Sunday, December 8, 2019

نبی اکرمؐ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام


نبی اکرمؐ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام

 

تحریر:  خورشید عالم داؤد قاسمی

 


 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم:

اللہ سبحانہ وتعالی نے نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کو 40/سال  کی عمر میں نبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا۔ نبوت سے نوازے جانے کے بعد، آپؐ 13/سالوں تک مکّہ مکرمہ میں رہے۔ یہ زمانہ آپؐ کی مکی زندگی کہلاتا ہے۔ آپؐ نے مکی زندگی میں، تین سالوں تک خفیہ طور پر، اپنے قریبی لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا۔ پھر آپؐ نےدس سال تک،کھلم کھلا اشاعتِ اسلام کا کام کیا۔ اس کے بعدآپؐ یثرب ہجرت کرگئے۔ اشاعتِ اسلام کی وجہہ سے کفارِ مکہ آپؐ کے جانی دشمن ہوگئے۔جوں جوں لوگ آپؐ کے دستِ حق پرست پر اسلام کی بیعت کرتے رہے اوراسلام  کی شعائیں پھیلتی رہی، کفارومشرکین کے غیض وغضب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ مسلمان جو کچھ حیثیت رکھتے تھے یا ان کا کوئی حامی ومددگارتھا،  ان پر کفار ومشرکین  اپنے غصے اور ظلم وجور کا اظہار کرنے سے قاصروعاجز تھے، مگر جو مسلمان غریب ونادار تھے، ان کا کوئی حامی ومددگار نہ تھا اور نہ وہ خود کوئی خاندانی وقبائلی حیثیت رکھتے تھے، ان پر  کفار ومشرکین نے ظلم وستم کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ کفار نے ان کو طرح طرح سے پریشان کیااور ستایا؛ مگر ان کے ایمان میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا رہا۔ نبی اکرمؐ کے دادا، پھر چچا ابوطالب قریش کی نظر میں بڑے شرف واعزاز کے مالک سے تھے اور آپؐ کی خاندانی اور قبائلی وجاہت واہمیت بھی سب کے نزدیک مسلم تھی؛ اس لیے آپؐ پر حملہ آور ہونا، ایک بڑی جنگ کو دعوت دینا تھا؛ اس لیے کچھ لوگ آپؐ کو گزند پہونچانے سے گریز کرتے تھے؛ مگر اس کے باوجود بھی بہت سے حرماں نصیبوں نےنبی اکرمؐ کو طرح طرح سے ستایا اور آپؐ  کومختلف مصائب وآلام سے دوچار  ہونا پڑا۔  ذیل میں آپؐ کو "مکی زندگی میں پیش آنے والے مصائب وآلام میں سے چند" پر، ہم نظر ڈالتے ہیں۔

 

ساحر وکاہن:

جب تک نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– نے اپنی نبوّت و رسالت کا اعلان نہیں کیا تھا، اس وقت آپؐ  مکّہ میں ایک عقل مند ودانشور، امین وصادق اور اچھےانسان سےجانے جاتے تھے۔ جب آپؐ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا؛ تو لوگوں نے آپؐ کوجادوگر اور کاہن وساحر  جیسے معیوب لقب سے مشہور کرنے کی کوشش کی؛ تاکہ لوگ آپؐ کے قریب نہ آئیں اور آپؐ  کی باتیں نہ سنیں۔ مگر اللہ نے جن کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، ان حضرات کو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا؛ بل کہ تکلیف ومشقت برداشت کرکے، آپؐ کے پاس تشریف لاتے تھے اور جلوۂ انوار ربّانی سے اپنے قلوب کو منور کرکے جاتے تھے۔

 

        کفار ومشرکین جب نبی اکرمؐ کے کسی معجزہ کا مشاہدہ کرتے؛ تو اسے قبول کرنے کے بجائے یہ کہتے کہ یہ ایک جادو ہے جو ابھی ختم ہوجائےگا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ". (سورہ قمر: 2) " اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں؛ تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہوا جاتا ہے"۔ یعنی یہ جادو کا اثر ہے جو دیر تک نہیں چلا کرتا، خود ہی گزر جائے گا اور ختم ہوجائے گا۔ (معارف القرآن 8/227)

 

        ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے:  وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ". (سورہ ص: 4) ترجمہ: "اور ان کفار (قریش) نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس ان (ہی) میں سے (یعنی جو ان کی طرح بشر ہے) ایک (پیغمبر) ڈرانے والا آگیا(تعجب کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی جہالت سے بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھے) اور (اس انکار رسالت میں یہاں تک پہنچ گئے کہ آپ کے معجزات اور دعوی نبوت کے بارے میں) کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص (خوارق عادت کے کے معاملہ میں) ساحر اور (دعوی نبوت کے معاملے میں) کذّاب ہے"۔

 

        حضرت ابوذر غفاری –رضی اللہ عنہ– اپنے بھائی انیس  کی زیارتِ مکہ اور اللہ کےرسولؐ سے ملاقات کی کہانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "میں نے اس  (انیس) سے پوچھا: تم نے (مکہ میں) کیا کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے مکہ میں ایک ایسے شخص (محمدؐ) سے ملاقات کی جو تمھارے دین پر ہے۔ اسے (اس بات کا) یقین ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بناکر) بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا: ان کے بارے میں لوگوں کا کیا خیال ہے؟ انھوں نے فرمایاکہ لوگ کہتے ہیں کہ (وہ) شاعر، کاہن اور ساحر ہے؛ جب کہ انیس (خود) ایک شاعر تھے۔ انیس نے کہا میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے، مگر (اس کا) کلام کاہنوں کی بات (جیسا ) نہیں ہے۔ میں نے ان کے کلام کو شعر کے بحروں پر پڑکھا،؛ تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد نہیں جڑے گا شعر کی طرح۔ خداکی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ (مسلم شریف، حدیث: 2473)

 

مجنون ودیوانہ :

نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– جیسا قابل ولائق انسان، جس نے کبھی کسی غیرمناسب کام کا ارتکاب نہیں کیا، لوگوں کے ساتھ شبّ وشتم سے بات نہیں کی اور کسی بڑے اور چھوٹے کے احترام میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھا؛مگراعلان نبوت کے بعد، کفارنے انھیں مجنون ودیوانہ کہنا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نے اس عظیم معلمِ انسانیت، رہبر ِرشد وہدایت   اور عقل ودانش کے مینار کو مجنون  ودیوانہ کہا وہ خود مجنون ، پاگل، دیوانے،معاند ومتعصب اورسرکش وہٹ دھرم تھے۔

 

اللہ تعالی نے ان کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے فرمایا: "أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى، وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ، ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ، وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ". (سورہ دخان: 12-14) ان کو (اس سے ) کب نصیحت ہوتی ہے (جس سے ان کے ایمان کی توقع کی جاوے)؛ حال آں کہ (اس سے قبل) ان کے پاس ظاہرشان کا پیغمبر آیا۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے سرتابی کرتے رہےاور یہی کہتے رہے کہ کسی دوسرے بشر کا سکھایا ہوا ہے (اور) دیوانہ ہے۔ (معارف القرآن، ج: 7، ص: 759)

 

اللہ تعالی نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:  "وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ". (سورہ حجر: 6) اور ان کفار (مکہ) نے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے یوں کہا کہ اے وہ شخص جس پر (اس کے دعوے کے مطابق) قرآن نازل کیا گیا ہے، تم (نعوذ باللہ) مجنوں ہو (اور نبوت کا غلط دعوی کرتے ہو)۔

 

روایت میں ہے کہ ضماد (رضی اللہ عنہ) مکّہ مکرمہ آئے، ان کا تعلق (قبیلہ) ازدشنوءہ سے تھا۔ وہ جنوں اور آسیب وغیرہ کا جھاڑ پھونک کرتے تھے۔ انھوں نے مکہ کے چند بیوقوفوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ محمدؐ مجنون ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں، شاید اللہ ان کو میرے ہاتھ سے شفا عطا فرمائے! وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے ان سے ملاقات کی اور کہا:  اے محمدؐ! میں جنون کو جھاڑتا ہوں اور اللہ تعالی میرے ہاتھ سے جس کو چاہتا ہے شفا دیتا ہے۔ تو کیا آپؐ کی خواہش ہے (کہ آپ جھڑوائیں)؟ پھر اللہ کےرسولؐ نے فرمایا:  "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے۔ ہم اسی ذات کی تعریف میں  رطب اللسان ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں شہادت  دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائے کوئی معبودنہیں ، وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی ساجھی  نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اب حمدوشہادتین کے بعد، جو چاہو کہو!" وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ آپؐ اپنے ان کلمات کو پھر سے کہیں! چناں چہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ان کلمات کو تین بار ان کے سامنے دہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نے کاہنوں کی باتیں، جادوگروں کے اقوال اور شعرا کے اشعار سنے ہیں؛ مگر میں نے آپؐ کے ان کلمات کے مثل نہیں سنا۔ یہ کلمات تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔  پھر ضماد نے کہا: اپنا ہاتھ لائے میں اسلام کی بیعت کرتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر انھوں نے بیعت کی۔ پھر اللہ کےرسولؐ نے فرمایا: "اور میں تمھاری قوم کی بھی بیعت لیتا ہوں"۔ انھوں نے کہا: (ہاں) میری قوم کی طرف سے (بھی)۔ (مسلم شریف، حدیث: 868)

 

بازار ذوالمجاز میں آپؐ پر ابو لہب کی سنگ باری:

طارق بن عبد اللہ المحاربی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  میں نے اللہ کے رسولؐ کو بازار" ذی المجاز" میں دیکھا؛ جب کہ میں خرید وفروخت میں مشغول تھا۔ آپؐ سرخ جبہ  زیب تن کیے ہوےتھے اور بلند آواز سے یہ فرماتے جاتے تھے: "اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے" ۔ ایک شخص آپ کے پیچھے پیچھےپتھر مارتا جاتا تھا، جس سے آپ کی پنڈلی اور ایڑی خون آلود ہوگئے۔ وہ شخص ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا: " اے لوگو!اس کی بات نہ سننا یہ جھوٹا ہے"۔ محاربی فرماتے ہیں کہ میں سے پوچھا کہ یہ شخص  (آپؐ) کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ لڑکا بنی عبد المطلب سے ہے۔ (پھر) میں پوچھا: وہ شخص کون ہے جو اس کا پیچھا کررہا ہے اور پتھر مار رہا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ آپؐ کا چچا  عبد العزی یعنی ابو لہب ہے۔ (مصنف ابن أبی شيبہ، حدیث: 36565)

 

بازار ذوالمجاز میں آپؐ پر ابوجہل کا مٹی پھیکنا:

بنو مالک بن کنانہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسولؐ کو بازار "ذی المجاز" میں دیکھاکہ یہ فرماتے تھے: "اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے"۔ راوی فرماتے ہیں کہ ابوجہل آپؐ پر مٹی پھیکتا تھا اور یہ کہتا تھا: اے لوگو! خیال رکھنا یہ شخص تم کو تمھارے دین کے حوالے سے دھوکہ نہ دیدے؛ کیوں کا اس کا ارادہ ہے کہ تم لات وعزی کو چھوڑ دو!  جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف ذرہ برابر بھی التفات نہیں فرماتے تھے۔ (مسند احمد، حدیث: 16603)

 

اونٹ کی اوجھڑی آپؐ  کی پشت پر:

ایک دفعہ نبی کریمؐ کعبہ شریف کے پاس نماز ادا کررہے تھے۔  ابو جہل اور اس کے ساتھی (وہاں) بیٹھے تھے۔ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے کی اونٹنی کی اوجھڑی لائے اور جب محمدؐ سجدے میں جائیں؛ تو وہ اسے اس کی پشت پر رکھ دے؟ عقبہ بن ابی معیط جو نہایت ہی بدبخت، شقی القلب اور ملعون تھا، وہاں سے اٹھا اور اوجھڑی لے کر آیا۔ پھر وہ آپؐ کے سجدہ کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب آپؐ نے سجدہ کے لیے اپنے چہرہ مبارک کو زمین بوس کیا؛  تو اس نالائق نے اس اوجھڑی کو آپؐ کے پیٹھ پر کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ آپؐ اس کے بوجھ کی وجہ سے اٹھ نہیں پارہے تھے۔ سجدہ  کی ہی حالت میں پریشان تھے۔ دوسری طرف ابو جہل اور اس کے بے غیرت ساتھی سب کے سب ہنسنے اور ٹھٹھا مارنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود –رضی اللہ عنہ– یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، مگر اپنی کمزوری وضعف اور ان ظالموں کے خوف سے رسولِ خدا –صلی اللہ علیہ وسلم– کا دفاع کرنے سےعاجزتھے۔ پھر آپؐ کی لخت جگر حضرت فاطمہ –رضی اللہ عنہا– آئی اور اوجھڑی کو آپؐ کے پشت مبارک سے ہٹایا۔ (صحیح بخاری ، حدیث : 240/ 3185/3854)

 

سودے بازی کی کوشش:

کفار قریش نے محمدؐ کوقتل کرنے کے لیے سودے بازی کی بھی کوشش کی۔ کفار نے چاہا کہ عمارہ بن ولید کو ابوطالب کے سپرد کردیں اور اس کے عوض، ابوطالب محمدؐ کو ان کے حوالے کردیں، تاکہ وہ آپؐ  کو قتل کردیں؛ چناں چہ کفار قریش نے ابوطالب کی خدمت میں عرض کیا:

 

"اے ابو طالب! یہ (عمارہ) قریش کا سب سے بانکا  اور خوب صورت نوجوان ہے۔ آپ اسے لے لیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے۔ آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں۔ یہ آپ کا ہوگا اور اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں، جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے، آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کررکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلاتا ہے۔ ہم اسے قتل کریں گے ۔ بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے"۔ ابو طالب نے کہا: "خدا کی قسم! کتنا برا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کررہے ہو! تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں، پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو۔ خداکی قسم! یہ نہیں ہوسکتا"۔ (الرحیق المختوم، ص: 140)

 

ابوجہل کا آپؐ  کے قتل کا ارادہ:

        ایک دن ابوجہل نے  قریشیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ محمدؐ ہمارے دین میں عیب نکالتا ہے۔ہمارے آباء واجداد اور معبودوں کی توہین کرتا ہے؛ ا س لیے میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ  کل ایک بھاری پتھر لے کر بیٹھوں گااور جب وہ سجدہ کرے گا تو اسی پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا.... جب صبح ہوئی تو وہ ویسا ہی پتھر جیسا کہ اس نے بیان کیا تھا، لے کر انتظار میں بیٹھ گیا۔رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم–  آئے جیسا کہ آیا کرتے تھے....پھر  رسول اللہ–صلی اللہ علیہ وسلم–  نماز میں مشغول ہوگئے.... جیسے ہی آپؐ سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھاکر، آپؐ کی طرف بڑھا۔ جب وہ آپؐ کے قریب ہوا؛ تو شکشت خوردہ حالت میں لوٹا، اس کا رنگ فق تھا اور وہ ایسا مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ، اس کے پتھر سے چپک گئے تھے کہ وہ بمشکل اپنے ہاتھ سے پتھر پھیک سکا۔

 

قریش کے کچھ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے:"اے ابوجہل! تمھیں کیا ہوا؟ " اس نے کہا: "میں  نے گزشتہ رات جو بات کہی تھی، وہی کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا؛  جب میں ان کے قریب پہنچا؛ تو ایک اونٹ آڑے آگیا۔ خدا کی قسم!  میں کبھی بھی کسی اونٹ کی  کھوپڑی، گردن اور دانت اس اونٹ کے طرح نہیں دیکھا۔ وہ مجھے کھانا چاہ رہا تھا"۔ (سیرت ابن ہشام 1/ 298-299)

 

گردن مبارک میں کپڑے کا پھندا:

        مکہ کے کفار ومشرکین آپؐ کو آرام سے نماز بھی ادا نہیں کردینے دیتے تھے۔ آپؐ نماز میں ہوتے تو کبھی وہ آپؐ کی پشت مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالتے، تو کبھی آپؐ  کے مبارک گردن میں کپڑا کا پھندا لگاتے۔ بخاری شریف میں ایک روایت ہے:

 

حضرت عروہ بن زبیر–رحمہ اللہ– نے (عبد اللہ) ابن عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: مجھے اس سخت ترین تکلیف سے باخبر کیجیے جس سے مشرکین نے آپؐ  کو دوچار کیا۔ انھوں نے فرمایا: ایک بار نبیؐ حطیم میں نماز ادا کررہے تھے، اچانک عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپؐ کی گردن میں  اپنا کپڑا ڈال دیا۔  پھر اس نے سخت طریقے سے آپؐ  کا گلا گھونٹا۔ پھر ابو بکر –رضی اللہ عنہ– آئے اور انھوں نے عقبہ کا مونڈھا پکڑا اور اس کو نبیؐ  سے ہٹایا اور فرمایا:  "کیا تم مار ڈالوگے ایک شخص کو اس وجہ سے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟" [سورہ غافر: 28] (صحیح بخاری، حدیث: 3856)

 

سر اور ڈاڑھی کے بال کھینچنا:

مشرکوں نے آں حضرت –صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ڈاڑھی کے بال پکڑکےاتنے زور سے کھینچے کہ آپؐ کے اکثر بال اکھڑ گئے۔ (سیرت حلبیہ اردو، ج: اول نصف آخر: 276)

 

آپؐ کی بیٹیوں کو طلاق:

نبی اکرمؐ کی دو صاحبزادیاں: حضرت امّ کلثوم اور رقیّہ –رضی اللہ عنہما–  کا نکاح، دشمنِ اسلام، ابو لہب کے دو لڑکے: عتیبہ اور عتبہ سے ہو چکا تھا۔ لیکن یہ نکاح صرف نکاح ہی تھا۔ ابھی رخصتی باقی تھی"۔سورۃ لہب" کے نزول کے بعد، آپؐ کو بے عزت کرنے کی نیت سے، ابو لہب اور اس کی بیوی نے اپنے لڑکوں کو یہ حکم دیا کہ وہ آپؐ کی صاحبزادیوں کو طلاق دیدے؛ چناں چہ انھوں نے ان کو طلاق دے دیا۔

 

امام طبرانی قتادہ –رضی اللہ عنہ– سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی صاحبزادی ام کلثوم –رضی اللہ عنہا– کی شادی عتیبہ بن ابی لہب کے ساتھ ہوئی تھی۔  حضرت رقیّہ –رضی اللہ عنہا– کی شادی، اس کے بھائی عتبہ بن ابی لہب کے ساتھ ہوئی تھی۔ جب اللہ تعالی نے تبت يدا أبي لَهب (سورہ لہب)  نازل فرمائی؛ تو ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں: عتیبہ اور عتبہ کو کہا: " اگر تم نے محمدؐ کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی؛ تو تم دونوں کے سر کے لیے میرا سر حرام ہے"۔ ان دونوں کی ماں: بنت حرب بن امیّہ نے کہا: "یہی ایندھن اٹھانے والی ہے کہ تم دونوں انھیں طلاق دے دو؛ کیوں کہ وہ دونوں صابی (اپنا دین بدلے ہوئے) ہیں؛" چناں چہ ان دونوں نے انھیں طلاق دے دی۔ (تفسیر درّ منثور 8/667)

 

طلاق کا عمل جیسا کہ آج  کے کچھ شریف گھرانوں میں، بڑی بے عزتی کی بات سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اس وقت بھی عرب سماج کے شریف گھرانوں میں، طلاق کو بے عزتی سمجھا جاتا تھا۔ پھر ایک ایسے باپ  کے لیے جو شرافت کا اعلی نمونہ ہو اور اس کی دو لڑکیوں کو بیک وقت طلاق ہوجانا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں؛ جب کہ وہ باپ ہر طرف سے مصائب وآلام جھیل رہا ہو؛ تو کتنے تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے،اسے بیان کرنا مشکل ہے۔

 

تین سالہ  معاشرتی بائیکاٹ:

کفار قریش نے مل جل کر رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم–  کے قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ: "اس نے ہماری اولاد اور ہماری عورتوں تک کو ہم سے برگشتہ کردیا ہے"۔ پھر ان لوگوں نے آپؐ کے خاندان والے سے کہا: "تم ہم سے دوگنا خون بہا لے لو اور اس کی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص اس کوقتل کردے؛ تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمھیں فائدہ پہنچ جائے"۔ جب کفار قریش کی یہ تجویز منظور نہیں ہوئی؛ اس پر انھوں نے غصہ میں آکر یہ طے کیا کہ بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب، جو نبی اکرمؐ کے مددگار تھے، کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور انھیں مکے سے نکال کر، شعب ابوطالب نامی گھاٹی میں محصور اور مقید کردیا جائے۔

 

ایک روایت کے مطابق یہ بھی طے پایا کہ: "نہ بنی ہاشم کی لڑکیوں کو بیاہ کر لاؤ اور نہ اپنی لڑکیوں کی ان کے یہاں شادی کرو، نہ ان کو کوئی چیز فروخت کرو اور نہ ان سے کوئی چیز خریدو اور نہ ان کی طرف سے کوئی صلح قبول کرو"۔ چناں چہ جب بھی مکے میں باہر سے کوئی قافلہ آتا؛ تو یہ مجبور اور بے کس لوگ فورا ان کے پاس پہنچتے؛ تاکہ ان سے کھانے پینے کا کچھ سامان خرید لیں۔ مگر جب بھی ایسا ہوتا تو فورا وہاں ابولہب پہنچ جاتا اور کہتا کہ "دام اتنے بڑھادو کہ وہ تم سے کچھ نہ خرید سکیں۔ پھر تاجر کی طرف سے ایسا ہی ہوتا؛ لہذا لوگ مایوس ہوکر، اپنے بچوں کے پاس واپس آجاتے، جو بھوک سے بیتاب تڑپتے اور بلکتے ہوتے تھے اور ان کو خالی ہاتھ دیکھ کر، وہ بچے سسک سسک کر رونے لگتے تھے۔

 

اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بڑا سخت وقت گزارا۔ قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی، لوگ بھوک سے بے حال ہوگئے؛ یہاں تک کہ گھاس پھونس اور درختوں کے پتے اور چمرے کھا کھا کر گزارہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ مستقل تین سالوں تک جاری رہا۔ (تلخیص از:  سیرت حلبیہ اردو، ج: 1 نصف آخر، ص: 393-394)

 

اہل طائف کا ظلم وستم:

ابوطالب کی وفات کے بعد، نبی اکرمؐ نے شوال، سن دس نبوي میں، اپنے آزاد کردہ غلام: زید بن حارِثہ کی معیت میں،ثقیف سے مدد کی التماس کے لیے طائف کا (پیدل) سفر کیا۔ امید تھی کہ اللہ کے جس پیغام کے ساتھ آپؐ  ان کے پاس آئے ہیں، اہل طائف اسے قبول کریں گے۔ جب طائف پہنچے؛ تو ثقیف کے تین سراداران: عید یالیل، مسعود اور حبیب سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ یہ تینوں آپس میں بھائی تھے۔ آپؐ ان کے پاس بیٹھے اور اسلام کے لیے مدد کرنے اور آپؐ کی قوم میں سے جو آپؐ  کی مخالفت کرے، اس کے خلاف خود کی مدد کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔

 

نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کی بات سن کر، سرداران ثقیف نے نہایت ہی غیر سنجیدہ جوابات دیے۔ ایک نے کہا: "وہ کعبہ کا غلاف پھاڑے گا، اگر اللہ نے تمھیں رسول بنایا ہو(اگر تم نبی ہو؛  تو اللہ مجھے غارت کرے)!" دوسرے نے کہا:  "کیا اللہ تعالی کو تمھارے علاوہ کوئی اور نہیں ملا جسے وہ بھیجے؟" تیسرے نے کہا:  "بخدا، میں تم سے کبھی بات نہیں کرسکتا۔ اگر تم سچ مچ اللہ کے نبی ہو جیسا کہ تم کہتے ہو؛  تو تمھاری بات میرےلیے رد کرنا انتہائی خطرناک ہے اور اگرتم  اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہو؛ تو پھر مجھے تم سے بات نہیں کرنی چاہیے"۔ ثقیف سے ناامید ہوکر، رسول اللہ–صلی اللہ علیہ وسلم–  وہاں  سے کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: "تم لوگوں نے جو کچھ کیاکیا ، بہرحال اسے خفیہ ہی رکھنا"۔

 

جب رسول اللہ–صلی اللہ علیہ وسلم– نے وہاں سے واپسی کا ارادہ کیا؛ تو ان سرداروں نے اپنے غلاموں اور اوباشوں کو شہہ دیدی۔ انھوں نے آپؐ کو گالیاں دی، تالیاں بجائے اور شور مچائے؛ تاآں کہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ آپؐ کے راستے کے دونوں کنارے، لوگوں کی لائن لگ گئی۔ وہاں سے گزرتے وقت، جوں ہی اللہ کے رسولؐ ایک قدم اٹھاتے کہ وہ آپؐ کے قدموں پر پتھر مارتے؛ تا آں کہ آپؐ کے گھٹنے چور ہوگئے، پنڈلیاں گھائل ہوگئیں اور  جوتے خون آلود ہوگئے۔ جب آپؐ کو پتھر لگتا؛ تو آپؐ زمین پر بیٹھ جاتے۔ وہ اوباش اور حرمان نصیب آپؐ کے بازو پکڑ کر اٹھاتےاور جب چلنا شروع کرتے؛ تو وہ پتھر مارتے اور ہنستے۔  زید بن حارِثہ آپؐ کو خود  ڈھال بن کر بچاتے تھے؛ تا آں کہ ان کا سر بھی زخمی ہوگیا۔ (عیون الأثر 1/155-156)

 

 آپؐ کسی طرح ابنائے ربیعہ کے باغ میں پہنچے۔ تھوڑی دیر بعد، وہاں سے رخصت ہوئے۔ پھر آگے کیا ہوا، بنی –صلی اللہ علیہ وسلم– کی مبارک زبان میں ہی  ملاحظہ فرمائے: "میں غم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قرن ثعالب میں ہی پہنچ کر افاقہ ہوا۔ جب میں نے اپنا سر اٹھایا؛ تو اچانک دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ فگن ہے۔ جب میں نے اس میں دیکھا؛ تو حضرت جبرئیل موجود تھے۔ انھوں نے مجھے پکار کر کہا: "آپ کی قوم نے آپ سے جو بات کہی، اسے اللہ نے سن لیا۔ اب اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے؛ تاکہ آپ ان کے بارے میں جو حکم چاہیں اس فرشتہ کو دیں!  پھر پہاڑ کے فرشتے نے مجھے آواز دی، سلام کیا پھر کہا: اے محمدؐ!  ان کے حوالے سے آپ جو چاہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ میں ان کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں؟ (تو یہی ہوگا)۔ نبی کریمؐ نے جواب دیا: "(نہیں) بل کہ مجھے امید ہے کہ  اللہ ان کی پشتوں سے ایسی نسل پیدا کریں گے، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی"۔ (بخاری شریف، حدیث: 3231)

 

دارالندوہ میں قتل کا منصوبہ اور ہجرت کا حکم:

رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے اپنے صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم–کو مکہ میں ظلم وجور کی چکی میں اس طرح پستے دیکھ رہے تھے جو ناقابل برداشت تھا؛ لہذا ان کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دیدی، سوائے رفیق غار ابوبکر رضی اللہ عنہ کے۔ ابوطالب  جیسے حامی ومددگاربھی وفات پاچکے تھے۔ اب قریش شدید غصے میں تھے کہ کب تک ہم اس شخص (محمدؐ) کو برداشت کریں اور وہ ہمارے معبودوں اور آباء واجداد کی توہین کرتا رہے؛ چناں چہ ہمیں ان کو قید کردینا چاہیے، یا جلا وطن کردینا چاہیے یا پھر قتل کردینا چاہیے؛ تاکہ ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ پھر قریش کےسرداران اپنے مشورہ گاہ: دار الندوہ میں خفیہ طور پر نبیؐ کے خلاف فیصلہ لینے کو جمع ہوئے۔ کسی نے کہا کہ اسے لوہے کی زنجیر میں باندھ کر، دروازہ بند کردو۔ کسی نے کہا کہ انھیں جلا وطن کردو۔ مگر نجدی شیخ کے روپ میں، دار الندوہ میں بیٹھا مردود ابلیس نے ان رایوں کے نقص کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ کوئی رائے نہیں ہے۔ پھر ابوجہل بن ہشام نے یہ رائے دی کہ "ہم ہر  قبیلے سے ایک قوی جوان کو منتخب کریں۔ ہم ان میں سے ہر ایک جوان کو ایک تیز تلوار دیں۔  وہ سب کے سب بیک ضرب، ان کو قتل کردیں۔ جب وہ اسے اس طرح قتل کریں گے؛ تو ان کا خون مختلف قبائل میں بنٹ جائے گا؛ پھر میں نہیں سمجھتا کہ بنوہاشم سارے قریش سے جنگ کریں گے۔ جب اس صورت حال کا بنو ہاشم مشاہدہ کریں گے؛ تو دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے۔ پھر ہم ان کو دیت دیدیں گے"۔ نجدی شیخ کی صورت میں بیٹھا ابلیس نے کہا کہ بات تو یہ ہے جو اس آدمی نے کہی اور اس رائے کے بعد کوئی رائے نہیں ہے؛ لہذا پوری قوم اس پر تیار ہوگئی ۔

 

رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم–  اور کسی مسلمان کو اس منصوبہ کا علم نہیں تھا۔ جبرئیل –علیہ السلام– آپؐ کے پاس آئے اور کہا:  آپؐ اپنے جس بستر پر رات گزارتے تھے، اس پر رات نہ گزاریں۔ جب رات تاریک ہوئی؛ تو سب کے سب (قتل کے ارادےسے) آپؐ کا انتظار کررہے تھے کہ آپؐ  کب سوتے ہیں؛ تاکہ وہ سب آپ پر ٹوٹ پڑیں۔ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم– نے حضرت علی – رضی اللہ عنہ–  سے کہا: میرے بستر پرلیٹ کر، میری اس حضرمی ہری چادرکو  اوڑھ کر سوجاؤ۔ کوئی ناپسندیدہ عمل ان کی طرف سے تمھیں پیش نہیں آئے گا۔ جب رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– سوتے تھے؛ تو اسی چادر میں سوتے۔ پھر آپؐ اپنے ہاتھ میں، لپ بھر مٹی لے کر ان کے سامنے سے نکلے۔ پھر آپؐ وہ مٹی ان تمام کے سر پر ڈالتے ہوئے سورہ یس کی آیات 1-5کی تلاوت کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالی نے ان کی قوت بینائی لےلی وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ جب آپؐ ان آیات کی تلاوت سے فارغ ہوئے؛ تو کوئی ایسا نہیں بچا تھا جس کے سر پر مٹی نہ پڑی ہو۔ پھر آپؐ وہاں سے رخصت ہوئے، جہاں آپؐ کو رخصت ہونا تھا”۔ (سیرت ابن ہشام1/482-483)

 
خلاصہ یہ ہے کہ 13/سالہ  مکی دور میں نبی اکرمؐ کومختلف قسم کے ذہنی وجسمانی مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔ کبھی آپؐ کے قتل کا ارادہ کیا گیا، کبھی آپؐ پر پتھر پھیکا گیا، کبھی مٹی پھیکی گئی، کبھی گرد وغبار پھیکا گیا، کبھی راستے میں کانٹے ڈالے گئے، کبھی ڈاڑھی اور سر کے بال نوچے گئے اور کبھی آپؐ کے چہرہ مبارک پر تھوکنے کی بدبختانہ کوشش کی گئی ؛ مگر آپؐ  اسلام کی اشاعت کی خاطر، سب کچھ برداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت میں، ہمہ تن مشغول رہ کر، اپنی امت کو بہترین نمونہ فراہم کرگئے۔ ارشاد خداوندی ہے: (ترجمہ) "تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہواور کثرت سے ذکر الہی کرتا ہو(یعنی مومن کامل ہو اس کے لیے)، رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا (ہے)"۔ (سورہ أحزاب:21) ***

No comments: