Monday, May 8, 2017

خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کی آمد



سرزمین زامبیا پر خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کی آمد
اور
 تقریب ختم بخاری شریف

از: خورشید عالم داؤد قاسمی*

ہندوستان کے ممتاز،نامی گرامی اور شہرت یافتہ عالم دین اور ہزاروں دینی وعصری مکاتب ومدارس اور اسکولس وکالجز کے بانی: خادم القرآن والمساجدحضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب –حفظہ اللہ ورعاہ– نے 9 تا 18/فروری 2017 تک زامبیا کے دورےپر تھے۔ آپ زامبیا کے تعلیمی اور رفاہی ادارہ: "مون ریز ٹرسٹ" کے تحت چل رہے "شعبہ عالمیت" کی تقریب ختم بخاری اور جلسہ دستاربندی، بہ روز: سنیچر، بہ تاریخ: 11/فروری 2017ء، بہ مطابق: 13/جمادی الاولی 1438ھ، کے لیے "ٹرسٹ" کی دعوت پر تشریف لائے تھے۔  ٹرسٹ کا شعبہ عالمیت  سن 2011 میں قائم ہوا ۔سن 2016 عیسوی کے اختتام پر، اس شعبہ سے دورۂ حدیث شریف مکمل کرنے والی  پہلی جماعت نے اپنی رسمی تعلیم سے فراغت حاصل کی اور حضرت سے بخاری شریف کی آخری  حدیث کا درس اور ان کے ہاتھوں سے دستار بندی کی سعادت سے سرفراز ہوئے،  فللہ الحمد والمنّۃ۔ بہت سے لوگ حضرت مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کی مصروفیات سے واقف ہیں؛ مگر ان مصروفیات ومشغولیات کےباوجود بھی حضرت نے دعوت قبول کرکے ٹرسٹ کے ذمے داران اور طلبہ واساتذہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ ان کی اس آمد پر، ہم عمیق قلب سے ان کے شکرگزار ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جزاہ اللہ احسن الجزاء!

حضرت مولانا وستانوی صاحب دامت برکاتہم– کی تشریف آوری کا پروگرام 9/فروری 2017کو، "ایتھوپیا ائر لائنس" سے طے ہوا۔ مولانا 9/فروری کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے، مذکورہ ائرلائنس سے زامبیا کی دارالحکومت "لوساکا" (Lusaka) تشریف لائے۔ آپ کے استقبال میں ٹرسٹ کے ڈپٹی چیرمین: جناب نجمل پٹیل صاحب، حضرت مولانا عبد الرشید راوت صاحب اور جناب عبد المجید صاحب اپنے رفقاء  کرام کے ساتھ، لوساکا طیران گاہ پر موجود تھے۔  جوں ہی آپ فلائٹ سے باہر آئے،  موجود حضرات نے آپ کا بڑی خوشی ومسرت  کے ساتھ والہانہ استقبال کیا اور امیگریشن (Immigration)  کی کاروائی مکمل ہونے کے بعد،آپ کو لے کر جناب عبد المجید صاحب کے گھر پہونچے۔  جناب عبد المجید صاحب بڑے خوش قسمت ہیں کہ مولانا وستانوی صاحب جب بھی زامبیا تشریف لاتے ہیں؛ تو ان کے ہی دولت خانے پرتشریف رکھنے کو ترجیح دیتے  ہیں۔پھرانھوں نے اگلے دن (10/فروری 2017ء کو)، زامبیا کے معمر عالم دین اور سیکڑوں علماء کے استاذ ومربی حضرت مولانا صدیق صاحب –دامت برکاتہم اور جناب مولانا محمد –سلمہ اللہ– بن جناب عبد المجید صاحب کی معیت میں، ڈومیسٹک ایرلائن (Domestic Airline) سے کساما(Kasama)  کے لیے روانہ ہوئے۔ پھر کساما سے مپلنگو (Mpulungu)  بذریعے کار آنا ہوا۔ مپلنگو سےکساما 208؛ جب کہ  لوساکا سے 1060کلو میٹرس کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٹرسٹ کے تحت چل رہے ادارے: نرسری تا سینئر سکنڈری بوائز اسکول، نرسری تا سینئر سکنڈری گرلز اسکول، شعبہ عالمیت وغیرہ اسی شہر  مپلنگو میں قائم ہیں۔

حضرت مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کے استقبال کے لیے، کساما ڈومیسٹک ایرپورٹ پر، ٹرسٹ کا 9/ رکنی وفد، ٹرسٹ کے چیرمین: جناب شیخ شاہد متالا صاحب –حفظہ اللہ– کی قیادت میں موجود تھا۔ اس وفد کا ایک رکن راقم الحروف بھی تھا۔ مولانا دوپہر میں، 2/بج کر 15/منٹ پر کساما ایرپورٹ پر فلائٹ سے پہنچے۔ اراکینِ وفد نے مولانا کا زوردار استقبال کیا اور ان کو لے کر،کساما میں ٹرسٹ کے تحت چل رہی مسجد ومکتب میں آئے۔ وہاں پہنچتے ہی سب نے مولانا کی معیت میں، دوپہر کا کھانا تناول فرمایا۔ پھر آپ نے نماز ادا کی اور وہاں سے سب لوگ کار سے مپلنگو کے لیے روانہ ہوئے۔

مون ریز ٹرسٹ کے تحت چل رہے مکاتب ومساجد کے ہیڈ: قاری افضل صاحب نے کساما میں، حضرت مولانا وستانوی صاحب –مدظلہ العالی– سے یہ درخواست کی کہ یہاں سے جاتے ہوئے 32/کلو میٹرس کے فاصلے پر "سیلوکا" نامی ایک گاؤں ہے، جہاں لب سڑک مون ریز کا ایک مکتب ہے؛ ہم سب نمازِ عصر اسی گاؤں میں ادا کریں ؛ چناں چہ ایسا ہی ہوااور سب لوگ حضرت کی معیت میں، عصر سے کچھ پہلے "سیلوکا" پہنچے۔ اس وقت طلبہ وطالبات مکتب میں پڑھ رہے تھے۔ پہنچتے ہی حضرت نے چند طلبہ سے کلمہ وغیرہ سنا اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ پھر لوگوں نےعصر کی نماز ادا کی اور  مپلنگو کا رخ کیا۔ مغرب کی نماز کے وقت، سب لوگ مپلنگو پہنچے اور  "گریٹ لیک لوج" (Great Lake Lodge) میں، حضرت کو لے کر گئے، جہاں ان کے اور دوسرے مہمانان کرام کے قیام کا انتظام تھا۔ مسجد دور ہونے کی وجہ سے،لوج میں ہی نماز وغیرہ کا انتظام کیا تھا۔ عشاء اور مغرب کی نماز اور عَشائیہ سے فراغت کےبعد، حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی شولاپوری –حفظہ اللہ–، صدر: جمعیت علماء، شولاپور نے یہ اطلاع دی کہ ہم سب فجر کی نماز اسی لوج میں ادا کریں گے اور فجر بعد حضرت کی مجلس بھی ہوگی۔ واضح رہے کہ مولانا شولاپوری نے مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا میں کئی سالوں تک تعلیم حاصل کی، پھر سن 2002ء میں،  ایشیاء کی عظیم دینی درس گاہ : ازہر ہنددارالعلوم، دیوبند سے سند فضیلت حاصل کیااور ان دنوں مون ریز میں بحیثیت مہمان مقیم ہیں۔ مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ–، مولانا شولاپوری سے بڑی محبت کرتے ہیں۔

فجر کی نماز کے وقت، نمازکے لیے علماء وعوام کی جماعت وہاں موجود تھی۔ نماز کے بعد، حضرت نے بڑی میٹھی اور پیاری آواز میں فرمایا: "جن لوگوں کو(کسی شیخ سے) ذکر کی اجازت ہے، وہ ذکر میں مشغول ہوجائیں اور باقی لوگ تسبیح پڑھیں!" پھر حاضرین ذکر واذکار اور تسبیح وتہلیل میں مشغول ہوگئے۔  یہ سلسہ تقریبا 20/منٹ تک چلتا رہا۔ مجلس کے بعد، حضرت نے "درود تنجینا" کے ساتھ دعا کیا۔ مجلس کا منظر دیدنی تھا۔ اللہ تعالی حضرت کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے! آمین!

بہ روز: سنیچر، 11/فروری 2017 کو، تقریبا 9/بج کر 30/منٹ پر، حضرت مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کی صدارت میں، "جلسہ " کا افتتاح ہوا۔ طلبۂ کرام نے بڑی سلیقہ مندی سےپروگرام پیش کیا۔ طلبہ کے پروگرام کے بعد، مولانا محمد صاحب ، مون ریز ٹرسٹ کے ٹرسٹی: محترمی مولانا عبد الرشید راوت صاحب –دامت برکاتہم– وغیرہم نے حاضرین کے سامنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ اخیر میں، حضرت نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس "حدیث المسلسل بالأولیة"  سے شروع فرمایا۔ پھر حدیث پر کلام کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

"یہ حدیث صحیح بخاری شریف کی کتاب التوحید کا آخری باب ہے۔ اس عنوان کو آخر میں لاکر امام بخاری کی غرض کیا ہے؟ (1) منکرینِ وزنِ اعمال کی تردید۔ (2) قارئ کتاب اور حاضرین کو اس بات کی تلقین ہے کہ آخرت میں وزنِ اعمال واقوال ہوں گے؛ اس لیے اپنے اپنے اعمال بڑھانے کی فکر کریں! (3) جس کے اعمال بھاری ہوں گے، وہ فائزالمرام اور کام یاب ہوگا اور جس کے سیئات بھاری ہوں گے وہ خائب وخاسر ہوگا۔"

مزید آپ نے فرمایا: "ہمارے استاذ حضرت مولانا ذوالفقاراحمد  صاحب –رحمہ اللہ– ہماری (جامعہ اکل کواکی) ایک شاخ : "جامعہ عمر بن خطاب، کنج کھیڑا" میں پہلی مرتبہ ختم بخاری شریف بڑی آن بان سے فرمایا۔ اس میں حضرت والا نے "مدارج النبوۃ" نامی کتاب کے حوالے سے ایک وظیفہ حاضرین کے لیے ارشاد فرمایا تھا۔ وہ میں آپ کو بتلا رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص نمازِ فجر کی سنت اور فرض کے درمیان،اوّل اور آخر درود شریف پڑھ کر 101/مرتبہ "سبحا ن اللہ و بحمدہ، سبحان اللہ العظیم" پڑھے؛ تو اللہ تعالی رزق کے دروازے کشادہ کردیتے ہیں کہ کبھی بھی رزق کی تنگی نہیں ہوگی۔"

آپ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئےطلبہ سے یہ بھی فرمایا کہ آپ امام بخاری (رحمہ اللہ) کی سیرت وسوانح کا مطالعہ ضرور کریں۔ ان کی زندگی سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ سامعین تک آپ کا پیغام پہونچانے کے لیے محترم مولانا محمد صاحب نےآپ کی تقریر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔

بخاری شریف کے درس کے اختتام پر، مولانا وستانوی صاحب  –حفظہ اللہ– نے اپنی دونوں  سندسے طلبہ کرام کو، حدیث کی اجازت بھی دی ـــــــ واضح رہے کہ حضرت مولانا وستانوی صاحب نے دورہ حدیث شریف کی تکمیل اوّلا فلاح دارین، ترکیسر، گجرات  اور ثانیا جامعہ مظاہر علوم، سہارن پور، سے کی ہے۔ حضرت  نے فلاح دارین میں بخاری شریف شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد،حضرت مولانا مفتی احمد بیمات صاحب (رحمہما اللہ)  سے پڑھی ہے؛ جب کہ مظاہر علوم میں، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب  (رحمہ اللہ) کے شاگرد رشید: حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری –حفظہ اللہ– سے پڑھی ہےـــــــ اس کے بعد، مولانا  کے ہاتھوں طلبہ کو "عالمیت کی سند" تفویض کی گئی۔ پھر مولانا وستانوی صاحب اور اسٹیج پر موجود علماء کرام نے ان طلبہ کی دستاربندی کی۔ اللہ تعالی سے دعا  ہے وہ پاک ذات ہم سب کو عالم باعمل بنائے! آمین!

رات کے کھانے کے بعد، یہ  طے ہوا کہ کل فجر کی نماز ٹرسٹ کے تحت چل رہے مون ریز ٹرسٹ اسکول کی "مرکز مسجد" میں ادا کی جائے؛ چناں چہ فجر کے وقت  حضرت مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کو اسکول کی مرکزمسجد لے جایا گیا، جو مولانا کی قیام گاہ: "گریٹ لیک لوج"  سے تقریبا 3/کلو میٹرس کی دوری پر ہے۔ مسجد میں فجر کی نماز اور ذکر کے بعد، مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی نے حضرت سے درخواست کی کہ  ان طلبہ کو ذکر کی فضیلت کے حوالے سے کچھ نصیحت کردیں! مولانا شولاپوری یہ سوچ رہے تھے کہ مولانا اردو  زبان میں کچھ نصیحت فرمائیں گے اور وہ ان کی نصیحت کا ترجمہ طلبہ کو انگریزی میں کردیں گے؛ تا کہ وہ حضرت کی بات سمجھ سکیں؛ کیوں یہ طلبہ اردو سے بالکل ناواقف ہیں۔ مگر اس وقت مولانا شولاپوری اور حاضرین کے تعجب کی انتہا نہیں رہی، جب انھوں دیکھا کہ مولانا نے طلبہ کو انگریزی میں خطاب کرنا شروع  کیااور جب تک بولے انگریزی زبان کا ہی استعمال کیا۔ اس مختصر نصیحت کے بعد،  تفریح کے لیے چند احباب کی معیت میں تشریف لے گئے۔

حضرت مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– مسجد سےنماز وذکر اور تفریح  سے واپس آنے کےبعد، ناشتہ تناول کرکے، مون ریز ٹرسٹ کے چیرمین: شیخ شاہد متالا صاحب  –حفظہ اللہ– کے گھر  تشریف لے گئے؛ جہاں ان کو  ہندوستانی مستورات کو خطاب کرنا تھا۔ اس کےبعد، مون ریز ٹرسٹ اسکول، شعبہ اسلامک اسٹڈیز  اور شعبہ عالمیت وغیرہ کے ہیڈوں کے ساتھ مختصر میٹنگ رکھی گئی تھی؛ جس میں ہیڈوں نے اپنے اپنے شعبہ کی مختصر رپورٹ پیش کی۔ اس میٹنگ میں بھی حضرت نےانگریزی زبان میں اپنی رائے اور مشورے پیش کیے اور پھر میٹنگ کے آخری مرحلہ میں انگریزی میں ہی ہیڈوں سے خطاب کیا۔ اسی میٹنگ کے دوران، حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی نے حضرت کے جامعہ اکل کوا کی تعارفی  ویڈیو  جو کہ انگریزی زبان میں ہے، اسے پروجیکٹر پر پلے کیا، جسے دیکھ کر حاضرین نے مولانا کی بیش بہا خدمات پر شکریہ ادا کیا اور ان کے عظیم کارناموں کو سراہا۔

مکاتب کے ہیڈ: جناب قاری افضل صاحب  نے یہ پروگرام بنایا تھا کہ حضرت مولانا وستانوی صاحب  –حفظہ اللہ– کو مپلنگو سے تقریبا 3/کلو میٹرس کی دوری پر،تنگانیکا جھیل (Tanganyika Lake) میں واقع ، ایک چھوٹا ساجزیرہ: "کروکوڈائل" (Crocodile Island)  میں، ٹرسٹ کے تحت چل رہے مکتب کی زیارت کے لیے بوٹ (Boat)  سے لے جایا جائے۔ وہاں پہنچ کر حضرت دعا کردیں گے اور  قدرے تفریح بھی ہوجائے گی؛ چناں چہ صبح کی میٹنگ کے اختام پر، صلاۃ الظہر اور ظہرانہ وغیرہ سے فارغ ہوکر،  مولانا نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ پھر پروگرام کے مطابق، مولانا ٹرسٹ کے ٹرسٹیز،  مختلف شعبے کے ہیڈوں اور شہر کی چند معزز شخصیات کی معیت میں، قبیل صلاۃ العصر، بذریعے بوٹ (کشتی) جزیرہ کروکوڈائل تشریف لے گئے۔  وہاں پہنچتے ہی پہلے سب لوگوں نے، باجماعت عصر کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد حضرت نے دعا کرایا اور موجود مقامی لوگوں کو نماز کی ترغیب دی اور ان سے پابندی سے نماز پڑھنے کا وعدہ کرایا۔ پھر مسجد کی تعمیر کے بارے میں استفسار کیا اور ساتھ ہی ساتھ فرمایا کہ اس جگہ جو مسجد تعمیر ہوگی اس کا نام : "مسجدِ رحمان" رکھیں!اس کےبعد، حضرت نے مکتب کے چند موجود بچوں سے کلمہ وغیرہ سن کر بڑی خوشی کا اظہار کیا۔

حضرت مولانا وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کی معیت میں، سارے احباب واپسی کے لیے بوٹ پر سوار ہوئے۔ یہ وقت قبیل المغرب کا تھا۔ بوٹ میں ہی دو بار جماعت کی گئی اور سب لوگوں نے نماز ادا کی۔ مولانانے پہلی جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ موسم بہت ہی صاف تھا۔ سب لوگ اس تفریحی سفر سے لطف اندوز ہو رہےتھے ۔ جب بوٹ چلنی شروع ہوئی، اسی وقت حضرت نے میرا ہاتھ پکڑ کر کچھ سوالات کیے۔ پھر اس کے بعد،مستقل میں آپ کے سامنے بیٹھا رہا اور مختلف موضوع پر، بات چیت ہوتی رہی۔ نماز کا وقت ہوا؛ تو ہم لوگوں نے نماز ادا کی۔ اس کے بعد، پھر میں مولانا کے سامنے بیٹھ گیا اور حضرت کی گفتگو پھر شروع ہوئی۔ اس گفتگو سے میرے لیے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہا کہ حضرت کی نگاہ بلند، سخن دلنواز، فکر اونچی، حوصلہ  بلند  اور اپنے قول وعمل میں مخلص ہیں۔

وہاں سے واپسی کے بعد، نماز وغیرہ کے ادائیگی سے فارغ ہوکر، حضرت نے آرام فرمایا اور 13/فروری 2017 کی صبح کو، مون ریز کے چیرمین: شیخ شاہدمتالا کی قیادت میں، ایک 8/رکنی وفد آپ کو کساما اپرپورٹ تک رخصت کرنے گیا۔ فلائٹ اپنے وقت مقررہ پر پہنچی اور 10/بج کر 35 منٹ پر آپ اپنے رفقاءِ سفر حضرت مولانا صدیق صاحب  اور مولانا محمد صاحب –حفظہما اللہ– کے ساتھ لوساکا کے لیے رخصت ہوگئے۔
مولانا سے جو میری گفتگو ہوئی اس خلاصہ پیش خدمت ہے:

طلبہ کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں! میں ہر روز مغرب بعدشعبہ دینیات کے سامنے جاکر بیٹھتا ہوں اور چھوٹے چھوٹے بچے میرے سامنے کھیلتے رہتے ہیں۔ ان کو مجھ سے کوئی ڈر نہیں لگتا؛ بل کہ ان کو معلوم ہے کہ حضرت مجھے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو مجھ سے ملنا ہو،چاہے وہ ہمارے کسی کالج کے ہی طلبہ کیوں نہ ہو، ان کو دینیات میں آنا ہوتا ہے۔

بندہ راقم الحروف نے حضرت کے سامنے ڈاکٹر قاضی ظہیر صاحب، صدر: انجمن اسلام، ممبئی کا جملہ نقل کیاکہ انھوں نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ آپ کو اگر نوبل پرائز بھی دیا جائے؛ تو آپ کی خدمات کے مقابلے میں کم ہوگا ۔ اس پر حضرت نے  مسکراتے ہوئے فرمایا: بیٹے! اس دنیا کی کیا حقیقت ہے! اپنے کو تو جنت پرائز چاہیے اور بس!

حضرت نے فرمایا: انسان کو خوشامدی طبیعت نہیں ہونا چاہیے۔ جامعہ (اکل کوا) میں اتنے اساتذہ ہیں؛ لیکن میں کسی کو نہیں کہتا کہ آپ میرے سامنے حاضری دیتے رہیں! میں تو چاہتا ہوں کہ بس کام ہوتا رہے۔

حضرت نے فرمایا: "کام کروانا" ایک بڑی صفت ہے۔ جہاں تک کام کرنے کی بات ہے؛ تو کام تو گدہا بھی کرتا ہے؛ لہذا انسان کو اپنے اندر کام کروانے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔

حضرت نے دارالعلوم، دیوبند کے اہتمام سے متعلق فرمایا کہ : میڈیا والے ہم سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ کورٹ جائیں گے؟ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم، دیوبند کے خلاف میں کبھی کورٹ نہیں جاسکتا۔

جس وقت حضرت نے اس راقم الحروف کا تعارف معلوم کیا، اس وقت جب بندہ  نے اپنا تعارف کراتے ہوئےبتایا کہ میرا تعلق "سیتامڑھی، بہار" سے ہے اور میں نے ابتدائی تعلیم اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی  سے حاصل کی ہے؛ تو حضرت نے بہار کی اس بافیض دینی درس گاہ: اشرف العلوم کی تعریف کی اور ادارہ کے ناظم، فقیہ العصر حضرت  الاستاذ مولانا زبیر احمد قاسمی صاحب –مدظلہ العالی–  کا بھی ذکر خیر فرمایا۔

اب اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں؛ لیکن مناسب سمجھتا ہوں کہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کا تعارفی خاکہ بھی پیش کردوں۔ آپ کے والد ماجد کا  نام جناب اسماعیل ابراہیم رندیرا صاحب (رحمہ اللہ) ہے۔ آپ کی پیدائش یکم جون 1950ء کو کوساڑی، گجرات میں ہوئی۔ آپ نے 1964 سے 1972 تک دارالعلوم فلاح دارین، گجرات میں تعلیم حاصل کی۔ آپ نے اولا فلاح دارین سے 1972 میں دورۂ حدیث شریف مکمل کیا۔ پھر 1973 میں  ایک سال کے لیے جامعہ مظاہر علوم، سہارن پور تشریف لے گئے اور دورۂ حدیث شریف میں پھر سے داخلہ لے کر صحاح ستہ پڑھی۔ مظاہر علوم سے فراغت کے بعد،  1974 میں دارالعلوم، کنتھاریہ، گجرات  میں، بحیثیت مدرسِ شعبہ عالمیت آپ کی تقرری ہوئ۔ آپ نے 1983 تک کنتھاریہ میں بحیثیت مدرس اپنی مفوضہ ذمے داری انجام دیتے رہے۔ اسی دوران، آپ نے ایک بار "اکل کوا" کا دورہ کیا۔ علاقے کی صورت حال  دیکھ کر،   یہ طے کیا کہ اب ان کو اکل کوا میں کام کرنا ہے؛ چناں چہ انھوں نے دارالعلوم، کنتھاریہ سے استعفی دے کر، اکل کوا کے مکتب میں کام کرنا شروع کیا۔

اکل کوا کے مکتب سےمنسلک ہونے کے بعد، چند ہی ماہ وسال میں، اللہ نے آپ کو وہ  مقبولیت دی کہ آج  آپ کی سرپرستی اور جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کواکے تحت، 168440 مکاتب کام کررہے ہیں  اور سیکڑوں مدارس ومساجد اوراسکول وکالجز کے آپ بانی وسرپرست ہیں۔ عصری علوم کے حوالے سے بھی آپ کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے لائق۔ آپ نے عصری اداروں کی تاسیس وتعمیر کے لیے بڑی جد وجہد کی۔ جامعہ پول ٹیکنک کالج،آئی ٹی آئی،ڈی ایڈ کالج، بی ایڈ کالج،ڈی فارمیسی کالج، بی فارمیسی کالج، ایم فارمیسی کالج،فارمیسی (پی ایچ ڈی)، بی یو ایم ایس اور ایم بی بی ایس  یہ وہ ادارے اور کالجز ہیں جن سے قوم کے ہزاروں نونہالوں نے استفادہ کیا اور آج قوم وملت کی خدمات میں مشغول ہیں۔  اللہ تعالی ان ادارے کو مزید ترقیات سے نوازے!

چند ایام حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب –حفظہ اللہ– کو مپلنگو، زامبیا کی سرزمین پر دیکھ کر بڑا اچھا لگا۔ مولانا کی یہ خوبی بہت پسند آئی کہ کسی سے بھی بات کرتے ہیں؛ تو ان کے الفاظ سے اپنائیت ٹپکتی ہے۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مولانا اپنی عمر کی 65 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ آپ شکر کے مریض ہیں، کمزوری اور ضعف کے آثار نمایاں ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر دے اور قوم وملت کی مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے! آمین!

======٭٭٭======
*ہیڈ اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب کا ایک دعوتی سفر اور ایک سردار کا قبول اسلام



مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب کا ایک  دعوتی سفر اور ایک سردار کا قبول اسلام

از:خورشید عالم داؤد قاسمی ٭

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ مولانا جس طرح ہندوستان میں مشہور ومعروف ہیں، اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ حضرات جو دینی اور دعوتی مزاج رکھتے ہیں، ان کے سامنے تو آپ کی اچھی خاصی شناخت ہے۔ مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہمنے ابھی  چند دنوں قبل، یکے بعد دیگرے تین افریقی ممالک: "زامبیا"، "ملاوی" اور "ساؤتھ افریقہ" کا  دورہ کیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کے دورہ "زامبیا"کے حالات ضبط تحریر میں لانا مقصود ہے۔

"زامبیا" ایک چھوٹا سا افریقی ملک ہے، جو افریقی برِّاعظم کے ساؤتھ سینٹرل حصے میں واقع ہے۔زامبیا کی شمالی سرحد "ری پبلک آف کونگو" اور "تنزانیہ" سے ملتی ہے؛ جب کہ مشرقی سرحد "ملاوی" سے ملتی ہے، جنوب مشرقی سرحد "موزمبق" سےاور جنوب میں زمبابوے اور بوسٹوانا؛ جب کہ مغربی حصہ "انگولا" سے ملتا ہے۔  یہاں تقریبا 70/زبانیں بولی جاتی ہیں: جن میں مشہور زبانیں: نیانجا، بیمبا، لوزی اور ٹونگا ہیں۔  اس ملک کی کل آبادی 11.26 ملین ہے۔ مون ریز ٹرسٹ ، زامبیا کا ایک مشہور غیر حکومتی ٹرسٹ ہے جو تعلیمی ورفاہی کام میں پیش پیش رہتا ہے۔ اسی ٹرسٹ کے "شعبہ دعوت" کے ایک "دو روزہ  دعوتی کانفرنس" میں شرکت کے لیے  مولانا موصوف نے "زامبیا" کا دورہ کیا ہے۔

ہمارے رفیق محترم، عالم نوجوان مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی شولاپوری، صدر جمعیۃ علماء، شولاپور، ان دنوں مون ریز ٹرسٹ کی دعوت پر  زامبیا میں چند مہینے کے لیے مقیم ہیں۔ مولانا شولاپوری کا مولانا صدّیقی سے گہرا تعلق ہے۔ مولانا شولاپوری کی کوشش اور مون ریز ٹرسٹ کےچیرمین: جناب شیخ شاہد متالا صاحب حفظہ اللہ کی دعوت پر، مولانا صدّیقی دامت برکاتہم نےمذکورہ کانفرنس مغقدہ: 26-27/نومبر 2016 میں شرکت کے لیے یہ دورہ کیا۔

مولانا صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم اپنے خادم جناب نوید صاحب (MBA)  کی معیت میں، "کینیاائرلائنس" سے 23/نومبر 2016 کو زامبیا کی دارالحکومت "لوساکا" (Lusaka) تشریف لائے اور دوسرے  دن ڈومیسٹک ایرلائن (Domestic Airline) سے مپلنگو (Mpulungu) کے لیے روانہ ہوگئے۔ مپلنگو لوساکا سے 1060کلو میٹرس کے فاصلے پر واقع ہے۔ پلین (Plane) نےکساما (Kasama) ایر پورٹ پرلینڈنگ کی۔ مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کے استقبال اور ریسیو (Receive) کرنے کے لیے، شیخ عبداللہ، مولانا محمدابراہیم قاسمی، مولانا وقاری محمد افضل کلوا، شیخ موسی جوبا اورمولانا شاہد گنگات صاحبان کساما میں موجود تھے۔ مقررہ پروگرام کے تحت مولانا کو کساما سے کچھ دوری پرواقع ایک قصبہ: "ساما" میں،  ایک پروگرام  کے لیے لےجایا گيا۔

ساما کے پروگرام کی نوعیت:
کچھ افریقی ممالک میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہر قبیلے میں ایک چیف (سردار) ہوتا ہے۔جب ایک چیف کا انتقال ہوجاتا ہے؛ تو کسی انتخاب اور الیکشن کے بغیر، اس کی جگہ، اسی قبیلہ اور خاندان سے ایک لائق فائق نامزدشخص کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے۔ اس چیف کی ماتحتی میں کئی "ڈپٹی چیفس" (Deputy Chiefs) ہوتے جن کو چیف خود نامزد کرتا ہےاور ان ڈپٹی چیفس کے ماتحت ہر گاؤں میں ایک"ہیڈ مین" (Head Man)  ہوتا ہے۔مقامی لوگوں کے درمیان، چیف کی بڑی حیثیت ہوتی ہے۔ چیف اپنے قبیلے کے کسی بھی اہم قضیّہ میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے؛ بل کہ اس کےعلاقے کی زمین وجائداد کی خرید وفروخت بھی، اس کی اجازت کے بغیر ناممکن ہے۔

بہ ہرحال، یہ تقریب ایک نئے چیف  کی مسند نشینی  کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ وہ چیف مون ریز ٹرسٹ کے تحت چلنے والے "مون ریز ٹرسٹ اسکول" میں چند دنوں قبل ٹرسٹ کے چیرمین: جناب شیخ شاہد متالا صاحب  حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ اس موقع سےمختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی اور موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے، چیف کو اسلام کی دعوت بھی دی گئی۔ اسی میٹنگ میں، چیف نے اپنی تقریب ِمسند نشینی کا بھی ذکر کیا۔ مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی نے اس کی تقریب میں شرکت کا وعدہ کرلیا تھا؛ تاکہ وہاں موجود لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جاسکے۔ تقریب مسند نشینی 25/نومبر 2016 کو منعقد ہوئی؛ لہذا مولانا محمد کلیم صاحب صدّیقی  دامت برکاتہم کو اس پروگرام میں شرکت کے لیے لے جایا گیا۔
چیف (سردار) کا قبول اسلام:
مولانا صدیقی صاحب دامت برکاتہم جب وہاں تشریف لے گئے؛ تو چیف نے بڑی خوشی ومسرت کے ساتھ مولانا اور  ان کے رفقاء سفر کا استقبال کیا۔ پروگرام صبح دس بجے سے ہونا طے تھا؛ چناں چہ اس پروگرام سے پہلے چیف کے ساتھ، مولانا صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم اور رفقاء  کی خصوصی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے دوران، اسلام کے متعلق بات چیت ہوئی اورالحمد للہ چیف نے" کلمہ شہادت" پڑھ کر، مولانا کے ہاتھ پراسلام قبول کرلیا۔ پھر مولانا صدّیقی صاحب، اس کی مسند نشینی کے پروگرام میں شریک ہو کر، اس کو مبارکبادی اور تحفہ پیش کیا۔

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کو یہ خیال آیاکہ اگر چیف کچھ دنوں کے لیے ہندوستان تشریف لاتے ہیں؛ تو  ان کو اسلامی تعلیمات سے آسانی سے روشناس  کرایا جاسکتا ہے؛ تاکہ ان کو دین پر جمنے میں آسانی ہو اور واپس آکر اپنے علاقے میں اسلام کی شعائیں پھیلا سکیں؛ اس لیے مولانا صدّیقی صاحب نے چیف کو کہا کہ ہم آپ کے ٹکٹ اور ویزا وغیرہ کا انتظام کریں گے اور تقریبا ایک مہینے کے لیے آپ کو ہندوستان تشریف لانا ہے۔ پھر ہندوستان سے ہم آپ کو مکّہ مکرمہ "عمرہ" کے بھیجنا چاہتے ہیں۔ چیف موصوف نے مولانامحترم کی دعوت کو خوشی خوشی قبول کیا اور ہندوستان جانے کے لیے تیار ہوگئے اور ساتھ ہی مولانا کو لوٹتے وقت اپنی روایت کے مطابق ایک بکرا ہدیہ میں پیش کیا۔ اس چیف کے اسلام قبول کرنے کو لوگوں نے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا۔ یہ تحریر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں تقریبا 80/ فی صد شہری عیسائی ہیں اور کچھ شہری باپ دادا سے چلی آرہی روایات کو ہی اپنا مذہب سمجھتے ہیں۔ وہ مذکورہ چیف بھی دین عیسوی کے پیروکار یعنی عیسائی تھے۔مذکورہ پروگرام کے بعد، مولانا محمد ابراہیم قاسمی، شیخ عبداللہ اور قاری محمد افضل کلوا صاحبان کی معیت میں، رات کے تقریبا آٹھ بجے، مولانا صدّیقی صاحب  دامت برکاتہم مپلنگو تشریف لائے اور پروگرام کے مطابق چیرمین صاحب کے دولت خانے پر قیام کیا۔

شعبہ دعوت کا دو روزہ دعوتی  کانفرنس:
26-27/دسمبر 2016 کو ،شعبہ دعوت کی دو روزہ کانفرنس شروع ہوئی، جس میں ملک میں دعوت کی لائن سے کام کرنے والے علماء وشیوخ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس پروگرام میں دونوں دن مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم کا بیان رکھا گیا؛  تاکہ مولانا موصوف اپنے داعیانہ تجربہ کی روشنی میں، نو عمر داعیوں کو مفید مشورے سے نوازیں۔

مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم نے پہلے دن کی آخری نشست میں فرمایا جس کا حاصل یہ تھا کہ: سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امت نے دعوت کا کام چھوڑ دیا ہے۔ اگر ایک مسجد کا امام ،امامت نہ کرائے اور دوسری ہر طرح کی ذمے داریاں بحسن وخوبی نبھائے؛ تو یہ ایک المیہ ہوگا؛ اسی طرح اگر امت مسلمہ  دعوت کے کام کوچھوڑ کر ہر  کا م بحسن وخوبی انجام دے؛ تو یہ بھی ایک بڑا المیہ ہو گا اور امت بحرانی کیفیت سے دوچار ہوگی۔

مولانا صدّیقی صاحب نے دوسرے دن کی پہلی نششت میں اپنے بیان میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ: ہمیں جب اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کریں گے۔ جو شخص شرک کے ساتھ دنیا سے جائے گا، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ تو روزانہ تقریبا ایک لاکھ چون ہزار لوگ وفات پاتے ہیں، جن میں سے تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار غیر مسلم ہوتے ہیں۔ماہر سماجیّات کا کہنا ہے کہ ایک گاؤں تقریبا دو ہزار لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر روز تقریبا 62/گاؤں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں جارہے ہیں۔ اگر ایک جانور بھی جل جائے؛ تو اس کا ہمیں احساس ہوتا ہے؛ مگر اتنے سارے لوگ روزانہ جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں، جس کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہورہا ہے!!!

اس پروگرام سے فراغت کے بعد، 28/نومبر کو مولانا صدّیقی صاحب  دامت برکاتہم کی ایک میٹنگ ٹرسٹ کے چیرمین اور شعبہ دعوت کے کارکنان کے ساتھ طے تھی؛ چنا ں چہ وہ میٹنگ چیرمین صاحب کی آفس میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم نے شعبہ دعوت کے ذمےداروں سے دعوتی لائن سے کام کرنے کے طریقے کار پر روشنی ڈالی اور ان کو مفید مشورے سے نوازا۔ اس میٹنگ کے ختم ہونے کے بعد، پروگرام کے مطابق، مولانا موصوف کو تنگانیکا جھیل (Tanganyika Lake) میں واقع ،  جزیرہ کروکوڈائل (Crocodile Island)  میں، مون ریز ٹرسٹ کے تحت چل رہے مکتب ومسجد کی بنیاد ڈالنی تھی؛ لہذا علماء وشیوخ کی معیت میں جزیرہ کروکوڈائل تشریف لے گئے۔

جزیرہ کروکوڈائل کے لوگوں کو پروگرام کی اطلاع پیشگی دیدی گئی تھی؛ لہذا وہاں کے مسلم باشندوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مولانا صدیقی صاحب  دامت برکاتہم نےکوئی طویل تقریر کرنے کے بجائے، کلمہ شہادت کی اہمیت وافادیت پر مختصر روشنی ڈالی اور لوگوں کے دنیا میں آنے کا مقصد سمجھایا۔ مولانا کی اس مختصر باتوں کا ترجمہ، چیرمین صاحب کے صاحبزادے، حافظ ابرار احمد متالا سلمہ اللہ نے مقامی زبان میں پیش کیا۔ اس کے بعد، مولانا نے شہادتین کی تلقین کرائی ۔ وہاں موجود سیکڑوں لوگوں نے مولانا کے ساتھ شہادتین پڑھا۔ پھر اس کے بعد، حافظ ابرار احمد متالا نے شہادتین کا ترجمہ مقامی زبان میں کیا، جسے سب لوگوں نے پھر ایک بار اپنی زبانوں سے دہرایا۔ اللہ تعالی ان لوگوں کو ایمان پر قائم ودائم رکھے! آمین! الحمدللہ ربّ العلمین!

مذکورہ بالا پروگرام کے بعد، ہم سب وہاں سے مولانا محمد کلیم صاحب صدّیقی   دامت برکاتہمکی معیت میں مپلنگو واپس آئے۔ پھر رات میں مولانا موصوف نے مپلنگو میں قیام کیا اور صبح "کساما" کے لیے روانہ ہوگئے۔ کساما سےمولانا صدّیقی صاحب کے ساتھ  مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی  اور ان کے خادم جناب نوید صاحب لوساکا کے لیے روانہ ہوگئے۔

لوساکا میں، مولانا صدیقی صاحب   دامت برکاتہم  کے ظہرانے کا انتظام ٹرسٹ کے نائب چیرمین: جناب نجمل صاحب نے دارالعلوم، لوساکا پر کیا تھا۔ ظہرانے کے بعد، مولانا "پیٹاؤکے" کے لیے روانہ ہوگئے اور رات میں پٹاؤکے میں ہی قیام کیا اور صبح 29/نومبر 2016 کو مکاتب کے معلمین کے درمیان مختصر بیان کیا اور پھر ناشتے کے بعد، پیٹاؤکے سے "چپاتا" تشریف لے گئے۔ چپاتا میں شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریّا صاحب کاندھلوی (1898-1982) رحمہ اللہ  کے خلیفہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رحمہ اللہ کے مزار پر فاتحہ پڑھ کر ،اپنے میزبان جناب مولانا یعقوب اگھرادر صاحب کے گھر پر لنچ تناول فرمایا اور اسی دن مولانا یعقوب صاحب اور مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی کے ساتھ "ملاوی" کے لیے روانہ ہوگئے۔ ملاوی میں ایک  دن قیام کرکے، ساؤتھ افریقہ تشریف لے گئے۔ ساؤتھ میں جہاں جہاں مولانا تشریف لے گئے، ہر جگہ لوگوں نے ان  کے بیان سے استفادہ کیا اور ایک ہفتہ قیام کرکے ہندوستان واپس چلے گئے۔

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب  دامت برکاتہم " یوپی" کے مردم خیز ضلع: "مظفّرنگر" میں واقع ایک معروف قصبہ: "پھلت" (Phulat)  سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ خاندانی رئیس ہیں؛ مگر بہت ہی سادگی کی زندگی گزارتے ہیں۔ آج بھی آپ پچاسو ں ایکڑ ز زمین کے مالک ہیں؛ جس کی دیکھ ریکھ آپ کا بھانجا: جناب عادل صاحب کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں مکمل کی۔ پھرBsc. Chemistry مکمل کی اور بی یو ایم ایس کا اہلیتی امتحان پاس کیا؛ مگر اللہ تعالی کو آپ سے کچھ اور ہی  کام لینا تھا؛ لہذا آپ نے کسی یونیورسیٹی میں داخلہ نہیں لیا؛ بل کہ  دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنئو چلے گئے۔ ندوہ میں تقریبا دو سال مفکّر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (1914-1999) رحمہ اللہ کی سرپرستی میں رہے۔ حضرت ندوی رحمہ اللہ کی ہی ایماء پر، حضرت مولانا عبد اللہ حسنی ندوی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ "سونی پت" کے علاقے میں دعوتی کام شروع کیا؛ جب کہ اس علاقے میں ارتداد کی لہر چل رہی تھی۔ واضح رہے کہ "پھلت" مسند الہند، حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی  (1703-1762) رحمہ اللہ اور ملّا محمود صاحب رحمہ اللہ  استاذ: شیخ الہند محمود حسن دیوبندی (1851-1920) رحمہ اللہ کا آبائی وطن ہے۔

راقم الحروف کو مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم کو پہلی بار، اتنے قریب سے دیکھنے، سننے اور گفتگو کرنے کا موقع میسر ہوا۔ آپ بہت ہی نرم دل اور تواضع وانکساری کے پیکر ہیں۔ ان کے ساتھ چند ایّام گزار کر بہت خوشی ہوئی۔ ان کی اکثر مجلسوں میں غیر مسلموں  کے درمیان دعوت وتبلیغ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ باتیں آئیں؛ جو مجھے بہت پسند آئیں۔ میری دعا ہے اللہ تعالی مولانا صدّیقی صاحب   دامت برکاتہمکو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر نصیب فرمائے اور ان سے خوب سے خوب کام لے! آمین!

٭ ہیڈ: اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ