فلسطینی شہر جنین پر اسرائیلی حملہ، علقم آپریشن اور دنیا کا دوہرا معیار
خورشید عالم داؤد قاسمی٭
غاصب اسرائیل کی اس نئی حکومت کی تشکیل کو ابھی ایک ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔ اس حکومت میں کئی شدت پسندوں کو کابینی وزیر بنایا گیا ہے۔ اتمار بن گویر کو قومی سلامتی کا وزیر بنایا گیا ہے۔ اس شخص کی شدت پسندی سے ہر کوئی واقف ہے۔ اس شخص نے وزیر بنتے ہی دو دنوں بعد، مسجد اقصی میں در اندازی کرکے، ماحول کو پراگندہ کیا۔ پھر وہاں سے حالات بگڑنے شروع ہوئے۔ گذشتہ جمعرات، یعنی 26 اور27 / جنوری 2023 کی درمیانی رات میں، غاصب اسرائیل کی قابض صہیونی فوج نے فلسطین کے "جنین شہر" کے "شفاعت پناہ گزیں کیمپ" میں داخل ہوگئی۔ فوج کیمپ میں واقع مکانات کی چھتوں پر چڑھ گئی۔ انھوں نے گولیوں اور گیس بموں سے شدید دہشت گردانہ حملہ شروع کردیا۔ فوج نے جنین کیمپ میں بجلی کی سپلائی بھی منقطع کردی۔ اس حملے میں 9 / معصوم فلسطینی شہید ہوئے۔ ان میں آٹھ مرد: وسیم جعص، عز الدین صلاحات، صالب ازریقی،محمد صبح،عبد اللہ الغول،محمد غنیم،معتصم ابو الحسن،نور زعیم اور ایک بوڑھی خاتون: ماجدہ عبید شامل ہیں ۔ اس حملے میں متعدد لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ قابض فوج بلڈوزر کا استعمال کرکے جنین گورنمنٹ ہسپتال کے قریب کئی گاڑیوں اور دکانوں کو بھی مسمار کیا۔ فلسطینی وزارت صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، سال رواں یعنی 2023 کا ابھی ایک مہینہ بھی مکمل نہیں ہوا ہے؛ مگراب تک 29 فلسطینی قتل کیے جاچکے ہیں۔
"جنین" میں اسرائیل کی ریاستی دہشت گردانہ کاروائی کے بعد، غزہ کی پٹی سے، القسام کی طرف سے اسرائیلی شہروں پر کچھ میزائل اور راکٹ فائر کیے گئے۔ پھر اسرائیل کی دہشت گردی صرف جنین شہر اور کیمپ تک ہی محدود نہیں رہی؛ بل کہ صہیونی فوج نے بہ روز: جمعہ، 27 / جنوری کو، غزہ کی پٹی کے وسطی علاقوں پر بھی بمباری کی اور میزائل داغے۔ اسرائیل عام طور پر غزہ کی پٹی میں فضائی حملہ کرتاہے؛ چناں چہ اس بار بھی اس نے لڑاکا طیارہ کے ذریعے فضائی حملہ شروع کردیا۔ القسام نے اپنی طاقت کے بقدر اپنے شہریوں کا دفاع کرتے ہوئے، طیارہ شکن میزائلوں سے اسرائیلی لڑاکا طیاروں کا مقابلہ کیا۔
حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ غاصب اسرائیل بم اور میزائل سے معصوم فلسطینی شہریوں پر حملہ کرتا تھا اور اسرائیلی شہری اونچی جگہوں اور پہاڑوں پر جاکر، اس حملے کو دیکھ کر، خوشی مناتے تھے۔ اب صورت حال بدلتی نظر آرہی ہے۔ اب کسی نہ کسی حد تک فلسطینیوں کی طرف سے میزائل اور راکٹ سے اسرائیلی شہروں پر حملہ کرکے، جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب اسرائیلی شہری اونچی جگہوں پر بیٹھ کر، فلسطینیوں پر ہو رہے ریاستی دہشت گردانہ حملے کو دیکھ کر، لطف اندوز نہیں ہوتے ہیں؛ بل کہ اب جوں ہی غزہ کی طرف سے میزائل داغے جاتےہیں؛ تو غزہ کے ارد گرد واقع اسرائیلی شہروں میں سائرن بجائے جاتے اور اسرائیلی شہری زیر زمین بنے حفاظتی جگہوں میں چھپنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ چناں چہ جمعہ کو غزہ کی پٹی سے القسام کے جوانوں نے جب میزائل اور راکٹ فائر کرنے شروع کیے؛ تو اسرائیلی شہروں میں سائرن بجنے لگے۔
ان دو حملوں کے بعد، عالمی سطح پر غاصب اسرائیل کی جو مذمت کی جانی چاہیے تھی، اسے اس دہشت گردانہ کاروائی سے روکنے جو کوشش کی جانی چاہیے تھی اور اسرائیل پر جو دباؤ بنایا جانا چاہیے وہ نہیں ہوسکا۔ اس طرح کے دہشت گردانہ حملے کے باوجود اکثر ممالک خاموش نظر آئے۔ امریکہ نے تمام فریقوں سے پر امن رہنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ہم تمام فریقوں سے کشیدگی میں کمی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں؛ تاکہ شہریوں کی جانوں کے مزید نقصان کو روکا جاسکے۔ غاصب اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف لڑاکا طیارہ سے بمباری کرے اور میزائل داغے، پھر ایسے موقع سے امریکہ کا تمام فریقوں سے پر امن رہنے کا مطالبہ کرنا، غاصب و مغصوب، ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول: سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔
اب دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ بروز: جمعہ، 27 /جنوری کی شام کو، مشرقی القدس میں، "نبی یعقوب" نامی بستی کےقریب،"الرام" قصبے میں، ایک عبادت گاہ کے پاس، بندوق سے فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس فائرنگ میں سات لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں؛ جب کہ دس افراد زخمی ہوتے ہیں۔ یہ سب ہلاک اور زخمی ہونے والے غیر قانونی آباد کار صہیونی ہیں۔ صہیونی پولیس بندوق بردار کا تعاقب کرکے، اسی وقت اس کو شہید کردیتی ہے۔ وہ بندوق بردار مسلمان تھا۔ وہ خیری علقم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ ایک اکیس سالہ جوان تھا۔ وہ جنین یونیورسیٹی میں انجینئرنگ کا اسٹوڈنٹ تھا۔ وہ مشرقی بیت المقدس میں، الطور کا رہائشی تھا۔ مشرقی بیت المقدس سن 1967 ء سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضہ میں ہے۔ شوٹنگ کے بعد، صہیونی پولیس نے پوچھ تاچھ کے نام پر، مشرقی بیت المقدس سے 42 / افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان گرفتار ہونے والوں میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں، جو شہید خیری کے پڑوسی ہیں۔
خیری علقم کی فائرنگ کے بعد، فلسطینیوں کایہ تاثر ہے کہ جنین شہر اور پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا یہ ردّ عمل ہے؛ چناں چہ فلسطینیوں میں خوشی کا ماحول دیکھنے میں آیا۔ غزہ کی پٹی میں جشن منایا گیا۔ فلسطین کی "الحرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ" یعنی حماس نے غاصب صہیونیوں کے خلاف خیری کی فائرنگ پر، قوم کو مبارک باد پیش کی ہے۔ حماس نے حملہ کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی کا فطری ردّ عمل قرار دیا ہے۔سلطنت عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمد الخلیلی (حفظہ اللہ)نے علقم آپریشن کو قابل تحسین گردانا ہے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے: "ہم مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کے اندر اور قابل فخر غزہ میں، بہادرانہ مزاحمت کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں"۔ انھوں نے مزید فرمایا: "ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ جلد از جلد فلسطینی قوم کو فتح عطا فرمائے اور قابض دشمن کو نیست ونابود کردے ؛ تاکہ قابض ریاست کی فلسطین کی سرزمین پر حکمرانی کا خاتمہ اور ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہوسکے"۔
بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا؛ لہذا ان کے علم میں لانے کے لیے یہ یہاں ذکر کردینا مناسب ہے کہ ماضی میں، فلسطینی نوجوان"خیری علقم" کاگھر اسرائیلی دہشت گردی کا کس طرح شکار ہوچکا ہے۔ پہلے یہ سمجھیں کہ خیری علقم کے دادا کا نام بھی خیری علقم ہی تھا۔ یہ عرب کی روایت ہے کہ گھر کے بڑے لڑکے کو وہی نام دیا جاتا ہے، جو اس کے دادا کا نام ہوتا ہے۔ روایت کی پاسداری کرتے ہوئے، اس لڑکے کو خیری علقم نام دیا گیا ہوگا۔ خیری (دادا) ایک مزدور طبقے سے تھے۔ دادا خیری علقم پر ایک دہشت گردانہ قاتلانہ حملہ ہوا۔ یہ سن 1998 ء کی بات ہے۔ ایک دن خیری اپنے گھر سے نکلے۔ وہ مزدور تھے۔ وہ کام کرنے جا رہا تھے۔ راستے پر ان کا سامنا ایک دہشت گرد اسرائیلی صہیونی آباد کار سے ہوا۔ اس صہیونی دہشت گرد نے خیری کے ساتھ دوسرے تین اور فلسطینی مسلمانوں پر چاقو سے حملہ کردیا۔ خیری مرحوم اور دوسرے تین فلسطینی اس قاتلانہ حملہ سے بچ نہ سکے اور سب شہید ہوگئے۔اس چاقو سے حملہ کرنے والے اسرائیلی صہیونی دہشت گرد کا نام ہیم فیرلمین ہے۔ اسی شہید خیری علقم کا پوتا ہے یہ خیری علقم ہے۔ اسرائیلی پولیس آج تک اس قاتل کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی؛ جب کہ اس قتل کو تقریبا 25 سال ہوچکے ہیں۔
ذرا غور کیجیے! ایک ایسی قوم کا جوان جس کے جان کی کوئی قیمت نہ ہو،اس کی زمین ایک غاصب حکومت نے غصب کرلیا ہو،اس کی عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا گیا ہو، مسجد اقصی میں اس کو جانے کی آزادی نہیں ہو،اس کے کھیتوں میں لہلہاتی فصل کو صہیونی فوج اور اسرائیلی صہیونی آباد کار تباہ کردیتے ہوں، شب وروز اس کی قوم پر ظلم کیا جاتا ہو، ان کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہو، اس کی قوم کو ایک انسان کی طرح رہنے کا حق نہیں دیا جاتا ہو، اس قوم کو امید کی کوئی کرن نہیں دکھائی دیتی ہو۔ پھریہ ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے ایک جوان کا کیا ردّ عمل ہوگا؟ ایسا تو نہیں کہ غاصب اسرائیلی ریاست کے ظلم وجبر سے تنگ آکر اور یاس وناامیدی کا شکار ہوکر، خیری علقم نے یہ قدم اٹھایا ہو؟
خیری علقم کی فائرنگ سے سات صہیونیوں کے قتل کے بعد، جو ردّ عمل دیکھنے میں آرہا ، وہ بہت ہی قابل غور ہے۔ شوٹنگ کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم، نتن یاہو فورا جائے وقوع پر پہنچا۔ اس نے حملہ آوروں کے خلاف سخت اور پرسکون ہوکر، کاروائی کرنے کا عزم کیا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکام نے فوری کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ امریکہ القدس میں ایک عبادت گاہ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتا ہے۔ نائب ترجمان نے ایک پریس بیان میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکی حکام اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق حملہ کے بعد، امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم سے بات چیت کی۔ انھوں نے آنے والے دنوں میں اسرائیلی حکومت اور شہریوں کو تعاون کے تمام مناسب ذرائع کی پیشکش کی۔ خود امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر، ایک پوسٹ میں اس حملے کی مذمت کی ہے۔مسٹر بلنکن طے شدہ پروگرام کے مطابق اگلے ہفتے اسرائیل کے دورے پر جانے والے ہیں۔ امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجینسی کے سابق ڈائریکٹر اور امریکہ کے سابق وزیر خارجہ مایک پومپئو نے بھی اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ پر، ایک پوسٹ میں اس حملے کو یہودیوں کے خلاف ایک دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ اس نے مزید لکھا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔
یورپی یونین کا بھی مضحکہ خیز بیان آیا ہے۔ یونین نے اسرائیل کو یہ بھی بتایا ہے کہ کس صورت میں وہ جان لیوا اور مہلک طاقت استعمال کرے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ، جوژف بوریل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "یورپی تنظیم اسرائیل کے جائز سکیورٹی خدشات کو مکمل طور پر تسلیم کرتی ہے، جیسا کہ حالیہ دہشت گرد حملوں سے ظاہر ہوتا ہے؛ لیکن اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ جان لیوا طاقت کو صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائےاور جب زندگی کے تحفظ کے لیے سختی سے ناگزیر ہو؛ تو پھر مہلک طاقت کو استعمال کیا جائے"۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب رات میں سوئے ہوئے معصوم فلسطینیوں پر فائرنگ کی جاتی ہے، آنسو گیس کے گولے داغے جاتے ہیں اور کئی لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے؛ تو دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ مگر جب ایک فلسطینی لڑکا خیری علقم شوٹنگ کرتا اور اسرائیل کے سات شہری قتل ہوتے ہیں؛ تو پھر مذمتی بیانات دیے جاتے ہیں۔اس حملہ کو یہودیوں کے خلاف دہشت گردانہ حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیل کو مدد کی پیشکش کی جاتی ہے۔ یہ کھلا ہوا نفاق اور دوغلہ پن نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ہی بہتر ہوتا کہ دنیا کے طاقتور ممالک اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی پر لگام لگاتے اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دلوانے کی کوشش کرتے؛ تا کہ کسی بھی انسان کی جان بم بارود، میزائل وراکٹ اور بندوق کی گولیوں کی نذر نہ ہوتی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو فلسطینیوں کو خاموش کرنا آسان نہیں ہے۔ ●●●●
٭مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
No comments:
Post a Comment