بسم اللہ الرحمن
الرحیم
دو افسوسناک حادثے اور سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش
تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
وہ
مسلمان جو اللہ کے مہمان بن کر، حج کی نیت سے اس سال مکہ مکرمہ گئے تھے، ان میں سے
کچھ لوگوں کو دو مختلف حادثے میں شہادت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک مومن کے لیے شہادت
کی موت سے بہتر کوئی موت نہیں ہوسکتی۔ صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم- تمنا کرتے تھے
کہ وہ شہادت کی موت پاکر، اپنے رب کی نظر میں سرخرو ہوجائیں۔ شہادت کی موت ایسی
موت ہے کہ اس کے لیے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمنا کیا کرتے
تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے
ہیں: (ترجمہ:) "اس ذات کی قسم جس کے
قبضہ میں میری جان ہے! میں تمنا کرتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں لڑوں، پھر قتل
کردیا جاؤں، پھر زندہ کردیا جاؤں (پھر لڑوں) پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کردیا
جاؤں (پھر لڑوں) پھر قتل کردیا جاؤں"۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 7227)
اس سال (1436 ھ=2015 ء)
کے حج کے دوران، حجاج کرام کے ساتھ دو غمناک حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ 11/ستمبر کو عصر و مغرب کے دوران، اس وقت پیش آیا، جب
موسم نہایت ہی خراب تھا، آندھی طوفان بھی بہت زبردست طریقے آیا۔ اللہ تعالی کا
کرنا کچھ ایسا ہوا کہ تعمیراتی کام کے لیے استعمال ہونے والی کرین پر بجلی گری،
پھر وہ کرین "مطاف" کے ایریا میں چھت کو توڑتے پھوڑتے زمین پر آگرا۔ پھر
منٹوں میں کئی درجن حجاج کرام شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹ
کے مطابق، 107/افرادشہید اور 238/ لوگ زخمی ہوئے۔
دوسرا حادثہ 24/ستمبر کو "جمرات
کی رمی" (کنکری مارنے کے عمل) کے دوران افرا تفری اور بھگدڑ مچنے کی وجہ سے،
منی کی 204 نمبر شاہراہ پر
پیش آیا۔ ان دنوں مکہ مکرمہ میں گرمی شدید ہے؛ لہذا حکومت نے پیشگی یہ اطلاع کردی
تھی کہ حجاج کرام کنکری مارنے کا عمل عصر کے بعد کریں۔ اب جب حجاج کنکریاں مار رہے
تھے، کچھ کنکریاں مارنے جارہے تھے اور کچھ کنکریاں مارکر واپس آرہے تھے کہ اچانک
ایک گروپ نے موقع اور جگہ کے اعتبار سے کچھ عجیب و غریب ٹائپ کا نعرہ لگانا شروع
کردیا۔ وہ گروپ صرف نعرہ بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا؛ بل کہ یک طرفہ راستہ(One Way) جس سے صرف جانے کی ہی اجازت تھی، اس یک طرفہ راستہ سے ہی مخالف
سمت میں آنا شروع کردیا۔ پھر بھگدڑ اور افرا تفری (Stampede)کی صورت پیدا
ہوگئی۔ حجاج ہڑبڑا کر دوڑنے لگے۔ ہر شخص
اپنی جان کی حفاظت کے لیے بھاگنے لگا؛ چناں چہ اس حاثہ میں سعودی وزارت صحت کی
رپورٹ کے مطابق اب تک 769 /حجاج کے شہید
ہونے؛ جب کہ 934 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔
ان دو حادثوں کے بعد، بہت سے
لوگوں نے غم و اندوہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کے ورثاء کو تعزیت پیش کی
اور سعودی حکومت کی حجاج کرام کے حوالے پیش کی جانے والی سہولیات و انتظامات کو
سراہتے ہوئے ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی۔ مگر کچھ ناعاقبت اندیش اور عناد و
تعصب کا عینک لگائے لوگ ان حادثے کو سعودی حکومت کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی نبھانے
کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ایرانی حکومت اور کچھ
ایران نوازلوگ سر فہرست ہیں؛ تا آں کہ آج نیو یارک میں، ایرانی صدر حسن روحانی نے
یہاں تک سوال کردیا کہ کیا سعودی حکومت پر حج کی ذمے داری نبھانے کے سلسے میں اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
جو لوگ سعودی حکومت کی اہلیت
اور انتظام و انصرام کی صلاحیت پر انگلی اٹھارہے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ
کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ کسی کے گھر دس مہمان آئے ہوں اور ان کے لیے دس کرسیوں
کا انتظام کرلیا اور ایک روم میں بیٹھا کر کھانا کھلا کر اور کبھی صرف پانی پر ہی
اکتفا کرکے رخصت کردیا۔ حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد کم و بیش دو ملین (بیس
لاکھ) ہوتی ہے، جہاں ہر ایک حج کرنے والا "ایک مخصوص عمل کےلیے، ایک محدود
وقت میں، ایک مخصوص سمت میں ہی جاتے ہیں"؛ لہذا ایام حج میں حجاج کی آمد و
رفت کو کسی دوسری تقریب اور دوسرے راستوں پر قیاس کرنا بالکل ہی غلط ہے۔ ایام حج
میں حجاج کی خدمت اور ان کے رہنے سہنے اور ہر رکن کی ادائیگی کےلیے آمد و رفت کا انتظام و انتصرام
سنبھالنا کوئی معمولی بات نہیں۔ مگر جن کا منشا اور مقصد صرف سعودی حکومت کے ساتھ
عناد و دشمنی ہو، تو ایسے لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور اس طرح کے غمناک اور
افسوسناک واقعہ کو بھی ایک قضیہ بناکر اپنا سر اونچا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے، جب
کچھ ایسے لوگ بھی کسی ایسے قضیہ میں اپنی گندی زبان کو لگام نہیں دے پاتے اور کھل
کر تنقیص کرتے ہیں، جن کا اس قضیہ اور مسئلہ سے کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ چناں چہ اس
"رمی جمرات" والے حادثے کے بعد، کچھ دہریہ اور ملحد قسم کے لوگوں نے حج
کی مشروعیت پر ہی سوال اٹھانا شروع کردیا۔ ان میں سرفہرست ہندوستان کی سرزمین پر
جلا وطنی کی زندگی گزار رہی بد بخت بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین بھی ہے۔ اس
ناپاک عورت نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے فریڈم آف اسپیچ کی آڑ میں، اسلام
مخالف اپنی گندی زبان اور غیر سنجیدہ قلم کا خوب استعمال کیا۔ اس حادثہ کے فورا
بعد، اس نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کئی سارے ایسے ٹویٹس کی کہ مسلمانوں کے جذبات کو
بھرکانے اور ان کوورغلانے کے لیے کافی تھے
اور کچھ عقل کے دشمن لوگ اس کی ہاں میں ہاں بھی ملاتے رہے۔ اس حادثہ کے بعد سے
تسلیمہ نسرین نے مسلمانوں، حج اور اللہ تعالی کی پاک ذات کے حوالے جو کچھ ٹویٹ کیا
ہے، اسے میں یہاں نقل کرنے سے قاصر ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے!
وہ لوگ جو ہر موقع سے اپنی
دشمنی اور عناد کی وجہ سے مخصوص ذہنیت کے ساتھ ہر مسئلہ پر رائے زنی کے عادی ہیں،
انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سعودی حکومت جس منظم و مرتب طریقے سے حج کا پروگرام
انجام دیتی ہے، اسے خدائی مدد اور موجودہ حکومت کی حد درجہ دانائی ہی کہا جاسکتا
ہے۔ جن کو اللہ تعالی نے حج کی سعادت سے سرفراز کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ الحمد
للہ، سعودی حکومت کی طرف سے ارکان حج کی ادائیگی کے لیے جو سہولیات دی جاتیں ہیں اور
انتظامات کیے جاتے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ حجاج کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت فضا میں
ہیلی کاپٹرس گشت کرتے رہتے ہیں، ہر چند قدم پر رہنمائی کےلیے بڑی بڑی اسکرینیں اور
بورڈس لگے ہوتے ہیں، ہر سمت میں جانے کے لیے درجن سے بھی زیادہ کشادے راستے کی
تعمیر، پھر ہر طرف مدد کے لیے دفاتر کا قیام، ہر طرف موجود حفاظتی دستے ہوتے ہیں
جو ضرورت کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ حجاج کرام کی خدمت کے حوالے
سےسعودی حکومت اتنا اچھا انتظام کرتی ہے کہ ان کی زبانیں حکام سعودیہ عربیہ کے لیے
دعا کرتی رہتی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ سعودی حکومت کو اس
حوالے سے طعن و تشنیع کرے؛ تو میرے خیال میں وہ شخص عقل و خرد سے خالی ہوگا۔
کرین حادثہ کے فورا بعد کچھ لوگوں
نے عوامی رابطے کی سائٹس پر شہید ہونے والوں کے وارثین کو
"معاوضہ" (Compensation) دینے کی بات کرنے لگے اور ان کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے گزر گئے ہیں، مگر اب تک
سعودی حکومت نے معاوضہ کا اعلان نہیں کیا ہے؟! یعنی ان کی نظر میں یہ حجاج جن کا
انتقال ہوا وہ گویا خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبد العزیز (حفظہ اللہ) کا کام کرنے گئے تھے؛ لہذا ان کی موت پر ان کے
فیملی ممبرس کو معاوضہ دیا جائے۔ اس طرح کی موت میں معاوضہ کی بات کہاں سے آگئی؟!
مگر اللہ تعالی نے ان لوگوں کی زبان ایسی بند کروائی کہ شاید اب اس طرح کے موقع سے
ان کی زبان کھلے ہی نہیں۔ ہوا یہ کہ سعودیہ کے صالح اور متواضع حکمراں، خادم حرمین
شریفین نے بطور معاوضہ اتنی بڑی رقم کا اعلان کیا کہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو۔
ملک سلمان بن عبد العزیز نے ہر شہید ہونے والے کے کنبہ کو ایک ملین (دس لاکھ)
سعودی ریال دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ ان کی فیملی کے دو افراد کو شاہی مہمان کی
حیثیت سے آئندہ سال حج کرانے کا بھی وعدہ کیا۔ یہ خادم حرمین شریفین کی ایسی
فراخدلی اور سخاوت و فیاضی ہے کہ اس حوالے سے بہت ہی کم حکمراں ان کے شریک و سہیم ہوں گے۔
اس طرح کے حادثات کو موضوع
بناکر سعودی حکومت کے خلاف محاذ کھولنا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں ہے۔ حج و عمرہ
کے لیے جانے والے حجاج کے لیے "آل سعود حکومت "نے شروع سے اب تک جو خدمات پیش کی
ہیں، وہ آپ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اس میں کسی طرح کی بے جا تعریف و توصیف
نہیں ہے۔ خاص طور پر جب سے ملک سلمان بن عبد العزیز (حفظہ اللہ) نے حکومت کا باگ و ڈور سنبھالا ہے،
اس وقت سے تو بہت سے ایسے مثبت فیصلے لیے گئے ہیں، جن کے اچھے اثرات نظر آنے شروع
ہوگئے ہیں۔ ابھی چند ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور پولیس کے
ہاتھوں مسجد اقصی اور فلسطینیوں پر ہوئے ظلم و جبر کے خلاف انھوں نے کھل کر اسرائیل
کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سیکوریٹی
کونسل کے ممبران کو فوری سخت اقدام اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ اللہ تعالی ان کو ثابت قدم رکھے!
اس افسوسناک
حادثہ کے حوالے سے حکومتی سطح پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ روزنامہ "الشرق
الاوسط" نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ایرانی حج مشن کے ایک عہدیدار نے یہ اعتراف
کیا ہے کہ "تقریبا تین سو ایرانی حجاج نے اسمبلی پوائنٹ سے متعلق ہدایات (Instructions) پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے
ان حاجیوں نے جمرات سے الٹے پاؤں واپسی کی کوشش کی، جو منی کی 204 نمبر شاہراہ میں حادثہ کا سبب بنی۔ اس حادثہ کے بعد کچھ ذی فہم لوگوں نے اس
اندیشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہ حادثہ کسی سازش کا نتیجہ ہوسکتاہے۔ یہ حقیقت بھی
ہے کہ ماضی میں کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ، سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے ایسا
کرچکے ہیں۔
اب اگر اس
طرح سے لوگ بدنظمی پیدا کریں؛ تو حکومت اور انتظام و انصرام سے اس کا کیا تعلق ہے!
یہ تو لوگوں کی بے عقلی ہے کہ وہ ہدایات پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے سیکڑوں
لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے؛ اس لیے جن ممالک سے لوگ حج کے لیے جاتے ہیں،
ان ممالک کی حج کمیٹیوں کو چاہیے کہ حج کا تجربہ رکھنے والے حجاج اور ماہر معلمین
کی نگرانی میں خوب سے خوب تر حج کے لیے جانے والے لوگوں کی تربیت کی جائے اور ان کو
اس بات کی بھی ٹریننگ دی جائے کہ اگر خدا نخواستہ کوئی افراتفری کی صورت ہو، یا
کہیں سے بھگدڑ کی اطلاع آئے تو وہ کیا کریں، خود کو کیسے کنٹرول کریں اور دوسرے
حجاج کی کس طرح مدد کریں۔
خیر جو لوگ
ان حادثات میں شہید ہوئے ہیں، ان کے لیے اس بڑی کوئی اورسعادت نہیں ہوسکتی کہ اللہ
کے مہمان ہونے کی حالت میں، احرام پہنے ہوئے اپنے ربّ کے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔ موت
تو مومن کا تحفہ ہے۔ اللہ تعالی ان شہداء
کو جنت میں اعلی سے اعلی مقام عنایت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا
فرمائے! جن لوگوں کا آئندہ حج کے لیے جانے کا ارادہ ہو، ان کو اس بات پر پوری توجہ
دینی چاہیے کہ حکومت کی طرف سے وضع کردہ اصول کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریں، نہیں تو
ایک شخص کی بے اصولی درجنوں لوگوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ ٭٭٭
(مضمون نگار
دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔
ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)
No comments:
Post a Comment