اُمِّ معبد کا بیاں تو پُر کشش تصویر ہے
تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
آفتاب رسالت صلی
اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحانہ و تعالی نے ہر اعتبار سے کامل و مکمل انسان بنایا
تھا۔ نہ آپ جیسا سے پہلے کوئی پیدا ہوا اور ناہی آئندہ پیدا ہوگا۔ آپ کا اخلاق
اتنا اونچا کہ دس سال تک آپ کی خدمت کرنے والے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے
کہ کبھی مجھے اف (ہوں) تک نہ کہا۔ آپ کے حسن اخلاق کی اس سے بڑھ کر اور کیا شہادت
ہو سکتی ہےکہ خود ربّ کائنات نے گواہی دی کہ آپ عظیم اخلاق کے حامل ہیں۔ آپ اتنے
شفیق و رحیم کہ ذات باری تعالی نے فرمایا کہ میں نے آپ کو سارے جہان کےلیے رحمت
بناکر بھیجا۔ آپ اتنےحلیم و بردبار کہ محلے کی خاتون بھی اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے
آپ سے تعاون لینے میں جھجھک محسوس نہیں کرتیں۔ آپ اتنے نرم دل کہ جن مکہ والوں نے
ہر طرح سے ستایا حتی کہ آپ کو قتل کرنے تک کی سازش رچی، جب مکہ فتح ہوا، تو آپ
نےمعافی کاعام اعلان کرتے ہوئے فرمایاجو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے، وہ
مامون۔ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے، وہ مامون۔ جو مسجد میں داخل ہوجائے، وہ
مامون۔آپ اتنے متواضع اور منکسر المزاج کہ خود سے بکری کا ددوھ دوہتے، جوتا ٹوٹ
جاتا؛ تو اس کی اصلاح کرتے، جب کپڑے پھٹ جاتے؛ تو پیوند لگاتے، سودا سلف کے
لیےبازار جاتے اور اپنے ہاتھ لانے میں کوئی شرم وعار محسوس نہیں کرتے۔ امیر و غریب
ہر ایک سے مصافحہ کرتے۔ بغیر کسی تمیز کےچھوٹا بڑا جو بھی ملتا، آپ سلام میں پہل
کرتے۔ آپ اتنے حسین و جمیل کہ کسی نے خوب کہا کہ : آں چہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا
داری۔حاصل یہ کہ آپ کی زندگی کا ہر پہلو، تواضع و انکساری کا مظہر اور انسانوں کے
لیے صد فی صد نمونہ عمل۔
اس تحریر میں آفتاب رسالت صلی اللہ
علیہ وسلم کے اخلاق و کردار، حسن و جمال، عادت و خصلت، اوصاف و کمالات اور شمائل و
خصائل کا وہ نقشہ پیش کرنا مقصود ہے جوآپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے الفاظ میں نقل
ہوتے آیا ہے۔ ہم اس کا آغاز اُمّ معبد رضی اللہ عنہا کے الفاظ سے کرتے
ہیں۔ مگر اس سے پہلے پس منظر پیش خدمت ہے۔
جب کفار و مشرکین پیغمبر انقلاب کے قتل
کے درپے ہوگئے؛ توانھوں نے بحکم خداوندی مکہ مکرمہ سے یثرب، جو بعد میں مدینہ
منورہ بنا اور ہمیشہ کے لیے بن گيا، کی طرف اپنے رفیق غار و مزار ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی معیت میں روانہ ہوئے۔ قافلۂ اہل حق کٹھن راستے کو طے کرتے ہوئے مدینہ
کی سمت بڑھتا جارہا تھا۔ چلتے چلتے راستہ میں ایک علاقہ سے گزر ہوا جسے
"قدید" کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں ایک چھوٹی سی بستی تھی، جس میں "قبیلہ خزاعہ" کے لوگ بود
و باش اختیار کیے ہوئے تھے، وہاں ایک خیمہ تھا۔ وہ
خیمہ مشلل کے اندر واقع تھا۔ اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس کیلو میٹر ہے۔ اب نورہدایت صلی اللہ علیہ وسلم
"قبیلہ خزاعہ" میں پہنچ گئے۔ بھوک و پیاس کی شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی
جارہی تھی۔ ہادئ عالم صلی اللہ علیہ وسلم خزاعہ کی ایک خاتون کے خیمہ نما مکان کے
پاس جاکر رکے؛ تاکہ اس سے کچھ کھجور اور گوشت خرید سکیں۔ یہ خیمہ ایک خوش قسمت خاتون اُمّ معبد خزاعیہ کا تھا۔ اُمّ معبداس وقت اپنے خیمہ میں موجود
تھیں۔
اُمّ معبد خزاعیہ کون ہیں؟
آپ کا نام عاتکہ بنت خالد بن منقذ الخزاعی اور کنیت اُمّ معبد ہے۔یہ قبیلہ خزاعہ کی ایک باوقار اور با عفت، نمایاں اور تواناں
خاتون تھیں؛ قبیلہ خزاعہ کی طرف منسوب کرکے آپ کوخزاعیہ کہاجاتا ہے۔ گاؤں دیہات کے خیمہ میں
رہنے والی غیر مشہور، غیر خواندہ، مگر عقل مند و دانا خاتون تھیں۔ ان کی زبان بڑی ہی فصیح و بلیغ تھی۔بکری چرانے
والے ابو معبد کی رفیقۂ حیات تھیں۔ گوشۂ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے بھی راستے سے
گزرنے والے لوگوں کا استقبال کرتی تھیں اور جو کچھ میسر ہوتا کھلاتی
پلاتی تھیں اور ایساکرنے سے کیا مانع ہوتا؛ جب کہ وہ ایک عرب خاتون تھیں۔
وہی عرب جو اپنی سخاوت و فیاضی اور مہمان نوازی کے لیے پورے عالم میں مشہور۔ پھر
ایک مدت کے بعد، اپنے سرتاج ابو معبد کے ساتھ ، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور دونوں نے اسلام قبول کیا۔ زمانہ جاہلیت کی غیر معروف
خاتون، اسلام کو گلے سے لگا کر، مشہور و معروف صحابیہ ہوگئیں ۔رضی اللہ عنہا و عن
زوجہا الکریم!
جس وقت معلم انسانیت صلی
اللہ علیہ وسلم اس خیمہ کے پاس پہنچے، اس وقت اُمّ معبد کا شوہر بکریاں چرانے گیا
ہوا تھا اور آپ تنہا گھر میں تشریف فرما تھیں۔ اُمّ معبد کے حالات سازگار نہیں تھے اور خستہ حالی عیاں
تھی۔ صاحب کوثر صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: "کیا تمھارے پاس کچھ (کھانے
پینے کا )ہے؟" اُمّ معبد کا جواب مایوس کن تھا؛ کیوں کہ گھر میں ایک بکری کے
سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ بکری بھی ایسی کمزور اور لاغر تھی کہ اُمّ معبد کا شوہر
اسے ریوڑ میں نہ لے جانے میں ہی عافیت محسوس کی۔ اس خاتون نے جواب دیا: واللہ!
ہمارے پاس کچھ ہوتا؛ تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔ رحمت عالم صلی اللہ
علیہ وسلم کی نظر اس دبلی پتلی اور لاغر بکری پر پڑی۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ
وسلم نے سوال کیا: "اے اُمّ معبد! یہ بکری کیسی ہے؟" اُمّ معبد جواب
دیتی ہیں: اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
نے پوچھا: "کیا اس میں کچھ دودھ
ہے؟" مہمان نواز خاتون پھر بڑی سنجیدگی سے یوں جواب دیتی ہیں: وہ اس سے کہیں
زیادہ کمزور ہے۔ رسول انس و جنّ صلی اللہ عیلہ وسلم گویا ہوتے ہیں: "اجازت ہے
کہ اسے دوہ لوں؟" اس خاتون کو کیا معلوم کہ امام الانبیاء والرسل صلی اللہ
علیہ وسلم اس کے خیمے پر تشریف فرما ہیں۔
کوئی بھی معجزہ رونما ہوسکتا ہے۔ بڑی
سنجیدگی سے یوں جواب دیتی ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ محسوس
کرتے ہیں کہ اس کے تھن میں دودھ ہے؛ تو آپ
ضرور دوہ لیں!
اب ایک معجزہ کا ظہور ہونے جارہا ہے۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم
نے اس بکری کو پاس بلایا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا ، اللہ کا نام لیا اور
بارگاہ رب الغزت میں دعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلا دیا۔ تھن دودھ سے بھر گیا۔ پھر
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا برتن منگوایا، پھر اتنا دوہا کہ وہ برتن پورا لبریز ہوگیا۔
پھر اس خاتون کو دودھ پلایا؛ تا آں کہ وہ
آسودہ ہوگئیں۔ مینارۂ نور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وفا شعار ساتھیوں کو دودھ پیش
فرمایا، وہ سب بھی آسودہ ہوگئے۔ شفقت و
محبت کا پیکر صلی اللہ علیہ وسلم بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرتا رہا، دوسروں کو
سیراب کرتا رہا اور خود سب سے اخیر میں دودھ نوش فرمایا۔ پھر دوسری دفعہ اتنا دودھ دوہا
کہ برتن پھر بھر گیا۔ اس دودھ سے
بھرے برتن کو اُمّ معبد کے پاس چھوڑ کر، وہاں سے کوچ کرگئے۔
بس تھوڑی ہی دیر بعد اُمّ معبد کا شوہر (ابو معبد) اپنی کمزور
بکریوں کو، جو دبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں، ہانکتے ہوئے قدم رنجہ
ہوئے۔اب ( گھر میں بھرا کوزہ) دودھ دیکھا۔
(حیران و ششدر ہوکر )اپنی بیوی سے گویا ہوا: اے اُمّ معبد! کہاں سے تجھے یہ
دودھ ہاتھ لگ گیا؟ جب کہ (دودھ دینے والی)
بکریاں دور دراز تھیں۔ دودھ دینے والی بکری تو گھر میں نہیں تھی! امّ معبد جواب
دیتی ہیں: بات تو درست ہے، مگر بخدا ہمارے یہاں سے ایک مبارک شخص کا گزر ہوا ہے،
جس کی حالت ایسی ایسی تھی۔ اس نے امّ معبد سے کہا: اے ام ّمعبد! مجھے اس شخص کے
اوصاف بتاؤ!پھر اُمّ معبد گویا ہوتی ہیں۔ جو بھی الفاظ اس وقت امّ معبد کے زبان سے
ادا ہوتے ہیں، وہ تاریخ میں ریکارڈ ہوتے جارہے ہیں؛ تا آں کہ آج تک کتابوں میں
موجود ہیں۔ ہم بھی پڑھتے ہیں، آپ بھی پڑھتے اور
جن کو توفیق خداوندی ملے گی، رہتی دنیا تک پڑھیں گے۔ اُمّ معبد رضی اللہ
عنہا نے سب سے حسین و جمیل، جسیم و قوی، اعلی اخلاق و عمدہ کردار اورقابل تقلید اوصاف و کمالات کے حامل شخصیت کا
نقشہ کیسے کھینچا ہے، ملاحظہ فرمائے:
رَأَيْتُ رَجُلا ظَاهِرَ الْوَضَاءَةِ، أَبْلَجَ الْوَجْهِ، لَمْ
تَعِبْهُ نُحْلَةٌ، وَلَمْ تُزْرِ بِهِ صُقْلَةٌ، وَسِيمٌ قَسِيمٌ، فِي عَيْنِهِ
دَعَجٌ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ، وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ، وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ،
وَفِي لِحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ، أَزَجُّ أَقْرَنُ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ
الْوَقَارُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَا وَعَلاهُ الْبَهَاءُ، أَجْمَلُ النَّاسِ
وَأبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ، وَأَجْلاهُ وَأَحْسَنُهُ مِنْ قَرِيبٍ، حُلْوُ
المَنْطِقِ، فَصْلٌ لَا نَزْرٌ وَلا هَذَرٌ، كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ
يَتَحَدَّرْنَ، رَبْعَةٌ لَا يَأْسَ مِنْ طُولٍ، وَلا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ،
غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلاثَةِ مَنْظَرًا، وَأَحْسَنُهُمْ
قَدْرًا، لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ، إنْ قَالَ: أَنْصَتُوا لِقَوْلِهِ،
وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا لأَمْرِهِ، مَحْشُودٌ مَحْفُودٌ، لَا عَابِسٌ وَلا
مُفَنَّدٌ. (شرح السنۃ للبغوي 13/263، نمبر: 3704)
ترجمہ: "پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ پیٹ باہرکو
نکلاہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، زیبا،
صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن،
روشن مر دمک، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش وقار
کے ساتھ، گویا دل بستگی لئے ہوئے، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب، قریب سے
نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے
مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر
نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی، زیبندہ نہال کی تازہ شاخ، زیبندہ
منظر والا قد، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں، جب وہ کچھ کہتا ہے؛
تو چپ چاپ سنتے ہیں، جب حکم دیتا تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں، مخدوم، مطاع، نہ
کوتاہ سخن نہ فضول گو۔" (قاضی سلیمان منصورپوری، رحمۃ
للعالمین)
اُمِّ معبد کا بیاں تو پُر کشش تصویر ہے
ہر صفت ہے استعارہ ہے، پھیلتی تنویر ہے
(گوہر
ملسیانی)
آپ کے اخلاق عالیہ، اوصاف کریمہ اور خصائل شریفہ کا ذکر ہند بن ابی
ہالہ رضی اللہ عنہ نے بڑےجامع اور بلیغ انداز میں کیا ہے۔ ہند بن ابی ہالہ امّ المومنین سیّدہ خدیجہ رضی
اللہ تعالی عنہا کے فرزند ارجمند ہیں جو زوج سابق سے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ملاحظہ
فرمائیں:
"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِكْرَةِ لَيْسَتْ
لَهُ رَاحَةٌ، طَوِيلُ السَّكْتِ، لَا يَتَكَلَّمُ فِي غَيْرِ حَاجَةٍ، يَفْتَتِحُ
الْكَلَامَ وَيَخْتِمُهُ بِاشداقه ، وَيَتَكَلَّمُ بِجَوَامِعِ
الْكَلِمِ، كَلَامُهُ فَصْلٌ، لَا فُضُولَ وَلَا تَقْصِيرَ، لَيْسَ بِالْجَافِي
وَلَا الْمُهِينِ، يُعَظِّمُ النِّعْمَةَ، وَإِنْ دَقَّتْ لَا يَذُمُّ مِنْهَا
شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَذُمُّ ذَوَّاقًا وَلَا يَمْدَحُهُ، وَلَا
تُغْضِبُهُ الدُّنْيَا، وَلَا مَا كَانَ لَهَا، فَإِذَا تُعُدِّيَ الْحَقُّ لَمْ
يَقُمْ لِغَضَبِهِ شَيْءٌ حَتَّى يَنْتَصِرَ لَهُ، وَلَا يَغْضَبُ لِنَفْسِهِ،
وَلَا يَنْتَصِرُ لَهَا، إِذَا أَشَارَ أَشَارَ بِكَفِّهِ كُلِّهَا، وَإِذَا
تَعَجَّبَ قَلَبَهَا، وَإِذَا تَحَدَّثَ اتَّصَلَ بِهَا، وَضَرَبَ بِرَاحَتِهِ
الْيُمْنَى بَطْنَ إِبْهَامِهِ الْيُسْرَى، وَإِذَا غَضِبَ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ،
وَإِذَا فَرِحَ غَضَّ طَرْفَهُ، جُلُّ ضَحِكِهِ التَّبَسُّمُ، يَفْتَرُّ عَنْ
مِثْلِ حَبِّ الْغَمَامِ." (الشمائل المحمّدیّة للترمذي،
حدیث نمبر: 226، ط: المکتبة التجاریّة)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت آخرت کی فکر میں اور
امور آخرت کی سوچ میں لگے رہتے ۔اس کا ایک تسلسل قائم تھا کہ کسی وقت آپ کو چین نہ
ہوتاتھا۔ اکثر طویل سکوت فرماتے، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے تھے۔ گفتگو کا آغاز
فرماتے؛ تو دہن مبارک سے اچھی طرح الفاظ ادا فرماتےاور اسی طرح اختتام فرماتے۔ آپ
کی گفتگو اور بیان بہت صاف، واضح اور دو ٹوک ہوتا، نہ اس میں غیر ضروری طوالت ہوتی
نہ زیادہ اختصار۔ آپ نرم مزاج اور نرم گفتارتھے۔درشت خو اور بے مروّت نہ تھے۔ نہ کسی کی اہانت کرتے
تھے اور نہ اپنے لیے اہانت پسند کرتے
تھے۔نعمت کی بڑی قدر کرتےاور اس کو بہت زیادہ جانتےخواہ کتنی ہی قلیل ہو (کہ آسانی
سے نظر بھی نہ آئے) اور اس کی برائی نہ فرماتے۔ کھانے پینے کى چیزوں کی برائی کرتے
نہ تعریف،دنیا اور دنیا سے متعلق جو بھی چیز ہوتی، اس پر آپ کو کبھی غصہ نہ آتا؛
لیکن جب اللہ کے کسی حق کو پامال کیا جاتا؛ تو اس وقت آپ کے جلال کے سامنے کوئی
چیز ٹھہر نہیں سکتی تھی؛ یہاں تک کہ آپ اس
کا بدلہ لے لیتے۔ آپ کو اپنی ذات کے لیے نہ غصہ آتا، نہ اس کے لیے انتقام لیتے۔ جب
اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ جب کسی امر پر تعجب فرماتے تو اس
کو پلٹ دیتے۔ گفتگو کرتے وقت داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے
ملاتے۔ غصہ اور ناگواری کی بات ہوتی؛ تو روئے انور اس طرف سے بالکل پھیر لیتےاور
اعراض فرمالیتے۔خوش ہوتے تو نظریں جھکالیتے۔ آپ کا ہنسنا زیادہ تر تبسّم تھا، جس
سے صرف آپ کے دندان مبارک جو بارش کے اولوں کی طرح پاک و شفاف تھے ظاہرہوتے۔" (حضرت مولانا سید ابولحسن علی
ندوی، نبی رحمت، ص: 565-566)
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم حسین و جمیل ؛ بل کہ احسن و اجمل اور ہر طرح کے ظاہری و باطنی عیوب سے مبرّا تھے۔ آپ
کے رفیق اور وقت کے عظیم شاعر حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کی زبان جب آپ کی
شخصیت کو بیان کرنا شروع کرتی ہے؛ تو اس طرح کے اشعار نکلتے ہیں:
وأحسن منك لم تر قط عيني ــــ وأجمل منك
لم تلد النساء
خلقت مبرّءا من كل عيب ــــ كأنك قد
خلقت كما تشاء
ترجمہ: آپ سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے کبھی
نہیں دیکھا اور آپ سے زیادہ خوب صورت کسی خاتون نے نہیں جنا۔ آپ ہر طرح کے عیب سے
مبرا ہوکر پیدا کيے گئے، ایسا لگتا کہ آپ ویسے ہی پیدا ہوئے، جیسا کہ آپ نے چاہا۔
اللہ تعالی ہم سب کو خاتم الانبیاء والمرسلین
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے!
آمین!
(مضمون نگار
دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔)
No comments:
Post a Comment