Monday, August 21, 2023

شہنشاہِ خطابت حضرت مولانا محمد مطلوب الرحمن مظاہریؒ کی وفات

 

شہنشاہِ خطابت حضرت مولانا محمد مطلوب الرحمن مظاہریؒ کی وفات

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

 

چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ حضرت الاستاذ مولانا مطلوب الرحمن صاحب مظاہری مکیاوی –رحمۃ اللہ علیہ– کی طبیعت خراب ہےاور ان کو علاج کے لیے، بہار کی راجدھانی:  پٹنہ لے جایا گیا ہے۔ حضرت مولانا تقریبا 74  سال کے تھے۔ کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ آپ کسی بیماری سے دوچار  ہیں۔ اللہ تعالی نے حضرت کو بہت اچھی صحت وتندرستی سے نوازا تھا۔ آپ بڑے ہی تندرست وتوانا لگتے تھے۔ گذشتہ چند مہینوں سے آپ بیمار تھے۔ مگر ان کی صحت کچھ متاثر نہیں لگ رہی تھی۔ ہفتہ دس دن پہلے تک آپ اپنے مخصوص انداز میں اور پوری توانائی کے ساتھ، اسٹیج کی رونق بنا کرتے تھے۔ آپ کی وفات سے صرف گیارہ ایام قبل، "شمسی"، نیپال میں، ایک پروگرام تھا۔ آپ اس پروگرا م میں شریک رہے اور تقریبا دو گھنٹے تک تقریر کی۔ مگر جو اللہ پاک کو منظور ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے۔ چند دنوں قبل، آپ کی طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوئی۔ آپ کو پٹنہ کے "آئی جی ایم ایس اسپتال" میں داخل کرایا گیا۔ بروز: جمعرات، 3/ اگست 2023 کی شام کو، تقریبا ساڑھے تین بجے یہ خبر آئی کہ حضرت مولانا محمد مطلوب الرحمن صاحبؒ  کا وصال ہوگیا اور آپ اپنے ربّ کریم سے جا ملے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون!

 

حضرت مولانا محمد مطلوب الرحمن صاحب ؒ کا گاؤں: "مکیہ"، ہمارے گاؤں کے بالکل قریب ہے۔ ان دونوں گاؤں کے درمیان حد فاصل ایک دریا ہے۔ دریا کے جنوبی طرف حضرت کا گاؤں ہے اورشمالی جانب ہمارا گاؤں واقع ہے۔ہم نے اپنے بچپنے سےحضرت کی تقریر سنی۔ مولانا ہمارے علاقے اور خطے میں، ایک مشہور اور قابل احترام عالم اور خطیب کی حیثیث سے جانے جاتے تھے۔ یہ مشکل تھا کہ ہمارے خطے میں تقریر و خطابت کے حوالے سے کوئی تذکرہ ہو اور ان کا نام نہ لیا جائے۔ ایک وقت تھا کہ کسی دور دراز کے گاؤں سے جلسے میں شرکت کی دعوت آتی، آپ بغیر کسی تعب وتھکان کا اظہار کیے، سائیکل سےہی پہنچ جاتے۔جب  کسی جلسہ میں آپ کی آمد کی اطلاع ہوتی؛ تو لوگ آپ کا خطاب سننے کے لیے جوق در جوق وہاں پہنچتے۔ جب آپ خطاب فرماتے؛ تو سامعین پورے انہماک کے ساتھ، آپ کی تقریر سنتےتھے۔  حقیقت یہ ہے کہ آپ ہمارے علاقہ ہی نہیں؛ بلکہ بہار کے مشہور و معروف خطیب تھے۔ اِن دِنوں نہ صرف بہار؛ بلکہ ہندوستان کےمتعدد صوبوں سے جلسے میں شرکت کی آپ کو دعوت آتی اور آپ وہاں تشریف لے جاتے۔ آپ کسی پروگرام میں ہوتے؛ تو آپ کی موجودگی اس  پروگرام کے کامیابی کی ضمانت سمجھاجاتا۔ اللہ پاک نے آپ کی زبان میں بڑی چاشنی اور حلاوت رکھی تھی۔ آپ کی آواز بڑی بلند، گفتگو بہت صاف ستھری ہوتی تھی۔  آپ ایک قادر الکلام اور خوش گفتار مقرر تھے۔ آپ ایک عوامی مقرر تھے؛ اس لیے دوران تقریر عوامی زبان میں ہی ، عوام کی دینی واصلاحی ضرورتوں کی بات کہتے۔ آپ بلا تکلف علاقائی زبان استعمال کرتے تھے۔ جب ناظمِ جلسہ مائک آپ کے حوالے کرتا؛ تو سامعین میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی، جو بیدار ہوتا وہ سونے والے کو جگانے لگتا کہ بیدار ہوجاؤ،  اب مولانا مطلوب صاحبؒ کا خطاب شروع ہورہاہے۔ آپ منٹوں میں بڑے بڑے مجمع کو آسانی سے، اپنے انوکھے انداز سے اپنا گرویدہ  اور فریفتہ کرلیتے تھے۔ آپ مجمع پر چھاجاتے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو ایسی طبیعت اور مزاج عطا فرمایا تھا کہ آپ آسانی سے کسی بھی مجلس میں گھل مل جاتے۔ آپ لوگوں سے آسانی سے مانوس ہوجاتے اور انھیں مانوس کرلیتے تھے۔پھر اپنی طبعی ظرافت اور حاضر جوابی سے مجلس میں چھاجاتے  تھے۔

 

حضرت مولانا اپنی تقریر کا آغاز قرآنی آیت اور رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی احادیث مبارکہ سے کرتےتھے۔ زبان و بیان کو عوام کی فہم کے مطابق رکھتے اور خوبصورتی سے قرآنی آیت اور حدیث کی وضاحت کرتے۔ آپ کسی بھی پروگرام کو خطاب کر رہےہوں، آپ کے خطاب میں ظرافت کا رنگ بھرپور پایا جاتا۔ آپ اپنی تقریر میں واقعات وغیرہ کا بھی  ذکر کرتے۔ مگر وہ واقعات جیسے تیسے صرف سامعین کو ہنسانے کے لیے نہیں ہوتے؛ بلکہ حدیثوں کی روشنی میں، سبق آموز واقعے ہوتے۔ دوران تقریر، موقع و محل کی رعایت کرتے ہوئے، آپ اشعار اور نعت النبی بھی پڑھتے تھے۔ اللہ پاک نے آپ کو بڑی اچھی اور عمدہ آواز سے نوازا تھا۔ آپ کا حافظہ بھی قوی تھا۔ آپ کو بہت سی نعتیں اور نظمیں زبانی یاد تھیں۔ آپ تقریر کے دوران جس طرح ہر موضوع پر حدیثیں پڑھتے تھے، اس سے آسانی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے بہت سی حدیثیں زبانی یاد کر رکھی تھی۔ ہم نے آپ کے ایک شاگرد سے سنا کہ آپ حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ (1903 - 1975) کی کتاب: "مشکاۃ الآثار" پوری زبانی یاد کیے ہوئے تھے۔

 

ہم جس خطے اور علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں مختلف مسالک کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ مگر ہم نے کسی جلسے اور پروگرام میں، مولانامحترم کو  کسی مسلک کے لوگوں کے خلاف بولتے نہیں سنا۔ آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ علما کسی اسٹیج پر کھڑے ہوکر، عوام کے سامنے کسی دوسرے مسلک کے لوگوں کی پگڑیاں اچھالیں۔ آپ کے خطاب کا موضوع عام طور پر سماج میں پائے جانےوالے خرافات و بدعات اور رسم و رواج ہوتے تھے۔ اس حوالے سے آپ خوب بولتے تھے۔خواتین میں جو دین کے حوالے سے کمیاں پائی جاتی ہیں، آپ اس پر بھی گرفت کرتے اوراپنے خطاب میں جگہ دیتے۔ اس وقت آپ کا خطاب، خواتین کے انداز تکلم میں ہی ہوتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ گاؤں اور دیہات کی بہت سی غیر تعلیم یافتہ خواتین تک بھی قرآن وحدیث  کا پیغام آسانی سے پہنچ جاتا۔

 

حضرت مولانا کے والد جناب صادق حسین صاحبؒ (وفات: 1991) ایک کاشتکار تھے۔ اللہ تعالی نے ان کے دل میں علم و دین کی محبت ڈال رکھی تھی؛ چناں چہ انھوں نے اپنے فرزندوں کو دینی تعلیم کی طرف متوجہ کیا۔ اللہ پاک نے ان کے کسی فرزند کو حفظ قرآن کریم کی نعمت سے نوازا؛ تو کسی کو عالم، فاضل اور مشہور و معروف خطیب بنایا۔ انھیں فرزندوں میں سے ایک حضرت مولانا محمد مطلوب الرحمن صاحبؒ تھے۔ مولانا کی پیدائش 5/ مارچ 1950 کو، مکیہ،ضلع: مدھوبنی (بہار)میں ہوئی۔ مولانا کا رنگ صاف، قد متوسط، ناک کھڑی، سر کے بال گھنیرے، زلف جو گردن تک پہنچتے تھے (جسے عربی میں لِمَّة کہا جاتا ہے)، پیشانی کشادہ اور چوڑی، گھنیری لمبی داڑھی، آنکھیں فراخ اور اس پر بڑے فریم والا چشمہ، سر پر سفید دوپلی غیر معمولی کھڑی ٹوپی، جو بعد میں گول ٹوپی سے بدل گئی، نصف ساق تک لمبا کرتا، موسم سرما میں کرتے کے اوپر خوبصورت سا لمبا کورٹ جو ٹخنے سے قدرے اوپر اورکندھے پر عربی رومال۔ یہ تھا آپ کا سراپا۔

 

حضرت مولانا ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے، سن 1964ء میں، شمالی بہار کی مشہور دینی درس گاہ: جامعہ اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی میں داخل ہوئے۔ اشرف العلوم میں، آپ نے  مخدوم بہار حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، حضرت مولانا محمد طیب خان صاحب کماویؒ، حضرت مولانا نوازش کریم صاحبؒ، حضرت مولانا صابر حسین صاحب قاسمیؒ، فقیہ ملت حضرت مولانا زبیر احمد صاحب قاسمیؒ وغیرہم جیسے عبقری علما سے فارسی کی ابتدائی کتابوں سے عربی چہارم تک کی کتابیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ پھر آپ نے حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندویؒ (1923 - 1997) کی زیر نظامت چل رہے ادارہ: جامعہ عربیہ، ہتھورا، باندہ، یوپی میں داخلہ لیا۔ مختصر المعانی اور جلالین وغیرہ کی تعلیم آپ نے اس ادارہ میں حاصل کی۔

 

سن 1971 میں، حضرت مولانا نے ہندوستان کی عظیم دینی درس گاہ: جامعہ مظاہر علوم، سہارن پور، یوپی کا رخ کیا۔ آپ مظاہر علوم میں دو سال زیر تعلیم رہے۔ آپ نے مظاہر میں، حدیث کی کتابیں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنیؒ (1898 - 1982)، حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحبؒ (1929 - 2003)، حضرت مولانا محمد یونس صاحبؒ (1937 - 2017)، حضرت مولانا عاقل صاحب –حفظہ اللہ– وغیرہم جیسے علوم و فنون کے ماہر اساتذہ سے پڑھی اور تلمذ کا شرف حاصل کیا۔ سن 1973 میں، آپ نے مظاہر سے درسیات کی تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔

 

حضرت مولانا محمد مطلوب الرحمن صاحبؒ تزکیہ واحسان کی راہ طے کرنے کے لیے اپنے موقر استاذ، عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندویؒ کا انتخاب کیا اور ان سے بیعت ہوئے۔ آپ حضرت باندوی سے بہت محبت کرتے تھے۔ حضرت باندوی بھی آپ کو پسند کرتے تھے۔ آپ نے حضرت باندوی کے تعلق سے فرمایا کہ ایک بار "الہ آباد" میں، وہ  آپ کی تقریر سن کر، بہت خوش ہوئےاور انھوں نے نوے سال عمر کی دعا دی۔ پھر مولانا نے کہا کہ وہ بزرگ تھے۔ ان کا قول کوئی "وحی" نہیں ہے۔ میری طبیعت خراب چل رہی آپ حضرات میری صحت کے لیے دعا کریں! ان کی وفات کے بعد، آپ نے محی السنۃ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب حقی ہردوئی ؒ (1920 - 2005) سے رجوع فرمایا۔

 

حضرت مولانا محمد مطلوب صاحبؒ نے عملی زندگی کا آغاز"مدرسہ اسلامیہ"،  فتح پورکوٹ، یوپی سے کیا۔ یہ مدرسہ دار العلوم ندوۃ العلما، لکھنؤ کی شاخ تھی۔ اس مدرسے میں آپ مختصر القدوری وغیرہ کا درس دیتے تھے۔ علاقہ کا تبلیغی واصلاحی دورہ بھی کرتے تھے۔ آپ دینی واصلاحی پروگراموں میں تقریر کے لیے مدعو کیے جاتے تھے۔ شروع سے ہی عوام و خواص کے درمیان ایک مقبول خطیب کی حیثیت آپ کی شناخت بن گئی تھی۔ آپ کی تقریر بہت پسند کی جاتی تھی۔ اس مدرسے سے آپ چودہ سال تک منسلک رہے۔ پھر حضرت مولانا عبد الحنان صاحب بالاساتھویؒ (1934 - 2009)کی خواہش پر، ان کی زیر نگرانی چل رہے ادارہ: جامعہ اسلامیہ قاسمیہ، بالاساتھ، سیتامڑھی، بہار میں صدر المدرسین کی حیثیت سے وارد ہوئے۔ اس ادارہ میں تقریبا آٹھ سال  تک، آپ نے انتظامی وتدریسی خدمات انجام دی۔ اس دوران آپ نے ایک سال کے لیے "مشرق وسطی" کا بھی سفر کیا۔  جب خلیج جنگ شروع ہوئی اور امریکی قیادت میں، مختلف ممالک کے اتحاد نے 24/فروری 1991 کو "عراق" پر حملہ کیا، اس موقع سے آپ وطن واپس آگئے اور پھر دوبارہ جامعہ قاسمیہ سے وابستہ ہوگئے۔ جامعہ میں، ہدایہ ثانی، نور الانوار،شرح جامی، مرقات وغیرہ کا درس آپ سے متعلق رہا۔ آپ علاقے میں منعقد ہونے والے دینی واصلاحی پروگراموں میں، ایک خطیب کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔ اس سے جہاں صوبہ بہار میں آپ کی شناخت ہوئی، وہیں عوام کے درمیان جامعہ کا تعارف بھی ہوا۔

 

سن 1994 میں، حضرت مولانا جامعہ سے مستعفی ہوگئے۔ پھر  آپ نے اپنے قصبہ: "مکیہ" میں قائم مدرسہ مصباح العلوم کی باک  ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ یہ مدرسہ سن 1989ء میں قائم ہوا۔ آپ اس مدرسہ کے قیام کے بعد، اس کے صدر کے عہدے پر فائز کیے گئے تھے۔ جب آپ مصباح العلوم میں آئے؛ تو عربی اول، عربی دوم، عربی سوم اور عربی چہارم کی جماعتوں کے کچھ طلبہ نےمصباح العلوم میں داخلہ لیا۔ ان جماعتوں کی مختصر القدوری، کافیہ ابن حاجب،اصول الشاشی، شرح الوقایہ، شرح جامی  وغیرہ جیسی اہم کتابیں آپ سے متعلق تھیں۔ سن 1994 سے تا دم واپسیں، آپ  مصباح العلوم کے ناظم رہے۔اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرمائیں اور اپنے شایانِ شان بدلہ عطا فرمائیں!

 

حضرت مولانا کی شادی "حسن پور برہروا"، ضلع: سیتامڑھی کے جناب محمد صدیق صاحب کی صاحبزادی سے سن 1975 میں ہوئی۔ آپ نے اپنے پیچھے، اہلیہ محترمہ، تین صاحبزادیاں اور پانچ صاحبزادے چھوڑے ہیں۔ آپ کے صاحبزادگان میں محمد انور صاحب ممبئی میں مقیم ہیں اور کارو بار میں مشغول ہیں۔ حافظ محمد انظر صاحب مدرسہ مصباح العلوم، مکیہ میں مدرس ہیں۔ مولانا محمد سلمان سعودی عرب میں رہتےہیں۔ مولانا محمد عمران ندوی مدرسہ مصباح العلوم، مکیہ میں ہی درس وتدریس کے ساتھ ساتھ انتظامی امور بھی سنبھالتے ہیں۔ سب سے چھوٹے صاحبزادے حافظ محمد بلال ہیں۔آپ کے صاحبزادگان علما وحفاظ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی اولاد کو آپ کے لیے "ولد صالح "  کا مصداق بنائيں!

 

آپ کی نمازِ جنازہ میں، علاقے کے صاحب نسبت بزرگ، حضرت مولانا عبد المنان صاحب قاسمی –حفظہ اللہ– (ناظم: مدرسہ امدادیہ اشرفیہ، راجوپٹی، سیتامڑھی و خلیفہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ)، حضرت مولانا اظہار الحق صاحب مظاہری –دامت برکاتہم– (ناظم: جامعہ اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی)، حضرت مولانا اشتیاق صاحب اعظمی،حضرت مولانا شبلی صاحب قاسمی (قائم مقام ناظم: امارت شرعیہ، بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ) وغیرہم جیسے علما ومشائخ  کی ایک بڑی جماعت،مدارس ومکاتب کے طلبہ، قرب و جوار کی بستیوں کے لوگ اور آپ کے محبین و متعلقین نے شرکت کی۔ تقریبا دس ہزار لوگ جنازے میں شریک تھے۔ ایک گاؤں میں اتنے لوگوں کا جنازے میں جمع ہونا، لوگوں کی آپ سے محبت اور قلبی لگاؤ کی دلیل ہے۔ جنازے کی نماز، 4/ اگست کو بعد نماز جمعہ، آپ کے صاحبزادے مولانا محمد عمران صاحب ندوی نے پڑھائی۔ پھر گاؤں کے قبرستان میں، شہنشاہِ خطابت کو سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ پاک حضرتؒ کی بال بال مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائیں! ●●●●

No comments: