موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
محدّث جلیل حضرت
الاستاذشیخ عبد الحق صاحب اعظمی –نور اللہ مرقدہ– (1928-2016)
از: خورشید عالم
داؤد قاسمی
ہیڈ: اسلامک اسٹڈیز
ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
30/دسمبر کو جہاں سن 2016 اپنا آخری سانس لے
رہا تھا اور وہ صرف ایک دن کا مہمان تھا کہ مغرب وعشاء کے درمیان، محمد رسول اللہ-
صلی اللہ علیہ وسلم- کی احادیث شریفہ کا عظیم خادم، علوم نبویّہ کا حقیقی وارث اور
ایشیاء کی ممتاز دینی درس گاہ، امّ المدارس: دارالعلوم، دیوبند کا محدّث جلیل،
حضرت الاستاذ شیخ عبد الحق صاحب اعظمی –نور اللہ مرقدہ– ایک تھکے ماندے مسافر کی طرح خاموشی سے دائمی
نیند سو گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ موت ایک ایسی
حقیقت جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں؛ لہذا سب لوگوں کی طرح بندہ نے
بھی حضرت الاستاذ کی موت کو"مرضی مولی از ہمہ اولی" کہتے ہوئے قبول کیا۔
یہ خبر منٹوں میں،دنیا کے گوشے گوشے میں، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص نے
بڑے افسوس کے ساتھ اس خبر کو پڑھا اور سنا اور بھاری دل کے ساتھ دوسروں کے ساتھ
شیئر کیا۔
موت کا کوئی انکار
نہیں کرسکتا۔ موت ایک ایسی حقیقت ہےکہ جس سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ جب پیارے نبی
محمد- صلی اللہ علیہ وسلم- کو موت آکر رہی؛ تو پھر دوسرے کی کیا بات! موت تو پاک
پوتر مالک کے دیدار کا ایک ذریعہ ہے؛ اگر آدمی کا انتقال نہ ہو؛ تو اپنے رحیم
وکریم رب کا دیدار کیسے کرے گا! یہی تو وجہ تھی کہ نبی اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم-
نے اپنے لیے موت کو پسند فرماکر، اپنے منبر سے اپنی موت کا یوں اشارہ دیا: "إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ
بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ، وَبَيْنَ مَا
عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ". فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ:
فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا. (بخاری شریف، حدیث: 3904)
ترجمہ: اللہ تعالی نے ایک بندے کو اس کے
درمیان اختیار دیا ہے کہ اللہ تعالی ان کو دنیا کی رونق دیں، جتنی وہ چاہے اوران
(نعمتوں )کے درمیان جو اللہ تعالی کے پاس ہے؛ لہذا اس بندے نے ان (نعمتوں) کو
اختیار کیا جو اللہ تعالی کے پاس۔ ابوبکر –رضی
اللہ عنہ – (سمجھ گئے کہ نبی -صلی اللہ علیہ وسلم -نے اپنے لیے موت کو پسند کیا؛
لہذا ) رونے لگے اور فرمایا: آپ پر ہم اپنے ماں باپ قربان کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو
ایمان کی حالت میں اس دنیا سے اٹھائے! آمین!
موت نے کسی کو نہیں
چھوڑا۔ چاہے انسان ہویا حیوان یا پھر چرند وپرند ہو، سب جاندار کو موت کا مزہ
چکھنا ہے۔ یہ نظام اس سنسار کے پیدا کرنے والے کا ہی بنایا ہوا ہے۔ سچے مالک نے
قرآن کریم میں فرمایا ہے: "كُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت" (سورہ
آل عمران، آیت: 185) ترجمہ: (تم میں) ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ چناں چہ
سب کے سب انبیاء ورسل، صحابہ وتابعن اوراولیاء وصلحا کو اس جہان سے کوچ کرنا پڑا۔
ہم سب کو بھی ایک دن جانا ہوگا۔ حضرت شیخ صاحب –نور اللہ مرقدہ – بھی اپنے مقررہ
وقت پر، پاک پروردگار کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے۔ اللہ تعالی
حضرت الاستاذ کو جنّت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!
آئے عشّاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ
ِرخِ زیبا لے کر
حضرت شیخ صاحب –نور
اللہ مرقدہ– کی ولادت بہ روز: پیر، 6/رجب المرجب، سن 1347 ھ مطابق: 17/دسمبر 1928ء کو ،اترپردیش کے معروف ضلع:
"اعظم گڑھ" کے ایک گاؤں: "جگدیش پور" میں ہوئی۔ آپ چھ سال کے
تھے کہ آپ کے والدماجدجناب عمر صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کی کفالت وتربیت
مشہور عالم دین، شیخ ابوالحسن محمد مسلم صاحب جونپوری –قدس سرہ– نے کی۔ پھر ایک
گاؤں میں پرورش پانے والے یتیم کو، اللہ تعالی نےایک نیّر تاباں بنایا۔ پھر آپ سے
کیا ایشیا، کیا افریقہ، کیا یورپ اور کیا امریکہ، ہر جگہ کے لوگوں نے کسب فیض ۔
اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کا اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے!
آمین!
حضرت شیخ صاحب –قدس
سرہ– نے ابتدائی تعلیم، حضرت مولانا عبد الغنی صاحب پھولپوری (1876-1963) –رحمہ اللہ–،
خلیفہ حضرت تھانوی (1863-1943) کے قائم کردہ
ادارہ: "مدرسہ بیت العلوم"، سرائے میر، اعظم گڑھ میں حاصل کی۔ بیت
العلوم میں آپ نے صرف ونحو، عربی اور فقہہ اسلامی کی کچھ کتابیں پڑھی۔ بیت العلوم
میں آپ نے درس نظامی کی مشہور کتاب: "شرح وقایہ" تک کی تعلیم حاصل کی۔
اس کے بعد، آپ نےدارالعلوم، مئو ناتھ
بھنجن میں داخلہ لیا اور "مشکاۃ المصابیح" تک کی تعلیم مکمل کی۔ پھر آپ
نے دارالعلوم ،دیوبند کا رخ، جس کے جوار میں، آپ کی آخری آرام گاہ منجاب اللہ مقدر
تھی۔
شیخ نے ایشیاء کی عظیم دینی واسلامی
یونیورسیٹی دارالعلوم، دیوبندمیں تکمیل فضیلت کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے دارالعلوم
میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی (1879-1957)، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی
(متوفی: 1967)، شیخ الادب شیخ
محمد اعزاز علی امروہوی (1300-1373ھ)، شیخ فخرالحسن مرادآبادی اور مولانا ظہور احمد دیوبندی –نور
اللہ مرقدہم– وغیرہم سے اکتساب فیض کیا۔ حضرت شیخ ثانی صاحب نے بخاری شریف مکمل
اور ترمذی ،جلد: اوّل، شیخ الاسلام حضرت مدنی -قدس سرہ- سے پڑھی۔ آپ نے 1368ھ/1949ء میں رسمی تعلیم سے
فراغت حاصل کی۔ حضرت شیخ ثانی کو اجازت حدیث، ان کے مذکورہ بالاشیوخ عظام کے ساتھ
ساتھ، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی (1897-1983)، سابق رئیس: دارالعلوم، دیوبند،
محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی(1900-1992)، حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوری (1876-1963) اور برکت العصر
حضرت شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب (1898-1982) –رحمہم اللہ– سے بھی حاصل تھی۔ آپ حضرت شیخ الحدیث کی مبارک سند سے
احادیث مسلسلہ کی اجازت دیتے تھے۔ الحمد للہ، آپ نے ان عظیم المرتبت اساتذہ وشیوخ
سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی، جن میں سےہر ایک آفتاب وماہتاب کی حیثیت رکھتے
ہیں۔
نہ تخت وتاج میں نے
لشکر وسپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
حضرت الاستاذ نے اپنی تدریسی زندگی کا
آغاز "مدرسہ مطلع العلوم"، بنارس، یوپی سے کیا۔ اس ادارہ میں آپ نے
تقریبا 16/سال تک تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر "مدرسہ حسینیہ"،
کولڈیہا،گریڈیہہ، جھارکھنڈ (بہار) میں تقریبا 9/مہینے تدریسی خدمات انجام دی۔ حضرت اس مدرسہ کا ذکر کرتے ہوئے کبھی کبھی
فرماتے تھے کہ بقدر مدت حمل بہار میں رہ چکا ہوں۔ بہار کے لوگ بہت ہی ادب واحترام
سے پیش آتے تھے۔ اس کے بعد، "دارالعلوم"، مئوناتھ بھنجن میں بھی حدیث کی
کتابیں آپ کے زیر درس رہی۔ جہاں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی، عام طور پر حدیث
کی کتابیں آپ سےمتعلق رہیں۔
سن 1982عیسوی میں، آپ کو امّ المدارس دارالعلوم، دیوبند میں علیاء
کے استاذ کی حیثیت سے منتخب کیا گيا ۔ آپ نے اس وقت سے اپنی زندگی کے اخیر لمحہ تک
اس عظیم ادارے میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ صحیح بخاری، جلد: ثانی اور مشکاۃ
شریف کے اسباق آپ سے متعلق تھے۔ آپ بخاری جلد ثانی پڑھانے کی وجہ سے، طلبہ واساتذہ
دارالعلوم، دیوبند کے درمیان "شیخ ثانی" سے معروف تھے۔ آپ نے تقریبا34 سال تک دارالعلوم
میں، بخاری جیسی حدیث کی عظیم کتاب کا درس دیا۔ اس طرح کل ملا کر ، آپ تقریبا 60/سالوں تک قرآن
وحدیث کی خدمت میں مصروف رہے۔ اس دوران
ہزاروں طلبہ نے آپ سے پڑھا اور استفادہ کیا۔ آپ کے شاگردوں میں ہزاروں علماء اور
فقہاء ومحدثین شامل ہیں؛ جن کو بجا طور پر آپ کا شاگرد ہونے پر فخر ہے۔
آپ کا بخاری شریف کا
درس بعد نمازِعشاء ہوتا تھا۔ ترجمان کے
ساتھ کچھ طلبہ آپ کو "مسجد چھتہ" سے لانے جاتے تھے۔ چھتہ مسجدکی ہی چھت پر بنے گھر میں، آپ رہتے
تھے۔ طلبہ آپ کے اردگرد ہوتے اور آپ ایک ہاتھ میں عصا لیے،دارالحدیث تک بڑے ہی
سکون واطمینان سے آتے۔ جو طلبہ آپ کے آتے
وقت، آپ کے پیچھےچلتے تھے، ان کو کبھی کبھی منع کرتے کہ آپ میرے پیچھے اس طرح نہ
چلیں، یہ سنت نبوی کے خلاف ہے۔ سنا ہے کہ ان دنوں، کمزوری اور ضعف کے سبب حضرت وِیل چیر (Wheelchair) سے اسباق پڑھانے آتے تھے۔
آپ اسباق کے بڑے پابند تھے۔ دیوبند کا موسم سرما ہویا موسم گرما، آپ کو درس گاہ
آنا تھا اور سبق پڑھانا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ آپ دیوبند میں ہوں اور سبق نہ
پڑھائیں۔ آپ کا بخاری شریف کا سبق عام طور پر تقریبا دو ڈھائی گھنٹے کا ہوتا تھا۔
مگر تعب وتھکان کا احساس تک نہ ہونے دیتے۔
ہاں دکھا دے، اے
تصوّر! پھر وہ صبحُ وشام تو
دوڑ پیچھے
کی طرف اے
گردشِ ایّام تو
بندہ راقم الحروف کو
شیخ ثانی صاحب کی سب سے پہلی زیارت سن 1997 یا 1998 میں اس وقت ہوئی، جب نیپال کی مرکزی درس گاہ:فیض الاسلام،
پَرسا، نیپال کے ایک پروگرام میں شرکت کے
لیے تشریف لے جارہے تھے اور راستہ سے
گزرتے ہوئے، آپ نے مدرسہ اشرف العلوم، کنہواں، سیتامڑھی کے سابق ناظم: قاری محمد
طیّب صاحب –رحمہ اللہ– کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت راقم الحروف اشرف العلوم میں عربی دوم یا عربی
سوم کا طالب علم تھا۔ "پرسا" نیپال میں واقع ہے اور کنہواں ہندوستان میں
واقع ہے۔ مگر ان دونوں جگہوں کے درمیان صرف چند کلو میٹرس کا فاصلہ ہے؛ لہذا حضرت
شیخ صاحب کی زیارت اور ان کی تقریر سننے کے لیے اشرف العلوم کے طلبہ "پرسا"جارہے تھے؛ چناں چہ
میں بھی سب کے ساتھ گیا اور شیخ صاحب کی تقریر سے پہلے، ہم سب نے جاکر حضرت سے
سلام ومصافحہ کیا۔
جب سن 2000عیسوی میں
دارالعلوم، دیوبند میں داخلہ لیا؛ تو پھر اس کے بعد تو حضرت کی زیارت ہوتی ہی رہتی
تھی۔ جب بندہ ششم سےترقی کرکے عربی ہفتم میں قدم رکھا؛ تو حضرت سے مشکاۃ شریف
پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔ پھر"دورہ حدیث شریف" کے سال، سن 2003 میں، بخاری شریف ، جلد: ثانی، حضرت شیخ صاحب –قدس
سرہ– سے
پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
کہاں میں اور کہاں
یہ نکہت گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی
حضرت شیخ تک رسائی
حاصل کرنے اور آپ سے ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ آپ نے کسی بھی ملنے
والے سےیہ نہیں کہاکہ وہ بہت ہی مشغول ہیں۔ کوئی بھی شخص کبھی بھی جاکر مل سکتا
تھا اور اپنی بات پیش کرسکتا تھا۔ آپ کسی بھی آنے والے کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ جب
بھی کوئی شخص آپ کے پاس دعوتی واصلاحی پرگرام میں شرکت کی دعوت لے کر آتا، چاہے وہ پروگرام دیہات میں
ہورہا ہو یا شہرمیں، اندرون ملک کا پروگرام
ہویا بیرون ملک کا، آپ اس کی دعوت قبول
کرتے۔ اسی طرح اگر کسی دینی ادارے میں کوئی تقریب ہو، اجلاس ہو، آپ کو دعوت ملتی؛
تو اسے قبول فرماتے اور اپنی شرکت سے نوازتے۔ عام طور پر دوسرے مدارس وجامعات کے
ذمے داران حضرات آپ کو افتتاح بخاری شریف اور ختم بخاری شریف کے لیے مدعو کرتے
تھے۔ اس طرح آپ نے ہندوستان کے سیکڑوں شہروں، دیہاتوں اور کئی بیرونی ممالک کا
اصلاحی ودعوتی دورہ کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کی زبان میں بڑا اثردے رکھا تھا۔ آپ
نہایت ہی متواضع ومنکسرالمزاج تھے۔ آپ
مستجاب الدعوات تھے۔ اللہ تعالی اس امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے! آمین!
وہ فاقہ مست ہوں جس
راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوب روزگار
مجھے
حضرت شیخ صاحب نے
یکے بعد دیگرے تین نکاح کیا۔ پہلی اہلیہ سے ایک لڑکا، جناب عبد الحکیم صاحب اور دو
لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد،آپ نےدوسری شادی کی۔ دوسری بیوی
سےایک بیٹا، جو بچپن میں ہی انتقال کرگیا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ دوسری بیوی کی
وفات کے بعد، تیسرا نکاح کیا۔ تیسری زوجہ سے تین لڑکیاں اورچھ لڑکےپیدا ہوئے۔ اس
طرح حضرت شیخ صاحب کو اللہ تعالی نے آٹھ
بیٹے اور سات بیٹیوں سے نوازا۔ ان میں سے
سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں ابھی بقید حیات ہیں۔ اللہ تعالی ان سب کو خوش وخرم رکھے
اور ان کو حضرت شیخ صاحب -قدس سرہ- کے لیے
صدقۂ جاریہ بنائے! آمین!
حضرت شیخ صاحب –نور
اللہ مرقدہ– عمرکی 88 بہاریں دیکھ چکے
تھے۔ آپ پیرانہ سالی کی وجہ سےکمزور ہوچکے تھے۔ بہ شب: جمعہ 30/دسمبر 2016 کو قے کا عارضہ پیش
آیا۔ جمعہ کی نماز کے بعدآپ کو دیوبند کے ہی ایک ہسپتال میں لے جایا گيا۔ آپ ہسپتال میں ہی مغرب وعشاء
کے درمیان آخری سانس لی اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا ایک پیغام ہے
حضرت شیخ کی نماز
جنازہ،31/دسمبر 2016 کو، شام ساڑھے تین
بجے دارالعلوم کے احاطۂ دارِجدیدمیں، استاذ محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب
–دامت برکاتہم– استاذ حدیث وسابق ناظم
تعلیمات دارالعلوم، دیوبند کی امامت میں ادا کی گئی۔ عوام وخواص کی ایک بڑی
تعدادنے آپ کے جنازہ میں شرکت کی۔ پھر ہزاروں طلبہ اور علماءنے اپنے کندھوں پر
اٹھا کر ، "قبرستان قاسمی" میں ، اللہ تعالی کی امانت، اللہ کے سپرد
کردی۔اللہ تعالی آپ کی قبر کو نور سے بھردے! آمین!
آسماں تیری لحد
پرشبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
No comments:
Post a Comment