والدین: جنّت کی شاہِ کلید
بہ قلم: خورشید عالم داؤد
قاسمی ٭
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
خوش قسمت اولاد:
وہ اولاد نہایت ہی خوش قسمت ہے، جس
نے اپنے والدین کو عقل و شعور میں پایا
اور ان کی خدمت کرکے جنّت کی شاہِ کلید حاصل کرلیا۔ والدین
کا رشتہ ایک ایسا عظیم رشتہ ہے جو سب سے زیادہ حسن سلوک،عزت و توقیر، اطاعت و
فرمانبرداری، احسان و اکرام اور ادب و احترام کا متقاضی ہے۔ والدین ایک عظیم نعمت اور
عطیۂ ربّانی ہیں۔ زجر و توبیخ کرنا اور
ڈانٹ ڈپٹ کرنا تو دور کی بات، اسلام نے انھیں "افّ" بھی کہنے کی اجازت
نہیں دی ہے۔ ایک مطیع و فرمانبردار اور صالح اولاد کی یہ ذمے داری ہے کہ والدین کے
سامنے متواضعانہ انداز میں پیش ہو اور ان کا حکم کو بجالائے۔
بد قسمت اولاد:
آج لوگ والدین کے حقوق کو سمجھنے
سے قاصر ہیں اور بسا اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ والدین کے مقابلے میں جانور وں
کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج یورپی ممالک؛ بل کہ بہت سے ایشیائی ممالک میں بھی جو لوگ "فادرس
ڈے " اور "مادرس ڈے" مناتے نہیں تھکتے، ان کا حال یہ ہے کہ والدین
کو بڑھاپے میں "اولڈ ایج ہاؤس" میں پہونچادیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ
والدین بڑھاپے میں اپنی اولاد اور بچوں کے زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں ان کو
ایسی جگہ پر پہونچا دیا جاتا کہ وہ ایک تو
بڑھاپے اور دوسرے اولاد کی جدائی کے صدمہ میں ڈپریشن
(Depression) کے مریض ہوجاتے ہیں۔
یہ نام نہاد مہذّب و مثقّف یورپی ممالک کے
لوگ، جو اپنے والدین کے حقوق ادا نہیں کرپاتے،
دوسروں کو حقوق انسانی کا درس دینے میں ذرہ برابر بھی شرم و عار محسوس نہیں
کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ایک شخص اپنے پالتو کتّے کے حقوق کی رعایت، اپنے والدین کے
حقوق سے زیادہ کرتا ہے۔ اس طرح کی اولاد کو بدقسمت نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں
گے!
اویس قرنی رحمہ
اللہ:
اسلامی تاریخ میں ایک شخص اویس بن
عامر قرنی یمنی (رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے جانےجاتے ہیں۔وہ بڑے متقی و زاہد اور خیرالتابعین تھے۔ انھوں نے عہد نبوی پایا؛
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
زیارت نہیں کرسکے۔ وجہ یہ تھی وہ اپنی
والدہ کی خدمت کے لیےتنہا تھے اور کوئی دوسرا نہیں تھا جو ان کی خدمت کرتا؛ لہذا والدہ
کی خدمت میں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ کا دیدار کرسکے اور نہ صحبت نبوی سے مشرف یاب
ہوسکے۔ یہ ہے حسن سلوک اور والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا عظیم نمونہ۔ (حلیۃ الأولیاء 2/87)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اویس قرنی کو "خیر التابعین"سے تعارف کرایا۔امیر المومنین عمر رضی اللہ
عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے: "إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ
رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ، وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ
فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ." [مسلم شریف، حدیث نمبر: 224 - (2542)] ترجمہ: تابعین میں سب سے بہتروہ شخص ہےجسے
اویس کہا جاتا ہے۔ اس کی ماں (زندہ) ہے،ا ور اس کے جسم میں (برص کے) سفید داغ ہیں۔ تم ان سے کہو کہ وہ تمھارے لیے مغفرت
کی دعا کرے۔ سبحان اللہ!
اسلام ایک متوازن اور معتدل دین
ہے۔ اس دین میں سب کے حقوق کی خوب رعایت کی گئی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث شریفہ
میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنے کا جو حکم آیا ہے، ہم اسے ذیل میں قلم
بند کرتے ہیں۔
والدین
کے ساتھ اچھا سلوک کرو!
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے: "وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ
بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا." (عنکبوت، آیت: 8) ترجمہ: اور ہم نے
انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت
کریمہ میں انسان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اس
حکم کو اللہ تعالی نے "وَصَّيْنَا" سے تعبیر کیا
ہے۔ "وصیّت کہتے ہیں کسی شخص کو کسی عمل کی طرف بلانے کو؛ جب کہ وہ بلانا
نصیحت اور خیرخواہی پر مبنی ہو۔" (معارف القرآن، 6/676)
والدین
کو "ہوں" بھی مت کہو!:
ارشاد خداوندی ہے: "وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ
إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا
فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا. وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ
مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا." (سورہ بنی اسرائیل، آیت: 23-24) ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور
تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے
دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی ہوں بھی مت کہنااور نہ ان کو جھڑکنا
اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔ اور ان کےسامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے
رہنا اور یوں دعا کرتے رہناکہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمایئے جیسا کہ
انھوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیاہے۔
"امام قرطبی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں
اللہ تعالی نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کواپنی عبادت
کے ساتھ ملا کرواجب فرمایا ہےجیسا کہ سورہ لقمان (آیت: 14) میں
اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کرلازم فرمایا ہے "أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ" (یعنی میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ
اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد،والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالی کے شکر کی
طرح والدین کا شکر گزار ہونا واجب ہے۔" (معارف القرآن 5/463)
والدین
کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو:
قرآن کریم میں ایک جگہ فرمان خداوندی ہے: "وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا
بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا" (سورہ نساء، آیت: 36) (اور تم اللہ کی عبادت اختیار کرواور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو
اور (اپنے) والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو)۔ اس کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع
عثمانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
لفظ "احسان" لایا گيا، جس کے عام
مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ حسب ضرورت ان کے نفقہ میں اپنا مال خرچ کریں اور یہ
بھی داخل ہے کہ جیسی ضرورت ہو اس کے مطابق جسمانی خدمات انجام دیں۔ یہ بھی داخل ہے کہ ان کے ساتھ گفتگو میں سخت آواز سے
یا بہت زور سے نہ بولیں جس سے ان کی بے ادبی ہو، کوئی ایسا کلمہ نہ کہیں جس سے ان
کی دل شکنی ہو۔ ان کے دوستوں اور تعلق والوں سے بھی کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے
والدین کی دل آزاری ہو؛ بل کہ ان کو آرام پہونچانے اور خوش رکھنے کے لیے جو صورتیں
اختیار کرنی پڑیں وہ سب کریں۔ یہاں تک کہ اگر ماں باپ نے اولاد کے حقوق میں کوتاہی
بھی کی ہو جب بھی اولاد کے لیے بدسلوکی کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ (معارف القرآن 2/410)
والدین
کی شکرگزاری کیا کرو!:
اللہ تعالی انسان کو والدین کی شکر گزاری
اور اچھائی و حسن سلوک کی وصیت و تاکید کرتے ہوئے ماں کے حمل کی مشقت و تکلیف اور پھر دودھ پلانے کا
ذکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وَوَصَّيْنَا
الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ
فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ." (سورہ لقمان، آیت: 14) ترجمہ:
اور ہم نے انسان کو ان ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے۔اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا
کر، اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے کہ تو میری اور اپنے
ماں باپ کی شکرگزاری کیا کرو۔
"یہاں جب کہ والدین کے حقوق اور ان کی شکرگزاری کا حکم
دیا گيا؛ تو اس کی حکمت یہ بتلادی کہ اس کی ماں نے اس کے وجود و بقا میں، بڑی محنت
برداشت کی ہے کہ نو مہینے تو اس کو اپنے شکم میں رکھ کر اس کی حفاظت کی اور اس کی
وجہ سے جو روز بروز اس کو ضعف پر ضعف اور تکلیف پر تکلیف بڑھتی گئی، اس کو برداشت
کیا، پھر اس کے پیدا ہونے کے بعد بھی دو سال تک اس کو دودھ پلانے کی زحمت برداشت
کی، جس میں ماں کو خاصی محنت بھی شب و روز اٹھانی پڑتی ہے، اور اس کا ضعف بھی اس
سے بڑھتا ہےاور چوں کہ بچے کی پرورش میں محنت و مشقت زیادہ ماں اٹھاتی ہے؛ اس لیے
شریعت میں ماں کا حق باپ سے بھی مقدم رکھا گیا ہے۔ "وَوَصَّيْنَا
الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ
فِي عَامَيْنِ." کا یہی مطلب ہے۔"
(معارف القرآن 7/37)
نماز کے بعد والدین کا درجہ:
شریعت
اسلامیہ میں نماز کو ایک بڑا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد والدین کے ساتھ
نیکی کا درجہ رکھا گیا ہے؛ لہذا جب بھی والدین ہمیں اپنی خدمت اور کسی بھی غرض سے
بلائیں، ہمیں بغیر کسی تاخیر کے ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے۔ حضرت عبد اللہ (بن
مسعود) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟ قَالَ: "الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا."
قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: "بِرُّ الوَالِدَيْنِ." قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: "الجِهَادُ
فِي سَبِيلِ اللهِ." (بخاری
شریف، حدیث نمبر: 5970) ترجمہ:
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے
زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "نماز وقت پر ادا کرنا۔"
انھوں نے سوال کیا، پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "والدین
کے ساتھ نیکی کرنا۔" انھوں نے پھر سوال کیا، پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے جواب مرحمت فرمایا: "اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔"
والدہ
احسان کی سب سے زیادہ مستحق:
والدہ احسان اور حسن سلوک کی سب
سے زیادہ مستحق ہیں۔ ایک سائل کے سوال کے جواب میں تین بار رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے والدہ کو حسن رفاقت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق بتلایاہے۔ اس حدیث شریف کی وضاحت میں علماء کرام نے یہ لکھا ہے کہ حسن
سلوک کے حوالے سے ماں کا درجہ باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔وہ اس لیے کہ
ماں تین ایسی مشقتیں برداشت کرتی ہیں، جو باپ نہیں کرتا۔ وہ مشقتیں یہ ہیں: حمل کی مشقت، بچہ جننے کی مشقت اور دودھ
پلانے کی مشقت۔ حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ
صَحَابَتِي؟ قَالَ: "أُمُّكَ" قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "ثُمَّ
أُمُّكَ" قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "ثُمَّ أُمُّكَ" قَالَ: ثُمَّ
مَنْ؟ قَالَ: "ثُمَّ أَبُوكَ." [بخاری شریف، حدیث: 5971،
مسلم، حدیث: 1 - (2548)] ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں آیا اور اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! میری حسن رفاقت کا سب سے زیادہ
مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھاری ماں۔" اس نے
سوال کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھاری ماں۔" پھر
اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "تمھاری ماں۔"
(اس کے بعد پھر ) اس شخص نے سوال کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب
دیا: "تمھارا باپ۔"
مشرکہ ماں کے ساتھ بھی حسن
سلوک کرو!
اگر کسی کے والدین کافر و مشرک ہوں، اس صورت میں بھی
اسلام حسن سلوک سے نہیں روکتا؛ بل کہ حکم کرتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی اچھے اخلاق سے
پیش آؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اسماء رضی اللہ تعالی عنہا کی والدہ "قتیلہ" جو کہ مشرکہ تھیں،بیٹی
کے پاس کچھ ضرورت کی وجہ سے آئیں۔ اس حوالے سے بیٹی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے مسئلہ دریافت کروایا ؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "صلہ
رحمی" کا حکم صادر فرمایا۔ حدیث شریف ذیل میں ہے:
قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي
عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُ
أُمِّي؟ قَالَ: "نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ." [بخاری
شریف، حدیث: 2620، مسلم، حدیث: 50 - (1003)] ترجمہ: عہد رسالت میں میری والدہ میرے پاس آئی؛ جب
کہ وہ مشرکہ تھیں؛ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی طلب کرتے ہوئے
عرض کیا کہ میری ماں کسی کام سے آئی ہیں۔ کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب عنایت فرمایا: "ہاں، اپنی ماں کے ساتھ صلہ
رحمی کرو!"
والدین کی رضا میں اللہ کی
رضا:
ایک حدیث
شریف میں اللہ کی رضا کو والدین کی رضا کے ساتھ لازم کردیا گیاہے۔ اگر والدین راضی ہوں؛ تو اللہ بھی راضی اور اگر
والدین ناراض ہوں؛ تو اللہ بھی ناراض۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"رِضَى
الرَّبِّ فِي رِضَى الوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ." (ترمذی شریف، حدیث: 1899) ترجمہ: ربّ کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی
ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔
والدین کے دوست کے ساتھ حسن
سلوک:
اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور عزت و اکرام
کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ ان کے عزیز و اقارب اور دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ بھی توقیر و تعظیم اور حسن سلوک کا
معاملہ کیا جائے۔ خاص طور پر جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں، اس وقت تو ان کے
عزیز و اقارب اور رفیقوں کے ساتھ زیادہ ہی حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:
"أَبَرُّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ وُدَّ
أَبِيهِ." [مسلم شریف، حدیث: 12 - (2552)] ترجمہ: بہت بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے
دوستوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔"
خدمت والدین اور نفلی جہاد:
اسلام
میں والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا اتنا خیال کیا گیا ہے کہ اگر مسلم
والدین اپنی اولاد کی خدمت کے محتاج ہوں؛ تو اس وقت اولاد کو نفلی جہاد اور دیگر
نفلی عبادات میں اشتغال رکھنے کے بجائے،
والدین کی خدمت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر والدین خوشی سےجہاد میں جانے کی اجازت دیں
یا پھر کسی اور طرح کے نفلی عبادت کی اجازت دیں؛ تو پھر اس کے کرنے میں کوئی حرج
نہیں۔ ہاں، اگر جہاد فرض ہو یا پھر کوئی
اورفرض عبادت ہو؛ تو اس میں والدین کی اجازت ضروری نہیں؛ بل کہ اگر وہ روکیں بھی؛
تو بھی نہیں رکنا چاہیے، چاہے والدین مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ
ایک شخص حصول رضائے الہی کی خاطر جہاد میں
جانا چاہا؛ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو والدین کے ساتھ حسن سلوک
کرکے رضائے الہی حاصل کرنے کا حکم دیا۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اس واقعہ کو یوں نقل کرتے ہیں:
أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَى نَبِيِّ اللهِ -صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقَالَ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ،
أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ، قَالَ: "فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْكَ أَحَدٌ
حَيٌّ؟" قَالَ: نَعَمْ، بَلْ كِلَاهُمَا، قَالَ: "فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ
مِنَ اللهِ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "فَارْجِعْ إِلَى وَالِدَيْكَ
فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا."
[مسلم شریف، حدیث: 6 - (2549)] ترجمہ: ایک شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں آیا، پھر اس نے کہا: میں آپ سے ہجرت اور جہاد کی بیعت کرتا ہوں، اللہ سے
ثواب کا طلب گار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمھارے والدین
میں سے کوئی زندہ ہے؟" اس نے کہا: ہاں، بل کہ دونوں (زندہ ہیں)۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم اللہ سے ثواب کے طلب گار ہو؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے
والدین کے پاس جاؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو!"
والدین کی نافرمانی کبیرہ
گناہ ہے:
والدین کی نافرمانی کو اکبر کبائر (کبیرہ
گناہوں میں سب سے بڑا گناہ) میں شمار
کرایا گيا ہے۔کبیرہ گناہ تو خود ایسا گناہ ہے کہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا، پھر
وہ گناہ جو اکبر کبائر ہو اس کی شناعت و قباحت کتنی ہوگی! ایک حدیث شریف میں اللہ
کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے فورا بعد، والدین کی نافرمانی کو اکبر کبائر
میں شمار کرایا ہے۔ حضرت عبد
الرحمن بن ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
"أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ"
قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ،
وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ: أَلاَ وَقَوْلُ
الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ". (بخاری شریف، حدیث: 5976) ترجمہ: نہایت ہی بڑے کبیرہ گناہ نہ بتادوں؟
ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ ٹیک لگا کر
بیٹھے تھے کہ (ٹیک چھوڑ کر) بیٹھے، پھر فرمایا: "خبرادا! جھوٹی بات کہنا اور
جھوٹی گواہی دینا۔ خبرادا! جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا۔"
دوسروں کے والدین کو بھی برا
مت کہو!:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے والدین کو عزت و
احترام کی نظر سے دیکھتا ہے؛ مگر دوسروں کے والدین کو گالی گلوچ کرتا ہے۔ پھر جواب
میں دوسرا شخص بھی اس کے والدین کی گالی دیتا ہے؛ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ تم اگر کسی کے ماں باپ کے ساتھ سبّ و شتم کرتے ہو، پھر جواب میں
وہ تمھارے والدین کے ساتھ سبّ و شتم کرتاہے؛ تو یہ ایسا ہے کہ گویاتم خود اپنے والدین کو گالی گلوچ کررہے ہو؛
جب کہ والدین کے ساتھ گالی گلوچ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن
عاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ"
قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَهَلْ يَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: "نَعَمْ
يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ." [مسلم شریف، حدیث: 146 - (90)]
ترجمہ: "کبرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔" صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ! کیا آدمی اپنے والدین کو گالی
دیگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہاں، وہ کسی کے باپ کو گالی
دے، پھر وہ اس کے باپ کو (جواب میں) گالی
دےاور یہ اس کی ماں کو گالی دے، پھر وہ (جواب میں) اس کی ماں کو گالی دے۔"
ناک خاک آلود:
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایسے شخص کے لیے بدنصیب و بد قسمت
اور ناک غبار آلود ہونے کی بد دعا فرمائی ہے جس نے اپنے ماں اور باپ دونوں کو یا
پھر ان میں سے ایک کو کبر سنی میں پانے کے
باوجود، ان کی خدمت کرکے اور ان دعا کی بدولت جنت کا مستحق نہ بن گيا ہو۔ والدین
تو ہمیشہ حسن سلوک اور حسن رفاقت کے حق
دار ہیں؛ لیکن بڑھاپے میں وہ اپنے اولاد کی خدمت کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں؛ لہذا
اولاد کو بھی چاہیے کہ والدین کے ساتھ بڑھاپے میں زیادہ حسن سلوک کریں۔ یہی وجہ ہے
کہ حدیث شریف میں بڑھاپے کا ذکر ہے:
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: "رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهُ"
قِيلَ: مَنْ؟ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ
الْكِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا، ثُمَّ لَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ." [مسلم شریف، حدیث نمبر: 10 - (2551)] ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اس شخص کی ناک غبار آلود
ہوجائے،پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہوجائے،پھر اس شخص کی ناک غبار آلود
ہوجائے۔" آپ سےپوچھا گيا: اے اللہ کے رسول! کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
جواب دیا: جس نے اپنے والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پائے، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔"
والدین
کی وفات کے بعدان کے حقوق:
اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کے
حقوق صرف ان کی حیات ہی تک محدود نہیں ہیں؛ بل کہ جب وہ انتقال کرجائیں، اس کے بعد
بھی ان کےحقوق ہیں۔ بنو سلمہ قبیلہ کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں آیا اور اس حوالے سے اس نے سوال کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے بعد بھی والدین
کے حقوق شمارکرائے۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے
ہیں:
بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: يَا
رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ
بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ قَالَ: "نَعَمْ، الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا،
وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا، وَصِلَةُ
الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا." (ابو داؤد شریف، حدیث: 5142) ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے
کہ قبیلۂ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا۔ پھر اس نے سوال کیا: اے اللہ کے
رسول! کیا میرے والدین کی موت کے بعد، کوئی ایسی نیکی باقی ہےکہ میں ان کے ساتھ
کرسکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "ہاں، ان کے لیے دعا کرنا،
ان کےلیے استغفار کرنا، ان (کی موت ) کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا، ان کے رشتہ
داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنااور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔"
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ والدین کی موت کے بعد ہمیں
ان کے لیے دعا کرنا چاہیے، استغفار کرنا چاہیے، ان کےوعدوں کو پورا کرناچاہیے، ان
کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی
چاہیے اور ان کے دوست و احباب کی عزت کرنی چاہیے۔
خاتمہ:
دنیا
میں صرف والدین ایسی شخصیات ہیں؛ جو صرف اور صرف ایک ہونے کے باوجود بھی بڑی آسانی
سے مل جاتے ہیں۔ ان کے حصول کے لیے کچھ مال و دولت خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی
۔لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہزاروں کوششوں کے باوجود بھی ان کا بدل نہیں ملتا۔
رہے دوسرے رشتے دار و اقارب؛ تو ان کی تعداد درجنوں میں ہو سکتی ہے اور اگر ایک نہ
ہو؛ تو دوسرا دست یاب ہوجاتا ہے، مثلا: بھائی، بہن، بیوی، بیٹے، بیٹاں وغیرہ
وغیرہ۔ اس واضح حقیقت کے باوجود بھی انسان
والدین کی خدمت کرنے میں ناکام رہتا ہے۔کچھ لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ایک
چیز اسے آسانی سے میسّر اور مہیّا ہوجاتی ہے؛ تو وہ اس کی قدر نہیں کرتے۔ ایسا ہی
معاملہ کچھ لوگوں کا والدین کے ساتھ بھی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے والدین کی
خدمت اور ان کی ضروریات کو سمجھنے اور
پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین!
٭ ہیڈ اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون
ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا۔
No comments:
Post a Comment