Saturday, December 7, 2019

شفیق استاذ اور قابل تقلید مدرس


شفیق استاذ اور قابل تقلید مدرس

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

 

حضرت الاستاذ مولانا جمیل احمد سکروڈوی صاحبؒ اللہ تعالی کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کئی مہینوں سے آپ مہلک وموذی بیماری سے دو چار تھے۔ آپ بیمار ہوئے اور پھر صحت یاب نہ ہوسکے۔ آپ مہینوں زیر علاج رہے۔  اخیر میں  آپ کو دار السلطنت دہلی کے جی ٹی بی اسپتال میں اڈمٹ کرایا گیا۔ آپ کا وقت موعود آپہنچا تھا؛ چناں چہ 31/مارچ  2019 کی شام کو اسپتال میں ہی اپنی آخری منزل اور دائمی آرام  گاہ کو رحلت کرگئے۔ نبی اکرم کا پیغام کتنا عمدہ اور مبنی بر حقیقت ہے! آپ ﷺ فرماتے ہیں: «إِنَّ لِلّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ.» (صحیح البخاري، كتاب الجنائز، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم:...، برقم: 1284) (ترجمہ:) "بے شک اللہ تعالی ہی کی ملک ہے جو انھوں نے لیا اور اسی پاک ذات کی ملک ہے جو انھوں  نے دیا اور ہر چیزان کے پاس وقتِ مقررہ کے ساتھ ہے۔ پس صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔" اللہ تعالی حضرت الاستاذ کی دینی وملی خدمات کو قبول فرمائے، آپ  کی بال بال مغفرت فرمائے اور آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے! آمین!

 

صوبہ اتراکھنڈ میں واقع مشہور ومعروف  ضلع: "ہریدوار" کے  قصبہ : "سکروڈہ " میں،  10/اپریل 1950ء کو آپ پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد، آپ نے سن 1966ء میں دار العلوم، دیوبند میں داخلہ لیا۔ آپ سن 1970ء میں دار العلوم، دیوبند سے فارغ ہوئے۔

 

دار العلوم، دیوبند سے فراغت کے بعد، آپ نے جامعہ رحمانیہ ، ہاپوڑ، جامعہ  کاشف العلوم، چھٹمل پور،ضلع:  سہارن پور، مدرسہ قاسم العلوم، گاگل ہیڑی، ضلع: سہارن پور میں چند سالوں تک تدریسی خدمات انجام دی۔  پھر سن 1977ء  میں، آپ کی دار العلوم، دیوبند میں تقرری ہوئی۔ پھر دار العلوم (وقف)، دیوبند میں تدریسی خدمات میں مصروف ہوگئے۔ یہ سلسلہ سن 1999 عیسوی تک جاری رہا۔ سن 2000 عیسوی میں آپ دار العلوم، دیوبند میں  آگئے۔ تا وفات آپ دار العلوم، دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔

 

اللہ تعالی نے ایک طویل مدت تک آپ سے علم دین کی نشر واشاعت کا کام لیا۔ اللہ نے آپ کو ایشیاء کی عظیم دینی درس گاہ میں خدمت کا موقع فراہم کیا اور آپ نے اس موقع کا ضائع نہیں کیا۔ آپ نے حسن وخوبی کے ساتھ افادہ واستفادہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ دار العلوم میں درس وتدریس میں کھپا دیا۔ پوری زندگی آپ کا محبوب مشغلہ پڑھنا پڑھانا رہا۔ اللہ تعالی نے آپ کو تدریس کا وہ عظیم ملکہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کے درس میں ذہین وغبی ہر طالب علم یکساں طور پر مستفید ہوتا۔ اللہ تعالی نے آپ کو تدریس میں وہ مہارت  عطا فرمایا تھاکہ طلبہ آپ کے درس سے بالکل مطمئن رہتے۔ آپ کا مطالعہ بڑا گہرا ہوتا تھا۔ مگر تدریس کے  وقت طلبہ کے معیار کا خیال کرتے ہوئے کلام فرماتے تھے۔ طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی آپ کی تدریسی صلاحیت کے قائل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تقرری کے بس چند سالوں بعد ہی آپ دار العلوم کے مقبول ترین اساتذہ کی فہرست میں شمار کیے جانے لگے۔

 

آپ کی تدریس کا دورانیہ تقریبا 48/سالوں پر مشتمل ہے۔ اس مدت میں آپ نے درس نظامی کی اکثر کتابوں کی تدریس کی ذمہ داری عمدہ طریقے سے ادا کی۔ تفسیر بیضاوی جیسی دقیق کتاب کی تدریس  ہو یا پھر حدیث کی عظیم کتاب ترمذی شریف، ہدایہ درس دیا ہو یا پھر قواعد الفقہ کا، آپ کا انداز تدریس وتفہیم بالکل سہل اور منفرد رہا۔ جو کتاب بھی آپ سے منسلک رہی، آپ نے اس کی تدریس کا حق ادا کردیا۔ چند لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ ایک شفیق استاذ اور ایک قابل تقلید مدرس تھے۔

 

راقم الحروف کو حضرت  سے شیخ الاسلام برہان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر بن عبد الجلیل الفرغانی المرغینانی (511-593ھ) کی شہرہ آفاق تصنیف: "ہدایہ" پڑھنے کی سعادت حاصل رہی۔ وقت شروع ہونے سے چند منٹ قبل ہی درس گاہ کے پاس آپ آجاتے۔ درس گاہ کے سامنے ایک پایہ سے لگ کر کھڑے ہوجاتے۔ جوں ہی ایک استاذ درس گاہ سے نکلتے، آپ اندر تشریف لاتے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ بیچ کی تپائیوں سے کچھ طلبہ کسی ضرورت سے باہر ہوتے، تو طلبہ سے مخاطب ہوکر ان خالی جگہوں کو پر کرنے کو فرماتے۔ پھر طلبہ کی حاضری لیتے۔ حاضری  کے بعد، ایک طالب علم  عبارت پڑھتا۔ پھر آپ پڑھی ہوئی عبارت کی سلجھے اور سادے انداز میں وضاحت کرتے۔ گھنٹہ ختم ہونے سے پانچ سات منٹ قبل ہی درس گاہ سے سبق پورا کرکے چلے جاتے۔  درس کے بعد، کبھی کسی ساتھی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ آج مولانا نے یہ سبق پڑھایا اور سمجھ میں نہیں آیا۔ چاہے کوئی بھی موضوع ہو، "صرف" کا مسئلہ ہو یا "کفالہ "کا، "اقالہ" کا مسئلہ ہو یا"حوالہ" کا،  "مضاربہ" کا ٹوپک ہو یا "منابذہ" کا، آپ اتنے سلجھے اور سیدھے انداز میں وضاحت کرتے کہ ہر طالب علم کو نفس مسئلہ بہ آسانی سمجھ میں آجاتا۔

 

مختصر یہ کہ درس نظامی کی کوئی بھی کتاب آپ کو دی جاتی، آپ اس کو آسانی سے طلبہ کی رعایت کرتے عمدہ طریقے سے پڑھاتے اور طلبہ کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کو  علیا کی کتابوں کی تدریسی ذمہ داری سپرد کی اور آپ نے ان کتابوں کی تدریس کا حق ادا کر دیا۔ دار العلوم وقف، دیوبند میں آپ نے ترمذی شریف، ہدایہ ، بیضاوی، موطا امام مالک  وغیرہ جیسی مختلف کتابوں کا کام یاب درس ایک مدت تک دیا۔ دار العلوم، دیوبند میں آپ  کے زیر تدریس ہدایہ، قواعد الفقہ اور موطا امام مالک جیسی کتابیں تھیں۔

 

اللہ تعالی نے جہاں حضرت الاستاذ کو تدریس وتفہیم کا ملکہ عطا فرمایا تھا، وہیں آپ کی تحریری لیاقت بھی قابل رشک تھی۔ آپ نے درس نظامی کی سخت ترین کتابوں کی شروحات ہزاروں صفحات میں تحریر فرمایا۔ ان شروحات کی زبان نہایت ہی عمدہ اور سلیس ہے۔ جس طرح آپ کا درس طلبہ کے درمیان نہایت ہی مقبول تھا، اسی طرح  اللہ تعالی نے آپ کی شروحات کو بھی بڑی شہرت اور مقبولیت سے نوازا۔ عام طور پر مدارس کے طلبہ واساتذہ کے درمیان آپ کی شرح پائی جاتیں ہیں۔ "ہدایہ" کی شرح "اشرف الہدایہ" تو اتنی مشہور اور مقبول ہوئی کہ نہ صرف مدارس کے طلبہ واساتذہ؛ بلکہ قوانین اسلامی سے دل چسپی رکھنے والے کچھ دانشوروں کو بھی "اشرف الہدایہ" سے استفادہ کرتے اور اس سے استدلال کرتے دیکھا گیا۔

 

 آپ نے درس نظامی کی جن متعدد کتابوں کی شرح تحریر فرمائی، ان کے اسماء کچھ اس طرح ہیں۔ "اصول الشاشی" کی شرح "اجمل الحواشی" کے نام سے آپ نے تحریر فرمائی۔  فقہ حنفی کی معرکۃ الآراء کتاب: "ہدایہ" کے کچھ ابتدائی حصوں کی  شرح "اشرف الہدایہ" کے نام سے؛ جب کہ  آخری حصوں کی شرح "تفہیم الہدایہ" کے نام سے لکھی۔  اسی طرح علامہ تفتازانی کی فن بلاغت کی معرکۃ الآراء کتات:"مختصر المعانی" کی شرح "تکمیل الامانی" کے نام سے اور "نور الانوار" کی شرح "قوت الاخیار" کے نام سے تحریر فرمائی۔  اصول الفقہ کی مشہور کتاب: "حسامی" کی شرح "فیض سبحانی" کے نام سے آپ نے تحریر فرمایا۔ "التقریر الحاوي" کے نام  سے، آپ نے اور آپ کے رفیق محترم حضرت مولانا مفتی شکیل احمد صاحب –دامت برکاتہم– نے مشترکہ طور پر قاضی ناصر الدين عبد الله الشيرازي البيضاوي کی مشہور ومعروف تفسیر کی درسی تقریر کے  جمع وترتیب کا کام  بھی انجام دیا۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ "التقریر الحاوی" در حقیقت حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحب، سابق صدر المدرسین: دار العلوم دیوبند کی درسی تقریر یا افادات کا مجموعہ ہے۔ ان چار جلدوں میں سورہ بقرہ کی آیت: 82 تک کی قابل قدر تشریح وتوضیح ہے۔  اللہ تعالی صاحبِ افادات اور مرتبین کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے! آمین!

 

حضرت الاستاذ کی وفات کے اگلے دن یعنی یکم اپریل کو آپ کی نماز جنازہ دار العلوم، دیوبند کے احاطۂ مولسری میں، استاذ محترم حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب  -حفظہ اللہ-، استاذ حدیث: دار العلوم، دیوبند نے تقریبا  9/بجے صبح پڑھائی۔  علماء وطلبہ کی کثیر تعداد نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور حدیث وفقہ کے عظیم استاذ کو "مزار قاسمی" میں سپرد خاک کردیا۔  دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور متعلقین ومحبین کو صبر جمیل سے نوازے! آمین!

 

٭ ہیڈ:  اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ۔

No comments: