Saturday, September 25, 2021

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے!


 

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے!


 

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے!


 

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے!


 

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے!

 

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے!

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

قرآن کریم میں زکوۃ کا حکم:

نماز، روزہ،  حج وغیرہ کی طرح زکوۃ بھی اسلام کا ایک ستون ہے۔ جس طرح نماز کا ذکر  قرآن کریم میں بار بار  آیا ہے، اسی طرح زکوۃ کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر آیا ہے،جہاں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو زکوۃ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا. (المزّمل: 20) ترجمہ: "اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوۃ دیتے رہو، اور اللہ کو اچھی طرح قرض دو، اور جو بھی نیک عمل اپنے لیے آگے بھیج دو گے، اس کو اللہ کے پاس پہنچ کر، اس سے اچھااور اجر میں بڑھا ہوا پاؤگے"۔ اس طرح قرآن کریم میں درجنوں مقامات پر نماز اور زکوۃ جیسے فرائض کا ذکر ساتھ ساتھ موجود ہے۔ جس طرح زکوۃ دینے کے متعدد فوائد اور اجر وثواب ہیں، اسی طرح زکوۃ نہ ادا کرنے پر مختلف وعیدیں  اور سزائیں  قرآن وحدیث میں آئیں ہیں۔

 

زکوۃ دینے کے فوائد:

جس مال کا آدمی مالک ہے، وہ مال اللہ تعالی نے ہی اس شخص کو دیا ہے۔ پھر زکوۃ کا حکم بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہے؛ لہذا مال کی زکوۃ ادا کرنے میں خوش دلی  سے کام لینا چاہیے۔ جتنی زکوۃ آدمی کے مال پر فرض ہو، اس کو فقراء ومساکین وغیرہ کا حق سمجھ کر خوشی خوشی ادا کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو کہ مال کی اتنی محبت دل میں بیٹھ جائے کہ آدمی کو زکوۃ دینے میں بھی تکلیف ہو۔ زکوۃ ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آدمی کے دل سے مال کی محبت نکل جائے۔ وہ اس بات کو سمجھ سکے جس اللہ نے اسے اس مال کا مالک بنایا ہے، اسی اللہ پاک کا حکم ہے کہ وہ مال کی زکوۃ مستحقین تک پہنچائے۔ پھر مزید یہ ہے کہ زکوۃ ادا کرنے پر، بہت سے دینی ودنیوی فائدے بھی ہیں۔

 

زکوۃ دینے کے چند فوائد یہ ہیں کہ جب بندہ زکوۃ دیتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس بندے سے خوش ہوتے ہیں۔ زکوۃ دینے سے مصیبتیں ٹلتی ہیں۔ بندہ جتنا زکوۃ میں خرچ کرتا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ اس کو اجر ملتا ہے۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال میں بڑھوتری اور برکت ہوتی ہے۔ جس مال کی زکوۃ ادا کردی جائے، وہ مال سماوی آفات اور دوسری ہلاکتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ جس شخص نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کی، اس کا مال قیامت کے دن اس کے لیے سایہ کا کام کرے گا۔ معاشرہ اور سماج میں جو فقیر ومسکین ہیں، زکوۃ سے ان کے معاشی واقتصادی مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔  زکوۃ دینے سے امیر وفقیر کے درمیان سے نفرت وعداوت اور دوری ختم ہوتی ہے، اور ان کے درمیان پیار،محبت،الفت اور ہمدردی پروان چڑھتی ہے۔

 

زکوۃ نہ ادا کرنے پر وعید اور سزا:

اگر کوئی "صاحب نصاب" شخص اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا ہے؛ تو ایسے آدمی کے خلاف قرآن واحادیث میں متعددسزائیں اور وعیدیں آئی ہیں۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ. يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ. (التوبۃ: 34-35) ترجمہ: اور جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، ان کو ایک دردناک عذاب کی "خوشخبری" سنادو۔ جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیاں اور ان کی کروٹیں اور ان کی پیٹھیں داغی جائيں گی، (اور کہا جائے گا کہ:) "یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا! اب چکھو اس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے۔"

 

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:  "یعنی زکوۃ نہ ادا کرنے والوں کو یہ عذاب الیم (دردناک عذاب)  اس دن ہوگا جب کہ ان کے جمع کیے ہوئے سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور پشتوں پر داغ دیے جائیں گے، اور ان سے زبانی سزا کے طور پر کہا جائے گا کہ یہ وہ چیز ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ سو اپنے جمع کیے ہوئے سرمایہ کو چکھو! اس سے معلوم ہوا کہ جزاء عمل عین عمل ہے۔ جو سرمایہ ناجائز طور پر جمع کیا تھا، یا اصل سرمایہ تو جائز تھا ،مگر اس کی زکوۃ ادا نہیں کی؛ تو خود وہ سرمایہ ہی ان لوگوں کا عذاب بن گیا۔" (معارف القرآن  4/ 368)

 

جو لوگ اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتے، ان لوگوں کے متعلق ایک لمبی روایت صحیح مسلم میں ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے خزانہ کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو، اس کے خزانہ کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چوڑی تختیاں بنائی جائیں گی۔ پھر اس کے دونوں پہلوؤں اور  پیشانی کو اس سے داغا جائے گا۔ عذاب کا یہ سلسلہ جنت یا جہنم کا فیصلہ ہونے تک جاری رہے گا۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں: «مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا أُحْمِيَ عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُجْعَلُ صَفَائِحَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ، وَجَبِينُهُ حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنَ عِبَادِهِ، فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ، إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ». (صحیح مسلم: 987) ترجمہ: جو خزانے والا بھی ایسا ہو  جو اس کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو، اس کے خزانے کو اس کے لیے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس کی چوڑی تختیاں بنائی جائیں گی، پھر اس کے دونوں پہلوؤں اور اس کی پیشانی کو اس سے داغا جائے گا (عذاب کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا)؛ تا آں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے درمیان قیامت کے اس دن میں فیصلہ نہ کردیں، جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی۔پھر اسے اس کا راستہ دکھلا دیا جائے گا، یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔

 

ایک حدیث شریف میں ہے کہ وہ شخص جو اپنے مال کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، ویسے لوگوں کے خلاف قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں، اس کے سامنے لایاجائے گا اوراس کو طوق بنا کر،  اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ پھر وہ سانپ صاحب مال کو ڈنک مارے گا اور کہے گا کہ  میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں: «مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ - يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ - ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ)» الآيَةَ (صحیح بخاری: 1403) ترجمہ: "اللہ نے جس شخص کو مال عطا کیا اور اس نے اس کی زکوۃ ادا نہیں کی؛ تو اس کا مال، قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل میں اس کے سامنے لایاجائے گا ، جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے ، اس کو قیامت کے دن (اس کا) طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔ پھر وہ اس کے دونوں جبڑے کو پکڑے گا ، پھر کہے گا: میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "اور نہ خیال کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں"  الآیہ(آل عمران: آیت: ۰۸۱)۔"

 

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم زکوۃ دیا کرو؛کیوں کہ قیامت کے دن تم میں سے زیادہ تر خواتین جہنم میں جانے والیوں میں سے ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ القِيَامَةِ." (ترمذی: 635) ترجمہ: "اے عورتوں کی جماعت! تم زکوۃ ادا کیا کرو، اگر چہ تمھارے زیور وں میں سے ہی کیوں نہ ہو؛ کیوں کہ قیامت کے دن تم میں سے زیادہ تر جہنم میں جانے والوں میں ہوں گی۔"

 

خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد، کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا۔ اس موقع سے آپ نے اصولی طور پر، قسم کے ساتھ اپنی بات کو موکد کرتے ہوئے، فرمایا کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ایک "رسّی" بھی زکوۃ میں دیتا تھا؛ تو اسے آج بھی وہ  رسی دینا ہوگا؛ کیوں کہ زکوۃ مال کا حق ہے۔ اگر کوئی ایک "رسّی" بھی دینے سے منع کرتا ہے؛ تو اس کے منع کرنے پر اس شخص سے جہاد کیا جائے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے فرمان کے الفاظ یہ ہیں: «وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ المَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ». (صحیح البخاری: 7284) ترجمہ: خدا کی قسم میں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوۃ (کی فرضیت) کے درمیان فرق کرے گا؛ کیوں کہ زکوۃ مال کا حق ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھے ایک "رسّی" بھی دینے سے منع کریں گے، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے؛ تو میں ان سے اس کے منع کرنے پر جہاد کروں گا۔

 

جو مال ودولت انسان کے پاس ہے، وہ اللہ تعالی کا طرف سے عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کو اسلامی ہدایات ورہنمائی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔ شریعت نے جہاں فضول خرچی سے منع کیا ہے، وہیں بخل سے بھی بچنے کی ہدایت دی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی کے مال میں جس طرح صاحبِ مال کا حق ہے، اسی طرح ایک حد تک فقراء ومساکین کا بھی حق ہے۔ آدمی کو جب ضرورت ہو؛ تو اپنے مال میں سے معتدل طریقے سے خرچ کرے۔ مال میں جو فقراء ومساکین کا حق ہے، اسے بھی بغیر کسی دریغ اور کمی اور کوتاہی کے بر وقت ادا کرنے کی کوشش کرے۔  یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ زکوۃ وصدقہ سے مال گھٹتا نہیں ہے؛ بل کہ بڑھتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:     «مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلِمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا، وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا». (سنن الترمذي: 2325) ترجمہ: صدقہ کی وجہہ سے کسی آدمی کا مال نہیں گھٹتا  ہے، جب کسی آدمی پر ظلم کیا جائے، وہ اس پر صبرکرے؛ تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں اور جب بھی کوئی شخص (اپنے لیے) سوال کا دروازہ کھولتا ہے؛ تو اللہ پاک اس پر فقر وتنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کو سمجھنے، عمل کرنے اور نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے! آمین!***

Wednesday, September 8, 2021

معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اہل علم کا مقام

 


 


حیات انساں ہے شمع صورت، ابھی ہے روشن ابھی فسردہ


 

حیات انساں ہے شمع صورت، ابھی ہے روشن ابھی فسردہ


 

حیات انساں ہے شمع صورت، ابھی ہے روشن ابھی فسردہ

 

حیات انساں ہے شمع صورت، ابھی ہے روشن ابھی فسردہ

 

استاذِ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی قاسمیؒ (1942-2021)

 

تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

اِدھر چند سالوں میں، مادر علمی دار العلوم دیوبند کے کئی کبارِ اساتذہ کرام اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان میں ایک استاذِ محترمؒ  حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی قاسمیؒ کی عظیم شخصیت بھی ہے۔  حضرت والا بتاریخ: 13/مئی 2021ء = 30/رمضان المبارک 1442ھ کو دن کے تقریبا پونے ایک بجے اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ کی وفات کی خبر منٹوں میں، شمال وجنوب اور مشرق ومغرب میں پھیل گئی۔ ہر طرف  پھیلے آپ کے تلامذہ اور اہل علم حضرات نے اس خبر پر گہرے غم وافسوس کا اظہار کیا۔ آپ  کی پیدائش 15/جون 1942 کو ضلع اعظم گڈھ کے ایک قصبہ: "جگدیش پور" میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام انوار الحقؒ تھا جو کہ حافظ القرآن الکریم تھے۔  حضرت الاستاذؒ مطالعہ کے رسیا تھے۔ آپ کا کام پڑھناپڑھانا، مطالعہ کرنا اور لکھنا تھا۔ آپ کو علم حدیث، اسماءرجال اور  تاریخ  سے بڑا شغف تھا۔  آپ ایک ممتاز اسلامی اسکالر، ایک مقبول استاذِ حدیث اور ایک کام یاب قلم کارو انشا پرداز تھے۔  آپ اپنے علم وفضل کی وجہ سے دار العلوم، دیوبند میں مدرس مقرر کیے گئے۔ آپ نے درجنوں کتابیں تصنیف کی۔ اس سے مضمون میں،استاذِمحترمؒ کے علمی سفر، تصانیف و تالیفات اورتنظیمی سرگرمیوں کو مختصرا ضبط تحریر کیا جارہا ہے۔

 

‏علمی سفر:

        استاذِ محترمؒ ؒ نے اپنے علمی سفر کا آغاز اپنے گاؤں کے بزرگ جناب حاجی محمد شبلی صاحبؒ سے کیا۔ آپ نے ان سےمکتب میں، قرآن کریم ، اردو وفارسی کی ابتدائی کتابیں اور حساب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔  پھر آپ مدرسہ روضۃ العلوم، پھولپور کا قصد کیا اور وہاں حضرت مولانا عبد الغنی صاحبؒ -خلیفہ حضرت تھانویؒ- سے شیخ مصلح الدین سعدی شیرازیؒ کی مشہور کتاب: "گلستاں" پڑھی۔ پھر آپ نے مدرسہ بیت العلوم، سرائے میر میں داخلہ لیا اور ابتدائی درجات کی کتابیں پڑھیں۔ پھر مدرسہ مطلع العلوم، بنارس کا رخ  کیا۔ بنارس کے بعد، دار العلوم، مئو، میں داخلہ لیا اور وہاں مشکاۃ المصابیح تک کی تعلیم حاصل کی۔

 

آپ کے تعلیمی سفر کا آخری پڑاؤ، ایشیاء کی عظیم دینی درس گاہ، دار العلوم دیوبند میں رہا، جہاں آپ نے فضلیت کے درجہ نہائی، یعنی دورہ حدیث شریف میں، سن 1963 میں داخلہ لیا۔ آپ نے اس ادارہ میں بخاری شریف حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادیؒ سے پڑھی اور صحیح  مسلم  اور ابن ماجہ حضرت مولانا بشیر احمد خانؒ بلندشہری سے پڑھی۔ ابن ماجہ کے کچھ اسباق آپ نے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ قاسمی، سابق مہتمم: دار العلوم، دیوبند سے پڑھی۔ سنن ترمذی (جلد اول) حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ سے پڑھی۔  سنن ابو داؤد، سنن ترمذی (جلد ثانی) اور شمائل ترمذی حضرت مولانا فخر الحسن مراد آبادیؒ سے پڑھی۔ آپ نے طحاوی شریف حضرت مولانا اسلام الحق اعظمیؒ سے پڑھی۔ سنن نسائی آپ نے حضرت مولانا شریف الحسن دیوبندیؒ اور مؤطا امام مالک ومؤطا امام محمد حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندیؒ سے پڑھی۔ آپ نے سن 1964ء = 1384ھ میں دار العلوم سےفراغت حاصل کی۔

 

تدریسی خدمات:

استاذِ محترمؒ  نے تدریس  وتعلیم کو اپنی عملی زندگی کا مشغلہ بنایا۔ آپ نے مدرسہ روضۃ العلوم، پھولپورمیں مبلغ کی حیثیت سے چند مہینے خدمات انجام دی۔  پھر آپ نے مدرسہ خیر المدارس، گھوسی، قرآنیہ جون پور وغیرہ میں تدریسی خدمات انجام دی۔ ان مدارس کے بعد، آپ نے جامعہ اسلامیہ ، ریوڑی تالاب، بنارس سے منسلک ہوگئے۔ اسی جامعہ کی میں آپ نے "تذکرہ علماء اعظم گڈھ" لکھی اور اسی ادارہ سے یہ کتاب اوّلا شائع ہوئی۔ یہاں آپ سن 1980 تک رہے۔ پھر موتمر فضلاء دار العلوم دیوبند کی نظامت اور اس کے ماہ نامہ ترجمان کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔  سن 1982ء میں، آپ دار العلوم، دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے۔ آج کل آپ دار العلوم، دیوبند میں علیا درجے کی کتابیں مثلا: صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، مشکاۃ المصابیح، نزہۃ النظر في توضیح نخبۃ الفکر، مقدمہ ابن صلاح وغیرہ پڑھاتے تھے۔ آپ سبق پڑھانے سے قبل، کافی ذوق وشوق اور محنت ومطالعہ سے اس کی تیاری کرتے تھے؛ چناں چہ طلبہ آپ کے اسباق کو بہت پسند کرتے تھے۔ آپ کا درس قصہ کہانی اور اِدھر اُدھر کی باتوں سے بالکل پاک ہوتا تھا۔ آپ جو کچھ بھی طلبہ کے سامنے بیان کرتے، وہ سب خالص علمی مواد ہوتا تھا۔

 

اس راقم الحروف کو دار العلوم، دیوبند کی طالب علمی کے زمانہ میں، دورہ حدیث شریف کے سال، آپؒ سے سنن ابو داؤد (جلد ثانی) پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔  آپ دوران درس، جو بھی بات کہتے نہایت ہی پر اعتماد لہجہ میں کہتے تھے۔ آپ حدیث کے ایک ایک جز کی وضاحت کرتے۔ حدیث سے متعلق چھوٹی بڑی سبھی باتوں کو اس طرح سمجھاتے کہ طلبہ آپ کے سبق سے کافی مطمئن رہتے تھے۔  علوم حدیث کے اسکالرز اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ حدیث میں "سند" کی کتنی اہمیت ہے۔ سند کے حوالے سے بحث کرنا، راویوں کے حالات ، حدیث کی صحت و ضعف کی وضاحت، یہ ایک اہم اورمشکل مسئلہ ہے، مگر اس حوالے سے کلام کرنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔  ایسا لگتا تھا کہ آپ نے اس فن میں تخصص کر رکھا ہو۔ یہ سب آپ کے ذاتی محنت ومطالعہ کا نتیجہ تھا۔ فن اسماء رجال کے حوالے سےآپ کامطالعہ گہرا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے خود کو مطالعہ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ آپ سند اور تاریخ کے حوالے سے ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے۔  آپ طلبہ کی نظر میں ایک مقبول اور پسندیدہ استاذ تھے۔ آپ کسی بھی مسئلہ کو آسانی سے سمجھا دیتے تھے۔ آپ ایک سبق کی تیاری کے لیے یا پھر کسی موضوع پر لکھنے سے قبل، موضوع سے متعلق کئی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ ایک مسئلہ سے متعلق اتنی باتیں بتاتے تھے کہ طلبہ کے لیے ان کو سمیٹنا مشکل ہوتا تھا۔  مگر آپ کا ہر شاگرد اس حقیقت کا اعتراف کرتا تھا کہ آپ کے ایک سبق میں ان کو سیکڑوں صفحات کا نچوڑ اور خلاصہ مل جاتا تھا۔

 

تصانیف وتالیفات:

حضرت الاستاذؒ ایک کامیاب قلم کار اور مصنف تھے۔ جب بھی آپ نے کسی موضوع پر لکھنے کی ضرورت محسوس کی، آپ نے اس موضوع پر ضرور لکھا اور مدلل لکھا۔ آپ نے فرق باطلہ کے تعاقب کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ چاہے وہ مرزائی عقا‏ئد ودعاوی ہوں یا قرآن کریم کی معنوی تحریف، ایرانی انقلاب ہو یا شیعی باطل عقائد، فتنہ انکار حدیث ہو یا حجیتِ حدیث کا مسئلہ: سب موضوع پر آپ نے اپنے مطالعہ کی روشنی مدلل تحریر پیش کی ہے، جس پر کہیں بھی انگلی رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ آپ کی تحریری صلاحیت کی وجہ سے صفر 1405ھ (اکتوبر 1984) میں، آپ کو دار العلوم کی انتظامیہ نے ماہنامہ "دار العلوم" کا ایڈیٹر بنایا۔ آپ نے اکتوبر 1984 سے نومبر 2016 تک اس ماہنامہ کی ادارت بحسن وخوبی انجام دی۔ ماہنامہ دار العلوم کے موجودہ ایڈیٹر، استاذِ محترم مولانا سلمان صاحب بجنوری-حفظہ اللہ-، اس حوالے سے رقم طراز ہیں: "حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب کی ادارت ماہ نامہ دار العلوم کی تاریخ میں مولانا سید ازہر شاہ قیصرؒ کی طرح بہت طویل ہے۔ وہ 1984 میں مدیر بنائے گئے اور ابھی گذشتہ ماہ نومبر 2016 میں، اپنی بڑھتی عمر اور بلند پایہ تدریسی اور علمی مصروفیات کی بنا پر، اس خدمت سے معذرت کی۔ اس طویل مدت میں، ان کے رواں قلم سے اداریوں کے علاوہ بھی بے شمار مضامین صادر ہوئے۔ ان کے علمی مضامین کا مجموعہ (تین جلدوں میں) "مقالات حبیب"کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ عربی اور اردو میں تقریبا تیس کتابیں یا رسائل ان کے قلم سے وجود میں آچکے ہیں۔ حضرت موصوف کے دور ادارت میں متعدد خاص نمبر بھی شائع ہوئے، جن میں "ختم نبوت نمبر" اور "الاحسان نمبر" خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔" (اداریہ ماہ نامہ دار العلوم، دسمبر 2016)

آپؒ موتمر فضلائے دار العلوم دیوبند کے ترجمان: ماہ نامہ "القاسم" کے بھی مدیر رہے۔ واضح رہے کہ اس موتمرقیام  سن 1980ء میں عمل میں آیا تھا۔

 

حضرتؒ نے اپنے سیال قلم سے تقریبا تیس کتب ورسائل تحریر فرماے جو سب شائع شدہ ہیں؛ جب کہ آپ کی کچھ تحریریں ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہیں۔ آپ کی کچھ تصانیف کے نام یہ ہیں: (1)تذکرہ علماء  اعظم گڈھ (2)شجرہ طیبہ  (3) اجودھیا کے اسلامی آثار (4)بابری مسجد حقائق اور افسانے (5) اسلام کانظام عبادت (6) اسلام میں تصور امارت (7) مقالات حبیب (تین جلدیں) (8) متحدہ قومیت علماء اسلام کی نظر میں (9) خمینیت اثر حاضر کا عظیم فتنہ (10)  خلیفہ مہدی صحیح احادیث کی روشنی میں ، (11) خواتین اسلام کی بہترین مسجد (12) امام کے پیچھے مقتدی کی قرات کا حکم (13) مسائل نماز (14) امام ابوحنیفہ کا علم حدیث مین مقام و مرتبہ (15)شرح مقدمہ شیخ عبدالحق دہلوی (16) نور القمرفي توضیح نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر (17)امام ابو داؤد اور ان کی سنن (18) شیعیت قرآن و حدیث کی روشنی میں (19) شیوخ أبی داؤد في السنن(عربی) (20) حدیث و سنت پر نقد ونظر (21) بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں وغیرہ۔ ذیل میں آپ کی چند کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

 

تذکرہ علماء اعظم گڈھ:

حضرت الاستاذؒ کی یہ تصنیف بہت ہی مشہور ہے۔ اس کتاب میں آپ نے صوبہ: یوپی کے ضلع: اعظم گڈھ کے علما وفضلا کاتعارف پیش کیا ہے جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے۔  اس میں 245/علما کرام کا تذکرہ ہے۔ آپ نے اس کی تصنیف، مشہور مورخ اور صاحبِ قلم حضرت مولانا قاضی اطہر عبد الحفیظ صاحب مبارکپوریؒ (1916-1996) کے مشورہ کے بعد، شروع کی تھی۔ جب پہلی بار سن 1976ء میں یہ کتاب شائع ہوئی؛ تو 197علما کے تذکرے تھے۔ جب یہ سن 2012ء میں شائع ہوئی؛ تو مصنف نے "تکملہ"کے تحت 48 علما کے تذکرے کا اضافہ کیا۔ اس کتاب کے حاشیہ میں، بوقت ضرورت  89/ علما کے مختصر تذکرے پیش کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کو مصدر وماخد کی حیثیت حاصل ہے۔  آپ کی اس تصنیف کو محدث اعظمی ابو المآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ (1901-1992)، حضرت مولانا نجم الدین اصلاحیؒ (1904-1994)،حضرت مولانا قاضی اطہر مبارکپوریؒ اور حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ جیسی عظیم شخصیات نے سراہا ہے اور اسے مستند علمی دستاویز شمار کیا ہے۔ موجودہ ایڈیشن 604 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی اشاعت"مرکز دعوۃ وتحقیق، دیوبند" سے ہوئی ہے۔

 

اجودھیا کے علمی آثار:

اجودھیا اور بابری مسجد کے حوالے سے کئی علمی کاوشیں آپ کے قلم سے وجود میں آچکی ہیں۔  یہ کتاب ایک مقدمہ اور تین ابواب پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں اجودھیا کی تاریخی اور مذہبی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے۔ باب اول میں، ان 27 علما وصلحا کا تذکرہ ہے، جنھوں نے اجودھیا میں توحید کی شمع روشن کی اور وحدانیت کی تبلیغ کا فريضہ انجام دیا۔  دوسرے باب میں، اجودھیا میں پائی جانے والی ان مساجد کا ذکر ہے جو اسلامی اور تاریخی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں۔ تیسرے باب میں،اجودھیا میں پائے جانے والے پرانے مقبرے، مثلا: حضرت شیث –علیہ السلام– وغیرہ کے مقبرہ کا ذکر ہے۔ یہ کتاب مستند مصادر مآخد کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ کتاب حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ (1940-2017)، سابق استاذحدیث: دار العلوم، دیوبند کے مقدمہ سے مزین ہے۔ یہ کتاب 200 صفحات پر مشتمل ہے اور شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم، دیوبند سے شائع ہوئی ہے۔

 

شیوخ أبی داؤد في السنن (عربی):

اس کتاب میں امام ابوداؤد سلیمان سجستانیؒ (817-889)کے ان شیوخ واساتذہ کا تعارف حروف ہجائی کے اعتبار سے ہے، جن کی مرویات سنن میں ہیں۔اس میں امام ابو داؤد کی مختصر سوانح عمری، ان کی سنن کی خصوصیات،اس کے ابواب واحادیث کے نمبر بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم، دیوبند سے سن 2006 میں شائع ہوئی ہے۔ یہ 260 صفحات پر مشتمل ہے۔

 

تنظیمی سرگرمیاں:

        یہ حقیقت ہے کہ آپ تدریس وتعلیم کے آدمی تھے؛ اس کے باوجودبھی آپ کچھ تنظیمی سرگرمیوں سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ جب سن 1980 میں، قدیم فضلاء دار العلوم دیوبند کی تنظیم "عالمی موتمر فضلاء دار العلوم دیوبند" کا قیام عمل میں آیا؛ تو اس وقت آپ جامعہ اسلامیہ، بنارس میں تدریسی خدمات میں مشغول تھے۔ تنظیم کے ذمے داروں کی دعوت پر، آپ بنارس سے تشریف لائے۔ آپ کو تنظیم کا ناظم منتخب کیا گیا۔ جب اس تنظیم کے ترجمان کے طور پر، ماہ نامہ: "القاسم" کا اجرا عمل میں آیا؛ تو آپ اس کے ایڈیٹر بھی بنائے گئے۔ آپ نے تنظیم کی نظامت اور رسالہ کی ادارت بحسن وخوبی انجام دیا۔ آپ جمعیت علما ہند کے ایک اہم رکن؛ بلکہ ایک مدت تک جمعیت کی مجلس عاملہ کے رکن رہے۔ آپ پابندی سے جمعیت کی میٹنگوں اور پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ جمعیت میں آپ کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور آپ کے مشورے کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمعیت کی قرارداد عام طور آپ ہی تحریر فرماتے تھے۔  سن 1420 ھ میں دار العلوم دیوبند نے "ردّ عیسائیت کمیٹی" قائم کی۔ آپ کو اولا اس کمیٹی کا نگراں بنایا گیا۔ پھر بعدمیں، آپ اس کمیٹی کے ناظم بنائے گئے۔ بڑھتی تدریسی وتصنیفی مشغولیات کی بنا پر، سن 1438ھ میں، آپ نے اس کمیٹی کی نظامت سے استعفی دے دیا۔

 

استاذِ محترمؒ  کی وفات اور پس ماندگان:

        تدریسی مشغولیات کی وجہ سے استاذِ محترمؒ  کا یہ معمول تھا کہ پورے سال پابندی سے دیوبند میں رہتےتھے۔ رمضان المبارک کی تعطیل کلاں میں آپ اپنے وطن: جگدیش پور، اعظم گڈھ تشریف لاتے اور تعطلیل کے ایام  وطن میں، اہل وعیال کے ساتھ  گذارتے تھے۔ اس سال یعنی شعبان 1442ھ میں بھی آپ نے معمول کے مطابق یہی کیا۔ آپ  صحت وعافیت کے ساتھ اپنے وطن پہنچے۔ جب آپ دیوبند سے اپنے وطن کے لیے چلے ہوں گے؛ تو ملنے جلنے والوں کو یہ گمان بھی نہیں ہوا ہوگا کہ اب حضرت دیوبند کی سرزمین پر دوبارہ واپس نہیں آئیں گے اور اپنے وطن کی خاک میں مل جائیں گے۔ بہرحال، وسط رمضان میں آپ کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹر نے ٹائفڈ بخار کی تشخیص کی۔ آپ کا علاج شروع ہوا۔ چند دنوں بعد، سوشل میڈیا پر یہ خبر آئی کہ آپ رو بصحت ہو رہے ہیں، الحمد للہ۔ پھر دوبارہ آپ کی طبیعت بگڑنی شروع ہوگئی۔ آپ کو علاج کے لیے اسپتال میں ایڈمٹ ہونا پڑا۔ علاج پابندی سے چلتا رہا۔ پھر چند دنوں بعد، آکسیجن کی کمی ہونے لگی اور دن بدن آپ کی صحت بگڑتی چلی گئی، تا آں کہ 13/مئی 2021 = 30/رمضان 1442 کو دو پہر پونے ایک بجے کے قریب، آپ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔  کیا خوب کسی شاعر نے کہا ہے:

حیات انساں ہے شمعِ صورت، ابھی ہے روشن ابھی فسردہ

نہ جانے کتنے چراغ یوں ہی جلا کريں گے، بجھا کریں گے

 

آپ کے پس ماندگان میں آپ کی اہلیہ محترمہ، دو لڑکیاں اور دو لڑکے: جناب مولانا عبید الرحمن صاحب قاسمی اور جناب عبد الرحمن صاحب ہیں۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے پوتے جناب مولانا عفان صاحب قاسمی نے پڑھائی۔ لوکڈاؤن کے باوجود قرب وجوار کے قصبہ اور گاؤں سے طلبہ وعلما اور عوام وخواص کی ایک بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت کی۔ آپ کی تدفین آپ کے گاؤں کے قبرستان میں عمل میں آئی۔ اللہ پاک حضرت الاستاذؒ کی دینی وملی اور سماجی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین! ⦁⦁⦁⦁