فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب کی تجویز
خورشید عالم داؤد قاسمی
مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
آج کل سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات اور مشرق وسطی میں "امن" کے قیام کے حوالے سے چرچا زور پر ہے۔ جب مشرق وسطی میں امن کی بات ہوگی؛ تو پھر کچھ سوالات ضرور ہوں گے۔ کیا مشرق وسطی میں امن نہیں ہے؟ کیا مشرق وسطی میں بدامنی پھیلی ہوئی ہے؟ اگر مشرق وسطی میں بدامنی ہے اور یقینا ہے؛ تو اس کا ذمےدار کون ہے؟ اس کی جواب دہی کس کے ذمے ہے؟ ہر باشعور شخص اس سے واقف ہے کہ اس بدامنی کا ذمے دار تنے تنہا ناجائز اسرائیلی ریاست ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جسے زبردستی فلسطین کی مبارک سرزمین پر،14/مئی سن 1948ء کو قائم کیا گیا۔ عرب اور مشرق وسطی پر زبردستی یہ ناجائز ریاست تھوپی گئی۔ اس غاصب ریاست کے قیام کے روز ِاول سے مشرق وسطی میں عام طور پر اور فلسطین میں خاص طور پر بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ مشرق وسطی میں ایک یہودی ریاست قائم کرکے، ایک منظم سازش کے تحت بدامنی پھیلائی گئی۔ اسرائیل نے سن 1948 سے معصوم فلسطینیوں کا خون بہانے، ان کو ہجرت پر مجبور کرنے اور ان کی زمین غصب کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ تاہنوز جاری ہے۔ اس غاصب ریاست نے جون 1967 میں، پورے فلسطین کو قبضہ کرلیا۔ مسجد اقصی میں اپنی ناپاک فوج اتاڑدی۔ آج ایک مسلمان آزادانہ طور پر مسجد اقصی میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ ممالک جنھوں نے فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کی پہلے دن سے مدد کی، ان میں سر فہرست امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ جیسے طاقتور ممالک ہیں۔ امن کی بات اس ناجائز ریاست کی طرف سے نہیں ہورہی جس کا دامن خون آلود ہے۔ یہ بات سعودی عرب، عرب لیگ، یورپی یونین، مصر، اردن وغیرہ کی طرف سے ہورہی ہے۔ ماضی میں بھی کچھ امن معاہدے ہوئے۔ مگر ان معاہدے سے فلسطین اور فلسطینیوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب مستقبل میں ہی پتہ چلے گا کہ سعودی اسرائیل تعلقات اور آج کل جو امن کی بات ہورہی ہے، ان سے فلسطین اور اس مبارک سرزمین کے شہریوں کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
ابھی حال ہی میں، نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کے موقع سے ، مشرق وسطی میں پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے، بروز: منگل 19/ ستمبر 2023 کو ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں عرب لیگ کے جنرل سیکریٹری احمد ابو الغیط، اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفدی، مصری وزیر خارجہ سامح حسن شکری سلیم، یورپی یونین کے مندوب برائے مشرق وسطی جوزف بوریل، دوسرے تقریبا ستّرممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں اور مختلف ممالک کے تقریبا پچاس مقررین نے شرکت کی۔ یہ اجلاس سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبد اللہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں، شہزادہ فیصل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مشرق وسطی میں امن اور فلسطین تنازع کے حوالے سے کہا: "ہمارا ملک تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کا معاملہ دوبارہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ہم نے فلسطین میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا ہے؛ تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے ہونے والی کوششوں کے ٹھوس نتائج سامنے آسکے۔ ہم دو ریاستی حل کے بارے میں بات چیت کو دوبارہ منظر عام پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔فلسطین اور اسرائیل تنازع کے حل کا واحد راستہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں مضمرہے۔ مسئلہ فلسطین کا حل خطے اور دنیا کے استحکام کا ذریعہ بنے گا۔ مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی حل اور بین الاقوامی حوالوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔"
امریکہ کی ثالثی میں، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کے سلسلے میں بات چیت چل رہی ہے۔ دونوں طرف سے پے در پے کچھ ایسے بیانات بھی آرہے ہیں کہ اب لگ رہا ہے کہ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بہت جلد قائم ہوجائیں گے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی نشریاتی ادارے "فوکس نیوز" سے 21/ ستمبر 2023 کو بات کرتے ہوئے کہا: "دوسرے خلیجی ممالک کی طرح ہی ہمارا ملک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ ہر روز، ہم قریب تر آتے جا رہے ہیں۔ سعودی مملکت فلسطینیوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مزید پیش رفت کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ہمارے لیے فلسطین کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔"
سعودی عرب کا قومی دن 23/ ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ ماضی کبھی بھی اسرائیلی حکومت نے یا اس کے نمائندے نے سعودی عرب کو قومی دن پرکوئی مبارکباد پیش نہیں کی۔ اس بار قومی دن کی مناسبت سے، اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے 23/ ستمبر کو سعودی عرب کو مبارکباد پیش کی۔ بیان میں کہا گیا کہ "ہم سعودی عرب کے 93 ویں قومی دن کے موقع پر، مملکت کے بادشاہ، حکومت اور عوام کو پرخلوص مبارکباد اور نیک دعائیں پیش کرتے ہیں۔ اللہ آپ کے لیے خیر اور برکتیں لے کر آئے۔ ہماری خواہش ہے کہ امن، تعاون اور اچھی ہمسائیگی کی فضا قائم رہے۔" اسرائیلی وزیر خارجہ نے اپنی ایک گفتگو کے دوران، 24/ستمبر 2023 کو یہ انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کس ساتھ ہی ایشیا اور افریقہ کے چھ سے سات ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس نے کچھ ایسے مسلم ممالک کے اہلکاروں سے ملاقات کی ہے،جن کے ممالک اوراسرائیل کے درمیان کوئی رسمی تعلق نہیں ہے۔
ابھی چند دنوں قبل، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی سیاحتی کانفرنس، سعودی کے دار الحکومت: ریاض میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے اسرائیلی وزیر سیاحت، ہائیم کاتس اپنے ایک اعلانیہ دورے پر، اعلی سطح کے وفد کے ہمراہ، بروز: منگل، 26/ستمبر 2023 کو، ریاض پہنچے۔ کسی بھی اسرائیلی سرکاری عہدیدار کا سعودی عرب کا یہ پہلا اعلانیہ دورہ ہے۔ اپنی روانگی سے قبل وزیر سیاحت نے کہا کہ وہ ریاض میں موجودگی کے دوران، کانفرنس میں شریک ممالک کے ہم منصبوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے، جن میں عرب اور مشرق وسطیٰ کے وزراء اور عہدیداران بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب اور اسرائیل کی طرف سے حالیہ دنوں میں، اعلانیہ طور پر اٹھائے گئے دو طرفہ اقدامات سے، عام لوگوں کو اب یقین ہونے لگا ہے کہ متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش وغیرہ کی طرح "معاہدۂ ابراہیم" کے تحت، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان بھی بہت جلد سفارتی تعلقات قائم ہوجائیں گے۔ کل ہی کی بات ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی سرکاری رہائش گاہ، قصر ابیض کی طرف سے 29/ ستمبر کی رات کو بتایا گیا کہ صدر بائیڈن کو امید ہے کہ مشرق وسطی کا خطہ ایک بڑی تبدیلی کی جانب رواں ہے۔ پھر 30/ ستمبر کو امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نےوائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا کہ "میری رائے میں تمام فریقوں نے ایک ایسی بنیادی فریم ورک ڈیل طے کرلی ہے، جس پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔"
یہ تو کہانی کا ایک رخ ہے، جہاں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی قربت اور سفارتی تعلقات قائم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس میں سعودی عرب کی طرف سے فلسطین کی آزادی اور مشرق وسطی میں امن کی بات بھی کی جارہی ہے۔ اب دوسرے رخ کی طرف بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو، ابھی جس حکومت کی قیادت کررہے ہیں، وہ انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہے۔ یہ حکومت مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں، متنازعہ بستیوں کی تعمیر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہر دن مغربی کنارے میں اسرائیلی حکومت کی طرف سے نئی عمارتیں بنائی جارہی ہیں۔ ہر روز معصوم فلسطینوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ بروز: جمعرات، 21/ستمبر کو ہی فلسطینی حکام کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے اور غزہ پٹی میں بدامنی کے نئے واقعات اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں چھ فلسطینی مارے گئے ہیں۔ فلسطینی خود مختار انتظامیہ کے محکمہ صحت کے حکام نے ان تازہ ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے ۔ یہ نئی ہلاکتیں تشدد کے اس سلسلے کی تازہ کڑی ہیں، جس نے گذشتہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے اس خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی دستوں نے ویسٹ بینک کے شمالی حصے میں جنین کے مہاجر کیمپ میں جو دہشت گردانہ کاروائی کی، اس میں چار افراد ہلاک اور تیس دیگر زخمی ہو ئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے مہاجر کیمپ میں بھی ایک فلسطینی کا قتل کیا گیا ہے۔ صرف گذشتہ مہینہ: ستمبر میں 4492 یہودی آبادکاروں نے مسجد اقصی پر دھاوا بولا اور قابض حکومت اور فوج کی حمایت سے انھوں نے تلمودی رسومات ادا کیے۔
اسی سلسلے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے 26/ ستمبر 2023 کو، نائف بن بندر السدیری کو سعودی سفیر برائے فلسطین مقرر کیا ہے۔ انھوں نے ایک وفد کے ہمراہ فلسطین کا دورہ بھی کیا۔ مگر اسرائیل نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بیت المقدس میں، نائف بن بندر کو دفتر کی جگہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ سعودی سفیر نمائندوں سے ملنے آسکتے ہیں، مگر اپنا دفتر نہیں بناسکتے۔ چناں چہ نائف بن بندر اردن میں واقع اپنے دفتر سے ہی فلسطین کے سفارتی معاملات دیکھیں گے۔ واضح رہے کہ نائف سعودی عرب کے سفیر برائے اردن بھی ہیں۔
ایسی صورت حال میں، اگر سعودی اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوجاتے ہیں؛ تو کیا سعودی عرب، اپنی قیادت میں، ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کروانے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطین کو ایک مستقل ریاست تسلیم کرنےیا مشرق وسطی میں امن کے حوالے سے کوئی مثبت بات اعلانیہ طور پر نہیں آرہی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے سعودی عرب کے ساتھ صرف ہمسائیگی کا حوالہ دے کر، تعلقات اور معاہدے کی بات کی جارہی ہے؛ جب کہ سعودی عرب اپنے اسرائیلی تعلقات کے ساتھ ساتھ، فلسطین کو ایک مستقل ریاست، مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دار الخلافہ، اسرائیل کو5-10 جون 1967 کی جنگ سے پہلے والی حدود میں واپس جانے اور مشرق وسطی میں امن کی بات کا بار بار ذکر کررہا ہے۔ چند دنون قبل، 29/ ستمبر کو سعودی عرب کی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت ولی عہد، محمد بن سلمان نے کی۔ اس اجلاس میں بھی سعودی کابینہ نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ اسرائیل کو چار جون 1967 کی حدود میں جانے کا عہد کرنا ہوگا۔ کابینہ نے اپنے متفقہ فیصلے میں یہ بھی واضح کیا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر، مشرق وسطیٰ میں امن ممکن نہیں ہے۔ سعودی عرب کے مطالبے کا واحد مقصد فلسطینی عوام کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ کابینہ نے مطالبہ کیا کہ "مشرقی بیت المقدس" کو ہی فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے گا۔ اگر اسرائیل اسے منظور کرلیتا ہے؛ تو سن 1948 کی جنگ میں اسرائیل نے اصل فلسطین کے جس 78 فی صد حصے کو قبضہ کیا تھا، وہ اس کا حقدار ہوجائے گا اور اصل فلسطین کا جو بائیس فی صد علاقہ باقی تھا، جسے اسرائیل نے سن 1967 کی عرب اسرائيل جنگ میں قبضہ کیا تھا، وہ حصہ فلسطین کوواپس مل جائےگا۔ پھر اس بائیس فیصد علاقے پر، فلسطین کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم ہوسکے گی۔
سعودی عرب کی طرف سے فلسطین کے حوالے سے جو تجویز پیش کی جارہی ، وہ کوئی نئی تجویز نہیں ہے۔ سن 2002 میں، "عرب امن منصوبہ" یا "سعودی عرب امن منصوبہ" کے تحت، عرب لیگ کے ارکان ممالک نے یہ طے کیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اسی صورت میں قائم کیےجائیں گے، جب اسرائیل اس امن منصوبہ کو قبول کرلے۔ اس امن منصوبہ میں، عرب لیگ نے اسرائیل سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ فلسطین کے ان تمام مقبوضہ علاقوں کو خالی کرے جن پر اس نے 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائيل جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ اس منصوبہ میں، یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل ان علاقوں پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنے پر راضی ہوجائے اور اس کا دار الخلافۃ "مشرقی بیت المقدس" ہوگا۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان، امریکی ثالثی میں جوگفت و شنید اور مذاکرات ہورہے ہیں، اس میں سعودی عرب فلسطین کو فراموش نہیں کررہا ہے۔ وہ اپنے تعلقات کے ساتھ ساتھ، فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرانے کے لیے کوشاں ہے؛ جب کہ ماضی قریب میں جن دوسرے عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیےہیں، انھوں نے فلسطین کو بالکل ہی فراموش کردیا؛ اس لیے سعودی کی طرف سے جو تجویز آرہی ہے، وہ قابل قدر ہے۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا یہ تجویز جو محمد بن سلمان اور اس کی کابینہ نے پیش کیا ہے، اگر منظور ہوجاتی ہے؛ تو کیا اسے فلسطینی عوام اور"حماس" کے قائدین قبول کریں گے؟ یہ سوال اس لیے جنم لے رہا ہے کہ فلسطین کے حوالے سے تین نظریات پائے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک دو ریاستی حل چاہتے ہیں۔ دو ریاستی حل کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی طرح فلسطین کو بھی، 4/ جون 1967 والی سرحد اور حدود وصغور کے ساتھ ایک مستقل آزاد ریاست تسلیم کیا جائے۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ صرف اسرائیل نام کی ایک ریاست باقی رہے، فلسطین کو بالکل صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ یہ نظریہ ان لوگوں اور ممالک کا ہے، جو یہودی نواز اور صہیونی خیال ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ اسی نظریہ کا مؤید تھا۔تیسرا نظریہ یہ ہے کہ صرف فلسطین نام کی ایک آزاد ریاست ہونی چاہیے۔ اسرائیل ایک ناجائز،غیر قانونی اور غاصب ریاست ہے۔ یہودیوں کو عرب کی سرزمین پر، اپنا یہودی ملک قائم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے؛ لہذا ہر وہ یہودی جو 1948 کے بعد، یہودی ہونے کی حیثیت سے دوسرے ممالک سے ہجرت کرکے، لاکھوں کی تعداد میں،قابض اسرائیل کی شہریت اختیار کی ہے، انھیں اپنے اپنے وطن واپس جانا چاہیے۔ اسرائیل نے سن 1948 سے آج تک جو کچھ فلسطین کی مبارک سرزمین پر کیا، وہ چوری، غصب اور ظلم وبربریت کی بدترین مثال ہے۔ اس نظریہ کا حامی ہر انصاف پسند، حق گو، منصف مزاج اہل قلم، مورخین و مفکرین اور فلسطین کے اصل باشندے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر حکمرانی کررہی جماعت، "حماس" بھی اسی نظریہ کی حامی ہے۔ اسی لیے یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ اگر سعودی کابینہ کی تجویز منظور ہوجاتی ہے؛ تو کیا فلسطینی عوام اور"حماس" کے قائدین اسے قبول کریں گے؟
فلسطین کے حوالے سے سابق امریکی صدر ٹرمپ نے "صدی کی ڈیل" کے تحت جو تجویز پیش کی تھی اور جس طرح کھلے عام ناجائز اسرائیلی ریاست کی حمایت کی تھی، شاید اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس صدی کی ڈیل کا مطلب ہی تھا کہ فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ ٹرمپ کا دوسرا منصوبہ "ابراہم اکورڈ" یا "ابراہیمی معاہدہ" تھا۔ اس کے بعد فلسطین کے حوالے حالات مزید بدتر ہونے لگےاور جدھر بھی دیکھا جائے، ادھر منفی پہلو ہی غالب نظر آرہا ہے۔"ابراہم اکورڈ" کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش وغیرہ نے اسرائیل کے ساتھ کھلے عام سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ان ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرتے وقت، فلسطین کے مستقبل کے بارے میں، ایک جملہ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا۔ کچھ مسلم ممالک کے پہلے سے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ اب وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، وہ شاید اندر اندر گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے گھٹن محسوس کرنے کی وجہ مبینہ طور پر یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے ٹیکنالوجی کے میدان میں، بڑھتے قدم سے فائدے نہیں اٹھا پارہے ہیں۔ وہ ممالک چاہ کر بھی اسرائیل سے اسلحے نہیں خریدسکتے ہیں۔ کچھ ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے بدلے میں، امریکہ سے سلامتی کے شعبے میں، کچھ مخصوص ضمانتوں کے خواہش مند ہیں۔ ان مختلف اغراض و مقاصد کے تحت، کچھ مسلم ممالک اسرائیل سے خفیہ طور پر تعلقات بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچھ ممالک اپنے تعلقات کے ساتھ ساتھ، فلسطین کے بارے میں بھی بات چیت کرتے رہے ہیں، جس میں سرفہرست سعودی عرب ہے۔ ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اگر سعودی عرب والی تجویز منظور کرلی جاتی ہے؛ تو فلسطینی عوام اور "حماس" وغیرہ کو فی الحال اسے قبول کرلینا چاہیے۔●●●●
٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
No comments:
Post a Comment