"اظہارِ
رائے کی آزادی" کی آڑ میں بے لگام ہوتے لوگ
از: خورشید عالم داؤد قاسمی (ایم
اے)٭
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
"اظہار رائے کی آزادی" (Freedom
of Expression/Speech) کی آڑ میں آج لوگ بے
لگام ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر کچھ ذہنی طور پر بیمارعناصر نے "اظہار رائے
کی آزادی" کا اتنا غلط مفہوم سمجھا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ وہ کچھ بھی،کسی
وقت، کوئی جگہ ، کسی طرح اور کسی کے بھی خلاف بول سکتے ہیں۔ اگر اظہار رائے کی
آزادی کا یہی مطلب ہے؛ تو پھر ایک شخص خود کو آزاد سمجھے گا اور دوسرے کو گالی گلوچ سے نوازے گا،اس کی توہین و تذلیل کرےگا،
دوسرےکے خلاف جھوٹ بولے گا اورجھوٹے الزامات لگائے گا۔ یہ کہانی صرف شخص واحد پر
ختم نہیں ہوگی؛ بل کہ اس کی زد میں ایک
معاشرہ اور سماج آسکتا ہے، ایک اسٹیٹ آسکتا ہے، پورا ملک آسکتا ہے، ایک حکومت اور حکومت کا سربراہ آسکتا ہے، دنیا کی
محترم شخصیات، مذہبی اسکالرس اور مذہبی پیشوا
آسکتے ہیں۔ اگر اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہی ہوگا؛ تو پورےملک، قبیلے
اور معاشرے سے امن و امان کا خاتمہ ہوجائے گا اور دنیا جہنم میں تبدیل ہوجائے گی۔ اظہار
رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے۔ ہاں، یہ ان ذہنی طور پر بیمار لوگوں کے
لیے ہوسکتا ہے، جن کے یہاں آزادی اظہار رائے غیر محدود، غیر مقید اور لا متناہی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی محدود اور مقید ہے۔ کچھ ذہنی طور پر بیمار عناصر کو یہ معلوم
ہونا چاہیے کہ"اظہار رائے کی آزادی" کی ایک حد ہے۔ اظہار رائے کی آزادی
کا مطلب یہ ہے: "زبان و قلم سے اپنی رائے
اور نظریہ کو پیش کرنے کا ایک سیاسی حق، ہر اس شخص کے لیے جو اسے استعمال
کرنا چاہتاہے؛ تاکہ آسانی سے وہ اپنی بات پہونچا سکے۔" یہ ہے اظہار رائے کی
آزادی کی حد۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو، چاہے وہ رات و دن ہی اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ کیوں نہ لگاتا
ہو، مگر وہ بھی اس کی ایک حد متعین کررکھا ہے۔
آج مصیبت یہ ہے کہ لوگ اظہار رائے کی آزادی کا استعمال اپنے خیالات و
آراء کے اظہار کے لیے تو بہت کم کرتے ہیں، مگر دوسرے کی تذلیل و توہین، فتنہ و فساد کو ہوا دینے اور مامون و محفوظ معاشرے
سے امن و امان کو ختم کرنے کی سازش اور اپنی ذہنی بیماری کو ظاہر کرنے کے لیےاس کا
سہارا زیادہ لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے نبی و
رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر بےجا الزامات عائد کرتےہیں۔ جس شخص نے پوری
زندگی امن کا پیغام عام کیا، ان کو دہشت گردی کا معلم شمار کیا جاتا ہے۔ جو شخص
اعلی اخلاق و کردار، ارفع شمائل و خصائل اور عفت و پاکدامنی کا مجسمہ ہو، ان کے تعدد
ازدواج پر طعن و تشنیع کیا جاتا ہے۔ جب اشاعت اسلام کی بات آتی ہے، تو دشمنوں کو
صرف تلوار کی جھنکار ہی سنائی دیتی ہے، مگر ان کا آسمان چھوتا ہوا اخلاق نہیں
دکھتا۔غیر مسلم مورّخ نے جسے تاریخ کی عظیم ترین شخصیت قرار دیا ہو، لوگ ان کا
کارٹون بناکر ان کی توہین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سب سے بھی بڑھ کر ایسی ایسی
تہمتیں لگاتے ہیں کہ ایک مسلمان صحافی و ادیب اور مقرر و خطیب کا قلم و زبان انھیں نقل نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی
گستاخی کرنے والوں کے خلاف جب ایک مسلمان زبان کھولتا ہے؛ تو اسے رجعیت پسند، دیش
دشمن، دہشت گرد اور آزادئ اظہار رائے سے ناواقف جیسے بھدے سےالفاظ سے گالی دی جاتی
ہے۔ ایسے گستاخانہ اعمال کےارتکاب کے باوجود،ان اسلام دشمن عناصر کے لیے"اظہار
رائے کی آزادی" ایک ڈھال بن جاتی ہے، جس سے وہ خود کو تو محفوظ کرلیتے ہیں،
مگر پورا معاشرہ اس کی لگائی آگ میں جھلستا رہتا ہے۔
ابھی چند دنوں قبل، یکم
دسمبر 2015 کو ہندوستان کی ایک تنظیم"ہندو
مہاسبھا" کا لیڈر،گندہ دہن کملیش تیواری نے رحمۃ للعالمین، مینارۂ رشد و
ہدایت ،نبی اکرم، شفیع اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سبّ و شتم سے
توہین کی۔ اس نے ایسی گندی زبان استعمال
کیا اور بہتان تراشی کی کہ کسی بھی دھرم کے لوگ اس جیسی گندی زبان کسی معمولی شخص
کے خلاف بولنا پسند نہیں کریں گے؛ جب کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت ہی اونچی،
اعلی اور ارفع شخصیت کے مالک ہیں۔ اس
واقعہ کے بعد،ہندوستان کے طول و عرض میں
لوگوں نے احتجاج شروع کیا؛ تاکہ حکومت اس بد بخت کے خلاف ایکشن (Action) لے۔ مگر
ملک کے کچھ حصے سے رپورٹ آرہی ہے
کہ پولیس مظاہرین کو گرفتار کررہی ہے اور یہ الزام لگارہی ہے کہ وہ مظاہرین داعش
کا نعرہ لگا رہے تھے۔ یہ بات تو عقل کے کسی خانے میں فٹ نہیں ہورہی ہے کہ لوگ
ناموس رسالت کی خاطر مظاہرہ کریں اور اس میں داعش کا نعرہ لگائیں! یہ حقیقت پوری
دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان امن پسند ہیں اور فساد وبگاڑ سے کوسوں
دور رہتے ہیں۔
کچھ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی اعتراض ہے کہ اس احتجاج کا کیا
فائدہ ہے! بہتر یہ ہے ہم اپنے دشمن کے پاس اسلام کے داعی بن کر پہنچیں اور احتجاج
سے اجتناب کریں! یہی بہتر طریقہ ہے۔ مگر ان لوگوں کی بات سے کلی طور پر اتفاق نہیں
کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک دعوت کی بات ہے؛ تو
دعوت کا کام کوئی نیا کام نہیں ہے اور کسی مخصوص وقت اور مخصوص شخص کے لیے بھی
نہیں ہے۔ دعوت کا کام شب و روز کا کام ہے اور دعوت کے لیے ہر اس شخص کے پاس جانا ہے،
جو اب تک ایمان کی روشنی سے نابلد اور دولت ایمان سے ناواقف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کی دعوت اور نبی کا
تعارف کرانا بہت اہم کام ہے اور یہ کام تحریکی طور پر کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک
احتجاج سے اجتناب کرنے بات ہے؛ تو ہم صرف ان کو اتنا کہنا چاہیں گے کہ آئین اور
دستور کا مطالعہ کرنے والے بخوبی واقف ہیں کہ ایک غیر اسلامی جمہوری ملک ہندوستان
میں رہنے والوں کےلیے ایسے مواقع سے احتجاج ان کا دستوری حق ہے اور آج کے دور میں
دنیا کی بہت سی حکومتیں احتجاج کی زبان بہت جلد سمجھتی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت اور
ان کا ادب و احترام ہم مسلمانوں کے ایمان
کا جزء ہے۔ اگر اس میں کسی طرح کی کوئی کمی واقع ہوتی ہے؛ تو ہمیں اپنے ایمان کی
خیر منانی چاہیے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں کہ اسلام
میں شاتم رسول کا حکم اور اس کی سزا۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن (مکہ مکرمہ میں)تشریف فرما تھے اور آپ کے سر پر
خَود (Helmet)تھی۔ جب آپ نے خَود (Helmet)
ہٹایا؛ تو ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہا کہ ابن خطل (جو آپ کی توہین کرتا تھا اور
برا بھلا کہتا تھا) غلاف کعبہ سےلپٹا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اسے قتل کردو!"۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1846-3044)
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ ایسے شخص سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا جو نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کا شاتم ہو؟ اس پر انھوں نے فرمایا: "ایسے شخص کو قتل
کردینا واجب اور ضروری ہےاور ایسے شخص سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیاجائے گا؛ کیوں کہ
خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے ایک شخص
کو قتل کردیا تھا اور توبہ کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔" (الصارم المسلول علی
شاتم الرسول: 4)
ایک نابینہ صحابی (رضی اللہ عنہ) تھے۔
ان کی ایک باندی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتی تھی۔ انھوں نے روکنے
کی کوشش کی، مگر وہ نہیں رکی۔ انھوں نے زجرو توبیخ کیا، مگر اس کا بھی کچھ اثر
نہیں ہوا۔ایک رات وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے رہی تھی؛ لہذا اس نابینے
صحابی نے کدال سے پیٹ پر حملہ کرکےاسے قتل کردیا۔ صبح میں مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں پیش ہوا۔ وہ صحابی حاضر ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
سامنے بیٹھ گئے اور پورا واقعہ بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا
هَدَرٌ۔" لوگوں گواہ رہو! اس کا خون لاحاصل اور بے بدلہ ہے (قاتل سے قصاص نہیں لیا
جائے گا)۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر:4361)
خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے میں
دریافت کیا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے۔ ہارون الرشید
نے لکھاتھا کہ عراق کے علماء نے شاتم رسول کو کوڑے لگانے کی سزا تجویز کی ہے۔ آپ
کا اس مسئلہ میں کیا فتویٰ ہے؟ امام مالک
علیہ الرحمہ نے غضب ناک ہوکر فرمایا "وہ اُمت زندہ کیسے رہے گی جو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سب و شتم (توہین رسالت) پر خاموش رہے!؟ جو کسی بھی
نبی کو گالی دے اُسے قتل کیاجائے گا اور جو صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے لگائے جائیں۔"
(کتاب الشفاء 2/223)
امام احمدابن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جوشخص بھی حضوراکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کو گالی دے یا آپ کی شان میں گستاخی کرے وہ مسلمان ہو یا کافر اُسے قتل
کیاجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ اسے قتل کیا
جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں
کیا جائے گا۔ (الصارم المسلول علی شاتم
الرسول، 300)
شیخ امام زین الدین ابن نحیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی بغض رکھے وہ مرتد ہوگا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا بدرجہ اولیٰ مرتد ہوگا؛ لہٰذا ایسے شخص کو قتل
کردیاجائے اور اس کی توبہ قبول نہ ہوگی جس کی وجہ سے قتل کو ساقط کیاجاسکے یہی اہل
کوفہ (احناف) اور امام مالک کا مسلک ہے۔ (بحرالرائق 5/125-126)
امام خیر الدین رملی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں: جو سرور کونین صلی
اللہ علیہ وسلم کے لیے نازیبا کلمات کہتاہے وہ مرتد ہے اور اس کا حکم مرتدین کا
حکم ہے (یعنی قتل کیاجانا)۔ اس کی توبہ اصلاً قبول نہ ہوگی نیز اس پر تمام علماء
کا اتفاق ہے جو ایسے شخص کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافرہے۔ (فتاویٰ خیریہ ، 103)
امام ابوبکر احمدبن علی الرازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: لیث نے ایسے مسلمان
کے بارے میں فرمایا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتاہے بیشک اس(نام
ونہاد مسلمان) سے نہ مناظرہ کیاجائے نہ اسے مہلت دی جائے اور نہ ہی اس سے توبہ کا
مطالبہ کیاجائے اور اسے اسی مقام پر ہی قتل کیاجائے (یعنی فوراً قتل کردیاجائے)
اور یہی حکم توہین رسالت کرنے والے یہودی و نصرانی کاہے۔(احکام القرآن)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی
صاحب(رحمہ اللہ) رقم طراز ہیں: جو ملعون سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالیہ کی شان میں
بکواس کرے یا اہانت کا مرتکب ہو یا دینی امور میں سے کسی امر کا یاحضوراکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک میں سے کسی عضو کا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
اوصاف میں کسی وصف کا عیب نکالے ایساکرنے والاخواہ مسلمان تھا یا ذمی کافر یا حربی
اگرچہ یہ سب کچھ اس نے مذاق میں کیا وہ واجب القتل ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہ
ہوگی اس پر تمام اُمت کا اتفاق ہے۔ (مالابد منہ، 126)
محمد بن سخنون فرماتے ہیں: "علماء
کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے اور توہین کرنے
والاکافر ہے اور اس کے لیے اللہ کے عذاب کی وعید جاری ہے۔امت (مسلمہ) کے نزدیک اس
کا حکم قتل ہے۔ جو شخص اس کے کفر اور غذاب میں شک کرتا ہے، وہ کافر ہے۔" (الصارم
المسلول علی شاتم الرسول: 4)
اگر کوئی شخص پیغمبرِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے،ان کو
سبّ و شتم کرے؛ تو اس کی سزا کے حوالے سے مندرجہ
بالا حکم نقل کیا گیا ہے۔ اس بات سے سب واقف ہے کہ ہندوستان جیسے غیر اسلامی
جمہوری ملک میں، اس مذکورہ بالا اسلامی سزا کو نافذ نہیں کیا جاسکتا؛ بل کہ ایک
اسلامی ملک میں بھی اس سزا کو فرد واحد ، جماعت یا تنظیم نافذ نہیں کرسکتی۔ اس سزا
کا نفاذ حکومت وقت کرے گی۔ ہم جہاں کے
باشندہ ہیں وہ ایک غیر اسلامی جمہوری ملک ہے۔
ہم اس ملک میں کیا کرسکتے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ہم بحیثیت ہندوستانی شہری، ہندوستانی آئین میں دیے گئے حق کا استعمال کریں۔
ایسے شخص کے خلاف اپنی نفرت کا کھلے عام اظہار کریں۔ ایسے شخص کے خلاف انفرادی اور
اجتماعی طور پر ملک کے پولیس اسٹیشنوں پر"ایف آئی آر" درج کرائیں۔ آئین
نے جو سزا مقرر کی ہے، اس کو دلوانے کی پوری جد و جہد کریں۔ آج کے دور میں دنیا کی
حکومتیں احتجاج کی زبان بہت جلد سمجھتی ہیں۔ اگر حکومت ایکشن نہیں لے رہی ہے؛ تو
ہم پر امن احتجاج کرکے اور ریلیاں نکال کر حکومت پر دباؤ بنائیں؛ تاکہ حکومت ایکشن
لینے پر مجبور ہو اور قومی امن کو خطرہ میں ڈالنے والے ایسےشخص کو عبرتناک سزا دے اور آئندہ کے لیے ایسے
لوگوں کی زبان پر تالا لگ جائے۔
٭ ہیڈ اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
No comments:
Post a Comment