Monday, May 23, 2016

حافظ اسماعیل منشی صاحب(رحمہ اللہ) کی وفات


حافظ اسماعیل منشی صاحب(رحمہ اللہ) کی وفات
اب انھیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لےکر

بہ قلم: خوشید عالم داؤد قاسمی


 اصول و ضابطہ کے حوالے سے ملک زامبیا کی معروف ومشہور شخصیت، جناب حافظ اسماعیل منشی صاحب (رحمہ اللہ) خلیفہ شیخ طریقت حضرت مولانا قمرالزماں صاحب (دامت برکاتہم) 14/نومبر 2015 کو 12بج کر 15 منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کل تک ہم انھیں ان کے تواضع و انکساری، زہد وتقوی، عفت و پاکدامنی، اصول و ضابطہ، حسن اخلاق اور عظیم کارنامے کی وجہ سے یاد کرکے ان کی تعریف و توصیف کرتے تھے، اب ان کے ان اوصاف حمیدہ اور عظیم کارناموں کو یاد کرکےہم ان کے حق میں دعا گو ہوں گے کہ اے اللہ حافظ صاحب (رحمہ اللہ)  کی خدمات عالیہ کو قبول فرما اور ان کو اپنے شایان شان اجر عظیم عطا فرما!
حافظ صاحب (رحمہ اللہ) 2008 سے ہارٹ کے مریض تھے۔ ان کی صحت ادھر ایک مہینہ سے کچھ زیادہ ہی خراب رہنے لگی تھی۔ طبی معائنہ اورجانچ کی غرض سے ہوسپیٹل کی آمد و رفت لگی ہوئی تھی۔ بہ روز: جمعہ، 13/نومبر کو سینہ میں زیادہ تکلیف محسوس ہوئی؛ تو  فورا دارالسلطنت لوساکا کے "فیر بھیو ہوسپیٹل" میں ان کو  اڈمٹ کرایا گيا تھا۔ رات میں ہارٹ اٹیک آیا۔ پھر ان کو "آئی سی یو" میں شفٹ کیا گيا۔  بہ روز سنیچر: 14/نومبر کو 10/بج کر 23 /منٹ پر ایک شخص نے  ایک"واٹس اپ" گروپ پر، ان کی موت خبر بھیجی؛ لیکن فورا 8 منٹ کے بعد اس شخص نے معذرت کے ساتھ اس خبر کی تردید کردی۔ پھر 12 بج کر 20 منٹ پر ایک میسیج آیا کہ حافظ صاحب 12بج کر 15 منٹ پر انتقال کرگئے ہیں۔ یہ خبر درست اور مبنی بر حقیقت تھی۔
حافظ صاحب پورے زامبیا میں اپنے عظیم تعلیمی و تبلیغی اور اصلاحی کارنامے کی وجہ سے مشہور تھے۔ دارالعلوم فلاح دارین، ترکیسر، سورت، گجرات، سے  رسمی تعلیمی تکمیل کے بعد، اللہ تعالی نے ان کےلیے افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک: زامبیا، جس کی کل آبادی 15408479 نفوس پر مشتمل ہے، میں خدمات جلیلہ انجام دینا مقدر کررکھا تھا؛ لہذا حافظ صاحب (رحمہ اللہ) 20/سال کی عمر میں، زامبیا تشریف لائے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ زامبیا آنے کے بعد، حافظ صاحب (رحمہ اللہ) نے ایک چھوٹی سی مسلم آبادی میں تعلیم و تدریس کا کام شروع کیا۔ اوّلا حافظ صاحب (رحمہ اللہ) نے تقریبا ایک سال جامع مسجد، لوساکا میں تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔
حافظ صاحب (رحمہ اللہ) کا اصل کارنامہ اس وقت لوگوں کے سامنے آنا شروع ہوا، جب آپ نے "پیٹاؤکے" کے نزدیک ایک گاؤں "کویرے" میں دینی خدمات شروع کی۔ "کویرے" میں دینی خدمات انجام دیتے ہوئے حافظ صاحب (رحمہ اللہ) نے 1973 میں ایک تعلیمی فلاحی تنظیم "پیٹاؤکے کویرے مسلم ایسوشیئشن" قائم کیا۔ پھر اس تنظیم کے تحت انھوں ایک اسلامک اسکول: "انوسا سکنڈری اسکول" اور ایک مدرسہ، بہ نام: "مدرسہ انوار الاسلام" قائم کیا۔ آج ان ادارے میں 370 غریب، مفلس اور یتیم و نادار بچے ، 15/ قابل اور باصلاحیت اساتذہ کی نگرانی میں دینی و عصری علوم حاصل کررہے ہیں۔ ان اسکول و مدرسہ کے علاوہ، اس تنظیم کے تحت، دیہاتوں میں تقریبا 30/مساجد و مکاتب کا بھی چل رہے ہیں، جن میں سیکڑوں معصوم بچے اور بچیاں ابتدائی اسلامی تعلیمات حاصل کررہے ہیں۔
حافظ صاحب (رحمہ اللہ) کے اندر اللہ تعالی نے دین کی خدمت کا جذبہ خوب رکھا تھا۔ وہ دیار غیر میں ہونے کے باوجود بھی، اشاعت اسلام کے حوالے سے جو کارنامے انجام دیے، اسے  سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ جس ملک میں آئے اس کی زبان و تہذیب سے یکسر نابلد ہونے کے باوجود، صرف چند مہینوں کی قلیل مدت میں محنت شاقہ کے بعد، انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ مقامی زبان بھی خوب سمجھنے اور بولنے لگے اور خود مقامی لوگوں کے ساتھ اس طرح زندگی گزاری کے وہ لوگ حا‌فظ صاحب کو اپنا ہمنوا اور معین و مددگار سمجھنے لگے۔ پھر مقامی لوگوں کی تعلیم و تفہیم کی غرض سے، اکابر علماء کی تقریبا نو اردو کتابوں کا ترجمہ مقامی زبان میں کیا۔ ان ترجمہ شدہ کتابوں میں مفتی کفایت اللہ صاحب (رحمہ اللہ) کی "تعلیم الاسلام" سر فہرست ہے، جسے پڑھ کر ہونہار ننھے منے بچے اور بچیاں  اسلامی عقائد و مسائل سیکھتے ہیں۔ اسی طرح مقامی لوگوں میں تبلیغی کام میں پیش آنے والی دشواری کو حل کرنے کےلیے "چھ باتیں" کا ترجمہ بھی مقامی زبان میں کیا؛ تاکہ لوگ یہ جان سکیں کہ "تبلیغی جماعت" میں کیا سیکھا اور سیکھایا جاتا ہے۔
ایک لمبی مدت تک "پیٹاؤکے" کے گاؤں اور دیہات میں دینی خدمات انجام دینے اور ایک بڑی جماعت کو وہاں دین کی خدمت پر مامور کرنے کے بعد، حافظ صاحب (رحمہ اللہ) 1996 میں، راجدھانی لوساکا منتقل ہوگئے اور وہیں بود و باش اختیار کرلیا  اور اسکول و مدرسہ اور مکاتب و مساجد کی ذمے داریوں سے مستعفی ہوگئے تھے۔ مگر اپنی عمر کے اخیر لمحہ تک سرپرست و نگراں کے طور پر ان اداروں کی سرپرستی کرتے رہے۔ اساتذہ و طلبہ کی مشغولیات سے پوری واقفیت حاصل کرنے اور بچشم خود معائنہ کی غرض سے مستقل پیٹاؤکے آتے جاتے رہتے تھے۔ جب کوئی اہم مسئلہ پیش آتا تھا؛ تو سب کی نگاہیں ان کی طرف ہوتی تھی اور ان کی بات قول فیصل کا درجہ رکھتی تھی۔ میرے دوست مفتی عبد القوی قاسمی اور مولانا و قاری زکی الرحمان قاسمی صاحبان حافظ صاحب (رحمہ اللہ) کے قائم کردہ اسکول و مدرسہ میں  تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جب بھی میری ان حضرات سے بات چیت ہوتی تھی؛ تو ان لوگوں کوحضرت حافظ صاحب (رحمہ اللہ) کی تعریف میں رطب اللسان اور ان کی سخاوت و فیاضی اور وسعت ظرفی کا ذکر کرتے پایا۔
رفیق محترم مفتی عبد القوی قاسمی صاحب (جو حال ہی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ حج و عمرہ کے مبارک سفر سے واپس آئے ہیں) کی دعوت پر جنوری 2012 میں راقم الحروف نے تین دنوں کے لیے پیٹاؤکے کا دورہ  کیا تھا۔ اس وقت میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب میں یہ دیکھا کہ حافظ صاحب (رحمہ اللہ) کے اسکول میں، پڑھنے والے عیسائی طلبہ بھی کرتا، پیجامہ اور ٹوپی میں ملبوس نظر آئے۔ یہ یونیفارم ہی مجھے حیران و ششدر کرنے کے لیے کیا کم تھا کہ میرے سامنے کچھ ایسے طلبہ کو قرآن پڑھ کر سنانے کو کہا گیا جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ وہ طلبہ قرآن کریم کی تلاوت صحیح مخارج اور تجوید کی پوری رعایت کے ساتھ کررہے تھے۔ در اصل حافظ صاحب (رحمہ اللہ) نے اسکول کے قیام کے روز اول سے یہ اصول اپنایا کہ جو طلبہ بھی اس اسکول میں آئیں گے، ان کو اسکول کا یونیفارم پہننا لازمی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامک اسٹدیز کے گھنٹے میں بھی ان کی شمولیت لازمی ہے۔ اخیر میں مفتی عبد القوی قاسمی نے مجھے بتایا کہ اس طرح (اسلامک اسٹڈیز پڑھ کر)کچھ ایسے عیسائی طلبہ بھی ہیں؛ جو خود بخود اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ الحمد للہ علی ذالک۔
حافظ صاحب (رحمہ اللہ) "پیٹاؤکے کویرے مسلم ایسوشیئشن" کے سرپرست و نگراں ہونے کے ساتھ "مون ریز ٹرسٹ" کے ایک اہم ٹرسٹی تھے۔ راقم الحروف مون ریز ٹرسٹ کے شعبہ عالمیت اور اسکول کا ایک خادم ہے؛ لہذا اس حوالے سے کئی بار ان سے میری گفتگو ہوئی۔ راقم نے ان کی ہر بات ادارےکے مفاد میں پایا۔ مون ریز ٹرسٹ، زامبیا کے چند بڑے اداروں میں سے ایک اہم ادارہ ہے، جس کے تحت لڑکے اور لڑکیوں کے لیے دو علاحدہ علاحدہ نرسری تا سینئر سیکنڈری اسکولس، شعبہ عالمیت اور ملک کے تین پس ماندہ صوبوں میں 45 سے زیادہ مساجد و مکاتب کا انتظام و انصرام بڑے حسن و خوبی سے چل رہا ہے۔ حافظ صاحب مون ریز ٹرسٹ کے بانی و چیرمین، جناب شیخ شاہد موتالا صاحب  حفظہ اللہ اور دوسرے منتظمین سے اچھا تعلق رکھتے تھے اور اس ٹرسٹ کی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ زمینی حقائق سے پوری طور پر واقف تھے؛ لہذا ان کا مشورہ بہت مفید اور کار آمد ثابت ہوتا تھا۔ اللہ تعالی امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے!
حافظ صاحب (رحمہ اللہ) اوّلا حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب (خلیفہ حکیم الامّت) کے دست حق پرست پر بیعت تھے۔ پھر خان صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد، حافظ صاحب نے حضرت مولانا سید ابرار احمد صاحب دھولیوی رحمہ اللہ (سابق شیخ الحدیث: دارالعلوم فلاح دارین، ترکیسر، سورت، گجرات) سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا۔ مولانا دھولیوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد، حافظ صاحب نے 1995 میں، شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب (دامت برکاتہم) سے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ حضرت مولانا قمر الزماں صاحب (دامت برکاتہم) نے آپ کو 1998 میں خلافت سے نوازا۔ آپ شیخ کے چند بڑے خلفاء میں سے تھے۔
حافظ صاحب (رحمہ اللہ) 22/جون 1950 کو ٹنکاریہ، ضلع: بھروچ، گجرات میں پیدا ہوئے۔ اللہ نے آپ کو تین لڑکے: جناب محمد سلیم صاحب مرحوم، جناب محمد ظہیر صاحب اور جناب ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب  اور دو لڑکیوں سے نوازا تھا۔ آپ کے بڑے صاحبزاے جناب سلیم صاحب پائلٹ تھے۔ سن 2008 میں عمرہ کی نیت سے مکّہ مکرمہ کا سفر کیا۔ عمرہ کی ادائیگی کے بعد، مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ مدینہ منورہ میں کار حادثہ میں، جائے حادثہ پر ہی وفات کرگئے۔ آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ پائلٹ صاحب کی جوانی کی موت سے حافظ صاحب بہت صدمہ زدہ تھے۔ اس صدمہ سے آپ کی صحت بہت متاثر ہوئی۔ دوسرے صاحبزادے جناب محمد ظہیر صاحب ایک اچھے اور سچے تاجر ہیں؛ جب کہ تیسرے صاحبزادے جناب ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب، میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور ایک اسپتال میں برسر روزگار ہیں۔
جناب محمّد رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - کی ایک حدیث ہے، جس کا ترجمہ ہے: "جب انسان مرجاتا ہے؛  تو اس سے اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے، سوائے تین (اعمال کے): سوائے صدقہ جاریہ کے، یا ایسا علم جس سے نفع اٹھایا جائے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعاء کرے۔" (صحیح مسلم) اب حافظ صاحب (رحمہ اللہ) ہمارے درمیان نہیں رہے۔ مگر الحمد للہ، انھوں نے تعلیم و تعلم کا جو سلسلہ ایک لمبی مدت تک جاری رکھا وہ ان کے لیے صدقہ جاریہ رہے گا۔ حافظ صاحب کے صالح اور نیک سیرت لڑکے بھی ہیں، جو ـ ان شاء اللہ ـ  ان کے حق میں دعا رفع درجات کریں گے۔  اسی طرح ان کی عظیم خدمات کو دیکھ کرہر ایک مسلمان ان کے حق میں دعا کرے گا۔ اس سب سے بڑھ کر، مجھے یقین ہے کہ حافظ صاحب کا حسن اخلاق اور تقوی و پرہیزگاری سے ان نامۂ اعمال بھرا  ہوگا اور رحمن و رحیم اللہ اس سےخوش ہوکر ، ان کو اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائیں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی حافظ صاحب کی قبر کو نور سے بھردے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!

(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔)

No comments: