باسمہ تعالی
لانا پڑا تمھیں کو
تمھاری مثال میں
(امیر شریعت سادس
مولانا سید نظام الدین صاحب رحمہ اللہ 1927-2015)
تحریر: خورشید عالم
داؤد قاسمی
Email:
qasmikhursheed@yahoo.co.in
یہ کیسی حقیقت ہے کہ
کل تک جو شخص ہمارے سامنےہوتا تھا، ہمیں بہت ہی عزیز و محترم تھا، ہم ان کے ساتھ
رہتے سہتے اور زندگی گزارتے تھے، ہم ان کے کردار و گفتار سے استفادہ کرتے تھے، وہ
ہمارے خوشی و غمی میں شریک ہوتا ہے اور ہم اس کے خوشی و غمی میں ساتھ ہوتے تھے، آج
وہ شخص اپنے مالک حقیقی سے جا ملتا ہے اور پھر ہم اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر، قبر
کی گود میں اتاڑکر مٹی و پتھر سے اسے بند کردیتے ہیں۔ یہ ہے انسانی زندگی کی حقیقت۔
اللہ تعالی نے ہمیں اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے۔ ہمیں اپنے مال و متاع اور
اسباب دنیوی پر بھروسہ کرکے اللہ تعالی سے غافل نہیں ہونا چاہیے؛ بل کہ ہمیشہ اللہ
تعالی کو یاد رکھنا چاہیے۔ اس دنیا میں رہ کر جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
لاتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، اچھے اعمال کرتا ہے، اللہ کی مخلوق کے لیے رشد و ہدایت
کا ذریعہ بنتا ہے اور ان کے لیے نافع ثابت ہوتا؛ تو ایسا شخص موت سے نہیں ڈرتا؛ بل
کہ ایسے شخص کے لیے موت ایک عظیم تحفہ ہے
اور اپنے پاک پروردگار سے ملنے کاذریعہ ہے۔
بہار، اڑیسہ اور
جھارکھنڈ کے مسلمانوں کے چھٹے امیر شریعت (امیر شریعت سادس)، ہندوستانی مسلمانوں کا
متحدہ پلیٹ فارم "آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ" کے جنرل سکریٹری اور
ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہیں: دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے ممبر اور دارالعلوم
ندوۃ العلماء، لکھنؤ کی مجلس نظامت کے رکن: حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب (رحمۃ
اللہ علیہ) اس دنیا سے ہمیشہ ہمیش کے لیے کوچ کرگئے۔ انا للہ و انّا الیہ راجعون۔
امیر شریعت سادس عصر حاضر میں ہندوستانی مسلمانوں کے چند
گنے چنے رہنماؤں اور چند معروف و مشہور علماء دین میں سے تھے۔ آپ حضرت شيخ الاسلام
مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے تھے۔ آپ کا روحانی تعلق بھی
شیخ الاسلام سے ہی تھا۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد، اس
وقت کی مشہور دینی درس گاہ "مدرسہ امدادیہ، دربھنگہ" میں داخلہ لیا اور
متوسطات کی کتابیں پڑھی۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے، سن 1942 میں ایشیاء کی عظیم
دینی و اسلامی درس گاہ اور تحریک آزادی ہند کا مرکز: دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا۔
آپ دارالعلوم، دیوبند میں داخلہ لے کر، وقت کے ماہرین علوم و فنون سے اپنی علمی
پیاس بجھائی۔ پھر سن 1946 میں دارالعلوم ،دیوبند سےآپ نے دورۂ حدیث شریف کی تکمیل
کی۔ بعد ازاں، مزید ایک سال دارالعلوم، دیوبند میں رہ کر "تخصص فی الفقہ والتفسیر" کیا۔ اس طرح
سن 1947 میں آپ نے دارالعلوم، دیوبند سے تعلیم
کی تکمیل کے بعد، تدریسی لائن سے منسلک ہوگئے۔
رسمی تعلیم سے فراغت
کے بعد، آپ "مدرسہ ریاض العلوم، ساٹھی" میں بحییثیت صدر مدرس 1948 سے
1962 تک انتظامی اور تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر آپ نے مدرسہ رشید العلوم،
چترا، جھارکھنڈ (سابق بہار) میں تدریسی خدمات شروع کی۔ اس ادارہ میں 1963-1964 تک
آپ صدر المدرسین کی حیثیت سے رہے۔
جب آپ "مدرسہ
ریاض العلوم، ساٹھی"میں بحیثیت صدر المدرسین تدریسی و انتظامی ذمے داری نبھا رہے تھے، تب سے ہی
امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی (رحمہ اللہ) سے آپ کا تعارف تھا۔ جب
مولانا رحمانی امیر شریعت رابع منتخب ہوئے؛ تو ان کی دور رس نگاہ نے قابل اور
باصلاحیت علماء کا ایک ایسا گروپ امارت شرعیہ میں جمع کیا، جو آپ کی وفات کے بعد،
اسلاف و اکابر کے مشن کو پوری تندہی اور جدو جہد کے ساتھ آگے بڑھانے میں اہم کردار
ادا کیا۔ دارالعلوم کے وہ چند فضلاء جن کو "رجال ساز یا افراد ساز" کے
طور پر زمانہ یاد کرے گا، ان میں ایک شخصیت مولانا سید منت اللہ رحمانی (رحمہ اللہ)
کی بھی تھی۔ جن لوگوں نے بھی مولانا رحمانی کی زیر نگرانی کام کیا اور کسی طرح کی
ذمے داری سنبھالی، وہ سے کے سب چندے آفتاب اور چندے ماہتاب بن کر پوری دنیا میں
چمکے۔ ان ہی چند لوگوں میں امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب (رحمہ
اللہ) بھی تھے۔
نشان منزل جاناں ملے
ملے نہ ملے ٭ مزے کی چیز ہے یہ ذوق جستجو میرا
امیر شریعت رابع
مولانا سید منت اللہ رحمانی "امارت شرعیہ" کے امیر منتخب ہونے کے بعد،
جہاں امارت میں"قضاء" کا عہدہ جامعہ رحمانی کے موقر استاذ فقہ و حدیث:
قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (رحمہ اللہ) کو تفویض کیا، وہیں سن 1965 میں، حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کو، قاضی
صاحب کے اصرار پر، ایک مضافاتی مدرسہ سے امارت شرعیہ لاکر ،امارت کی نظامت کا عہدہ پیش کیا۔ یہ
وہ وقت تھا کہ امارت کے پاس اپنا دفتر تک نہیں تھا، "خانقاہ مجیبیہ" میں
اس کی آفس تھی۔ مگر اللہ کے ان مخلص بندوں نے مولانا رحمانی کی زیر نگرانی، دن رات
ایک کرکے محنت کی اور امارت کے مشن کو بہار و اڑیسہ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں تک
پہنچایا۔ جوں جوں امارت کا کام بڑھتا گیا، اللہ نے امارت کے لیے راہ ہموار کی اور
پھر "پھلواری شریف، پٹنہ" میں امارت کی اپنی آفس وغیرہ کی تعمیر کا خواب
شرمندہ تعبیر ہوا۔
19/مارچ 1991 کو
امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی کی وفات کے بعد، مولانا عبد الرحمن
صاحب رحمہ اللہ کو "امیر شریعت خامس" اور مولانا سید نظام الدین صاحب کو
نائب امیر منتخب کیا گیا۔ 2/ستمبر 1998 کو امیر شریعت خامس اپنے رب سے جاملے۔ پھر یکم
نومبر 1998 کو اراکین شوری امارت شرعیہ نے آپ کو "امیر سادس" اور قاضی
مجاہد الاسلام قاسمی کو نائب امیر منتخب کیا۔ امارت شرعیہ کے حوالے سے چاہے آپ کی
نظامت کا طویل دور ہوا یا پھر "امارت" کا لمبا زمانہ، آپ نے اپنی ذمے
داری بحسن و خوبی نبھاتے ہوئے ادارہ کی ترقی اور اس کے مشن کے پھیلانے میں اہم
کردار ادا کیا۔
نگاہ برق نہیں، چہرہ
آفتاب نہیں ٭ وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جب حضرت مولانا نظام
الدین صاحب "امارت" سے منسلک ہوگئے؛ تو پورے طور پر امیر شریعت رابع کے
ہوکر رہ گئے۔ اب چاہے پورے ہندوستانی مسلمانوں کی الجھی گتھی سلجھانی ہو یا امارت
کے مشن کو گاؤں گاؤں پہنچانا، ہر جگہ اخلاص و للہیت کے ساتھ اپنی ذمے داری نبھاتے
رہے۔ جب امیر شریعت رابع نے دسمبر 1972 میں تحریک"مسلم پرسنل لاء" کا
آغاز کیا؛ تو اس وقت بھی مولانا سید نظام الدین صاحب اس تحریک میں اپنے رفقاء کے
ساتھ آگے آگے رہے اور امیر شریعت کے معین و مددگار ثابت ہوئے۔ بورڈ کے قیام کے
بعد، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب (رحمہ اللہ) کو بورڈ کا باوقار عہدہ صدارت
پیش کیا گیا؛ جب کہ مولانا رحمانی کو جنرل سکریٹری منتخب کیا۔ بہت سے لوگوں کے
ساتھ مولانا سید نظام الدین صاحب کو بھی بورڈ کا معزز رکن بنایا گيا۔ قاری محمد طیب
صاحب (رحمہ اللہ) کی وفات کے بعد، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (رحمہ اللہ) کو
بورڈ کا صدر منتخب کیا گيا۔ پھر 19/مارچ 1991 کو بورڈ کے جنرل سکریٹری کی وفات کے
بعد، باتفاق رائے مئی 1991 میں مولانا سید نظام الدین صاحب کو بورڈ کا جنرل
سکریٹری بنایا گيا۔ اس وقت سےاپنی آخری سانس تک آپ بورڈ کے موقر جنرل سکریٹری رہے۔
بورڈ میں چوں کہ مختلف فرقوں اور مختلف جماعتوں کے نمائندے ہوتے ہیں، اس لیے
اختلاف رائے کا ہونا یقینی اور ظاہر ہے، مگر اس کے باوجود بھی تقریبا اپنے 25/سالہ
جنرل سکریٹری رہنے کے دور میں، کسی طرح کا کوئی بڑا انتشار رونما نہ ہونے دیا؛ بل
کہ اپنی خدا داد صلاحیت اور حسن اخلاق سے بورڈ کے شیرازہ کو متحد رکھا۔
فروغ مہر بھی دیکھا،
جمال گلشن بھی ٭ تمھارے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے
آپ کا دائرہ کار صرف
"امارت شرعیہ" اور "آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ" تک ہی
محدود نہیں تھا؛ بل کہ آپ دارالعلوم، دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
جیسی اسلامی اور علمی درسگاہوں اور تحریکوں کی مجلس شوری اور مجلس نظامت کے رکن
بھی رہے۔ آپ کو ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کا رکن سن 1996 میں؛ جب دارالعلوم،
دیوبند کی مجلس شوری کا رکن سن 1997 میں منتخب کیا گيا۔ آپ ان دونوں اداروں کی
شورائی میٹنگوں میں پابندی سے پہنچتے تھے اور اپنی رائے صواب سے نوازتے تھے۔ آپ ان
اداروں کو اکابر کی امانت سمجھتے تھے اور ان اداروں کے خلاف کسی طرح کی بات سننا
پسند نہیں کرتے تھے۔
مجھے یاد آرہا ہے کہ
میں دارالعلوم، دیوبند میں "تکمیل ادب عربی" کا طالب علم تھا۔ اس وقت
میرے ایک دوست نے مجھے یہ بتایا تھا کہ وہ رمضان بعد ایک دن امیر شریعت سے ملنے
گئے ہوئے تھے۔ دارالعلوم، دیوبند کا ایک طالب علم حضرت سے "تکمیل افتاء میں
داخلہ کی شفارش" کے لیے پہنچا۔ اس طالب علم نے امیر شریعت کی شفارش حاصل کرنے
کے لیے اپنی بات شروع کی اور کہا: "میں آپ کے یہاں تکمیل افتاء میں داخلہ کی شفارش کے لیے آیا ہوں؛ کیوں کہ دارالعلوم
میں بہار کے طلبہ کا آسانی سے تکمیل افتاء میں داخلہ نہیں ہوتا؛ جب کہ دوسری جگہ
کے طلبہ کا بآسانی داخلہ ہوجاتا ہے۔" امیر شریعت نے جوں ہی اس طالب کا یہ
جملہ سنا، بہت ہی خفا ہوئے اور کہا کہ "آپ نے اس جملے سے دارالعلوم، دیوبند
کی انتظامیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں مجلس شوری کا رکن ہوں اور بخوبی جانتا
ہوں کہ حقیقت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے تکمیل افتاء میں داخلہ کے بہت سے طلبہ متمنی
ہوتے ہیں اور وہ امتحان میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کی وجہ سے اس کے مستحق بھی ہوتے
ہیں۔ مگر تکمیل افتاء میں محدود سیٹیں ہونے کی وجہ سے اتنے طلبہ کی گنجائش نہیں ہوتی؛
اس لیے تقابل کے بعد ہر صوبہ سے قابل طلبہ کو منتخب کیا جاتا۔ اس میں بہار کے طلبہ
بھی ہوتے ہیں۔ مگر آپ نے دروغ گوئی سے کام لیاہے۔ آئندہ اس طرح کی دروغ گوئی سے
پرہیز کریں۔"
ان معروف ملی
تنظیموں اور مشہور اداروں کے علاوہ آپ دسیوں تنظیموں اور مکاتب و مدارس کے نگراں
اور سرپرست تھے۔ آپ اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا جیسی عظیم علمی اکیڈمی کے سرپرستوں میں
بھی تھے۔ آپ بڑے اخلاص سے ان اداروں کی رہنمائی کرتے رہے۔ وہ جس عہدہ پر بھی فائز رہے،
اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہی اور اسلاف و اکابر کی نمائندگی اور قائم مقامی بڑی
حسن و خوبی اور سلیقے کے ساتھ انجام دیتے رہے اور کبھی کسی کو کچھ بولنے کا موقع
نہ دیا۔
دونوں جہاں آئینہ
دکھلا کے رہ گئے ٭ لانا پڑا تمھیں کو تمھاری مثال میں
امیر شریعت سادس کی پیدائش بہار کے مشہور ضلع:
گیا میں 31/مارچ 1927 کو ہوئی۔ آپ کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے تھا۔آپ کے والد
ماجد قاضی سید حسین صاحب، حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری (رحمہ اللہ ) کے شاگرد
تھے۔ آپ کئی مہینوں سے صاحب فراش تھے۔ انتقال سے چند دنوں قبل رانچی میں زیر علاج
تھے۔ ڈاکٹروں نے یہ کہہ کہ واپس کردیا تھا کہ اب حضرت کسی بھی وقت اس دار فانی سے کوچ
کرجائیں گے۔ اس کے بعد آپ کو "پھلواری شریف، پٹنہ" میں لاکر رکھا گيا۔
17/اکتوبر 2015 کی شام کو، چھ بج کر پندرہ منٹ پر، 88 سال کی عمر میں، حضرت والا
اپنے پاک پروردگار کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہزاروں لوگوں کو یتیم
کرکے رحلت فرما گئے۔ نائب امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب، کارگزار
جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے آپ کی نمازجنازہ پڑھائی اور پٹنہ کے "حاجی حرمین قبرستان"
میں لاکھوں لوگوں نے غمناکی کی حالت میں آپ کو سپرد خاک کردیا۔
وہ فاقہ مست ہوں جس
راہ سے گزرتا ہوں ٭ سلام کرتا ہے آشوب روزگار مجھے
٭٭٭
(مضمون نگار
دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔)
No comments:
Post a Comment