راستے کے حقوق وآداب
از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
روئےزمین پر اسلام ہی ایک ایسا "دین"ہے جو بجا طور پر مکمل "نظامِ حیات" کہلانے کا مستحق ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو صرف آخرت کی تیاری کی ہی رہنمائی نہیں کرتا؛ بل کہ ان تمام چیزوں کا درس دیتا ہے جو انسان کواُخروی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی گزارنے کے لیے ضروری اور لابدی ہے۔ اسلام جہاں نماز وروزہ اور صدقہ وخیرات کا حکم کرتا ہے، وہیں کھانے پینے کا طریقہ، اٹھنے بیٹھنے کا ڈھنگ، بات چیت کرنے کا سلیقہ، چلنے پھرنےاور پیشاب وپاخانہ کے آداب بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ اگر ایک مسلمان ان چیزوں کو اسلام کے بتائے ہوئے اصول اور سنت نبوی سمجھ کر ادا کرتا ہے؛ تو ان اعمال پر دنیوی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ثواب ملے گا۔
کچھ لوگ راستے پر بیٹھ کر اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو چار لوگ راستے پر کھڑے ہوکر، گپ شپ میں مشغول ہوجاتے ہیں اور وہاں سے آنے جانے والے لوگوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی محمد –صلی اللہ علیہ وسلم–نے اس طرح کے لوگوں کو ان حرکات سے منع فرمایا ہے۔ اگر راستہ پر بیٹھنا یا کھڑا ہونا، ناگزیر ہوجائے؛ تو اس صورت میں، معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے حقوق وآداب بیان فرمائے ہیں، جن پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔
راستے کے حقوق وآداب کا ذکر متعدد احادیث میں ملتا ہے۔ اس حوالے سے، یہاں چند احادیث نقل کی جارہی ہیں،جن میں راستے کے مختلف حقوق وآداب بیان کیے گئے ہیں؛ تا کہ ہمیں راستے کے حقوق کی جانکاری ہوجائے اور ہم ان پر عمل کرسکیں۔
ایک حدیث شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "إِيَّاكُمْ وَالجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ"، فَقَالُوا: "مَا لَنَا بُدٌّ، إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا"، قَالَ: "فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا المَجَالِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا"، قَالُوا: "وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ؟" قَالَ: "غَضُّ البَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْيٌ عَنِ المُنْكَرِ". (صحيح بخاری، برقم: 2465) ترجمہ: "راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو!" صحابہ کرام نے کہا: ہمارے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہیں ہیں جہاں ہم بات چیت کرتے ہیں۔ آپ - صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "اگر تمھیں (وہیں) بیٹھنا ہے؛ توراستہ کا حق ادا کرو"۔ انھوں نے عرض کیا: "راستہ کا حق کیا ہے؟" آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "نگاہ نیچی کرنا (تاکہ کسی غیر محرم پر نظر نہ پڑے)، (کسی راستہ چل رہے کوکسی بات یا حرکت سے) تکلیف دینے سے بچنا، سلام کا جواب دینا، اچھے کام کا حکم کرنا اور برے کاموں سے روکنا"۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "لَا تَجْلِسُوا فِي الصُّعُدَاتِ وَلَا فِي الْأَفْنِيَةِ"، قَالُوا: "يَا رَسُولَ اللهِ! لَا نَسْتَطِيعُ ذَلِكَ". قَالَ: «إِمَّا لَا فَأَعْطُوهَا حَقَّهَا»، قَالُوا: "يَا نَبِيَّ اللهِ! وَمَا حَقُّهَا؟" قَالَ: "رَدُّ التَّحِيَّةِ، وَغَضُّ الْبَصَرِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ، وَإِرْشَادُ السَّبِيلِ". (مسند ابی یعلی الموصلي 11/480، شعب الایمان 10/93 صحیح ابن حبان 2/357) ترجمہ: "عام راستوں اور صحنوں میں مت بیٹھو!" انھوں (صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ) نے کہا: اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)! یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ آپ - صلی اللہ علیہ وسلم - نے فرمایا: "اگر نہیں ؛ تو راستہ کا حق ادا کیا کرو!" انہوں (صحابہ کرام ) نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! راستہ کا حق کیا ہے؟ آپ - صلی اللہ علیہ وسلم - نے فرمایا: "سلام کا جواب دینا، نگاہ نیچی رکھنا، چھیکنے والے کی چھینک پر جواب دینا اور (بھولے بھٹکے کو) راستہ کی رہنمائی کرنا"۔
یہاں دو حدیثیں نقل کی گئیں ہیں۔پہلی حدیث میں راستے کے پانچ حقوق وآداب بیان کيے گئے ہیں؛ جب کہ دوسری حدیث میں چار حقوق بیان کیے گئے ہیں۔مشہور شارح حدیث علامہ ابن حجر عسقلانی نے راستے کے چودہ آداب بیان نقل کیے ہیں۔ وہ آداب یہ ہیں: "سلام پھیلانا، اچھی گفتگو کرنا (اگر کوئی راستہ چل رہا شخص کچھ پوچھے؛ تو اسے عمدہ لب ولہجہ میں جواب دینا اور رہنمائی کرنا)، چھیکنے والے کی چھینک کا جواب دینا، اچھے انداز میں سلام کا جواب دینا، کسی کو بوجھ اٹھانے میں مدد کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، مصیبت زدہ کی مدد کرنا،راہ بھٹکے لوگوں کی رہنمائی کرنا، حیران و پریشان کی رہنمائی کرنا، نیک کاموں کا حکم کرنا،برے کاموں سے روکنا، کسی کو (ہاتھ یا زبان سے) تکلیف دینے سے بچنا، نگاہوں کو پست رکھنا (تاکہ کسی غیر محرم پر نظر نہ پڑے)، اللہ سبحانہ وتعالی کا کثرت سے ذکر کرنا۔" (فتح الباري لابن حجر 11/11)
حدیث کی کتابوں میں اور بھی کئی احادیث راستے کے حوالے سےپائی جاتی ہیں۔ ان میں سے چند کو یہاں نقل کیا جارہا ہے۔ ایک حدیث شریف میں راستے سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹانے کو صدقہ کہا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: «يُمِيطُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ». (صحیح البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه، برقم: 2989) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص راستے سے ایسی چیزوں کو ہٹادے؛ جو تکلیف کا سبب بن سکتی ہے؛ تو گویا یہ عمل اس شخص کی طرف سے صدقہ ہےاور اس شخص کو صدقہ کا ثواب ملے گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے کچھ ایسا عمل بتادیجیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «اعْزِلِ الْأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ». (صحیح مسلم عن أبي برزة: 2618) ترجمہ: "مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادو!"
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص کسی راستے سے گزر رہا تھا۔ اسے راستے پر ایک کانٹے والی ٹہنی ملی، اس شخص نے اسے ہٹادیا۔ اللہ تعالی نے اس شخص کے (اس عمل )کی قدر کی؛ چناں چہ اس کی مغفرت فرما دی۔ حدیث درج ذیل ہے: «بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ، فَأَخَذَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ». (صحیح البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه، برقم: 2472)
ان مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر راستہ پر کانٹا ہو، کوئی ایسا چھلکا ہو، جس پر آدمی پھسل سکتا ہے، کانچ وغیرہ کا ٹکڑا ہو یا پھر کوئی دوسری ایسی چیز ہو، جو تکلیف دہ ہو؛ تو اسے ہٹانے دینا چاہیے۔ یہ عمل اس شخص کی طرف سے صدقہ ہوگا۔
راستے کے یہ جو حقوق وآداب بیان کیے گئے ہیں،ہمیں ان آداب کی پوری رعایت کرنی چاہیے؛ تاکہ راستے سے گزرنے والوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ یہ بات نہ صرف راستے کے حوالے سے؛ بلکہ ہم اپنی زندگی کا اصول ہی بنالیں کہ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اللہ کی کسی مخلوق کو تکلیف پہنچے۔ پھر ہم دوسروں کو دعوت بھی دیں کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ یہ ہمارے نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کی ہدایت بھی ہے کہ ہم کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ ہماری کامیابی کا راز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے میں ہی مضمر ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کریں؛ تو ہمیں نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم – کی سنتوں کو اپنانا ہوگا، ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہوگا اور ان کے ہدایات وارشادات کو اپنے گلے سے لگانا ہے۔ یہی وہ سنتیں، ہدایتیں اور طریقے ہیں جن کو اپنا کر صحابۂ کرام – رضی اللہ عنہم– پوری امت کے لیے نمونہ بن گئے؛ چناں چہ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا: میرے صحابۂ ستارے کے مانند ہیں، ان میں جس کسی کی بھی اقتدا کرلو، ہدایت یافتہ ہوجاؤگے۔ اگر ہم بھی نمونہ بننا چاہتے ہیں؛ تو ہمیں بھی ان ارشادات اور ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔ ****
٭ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
No comments:
Post a Comment