Saturday, November 30, 2019

بے لوث ملی ومذہبی رہنما حضرت مولانا محمد اسرار الحق قاسمی


بے لوث ملی ومذہبی رہنما حضرت مولانا محمد اسرار الحق قاسمی رحمہ اللہ




بے لوث ملی ومذہبی رہنما

حضرت مولانا محمد اسرار الحق صاحب قاسمیؒ (1942-2018)

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

 

اچانک اور غمناک موت:

معروف اسلامک اسکالر، بے لوث ملی ومذہبی رہنما، مشہور اردو کالم نگار اور مقبول خطیب حضرت مولانا محمد اسرار الحق قاسمیؒ 7/دسمبر 2018 کوتقربیا ساڑھے تین بجے رات میں، اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اس رات آپ "ٹپو" میں تھے، جہاں انھوں نے اپنے قائم کردہ  "دار العلوم صفہ" کے اساتذہ وطلبہ سے دیر رات تک خطاب کیا۔ پروگرام کے بعد، گشن گنج سرکٹ ہاؤس میں آرام کے لیے فروکش ہوئے۔ تقریبا تین بجے رات میں بیدار ہوئے اور تہجد کی تیاری کررہے تھے کہ ہارٹ اٹیک ہوا اور آپؒ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپؒ کے سماجی، تعلیمی، مذہبی، صحافتی اور سیاسی  خدمات کی وجہ سے ، آپؒ کی وفات خاص طور پر اقلیتی سماج کے لیے ایک عظیم حادثہ ہے۔نرم گفتاری، شرافت وسادگی، نرم مزاجی اور خوش اخلاقی کی وجہ  آپ کو عوام وخواص میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے  -  زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے

 

پیدائش اور تعلیم:

آپؒؒ کی پیدائش تاراباری، کشن گنج، بہارمیں، جناب منشی عمید اور محترمہ آمنہ خاتون کے گھر ، پندرہ فروری 1942 کو ہوئی۔ علاقائی مدارس میں ابتدائی تعلیم کےحصول کے بعد، افکارِ اسلامی کی عظیم درس گاہ: دار العلوم، دیوبند میں داخل ہوئے اور 1964 میں دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ آپؒ کی شادی 16/مئی 1965 کو ہوئی۔ آپؒ کی اہلیہ محترمہ 9/جولائی 2012 کوانتقال کرگئیں۔ اللہ تعالی نے آپؒ کو تین لڑکے: جناب سہیل اسرار، مولانا سعود اسرار ندوی ازہری اور جناب فہد اسرار صاحبان اور دو لڑکیوں سے نوازا۔

 

تدریسی خدمات:

فراغت کے بعد، آپؒ نے خدمت کے لیے تدریسی میدان کا انتخاب کیا۔ اوّلا آپؒ نے "مدرسہ رحیمہ، مدھے پورہ" میں تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر سن 1968 میں "مدرسہ بدر الاسلام، بیگو سرائے" سے منسلک ہوگئے۔ آپؒ نے اس ادارہ میں 1973 تک خدمات انجام دی پھر مستعقی ہوگئے۔ گو آپؒ ایک دینی ادارہ میں تدریسی خدمات سے منسلک تھے، مگر خود کوادارہ کی چہار دیواری میں قید وبند کرکے نہیں رکھا؛ بلکہ مولانا سماجی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور جہاں کوئی سماجی مسئلہ کھڑا ہوتا؛ تو اس کو حل کرنے یا کرانے میں پیش پیش رہتے۔

 

جمعیت علماء ہند:

بہت ہی مختصر مدت میں آپؒ کی سماجی خدمات کے جذبے اور ذکاوت وذہانت کے طفیل ، اکابرِ جمعیت علماء ہند نے آپؒ کو جمعیت کے پلیٹ فارم سے خدمات انجام دینے کے لیے 1974 میں منتخب کیا۔ جمعیت ہندوستان کی پرانی اور قابل قدرتنظیم ہے جو پورے ہندوستان میں اپنی خدمات پیش کرتی ہے؛ چناں چہ اس پلیٹ فارم سے آپؒ کو قومی سطح پر سماج کے ہرفرد اور طبقے تک پہنچنے کا موقع ملا۔ یہاں آپؒ نے اپنی مفوضہ ذمہ داری کو اس طرح حسن وخوبی سے انجام دیا کہ آپؒ جمعیت کے ایک اہم اور قابل اعتماد رکن بن گئے۔ پھر اکابرِ جمعیت نے 1980 میں آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے جمعیت کے جنرل سکریٹری کے اہم عہدہ سے نواز کر، مزید خدمات انجام دینے کا موقع فراہم کیا۔آپؒ 1991تک جمعیت کے جنرل سکریٹری رہے۔ آپؒ نے جمعیت کے منبر سے "ملک وملت بچاؤ تحریک"، "تحفّظِ علیگڑھ مسلم یونی ورسیٹی"،  "تحریکِ تحفّظِ مسلم پرسنل لا" وغیرہ کے موقعے سے نہایت ہی نمایاں کارکردگی پیش کی۔ آپؒ نے جمعیت میں رہ کر جو سماجی، رفاہی اور علمی خدمات انجام دی،  اسے ہمیشہ  یاد رکھا جائے۔

 

آپؒ جمعیت میں رہتے ہوئے، ہندوستان کےہزاروں  گاؤں، قصبے اور شہروں کا سفر کرکے، متعدد مواقع سے، مختلف محاذوں پر، بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنی فعالیت کا ثبوت پیش کیا۔ آپؒ نے جمعیت میں بحیثیت ایک رکن کام کیا ہو یا بحیثیت جنرل سیکریٹری، آپؒ اپنی جانفشانی، جہد مسلسل اور اعلی خدمات کی وجہ سے جمعیت میں بڑے محبوب رہے۔ گویا آپ کا نظریہ تھا کہ

زندگی نام ہے اک جہد مسلسل کا فنا –  راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد

 

آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن:

جمعیت سے مستعفی ہونے کے بعد، آپؒ نے قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ (1936-2002) کی زیر نگرانی قائم ہونے والی تنظیم: "آل انڈیا ملی کونسل" کے پلیٹ فارم سےقوم وملت کی خدمات انجام دینا شروع کیا۔ شروع میں آپؒ کونسل کے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری رہے،پھر نائب صدر بنائے گئے اور تادم واپسیں اس منصب پر فائزرہے۔ آپؒ  کونسل کے جانباز سپاہی اور بے لوث خادم ثابت ہوئے۔ آپؒ نے کونسل کو پروان چڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش  کی۔

 

جمعیت اور کونسل کے پلیٹ فارم سےسماجی ورفاہی خدمات انجام دیتے ہوئے آپؒ نے یہ محسوس کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی پستی وتنزلی کی بڑی وجہ ان کا تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا ہے۔ لہذا آپؒ نے تعلیمی میدان میں کام کرنےکے لیے سن 2000ء میں "آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن" قائم کیا۔ فاؤنڈیشن کا اہم مقصد تعلیمی میدان میں کام کرنا طے پایا۔ پھر  آپؒ نےفاؤنڈیشن کے تحت دینی وعصری علوم کے متعدد ادارے قائم کیے۔ آپؒ نے ایسی ایسی جگہوں پر تعلیمی کام کیا، جہاں کے لوگ علم کے حوالے سے بالکل ناآشنا تھے۔ نہ ان لوگوں کو علم کی اہمیت کا پتہ تھا اور نہ خود کو جہل کی تاریکی میں ہونے کا احساس۔ آپؒ نے خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے "ملی گرلز اسکول"  ٹپو، کشن گنج  میں قائم کیا۔ اس ادارے میں سیکڑوں لڑکیاں، اسلامی ماحول میں عمدہ تعلیم وتربیت سے حاصل کر رہی ہیں۔ اس اسکول میں دار الاقامہ کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی عصری تعلیمی سہولیات  بھی دستیاب ہیں۔  یہ اسکول اس علاقے میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔یہ ادارہ لڑکیوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے میں، ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔

 

"آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن" کے تحت، آپؒ نے ریلیف کا کام بھی انجام دیا۔ سونامی اور سیلاب متاثرین کو بروقت راحت رسانی کا سامان مہیا کرایا۔ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے موقع سے؛ جب کہ کشن گنج کا علاقہ بری طرح سے متاثر ہوا تھا، آپؒ نے متاثرین کو بروقت امداد پہونچا کر ان کی داد رسی کی۔ پھر آپؒ نے علاقے کا دورہ کرکے، لوگوں سے ملاقات کی اور ان کو تسلی دی۔ آپؒ نے جو ملی اور تعلیمی ورفاہی خدمات انجام دی ہے، مستفیدین اسے ہرگز فراموش نہیں کرپائیں  گے اور ان خدمات کا اجر عند اللہ آپؒ کو ضرور ملے گا، ان شاء اللہ۔

 

تحریری وصحافتی خدمات:

آپؒ ایک دینی واسلامی فکر کے حامل قلم کار اور کالم نگار تھے۔ آپؒ کے مضامین اسلامی افکار پر مشتمل ہوتے تھے۔ آپؒ کے مضامین کی زبان بہت سہل اور صاف ستھری ہوتی تھی۔ آپؒ کے مضامین قارئین کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپؒ نے اپنے مضامین کے ذریعے ایک طویل مدت تک اسلامی احکامات وتعلیمات کی نشر واشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ آپؒ نے اپنی تحریر میں جہاں بہت سے قومی وملی مسائل کو اٹھائے وہیں اسلامی موضوعات پر لکھ کر، بطریق احسن اصلاحی ذمےداری بھی نبھاتے رہے۔ آپؒ جب جمعیت میں تھے؛ تو دوسری خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ جمعیت کا ترجمان: "الجمعیت" کے ایڈیٹر بھی رہے۔ "الجمعیت" کا ایڈیٹر رہتے ہوئے آپؒ نے بہت کچھ لکھا۔

 

آل انڈیا ملی کونسل نے جب اپنا ترجمان ماہ نامہ"ملی اتحاد" شروع کیا؛ تو آپؒ اس کے چیف ایڈیٹر منتخب ہوئے۔ بحسن وخوبی آپؒ نے یہ ذمہ داری  نبھائی۔ آپؒ نےبہت سی مشغولیات کے باوجود بھی لکھنے کا  سلسلہ بند نہیں کیا، بلکہ  تادم واپسیں جاری رکھا۔ آپ ایک بہترین قلم کار ثابت ہوئے۔ اہل فکر ونظر بھی آپؒ کی تحریر کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ہندوستان کے تقریبا سارے اردو اخبارات اور ماہ نامے آپؒ کے مضامین چھاپتے تھے۔ آپؒ کے افکار وخیالات کی اہمیت کے پیش نظر ،کبھی کبھی عربی وانگریزی جرائد ورسائل بھی آپؒ کے مضامین کا ترجمہ شائع کرتے تھے۔

 

آپؒ کے گہربار قلم سے جو تصانیف منظر عام پر آئیں، وہ حالات حاضرہ کے مشکلات کا حل پیش کرتی ہیں۔ آپؒ کی تصنیفات میں "مسلم پرسنل لا اور ہندوستانی مسلمان"، "معاشرہ اور اسلام"، "اسلام اور مسلمانوں کی ذمے داریاں"، "سلگتے مسائل"، "ہندوستانی مسلمان: مسائل اور مزاحمتیں"اور "عورت اور مسلم معاشرہ" جیسی کتابیں شامل ہیں۔ اول الذکر کتاب اس وقت منظر عام پر آئی؛ جب آپؒ "مدرسہ بدر الاسلام، بیگوسرائے" کے ناظم تعلیمات تھے۔ آپؒ نے ہزاروں کالمز لکھا۔ اگر ان کالمز کو جمع کیا جائے؛ تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔اسلامی افکار وخیالات پر مشتمل آپؒ کے دینی وسماجی کالمز کو ضرور ترتیب دیا جانا چاہیے۔ان سے عوام وخواص ہر کوئی مستفید ہوں گے۔

 

میدانِ خطابت کے شہشوار:

آپؒ نے جس طرح ہزاروں کالمز لکھے، اسی طرح آپؒ نے عوام وخواص کے سیکڑوں مجمع کو خطاب کیا۔ آپؒ ایک بہترین عوامی خطیب تھے۔ آپؒ بہت سے مدارس وجامعات کے اجلاس اور عوامی اصلاحی  پروگراموں میں بحیثیت خطیب مدعو کیے جاتے تھے۔ سامعین آپ کی تقریر بہت غور سے سنتے تھے۔ ان دنوں جب کہ آپؒ ایم پی تھے، پھر بھی لوگ آپؒ کو دعوت دینے کے لیے پہنچ جاتے۔ وقت اگر اجازت دیتا؛ تو آپؒ دعوت قبول کرتے اور پروگرام میں ضرور شریک ہوتے۔ آپؒ کی خوش اخلاقی، سادگی اور نرم گفتاری کی وجہ سے کسی بھی پروگرام کی انتظامیہ آپؒ کو مدعو کرنے میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ آپؒ بغیر کسی تفریق کےیکساں طور پر گاؤں، قصبے اور شہروں کے پروگراموں کی دعوت قبول کرتے اور ہر جگہ تشریف لے جاتے۔کسی پروگرام میں آپؒ کی شرکت، عام طور پراس پروگرام کے کام یابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ آپؒ کے دل میں  اصلاح امت کے حوالے سے جو درد اور کڑہن تھی، اس وجہ سے اللہ نے آپؒ کے خطاب میں بہت اثر رکھا تھا۔ آپؒ چاہے پارلیامنٹ میں اپنی بات پیش کرتے یا کسی عوامی مجمع سے خطاب کرتے، آپؒ پورے اعتماد کے ساتھ بولتے۔ لوگ ایک قصبہ سے دوسرے قبصہ اور ایک شہر سے دوسرے شہر، آپؒ کی تقریر سماعت کرنے کے لیے جاتے تھے۔ آپ میدان خطابت کے شہشوار تھے۔ بندہ نے آپؒ کو پہلی بار، سن 2001میں، دار العلوم، دیوبند کی دار الحدیث میں، "سجاد لائبریری" کے پروگرام میں، طلبۂ دار العلوم کو خطاب کرتے ہوئے سنا تھا۔

 

سیاست کے میدان میں:

اگر انسان مخلص ہو؛ تو آج کے دور میں بھی سیاست کے میدان میں رہ کر،قوم وملت کی اچھی خدمت انجام دے سکتا ہے؛ کیوں کہ ایک سیاسی رہنما کو ہر وہ اسباب میسر ہوتے ہیں جن کی عوامی خدمت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ آپؒ نے بھی قوم وملت کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر، متعدد بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔ مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا؛ چناں چہ شکشت آپؒ کا مقدر بنی۔ پھر سن 2009 کے عام انتخابات میں، "کانگریس" پارٹی نے آپؒ کی قومی وملی خدمات پر اعتماد کرتے ہوئے، آپؒ کو "کشن گنج" سے ٹکٹ دیا۔ پھر آپؒ نے 2009 کے عام انتخاب میں حصہ لیا۔ آپؒ ایک مضبوط امیدوار ثابت ہوئے اورانتخاب میں فتح حاصل کرکے پارلیامنٹ پہونچے۔  سن 2014ء میں؛ جب کہ پورے ملک میں مسٹر مودی کی لہر تھی اور کانگریس حاشیے پر تھی۔ پھر بھی آپؒ کے حلقہ پر اس لہر کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ آپؒ نے بی جے پی کے امیدوار، ڈاکٹر دلیپ کمار جیسوال کو تقریبا دو لاکھ ووٹوں سے شکشت دے کرپارلیامنٹ پہونچے۔

 

بحیثیت ایم پی آپؒ نے اپنے حلقہ کشن گنج میں"علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی" کی برانچ قائم کرنے کی پوری کوشش کی ۔ آپؒ اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ مگر اس کام یابی کے پیچھے آپ کی قربانی پوشیدہ ہے۔ برانچ کے قیام کے لیے جتنی زمین کی ضرورت تھی، اس کے حصول کے لیے بہار حکومت کے سامنے آپؒ نے  بہت منت سماجت کی۔ جب اس طرح سے کام نہیں چلا؛ تو آپؒ نے سیمانچل کے عوام کو دھرنا دینے پر تیار کیا۔ پھر 12/اکتوبر 2010 کو سیمانچل کے عوام نے کشن گنج میں"مہا دھرنا" کیا اور تقریبا چار لاکھ لوگ جمع ہوئے۔ تب جاکر، نتیش حکومت تقریبا 224 ایکڑ زمین دینے کو راضی ہوئی۔  پھر  بہار وزیر اعلی مسٹر نتیش کمار،محترمہ سونیا گاندھی اور متعدد علاقائی سیاسی وسماجی رہنماؤں  کی موجودگی میں، برانچ کا سنگ بنیاد ڈالا گیا۔

صدمے اٹھائے، رنج سہے، گالیاں سنیں   -  لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام

 

متواضع اور مخلص خادم:

مختلف پلیٹ فارمس سے مولاناکی نصف صدی کی سماجی، سیاسی ،ملی وقومی خدمات کے دوران، مختلف میدان کے لوگوں سے شناشائی اور اچھے تعلقات رہے۔ مگر آپؒ نے کبھی بھی ان تعلقات کو اپنے ذاتی مفاد یا اپنے اہل خانہ کے مفاد کی خاطر استعمال نہیں کیا۔ آپؒ خود کئی اہم عہدے پر فائز رہے، مگر ان کا کوئی اثر آپؒ کی زندگی میں نظر نہیں آیا۔ آپؒ نے پوری زندگی سادگی کے ساتھ گزاری۔ ہمیشہ آپؒ کا وہی طرز خطاب رہا جو شروع سے تھا، وہی لباس وپوشاک جو شروع سے تھااور وہی رہن سہن جو پہلے تھا۔ لوگوں کو یہ کبھی  محسوس نہیں ہوا کہ ان کی طرزِ زندگی پہلے ویسی تھی اور اِس عہدہ پر آنے کے بعد ایسی ہوگئی۔ شاید آپؒ نے اپنی زندگی کا اصول ہی بنا لیا تھا "سادہ زندگی اور بلند فکری"۔

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل   -  اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز

 

آپؒ نے تزکیہ واصلاح کے حوالے سے اوّلا مفتی مظفر حسین صاحبؒ، سابق ناظم مظاہرعلوم (قدیم) سے تعلق قائم کیا۔ مفتی صاحبؒ نے آپؒ کو خلافت سے نوازا۔ پھر ان کی وفات کے بعد، آپؒ شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں الہ آبادی (حفظہ اللہ) سے منسلک ہوئے۔ شیخ الہ آبادی نے بھی آپؒ کو خلافت سے نوازا۔ آپؒ کے ان شیوخ نے آپؒ کی اس طرح تربیت کی کہ لوگوں نے شاید ہی کبھی آپؒ میں عجب، خود پسندی، تکبر وغیرہ کا مشاہدہ کیا ہو۔ آپ نے بہت کامیاب زندگی گزاری۔واضح لفظوں میں آپؒ نہایت  سادہ، متواضع اور قوم وملت کے مخلص خادم ثابت ہوئے۔

 

اظہارِ عقیدت:

آپؒ نے مختلف میدانوں میں میں کام کیا اور ہمیشہ ملت اسلامیہ کی بقا وتحفظ کی کوشش میں پیش پیش رہے۔ آپؒ کی خدمات کو اہل نظر وفکر نے سراہا۔ آپؒ کے تجربات سے فائدہ اٹھانے  اور اظہارِ عقیدت کے لیے مختلف ادارے اور جامعات نے آپؒ کو رکنیت سے نوازا۔ آپؒ اپنی مادرعلمی دار العلوم، دیوبندکے رکنِ شوری، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے کورٹ ممبر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قابل قدر رکن،  ملی کونسل کے نائب صدر اورآل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے بانی وصدر تھے۔عوام نے آپؒ کو دو بار منتخب کرکے، پارلیامنٹ بھیجا۔ آپؒ ان کے علاوہ متعدد مدارس ومکاتب کے نگراں وسرپرست تھے۔ آپؒ نے قوم وملت کی تقریبا نصف صدی تک خدمات کی۔  اللہ تعالی اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے!

 

جنازہ وتکفین:

آپؒ کی وفات کی خبر سنتے ہی بہار کے وزیر اعلی جناب نتیش کمار نے آپؒ کی خدمات کو سراہتے ہوئے آپؒ کو خراجِ عقیدت پیش کیااور آخری رسومات سرکاری اعزازات کے ساتھ ادا کی جانےکی پیشکش کی؛ مگر مولانا کے پس ماندگان نے سلیقہ سے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا نے  وصیت کی تھی کہ ان کی موت کے بعد، سادگی سے ان کو کفن ودفن کیا جائے۔ آپؒ کی نماز جنازہ علاقے کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا انور الحق صاحب، ناظم: دار العلوم، بہادر گنج نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ  "ملی گرلز اسلول" میں ادا کی گئی۔ تقریبا ڈھائی تین لاکھ لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی۔  لوگوں نم آنکھوں سےقوم وملت کے اس مخلص خادم کو، ان کے آبائی گاؤں کے قبرستان میں دفن کردیا۔ اللہ تعالی آپؒ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائےاور آپ کے پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے! آمین!

دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کے آئے تھے    سورج بھی تھا ملول زمیں پر جھکا ہوا

 ¨¨¨

 

٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

حضرت مولانا محمد اسرا رالحق قاسمی رحمہ اللہ


A Glimpse of Sheikh Mohammad AsrarulHaque Qasmi’s Life & Services


 

A Glimpse of Sheikh Mohammad AsrarulHaque

Qasmi’s Life & Services

 

By: Khursheed Alam Dawood Qasmi*


 

Sad and Sudden Demise:

A noted Islamic scholar, a remarkable Urdu columnist, a popular orator and a leading educationist, Sheikh Mohammad Asrarul Haque Qasmi passed away on 7th December 2018, at 03:30. At night he was in Tappu, a small town of Kishanganj where he addressed a gathering of the students and teachers in Darul Uloom Suffah, Tappu which is founded by him. Subsequently he went to rest at Kishanganj Circuit House and got up at around 03:00 hours in the night. When he was getting ready for Tahajjud, he felt chest pain and died of heart attack. He was 76. Because of his social, educational, religious and journalistic works and services, his death is a tremendous loss for the nation in general and for the minority community in particular. He will be recalled profoundly for his works, easily accessibility, soft-spoken and gentle approach.

 

Birth and Education:

Sheikh Qasmi was born in Tarabari village of district Kishanganj in Bihar to late Mr. Munshi Umed Ali and Amna Khatoon on 15th Febriary 1942. Following the completion of his primary education, he got admission in the world renowned Institute of Islamic thoughts Darul Uloom, Deoband and graduated in Islamic Studies from Darul Uloom in 1964. He got married on 16th May 1965. His better-half passed away on 9th July 2012. He is survived by three sons: Mr. Suhail Asrar, Mr. Saood Asrar Nadvi Azhari and Mr. Fahad Asrar and two daughters.

 

Teaching Career:

Following graduation in Islamic Studies from Darul Uloom, Deoband in 1964, Mr. Qasmi chose teaching as his career. Firstly he joined Madrasa Rahimia in Madhepura as a teacher. After resigning from Rahimia, in 1968 he joined Madrasa Badrul Islam of Begusarai district in Bihar. Although he was a teacher imparting religious education in the Madrasa; he didn’t confined himself within the four walls of Madrasa only. He involved himself in social and religious activities in the vicinity along with teaching. Whenever a social issue arose, he took it in his hand sincerely and wanted to resolve or to make sure that issue is in priority to be resolved by the concerned authority. In 1973, he resigned from Madrasa Bahrul Islam.

 

Jamiat Ulami Hind:

Due to Mr. Qasmi’s talent and social services on the ground, Jamiat Ulamai Hind (JUH) selected him in 1974 to render his services from Jamiat’s platform. The JUH being an old and respected organization in Indian society, he had chance to reach one and all on national level. He seized the opportunity and performed well the responsibilities assigned to him; until he became a valued and trusted member of the JUH. Later in 1980, he was elected as General Secretary of Jamiat Ulamai Hind. Under the umbrella of JUH, he played a conspicuous role in “Mulko Millat Bachao Movement”, “Protection of Aligarh Muslim University Movement” and “Protection of Muslim Personal Law Movement”.

 

Being in the JUH, he visited many villages, towns and cities of India to render his services throughout the country at the time of need on innumerable critical occasions fearlessly. As he served the community under the able leadership of his mentor Maulana Sayyid Asad Madani (1928-2006), ex-President of the JUH, for a long time being a member as well as the General Secretary of Jamiat, his works and services will be lauded for a long period. For his works and services, he was loved by the elders and members of Jamiat. In 1991, he separated his path from Jamiat.

 

All India TalimiWaMilli Foundation:

Later on, Sheikh Qasmi joined newly founded 'All India Milli Council' under the leadership of Qazi Muhahidul Islam Qasmi (1936-2002) ex-President of All India Muslim Personal Law Board. Working in the JUH and All India Milli Council, Qasmi had experienced that the main cause of Muslim community’s sufferings is lagging behind in the educational field. He, therefore, founded “All India Talimi Wa Milli Foundation” in 2000. The main objective of the Foundation was serving the nation working on the key issues of education and literacy. From the beginning, he started serving the people establishing religious and modern educational institutes. He set up dozens of educational institutes. He founded “Milli Girls School” especially for girls in Tappu, Tarabari Chowk, Kishanganj. About 500 girls are getting quality education in the school. This school is with hostel and all the modern facilities required. It is an exemplary and the first school of its kind in the area. It is playing a key role in imparting education amongst the girls.

 

Under All India Talimi Wa Milli Foundation, Mr. Qasmi also distributed relief materials among the victims of Tsunami and flood on several occasions. In last year flood of Bihar, when Kishanganj district and its vicinity were badly affected, he did his best in providing reliefs and personally meeting the victims to console them. It is clear crystal that setting up dozens of Madaaris and schools by Qasmi, under All India TalimiWaMilli Foundation, is great and prominent work which is unforgettable.

 

Columns and Write-ups:

Sheikh Qasmi was a well-known Urdu columnist. As he was famous for his public talks and oratory, he was equipped with writing skills as well. When he was a learner at Darul Uloom, Deoband, he started writing articles and essays. His first and formal work which was published was “Muslim Personal Law Aur Hindustani Musalman” (Muslim Personal Law and Indian Muslims), as far as I know. He authored this book when he was educational in-charge at Madrasah Badrul Islam, Begusarai. When he was in Jamiat, along with performing other activities, he was the editor of its organ “Al-Jamiat” as well. He had been Chief Editor of “Milli Ittihad”of All India Milli Council for a long. He was so prominent Urdu columnist that his write-ups were being published almost in all Urdu newspapers and monthly magazines throughout India. Due to his significant view and thought, his articles sometimes found place even in some leading Arabic and English magazines after translation.

 

He compiled some books which are very useful and much relevant to the age. They include “Muslim Personal Law Aur Hindustani Musalman” “Mua’ashirah Aur Islam” “Islam Aur Musalmanon Ki Zimmedariyan”, “Sulagte Masa’ail”, “Hindustani Musalman: Masa’ail Aur Muzahmaten” and “Aurat Aur Muslim Mua’ashirah”. He wrote thousands of columns. If these are compiled, it will be in volumes. Especially if his religious and social columns are compiled, without doubt, it will serve the community a lot.

 

Public Talks and Speeches:

Qasmi was one of the best public speakers. He was a brilliant and fluent orator. He was invited in several religious or social programmes as a speaker. The first time I listened to him in Daru lUloom, Deoband, when he was invited in a programme of “Sajjad Library” as a guest speaker in 2001. Currently, any big programme was not thought without his presence. His presence in a programme was the guarantee of the programme’s success. Because of his sincerity and pain for the community in his speeches, the people used to travel from a town to another one to listen to him. It was easy to invite him as he was very simple, humble and soft-spoken. Whenever he had time, he didn’t refuse to attend a programme either it was in a city or a remote village. He was seen attending programmes in the cities and villages alike. He had deep knowledge of the current affairs. Either he was speaking in the Parliament or a religious or social programmes, he used to speak with full understanding and confidence.

 

Political Career:

Politics is also a way where one finds the required resources to serve the nation. He, therefore, contested Lok Sabha elections several times from Kishanganj constituency. But luck was not with him, so he lost with a small margin of votes. In 2009 Lok Sabha elections, he emerged as a strong candidate for Indian National Congress (INC). He got Lok Sabha ticket from the INC to contest and won the Kishanganj MP seat on its ticket. Currently he was a sitting MP as he retained the Kishanganj seat once again in 2014 defeating the BJP candidate, Dr. Dilip Kumar Jaiswal by a margin of 194,612 votes despite Prime Minister Mr. Modi’s wave was across the country.

 

As the MP, he made full effort to establish the branch of Aligarh Muslim University in Kishanganj. In the beginning, he had to struggle to acquire the required land for the branch. He was forced to give call to the public for agitation against the then Bihar state government of Nitish to get the land. The public listened to his call and participated in the agitation for seeking land for the branch. Even the public went on “MahaDharna” on 12th October 2010 in Kishanganj where lakhs of people gathered from different parts of Seemanchal under his leadership. Then Nitish government agreed to grant almost 224 acres land for the branch and the branch’s foundation stone was laid in the presence of the then Congress President, Mrs Gandhi, Nitish Kumar, CM of Bihar and other political and social leaders.

 

Humble and Selfless Servant:

In his long life of social and educational works, Sheikh Qasmi had strong relation with many prominent people of different fields. But he never took the advantage of such relation by getting some favours or privileges for himself or for his near and dear ones. He himself held several prestigious posts; but he lived a very simple life. Either he was President of All India Talimi Wa Milli Foundarion, General Secretary of the JUH or Member of Indian Parliament, the people could not differentiate in his day-to-day life. He never liked a luxurious life. He remained always simple. His principle was “simple living and high thinking”.

 

It is suitable to mention here that Sheikh Qasmi took the oath of allegiance to Mufti Muzaffar Husain Mazahiri, ex-rector of Mazahir Uloom Waqf, Saharanpur, for his spiritual rectification. Mufti Sahib blessed him with Khilafa and authorized him to administer an oath of allegiance also. Following the death of Mufti Sahib, he joined Sheikhe Tariqat Sheikh Qamruz Zaman Allahabadi (Hafizahullah). Sheikh Allahabadi also granted him Khilafah. By these two of his mentors, he was trained in the way that he was hardly experienced showing pride and arrogance. In clear words, he was simple, humble, selfless and altruistic servant of the community.

 

The Tribute & Homage:

Cutting a long story short, he worked sincerely in different fields as a social worker, an educationist, a religious guide, a columnist, an orator etc. His works and services were recognized. To pay tribute to his services and benefit from his wide experiences, many organisations and institutes selected him as its member. He was a member of Governing Body of prestigious Islamic University Darul Uloom, Deoband which is also his seat of learning. He was Court Member of Aligarh Muslim University. He was a valued member of All India Muslim Personal Law Board, Vice-President of All India Milli Council and founding President of All India Talimi Wa Milli Foundation. He has been twice Member of Indian Parliament from his home constituency, Kishanganj. He was patron of innumerable schools and Madrasas. He served the nation in general and the minority community in particular for more than half a century. May Allah reward him and grant him Jannah! It’s a short write-up to pay my tribute and homage and to present a glimpse of his life and services.

 

Funeral Prayer:

Learning the Mr. Qasmi’s death news, Bihar Chief Minister, Mr. Nitish Kumar paid his homage through a press release. Lauding his contributions and giving due respect, Mr. Kumar also announced that Qasmi’s last rites would be performed with full state honours; which was refused politely by his family members to follow his will as he had wished to be buried with simplicity.

 

His funeral was led by Sheikh Anwarul Haque, rector of Darul Uloom, Bahadurganj in Milli Girls School, Talimabad, Tappu of district Kishanganj in Bihar. About two/three lakh people performed the funeral prayer. He was buried in his ancestral graveyard of his hometown. May the Almighty Allah forgive his human shortcomings and grant him eternal peace and the highest place in Jannatul Firdaus! My deepest condolence to the bereaved family! May Allah grant them patience and courage to bear this tremendous and irreplaceable loss! Ameen!

 

*Head: Islamic Department, Moon Rays Trust School, Zambia, Africa.

شبِ قدر کی حقیقت، علامات اور اعمال


شبِ قدر کی حقیقت، علامات اور اعمال


شبِ قدر کی حقیقت، علامات اور اعمال


شبِ قدر کی حقیقت، علامات اور اعمال


شبِ قدر کی حقیقت، علامات اور اعمال


شبِ قدر کی حقیقت، علامات اور اعمال

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

 


 

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی بڑی فضیلت واہمیت ہے۔ یہ عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی، اعتکاف جیسی عظیم عبادت کے ساتھ ساتھ اسی عشرہ کی کسی طاق راتوں میں سے ایک رات "شبِ قدر"، یا "لیلۃ القدر" ہوتی ہے۔ شبِ قدر یا لیلۃ القدر بڑی بابرکت اور فضیلت واہمیت والی رات ہے۔ اس رات کے فیوض وبرکات کثرت سے حدیثوں میں آئے ہیں؛ جب کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں،  ایک سورت نازل فرمایا اور اس سورۃ میں اس کی رات کی اہمیت اور فضیلت بیان فرمایا ہے۔ اس سورۃ کا نام سورۃ القدر ہے۔ شب قدر کا مطلب ہے کہ وہ رات جس کی اللہ کے نزدیک قدر ومنزلت ہو۔

 

"قدر" کا معنی اور مطلب کیا ہے؟ "قدر کے ایک معنی عظمت وشرف کے ہیں۔ ....  اس رات کو "لیلۃ القدر" (شبِ قدر)  کہنے کی وجہہ اس رات کی عظمت وشرف ہے۔ ابو بکر وراق نے فرمایا کہ اس رات کر لیلۃ القدر اس وجہہ سے کہا گیا کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر وقیمت نہ تھی، اس رات میں توبہ واستغفار اور عبادت کے ذریعہ وہ صاحب قدر وشرف بن جاتا ہے۔" (معارف القرآن 8/791)

 

صرف اس امت کو شب قدر ملی:

شب قدر جیسی عظیم الشان اور انوار وبرکات والی رات، نبی اکرم کی فکر  کے نتیجے میں، صرف  امت محمدیہ کو ملی۔ شبِ قدر اللہ کی جانب سے بہت بڑا احسان ہے جو کسی دوسری امت کے حصے میں نہیں آئی۔ نبی اکرم نے فرمایا : "اللہ سبحانہ وتعالی نے میری امت کو شبِ قدر عطا فرمایا اور اس سے پہلے کسی (امت) کو یہ عطا نہیں فرمایا ۔"  (جامع الأحاديث، حدیث: 39912)

 

موطا امام مالک میں ہے کہ "رسول اللہ کو، ان سے پہلے لوگ کی عمریں  دکھائی گئیں، یا ان میں سے جو اللہ نے چاہا؛ تو گویا آپ نے اپنی امت کی عمروں کو بہت کم محسوس کیا کہ وہ عمل میں وہاں تک نہیں پہنچ سکے گی، جہاں تک دوسرے لوگ اپنی طویل عمر کی وجہہ سے پہنچے؛ لہذا اللہ نے آپ کو شبِ قدر عنایت فرمائی جو ہزار مہینوں سے (عبادت کے اعتبار سے) بہتر ہے۔" (موطأ امام مالک، حدیث: 1145)

 

ایک دوسری روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ نے بنی اسرائیل کے ایک ایسے آدمی کا ذکر فرمایا، جس نے اللہ کے راستے میں، ایک ہزار مہینے تک ہتھیار پہنے رکھا؛ تو مسلمان اس سے(بہت) متعجب ہوئے؛ تو اللہ عز وجل نے انّا انزلناہ  .... نازل فرمائی کہ ایک شبِ قدر کا عمل، ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جن میں اس آدمی نے فی سبیل اللہ ہتھیار پہنے رکھا۔ (السنن الکبری للبیہقی، حدیث: 8522)

 

شب قدر کی علامات اور متوقع رات:

اتنی مبارک  اور شرف وعزت والی رات کی تاریخ متعین نہیں ہے؛ لیکن اتنا طے ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات: "شبِ قدر" ہوتی ہے۔ ایک بار رسول اللہ  اپنے صحابہ کرام–رضی اللہ عنہم–  کو شبِ قدر کی اطلاع دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے؛ تو آپ نے دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے ہوئے پایا؛ پھر وہ آپ سے اٹھا لی گئی؛ لہذا شبِ قدر متعین نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ باہر تشریف لائے اور یہ چاہ رہے  تھے کہ اپنے صحابہ –رضی اللہ عنہم–کو شب قدر کے بارے میں بتائیں؛ لیکن (مسلمانوں میں سے) دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے؛ تو رسول اللہ نے فرمایا: "میں اس ارادہ سے نکلا تھا کہ تمھیں شبِ قدر کے بارے میں اطلاع دوں؛ تو دو آدمی آپس میں لڑ رہے تھے؛لہذا مجھ سے اٹھا لی گئی۔ پس تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔" (شعب الایمان، حدیث: 3406)

 

ابن عمر –رضی اللہ عنہما– فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  سے شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا گیا اور میں سن رہا تھا، آپ نے فرمایا:"یہ ہر رمضان میں ہوتی ہے"۔  (ابوداؤد، حدیث: 1387)

 

حضرت ابن عمر–رضی اللہ عنہما– بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: "تم شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو!"(مسند ابی داؤد طیالسی، حدیث: 2047)

 

حضرت عبادہ بن صامت –رضی اللہ عنہ–  نے رسول اللہ سے شبِ قدر کے بارے میں پوچھا؛ تو آپ نے فرمایا: "وہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہے۔ وہ کسی طاق رات میں ہوتی ہے، اکیسویں رات، یا تیئسویں رات یا پچیسویں رات یا ستائیسویں رات، یا انتیسویں رات یا پھر رمضان کی آخری رات میں۔ جس نے ایمان واخلاص کے ساتھ، اس رات قیام کیا، اس کے سابقہ گناہوں کی مغفرت کردی جائے گی اور اس کی علامات میں سے یہ ہے کہ یہ رات انتہائی راحت بخش، صاف، پرسکون اور خاموش ہوتی ہے، نہ زیادہ گرم ہوتی ہے نہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اس میں چاند روشن ہوتا ہے۔ اس رات میں صبح تک کسی ستارے کے لیے ٹوٹنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی صبح کو سورج طلوع ہوتا ہے اور اس کی شعائیں نہیں ہوتیں۔ وہ بالکل برابر ہوتا ہے گویا کہ وہ چودھویں رات کا چاند ہے اور اللہ تعالی نے شیطان پر حرام قرار دیا ہےاس دن وہ اس کے ساتھ نکلے۔ (الدر المنثور8/571)

 

حضرت جابر بن عبد اللہ –رضی اللہ عنہما– روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم  نے ارشاد فرمایا: "میں نے اس رات  (شبِ قدر) کو یکھا ہے۔ یہ آخری عشرہ کی کسی طاق رات میں ہے اور یہ رات انتہائی پرسکون اور راحت بخش ہے، نہ گرم ہے اور نہ ہی سرد۔ اس میں چاند روشن ہوتا ہے اور اس میں شیطان ظاہر نہیں ہوتا، یہاں تک کہ فجر روشن ہوجاتی ہے۔ (الدر المنثور8/571)

 

کچھ لوگوں کو یہ اشکال ہوتا ہے کہ بسا اوقات چند ممالک میں اسلامی تاریخ مختلف ہوتی ہے، مثلا: ہندوستان میں رمضان کی اکیسویں رات ہوتی ہے؛ تو سعودیہ عربیہ میں رمضان کی بائیسویں رات ہوتی ہے۔  اس صورت میں سوال یہ ہوتا ہےکہ "شبِ قدر" کہاں کی تاریخ کے اعتبار سے ہوگی یا پھر ہر ملک میں، مختلف دنوں میں شب قدر ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تاریخ "اختلاف مطالع" کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں، شبِ قدر مختلف دنوں میں ہو، تو اس میں کوئی اشکال نہیں؛ کیوں کہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شبِ قدر قرار پائے گی، اس جگہ اسی رات میں شبِ قدر کے برکات حاصل ہوں گے۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔" (معارف القرآن 8/794)

 

شبِ قدر کی عبادت کی اہمیت:

اللہ سبحانہ وتعالی شبِ قدر کی عبادت کے بارے میں، قرآن کریم میں  فرماتے ہیں: (ترجمہ) "شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔" ہزار مہینے  تیراسی سال اور چار مہینے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ " ہزار مہینے تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے،اس سے زیادہ شبِ قدر میں، عبادت کرنے کا ثواب ہے۔"(بیان القرآن)

 

حضرت انس –رضی اللہ عنہ– سے مرفوعا مروی ہے کہ لیلۃ القدر میں، جبریل –علیہ السلام– فرشتوں کے ایک گروہ میں آتے ہیں اور جس کسی کو عبادت الہی میں مشغول دیکھتے ہیں، اس کے لیے دعاء مغفرت کرتے ہیں۔ (بیان القرآن)

 

امام ابن ابی شیبہ (رحمہ اللہ) نے حضرت حسن –رضی اللہ عنہ– سے بیان کیا ہے کہ میں کسی دن کو کسی دن پر اور کسی رات کو کسی رات پر افضل نہیں جانتا، بجز شبِ قدر کے؛ کیوں کہ (عبادت کے اعتبارسے) یہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (الدر المنثور 6/1054)

 

شبِ قدر میں عبادت:

ہمیں رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں: اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں میں شبِ قدر کی تلاش میں، عبادات میں مشغول رہنا چاہیے۔ شبِ قدر کی تلاش کا مطلب یہ ہے کہ  اس رات میں زیادہ ہی تلاوت قرآن کریم، ذکر واذکار، نفل نمازیں اور دوسرے اعمال کرنا چاہیے۔ ان راتوں میں عبادات کے حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائے:

 

حضرت انس –رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ شبِ قدر میں کوئی عمل، صدقہ، نماز اور زکاۃ ہزار مہینوں کے اعمال سے افضل وبہتر ہے۔ (فتح القدیر للشوکانی 5/577)

 

رسول اللہ نے امّ المومنین حضرت عائشہ –رضی اللہ عنہا– کو شب قدر میں دعا مانگنے کا حکم دیا؛ چناں چہ حضرت سفیان ثوری –رحمہ اللہ– فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک شبِ قدر میں دعا نماز سے بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی نماز جس میں دعا نہ یا کم ہو، اس سے بہتر ہے کہ آدمی دعا میں مشغول رہے۔ ہاں، اگر اس طرح نماز پڑھ رہا ہو کہ اس میں دعا بھی خوب کرے، آیت رحمت پر اللہ تعالی سے رحمت کی دعا کرے، آیت عذاب پر اللہ تعالی کی پناہ چاہے؛ تو پھر یہ نماز بہتر ہے۔ سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ تہجد کی نماز پڑھے، تلاوت کرے اور دعا بھی کرے۔ (لطائف المعارف لابن حجر 204)

 

حضرت ابو ہریرہ –رضی اللہ عنہ– بیان کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: "مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ." (صحیح بخاری، حدیث: 1901) یعنی جس شخص نے شبِ قدر میں ایمان کی حالت میں، اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے قیام کیا؛ تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ اس حدیث شریف میں قیام کا لفظ آیا ہے۔ اس قیام کا مطلب یہ ہے کہ اس رات میں تہجد کی نماز ادا کی جائے، دوسرے نفلی عبادات کیے جائیں اور دعا بھی کی جائے، جیسا کہ نبی اکرم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعا کرنے کو سیکھایا۔

 

رمضان کے مہینے میں نبی کا معمول یہ تھا کہ رات میں تہجد کی نماز ادا کرتے، ترتیل کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے، جب کسی آیت رحمت کی تلاوت کرتے؛ تو اللہ تعالی سے اس کا سوال کرتے اور جب کسی آیت عذاب کی تلاوت کرتے تو اس سے اللہ کی پناہ چاہتے۔ اس طرح نبی  اپنی عبادات میں نماز، قرات، دعا: سب کو شامل کرتے۔ یہی بہتر طریقہ بھی ہے۔

 

شبِ قدر کی دعا:

 

شبِ قدر میں کیا کرنا چاہیے اور  کونسی دعا مانگی چاہیے؟ اس حوالے سے امّ المومنین عائشہ –رضی اللہ عنہا– فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول  آپ بتلائے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ (فلاں رات) "شبِ قدر"ہے؛ تو میں اپنے رب سے کیا مانگوں اور کیا دعا کروں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: "(یہ) دعا مانگو! اللّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي." (شعب الایمان، حدیث:3427) ترجمہ: " اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور آپ معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں؛ لہذا مجھے معاف کردیجیے!"

 

ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ اس دعا میں اللہ کے نبی نے معافی مانگنے کو سیکھایا ہے؛ جب کہ  عام طور پر ایک مسلمان  پورے رمضان نیک اعمال میں مشغول رہتا ہے؛ پھر بھی "شبِ قدر" میں معافی کا سوال کیوں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ کثرت سے اعمال صالحہ کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے اعمال کو اعمال صالحہ نہیں شمار کرتے؛ لہذا خود کو ایک گنہگار سمجھ کر معافی کا سوال کرتے ہیں۔

 

وہ لوگ بدقسمت ہیں:

رمضان کا پورا مہینہ مسلمانوں کے لیےموسم بہار ہے، جتنا فائدہ اٹھانا چاہے اٹھا سکتا ہے۔ خاص طورپر آخری عشرہ بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں خوب عبادت کرنی چاہیے۔ آخری عشرہ میں بھی طاق راتیں انوار وبرکات سے پُر راتیں ہوتی ہیں، ان کا ایک منٹ بھی ضائع کرنا بدنصیبی اور بدقسمتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ –رضی اللہ عنہ– فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ".... فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ." (مسند احمد، حدیث: 7148) یعنی اس (رمضان) میں ایک ایسی رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے؛ جو اس کے خیر محروم رہا، وہ تحقیق کہ (ہر طرح کے خیر سے) محروم رہا۔"

 

٭ہیڈ اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ