Sunday, December 8, 2019

سن 2018 میں رخصت ہونے والی چند نمایاں شخصیات


سن 2018 میں رخصت ہونے والی چند نمایاں شخصیات
 
از: خورشید عالم داؤد قاسمی
 
سن 2018 رخصت ہوگیا۔ ہم اس وقت سن 2019 کا استقبال کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال ہمارے متعدد رہنما وقائدین ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ جب تک وہ با حیات رہے، انھوں نے مختلف پلیٹ فارمس سے قوم وملت کی خدمات انجام دیں۔ جب آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے؛ تو یہ ہم پر یہ ضروری ہے کہ ہم ان کے محاسن  کا تذکرہ کریں اور ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ہم ان قومی وملی رہنما وقائدین میں سے چند کا ذکر،  یہاں اس رپورٹ میں کرتے ہیں۔
  •  حضرت مولانا عبد الوہاب خلجی، سابق ناظم: مرکزی جمعیت اہل حدیث، نئی دہلی(4/جنوری 1956 - 13/اپریل 2018)
    آپ کی پیدائش صوبہ : پنجاب کے مشہور شہر: مالیر کوٹلہ میں ہوئی۔  ابتدائی تعلیم کے بعددہلی کے مدرسہ سبیل السلام اور جامعہ رحمانیہ بنارس میں تعلیم حاصل کی۔ پھر آپ  اعلیٰ تعلیم کےلیے معروف اسلامی یونیورسیٹی جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ آپ سن 1984سے 1990تک مرکزی جمعیت اہل حدیث، ہند کے قائم مقام ناظم رہے۔ اس کے بعد، آپ سن 1990سے  2001تک مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم عمومی کے عہدے پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ، آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن بھی رہے۔ آپ جامعہ سلفیہ بنارس، آل انڈیا ملی کونسل اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بھی رکن تھے۔
    آپ نے اپنا ایک علمی اور تحقیقی ادارہ "الدارالعلمیہ" کے نام سے قائم کیا تھا۔ اس ادارہ کے تحت آپ نے مختلف زبانوں میں سو سے زائد بیش بہا علمی اور تحقیقی کتابیں شائع کی۔ آپ بر صغیر کے معروف علماء  میں سے تھے۔
     
  •  حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی، صدر : دار العلوم وقف، دیوبند، ونائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ(8 جنوری 1926ء-14/اپریل 2018 )
    آپ کی پیدائش صوبہ یوپی کے ضلع: سہارن پورکے معروف شہر: "دیوبند" میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد عالم اسلام کی عظیم ہستی  حجۃ الاسلام محمد قاسم نانوتوی کے پوتے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی، سابق مدیر: دار العلوم، دیوبند ہیں۔ مولانا محمد سالم صاحب قاسمی کے بارے میں اہل علم کا یہ خیال ہے کہ آپ فکر ولی اللّٰہی کے سرخیل، علوم قاسمیؒ کے محافظ وترجمان تھے۔ بجا طور پر آپ  اپنے والد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے جانشین تھے۔
    آپ  نے از اول تا آخر پوری تعلیم دار العلوم، دیوبند میں ہی ہوئی۔ پھر آپ دار العلوم، دیوبند کے استاذ منتخب ہوئے۔ آپ نے ابتدائی درجوں سے لے کر، دورۂ حدیث شریف تک اکثر کتابیں پڑھائی۔ پھر آپ دار العلوم وقف، دیوبند کے مہتمم، بعدہ  صدر مہتمم بنے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کےایک طویل مدت تک  نائب صدر رہے۔ آپ اس کے علاوہ بھی متعدد اداروں کے نگراں وسرپرست اور ممبر رہے۔  آپ کی وفات  پر  جسلۂ تعزیت کو خطاب کرتے ہوئے، دار العلوم دیوبند کے استاذ حدیث اور جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید  ارشد مدنی نے فرمایا تھا  کہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب کی رحلت ایک ایسا ناقابل تلافی خسارہ ہے جس کی بھرپائی مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی آپ کی شخصیت علم و عمل کے اعتبارسے امتیازی حیثیت کی تھی۔  وہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے علوم ظاہری و علوم باطنی کے حقیقی ترجمان تھے۔ انھوں نے ایک لالہ زار علمی چمن آباد کیا ہے، اب ان کے اس لگائے ہوئے چمن کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے، حق تعالیٰ اس ادارے کو ترقیات عطاء فرمائے اور جو علمی میراث چھوڑ کر گئے ہیں اس کی حفاظت فرمائے اور آپ کا فیض تاقیامت جاری رہے۔
     
  •  حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری، شیخ الحدیث: جامعہ مظاہر علوم، سہارن پور، یوپی ، ہند(2/ اکتوبر 1937-11/جولائی 2018)
    آپ یوپی کے معروف ضلع: جون پور میں پیدا ہوئے۔ وہیں آپ کی پرورش ہوئی۔ وہیں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر آپ نے مظاہر علوم، سہارن پور میں داخلہ لیا۔ مظاہر علوم سے رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد، آپ سن 1381ھ میں اسی ادارہ میں استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دینی شروع کردی۔ کچھ سالوں بعد، آپ نے بخاری جیسی اہم کتاب کا درس دینا شروع کیا اور آپ اس ادارہ کے "شیخ الحدیث" منتخب ہوئے۔ اخیر عمر تک آپ نے بخاری شریف پڑھایا۔ آپ نے تقریبا 57/سالوں تک مظاہر جیسی عظیم دینی درس گاہ میں، درس نظامی کی ابتدائی کتابوں  سے لیکر بخاری شریف تک کا درس دیا۔ آپ کی پوری زندگی کا مشغلہ حدیث پڑھانا، حدیث پر بحث وتحقیق کرنا رہا۔ آپ کی تحقیقات کا مجموعہ "الیوقیت الغالیہ" کے نام سے چھپا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کی متعدد افادات ہیں۔ آپ کی وفات 11/جولائی  2018  کو مظاہر علوم میں ہی ہوئی۔ آپ کو سہارن پور کے گور غریباں میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ کے جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ آپ علماء عزاب میں سے تھے۔ آپ نے شادی نہیں کی تھی۔ اللہ تعالی آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ آمین!
  •  حضرت مولانا مفتی اختر رضاخان صاحب ازہری، (2/فروری 1941-20/جولائی 2018)
    حضرت مولانا مفتی  اختر رضا خان صاحب  شہر بریلی کے محلہ سوداگران میں 2 فروری 19433 کو پیدا ہوہے۔ آپ ایک مشہور  عالمِ دین اور مفتی تھے۔
    آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم  جامعہ رضویہ منظر اسلام سے حاصل کی۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے "جامعہ ازہر، مصر" چلے گئے۔ آپ "مفتی اعظم ہند" سے مشہور تھے۔ اردن کی رائل اسلامک سوسائٹی کی طرف سے دنیا میں  سب سے زیادہ پانچ سو بااثر مسلمانوں کی فہرست کی درجہ بندی میں ایک بار آپ  بائیسویں نمبر پر تھے۔
    دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں آپ کے متعلقین متوسلین پھیلے ہوئے ہیں۔ فقہی عنوان پر مشتمل  اظہار الفتاویٰ اورنعتیہ دیوان "سفینہ بخشش" آپ کی شہرہ آفاق  کتابیں ہیں۔
     
  •  سی کے جعفر شریف، سینئر لیڈر، انڈین نیشنل کانگریس وسابق ریلوے وزیر (3/نومبر 1933-25/نومبر 2018)
    سی جعفر شریف ایک سینئر کانگریسی لیڈر تھے۔ آپ پی وی نرسمہا راؤ کی سرکار میں  21/جون 1991 سے 16/اکتوبر 1995 تک ریلوے منسٹر رہے۔ آپ کام یاب ترین ریلوے منسٹر کہے جاتے تھے۔ آپ آٹھ بار ایم پی رہے۔   آپ جمعہ کی نماز کے لیے جاتے وقت اپنی کار پر بیٹھنا چاہ رہے تھے کہ آپ گر گئے۔ ہوسپیٹل میں آپ کو داخل کروایا گیا۔ آپ ہسپتال میں ہی، بروز: اتوار، 25/دسمبر کو انتقال کرگئے۔
     
  •  حضرت مولانا محمد اسرار الحق قاسمی، رکن شوری: دار العلوم، دیوبند وممبر آف پارلیامنٹ وبانی صدر: آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن(15/ فروری 1942-7/دسمبر 2018)
    آپ کی پیدائش تاراباری، کشن گنج، بہارمیں  پندرہ فروری 1942 کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کےحصول کے بعد، افکارِ اسلامی کی عظیم درس گاہ: دار العلوم، دیوبند میں داخل ہوئے اور 1964 میں دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔
    فراغت کے بعد، آپ نے خدمت کے لیے تدریسی میدان کا انتخاب کیا۔ اوّلا آپ نے "مدرسہ رحیمہ، مدھے پورہ" میں تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر سن 1968 میں "مدرسہ بدر الاسلام، بیگو سرائے" سے منسلک ہوگئے۔ آپ نے اس ادارہ میں 1973 تک خدمات انجام دی پھر مستعقی ہوگئے۔  اس کے بعد، آپ  1974 میں جمعیت علماء ہند سے جڑ گئے۔ اکابرِ جمعیت نے 1980 میں آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے جمعیت کے جنرل سکریٹری کے اہم عہدہ پر فائز کیا۔آپ 1991تک جمعیت کے جنرل سکریٹری رہے۔ جمعیت سے مستعفی ہونے کے بعد، آپ نے  "آل انڈیا ملی کونسل" کے پلیٹ فارم سےقوم وملت کی خدمات انجام دینا شروع کیا۔پھر آپ نے تعلیمی میدان میں کام کرنےکے لیے سن 2000ء میں "آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن" قائم کیا۔ آپ نے خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے "ملی گرلز اسکول"  ٹپو، کشن گنج  میں قائم کیا۔ اس ادارے میں سیکڑوں لڑکیاں، اسلامی ماحول میں عمدہ تعلیم وتربیت سے حاصل کر رہی ہیں۔
    آپ ایک دینی واسلامی فکر کے حامل قلم کار اور کالم نگار تھے۔ آپ کے مضامین اسلامی افکار پر مشتمل ہوتے تھے۔ آپ نے جس طرح ہزاروں کالمز لکھے، اسی طرح آپ نے عوام وخواص کے سیکڑوں مجمع کو خطاب کیا۔ آپ ایک بہترین عوامی خطیب تھے۔
     سن 2009 کے عام انتخابات میں، "کانگریس" پارٹی نے آپ کو "کشن گنج" سے ٹکٹ دیا اورانتخاب میں فتح حاصل کرکے پارلیامنٹ پہونچے۔  سن 2014ء میں،  آپ نے بی جے پی کے امیدوار شکشت دے کرپارلیامنٹ پہونچے۔ بحیثیت ایم پی آپ نے اپنے حلقہ کشن گنج میں"علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی" کی برانچ قائم کرنے کی پوری کوشش کی ۔ آپ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔
     
  •  حضرت علامہ سید عبد العزیز ظفر جنکپوری صاحب قاسمی حسنی، امام وخطیب شاہی مسجد خواجہ پیر، 59 ڈی، فرینڈس کالونی، نئی دہلی،56 (متوفی 31/دسمبر 2018)
    آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ امینیہ ، دہلی میں حاصل کی۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے مشہور اسلامی درس گاہ: دار العلوم میں داخل ہوئے۔  سن 1955ء میں، آپ نے دار العلوم دیوبند فضیلت کی تکمیل کی۔  آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام مولاناسید  حسین احمدمدنی، شیخ الادب مولانا اعزاز امروہوی، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ، شیخ التفسیر حضرت مولانا ادریس کاندھلوی، حکیم الاسلام قاری محمد طیب، وغیرہم کے نام شامل ہیں۔
    آپ 31/دسمبر 2018 کو تقریبا 107 سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ آپ نے شاہی مسجد خواجہ پیر، 59 ڈی، فرینڈس کالونی، نئی دہلی،56  میں تقریبا چالیس سالوں تک امامت وخطابت کا فریضہ انجام دیا۔
    آپ ایک بہترین شاعر تھے۔ آپ نے جملہ اصناف میں طبع آزمائی کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔  مگر آپ  کی پسندیدہ اصناف میں حمد و نعت اور منقبت و قصیدہ شامل ہیں۔ ****

No comments: