Saturday, December 7, 2019

الفوز الکبیر في أصول التفسیر کا مختصر تعارف


الفوز الکبیر في أصول التفسیر کا مختصر تعارف٭
 
بقلم: خورشید عالم داؤد قاسمی٭٭
 
 
 
الفوزُ الکبیر کی تصنیف ایک تجدیدی کارنامہ:
"الفوزُ الکبیر في أصولِ التفسیر" اصول تفسیر کی ایک مشہور ومعروف کتاب ہے۔ یہ کتاب مسند الہند، حکیم الاسلام احمد بن عبد الرحیم ـــــــ شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ ـــــــ (1114 – 1176 ھ= 1703-1762ء) کی لکھی ہوئی ہے۔ یہ کتاب فنِّ اصولِ تفسیر میں نہایت ہی جامع اورمختصر ہے۔   یہ کتاب نادر اصول وضوابط سے پُر ہے۔فہمِ قرآن کے حوالے سےتنہا اس کتاب کا مطالعہ، بہت سی اصولِ تفسیر کی کتابوں اور تفسیروں کے مطالعے سے بے نیاز کردیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کی تصنیف حضرت شاہ صاحب کے تجدیدی وانقلابی کارناموں میں سے ہے۔ یہ کتاب تفسیر سے رغبت رکھنے والوں کو، منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے،نہایت ہی مناسب اور موزوں ہے۔ عام طور پر یہ کتاب "درسِ نظامی" کے چھٹے سال (عربی ششم) میں داخلِ نصاب ہے اور بڑی اہمیت کے ساتھ، اب تک پڑھائی جاتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف برّ صغیر؛ بل کہ عرب اور افریقی ویورپی ممالک میں بھی متعارف ہے۔ مصنّفؒ نے اصلًا یہ کتاب "فارسی" زبان میں لکھی تھی؛ اِس لیے کہ اُس وقت ہندوستان میں فارسی زبان کی حیثیت مادری زبان کی تھی۔
 
"الفوز الکبیر في أصول التفسیر"  کے ابواب:
بلا شبہ یہ کتاب بڑی اہم اور جامع ہے۔ اس کی  اہمیت وجامعیت کا اندازہ  ، اس میں پیش کردہ مواد سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے، اس کتاب کے ابواب وفصول کا ذکر از حد ضروری ہے؛ لہذا انھیں یہاں درج کیا جاتا ہے۔ "الفوز الکبیر في أصول التفسیر" پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پھر ہر ایک باب کے ضمن میں چند فصول لائی گئی ہیں۔ وہ  پانچ ابواب  مع  فصول کے بالترتیب درج ذیل ہیں۔
 
1 - الباب الأول: في بیان العلوم الخمسة التي يدل عليها القرآن العظیم نصاً، وكأنّ نزول القرآن بالإصالة كان لهذا الغرض. (ترجمہ:  باب اوّل: ان پانچ علوم کے بیان میں ہے، جن پر قرآن عظیم باعتبار نص کے دلالت کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اصلا قرآن عظیم کا نزول اسی مقصد کے ہوا ہے۔)
الباب الأول کے تحت دو فصلیں ہیں:
الفصل الأول: في علم الجدل،
الفصل الثاني: في بقیة مباحث العلوم الخمسة،
2 - الباب الثاني: في بیان وجوه الخفاء في معاني نظم القرآن بالنسبة إلى أهل هذا العصر، وإزالة ذلك الخفاء بأوضح بيان. (ترجمہ:  باب دوم: اپنے زمانے کے لوگوں کے اعتبار سے، ان دشواری کے وجوہات کے بیان میں ہے جو نظم قرآن کے معانی  میں پیش آتی ہے، اور نہایت وضاحت کے ساتھ اس دشواری کو حل کرنے کے بیان میں ہے۔)
الباب الثاني کے تحت پانچ فصلیں ہیں:
الفصل الأول: في شرح غریب القرآن،
الفصل الثاني: في معرفة الناسخ والمنسوخ،
الفصل الثالث: في معرفة أسباب النزول،
الفصل الرابع: في بقیةمباحث هذا الباب،
الفصل الخامس: في بیان المحکم والمتشابه والكنایة والتعریض والمجاز العقليّ،
3 - الباب الثالث: في بيان لطائف نظم القرآن، وشرح أسلوبه البدیع، بقدر الطاقة والإمکان. (ترجمہ: باب سوم:  (انسانی) طاقت اور امکان کے بقدر نظم قرآن کے لطائف اور اس کے انوکھے اسلوب کی وضاحت کے بیان  میں ہے۔)
الباب الثالث کے تحت چار فصلیں ہیں:
الفصل الأول: في ترتیب القرآن الكریم، وأسلوب السّور فیه،
الفصل الثاني: في تقسیم السّور الی الآیات وأسلوبها الفرید،
الفصل الثالث: في وجه التكرارفي العلوم الخمسة، وعدم الترتیت في بیانها،
الفصل الرّابع: في وجوه اعجاز القرآن،
4 - الباب الرابع: في بیان مناهج التفسير، وتوضیح الاختلاف الواقع في تفاسير الصّحابة والتّابعين. (ترجمہ:  باب چہارم:   تفسیر کے طریقوں اور صحابہ وتابعین کی تفاسیر میں واقع ہونے والے اختلاف کی وضاحت کے بیان میں ہے۔)
الباب الرابع کے تحت چار فصلیں ہیں:
الفصل الأول: في بیان الآثار المرویّةفي تفاسیر أصحاب الحدیث ومایتعلق بها،
الفصل الثاني: في بقیة لطائف هذا الباب،
الفصل الثالث: في بیان غرائب القرآن الكریم،
الفصل الرّابع: في بیان بعض العلوم الوهبیّة،
5 - الباب الخامس: في ذكر جملة صالحة من شرح غریب القرآن، وأسباب النزول التي یجب حفظها علی المفسر، ويمتنع ویحرم الخوض في كتاب الله بدونها. (ترجمہ:  باب پنجم:  قرآن کریم کے غریب (دشوار فہم الفاظ) کی تشریح کی وافر مقدار اور ان اسباب نزول کے بیان میں ہے جن کو مفسر کے لیے یاد کرنا ضروری ہے۔ ان کےبغیر قرآن کریم میں غور وخوض کرنا ممنوع اور حرام ہے۔)
 
نوٹ: ناشرین حضرات کتاب کاپانچواں باب شائع نہیں کرتےہیں؛ کیوں کہ پانچواں باب شاملِ نصاب نہیں ہے۔ ایسے حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ نے بھی پانچویں باب کو ایک مستقل علاحدہ رسالہ شمار کرکے، اسے: "فتح الخبیر" کے نام سے موسوم کیا ہے۔
 
"الفوز الکبیر في أصول التفسیر"  کو عربی میں ترجمہ کرنے والےعلماء کرام:
جس وقت یہ کتاب لکھی گئی تھی، اس وقت ہندوستان میں فارسی زبان لکھی، بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ فارسی زبان کا چلن باقی نہیں رہا؛ چناں چہ متعدّد اہل علم وفضل نے اِس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ کیا؛ تا کہ اس کی افادیت باقی رہے اور علما وطلبہ اس سے مستفید ہوتے رہیں۔ درج ذیل علما کرام نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔
 
1 – الشیخ محمد منیر الدمشقيؒ،  2– محدّث کبیر مفتی سعید احمد پالنپوری، 3 – مشہور محدّث ومفسّر شیخ سلمان حسینی ندوی، 4– شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ (مبحث "الحروف المقطعات" فقط)۔
نوٹ: مصنفؒ  نے کتاب کا پانچواں باب عربی زبان میں ہی تحریر کیا تھا۔
 
"الفوز الکبیر في أصول التفسیر" کے اردو زبان میں ترجمے:
اردو زبان میں اس کتاب کے کئی ترجمے دست یاب ہیں۔ ان میں سے چندکا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔ مولانا سعید انصاری صاحب نے اس کتاب کا لفظی ترجمہ کیا۔ پروفیسر مولانا محمد رفیق چودھری صاحب نے بھی اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا ہے جو آسان اور عام فہم ہے۔ پروفیسر صاحب کے ترجمہ کو ترجمانی کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔  یہ ترجمہ مطبوعہ اور عام طور پر دست یاب ہے۔ حضرت مولانا یاسین اختر مصباحی صاحب نے بھی "الفوز الکبیر في أصول التفسیر" کی اصل فارسی عبارت کو پیشِ نظر رکھ کر، اس کا عمدہ اردو ترجمہ کیا ہے۔ مولانا مصباحی نے اپنے اردو ترجمہ کے اخیر میں کتاب کا عربی ترجمہ: بقلم: الشیخ محمد منیر الدین الدمشقيؒ کو بھی شامل اشاعت کیا ہے۔
 
اردو زبان میں اس کتاب کی کئی شروحات میں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں: "عون الخبیر"، از: حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی صاحب،  "الفوز العظیم" از: حضرت مولانا خورشید انور قاسمی فیض آبادی صاحب، "الخیر الکثیر"، بقلم: حضرت مولانا مفتی محمد امین  صاحب پالن پوری –دامت برکاتہم–، استاذ حدیث: دار العلوم، دیوبند۔
 
واضح رہے کہ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری –دامت برکاتہم–، شیخ الحدیث وصدر المدرسین: دار العلوم، دیوبند نے اس کتاب کی شرح عربی زبان میں بنام: "العون الکبیر" تحریر کی۔ پھر جب آپ نے اِس کتاب کی تعریب وتہذیب کی، اُس موقع سے آپ نے ضرورت کے مطابق کتاب پر حاشیہ بھی درج کیا۔
 
"الفوز الکبیر في أصول التفسیر" کی اہمیت وافادیت اور امتیاز:
مصنّفِ کتاب: حضرت اقدس شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (1703-1762ء) مقدمہ میں، حمد وصلاۃ کے بعد، اس کتاب کی اہمیت وافادیت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
 
"لما فتح الله تعالى عليّ بابًا من كتابه المجید، خطر ببالي أن أجمع وأقيّد بعض النّكات النّافعة التي تنفع الأصحاب في رسالة مختصرة، والمرجوّ من لطف الله الذي لا انتهاء له، أن يفتح لطلبة العلم، بمجرّد فهم هذه القواعد، شارعًا واسعًا في فهم معاني كتاب الله، بحیث لو صرفوا عمرهم في مطالعة التّفاسیر، والقراءة علی المفسّرین علی أنّهم أقلّ قلیل في هذا الزمان، لم تتحصّل لهم هذه الفوائد بهذا الضبط والربط." (الفوز الکبیر في أصول التفسیر، ص: 11، مکتبة البشری، کراتشی، باکستان)
 
ترجمہ: جب اللہ تعالی نے مجھ پر اپنی کتاب مجید کے (سمجھنے کا)دروازہ کھولا؛ تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں اُن بعض مفید نکات کو جو دوستوں کے لیے فائدہ مند ہیں، ایک مختصر رِسالہ میں، جمع کروں اور قید تحریر میں لاؤں۔ اللہ کی نوازش –جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے– سے امید ہے کہ صرف اُن قواعد کے سمجھ لینے سے، قرآن کریم کے معانی کے سمجھنے میں، اللہ تعالی طالب علموں کے لیے ایسی کشادہ راہ وا کردیں گے کہ اگر وہ اپنی عمر تفسیروں کے مطالعہ کرنے اور مفسروں سے پڑھنے میں ختم کردیں  –باوجود اس کے کہ اس زمانے میں  اس طرح کے لوگ بہت ہی کم ہیں–؛تو بھی ان کو اِس ربط وضبط کے ساتھ یہ فائدے حاصل نہیں ہوں گے۔
 
فکر وللہی کے رمز شناس اور ماہر حضرت مولانا عبید اللہ سندھی صاحبؒ (1872- 1944ء) "الفوز الکبیر في أصول التفسیر"  کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرتے ہوئے، اپنے مقالہ: "امام ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف" میں فرماتے ہیں: "ہم نے مولانا شیخ الہند قدس سرہ (1851-1920ء) سے اصول تفسیر پر کتابیں مانگیں۔ آپ نے کتاب "الاتقان في علوم القرآن"، از: حافظ جلال الدین (عبد الرحمن بن ابی بکر سیوطی متوفی سن 911) ہمیں مرحمت فرمائی۔ میں نے پوری کوشش سے ساری کتاب بارہا پڑھی، سوائے چند اوراق کے، مجھے اس میں کوئی چیز دلچسپ نظر نہ آئی، جسے اصول کا درجہ دیا جاسکے۔ یہ زمانہ ایسا تھا کہ میں اصول فقہ سے فارغ ہوکر، اس میں ایک مستقل تصنیف لکھ چکا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت مولانا نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ایک مختصر سا رسالہ اصول تفسیر میں، شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی لکھا ہے، جس کا نام "الفوز الکبیر" ہے۔
 
یہاں میں خیال کرتا ہوں کہ حضرت مولانا قدس سرہ کی عادت مبارکہ کا ضمنا ذکر کروں۔ آپ جانتے تھے کہ امام فخر الدین رازی اور علامہ (مسعود بن عمر المتوفی 791) تفتازانی کو عموما طلبہ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان نام بردہ حضرات کے مقابلہ میں طلبہ شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ نجم الائمہ شیخ الہند اگر کسی مسئلے میں امام رازی یا علامہ تفتازانی کی تغلیط کرتے تو مبہم طور پر یہ فرماتے کہ محققین کی رائے اس مسئلہ میں یوں ہے۔ طلبہ سمجھتے کہ یہ محققین ان حضرات سے بھی کوئی متقدم ہستیاں ہوں گی۔ میں ایک لمبے عرصے کے بعد متفطن ہوا کہ محققین سے مراد حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد قاسم اور ان کے اساتذہ کرام اور مشائخ عظام ہیں جو شاہ ولی اللہ صاحب پر ختم ہوجاتے ہیں۔
 
یہ باعث تھا کہ آپ نے "الفوز الکبیر" مجھے شروع میں عطا نہ کی بلکہ فقط اس کا تذکرہ کردیا۔ جب میں سندھ پہنچا؛ تو مجھے "فوز کبیر" کا نسخہ ملا۔ اس سے پیشتر میں امام رازی کی تفسیر کا مطالعہ کرکے کافی پریشان ہوچکا تھا۔ فصل اوّل کا مطالعہ ختم کرلینے کے بعد، میں مطمئن ہوگیا کہ ان شاء اللہ علم تفسیر مجھے آسکتا ہے۔ پھر اس دن سے آج تک میں ان کے مسلک سے باہر جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرسکا۔" (الفرقان، بریلی کا شاہ ولی اللہ نمبر، ص: 247-248، ج: 7، شمارہ نمبر: 9-12، رمضان-ذی الحجۃ، 1359)
 
مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ (1914-1999ء) "الفوز الکبیر في أصول التفسیر" کی تصنیف کو حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی ؒ  کی ایک تجدیدی وانقلابی خدمت شمار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: "دعوت الی القرآن اور خواص واہل علم کے حلقہ میں، تدبّرِ قرآن کی صلاحیت پیدا کرنے اور اس کے ذریعہ سے امّت کی اِصلاح کا جذبہ بیدار کرنے کے سلسلہ میں، شاہ صاحب کی ایک تجدیدی وانقلابی خدمت اور کارنامہ "الفوز الکبیر" کی تصنیف ہے، جو اپنے موضوع پر (ہمارے علم میں پورے اسلامی کتب خانہ میں) منفرد کتاب ہے۔
 
اصول تفسیر پر کوئی چیز عام طور پر نہیں ملتی، صرف چند اصول وقواعد تفاسیر کے مقدّمہ میں، اپنا طرز تصنیف بیان کرنے کے لیے بعض مصنّفین چند سطروں میں لکھ دیتے ہیں۔ شاہ صاحب کی کتاب "الفوز الکبیر في أصول التفسیر" بھی اگرچہ مختصر ہے؛ لیکن پوری کتاب سراسر نکات وکلّیات ہے اور در حقیقت ایک جلیل القدر عالم کی، جس کو فہم قرآن کے مشکلات کا علمی تجربہ ہے، ایک قیمتی اور نادر بیاض ہے۔" (تاریخ دعوت وعزیمت، 5/150-151)
 
"الفوز الکبیر في أصول التفسیر" کا امتیاز بیان کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں: "....رسالہ کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کو پڑھ کر ادیان سابقہ، فرقِ ضالّہ اور اقوام وملل کی پرانی بیماریوں اور کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور اس کی توفیق ملتی ہے کہ قرآن کے آئینہ میں، مسلمانوں کی نسلیں اور اپنے اپنے عہد کا مسلم معاشرہ اور طبقاتِ امّت اپنا چہرہ دیکھیں اور اس کی فکر کریں کہ مذاہب وفرق کی سابقہ بیماریاں اور کمزوریاں دبے پاؤں ان میں تو داخل نہیں ہوگئی ہیں۔ (تاریخ دعوت وعزیمت، 5/153-154)
 
خاتمہ:
        مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مصنفؒ نے اس چھوٹے سے رسالہ میں "اصول تفسیر" کو عمدہ اسلوب میں بیان فرمایا ہے۔ یہ کتاب تفسیر کے استاتذہ وطلبہ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب شروع سے قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی۔ یہ کتاب سبقا سبقا پڑھائی اور پڑھی جارہی ہے۔ یہ کتاب داخل نصاب ہے۔ اب تک اس کتاب کا کوئی بدل موجود نہیں۔ یہ کتاب شاہ صاحبؒ کے تجدیدی کارناموں میں سے ہے۔یہ کتاب مصنّفؒ کے تجرباتِ مطالعۂ قرآن کا خلاصہ ہے۔ شاہ صاحبؒ نے اس کتاب میں کچھ متقدمین اہل علم کی آراء سے  اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائےپیش کی ہے۔  اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر، بہت سے اہل علم نے ترجمہ، تعریب اور تعلیق ہر اعتبار سے خدمت کی ہے۔
 
مصادر ومراجع:
1۔ الفوز الکبیر في أصول التفسیر، ط:  مکتبۃ البشری، کراتشی، باکستان،
2۔ ترجمہ الفوز الکبیر ، بقلم: پروفیسر مولانا محمد رفیق چودھری صاحب، ط: مکتبہ قرآنیات، لاہور، پاکستان،
3۔ الخیر الکثیر، اردو شرح الفوز الکبیر، بقلم: حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری، ط: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان،
4۔ الفرقان، بریلی (لکھنؤ) کا شاہ ولی اللہ نمبر، (ص: 247-248
5۔ تاریخ دعوت وعزیمت  5/150-154، ط: مجلس تحقیقات ونشریّات اسلام، لکھنؤ،
 
٭  واضح رہے کہ یہ تعارفی مضمون راقم الحروف نے ایک دوست کے کہنے پر ویکیپیڈیا اردو کے لیے لکھا تھا جو ویکیپیڈیا پر  چند دنوں قبل شائع ہوا۔
٭٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا
 
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

No comments: