہم ان اسباب کو یہاں اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
۱-بغض و عداوت: ہر وہ شخص جسے اذیت دی جائے، یا اس کے مقاصد میں خلل ڈال دیا جائے؛ تو اذیت دینے والے اور مقاصد کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے کا مخالف ہوجاتا ہے اور دل سے اسے برا جانتا ہے اور کینہ و غضب اسے انتقام پر اکساتا ہے۔ اگر وہ خود انتقام نہیں لے پاتا؛ تو یہ چاہتا ہے کہ زمانہ ہی اس سے انتقام لے لے۔
۲-تغزز: کبھی حسد اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اپنے برابر والے کی عزت اور برتری گوارا نہیں ہوتی۔ یعنی حاسد یہ نہیں چاہتا کہ اس کی برابر حیثیت رکھنے والا کوئی شخص، کسی نعمت کے حصول کے بعد، اس پر اپنی بڑائی ظاہر کرے۔
۳-کبر: کبھی حسد کا سبب یہ ہوتا ہے کہ حاسد دوسرے کو ذلیل و حقیر سمجھتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرا اس سے دب کر رہے، اس کی خدمت کرے اور ہر وقت تعمیل حکم کے لیے مستعد نظر آئے۔ اب اگر اتفاقا اسے کوئی نعمت مل جائے؛ تو حاسد کو یہ خوف ستاتا ہے کہ کہیں وہ شخص نعمت پاکر بدل نہ جائے ۔ ابھی میں اس پر متکبر ہوں، پھر وہ مجھ پر متکبر ہوجائے گا۔ یہ خوف اسے حسد پر مجبور کرتا ہے۔
۴-تعجب: کسی کو بلند مرتبے پر یا اچھی حالت میں دیکھ کر ، متعجب ہونا بھی حسد کا باعث بن جاتا ہے۔
۵-مقصود کا فوت: یہ سبب ان دو آدمیوں کے ساتھ مخصوص ہے، جو ایک ہی مقصد کے لیے کوشاں ہوں؛ چناں چہ ایک دوسرے سے ہر اس نعمت میں حسد کرتا ہے، جو اس کی مقصد کی تکمیل میں، معاون ثابت ہوسکتی ہو۔
۶- جاہ و اقتدار کی خواہش: کبھی جاہ و اقتدار کی خواہش کی بناء پر حسد کیا جاتا ہے، مثلا: کوئی شخص کسی فن میں بے مثال ہو اور وہ یہ چاہتا ہو کہ کوئی دوسرا یہ فن حاصل نہ کرپائے، تاکہ میں بہ طور سکّہ رائج الوقت مقبول رہوں، اس شخص کا تعریف اور مقبولیت کے علاوہ کوئی دوسرا مادّی مقصد نہیں ہوتا، پس طبعا وہ خوشامد پسند ہوتا ہے؛ چناں چہ اگر کوئی دوسرا اس فن میں کچھ شدبد پیدا کرتا ہے، تو اسے جلن ہوتی ہے، اور اس نعمت کے زوال کی تمنا کرتا ہے، جس میں دوسرے شخص نے شرکت کرکے، اس کی انفرادیت ختم کی ہے، مثلا بہادری، علم، ہنر، خوب صورتی۔
۷- خباثت نفس: نفس کی خباثت اور خیر کے سلسلے میں دل کا بخیل ہونا بھی حسد کا بڑا سبب ہے۔ تمھیں ایسے لوگ آسانی سے مل جائیں گے۔ جب ان کے سامنے کسی شخص کا حال بیان کیا جائے گااور ان کے علم میں یہ بات آئے گی کہ وہ فلاں نعمت خداوندی سے بہرہ ور ہے، تو ان کے سامنے کسی شخص کے سینے پر سانپ لوٹیں گے، اور جب انھیں بتلایا جائے گا فلاں شخص آج کل پریشانیوں سے گذر رہا ہے، اسے اپنے مقاصد میں ناکامی ہوئی ہے۔ یہ سن کر ان بدباطن لوگوں کو دلی مسرت ہوگی، ان لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص کبھی فلاح نہ پائے، وہ دوسروں پر باری تعالی کے انعامات کی بارش دیکھ کر اس طرح مضطرب اور بے چین ہوتے ہیں، گویا وہ انعامات ان کے خزانۂ خاص سے چھین کر دیے گئے ہوں۔ (۳)
قرآن کریم میں حسد کی مذمت:
اللہ عزّ و جلّ نے قرآن کریم میں، مختلف جگہوں پر حسد کی مذمت کی ہے۔ کہیں تو کسی مضمون کے ذیل میں،حسد کو بیان کیا اور کچھ جگہوں پر صریح اور واضح لفظوں میں اس کی مذمت بیان کیا ہے۔ ہم ذیل میں اس حوالے قرآن کریم کی دو آیتیں نقل کرتے ہیں:
اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے: "أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ آَتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا." (۴) ترجمہ: "یا دوسرے آدمیوں سے ان چیزوں پر جلتے ہیں، جو اللہ (تعالی) نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں، سو ہم نے ابراہیم – علیہ السلام– کے خاندان کو کتاب بھی دی ہے اور علم بھی دیا ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی۔
آیت مذکورہ کی تفسیر میں علامہ شبّیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں: "یعنی کیا یہود حضرت محمدؐاور ان کے اصحاب ؓ پر اللہ کے فضل و انعام کو دیکھ کر، حسد میں مرے جاتے ہیں! سو تو یہ بالکل ان کی بے ہودگی ہے؛ کیوں کہ ہم نے حضرت ابراہیم –علیہ السلام– کے گھرانے میں، کتاب اور علم اور سلطنت عظیم عنایت کی ہے۔ پھر یہود آپؐ کی نبوت اور عزت پر کیسے حسداور انکار کرتے ہیں، اب بھی تو ابراہیم ہی کے گھر میں ہے۔" (۵)
اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جو نبوت و رسالت،عزت و شرف اور سلطنت و بادشاہی جیسی عظیم نعمتوں سے محمد عربیؐ کو سرفراز کیا، اسی طرح ان کے صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– پر جس قدر فضل و انعام کی بارش کی، اس پر یہود یوں کا حسد کرنا بالکل غلط ہے۔اسی طرح اس آیت کریمہ سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر حق جلّ مجدہ نے اپنے خزانے سے اپنے کسی بندہ کو نعمت سے نواز رکھا ہے؛ تو اس پر کسی کا بھی حسد کرنا حرام ہے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: "وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ." (۶) ترجمہ: ان اہل کتاب میں سے بہتیرے دل سے یہ چاہتے ہیں کہ تم کو تمھارے ایمان لائے پیچھے پھر کافر کرڈالیں، محض حسد کی وجہ سے جو کہ خود ان کے دلوں ہی سے ہے، حق واضح ہوئے پیچھے، خیر معاف کرو اور در گزر کرو جب تک حق تعالی اپنا حکم بھیجیں، اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔
مفتی محمد شفیعؒ آیت کریمہ مذکورہ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: "بعض یہود شب و روز مختلف تدبیروں سے دوستی اور خیر خواہی کے پیرایہ میں مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے کی کوشش کیا کرتے تھے، اور باوجود ناکامی کے اپنی دھن سے باز نہ آتے تھے۔ حق تعالی نے مسلمانوں کو اس پر متنبّہ فرمادیا کہ ان اہل کتاب (یہود) میں سے بہتیرے دل سے یہ چاہتے ہیں کہ تم کو تمھارے ایمان لائے پیچھے پھر کافر کرڈالیں، (اور یہ چاہنا کچھ خیر خواہی سے نہیں، جیسا کہ وہ اظہار کرتے ہیں، بل کہ)محض حسد کی وجہ سے جو کہ (تمھاری جانب سے کسی امر کے سبب پیدا نہیں ہوا، بل کہ) خود ان کے دلوں ہی سے (جوش مارتا) ہے، (اور یہ بھی نہیں کہ حق واضح نہ ہواہو، بل کہ)حق واضح ہوئے پیچھے (یہ حالت ہے، اب اس پر مسلمانوں کو ان پر غصہ آنے کا محل تھا، اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ) خیر (اب تو) معاف کرو اور درگزر کرو جب تک حق تعالی (اس معاملہ کے متعلق) اپنا حکم (قانون جدید) بھیجیں۔" (۷)
اس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان جو کہ ایمان کی عظیم نعمت سے مالامال تھے؛ تو یہود مسلمانوں کو ایمان سے کفر کی طرف لوٹنے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کرتے تھے؛ تاکہ مسلمان ان کے جھانسے میں آکر، کفر کی طرف لوٹ جائیں۔ در حقیقت یہود مسلمانوں کے دولت ایمانی سے جلتے تھے؛ لہذا یہود کی یہ کوشش مسلمانوں کے حق میں کوئی بھلائی کے لیے نہیں تھی؛ بل کہ محض حسد کی وجہ سے تھی۔
حدیث شریف میں حسد سے ممانعت:
اب ہم ذیل میں نبی کریمؐ کی چند احادیث نقل کرتے ہیں، جس میں حسد سے بچنے اور اجتناب کرنے کی تاکید آئی ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے حسد اچھے اعمال کو ایسے ہی کھاجاتاہے، جیسے آگ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔ حدیث شریف ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
"إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ." (۸) ترجمہ: "تم حسد سے بچو؛اس لیے کہ حسد نیکیوں کو ایسے ہی کھا جاتا ہے، جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔"
ایک دوسری حدیث میں بغض و حسد وغیرہ کی ممانعت آئی ہے اور یہ تعلیم دی گئی ہے کہ آپس میں، بھائی بھائی کی طرح زندگی گزاری جائے۔ حدیث کے راوی حضرت انس بن مالکؓ ہیں۔ حدیث مع ترجمہ درج ذیل ہے:
"لاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ." (۹) ترجمہ: "تم آپس میں ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، آپس میں حسدنہ کرو، ایک دوسرے سے پشت مت پھیرو، اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔ اور ایک مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کوتین دنوں سے زیادہ (بغیر بات چیت کے) چھوڑ دے۔"
حسد کاشرعی حکم:
حسد کا شرعی حکم یہ ہے کہ حسد حرام ہے او ر اس سے بچنا فرض ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ." (۱۰) ترجمہ: "اور حسد کرنے والے کے شر سے، جب وہ حسد کرنے لگے۔" امام غزالیؒ رقم طراز ہیں: "حسد ہر حال میں حرام ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی نعمت ہو، جو کسی فاجر یا کافر کو مل گئی ہو، اور وہ اس کی مدد سے فتنہ و فساد برپا کرتا ہو، لوگوں کے درمیان تفریق ڈالتا ہو، مخلوق کو ایذاء پہنچاتا ہو، ایسی کسی نعمت پر تمھارا اظہار ناپسندیدگی، اور اس کے زوال کی آرزو کرنا بجا ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں تمھاری ناپسندیدگی اور زوال کی خواہش اس لیے نہیں ہوگی کہ وہ چیز نعمت ہے؛ بل کہ اس لیے ہوگی کہ وہ اس نعمت کو فتنہ و فساد کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔ اگر اس کے فتنہ و فساد کا خوف نہ ہو؛ تو تمھیں اس کی نعمتوں سے دکھ بھی نہیں ہوگا، اور نہ تم یہ چاہوگے کہ وہ نعمتیں اس سے چھن جائیں۔ (۱۱)
حسد کا علاج کیا ہے؟
اگر کوئی شخص "حسد" جیسے مہلک مرض سے دوچار ہے؛ تو اس کے لیے "حسد" سے بچنے کا طریقہ اور علاج یہ ہے کہ حاسد اس بات کو بار بار اپنے خیال میں لائیں کہ یہ حسد دنیا اور آخرت: دونوں میں نقصان دہ ہے۔ حسد سے صرف میری دنیا کا ہی نہیں، بل کہ دین کا بھی نقصان ہے۔ جب کسی چیز پر حسد ہورہی ہو؛ تو فورا اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اور اللہ سے وہ چیز اپنے لیے مانگیں اور دوسرے سے ختم ہونے کی تمنا ہرگز نہ کرے۔ ہاں، اگر وہ ممکن نہیں ہو؛ تو پھر اپنے ذہن و ماغ اور نفس کو اس طرف گشت کرنے سے روکیں۔اسی طرح آپ اپنے نفس کو یہ بھی سمجھائیں کہ وہ آپ کو ایک شخص کی جس نعمت پر حسد کروا رہا ہے، وہ آپ کا بھائی ہی تو ہے۔ اگر اللہ نے اسے نوازا ہے؛ تو آپ کو خوش ہونا چاہیے۔ اس شخص کے نعمت میں زیادتی کی دعا کرنی چاہیے۔ جس شخص کی نعمت پر آپ کو حسد ہے، اس سے اپنی محبت کا اظہار کریں اور اسے ہدیے اور تحفے کی شکل میں کچھ عنایت کریں۔ یہاں بھی آپ کا نفس، آپ کو اس سے روک سکتا؛ تو آپ نفس کی نہ مانیں اور ان بھائی کے بارے میں سوچیں، جس کی پوزیشن آپ سے بھی خراب ہو۔ اگر یہ سب مشکل لگ رہا ہو؛ تو کم از کم جس نعمت پر آپ کو حسد ہو، اس کی کوئی تاویل و توجیہ کرکے، اپنے نفس کو سمجھائیں کہ اس چیز کی آپ کی نظر میں، کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر آپ نےاپنے نفس کو کنٹرول نہیں کیا ؛ تو آپ حسد کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس کا نفس حسد کا عادی ہو، اس کو چاہیے کہ "أستغفر الله ربّي من کلّ ذنب وأتوب إلیه" اور"الحمد لله" کثرت سے پڑھے۔
خاتمہ:
ہمیں حسد سے حتی المقدور اجتناب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ہم سب کی حسد اور حسد جیسے دوسرے امراض باطنیہ سے حفاظت فرمائے۔ حسد کی آگ ایسی آگ ہے، جو انسان کو اندر سے جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ اس مرض کا تعلق دل سے ہے؛ لہذا اس سے دل بھی خراب اور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب دل خراب ہوگا؛ تو پورا جسم خراب ہوجائے گا۔ اللہ کے رسولؐ کی حدیث ہے: "أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ." (۱۲) ترجمہ: "خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح رہتا ہے؛ تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے، اگر وہ خراب ہو؛ تو تمام جسم خراب ہوجاتا ہے۔ خبردار! وہ ٹکڑا دل ہے۔" ···
حوالے:
۱- الموسوعۃ الفقہیۃ 17/269
۲- الموسوعۃ الفقہیۃ 17/271
۳- احیاء العلوم 3/293-295
۴- سورہ نساء/54
۵- تفسیر عثمانی، سورہ نساء/54
۶- سورہ بقرہ/109
۷- معارف القرآن 1/288
۸- سنن أبي داود،كتاب الأدب، باب في الحسد، حدیث: 4903
۹- صحیح البخاري،كتاب الأدب ،باب ما ينهى عن التحاسد والتدابر،حدیث : 6065
۱۰- سورہ فلق/5
۱۱- احیاء العلوم 3/288
۱۲- صحیح البخاري، كتاب الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، حدیث: 52
٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
Head: Islamic Studies Department, Moon Rays Trust School, Zambia, Africa
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
No comments:
Post a Comment