بچھڑا کچھ اس
ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
جناب حاجی محمد عبد الوہّاب صاحب رحمہ اللہ (1923-2018)
از: خورشید عالم
داؤد قاسمی٭
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
موت ایک ایسی حقیقت کہ کسی فرد نے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا ہے
چاہے وہ کتنا ہی بڑا بہادر وپہلوان یا ملحد و دہریہ ہی کیوں نہ ہو۔ موت نے سب کو دبوچا ہے اور جو بھی جاندار دنیا میں سانس لے رہا ہے، اسے ایک نہ ایک دن دبوچ کر رہے گی، چاہے کوئی مشہور عابد وزاہد ہو یا معروف متقی وپرہیز
گار، چاہے وہ قرآن کریم کی تلاوت میں
منہمک ہو یا کسی فرض ونفل میں مشغول، جب
موت کا وقت آئے گا؛ تو اسے اس دنیا
سے جانا ہوگا۔ چاہے کوئی شخص اللہ کا بہت ہی مقبول ومحبوب بندہ ہو یا پھر بندگانِ
خدا کی نظروں میں مقبول ومنظور؛ لیکن اُسے بھی ایک دن موت کا مضبوط آہنی پنجہ اپنی گرفت میں لے لےگا۔ چاہے کوئی دو پہاڑیوں کی وادی میں ہو یا ہمالیہ
کی بلند چوٹی پر، شیشے کے مکان میں بند ہو یا پتھر کے
قلعے میں محجوب، جب موت کا وقت آئے گا؛ تو موت کے فرشتے اس تک آسانی سے رسائی حاصل
کرلیں گےاور بالآخر
اسے
موت کا مزہ چکھنا ہوگا۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ ارشاد اسی حقیقت کو بیان کرتا
ہے: أَيْنَمَا
تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ (سورہ نساء/78) ترجمہ: تم جہاں بھی ہوگے (ایک نہ ایک دن) موت تمھیں جا
پکڑے گی؛ چاہے تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ رہ رہے ہو۔
موت سے کس کو رستگاری
ہے
آج وہ کل ہماری
باری ہے
اللہ تعالی کا
حکم ہوتے ہی حضرت حاجی محمد عبد الوہاب صاحب (1923-2018)رحمہ اللہ بھی اس فانی دنیا سے چل بسے۔
حاجی صاحبؒؒ کا شمار اللہ تعالی کے نیک اور صالح بندوں میں
ہوتا تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کے تقریبا دو تہائی سے زیادہ ماہ وسال اور شب وروز
اللہ کے راستے تبلیغی جماعت میں، بندگانِ خدا کو راہِ راست پر لانے کی کوشش اور فکر
میں نکال دیا۔ آپ کسی مدرسہ یا جامعہ سے
فارغ التحصیل عالم وفاضل نہیں تھے؛ مگر اللہ نے آپ کے دل میں اس امت محمدیہ کے لیے جو درد، غم، فکر، کڑہن اور تڑپ رکھی تھی، وہ کسی عالم
وفاضل سے کم نہیں تھی۔ آپ کی زندگی کے دن ورات امت کی غم خواری میں گزرتےتھے۔ آپ کی زندگی کا مشن ہی تھا کہ ہر قلّ وجلّ
کے دل میں یہ یقین بیٹھ جائے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے،
وہ اللہ تعالی کی مشیت سے ہوتا ہے اور اللہ کی مرضی اور رضا کے بغیر، غیر اللہ سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اللہ
تعالی نے آپ کو بڑی مقبولیت سے نوازا تھا۔
اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں، آپ کے لیے ایسی محبت ڈال دی تھی کہ آپ کی محبت میں عوام تو عوام خواص بھی بچھے چلے
جاتے تھے۔
خنجر چلے کسی
پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد
ہمارے جگر میں ہے
حاجی صاحبؒ شروع
سے ہی دینی مزاج رکھتے تھے۔ حضرت مولانا الیاس صاحبؒؒ
کاندھلوی (1885-1944ء) سے آپ کی ملاقات سن 1944ء میں ہوئی۔ پھر ان کی برپا کردہ تحریک
دعوت واصلاح کے لیے آپ نے بقیہ پوری زندگی
وقف کردی اور اپنی نوکری سے مستعفی ہوگئے۔ آپ نے مولانا کی معیت میں تقریبا چھ مہینے کام کیا۔ ان
کی وفات کے بعد، ان کے جانشینوں کے ساتھ کام کیا۔
تقسیم وطن کے بعد، حاجی صاحبؒ پاکستان ہجرت کرگئے۔ وہاں جاکر آپ نہ صرف
تبلیغی کام سے جڑےرہے؛ بل کہ اس کام کی محنت کو ہی اپنی زندگی کا اوڑھنا اور
بچھونا بنا
لیا۔ ابتداء میں آپ پاکستان کے ہر صوبے کے چھوٹے بڑے
گاؤں کا دورہ کرتے اور لوگوں کو کلمہ سکھاتے، ان کو وضو اور نماز کے طریقے بتاتے،
ان کو تعلیم اور ذکر کی اہمیت ذہن نشیں
کراتے، اکرامِ مسلم کا درس دیتے اور لوگوں کو اس بات پر
ابھارتے کہ وہ اللہ کے راستے میں نکل کر، دین کی باتیں سیکھیں اور جو کچھ سیکھیں وہ دوسروں کو بھی سیکھائیں۔
یہ حاجی
صاحبؒ کی ہی مخلصانہ کوشش تھی کہ لاہور سے تقریبا 45/کلو میٹر کی دوری پر
واقع ایک گمنام جگہ "رائے ونڈ"
میں تبلیغی جماعت کے مرکز کا قیام عمل میں
آیا۔ مرکز کے قیام سے قبل، یہ "رائے ونڈ" ایسی جگہ تھی جہاں ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا۔ کسی طرح کی کوئی سہولت
وہاں میسر نہیں تھی؛ بلکہ کھانے پینے کی چیزیں بھی بسہولت دستیاب نہیں تھیں۔ آج جہاں پر مرکز ہے،
وہاں کیکر کے درخت اور کانٹے دار جھاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ پھر یہی "رائے ونڈ" کا مرکز، پاکستان
میں تبلیغی جماعت کا کام کرنے والے ساتھیوں کا قومی مرکز قرار پایا۔
حاجی صاحبؒ کی مسلسل محنتوں سے، نوزائیدہ مملکت
کے لوگوں کے قلوب میں اس کام کی اہمیت اجاگر ہوئی؛ تو لوگ اس کام سے جڑتے چلے
گئے۔ پھر پورے ملک کی اکثر مساجد میں تبلیغ دین کا یہ کام ہونے لگا۔ ہر بڑے
شہر میں تبلیغی جماعت کا مرکز قائم ہوگیا۔ دعوت وتبلیغ کی محنت سے بے شمار لوگ راہِ راست پر آگئے۔
مشہور پاکستانی کرکٹرجناب سعید انور صاحب اور معروف سنگر جناب جنید جمشید
صاحبؒؒ جیسے سیکڑوں لوگوں کے دین سے جڑنے کا ظاہری سبب تبلیغ ہی کی محنت ہے۔
حاجی صاحبؒ
پاکستان میں تبلیغی کام کے امیرثالث کی حیثیت سے تقریبا 25/سالوں سے جماعت کے
ساتھیوں کی نگرانی اور سرپرستی کر رہے تھے؛ تا آں کہ اب آپ سفر آخرت پر روانہ
ہوگئے۔ پاکستان میں کام کے ابتدائی دور میں، امیراول کی حیثیت سے جناب حاجی محمد
شفیع صاحب (1903-1971ء) کا انتخاب عمل میں آیا۔ ان کے انتقال
کے بعد، امیر ثانی کی حیثیت جناب حاجی بابو بشیر احمد صاحب (1919-1992ء) منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد، جماعت
کے ساتھیوں نے بالاتفاق محترم حاجی محمد عبد الوہّاب کو 1992ء میں امیر ثالث کی حیثیت سے منتخب کیا۔ تبلیغی جماعت کے "امیر ثالث" حضرت
مولانا انعام الحسن صاحب (1918-1995ء)
نے تبلیغی کام کے پوری دنیا میں پھیلاؤ کی وجہ سے، اپنی زندگی کی آخری ایام میں،
دس رکنی عالمی شوری تشکیل دی تھی۔ حاجی صاحبؒ اس عالمی شوری کے بھی معزز رکن تھے۔ آپ نے دعوت کی محنت کے
حوالے سے دنیا کے درجنوں ممالک کا سفر کیا۔
سفر زندگی کے لیے برگ وساز
سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز
یہ جان کر بہت
سے لوگوں کو حیرت ہوگی کہ حاجی صاحبؒ ہر روز "رائے ونڈ مرکز" میں، مختلف
اوقات میں،تقریبا پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے
بیان کرتے تھے۔ صبح فجر بعد کا بیان آپ
کرتے۔ جو جماعت باہر سے واپس آتی، اس سے خطاب کرتے اور جو جماعت باہر جارہی ہو، اس
کو کام کے حوالے سے ہدایات دیتے۔ مشورے میں روزانہ پابندی سے شریک ہوتے۔ اِدھر
کچھ دنوں سے، بیماری کے باعث اس معمول پر عمل نہیں ہوپا رہا تھا؛ مگر جب بھی آپ کی
طبیعت ٹھیک ہوتی؛ تو معمول کے مطابق ساری ذمےداریاں انجام دیتے اور کسی طرح کی تھکان کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
محفل سے اٹھ کے رونق محفل کہاں گئی
کھل اے
زبان شمع کہ کچھ ماجرا کھلے
ابھی
"بھاول پور" کی ایک آٹھ رکنی جماعت (نمبر 764) سے راقم الحروف کی ملاقات ہوئی۔ ان ساتھیوں کا بھی یہی بیان تھا کہ اس پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود
جب حاجی صاحبؒ کی طبیعت ٹھیک رہتی ہے اور ہوش وحواس میں ہوتے ہیں؛ تو ہر طرح کی ذمے داری خود انجام دیتے ہیں۔ آپ جانے والی اور واپس آنے والی جماعتوں سے خطاب فرماتے ہیںـ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی جب وہ حضرات
28/اگست 2018
کو روانہ ہو رہے
تھے؛ تو حاجی صاحبؒ کی طبیعت اچھی تھی؛ چناں چہ اس دن بھی حاجی صاحبؒ نے ان حضرات
کو معمول کے مطابق ہدایات اور نصائح غالیہ سے نوازا۔ واضح رہے کہ یہ
جماعت"زامبیا" کے شمالی صوبے (Northern Province)
میں ایمان واصلاح کی محنت میں ، جناب خالد صاحب کی زیرِ
امارت چل رہی ہے۔ اس جماعت کے ارکان: جناب شریف، جناب بشیر، جناب عبد الرزاق، جناب
قاسم، جناب علی، جناب ساجد اور جناب یاسر صاحبان ہیں جو بڑی محنت اور اخلاص سے تبلیغی امور کی
انجام دہی میں مصروف
ہیں اور اپنے دینی بھائیوں کی اصلاح کے لیے فکر مند ہیں۔
حاجی صاحبؒ تبلیغی جماعت کی محنت کے ساتھ ساتھ، کسی بھی
دینی کام میں پیچھے نہیں رہے۔ جہاں آپ کو دین کی خدمت کا موقع ملا، آپ صفِ
اوّل میں نظر آئے۔ آپ نے "تحریکِ ختمِ نبوت" کے لیے بھی کام کیا۔ اسی
طرح آپ نے "مجلسِ احرارِ اسلام" کے رکن کے طور پر بھی
کام کیا؛ بل کہ شروع میں آپ "مجلس احرارِ اسلام، بوریوالا" کے صدر بھی رہے۔
سن
2009ء سے ایک کتاب شائع ہوتی ہے، جس میں دنیا بھر سے پانچ سو
بااثر مسلم شخصیات کو منتخب کرکے ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کتاب میں دینی،
علمی، سیاسی، سماجی طور پر اثر انداز ہونے
والی مسلم شخصیات کو شامل کیا جاتا ہے۔ سن 2014ء میں،پانچ سو بااثر شخصیات پر مشتمل شائع ہونے والی اس کتاب میں، حاجی صاحبؒ دسویں نمبر پر تھے۔
دینی اور اخروی اعتبار سے اس درجہ بندی کی کوئی حیثیت نہیں ہے؛ لیکن اس سے اتنا
ضرور پتہ چلتا ہے کہ آپ کی محنت اور قربانی سے عرب وعجم کے لوگ نہ صرف واقف تھے؛
بلکہ لوگ آپ کی محنت کوسراہتے اور خراج تحسین پیش کرتے تھے۔
حضرت حاجی کا مزاج
شروع سے ہی دینی تھا۔ آپ نے اصلاحِ باطن کی خاطر مفسر
قرآن حضرت مولانا احمد علی لاہوری (1887-1962ء)رحمہ اللہ سے اس وقت تعلق قائم
کیا؛ جب کہ آپ اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھے۔ پھر وقت کی مشہور بزرگ ہستی، شیخ
طریقت
حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ (1878-1962ء) سے آپ نے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ شیخ
رائے پوری نے آپ کو خلافت سے بھی نوازا۔ آپ ان کے اجلّ خلفاء میں شمار ہوتے تھے۔
حاجی صاحبؒ کا وطن اصلی بھارت کا صوبہ
"ہریانہ" کا ضلع
"کرنال" تھا۔ آپ کی پیدائش بھارت کی راجدھانی "دہلی" میں، سن 1923ء میں ہوئی۔ آپ نے دہلی
میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد،
عصری علوم کے حصول کے لیے "اسلامیہ کالج، لاہور" میں داخلہ لیا۔ اسلامیہ
کالج سے گریجویشن کے بعد، آپ نے اپنے کیریر کا آغاز بحیثیت تحصیلدار کیا۔
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ
صاحب اسرار
آپ کے پاس کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ کی
اہلیہ محترمہ بہت پہلے انتقال کر گئیں۔ ضعیف العمری اور مختلف امراض
کی وجہ سے آپ کچھ مدت سے مستقل بیمار رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس سال (2018) رائےونڈ
میں منعقد ہونے والے سالانہ اجتماع میں بھی شریک نہیں ہوسکے تھے۔ گزشتہ چند دنوں سے کڈنی، سانس اور گلے کی تکلیف
کی وجہ سے، آپ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی
ناساز تھی۔ ان امراض کے ساتھ ساتھ ڈینگو بخار کا بھی حملہ ہوا۔ آپ کو اسپتال منتقل
کیا گیا۔ اسپتال میں آپ کو وینٹی لیٹر پر
رکھا گیا۔سالوں سال کے تھکے مسافر کو اسپتال ہی میں 18/نومبر کو علی الصباح عمر بھر کی بیقراری کو
قرار آہی گیا۔ آپ کی نماز جنازہ "رائے ونڈ" میں اجتماع والے ہال میں،
حضرت مولانا نذر الرحمن صاحب نے پڑھائی۔ ایک اندازے کے مطابق، نماز جنازہ میں بارہ
لاکھ سے زیادہ بندگانِ خدا نے شرکت کی۔ اللہ تعالی حضرت حاجی صاحبؒ کو کروٹ کروٹ
جنت نصیب فرما! آمین!
آسماں تیری
لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ
اس گھر کی نگہبانی کرے
···
٭ ہیڈ: اسلامک
ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
No comments:
Post a Comment