علماء اور طلبہ کے محسن ومربّی
مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی –رحمہ اللہ– (۱۹۳۳ – ۲۰۱۸ء)
از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
ہند
بن ابی ہالہ –رضی اللہ عنہ– جناب محمد رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی
"گفتگو" کے اوصاف بیان کرنے ہوئے فرماتے ہیں: (ترجمہ) "رسول اللہ
–صلی اللہ علیہ وسلم– مسلسل غم میں مشغول رہتے، ہمیشہ فکرمند رہتے، آپ کے لیے راحت
نام کی کوئی چیز نہ تھی۔" (شمائل ترمذي، حدیث: ۲۲۶) مفکرملت حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی صاحب –رحمہ اللہ– اپنی مسلسل
علالت کے بعد، ۱۰/جولائی ۲۰۱۸ء کی
دوپہر کو، تقریبا پچاسی سال کی عمر میں، اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ رسول اللہ –صلی
اللہ علیہ وسلم– کے اندر، امّت کی فلاح وبھلائی کے لیے ہمیشہ فکرمند رہنے (دائم
الفکرۃ) کا جو وصف تھا، اس سے آپ کو وافر حصّہ ملا تھا؛ چناں چہ آپ عام طور پر
پوری امت کے لیے اور خاص طور پر علما وطلبہ کی صلاحیت وصالحیت اور علمی وفکری ترقی
کے حوالے سے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ جن حضرات کو حضرت کاپودرویؒ کی معیّت میسر ہے، چاہے چند ساعتوں کے
لیے ہی کیوں نہ ہو، وہ اس بات کی ضرور شہادت
دیں گے کہ واقعی وہ پوری امّت محمدیّہ اور خاص طور پر اس امّت کی کشتی کے
ناخداؤں یعنی علما وطلبہ کی صلاحیت وصالحیت، قابلیت واہلیت اور دینی غیرت وحمیت کے
حوالے سے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔ ان کی مجلس ہو یا پھر مدارس وجامعات کی کوئی
تقریب، جب وہ اپنی بات پیش کرتے؛ تو عصر حاضر میں علما وطلبہ کی تعلیم وتعلم میں
عدم دل چسپی اور دینی مدارس میں تعلیمی انحطاط کو اپنی گفتگو میں ضرور جگہ دیتے۔ بایں معنی راقم کو یہ کہتے ہوئے کوئی
جھجھک نہیں کہ آپ "جماعتِ علما وطلبہ کے محسن ومربّی اور خیر
خواہ تھے"۔
اگر علما وطلبہ کے اندر صلاحیت وصالحیت ہوگی؛ تو اس امّت کی
کشتی بہ آسانی ساحل تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر ان علما وطلبہ میں ہی کمزوری ہو؛ تو پھر
امت کی ناخدائی کون کرے گا اور امّت کی کشتی کو پار کون لگائے گا! اس کی اصل وجہ
یہ ہے کہ اس امت کی رہبری کی ذمے داری، اللہ تعالی نے اِنھیں حاملینِ کتاب وسنّت کے کندھوں پر رکھی ہے۔
حضرت کاپودرویؒ
کتاب وسنّت کے مستند عالم تھے۔ آپ
علم وتقوی سے مزیّن ایک عالم ربّانی تھے۔ آپ کی زندگی میں شریعت اور سنّت کی
پابندی قابل رشک حد تک پائی جاتی تھی۔ آپ
کے علم میں گہرائی وگیرائی تھی۔ آپ جب بھی کوئی بات کرتے؛ تو قرآن وحدیث پیش کرتے۔
اپنی گفتگو کے دوران عربی کے امثال ومحاورے اور خوب صورت جملے بھی پیش فرماتے۔ ان
کو علمی باتیں کرنا خوب پسند تھا۔ آپ جس مجلس میں ہوتے، میر مجلس کی حیثیت آپ ہی
کو حاصل ہوتی۔ اِن سب باتوں کے باوجود، آپ کی زندگی سادگی اور تواضع
وانکساری کا نمونہ تھی۔ چھوٹا ہو بڑا، جب جو آگیا، اس سے اسی وقت ملاقات کرلیتے۔
آپ آرام یا مطالعہ یا کسی اور مصروفیت ومشغولیت کا ذکر کرکے، ملنے سے گریز نہیں
کرتے۔ خاص طور پر کوئی اہل علم ملنے آتا؛ تو آپ بہت خوش ہوتے۔ کسی باصلاحیت عالم وفاضل کے بارے میں علم ہوتا کہ وہ "سورت"
و "بھروچ" وغیرہ کے علاقے میں تشریف فرما ہیں؛ تو ان کو دعوت دیتے، گھر
پر بلاتے، ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے اور دوران قیام ان کی ضیافت کرکے، ضیافت کا
حق ادا کردیتے۔
گجرات
کی بافیض دینی درس گاہ: "دار العلو مرکزِ اسلامی"، انکلیشور میں، درس
وتدریس ہر دو اعتبار سے راقم الحروف کا تقریبا پانچ سال تک قیام رہا۔ اس دوران
مختلف جگہوں پر، حضرت کاپودرویؒ کی تقریریں سننے کا موقع ملا۔
ہرتقریر کے بعد، دل یہ گواہی دیتا کہ یہ علما وطلبہ کے محسن ومربّی ہیں اور اپنی
بات میں بڑے مخلص ہیں۔ کسی کو ان کے بارے میں شکایت کرتے نہیں سنا۔ حقیقت یہ ہے کہ تواضع وانکساری، تقوی وپرہیزگاری، علم
وفضل اور لوگوں کے لیے خیرخواہی نے ان کو ہزاروں بندگانِ خدا کی نظر میں ایسا محبوب بنا
دیا تھا کہ لوگ آپ کے خلاف کچھ بولنا پسند نہیں کرتے تھے۔
حضرت کاپودرویؒ
سے راقم الحروف کی باضابطہ ملاقات کی تقریب یوں ہوئی کہ راقم نے عصر حاضر میں انگریزی
زبان وادب کی ضرورت واہمیت کے حوالے سے ایک مضمون تحریر کیا۔ "دار العلوم
مرکز اسلامی" کے مھتمم حضرت مولانا موسی صاحب –دامت برکاتہم– نے بذریعہ فون
آپ کو اس کی اطلاع دے کر، اجازت چاہی کہ آپ اس مضمون کی تصحیح کردیں۔ حضرت نے
بخوشی اجازت دی اور مضمون لیکر آنے کو کہا۔ پھر ایک دن مضمون لے کر، مھتمم صاحب کے
ساتھ، ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب ہم پہنچے؛ تو چائے وغیرہ کے بعد، حضرت کاپودرویؒ نے بندہ کا تعارف جاننا چاہا۔ بندہ نے
اپنا تعارف کرایا۔ پھر آپ نے مجھ سے مضمون پڑھنے کو کہا۔ بندہ نے مضمون پڑھ کر
سنایا۔ تقریبا پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل اُس
مضمون کو، حضرتؒ نے پوری دل جمعی کے ساتھ سنا اور متعدد
جگہوں پر تصحیح بھی کرائی۔ مضمون کے اختتام پر، حضرت نے احقر کی خوب حوصلہ افزائی
کی۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء!
حضرتؒ
کچھ مہینے ہندوستان میں رہتے تھے؛ جب کہ کچھ مہینے کنیڈا میں رہتے تھے۔ آپ جب بھی
ہندوستان میں ہوتے؛ تو ہم کسی موقع سے ان سے ملنے جاتے۔ ایک بار ہم حضرت مولانا
اسماعیل صاحب مانکروڈ –حفظہ اللہ–، ڈائریکٹر: دار العلوم مرکزِ اسلامی کی معیّت میں، رمضان میں، تراویح کے بعد کی مجلس میں حاضری کے لیے
پہنچے۔ بیان سے پہلے درود وسلام پڑھا گیا۔ پھر حضرتؒ نےاصلاحی بیان
شروع کیا۔ ہم لوگ حضرت کی بات سے مستفید ہوئے اور قلبی سکون حاصل کرکے لوٹے۔
ایک
بار حضرت کاپودرویؒ نے
خطیر رقم خرچ کرکے، بہ روز: جمعرات، ۲۷/نومبر ۲۰۰۸ء کو
"کاپودرہ" میں، اپنے گھر کے قریب "مسجد عائشہ" میں، ایک پروگرام
منقعد کیا۔ انھوں نے اس پروگرام میں، صوبہ گجرات میں واقع تقریبا سارے بڑے مدارس
اور دار العلوموں کے ذمے داران کو مدعو کیا۔ تقریبا 45/ ادارے کے نمائندوں نے
پروگرام میں شرکت کی۔ "دار العلوم مرکزِ اسلامی، انکلیشور، بھروچ" کی
طرف سے، حضرت مولانا یوسف صاحب اور حضرت مولانا ابراہیم صاحب –دامت برکاتہم– کی
معیّت میں، راقم الحروف نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی۔ پروگرام کے منعقد کرنے کا
مقصد کیا تھا؟ اس کی مختصر تفصیل ذیل میں پڑھیے اور حضرت کے اخلاص وللہیت، علم اور
علما وطلبہ سے محبّت اور اس محبّت کے نتیجے میں علما وطلبہ کی علمی صلاحیت اور
فکری آبیاری کے لیے ان کی فکرمندی کا ثبوت آپ بھی ملاحظہ فرمائے!
اس
پروگرام میں "دور حاضر میں علمی انحطاط اور طلبہ کی تعلیمی وتربیتی
ترقی" کے موضومع پر مذاکرہ ومناقشہ ہوا۔ اس پروگرام میں "اساتذہ کرام کا
آپس میں کسی موضوع پر مناقشہ ومذاکرہ سے گریز کرنا" جیسے موضوع پر بھی بات
چیت ہوئی۔
بحیثیت
صدرِمجلس، حضرت کاپودرویؒ نے پروگرام کے شرکاء کو جو مشورنے اور پیغام دیا، وہ بہت ہی مفید اور کار آمد
تھے۔ اس میں یہ پیغام بھی تھا کہ پر مدرسہ میں اساتذہ کرام کی "انجمن"
ہونی چاہیے۔ اس انجمن میں، مختلف علوم وفنون کی کتابیں دستیاب ہونی چاہیے اور ہند
وبیرون ہند سے شائع ہونے والے عربی اور اردو کا روزنامہ، ماہ نامہ، سہ ماہی وشش
ماہی: اخبارات اور جرائد ومجلّات منگوائے جائیں۔ اساتذہ ان کتابوں سے استفادہ کریں
کسی کتاب یا رسائل وجرائد میں دوران مطالعہ جو مضمون ومقالہ اور بحث وتحقیق طلبہ
کے لیے مفید اور مناسب معلوم ہو، اسے زیراکس کراکر، طلبہ کو سونپ دیا جائے اور
مطالعہ کا حکم دیا جائے۔ اس انجمن کے تحت، ہفتہ میں ایک دن سارے اساتذہ، پہلے سے
متعین موضوع پر تیّاری کرکے آئیں اور مباحثہ ومذاکرہ کریں۔ اس میں سارے اساتذہ کھل
کر حصّہ لیں۔ اساتذہ کی انجمن کے قیام کے لیے، شیخ نے اپنی طرف سے ہر مدرسہ کے ذمے
داران کو درجنوں کتابوں قیمتی کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا اور کہا کہ آپ فی الحال
ان کتابوں سے اپنی انجمن قائم کریں۔
اس پروگرام کی نوعیّت پر غور کریں!
زرِ خطیر خرچ کرکے، درجنوں مدارس کے ذمے داران کو اپنے گھر
پر مدعو کرنا، طعام وقیام کا انتظام
کرنا، ان کی بھلائی کے لیے ان کو صلاح ومشورہ دینا اور اخیر میں درجنوں قیمتی
کتابوں کا تحفہ دے کر، ادب واحترام کے ساتھ رخصت کرنا! سبحان اللہ! علما وطلبہ کی
فکری آبیاری اور ان کی علمی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے حوالے سے حضرت کاپودرویؒ کی فکرمندی اور
مخلصانہ کوشش کا یہ ایک نمونہ ہے۔ آپ کی یہ کوشش دیکھ کر، بلاتکلف زبان پر آتا ہے
کہ علما وطلبہ کی علمی صلاحیت اور تعلیمی ترقّی کے سلسلے میں، آپ کی یہ فکر، آپ ہی
کا حصّہ تھی۔ اللہ تعالی حضرت کو جنّت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے!
پروگرام
سے واپسی کے بعد، راقم الحروف نے دار العلوم مرکزِ اسلامی کے موقر مھتمم حضرت مولانا
موسی مانکروڈ صاحب –دامت برکاتہم– کو حضرت کاپودرویؒ کے صلاح ومشورے
کی اطلاع دی۔ حضرت مھتمم صاحب اس بات سے بہت خوش ہوئے اور انھوں نے "انجمن"
کے قیام کی منظوری دے دی۔ اس طرح حضرت کی تحریک پر "دار العلو م مرکزِ اسلامی" میں اساتذہ کی انجمن کا آغاز ہوا۔
کچھ
دنوں بعد، حضرت مھتمم صاحب کے صاحبزادے، حضرت مولانا اسماعیل صاحب –حفظہ اللہ– کی
معیّت میں، حضرت کاپودرویؒ سے ملاقات کے لیے ہم لوگ
"کاپودرا" گئے۔ حضرتؒ نے چائے وغیرہ سے ضیافت کی پھر ہم سے بات چیت میں
مشغول ہوگئے۔ دوران گفتگو راقم نے انجمن کا ذکر کیا؛ تو وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر
انھوں نے مطالعہ وغیرہ کے حوالے سے ہمیں بہت سی مفید باتیں بتائی۔ دوران گفتگو
گزشتہ صدی عیسوی کے مشہور محدّث ومحقّق شیخ ابو عبد الرحمن محمد ناصر الدین البانیؒ (۱۹۱۴ – ۱۹۹۹ء) کی تحقیق کی ہوئی "مشکاۃ المصابیح"
کا ذکر کیا۔ پھر آپؒ علامہ البانیؒ کے حوالے سے فرمانے لگے کہ اختلاف اپنی جگہ، مگر ہمیں کسی
کے علمی کام کا اعتراف کرنا چاہیے اور اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھنا چاہیے۔
حضرت کاپودرویؒ کی بات آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اللہ نے انسان کو جب عقل
سے نوازا ہے؛ تو ایک آدمی کی رائے، دوسرے شخص کی رائے سے مختلف ہوسکتی ہے۔ جب رائے
مختلف ہوگی، تو اختلاف ہونا ہی ہے۔ مگر
اختلاف کو اختلاف ہی رہنے دینا چاہیے۔ اسے "عناد" نہ بنانا چاہیے۔
اختلافِ رائے یا کسی معمولی کمی وکوتاہی کی
وجہ سے، کسی شخص کی شب وروز کی محنت کا
سرے سے انکار کردینا اور ان کی خدمات کے اعتراف سے صرف نظر کرنا، غیر منصفانہ عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت کاپودرویؒ کا
دل کسی طرح کے بھید بھاؤ اور تعصّب سے پاک تھا۔ آپ کسی کے بھی علمی کام کو قدر کی
نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ اپنے بڑوں کے مدّاح اور چھوٹوں کی حوصلہ افزائی اور
ان کی ترقی کی فکر کرتے تھے۔
بعد
میں بھی اساتذہ کی انجمن کے لیے آپؒ کتابوں کا ہدیہ بھیجتے رہتے تھے؛ چناں چہ
مختلف تاریخوں میں "جنگ: سیرتِ رسول کی روشنی میں"،
"اساتذہ کے لیے تربیتی واقعات"، "تفسیر عزیزی" اور
"نصیحۃ المسلمین" وغیرہ کتابیں آپ کی طرف سے انجمن کو دستیاب ہوئیں۔
حضرت
کاپودرویؒ سے آخری ملاقات دسمبر ۲۰۰۹ء میں،
"زامبیا" کے دار الخلافہ: "لوساکا" میں ہوئی۔ اُن دنوں حضرتؒ "زامبیا" کے دورے پر تھے۔ ایک روز بعد نماز عشاء، آپ کی مجلس میں
حاضری کا موقع ملا۔ مجلس کے اختتام پر آپ سے ملاقات ہوئی۔ پھر آپ کہنے لگے کہ اِن افریقی ممالک میں کام کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں کام کرنے
والوں کو سخت محنت کرنی ہوگی؛ تب نتیجہ سامنے آئے گا۔ اِسی سلسلہ میں "زامبیا"
کے ایک شہر "پیٹاؤکے" سے متصل "اَنوسا" میں قائم، ایک اسلامی
اسکول کے حوالے سے حضرت نے بتایا کہ کئی سال پہلے جب وہ یہاں آئے تھے؛ تو اُس ادارہ کی زیارت (Visit) مشہور خطیب حضرت مولانا عبد المجید ندیم صاحبؒ کی معیّت میں کی تھی۔ وہاں
تعلیم حاصل کررہے مقامی طلبہ کی تعلیم وتربیت اور اردو زبان میں نظم ونعت خوانی کی
بہت تعریف کی اور خوشی کا اظہار کیا۔ آپؒ نے اُس ادارہ کے موسّس وناظم جناب حافظ
اسماعیل منشی صاحبؒ (۱۹۵۰ – ۲۰۱۵ء) کی انتھک محنت اور طریقہ کار کو
سراہا۔ حافظ صاحبؒ نے، حضرت کے زیرِاہتمام، دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات سے حفظ
وقرات کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اللہ تعالی ان کی محنت کو قبول فرمائے اور جنّت
الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے!
حضرت
کاپودرویؒ ایک جہاں دیدہ اور تجربہ کار شخص تھے۔ آپ ایشیائی، عرب، افریقی اور
یورپی ممالک کا دورہ کرتے رہتے تھے۔ آپ جہاں بھی تشریف لے جاتے، وہاں کی علمی
شخصیّات سے ملاقات کرتے۔ آپ وہاں کی لائبریریوں کی زیارت کرتے۔ آپ وہاں کے بازاروں
میں نئی طبع شدہ کتابوں کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے اور اپنے پسند کی کتابیں
خریدتے۔ کسی بھی سفر میں اس طرح کی مشغولیات، آپ کے ترجیحی پروگرام میں شامل
ہوتیں۔ "کاپودرا" میں آپ کے ذاتی کتب خانہ میں، مختلف علوم وفنون کی
ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔
حضرت
کاپودرویؒ کتابیں خریدنے کے ساتھ مطالعہ
کرنے کے بھی عادی اور خوگر تھے۔ علما وطلبہ کو بھی مطالعہ کرنے کی بہت ترغیب دیتے
تھے۔ جب کوئی نئی کتاب یا پرانی ہی کتاب، مگر کسی ماہر فن کی تحقیق وتخریج کے ساتھ
چھپتی؛ تو اپنی مجلس میں علماء وطلبہ کے سامنے اُس
کتاب کا ضرور ذکر کرتے اور مطالعہ کی رغبت دلاتے۔ یہ بات
صرف مجلس ہی تک محدود نہیں رہتی؛ بل کہ خطوط اور مظامین میں بھی مناسبت سے اسماء
کتب کا ذکر کرتے اور مطالعہ کی سفارش کرتے؛ چناں چہ "ری یونین" کے
سفرنامہ: "آتش فشاں کے ملک ری یونین میں" ایک جگہ آپؒ لکھتے ہیں:
"ہمارے طلبہ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ مسجد کے
موضوع پر یہ کتابیں بہت معلومات افزا ہیں:
(۱) المسجد ودوره في التربیة والتوجیه، از:
صالح بن عالم، (۲) المسجد ودوره التعلیميّ عبر العصور، عبد
اللہ قاسم ابو شلبی (۳) رسالة المسجد في
الإسلام، د. عبد العزیز محمد، (۴)
دور المسجد في التربیة، عبد الله أحمد القادری، (۵)
مناهج التعلیم في المساجد وأسلوب التدریس فیها،
(۶) الدور التربويّ للمسجد، د. علی جاد أحمد،
(۷) التعلیم في الکتاتیب والحجرات والخلاوي،
(۸) المسجد وأثره في تربیة الأجیال ومؤامرة
أعداء الإسلام علیه، عبد الله قاسم۔"
اسماء
کتب تحریر کرنے کے بعد، آپؒ لکھتے ہیں:
"خدا کرے کوئی شوقین طالب علم ان کتب جدیدہ کو منگوا کر، استفادہ کرے کہ علم
تو مختلف کتابوں کے مطالعہ سے ہی بڑھتا ہے۔" (افکار پریشاں، ص: ۲۵۹)
ابو ظبّی کے شہر: "العین" میں، حضرت مولانا ڈاکٹر
محمد تقي الدین ندوی مظاہری صاحب –دامت برکاتہم– کی قیام گاہ کا ذکر کرتے ہوئے
اپنے سفرنامہ: "متحدت عرب امارات میں چند دن" میں، آپؒ رقم طراز ہیں:
"مولانا
مدّظلّہ کے کتب خانے میں بعض نئی کتابیں نظروں سے گزریں، ان میں سے بعض ہمارے
مدارس کے لیے بڑی مفید ہیں، مثلا:
(۱) غبطة القاری ببیان إحالات فتح الباری،
از: ابو صہیب العدوي، مکتبة العلم، جدة، (۲) المعلم
بفوائد مسلم، للإمام أبي عبد اللہ محمد بن علي، (۳) الحدیث الشریف وتحدّیات العصر، (۴) تعلیق التعلیق علی سنن أبي داؤد، مکتبة
الرشد، الرّیاض(۵) الفكر والسّلوك السیاسي عند أبي الحسن
النّدوي، دار القلم، بیروت (۶)
الدولة الأمویّةعوامل الإزدهار وتداعیات الانهیار، مكتبة الصّحابة، الشارقة (۷) الشیخ محمد یوسف الكاندهلوي: حیاته ومنهجه في الدعوة، دار
البشائر، (۸) نظرات جدیدة في علوم الحدیث، دار ابن
حزم۔" (افکار پریشاں، ص: ۲۰۹)
حضرت
کاپوردروی ؒ کو مختلف اداروں اور جگہوں سے شائع ہونے والے رسائل ومجلّات کی خوب
خبر رہتی تھی۔ آپ پابندی سے مجلّات ورسائل کا مطالعہ کرتے تھے۔ آپ علماء کرام کو
دینی رسائل ومجلّات کے مطالعہ کرنے کا مشورہ بھی دیتے تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو
عربی واردو: ہر دو زبانوں میں مضامین ومقالات تحریر کرنے کا خوب سلیقہ اور ہنر
ودیعت کیا تھا؛ چناں چہ آپ گاہ بہ گاہ مختلف موضوعات پر مضامین ومقالات بھی قلم بند
کرتے رہتے تھے۔ الحمد للہ، آپ کے مضامین ومقالات کو مختلف جرائد ورسائل بڑی اہمیت
ووقعت سے شائع کرتے تھے۔
ایک بار رسائل ومجلّات کے حوالے سے آپ گفتگو کر رہے تھے۔
دوران گفتگو آپ نے دہلی سے شائع ہونے والا مجلّہ "اردو بک ریویو" کا
اچھا خاصا تعارف پیش کیا۔ اس مجلّۃ میں نئی شائع ہونے والی کتابوں کے تعارف اور
مجلّۃ میں استعمال ہونے والی زبان وغیرہ پر تبصرہ کیا۔ آپ نے اس بات پر بھی زور
دیا کہ ہر مدارس وجامعات کی لائبریری میں، یہ مجلّہ آنا چاہیے۔ لائبریرین (Librarian) کو اس مجلّہ کا
مطالعہ کرنا چاہیے اور پھر لائبریری کے لیے جو کتاب مناسب ہو، اسے حاصل کرکے
لائبریری کی قدر وقیمت میں اضافہ کرنا چاہیے۔
ادبی، اصلاحی،
علمی ودینی جرائد ورسائل اور مجلّات میں شائع ہونے والے مضامین ومقالات کا مطالعہ
بہت مفید ہوتا ہے۔ قاری کو متعدد موضوعات پر، مرتّب انداز میں اچھا خاصا مواد
فراہم ہوجاتا ہے۔ جرائد ورسائل کے مطالعے سے، قاری کو متعدد قلم کاروں کی فکر سے
آگاہی حاصل ہوتی ہے اور "حالات حاضرت" (Current Affairs) سے بھی واقفیت
رہتی ہے۔
تدریسی وانتظامی مشغولیات اور
مستقل دعوتی واصلاحی اسفار کے باوجود، ہم خردوں کے لیے آپ کی جو تصنیفی وتالیفی
خدمات ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں: (۱)أضواء علی تاریخ الحركة العلمیّة والمعاهد الإسلامیة والعربیّة في غجرات، الهند، (۲) علامہ بدر الدّین عینی اور علم حدیث میں ان کا نقش
دوام، (۳) علامہ قطب الدّین نہروالی اور ان کی علمی خدمات، (۴) علّامہ یوسف بنوری
اور خدمات حدیث، (۵) رُشد وہدایت کے منار جن سے مین نے کسبِ فیض کیا، (۶) حضرت حاجی امداد اللہ اور ان کے نامور خلفاء (گجراتی)، (۷)
دیوان امام شافعی (ترجمہ وتشریح)، (۸) افکار پریشاں (دو جلد)، (۹) صدائے دل (چار
جلد)۔
آپؒ بہ روز: منگل، ۱۰/ جولائی ۲۰۱۸ء کو
تقریبا ۴/ بجے شام، اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ کی نماز جنازہ، حضرت مولانا مفتی
احمد خانپوری صاحب –حفظہ اللہ–، شیخ الحدیث: جامعہ تعلیم الدّین، ڈابھیل ورکن
شوری: دار العلوم، دیوبند نے پڑھائی۔ پھر ہزاروں علما، طلبہ اور عوام نے نم آنکھوں
کے ساتھ، آپ کو "کاپودرا" میں سپرد خاک کردیا۔ آپ کبھی لوٹ کر نہیں آئیں
گے۔ آپ کی یادیں، باتیں، اخلاق حسنہ اور علما وطلبہ کے لیے آپ کی فکرمندی وقربانی
ہمیشہ یاد آئے گی۔ آپ جیسے محسن ومربّی کے رخصت ہونے کا غم، علما وطلبہ کی جماعت
کو ایک طویل مدّت تک رہے گا۔ آپ کی جدائی پر، اہل علم اپنی تسلّی کے لیے ابو طیّب
احمد بن الحسین الجعفي الکندي (۳۰۳ – ۳۵۴ھ) کے اس شعر کو ہی پڑھیں گے:
سُبِقنا
إلى الدّنيا فلو عاش أهلُها ... منِعْنا بها
من جيئَةٍ وذهوبِ
یعنی
ہم سے پہلے بہت سے لوگ گزر گئے، اگر یہ سب اہالیان زمین زندہ ہوتے؛ تو ہمارے لیے
آنا جانا مشکل ہوجاتا۔
حضرت
کاپودرویؒ کے سوانحی نقوش
آپؒ
کی پیدائش سن۱۹۳۳ء میں، "ہیہو" (Heho) ،
"برما" میں ہوئی، جہاں آپ کے والد ماجد بسلسلۂ تجارت مقیم تھے۔ سن ۱۹۳۵ء
میں پورا کنبہ "برما" سے ہندوستان واپس آکر، "کاپودرا" میں
مقیم ہوگیا۔ آپ نے قرآن کرمی کی ناظرہ اور اردو کی ابتدائی تعلیم "مدرسہ
اسلامیہ، کاپودرا" میں حاصل کی۔ آپ نے سن ۱۹۴۴ء میں "جامعہ تعلیم الدین،
ڈابھیل" میں داخلہ لیا اور فارسی سے مختصر القدوری (سوم عربی) تک کی تعلیم
حاصل کی۔ پھر سن ۱۹۴۸ء میں دار العلوم،
دیوبند میں، کنز الدقائق کی جماعت (چہارم عربی) میں داخلہ لیا اور تعلیم حاصل کی۔
پھر اگلے سال (۱۹۴۹ء) میں آپ نے دار العلوم میں ہی نور الانوار اور المقامات
الحریریۃ وغیرہ (پنجم عربی) پڑھا۔ پھر آپ خرابی صحت کے سبب گھر واپس چلے گئے۔ جب
آپ رو بصحت ہوئے؛ تو دوبارہ "جامعہ ڈابھیل" میں داخلہ لیا۔ سن۱۹۵۳ء میں
آپ نے درسِ نظامی کی رسمی تکمیل جامعہ ڈابھیل سے کی۔
رُشد وہدایت کے منار جن سے آپ نے کسبِ فیض کیا، وہ جناب حافظ ابراہیم عمرواڈوی صاحبؒ، مولانا داؤد
کفلیتوی صاحبؒ، مولانا عبد
الحي صاحبؒ، قاری بندہ الہی
صاحبؒ، قاری حسن
میرٹھی صاحبؒ، مولانا ابراہیم
صوفی صاحبؒ، مولانا نصیر
احمد خان صاحبؒ، (سابق شیخ
الحدیث: دار العلوم، دیوبند)، مولانا فخر الحسن صاحبؒ، مولانا نعیم دیوبندی صاحبؒ، مولانا معراج
الحق صاحبؒ، مولانا محمود صاحبؒ، مولانا عبد
الرؤف صاحبؒ، مولانا عبد
الجبّار صاحبؒ، مولانا فضل
الرحمن دیوبندی صاحبؒ، مولانا فخر
الدین صاحبؒ، مفتی مہدی حسن صاحبؒ اور شیخ محمود
طنطاوی صاحبؒ (مصری) ہیں۔
آپؒ کی تدریسی وانتظامی خدمات: فراغت کے بعد، آپ "مجلس
خدّام الدین، سملک" اور "جامعہ ڈابھیل" میں تدریسی خدمات میں مشغول
ہوگئے۔ پھر ان اداروں سے مستعفی ہوکر، آپ نے
۱۹۵۶ء میں مجلّہ "تبلیغ" میں نائب مدیر کی حیثیت
سے کام کیا۔ پھر دیوبند جاکر، دو سال "دار العلوم، دیوبند" میں کبار
اساتذۂ کرام سے استفادہ کیا۔ دیوبند سے لوٹنے کے بعد، آپ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۵ء تک (پانچ
سال) "جامعہ ڈابھیل" میں، خدمات انجام دی۔ جنوری ۱۹۶۶ء میں "دار العلوم فلاح دارین"، ترکیسر
میں تدریسی خدمات کے لیے بلائے گئے۔ پھر مارچ ۱۹۶۶ء میں اہتمام کی ذمے داری آپ کے
سپرد کردی گئی۔ سن ۱۹۶۶ء سے مستقل ۲۷/سال تک، آپ "فلاح دارین" میں
تدریسی وانتظامی ذمے داریاں بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔
آپؒ
نے اپنے دورِاہتمام میں مختلف علوم وفنون کے ماہر اساتذہ کی تقرری، طلبہ میں پڑھنے لکھنے
کا عمدہ ماحول اور ادارہ میں صفائی وستھرائی کا بہترین نظام قائم کرکے، بجا طور پر
"فلاحِ دارین" کو مثال میں پیش کیے جانے کے لائق بنا دیا۔پھر کیا ہوا؟ ادارہ کو
بام عروج پر پہونچاکر، آپ بغیر کسی دباؤ کے عہدۂ اہتمام سے مستعفی ہوگئے؛ لیکن ادارے
سے وہی محبّت اور اس کی کام یابی کی وہی فکر جو پہلے ہوا کرتی تھی، الحمد للہ۔
٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا
No comments:
Post a Comment