Saturday, February 11, 2023

دُرُود وسَلام کا حکم، اہمیت اور فضیلت


 

توبہ کی حقیقت اور اس کے فوائد



 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار

 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار

 

خورشید عالم داؤد قاسمی٭

 

غاصب اسرائیل کی اس نئی حکومت کی تشکیل کو ابھی ایک ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔ اس حکومت میں کئی شدت پسندوں کو کابینی وزیر بنایا گیا ہے۔ اتمار بن گویر کو قومی سلامتی کا وزیر بنایا گیا ہے۔ اس شخص کی شدت پسندی سے ہر کوئی واقف ہے۔ اس شخص نے وزیر بنتے ہی دو دنوں بعد، مسجد اقصی میں در اندازی کرکے، ماحول کو پراگندہ کیا۔ پھر وہاں سے حالات بگڑنے شروع ہوئے۔ گذشتہ جمعرات، یعنی 26 اور27  / جنوری 2023  کی درمیانی رات میں، غاصب اسرائیل کی قابض صہیونی فوج نے فلسطین کے "جنین شہر" کے "شفاعت پناہ گزیں کیمپ" میں داخل ہوگئی۔ فوج کیمپ میں واقع مکانات کی چھتوں پر چڑھ گئی۔ انھوں نے گولیوں اور گیس بموں سے شدید دہشت گردانہ حملہ شروع کردیا۔ فوج نے جنین کیمپ میں بجلی کی سپلائی بھی منقطع کردی۔ اس حملے میں 9 / معصوم فلسطینی شہید ہوئے۔ ان میں آٹھ مرد: وسیم جعص، عز الدین صلاحات، صالب ازریقی،محمد صبح،عبد اللہ الغول،محمد غنیم،معتصم ابو الحسن،نور زعیم  اور ایک بوڑھی خاتون: ماجدہ عبید شامل ہیں ۔ اس حملے میں متعدد لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ قابض فوج بلڈوزر کا استعمال کرکے جنین گورنمنٹ ہسپتال کے قریب کئی گاڑیوں اور دکانوں کو بھی  مسمار کیا۔ فلسطینی وزارت صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، سال رواں یعنی 2023 کا ابھی ایک مہینہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے؛ مگراب تک  29 فلسطینی قتل کیے جاچکے ہیں۔

 

"جنین" میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردانہ کاروائی  کے بعد، غزہ کی پٹی سے، القسام کی طرف سے اسرائیلی شہروں پر کچھ میزائل  اور راکٹ فائر کیے گئے۔ پھر اسرائیل کی دہشت گردی صرف جنین شہر اور کیمپ تک ہی محدود نہیں رہی؛ بل کہ صہیونی فوج نے بہ روز: جمعہ، 27 / جنوری کو، غزہ کی پٹی کے وسطی علاقوں پر بھی بمباری کی اور میزائل داغے۔  اسرائیل عام طور پر غزہ کی پٹی میں فضائی حملہ کرتاہے؛ چناں چہ اس بار بھی اس نے لڑاکا طیارہ کے ذریعے فضائی حملہ شروع کردیا۔   القسام نے اپنی طاقت کے بقدر اپنے شہریوں کا دفاع کرتے ہوئے، طیارہ شکن میزائلوں سے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کا مقابلہ کیا۔

 

حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ غاصب اسرائیل بم اور میزائل سے معصوم فلسطینی شہریوں  پر حملہ کرتا تھا اور اسرائیلی شہری اونچی جگہوں اور پہاڑوں پر جاکر، اس حملے کو دیکھ کر، خوشی مناتے تھے۔ اب صورت حال بدلتی نظر آرہی ہے۔ اب کسی نہ کسی حد تک فلسطینیوں کی طرف سے میزائل اور راکٹ سے اسرائیلی شہروں پر حملہ کرکے، جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب اسرائیلی شہری اونچی جگہوں پر بیٹھ کر، فلسطینیوں پر ہو رہے ریاستی دہشت گردانہ حملے کو دیکھ کر، لطف اندوز نہیں ہوتے ہیں؛ بل کہ اب جوں ہی غزہ کی طرف سے میزائل داغے جاتےہیں؛ تو غزہ کے ارد گرد واقع اسرائیلی شہروں میں سائرن بجائے جاتے اور اسرائیلی شہری زیر زمین بنے حفاظتی جگہوں میں چھپنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ چناں چہ جمعہ کو غزہ کی پٹی سے القسام کے جوانوں نے جب میزائل اور راکٹ فائر کرنے شروع کیے؛ تو اسرائیلی شہروں میں سائرن بجنے لگے۔

 

ان دو حملوں کے بعد، عالمی سطح پر غاصب اسرائیل کی جو مذمت کی جانی چاہیے تھی، اسے اس دہشت گردانہ کاروائی سے روکنے جو کوشش کی جانی چاہیے تھی اور اسرائیل پر جو دباؤ بنایا جانا چاہیے وہ نہیں ہوسکا۔ اس طرح کے دہشت گردانہ حملے کے باوجود اکثر ممالک خاموش نظر آئے۔ امریکہ نے تمام فریقوں سے پر امن رہنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے  کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔  ترجمان نے کہا کہ ہم تمام فریقوں سے کشیدگی میں کمی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں؛ تاکہ شہریوں کی جانوں کے مزید نقصان کو روکا جاسکے۔ غاصب اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف لڑاکا طیارہ سے بمباری کرے اور میزائل داغے، پھر ایسے موقع سے امریکہ کا تمام فریقوں سے پر امن رہنے کا مطالبہ کرنا، غاصب و مغصوب، ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول: سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔

 

اب دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ بروز: جمعہ، 27 /جنوری کی شام کو، مشرقی القدس میں، "نبی یعقوب" نامی بستی کےقریب،"الرام" قصبے میں، ایک عبادت گاہ کے پاس، بندوق سے فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس فائرنگ میں سات لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں؛ جب کہ دس افراد زخمی ہوتے ہیں۔ یہ سب ہلاک اور زخمی ہونے والے غیر قانونی آباد کار صہیونی ہیں۔ صہیونی پولیس بندوق بردار کا تعاقب کرکے، اسی وقت اس کو شہید کردیتی ہے۔ وہ بندوق بردار مسلمان تھا۔ وہ خیری علقم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ  ایک اکیس سالہ جوان تھا۔ وہ جنین یونیورسیٹی میں انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ تھا۔ وہ مشرقی بیت المقدس میں، الطور کا رہائشی تھا۔ مشرقی بیت المقدس سن 1967 ء سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضہ میں ہے۔  شوٹنگ کے بعد، صہیونی پولیس نے پوچھ تاچھ کے نام پر، مشرقی بیت المقدس سے 42 / افراد کو گرفتار کیا ہے۔  ان گرفتار ہونے والوں میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں، جو شہید خیری کے پڑوسی ہیں۔

 

خیری علقم کی فائرنگ کے بعد، فلسطینیوں کایہ  تاثر ہے کہ جنین شہر اور پناہ گزین کیمپ  پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا یہ ردّ عمل ہے؛ چناں چہ فلسطینیوں میں خوشی کا ماحول دیکھنے میں آیا۔ غزہ کی پٹی میں جشن منایا گیا۔ فلسطین کی "الحرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ" یعنی حماس نے غاصب صہیونیوں کے خلاف  خیری کی فائرنگ پر، قوم کو مبارک باد پیش کی ہے۔  حماس نے حملہ کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی کا فطری ردّ عمل  قرار دیا ہے۔سلطنت عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمد الخلیلی (حفظہ اللہ)نے علقم آپریشن کو قابل تحسین گردانا ہے۔ انھوں نے  ایک ٹویٹ میں کہا ہے: "ہم مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کے اندر اور قابل فخر غزہ میں، بہادرانہ مزاحمت کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں"۔ انھوں نے مزید فرمایا: "ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ جلد از جلد فلسطینی قوم کو فتح عطا فرمائے اور قابض دشمن کو نیست ونابود کردے ؛ تاکہ قابض ریاست کی فلسطین کی سرزمین پر حکمرانی کا خاتمہ اور ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہوسکے"۔

 

بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا؛ لہذا ان کے علم میں لانے کے لیے یہ یہاں ذکر کردینا مناسب ہے کہ ماضی میں، فلسطینی نوجوان"خیری علقم" کاگھر اسرائیلی دہشت گردی کا کس طرح شکار ہوچکا ہے۔ پہلے یہ سمجھیں کہ خیری علقم کے دادا کا نام بھی خیری علقم ہی تھا۔ یہ عرب کی روایت ہے کہ گھر کے بڑے لڑکے کو وہی نام دیا جاتا ہے، جو اس کے دادا کا نام ہوتا ہے۔ روایت کی پاسداری کرتے ہوئے، اس لڑکے کو خیری علقم نام دیا گیا ہوگا۔ خیری (دادا) ایک مزدور طبقے سے تھے۔ دادا خیری علقم پر ایک دہشت گردانہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ یہ سن 1998 ء کی بات ہے۔ ایک دن خیری اپنے گھر سے نکلے۔ وہ مزدور تھے۔ وہ کام کرنے جا رہا تھے۔ راستے پر ان کا سامنا ایک دہشت گرد اسرائیلی صہیونی آباد کار سے ہوا۔ اس صہیونی دہشت گرد نے خیری کے ساتھ  دوسرے  تین اور فلسطینی مسلمانوں پر چاقو سے حملہ کردیا۔ خیری مرحوم اور دوسرے تین فلسطینی اس قاتلانہ حملہ سے بچ نہ سکے اور سب شہید ہوگئے۔اس چاقو سے حملہ کرنے والے اسرائیلی صہیونی  دہشت گرد کا نام ہیم فیرلمین ہے۔ اسی شہید خیری علقم کا پوتا ہے یہ خیری علقم ہے۔ اسرائیلی پولیس آج تک اس قاتل کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی؛ جب کہ اس قتل کو تقریبا 25 سال ہوچکے ہیں۔

 

ذرا غور کیجیے! ایک ایسی قوم کا  جوان جس کے جان کی کوئی قیمت نہ ہو،اس کی  زمین ایک غاصب حکومت نے غصب کرلیا ہو،اس کی عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا گیا ہو، مسجد اقصی میں اس کو جانے کی آزادی نہیں ہو،اس کے کھیتوں میں لہلہاتی فصل کو صہیونی فوج اور اسرائیلی صہیونی آباد کار تباہ کردیتے ہوں، شب وروز اس کی قوم پر ظلم کیا جاتا ہو، ان کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہو، اس کی قوم کو  ایک انسان کی طرح رہنے کا حق نہیں دیا جاتا ہو، اس قوم کو امید کی کوئی کرن نہیں دکھائی دیتی ہو۔ پھریہ ایک بہت اہم  سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے ایک جوان کا کیا ردّ عمل ہوگا؟ ایسا تو نہیں کہ غاصب اسرائیلی ریاست کے ظلم وجبر سے تنگ آکر اور یاس وناامیدی کا شکار ہوکر، خیری علقم نے یہ قدم اٹھایا ہو؟

 

خیری علقم کی فائرنگ سے سات صہیونیوں کے قتل کے بعد، جو ردّ عمل دیکھنے میں آرہا ، وہ بہت ہی قابل غور ہے۔ شوٹنگ کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم، نتن یاہو فورا جائے وقوع پر پہنچا۔ اس نے حملہ آوروں کے خلاف سخت اور پرسکون ہوکر، کاروائی کرنے کا عزم کیا ہے۔  وزیر اعظم نے کہا کہ حکام نے فوری کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ امریکہ القدس میں ایک عبادت گاہ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتا ہے۔ نائب ترجمان نے ایک پریس بیان میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکی حکام اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق حملہ کے بعد، امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم سے بات چیت کی۔ انھوں  نے آنے والے دنوں میں اسرائیلی حکومت اور شہریوں کو تعاون کے تمام مناسب ذرائع کی پیشکش کی۔ خود امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر، ایک پوسٹ میں اس حملے کی مذمت کی ہے۔مسٹر بلنکن طے شدہ پروگرام کے مطابق اگلے ہفتے اسرائیل کے دورے پر جانے والے ہیں۔ امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجینسی کے  سابق ڈائریکٹر اور امریکہ کے سابق وزیر خارجہ مایک پومپئو نے بھی اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ  پر، ایک پوسٹ میں اس حملے کو یہودیوں کے خلاف ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ اس نے مزید لکھا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔

 

یورپی یونین کا بھی مضحکہ خیز بیان آیا ہے۔ یونین نے اسرائیل کو یہ بھی بتایا ہے کہ کس صورت میں وہ جان لیوا اور مہلک طاقت استعمال کرے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ، جوژف بوریل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "یورپی تنظیم اسرائیل کے جائز سکیورٹی خدشات کو مکمل طور پر تسلیم کرتی ہے، جیسا کہ حالیہ دہشت گرد حملوں سے ظاہر ہوتا ہے؛ لیکن اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ جان لیوا طاقت کو صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائےاور جب زندگی کے تحفظ کے لیے سختی سے ناگزیر ہو؛ تو پھر مہلک طاقت کو استعمال کیا جائے"۔

 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب رات میں سوئے ہوئے معصوم فلسطینیوں پر فائرنگ کی جاتی ہے، آنسو گیس کے گولے داغے جاتے ہیں اور کئی لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے؛ تو دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ مگر جب ایک فلسطینی لڑکا خیری علقم شوٹنگ کرتا اور اسرائیل کے سات شہری قتل ہوتے ہیں؛ تو پھر مذمتی بیانات دیے جاتے ہیں۔اس حملہ کو یہودیوں کے خلاف دہشت گردانہ حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیل کو مدد کی پیشکش کی جاتی ہے۔ یہ کھلا ہوا نفاق اور دوغلہ پن نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ دنیا کے طاقتور ممالک اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی پر لگام لگاتے اور  فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دلوانے کی کوشش کرتے؛ تا کہ کسی بھی انسان کی جان بم بارود، میزائل وراکٹ اور بندوق کی گولیوں کی نذر نہ ہوتی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو فلسطینیوں کو خاموش کرنا آسان نہیں ہے۔ ●●●●

 

٭مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار


 

موجودہ اسرائیلی حکومت، مختلف ممالک کی تشویش اور فلسطینیوں کا امتحان

 

موجودہ اسرائیلی حکومت، مختلف ممالک کی تشویش اور فلسطینیوں کا امتحان

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

 

غاصب اسرائیل میں نئی حکومت تشکیل دی جاچکی ہے۔ یہ حکومت ایک بار پھر "لیکوڈ" پارٹی کے چیرمین بنجامن نیتن یاہو کی قیادت میں، 29/دسمبر 2022 کو تشکیل دی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی نیتن یاہو نے بحیثیت وزیر اعظم پانچ بار غاصب و قابض اسرائیل کی حکومت کی قیادت کی ہے۔ یہ چھٹی بار اس شخص نے وزارت عظمی کا حلف لیا ہے۔ اس حکومت میں جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ اس بار نیتن یاہو نے جن پارٹیوں کی حمایت سے حکومت سازی کی ہے وہ پارٹیاں نہایت ہی دائیں بازو کی ہیں۔ ان پارٹیوں کے قائدین نے ماضی میں نہایت ہی شدت پسندانہ موقف کا اظہار کیا ہے۔ پھر ان پارٹیوں کے جن شدت پسند ارکان کو کابینی وزراء بنایا گیا ہے، وہ نہایت ہی قوم پرست، سخت گیر، صہیونی اور رجعت پسند ہیں۔ ان کابینی وزراء میں جُوِش پاور پارٹی کا اتمار بین گویر، شاس پارٹی کا آریہ ڈیری، ریلیجس زائنزم پارٹی کا بینزل اسموٹرچ اور یوان گلانٹ جیسے لوگ شامل ہیں۔

 

اتمار بین گویر کو قومی سلامتی کا وزیر بنایا گیا ہے۔ یہ شخص وزارت کا حلف اٹھانے کے دو ہی دنوں بعد، عالمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، 3/ جنوری 2023 کو مسجد اقصی میں اشتعال انگیز در اندازی کا ارتکاب کیا۔ مسجد اقصی میں کسی اسرائیلی وزیر کا داخل ہونا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور مسجد اقصی کی تاریخی حیثیت کے خلاف ہے۔ اس وزیر کی اس اشتعال انگیز در اندازی کے ارتکاب کے بعد، مختلف ممالک نے اپنی تشویش  اور بے چینی کا اظہار کیا ہے اور اس در اندازی کی مذمت کی ہے۔ واضح رہے کہ مسجد اقصی مسلمانوں کی تیسری اہم عبادت گاہ ہے جو مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں قابض اسرائیل نے مشرقی حصہ کو بھی قبضہ کرلیا؛ مگر اس کے باوجود دہائیوں سے مسجد اقصی میں صرف مسلمانوں کو ہی داخل ہونے کی اجازت ہے۔

 

اس شدت پسند وزیر کی در اندازی پر فلسطینی وزارت خارجہ نے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی رہنماؤں نے اس در اندازی کو غیر معمولی اشتعال انگیز اقدام قرار دیا ہے۔متحدہ عرب امارات، اردن،  اسلامی جمہوریہ مصر اور سعودی عرب نے بھی وزیر کے اس دورے سے پیدا ہونے والے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ ترکی نے اس دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر کے دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔اس حوالے سے امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ بھی ناراض دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ نے اتمار بین گویر کے مسجد اقصی کے احاطے کے اشتعال انگیز دورے کے بعد، 3/ جنوری 2023 کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ یروشلم  (مقبوضہ بیت المقدس) میں مقدس مقامات کی حیثیت کو کمزور کرنے والا کوئی بھی یک طرفہ اقدام ناقابل قبول ہے۔ امریکہ یروشلم میں مقدس مقامات کے حوالے سے جوں کی توں صورت حال برقرار رکھنے کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ایسا کوئی بھی یک طرفہ اقدام جو "اسٹیٹس کو" کو کمزور کرتا ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔ بیان میں بنجامن نیتن یاہو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں مقدس مقامات کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے اپنے وعدے کی پاسداری کرے۔

 

اس معاملے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے چین اور متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ بہ روز: جمعرات، 5/ جنوری 2023 کو ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سلامتی کونسل نے مسجد اقصی کی صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر زور دیا۔ مگر کونسل نے اسرائیلی وزیر بین گویر کے مسجد اقصی میں غیر قانونی در اندازی کے حوالے سے کسی طرح کی کاروائی  کے حوالے سے خاموشی اختیار کی۔ فلسطینی سفیر ریاض منصور نے بین گویر کی اشتعال انگیز حرکت کے تناظر میں سلامتی کونسل سے اسرائیل کے خلاف کاروائی کرنے کی اپیل کی۔ انھوں نے کہا: "سلامتی کونسل  آخر اسرائیل کی طرف سے کس حد کو پار کرنے کے انتظار میں ہے۔ اب تو انتہا ہوچکی ہے"۔ انھوں نے اسرائیل پر سلامتی کونسل کے تئیں "مکمل توہین" کا مظاہرہ کرنے کا الزام بھی لگایا۔ فلسطینی سفیر نے کونسل کی جانب سے کسی طرح کی کاروائی نہیں کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا اور متنبہ کیا کہ اس سے صورت حال قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے سینئر اہل کار: خالد خیری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "گو کہ اس وزیر کے دورے کے بعد، کسی طرح کا تشدد نہیں ہوا؛ لیکن "اسٹیٹس کو" میں تبدیلی کے حوالے سے بین گویر کے سابقہ بیانات کے تناظر میں اسے اشتعال انگیز حرکت کے طور پر دیکھا جارہا ہے"۔

 

روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر ہے۔ روس نے کونسل کے اجلاس میں اسرائیلی وزیر بین گویر کی اشتعال انگیزی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک سنگین اور حساس مسئلہ قرار دیا ہے۔ اس موقع پر روس نے اپنی تجویز دہرائی کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ، روس اور یورپی یونین کے نمائندے خطے کے اہم فریق ممالک اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کراکر، اس مسئلے کو حل کریں۔ روس کے نمائندے نے واضح لفظوں میں کہا کہ امریکہ علاقے میں امن  مذاکرات شروع کرانے میں کوئی تعاون نہیں کر رہا ہے۔ انھوں نے "یو این، امریکہ، روس اور یورپی یونین" سے اپیل کی کہ وہ ایک ایسی حکمت عملی وضع کریں کہ سلامتی کونسل میں پاس قراردادوں کی روشنی میں اس مسئلے کو حل کرلیا جائے۔

 

اقوام متحدہ میں غاصب اسرائیل کا مستقل مندوب جلعاد اردان نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کو مایوس کن قرار دیا۔ اس نے اسرائیلی وزیر کے دورے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مختصر، پر امن اور قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ مسجد اقصی میں در اندازی نہیں ہے اور نہ ہی کچھ اور ہے"۔

 

یہ کتنی مضحکہ خیر بات ہے کہ ایک طرف اسرائیل مندوب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بین گویر جیسے شدت پسند کے مسجد اقصی میں در اندازی کو پر امن بتا رہا ہے اوردوسری طرف اردن کے سفیر کو مسجد اقصی میں داخلے سے اسرائیلی حکومت روک دیتی ہے۔ 17/جنوری 2023 کو تل ابیب میں متعین اردنی سفیر برائے اسرائیل نے مسجد اقصی کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا؛ تو اسے اسرائیلی حکومت نے دورہ کرنے سے روک دیا؛ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی مسجد اقصی کے تمام امور کی ذمہ داری مملکت ہاشمیہ اردن کی "اردنی اوقاف، اسلامی امور اور مقدس مقامات" کی ہے۔ اردنی اوقاف مسجد اقصی کے تمام امور کو منظم کرنے اور اس تک رسائی کو منظم کرنے کے لیے خصوصی دائرہ اختیار کے ساتھ قانونی اتھارٹی ہے۔ اس رویے سے ناراض ہوکر،اردن نے سخت لفظوں میں احتجاجی مراسلہ اسرائیلی حکومت کو بھیجا ہے۔

 

یہاں قارئین کی یاد دہانی کے لیے یہ ذکر کردینا مناسب ہے اسرائیلی فوج کا سابق سربراہ اور اسرائیل کا سابق وزیر اعظم، ایریل شیرون نے بہ روز: جمعرات، 28/ ستمبر 2000 ء کو، تین ہزار اسرائیلی پولیس کی سخت نگرانی میں، بیت المقدس میں اپنے ناپاک قدموں سے دراندازی کرکے، بیت المقدس کی  بے حرمتی کی تھی۔ شیرون کے اس اشتعال انگیز اقدام پر، عرب وعجم کے مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیے تھے۔ فلسطینی عوام اور خاص طور پر فلسطینی بچے اور جوان نے انتفاضہ کی کاروائی شروع کی تھی۔ اس وقت بھی شیرون کے اس در اندازی کو اشتعال انگیز قرار دے کر، عالمی سطح پر اس کی مذمت کی گئی تھی۔ اسی طرح گلارڈ ارڈن نے سن 2017 ء میں، وزیر برائے پبلک سکیورٹی کی حیثیت سے بیت المقدس کی مقدس سرزمین کا دورہ کرکے اشتعال انگیزی کا ارتکاب کیا تھا۔ آج کے وزیر بین گویر کی یہ حرکت اپنے سابق رہنماؤں کی اشتعال انگیزی کا اعادہ ہے۔

 

اسرائیل کے غاصبانہ قیام کے روز اول سے مغربی ایشیا میں، امن کے امکانات دن بہ دن مزیر معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے دن سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ظلم و جبر کا راستہ اپنائے ہوا ہے۔ فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیلی حکومت کی دن بہ دن شدت بڑھتی جارہی ہے۔ اسرائیل جس راستے پر چل رہا ہے وہ امن کے بجائے شورش کو جنم دینے والا ہے۔ وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آرہا ہے۔ غاصب اسرائیل کی تاریخ میں، موجودہ حکومت سب سے زیادہ دائیں بازو کی ہے۔ موجودہ حکومت فلسطینیوں کے خلاف ہر وہ اقدام اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے جو بنیادی حقوق اور عالمی قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ وزیر برائے قومی سلامتی کا اپنی ذمہ داری کا حلف اٹھانے کے دوسرے دن ہی مسجد اقصی میں در اندازی اور اشتعال انگیز حرکت، موجودہ سرکار کی ترجیحات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ در اندازی در حقیقت اس کے شدت پسندانہ ایجنڈا کو نافذ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

 

خدشہ ہے کہ یہ حکومت آنے والے دنوں میں مزید تنازعات کا سلسلہ شروع کرے گی۔ جن میں فلسطینیوں کی زمین کو قبضہ کرکے یہودی بستیوں کی تعمیر کا معاملہ بھی شامل ہوگا؛ کیوں کہ اس حکومت میں اتمار بین گویر کی نوعیت کے کئی اور بھی انتہائی دائیں بازو کے لوگ شامل ہیں، جن کا موقف یہی ہے۔ ایسے وقت میں بروز: جمعہ، 30/ دسمبر 2022ء کو، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کے معاملے پر غور کرے۔ عدالت انصاف سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ  اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی مسلسل خلاف ورزی کے قانونی نتائج کے ساتھ ساتھ القدس شہر کی آبادیاتی ساخت، کردار اور حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے اس کے اقدامات کا تعین کرے۔ اس قرار داد کے حق 87 اور مخالفت میں 26 ووٹ آئے۔ سارے عرب ممالک نے متفقہ طور پر اس کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ جمہوریت، عدل وانصاف اور حقوق انسانی کے چمپین ہونے کا دعوی کرنے والے امریکہ، برطانیہ اور جرمنی نے اس قرارداد کی مخالفت کی؛ جب کہ فرانس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ جنرل اسمبلی کی اس قرار داد سے انصاف پسند لوگوں کو کچھ امیدیں بندھیں ہیں۔ یہ بات قبل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے برعکس، جنرل اسمبلی کو کسی کو پابند کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

اتمار بین گویر کا ماضی نہایت ہی داغدار ہے۔ یہ شخص سن 2007 ءمیں فلسطینیوں کے خلاف تشدد بھرکانے کے الزامات میں مجرم قراد دیا گیا تھا۔ یہ شخص فلسطینیوں کا بہت بڑا مخالف ہے۔ وہ ایک خود مختار فلسطین کا مخالف ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی سرکار کو ختم کرنے کا حامی ہے۔ یہ اسرائیلی قابض افواج کو گولی چلانے کی آزادی دینا چاہتا ہے۔ اس شخص کو قومی سلامتی کی وزارت دی گئی ہے۔ بہت سے عالمی رہنماؤں کو اس شخص کو وزارت دیے جانے پر زبردست تشویش ہے۔ شاس پارٹی کا آریہ ڈیری جسے وزیر صحت بنایا گیا ہے، وہ بھی نہایت ہی سخت گیر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ قابض فوجیوں کو زیادہ سے زیادہ اختیار دیا جائے؛ تاکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف سر عام اپنی وحشیانہ کاروائی انجام دے سکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کی اس حکومت میں جن لوگوں کو وزارت دی گئی ہے وہ سب کے سب سخت گیر اور شدت پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں مغربی کنارہ میں فلسطینیوں کی زمین پر طاقت کے زور پر زیادہ سے زیادہ غیر قانونی تعمیرات کی جائيں اور زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو آباد کیا جائے۔ یہ لوگ دو قومی نظریے کے بھی مخالف ہیں۔ ان کو یہ پسند نہیں ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ایک خود مختار اور اقتدار اعلی والی ریاست قائم ہوسکے۔ یہ گھڑی مشکل کی ہے۔ فلسطینیوں کے امتحان کا وقت ہے۔ فلسطینیوں نے فلسطین، قدس اور مسجد اقصی کے لیے ماضی میں بھی بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔ یہ وقت ان سے مزید قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ خدا کرے کہ ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئے! ●●●●

 

(یہ مضمون بہ تاریخ: 20/ جنوری 2023 کو لکھا گیا اور 22/جنوری کو روزنامہ منصف، حیدر آباد، 23 / جنوری 2023 کو روزنامہ حیات، رانچی، روزنامہ رابطہ ٹائمز، دہلی، روزنامہ ہندستان، ممبئی اور روزنامہ جدید بھارت، رانچی میں شائع ہوا۔)

موجودہ اسرائیلی حکومت، مختلف ممالک کی تشویش اور فلسطینیوں کا امتحان


 

موجودہ اسرائیلی حکومت، مختلف ممالک کی تشویش اور فلسطینیوں کا امتحان


 

موجودہ اسرائیلی حکومت، مختلف ممالک کی تشویش اور فلسطینیوں کا امتحان


 

موجودہ اسرائیلی حکومت، مختلف ممالک کی تشویش اور فلسطینیوں کا امتحان


 

موجودہ اسرائیلی حکومت، مختلف ممالک کی تشویش اور فلسطینیوں کا امتحان