Friday, July 17, 2015

حضرت مولانا ابرار الحق –رحمہ اللہ- ہردوئی

....ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حضرت مولانا ابرار الحق  –رحمہ اللہ- ہردوئی
بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی ٭

حرف اول:
17اور 18 مئی کی درمیانی شب، جب کہ گھڑی کی سوئیاں ، نو بجارہی تھی، یہ وقت عالم اسلام کے لیے ایک جان کاہ حادثہ اور سانحہ کی خبر لے کر آیا کہ : بزم اشرف کے آفتاب ضیاء افروز ، خدا کی اطاعت و بندگی کا پیکر ، صالح طبیعت اورتقوی طہارت کا جامع ، قرآن و حدیث کا خادم ، احیاء سنت اور عشق رسول کا متوالا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا داعی ، محی سنت و مصلح امت ، حق گوحق پرست اور حضرت تھانوی قدس سرہ کا جیتا جاگتا نمونہ اور آخری یاد گار :حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی(رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دار فانی کو خیر باد کہہ دیا ـانا للہ و انا الیہ راجعون ـ یہ خبر امت مسلمہ پر بجلی بن کر گری اور ہر کوئی سکتے میں آگیا ؛ لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں اور ہر چھوٹے بڑے ، امیر و غریب اور شاہ و گدا کو فنا ہونا ہے   " كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ. وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ." (سورہ رحمن، آیت: 26-27)
ڈھونڈھو گے ہمیں ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

ولادت و وطن :
 آپؒ  کا خاندانی وطن "دہلی" کے قریب ایک  "پلول" (Palwal) نامی گاؤں میں تھا؛ لیکن نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا اور آخر میں آپ کے والد محترم جناب وکیل محمود الحق ؒ صاحب نے  "ہردوئی" (یو پی ) میں سکونت اختیار کرلی ۔آپؒ  کی پیدائش20/  دسمبرسن 1920ء کو "ہردوئی "  میں ہوئی ۔ یہیں پلے ، بڑھے ، پھولے پھلے اور اسی سرزمین پر ایک "چراغ اشرفی" جلا کر ، دنیا کو روشن کرنے لگے ۔

تعلیم و تعلم :
حضرت کی رسم بسم اللہ ، عارف باللہ مولانا اصغر حسین صاحب دیوبندی ؒ استاذ :دارالعلوم ، دیوبند نے کرائی۔ شروع سے حفظ قرآن کریم تک کی تعلیم "انجمن اسلامیہ ، ہردوئی" میں ، صرف ۸ سال کی ننھی سی عمر میں ، خدا داد ذکاوت و ذہانت اور شو ق و لگن کی وجہ سے پوری کی ۔ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لیےسن 1347ھ میں ، ایشیاء کی مشہور دینی و اسلامی درس گاہ  "مظاہر علوم ، سہارن پور" کا سفر کیا۔ سن 1356ھ میں آپ نے اسی ادارہ سے سند فضیلت حاصل کی ۔ دوران طالب علمی آپ نے "مظاہر علوم"  میں نابغہ روزگار شخصیات : حضرت مولانا عبد اللطیف ، مولانا اسعد اللہ ، مولانا عبد الشکور ، شیخ الحدیث مولانا زکریا اور مولانا عبد الجبار ـرحمہم اللہ ـ وغیرہم سے اکتساب فیض کیا ۔

بیعت و خلافت:
آپ کے والد ماجد حناب محمودالحق ؒصاحب مرحوم بڑے ہی نیک خصلت ، پاک طینت ، پابند شرع اور حضرت حکیم الامت ؒ کے مرید تھے ۔ باپ سے بیٹے کا متأثر ہونا ایک فطری امر ہے ؛ چنان چہ والد صاحب سے متأثر ہوکر ، انھیں کے شیخ و مرشد حضرت تھانوی ؒ کے سامنے زمانہ طالب علمی میں ہی دست بیعت دراز کردیا۔  حضرت تھانوی نے بیعت فرمالیا ، پھر تو تعلیمی ایام "مظاہر علوم"  اور تعطیلی ایام "خانقاہ اشرفیہ ، تھانہ بھون" میں گزرنے لگے ۔ اب جہاں شریعت کی شناخت ہوئی؛ تو طبیعت کو بھی پہچاننے لگی، شریعت و طبیعت کی حقیقت واضح ہوگئی اور نیکی و بدی کا فرق منشرح ہوگیا ۔ حضرت تھانویؒ  کی دوررس نگاہ نے ان خوبیوں کو تاڑ لیا اور صرف 22/سال کی عمر میں خلعت خلافت سے نواز کر "شیخ طریقت" بنادیا ۔  پھر سن 1941ء میں، عین آغاز شباب کے زمانے میں،  آپ کا شمار حضرت تھانوی ؒ کے عالی مقام خلفاء میں ہونے لگا   ؎
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا  ٭  روشن  شرر تیشہ سے خانہ فرہاد

درس و تدریس :
 علوم دینیہ کی رسمی تکمیل کے بعد ، درس و تدریس کی غرض سے ، حضرت حکیم الامتؒ کے مشورے سے "جامع العلوم ، کان پور" ـجہاں حضرت تھانویؒ نے بھی ایک مدت تک تعلیم و تربیت کا فرض منصبی انجام دیا تھا ـ تشریف لے گئے ۔ یہاں دو سال تک طالبان علوم نبوت نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرکے علمی پیاس بجھائی ۔ پھر یہاں کے بعد "مدرسہ اسلامیہ ،فتح پور ، ہنسوا"  میں بہ حیثیت مدرس تعلیمی خدمت کے لیے مامور کیے گئے ۔ اسی دوران حکیم الامت ؒ کے ہی ایماء پر ، اپنے وطن عزیز میں ، ایک تعلیمی و تربیتی درس گاہ بہ نام "اشرف المدارس" کی بنیاد رکھی ؛  جو اسم با مسمی ہونے کے ساتھ ساتھ ،  اپنے ان گنت کارہائے نمایاں کی وجہ سے،  داد تحسین حاصل کررہا ہے ۔ اللہ اس شجر مثمر کو تادیر باقی رکھے اور اس کی مرکزیت کو دوام بخشے   !  ؎
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو  ٭  گلشن تیری یادوں کا مہکتا  ہی رہے گا

تصنیف و تالیف :
 تصنیف و تالیف باضابطہ آ پ کا پیشہ نہیں تھا ؛ لیکن پھر بھی جب کوئی بات مناسب معلوم ہوتی ، امت کا فائدہ نظر آتا ؛ تو اسے ضبط تحریر کرلیتے اور اصلاح امت کے لیے اسے شائع کردیتے ۔  آپ کی مصنفہ کتابوں کی تعداد تقریبا دو درجن ہیں ، جن میں سے : "ایک منٹ کا مدرسہ" ، "اصلاح معاشرہ" ، "اصلاح معاملات" ، "اصلاح المنکرات" اور "اشرف الاصلاح"وغیرہ ہیں ۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سارے علمی و اصلاحی رسائل و پمفلیٹس منظر عام پر آچکے ہیں ۔ آپ کے ملفوظات کا مجموعہ "مجالس ابرار" (مرتبہ: مولانا حکیم اختر صاحب )اصلاح امت کے حوالے سے بے نظیر ہدایات و ارشادات کا مجموعہ ہے ۔

اصلاح امت:
اللہ عز و جل نے آپؒ  کو اصلاح امت کے لیے ایسا "درد مند دل " عطا کیا تھا ، جس کی نظیر اس قحط الرجال کے دور میں عنقا نظر آتی ہے ۔  اپنی خانقاہ میں ہوتے یا جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے ، امت کی اصلاح کی فکر دامن گیر رہتی اور اپنی حکمت و دانائی اور فراست مومنانہ سے  "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر"  کا کام شروع کردیتے ۔افراد امت کو صلاۃ و صوم ، احیاء سنت ، زہد و تقوی اور ذکر و فکر کی دعوت دیتے ۔آج کے اس دور میں ، جہاں بڑے بڑے دستار و جبہ والے قائدین امت  "نہی عن المنکر"  کے فريضہ کو ایسا فراموش کر بیٹھے ہیں کہ گویا اس کی ذمے داری ان کے سروں پر جاتی ہی نہیں اور مقام تأسف تو یہ ہے کہ منکرات کی ایسی مجلسوں کے دعوت نامے قبول کرتے ہیں؛ بل کہ بہ صد رغبت شرکت کا ارتکاب کرتے ہیں جہاں تصویر کشی ہوتی ہے ، ویڈیو کیسٹ تیار کی جاتی ہے اور بے حجاب عورتیں مسند نشیں ہوتی ہیں؛ مگر حضرت ؒ  ایسی مجلسوں کے دعوت نامے ٹھکرادیتے اور اگر کہیں ان کی موجودگی میں ایسا ہوتا؛  تو بلاخوف "لومۃ لائم"   بغیر کسی کی رضا ء اور عدم رضاء کا خیال کیے ہوئے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں روکتے اور اللہ و رسول کے احکام کی پیروی میں ہی اپنی کام یابی و کام رانی سمجھتے   ۔   ؎
سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے  ٭  مد نظر تو مرضی  جانان  چاہیے

آپ ؒ نے اپنے دعوت و تبلیغ کے دائرے کو وسیع ترین بناتے ہوئے ، ملت اسلامیہ میں دینی رجحان کو فروغ دینے ، دینی جذبہ پیدا کرنے اور صراط مستقیم پر جمے رہنے کے لیے ، پچیسوں ایشیائی ، یورپی اور افریقی ممالک کا دورہ کیا  ـ الحمد للہ ـ آپ کے ارشاد و ہدایات اور دعوت و تبلیغ سے لاکھوں بندگان خدا فیض یاب ہوئے اور آج ہند و بیرون ہند میں ، آپ کے خلفاء و مجازین کی تعداد بے شمار ہے ، جو آپؒ  کے ورثاء اور معنوی اولاد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔  اب ان کی یہ ذمے داری ہے کہ حضرت والاکے اس مشن کو جاری و ساری رکھے اور دعوت و تبلیغ میں مؤثر کردار ادا کریں ۔

قیمتی تحفہ:
قرآن کریم کی تعلیم تجوید و مخارج کے حوالے سے، ہمارے دیار میں بڑی غفلت برتی گئی؛ چنان چہ حضرت ؒ نے اس سلسلے میں بھی بڑی پیش رفت کی ،  پھر "نورانی قاعدہ"  کی تصحیح اور اس کی تعلیم کو عام کر کے "نونہالان ہند" کو ایک قیمتی تحفہ پیش کیا، جس سے لوگوں میں قرآن شریف کو مخارج حروف ، حسن ادا ، حسن صوت اور مجہول سے بچتے ہوئے معروف پڑھنے پڑھانے کا داعیہ پیدا ہوا ۔ اب "نورانی قاعدہ" ہر مکاتب و مدارس میں لازمی طور پر پڑھائی جاتی ہے ۔ تصحیح قرآن کے حوالے سے حضرت نے اتنی محنت کی کہ علماء و فضلاء کو بھی قرآن بالتجوید پڑھنے کا ذوق و شوق بیدار ہوا؛  لہذا  "اشرف المدارس"  میں باضابطہ "نورانی قاعدہ"  کا کورس شروع کیا ۔ یہ ایسی عظیم خدمت ہے جسے ملت اسلامیہ کبھی فراموش نہیں کر پائے گی اور اس کا اجر غیر ممنون آپ ؒ  کو ملتا رہے گا ۔

وفات:
موت ایک ایسی حقیقت ہے؛  جس سے کسی کو انکار نہیں،  ہرکسی کو اپنے اپنے وقت پر جانا ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے: "فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ." (سورہ نحل، آیت: 61) حضرت بھی ایک طویل علالت کے بعد، ضعف و نقاہت کی حالت میں ،  بہ عمر85/ سال (17/مئی 2005ءکو) جان، جاں آفریں کے سپرد کردیا ۔ خویش واقارب اور خلفاء  و مجازین کے ایک جم غفیر نے ان کے جسد خاکی کو، گورستان ہردوئی میں،  پیوند خاک کرکے عمر بھر کی بے قراری اور دنیا کے ہنگاموں سے نجات بخشا ۔
جان کر  منجملہ خاصان میخانہ  تجھے  ٭  مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
٭   مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، انکلیشور، گجرات، ہند

مولانا محمد ابراہیم قاسمی شولاپوری: ایک دعوتی سفر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 مولانا محمد ابراہیم قاسمی شولاپوری:  ایک دعوتی سفر
بہ قلم : خورشید عالم داؤد قاسمی
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in 

الحمدلله رب العلمین، والصلاة والسلام علی نبینه محمد بن عبدالله الامین و علی آله و اصحابه اجمین، اما بعد!

دارالعلوم مرکز اسلامی، انکلیشور، گجرات: دینی و عصری علوم کی ایک جامع درس گاہ ہے۔ اس ادارہ میں صرف عالمیت، حفظ، قرات اور افتاء نویسی کی ہی تعلیم نہیں ہوتی؛ بل کہ انگریزی زبان و ادب اور کمپیوٹر کی تدریس کا بھی معقول انتظام ہے۔ موخر الذکر عصری علوم و فنون کی تعلیم کے لیے سن 2003ء میں باضابطہ ایک شعبہ بہ نام: "مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر " کا قیام عمل میں آیا۔ یہ شعبہ حضرت مولانا موسی صاحب مانکروڈ (مہتمم: دارالعلوم مرکز اسلامی) کی زیر سرپرستی اور مولانا اسماعیل صاحب مانکروڈ کی زیر نظامت محو سفر ہے۔ اس شعبہ نے اپنے نظام کی مختصر سی مدت میں ہی سیکڑوں فضلائے مدارس اسلامیہ کو انگریزی زبان و ادب اور کمپیوٹر و انٹرنیٹ کے علوم سے مسلح کرکےقوم کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ یہ فضلائے کرام اندرون اور بیرون ہند، مثلا: امریکہ، کنیڈا، انگلینڈ، بہت سے افریقی ممالک اور بلاد اسلامیہ عربیہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ راقم الحروف بھی دارالعلوم، دیوبند سے فضیلت و ادب کی تکمیل کے بعد، انگریزی زبان و ادب کے حصول کےلیے، شعبہ مذکورہ میں سن 2005ء میں داخلہ لے کر، "دو سالہ ڈپلوما ان انگلش لنگویج اینڈ لٹریچر" مکمل کیا، پھر وہیں تدریسی خدمات سے وابستہ ہو گیا۔

جب احقر "مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر" میں تدریسی خدمت انجام دے رہا تھا، ان دنوں سن 2009ء   کے اوائل میں،  "مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا، جنوبی افریقہ" کے ٹرسٹی، جناب نجمل صاحب، مرکز اسلامی کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ انھوں نے طلبہ کی کارکردگی کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور انھوں نے ساتھ ہی ساتھ مولانا اسماعیل صاحب مانکروڈ سے، یہ بھی درخواست کی کہ: مجھے آپ کے انگریزی شعبہ کا فارغ التحصیل ایک عالم چاہیے، جو میرے یہاں ایک اسکول میں کام کرسکیں۔ مولانا اسماعیل صاحب نے ایک انگلش داں عالم مہیا کرنے کا وعدہ کرلیا۔

مرکز اسلامی میں ہی جناب نجمل صاحب کی شناسائی مولانا محمد ابراہیم قاسمی شولاپوری سے ہوئی، جو اس وقت گیسٹ لکچرر کی حیثیت سے وہاں موجود تھے۔ پھر نجمل صاحب نے مولانا شولاپوری  کو بھی زامبیا میں خدمت کرنے کے لیے آمادہ کرنا چاہا؛ لیکن وہ تیار نہ ہوئے۔ واضح رہے کہ مولانا محمد ابراہیم شولاپوری صاحب دارالعلوم ، دیوبند کے فاضل ہیں۔ انھوں نے مرکز اسلامی میں ہی انگریزی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی، پھر تقریبا چار سال تک، ایک افریقی ملک "زمبابوے" میں دینی خدمات انجام دی ہے۔ مولانا سے عوام و خواص: سب بے حد محبت کرتے تھے۔ انھوں نے چار سال تک"زمبابوے" میں دینی خدمات انجام دینے کے بعد، اپنے ہی وطن: شہر شولاپور میں دینی کام کرنے کی نیت سے، استعفی دے کرچلے گئے۔ ان کے وطن پہنچنے کے فورا بعد "مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر" میں ان کو بحیثیت گیسٹ ٹیچر بلایا گیا۔ الحمدللہ! ابھی مولانا ابراہیم صاحب اپنے وطن میں ہی ایک معیاری ادارہ: جامعہ اسلامیہ عمر فاروق –رضی اللہ عنہ-  میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔

بہرحال، مرکز اسلامی کے ڈائرکٹر مولانا اسماعیل صاحب نے آپسی صلاح و مشورہ کے بعد، راقم الحروف کو "زامبیا" آنے کے لیے آمادہ کرنا شروع کیا اور بندہ کچھ غور و فکر کے بعد تیار ہوگیا۔ پھر 5/دسمبر 2009 عیسوی کو زامبیا پہنچا اور "مون ریز ٹرسٹ اسکول" سے وابستہ ہوگیا اور تا ہنوز خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس دوران، مون ریز کے ذمےداران مولانا شولاپوری سے رابطہ میں رہے اور یہاں آنے کےلیے آمادہ کرنے کی کوشش کی؛ لیکن ان کا جواب ہمیشہ نفی میں رہا اور مستقل استاذ کی حیثیت سے خدمت کرنے کو راضی نہ ہوئے۔ پھر ذمے داران کی رائے ہوئی کہ مولانا کو کچھ دنوں کے لیے مون ریز میں بلوایا جائے اور ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے۔ جب یہ تجویز مولانا محمد ابراہیم صاحب کو پیش کی گئی؛ تووہ ایک مہینہ مون ریز میں قیام کے لیے راضی ہوگئے۔

خیر، ضروری کاروائی کے بعد، بہ روز: چہار شنبہ، 20/اپریل 2011 کی شام کو مولانا ایتھوپیا ایرلائنس سے زامیبا کے دارالسلطنت "لوساکا" تشریف لائے۔ لوساکا انٹرنیشنل ایرپورٹ پر میزبان نے خوشی خوشی ان کو ریسیو کیا۔ لوساکا میں مہمان مکرم کا قیام و طعام کا انتظام، برادرم ریحان راوت (جو زامبیا کے مشہور تاجر اور مون ریز ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ہیں) کے مکان پر تھا۔ مولانا کی آمد کے معا بعد، مون ریز ٹرسٹ کے ذمے داران کی ایک میٹنگ منعقد کی گئی، جس میں مہمان ذی وقار مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور ملک کی موجودہ صورت حال سے روشناش بھی کرایا گيا۔

زامبیا افریقی براعظم کے جنوبی خطے میں واقع ایک عیسائی مملکت ہے۔ اس کی کل آبادی 12935000 ہے؛ جب کہ مسلمان تقریبا ایک فی صد ہیں۔ یہ ملک بھی دوسرے افریقی اور ایشیائی ممالک کی طرح ، ایک طویل مدت تک انگریزوں کے قبضہ میں رہا۔ باشندگان وطن کی مسلسل سعی و کوشش سے 24/اکتوبر سن 1964 ء کو، یہ ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا۔ دوسرے ممالک کی طرح اس ملک میں بھی ہند نژاد لوگ ایک کثیر تعداد میں ہیں۔ ان کی معاشی حالت بہت اچھی ہے؛ جب کہ مقامی لوگ اقتصادی طور پر نہایت خستہ حال ہیں؛ بل کہ کچھ ایسے بھی ہیں، جو نان شبینہ کے لیے تڑپتے ہیں۔ راجدھانی میں چھ مساجد اور ایک بڑا مدرسہ ہے، جو ہند نژاد مسلمانوں کی دین داری اور ا سلامی حمیت  کی بین دلیل ہے۔ اسی طرح یہ مسلم حضرات، ملک کے طول و عرض میں بہ توفیق خداوندی، مساجد و مکاتب اور مسلم اسکولس کا جال بچھارہے ہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک مبارک کڑی "مون ریز ٹرسٹ اسکول" بھی ہے، جہاں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی طلبہ و طالبات کے ذہن کو صیقل کیا جاتا ہے۔

برادرم شیخ شاہد موتالا صاحب زامبیا کے مشہور تجار میں سے ہیں۔ موتالا صاحب ایک دین دار شخص اور حضرت مولانا قمرالزماں صاحب الہ آبادی –دامت برکاتہم- کے خلیفہ ہیں۔ یہ سن 1999 ء میں بہ غرض تجارت، راجدھانی لوساکا سے ملک کے شمالی صوبہ کے شہر "مپلنگو" میں آکر اقامت اختیار کی۔ شہر "مپلنگو"، راجدھانی لوساکا سے 802/میل کی دوری پر واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی 8574 لوگوں پر مشتمل ہے۔  موتالا صاحب "مپلنگو" میں ایک کمپنی  (Northern Fisheries) کے مالک ہیں۔  انھوں نے مقامی لوگوں کی خستہ حالی کو دیکھ کر، اپنی جگہ پر اور اپنے خاص بجٹ سے سن 2003 ء میں ایک مسلم اسکول قائم کیا۔ الحمدللہ! آج یہ اسکول 50/ ایکڑ کے رقبے پر قائم ہے اور 500/طلبہ و طالبات کو دینی و دنیوی علوم سے آراستہ کررہا ہے۔
خیر، مولانا محمد ابراہیم صاحب نے لوساکا میں چند ایام گزار کر، بہ روز: شنبہ: 23/اپریل سن 2011ء کی صبح کو مپلنگو تشریف لائے۔ مہمان مکرم کے قیام کا انتظام راقم السطور کی رہائش گاہ پر کیا گیا۔ پھر 24/ اپریل کی شام کو، جناب شاہد موتالا صاحب، چیرمین: مون ریز ٹرسٹ اسکول کی صدارت میں، ایک میٹنگ ہوئی، جس میں مولانا شولاپوری کے خطابات و بیانات وغیرہ کا نظام الاوقات تیار کیا گيا۔

مون ریز ٹرسٹ کے تحت چھ شعبے ہیں: (1) نرسری اسکول، (2) پرائمری اسکول، (3) سکنڈری اسکول، (4) شعبہ عالمیت (یہ ایک نیا شعبہ ہے جو سن 2011 ء میں شروع کیا گيا اور احقر اس شعبہ کا ہیڈ ٹیچر ہے۔)، (5) شعبہ دعوت و تبلیغ اور (6) شعبہ اسلامک اسٹڈیز؛ چناں چہ نظام الاوقات کچھ ایسا ترتیب دیا گيا کہ ہر شعبہ کے ذمے داران وغیرہ سے مولانا کی بات ہوسکے اور استفادہ کیا جاسکے، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
(1)          شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے ہیڈ سے ملاقات اور تعلیم و تعلم سے متعلق تبادلۂ خیال۔
(2)          شعبہ عالمیت کے ہیڈ  اور اساتذہ سے ملاقات اور طلبہ کے درمیان گفتگو۔
(3)          شعبہ دعوت و تبلیغ کے نگراں سے ملاقات اور طریقہ دعوت پر گفت و شنید اور مفید مشورے۔
(4)          ہر روز تقریبا ایک گھنٹہ معلمین و معلمات کے درمیان اصلاحی بیان۔
(5)          ہر روز بعد نماز عشاء طلبہ و اساتذہ کے درمیان سیرت النبی –صلی اللہ علیہ وسلم – کے موضوع پر خطاب۔

الحمدللہ! نظام الاوقات کے مطابق، مولانا پورے انہماک کے ساتھ، اساتذہ و طلبہ سے ملتے رہے اور سارے شعبہ جات کی کارکردگی کا معائنہ کیا اور مفید مشورے سے نوازا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

مولانا شولاپوری نے اسلامک اسٹڈیز کے حوالے سے بہت سے مفید مشورے دیے اور اساتذہ کو محنت و مطالعہ کی تلقین کی۔ جہاں تک شعبہ عالمیت کا تعلق ہے؛ تو مولانا نے اس شعبہ کے بھی اساتذہ و طلبہ سے ملاقات کی، طلبہ کے درمیان مختلف موضوع پر مختلف نششتوں میں تقریر بھی کی؛ بل کہ جب تک رہے ان طلبہ کو ایک گھنٹہ پڑھاتے بھی تھے۔ مولانا نے شعبہ دعوت و تبلیغ کے نگراں سے بھی ملاقات کی اور اس علاقہ کے ماحول سے واقف ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے ہوا کہ دعوتی کام کرنے والوں کے لیے ایک دو روزہ تربیتی پروگرام رکھا جائے؛ چناں چہ 7-8 /مئی سن 2011 ء کو تربیتی پروگرام منعقد ہوا۔ موضوع سے دل چسپی رکھنے والے لوگوں نے کثیر تعداد میں اپنی حاضری درج کرائی اور خوب استفادہ کیا۔مزید براں، معلمین و معلمات کے درمیان اصلاحی خطاب بھی مستقل جاری رہا۔ معلمین حضرات دل چسپی سے ہر روز حاضر ہوتے تھے۔ ہر روز پروگرام کے اختتام پر تقریبا 15/منٹ سوال و جواب کا بھی معمول رہا۔ سیرت النبی- صلی اللہ علیہ وسلم – کے موضوع پر عشاء بعد کا پروگرام تو نہایت ہی کام یاب رہا۔ اس پروگرام میں، لوگوں کا اچھا خاصا مجمع ہوتا تھا۔ الحمدللہ! مولانا نے زمانۂ جاہلیت سے لے کر حضور -صلی اللہ علیہ وسلم -کی وفات تک کے حالات، مستند حوالوں سے بیان کیے۔ اس طرح یہ سارے پروگرامس 25/ اپریل سے 17/مئی تک چلتے رہے اور لوگوں نے مولانا سے بہت ہی استفادہ کیا۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء!

مپلنگو سے فراغت کے بعد، "پیٹاؤکے مسلم ٹرسٹ" کے چیرمین: جناب حافظ اسماعیل منشی صاحب کی فرمائش پر، مہمان مکرم پیٹاؤکے تشریف لے گئے۔ پیٹاؤکے میں مفتی عبد القوی قاسمی اور مولانا زکی الرحمان قاسمی وغیرہ نے مولانا شولاپوری کا پرزور  استقبال کیا۔ یہاں مولانا کا قیام ایک ہفتہ رہا۔ اس مدت میں مولانا شولاپوری نے "انوسا" پبلک اسکول اور مدرسہ انوارالعلوم کی وزٹ کی اور طلبۂ و اساتذہ اور عوام و خواص کے درمیان مختلف دینی و اصلاحی موضوع پر خطاب ہوا۔

واضح رہے کہ مفتی عبد القوی قاسمی اور مولانا زکی الرحمان قاسمی: دونوں دارالعلوم، دیوبند کے فضلاء ہیں۔ دونوں نے مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر میں ہی انگریزی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اول الذکر میرے رفیق درس اور بہت ہی مخلص دوست ہیں؛ جب کہ ثانی الذکر میرے بہت ہی مخلص شاگرد ہیں۔ ان دنوں یہ دونوں حضرات مدرسہ انوارالعلوم، انوسا میں تدریسی خدمات میں مشغول ہیں۔

مولانا شولاپوری پیٹاؤکے میں ایک ہفتہ گزار کر، پھر 24/مئی کو لوساکا پہنچے۔ اسی روز مغرب بعد "مون ریز ٹرسٹ" کے اراکین کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں اراکین نے مولانا کا شکریہ ادا کیا اور ہر سال کم از کم ایک مہینہ کا وقت دینے کا مطالبہ کیا، جسے مولانا نے قبول کیا۔ حضرت مولانا عبد الرشید صاحب (ایک تاجر اور مون ریز ٹرسٹ کے رکن) کی فرمائش پر، مولانا نے دو روز لوساکا میں قیام کیا۔ اس کے بعد 27/مئی کی دوپہر کو بذریعہ ہوائی جہاز زمبابوے کے لیے روانہ ہوئے۔ شام کے وقت زمبابوے کی راجدھانی "ہرارے" پہنچے، جہاں ایرپورٹ پر مفتی اسماعیل مینک انھیں لینے کے لیے آئے تھے۔ہرارے میں مولانا نے حضرت مولانا موسی مینک –دامت برکاتہم – کے دولت خانہ پر قیام کیا۔ 28-29/ مئی کو مولانا "ہرارے " میں ہی مقیم رہے اور بہت سے مخلصین و محبین سے ملاقات کی۔ 30/مئی کی صبح کو، مولانا موصوف ہرارے سے "بلوایو" پہنچے۔

"بلوایو" زمبابوے کا دوسرے نمبر کا شہر ہے۔ یہاں بہت سے ہند نژاد لوگ ہیں۔ یہاں مولانا محمد ابراہیم صاحب نے ماضی میں 4/سال تک دینی خدمت انجام دی ہے۔ یہاں کے بہت سے لوگ مولانا ابراہیم کو اپنے کنبہ کا ایک فرد شمار کرتے ہیں۔ چناں چہ سب لوگ مولانا سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ ایک ایسی بھی معمر خاتون ہے جو مولانا کواپنا بیٹا کی طرح سمجھتی ہے۔ جب مولانا انڈیا میں تھے ، اسی وقت یہ معلوم ہوا تھا کہ اس معمر خاتون کی بہت زیادہ طبیعت خراب ہے؛ لہذا "بلوایو" آنے کا اصل مقصد اسی معمر خاتون کی عیادت کرنی تھی۔  خیر مولانا موصوف نے اس خاتون کی عیادت کی اور بہت سے دوسرے متعلقین سے ملاقات کی۔ اسی طرح 4/جون  تک بلوایو میں گزار کر 5/جون کو "ہرارے" پہنچے اور اپنے محبین و متعلقین کے درمیان مابقی ایام گزار کر 8/جون کو ایتھوپیا ایرلائنس سے ممبئی کے لیے روانہ ہوگئے اور 9/جون کی شام کو اپنے وطن: شولاپور صحت و سلامتی کے ساتھ پہنچ گئے۔
(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in    پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)