Friday, June 19, 2015

پورے حقوق کی رعایت کے ساتھ روزہ رکھئے!


پورے حقوق کی رعایت کے ساتھ روزہ رکھئے!

از: خورشید عالم داؤد قاسمی


اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے پسندیدہ دین "اسلام" کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی منکر دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ روزہ ان پانچ بنیادوں میں سے ایک ہے جن پر اسلام کی بنیادیں ہیں۔ ان ارکان و اساس کو ایک حدیث نبوی میں اس طرح بیان کیا گيا ہے: عَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- : "بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ." [صحيح بخاری، حدیث نمبر: 8، صحیح مسلم، حدیث نمبر: 20 - (16)] ترجمہ: حضرت عبدا للہ بن عمر -رضی اللہ عنہما- روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  -صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: (1) گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد  (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، (2) نماز قائم کرنا، (3) زکوۃ ادا کرنا، (4) حج کرنا   (5) اور رمضان کے روزے رکھنا۔"


یوں تو روزہ کی کئی قسمیں ہیں، مگر ہم جس روزہ کی بات کررہے ہیں، وہ رمضان المبارک کے فرض روزے ہیں، جسے اللہ تعالی نے قرآن کریم یہ آیت کریمہ نازل فرماکر فرض کیا: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ." (سورہ بقرہ، آیت: 183) ترجمہ: "اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، اس توقع پر کہ تو متقی بن جاؤ۔" اس آیت کریمہ میں اللہ پاک اپنے مومنین بندے سے مخاطب ہے کہ جب تم ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے؛ تو تمھیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ ماہ رمضان کے روزے بھی تم پر فرض ہیں؛ لیکن تمھیں حیرت و استعجاب کرنے کی ضرورت نہیں، چونک اٹھنے کی حاجت نہیں؛ اس لیے کہ یہ روزے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے۔ نصاری کے حوالے سے یہ بات حدیث میں ملتی ہے کہ ان پر بھی ایک ماہ کے روزے فرض تھے، مگر اس قوم نے اس کی تعداد بڑھا کر پچاس کرلی تھی۔ اللہ نے آگے فرمایا کہ اس روزے کا مقصد متقی بنانا ہے؛ کیوں کہ روزہ دار اپنے نفس کو متعدد تقاضوں سے روکنے کی عادت ڈالتا ہے اور اسی عادت کی پختگی تقوی کی بنیاد ہے۔


روزہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر عاقل ، بالغ مسلمان مرد و عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت و قوت رکھتے ہوں، وہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع  سے رک جائے، اسی کو شرعی اصطلاح میں روزہ کہتے ہیں۔ جس طرح نماز کے کچھ حقوق و آداب اور شرائط ہیں، اسی طرح روزے کے بھی حقوق و آداب ہیں۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ: روزہ دار شخص جیسے مذکورہ چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، اسی طرح مندرجہ ذیل چیزوں کا ارتکاب نہ کرے، یعنی کسی کی غیبت کرنا،جھوٹ بولنا، کسی سے جھگڑا  لڑائی اور شب و شتم کرنا ، کسی نازیبا اور حرام باتوں کا سننا اور غیر مناسب و ناجائز چیزوں کا دیکھنا۔ جب صائم ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو روکتا ہے ؛ تو روزہ کا بہت ہی اجرو ثواب پاتا ہے؛ ورنہ تو روزہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا اور صائم کو کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ اس حوالے سے ہم ذیل میں ،چند احادیث نقل کرتے ہیں۔


جو شخص روزہ ایسے ہی رکھتا ہے جیسا کہ روزہ کا حق؛  تو پھر اس کا اجر وثواب بہت ہے۔ اللہ تعالی خود ایسے شخص کو  اجر وثواب عنایت فرماتے ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "قَالَ اللَّهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ." [بخاری شریف، حدیث نمبر: 1904، مسلم شریف، حدیث نمبر: 163 - (1151)] ترجمہ: حضرت ابوہریرہ- رضی اللہ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم -نے ارشاد فرمایا: " روزے کے سوا ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے ؛  کیوں کہ  روزہ  میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں  دونگا۔"


ایک حدیث میں جناب نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ایمان و احتساب کے ساتھ  روزہ رکھنے والوں  کے پچھلے سارے گناہوں کی بخشش کی بشارت دی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ." [بخاری شریف، حدیث نمبر: 38، مسلم شریف، حدیث نمبر: 175 - (760)]  ترجمہ: حضرت ابوہریرہ  -رضی اللہ عنہ- سے مروی ہے کہ رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم - نے فرمایا: "جو شخص رمضان کا روزہ  حالت ایمان میں،  ثواب کی امید کرتے ہوئے رکھے؛  تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔"


ایک روایت میں ہے کہ "صیام" روزہ داروں کے سلسلے میں اور "قرآن کریم" تلاوت کرنے والوں کے سلسلے میں قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: "الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ فيَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ، إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ فَيُشَفَّعَانِ." (شعب الایمان، حدیث نمبر: 1839) ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو –رضی اللہ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "روزہ  اور قرآن دونوں بندے کے حق میں شفاعت کریں گے؛ لہذا روزہ کہے گا: 'اے میرے رب! میں نے اسے دن میں کھانے اور شہوتوں سے روکے رکھا؛ اس لیے اس کے حوالے سے میری شفاعت قبول فرمائے!' اور قرآن گویا ہو گا: 'میں نے اس کو رات میں سونے سے روکے رکھا؛ اس لیے اس کے حوالے سے میری شفاعت قبول فرمائیں!' پھران  دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔"


اگر ہم  پورے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ روزہ نہیں رکھتے ہیں؛ تو پھر کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں فرمان نبوی ملاحظہ فرمائے۔ ایک حدیث شریف میں ہےکہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا،  ان کو کچھ  حاصل نہیں ہوتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: " كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ." (مسند احمد، حدیث نمبر: 9685) ترجمہ: ابو ہریرہ –رضی اللہ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ-نے فرمایا: "بہت سے  روزہ دار ایسے ہوتے ہیں، جنھیں ان کے روزےسے سوائے بھوک (اور پیاس، دارمی) کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اوربہت سےشب میں  عبادت میں مشغول رہنے والےایسے  ہیں، جنھیں ان کی عبادت سے سوائے بے خوابی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔"


ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایسے شخص کے روزے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں، جو جھوٹ بولتا ہو۔ حدیث ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ." [صحيح بخاری، حدیث نمبر: 1903] ترجمہ: ابو ہریرہ –رضی اللہ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا: "جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ دے؛ تو اللہ کو  اس بات  کی پرواہ نہیں  کہ اس نے اپنا کھانا پینا چھوڑ دیا۔"


ان مذکورہ بالا حدیثوں سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کی اہمیت، اللہ کی نظر میں، بہت ہی زیادہ ہے؛ اس شرط کے ساتھ کے روزہ پوری رعایت کے ساتھ رکھا گيا ہو۔ انسان کو روزہ صحیح طریقے سے رکھنی چاہیے اور روزہ کی حالت میں لغویات وعبث ، فحش کلامی اور افعال باطلہ سے پرہیز کرنا چاہیے،  تاکہ زیادہ سے زیادہ اجروثواب اور انعام واکرام کا مستحق ہوسکے۔


روزہ کا مقصد اور غرض و غایت روزہ دار کو متقی بنانا اور صفت تقوی سے متصف کرنا ہے، جیسا کہ آیت کریمہ میں مذکور ہے۔ تقوی یہ ہے کہ اس سے متصف شخص اللہ عزوجل سے ڈر ے، ہر کام کرنے سے پہلے یہ سوچے کہ یہ کام اللہ اور اس کے پیارے رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم -کے فرمان کے موافق ہے یا مخالف؟ اللہ نے جن چیزوں کا حکم کیا ہے، اسے بجالائےاور جن چیزوں سے روکا ہے، اس سے رک جائے۔ تقوی کو ایک روایت میں مثال کے ساتھ سمجھایا گیا ہے جو قریب الفہم ہے۔ وہ روایت یہ ہے: ایک مرتبہ حضرت عمرؓنے حضرت ابی ابن کعبؓ سے تقوی کے متعلق دریافت فرمایا، تو انھوں نے جواب دیا : "امیر المومنین ! آپ کسی خاردار جھاڑیوں والے راستے (ایسا راستہ جس کے دونوں طرف کانٹوں کی قطار ہو) سے گزرے ہیں؟" انھوں نے ارشاد فرمایا : "ہاں۔" حضرت ابی ابن کعبؓ نے سوال کیا: "پھر اس وقت آپ نے کیا کیا؟" حضرت عمر –رضی اللہ عنہ-  نے کہا: "میں  دامن سمیٹ کر، احتیاط کے ساتھ قدم رکھتا تھا۔" حضرت ابی ابن کعبؓ نے کہا: "بس یہی تقوی ہی۔"  یعنی دنیا میں بہت سی اچھی اور بری چیزیں ہیں؛ تو کچھ بھی کرنے سے پہلے آدمی اسے ملحوظ خاطر رکھے کہ یہ شریعت کے مخالف ہے یا موافق ؟  اگر موافق ہو تو کرے اور اگر مخالف ہو؛  تو اس سے اجتناب کرے، پھر یہی عمل تقوی اور اس کا کرنے والا متقی ہے۔


روزہ جہاں صائم کے اندر تقوی پیدا کرتا ہے، وہیں یہ صبر بھی  سکھلاتا ہے۔ حضور -صلی اللہ علیہ وسلم -نے رمضان کے مہینہ کو "شَهْرُ الصَّبْرِ" (نسائي شریف، حدیث نمبر: 2408)  یعنی صبر کا مہینہ فرمایا کرتے تھے؛  اس لیے کہ صائم اشیاءِ خورد و نوش اور جِماع پر قدرت ہونے کے باوجود بھی،  اس سے اپنے آپ کو روکتا ہے۔ صبر بہت بڑی چیز ہی۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے کو بے حساب اجر دینے کا وعدہ فرمایا ہے؛ چناں چہ ارشاد ربانی ہے: "إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ." (سورہ زمر، آیت: 10) ترجمہ: "صبر کرنے والے کو ملتا ہے ان کا ثواب بے شمار ۔" مطلب یہ ہے کہ کسی چیز پر صبر کرنے سے صابر کو، اس کے عوض بے شمار بدلے دیے جائیں گے؛  اس لیے کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی تمام سختیاں اور تکلیفیں ہیچ ہیں۔


روزہ ایسی عبادت ہے،  جو روزہ دار کو محتاج،غریب، مسکین فقیر کی غم خواری پر ابھارتا ہے، پرساں حال بناتا ہے اور مدد و نصرت پر مجبور کرتا ہے؛ کیوں کہ جب آدمی روزہ کی حالت میں بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرتا ہے؛ تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان مفلس اور محتاج لوگوں کے شب وروز کتنی مشقت اور پریشانی کے ساتھ کٹتے ہوں گے، جن کو نان شبینہ بھی میسر نہیں ہے! پھر وہ روزہ دار جسے اللہ تعالیٰ نے دولت و ثروت عطا کیا ہے،  وہ زکاۃ و خیرات کی رقمیں بغیر کسی تاخیر کیے؛ بل کہ بعجلت مستحقین تک پہچانے کی سعی کرتے ہیں۔ اسی طرح روزہ میں اور بھی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔


اطباء کہتے ہیں کہ روزہ صحت کے لیے مفید ہے۔  روزہ دار تندرست و توانا رہتا ہے۔  کچھ ایسی بیمار ی انسان کے جسم میں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر تھک ہار کر اسےچھوڑدیتا ہے؛ لیکن روزہ سے وہ مرض ختم ہوجاتا ہے اور مریض رو بصحت ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ روزہ کے بے شمار دینی و دینوی اور روحانی و جسمانی فوائد ہیں۔ مسلمان کو بغیر کسی عذر لنگ اور کمی کوتاہی کے روزہ رکھنا چاہیے۔ پھر دینی فوائد کے ساتھ ساتھ دوسرے فوائد بھی حاصل ہو ں گے۔  اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ارکان اسلام اور شریعت محمدیہ کا قدرداں اور اس پر عمل کرنے والا بنائے! آمین!


(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in    پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)