یکساں سِوِل کوڈ اور لا کمیشن آف انڈیا کی
اپیل
از: خورشید عالم داؤد قاسمی
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
لا کمیشن آف انڈیا
کی طرف 19/مارچ 2018 کو ایک عوامی اپیل
جاری کی گئی۔ اس اپیل میں یہ کہا گیا ہے کہ ملک کے شہری اور سرکاری وغیر سرکاری
تنظیم و ادارے "یکساں سول کوڈ" (ہر شہری کے لیے یکساں قانون، چاہے وہ
کسی بھی مذہب اور تہذیب وثقافت سے تعلق رکھتا ہو) سے متعلق کسی بھی قضیہ کے حوالے
اپنی رائے بذریعہ خط یا ایمیل لا کمیشن کو 6/اپریل 2018 تک بھیجیں۔
میرے خیال میں ہندوستان جیسے عظیم ملک کے
شہریوں کے لیے"یکساں سِوِل کوڈ" کا نفاذ نہایت ہی غیر مناسب اقدام ہوگا۔
"یکساں سِوِل کوڈ" اس عظیم ملک کے شہریوں کی کسی مصیبت اور پریشانی کا مُداوا نہیں ہے؛ بل کہ اس
طرح کاآئین ہندوستان جیسے کثیر الثقافہ اور مختلف المذاہب ملک میں،
بڑے پیمانے پربدنظمی وافراتفری اور انتشار وگڑبڑی کا سبب ہوگا؛ اس لیے ہندوستان کے
ہر معزز شہری کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس پر توجہ دیں اور پورے طور پر
"یکساں سِوِل کوڈ" کے فکر وخیال کی مخالفت کریں۔
یونیفار سِوِل کوڈ ہندوستان کا کوئی
امتیاز اور حسن وجمال نہیں ہوگا؛ بل کہ جمہوری ہندوستان کا حسن وجمال کثرت میں
وحدت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے شہریوں میں مختلف مذاہب وادیان کے ماننے والے، رنگ برنگی تہذیب
وثقافت کے پیروکار اور مختلف زبانوں کے
بولنے والے پائے جاتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ آزادی ان شہریوں کو ملک کے
آئین کی دفعہ 25 دیتا ہے اور ہر کوئی اس دفعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے
حق کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے پسند کی زبان بولتے ہیں، اپنے پسند کے مذہب کا
اتباع کرتے ہیں اور اپنے پسند کا لباس وپوشاک زیب تن کرتے ہیں۔کسی بھی شہری کو ان
کے اختیار سےکوئی شخص نہیں روک سکتا۔ ہندوستانیوں کی مختلف تہذیب وثقافت، درجنوں
بولی جانے والی زبانیں اور مختلف مذاہب کا اتباع ، سرزمین ہند پر کوئی نئی بات ہیں
ہے؛ بل کہ یہ سب ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں۔ یہ سب رنگارنگی ہندوستان اور ہندوستانیوں سے اس طرح ضم ہے کہ
کثرت میں وحدت، ہندوستان کی شناخت بن چکی ہے۔ اگر یکساں شہری آئین لایا جاتا ہے؛
تو یہ ہندوستان کی شناخت پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
ہندوستانی سماج صدیوں سے ہر صبح وشام، اس
کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ ہندو بھائیوں کے مندروں میں سَنکھ بجایا جاتا، مسلمانوں کی
مسجدوں سے اذان کی آوازیں آرہی ہیں، عیسائیوں کے چرچوں سے گھنٹی کی آواز آرہی ہے۔ اسی طرح سکھوں اور بدھوں کے معابد سے
مختلف اعمال اور سرگرمیوں کو انجام دیا جاتا ہے۔ ملک کے مختلف سماج، افراد اپنی
مذہبی تعلیمات اور اپنے تہذیب وثقافت کے مطابق شادی بیاہ کے رسوم اور تقسیم ترکہ
جیسے معاملات کو انجام دیتے ہیں۔ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی تقاریب کی مناسبت
سے مختلف صوبوں کی مختلف تہذیب وثقافت والے پروگرامس پیش کیے جاتے اور ناظرین ان سے
خوشی خوشی لطف اندوز ہوتے ہوئے دیدار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سب رنگارنگی
ہندوستان کے حسن وجمال کو دوبالا کرتا ہے۔
ہندوستان کوئی معدودے چند لوگوں کا ذاتی مکان نہیں ہے کہ وہاں ہر
ایک کے لیے ایک ہی طرح کے چند قانون بہ آسانی بنا دیے جائیں اور سب کو انتباہ
کردیا جائے اس پر عمل کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ آبادی کے اعتبار سے، ہندوستان دنیا کے
کسی بھی ملک کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس کی آبادی تقریباایک سو پچیس کروڑ
نفوس پر مشتمل ہے۔ پھر اتنی بڑی آبادی کو ایک طرح کے آئین کی رسی میں کیسے باندھا
جاسکتا ہے!
یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس یکساں شہری قانون میں ہم کس تہذیب
وثقافت اور کس مذہب اور کس لائف اسٹائل کو شامل کریں اور کن کو چھوڑیں گے؛ کیوں یہ
تو بالکل ہی ناممکن ہے کہ بڑے احترام کے ساتھ، اس میں سارے مذاہب وادیان کی
روایتوں اور تہذیب وثقافت کو جگہ دی جائے اور اگر ہم کسی ایک خاص مذہب وتہذیب کی
پیروی کرتے ہوئے، اس قانون کو ترتیب دے کر سارے شہریوں پر نافذ کرنا چاہیں گے؛ تو
یہ نہایت ہی دشوار، کٹھن اور ناقابل قبول ہوگا؛ بل کہ خانہ جنگی سی صورت حال
ہوجائے گی۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جن ادیان ومذاہب کے بھی پیروکار ہیں؛
وہ اپنے ادیان ومذاہب سے جذبانی تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مذاہب اور تہذیب وثقافت
کے حوالے بہت ہی حساس اور مضبوط ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے مذاہب وافکار اور
تہذیب وثقافت کے حوالے سے کسی بھی مفاہمت اور سمجھوتہ پر تیار نہیں ہوگا۔
یہ بات بھی نوٹ کیے جانے کے قابل ہے کہ ہندوستان میں صرف ہندو،
مسلم، سکھ، عیسائی اور بدھسٹ ہی نہیں رہتے ہیں؛ بل کہ بہت سے ایسے قبائلی باشندے
بھی ہیں، جو ہندوستان کے مختلف خطے اور علاقے میں رہتے ہیں؛ جن کے عقائد اور تہذیب
وتمدن ان سب سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ اپنی تہذیب وثقافت اور روایتوں کے ساتھ صدیوں
سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان روایتوں سے دست بردار ہوکر، وہ کسی دوسرے قوانین حیات سے
مطمئن نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہی سب وہ باتیں ہیں، جو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ
"یکساں سول کوڈ" کی طرف ہمارا ایک انچ بھی بڑھنا، افراتفری اور بدنظمی
کو جنم دینے کے برابر ہوگا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ مختلف شہریوں کے ذریعے مختلف تہذیب وثقافت کی
نمائش، مختلف زبانوں کا بولنا یا پھر مختلف مذاہب وادیان پر عمل کرنا، ہم
ہندوستانیوں کے مسائل ومشکلات نہیں ہیں؛ بل کہ ذمے دار شہری ہونے کے ناطے ہمارے اصل
مسائل ومشکلات ملک میں دن بہ دن بڑھتی بےروزگاری اور ناخواندگی ہے۔ بے روزگاری
مفلسی وغربت اور تنگ دستی ومفلوک الحالی کی بڑی وجہ ہے۔ اس اکیسویں صدی میں،
ناخواندگی اور بے روزگاری کا دن بہ دن بڑھنا ہمارے رہنماؤں کی خدمات اور ان
کارکردگی کا پردہ فاش کرتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ پہلی فرصت میں ناخواندگی اور بے
روزگاری کی بڑھتی شرح پر روک لگانے کو کل چھوڑ آج ہی کوشش شروع کردیں۔ اسی طرح بہت سے وہ
مسائل ومشکلات ہیں جن کا شہریوں کو رات دن سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے لا اینڈ آرڈر
کی بگڑتی صورت حال، خواتین کے تحفظ کا مسئلہ، بے روزگاری، تعلیمی اداروں کی کمی
اور کسانوں کی خودکشی؛ یہ وہ مسائل ومشکلات ہیں کہ حکومت کو ان پر فورا توجہ دینی
چاہیے۔ ان مشکلات سے شہری مستقل جوجھ رہے
ہیں۔ اگر ہم ان مشکلات کو حل کرلیتے ہیں؛ تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر شہری
امن وامان اور سکون واطمینان کے ساتھ اپنی زندگی جی سکے گا۔
ہندوستانی شہریوں کے لیے فرقہ وارانہ فساد ایک بڑی مصیبت ہے۔ یہ
فسادات صرف چند مفاد پرست لوگوں کی وجہہ سے ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ ہر ذی شعور اور
محب وطن شہری نے ان دنوں بہار اور بنگال کے فسادات میں کیا ہے اور آئے دن کرتے
رہتے ہیں۔ حکومت ان فسادات کو کنٹرول کرنے میں اکثر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اس کا
ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے لا اینڈ آرڈر کا سسٹم صحیح کام نہیں کررہاہے۔
اسی طرح خواتین کے تحفظ کے حوالے سے صورت حال کوئی خوش آئند نہیں دکھ رہی ہیں۔ جب
بھی اخبار اٹھائیں یا ٹی وی پر کوئی چینل آن کریں، آپ کو کچھ نہ کچھ اس طرح کی خبر
کا سامنا کرنا ہی ہوگا کہ آج فلاں جگہ پر ایک راستے سے گزرہی ایک خاتون کے ساتھ
ایسا ویسا حادثہ پیش آیا، بس یا ٹرین میں سفر کررہی ایک خاتون کے ساتھ ایسا ویسا
کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات مستقل واقع ہورہے ہیں، مگر حکومت ان خواتین کے حوالے سے
مناسب تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
کسی بھی قوم کے مستقبل کا اصل سرمایہ ان کے جوان ہوتے ہیں۔ آج
ہمارے ملک کے جوان بے روزگار بیٹھے ہیں۔ وہ جوان جو خود اپنا پیٹ بھرنے کےلیے دن
ورات پریشان ہیں، میرے خیال میں وہ چاہ کر بھی ملک وملت کی ترقی کے لیے کچھ نہیں
کرپائیں گے۔ پھر ہم کیسے یہ امید رکھیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے گا! بےروزگاری غربت
وافلاس اور مفلوک الحالی کا اہم سبب ہے۔ ہمارا وطن غربت وافلاس کے حوالے سے بہت ہی
نیچے پائدان پر جاچکا ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ کہ ہمارا وطن مفلوک الحال ممالک کی فہرست میں 97ویں نمبر پر ہے اور
اپنے شہریوں کو غذائی اجناس مہیا کرنے کی فہرست میں سری لنکا، بنگلہ دیش
اور نیپال جیسے غریب ممالک سے بھی نچلے پائیدان پر ہے۔
اسی طرح ملک کی آبادی کے اعتبار سے موجودہ تعلیمی ادارے ناکافی
ہیں؛ جب کہ دفعہ 45 کی روشنی میں، حکومت کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری،چاہے وہ ملک کے کسی کونے میں رہتا ہو،کو بنیادی اور
اعلی تعلیم، معیاری شہری زندگی اور غریبوں کے لیے غذائی اجناس مہیا کرے۔ ملک کے مختلف خطے میں کسان مشکلات سے دوچار
ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر حکومت کی طرف سے اب تک کسانوں کے مسائل کو حل
کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ ریٹائرڈ آرمی آفیسرز اپنے
مطالبات کو لے کر کئی بار مظاہرہ اور احتجاج کرچکے ہیں۔ یہ سب وہ مسائل ومشکلات
ہیں کہ حکومت کو ان کے حل کی طرف فوری توجہہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ شرم کا مقام ہے ہمارے رہنما غربت بھگانے اور تعلیمی واقتصادی
ترقی کی بات کرنے کے بجائے مندر ومسجد، گائے، بیف اور لو جہاد جیسے موضوع پر بحث
ومباحثہ میں اپنی توانائی صرف کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والے
رہنماؤں کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کے اہم مسائل سے صرف نظر کرتے ہیں
اور کسی ایسے مسئلہ کا بار بار ذکر کرتے ہیں، جس سے عوام کو نہ ہی تعلیمی اور نہ
ہی اقتصادی طور پر کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کی تازہ مثال حکومتی ٹولہ کی طرف سے
"یکساں سول کوڈ" کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی لاحاصل کوشش ہے؛ جب کہ
ہر کوئی اس بات سے واقف ہے کہ ہندوستان جیسے مختلف تہذیب وثقافت اور کثیر المذاہب
ملک میں "یکساں سول کوڈ" ایک نہ ختم ہونے والی بدنظمی، افراتفری اور انتشار کو جنم دے گا۔ پھر یکساں سول کوڈ کےلیے
اتنی کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟!
ایک ذمے دار شہری ہونے کے ناطے، ہر شخص کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملک
کے موجودہ سیکولر آئین کی بقا کی وکالت اور اس کے تحفظ کی دعا کریں۔ یکساں سول کوڈ
ملک کے مفاد میں نہیں ہے؛ اس لیے ہر شہری کو چاہیے کہ وہ کھل کر یکساں سول کوڈ کی
مخالفت کریں! جے ہند!
No comments:
Post a Comment