Thursday, October 26, 2023

غزہ کے اسپتال پر وحشیانہ بمباری عالمی قانون سے کھلواڑ






 

غزہ کے اسپتال پر وحشیانہ بمباری عالمی قانون سے کھلواڑ

 

غزہ کے اسپتال پر وحشیانہ بمباری عالمی قانون سے کھلواڑ

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

 

دن بہ دن صہیونی قابض ریاست اسرائیل کا وحشیانہ اور مجرمانہ کردار، دنیا کے سامنے بے حجاب اور آشکارا ہوتا جارہا ہے۔ یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو مختلف طریقے سے کھلے عام عالمی قوانین سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ شہری علاقوں پر بمباری کرنا، سفید فاسفورس جیسے مہلک بم کا کسی شہری آبادی پر برسانا، عام شہریوں پر حملے کرنا یا ان پر حملے کرنے کی ہدایت دینا، ایک شہر کے لوگوں کو ان کے گھروں سے منتقل ہونے کی وارننگ دینا، کسی بھی شہر کا محاصرہ کرنا، کسی شہر کے باشندوں کے لیے انسانی امداد کو روکنا، کسی شہر میں عام ضروریات زندگی کے سامان، مثلا: خوراک، پانی، ادویات، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کو پہنچنے سے روکنا وغیرہ عالمی قانون کے خلاف ہے۔ ان میں سے کون ایسا جرم ہے، جس کا ارتکاب صہیونی ریاست نہیں کر رہی ہے؟ اسرائیل جوابدہی کے کسی خوف کے بغیر، ان جنگی جرائم کا ماضی میں بھی ارتکاب کیا ہے اور اب بھی ان کا ارتکاب کر رہا ہے۔

 

اس حالیہ جنگ میں، بروز: منگل، 17/ اکتوبر 2023 کی شام  کو، غزہ پٹی میں واقع "الاہلی عرب اسپتال" پر صہیونی قابض اسرائیلی افواج نے نہایت ہی سخت بمباری کی۔ اس اسپتال میں، طبی عملہ، مریض، بے گھر ہونے والے افراد اور بچے پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس بمباری میں شہید ہونے والے لوگوں کی تعداد پانچ سو کے قریب بتائی جارہی ہے۔ اسپتال پر وحشیانہ بمباری کرنا عالمی قانون سے کھلواڑ ہے۔ اس اسپتال کے ڈاکٹروں نے اس بمباری کے ایسے ہولناک مناظر بیان کیے ہیں کہ انھیں سن کر، کسی بھی انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہم جیسے انسان اس طرح کی وحشیانہ کاروائی بھی کرتے ہیں! ہر سمجھدار انسان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم اسی انسانی معاشرے کے افراد ہیں، جسے تمام مخلوقوں کے مقابلے میں "مہذب" سمجھا جاتا ہے۔ اس اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر احمد یوسف اللوح کا کہنا ہے: "ہم نے یہاں قتل عام اور لوگوں کی نسل کشی ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم شہدا کی تعداد نہیں گن سکتے۔ جو لوگ جان بحق ہوئے ہیں، ان کی لاشیں، حصوں میں ہیں۔ دنیا کے عالمی رہنماؤں کو غزہ کے عوام کے خلاف قتل عام اور نسل کشی کو بند کرانی چاہیے۔" غزہ کے نائب وزیر صحت ڈاکٹر یوسف ابو الریش نے اسپتال کے ڈاکٹروں کی معیت میں، ان سیکڑوں لاشوں کے درمیان کھڑے ہوکر، پریس کانفرنس کی۔ ڈاکٹر موصوف نے اپنی صاف ستھری عربی زبان میں کہا: "اس حملے کی اگلی صبح اسرائیلی افواج نے اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مہر ایاد کو فون کال کرکے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ 'تمھیں کل شیلنگ کے ذریعے خبردار کیا گیا تھا، اب تک اسپتال خالی کیوں نہ ہوا؟' دنیا  کی واحد جگہ جہاں لوگوں کو میزائل فائر کرکے، حملے سے خبردار کیا جاتا ہے، وہ غزہ ہے۔ یہ واحد جگہ ہے جہاں گھروں پر بمباری کرکے بمباری سے خبردار کیا جاتا ہے۔" انھوں نے مزید کہا: "اسرائیل نے یہ کاروائی صرف امریکہ کی اجازت سے کی ہوگی۔ الاہلی عرب اسپتال میں جو سانحات پیش آئے ہیں، وہ دور جدید میں نہیں دیکھے گئے۔" اس پریس کانفرنس میں فلسطینی برطانوی ڈاکٹر غسان سلیمان ابو ستّہ، جو کہ غزہ کے اسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں، نے بھی انگریزی زبان میں وہاں کے حالات سے دنیا کو باخبر کیا اور کہا کہ "شہید ہونے والوں میں پچاس فی صد سے زیادہ بچے ہیں۔" یہ تاریخ کی پہلی پریس کانفرنس ہوگی، جو کفن میں لپٹی ہوئی لاشوں کے درمیان کی گئی ہے۔

 

اسپتالوں پر حملہ کرنا، حالت جنگ میں بھی غیر قانونی اور جنگی جرم ہے۔ مگر قابض اسرائیلی ریاست جو چاہتی ہے، کرتی ہے؛ اس لیے کہ اس کے خلاف کوئی اکشن نہیں لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ اس کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سرپرستی ونگرانی حاصل ہے۔ پھر اسے کس کا ڈر ہو! امریکہ ایک بڑی طاقت ہے؛ مگر اس کی لگام و عنان صہیونیوں کے ہاتھوں میں ہے؛ چناں چہ وہاں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، حکمت عملی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوتی۔ اسرائیل کے جرم پر پردہ ڈالنا، اس کو عسکری ومادی مدد فراہم کرنا، اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا اور فلسطینیوں پر جاری صہیونی ظلم وستم میں، اسرائیل کا کھل کر ساتھ دینا، امریکہ کی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ ابھی اس حالیہ جنگ میں، امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کرکے، غاصب اسرائیلی ریاست کو یہ یقین دہانی کرائی  کہ "امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے شانہ بشانہ رہے گا اور سکیورٹی مدد فراہم کرے گا۔" اُدھر امریکی وزیر خارجہ اسرائیل سے واپس گیا، اِدھر 18/ اکتوبر 2023 کو امریکی صدر جو بائیڈن صہیونی ریاست کے دورے پر راجدھانی "تل ابیب" پہنچ گیا۔ بائیڈن نے کہا: "واشنگٹن غزہ میں جنگ کے دوران اسرائیل کو، اس کے دفاع کے لیے سب کچھ فراہم کرے گا۔" غزہ کے "الاہلی عرب اسپتال" پر ہونے والی وحشیانہ بمباری کے حوالے سے بائیڈن نے کہا : "غزہ کے اسپتال پر حملہ بظاہر آپ نے نہیں، دوسری ٹیم نے کیا ہے۔" یہ تقریبا وہی بات ہے جو صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس اسپتال پر بمباری کے بعد، کہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ "اسلامی جہاد" کی طرف سے اس اسپتال پر راکٹ داغا گیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ اسے ہر صورت میں اسرائیل کی حمایت کرنی ہے اور اس کے خلاف اگر اقوام متحدہ میں بھی کوئی تجویز پیش کی جائے، چاہے اس کا انسانیت سے ہی تعلق کیوں نہ ہو، اسے روکنا (Veto) ہے۔

 

برطانیہ کی مشہور خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" کی خبر کے مطابق، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں، بروز: بدھ، 18/ اکتوبر کو برازیل نے غزہ کےلیے "انسانی امداد" کی قرارداد پیش کی، مگر امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کردیا۔ حقیت یہ ہے کہ امریکہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے حلیف صہیونی ریاست اسرائیل کو سیکیورٹی کونسل کے کسی بھی اکشن سے بچائے اور اس کا دفاع کرے۔ امریکہ نے یہ کیسی گھناؤنی حرکت کی ہے! مطلب یہ ہے کہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔" امریکہ سپر پاور ہے اور اسے اقوام متحدہ میں "ویٹو" پاور حاصل؛ اس لیے اسرائیل ہر طرح کی وحشیانہ کاروائی کرے اور اس کے خلاف کوئی زبان نہیں کھول سکتا۔ اس پر کوئی لگام نہیں کس سکتا ہے۔ اس دنیا میں بسنے نے والے بہت سے سیدھے سادھے لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا کہ یہ کیسے ہو رہا ہے کہ امریکہ جو ہر وقت جمہوریت، حقوق انسانی وغیرہ کی بات کرتا ہے، وہ آج غزہ پٹی کے پریشان حال لوگوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ میں، ایک تجویز بھی پاس نہیں ہونے دے رہا ہے! یہ انسانیت ہے یا حیوانیت؟ یہ صراحتا حقوق انسانی کی پامالی ہے۔

 

امریکہ جیسی طاقت کی طرف سے اگر کسی ناجائز ریاست کو حمایت حاصل ہو، جو اس کی ہر وحشیانہ حرکت کو صحیح اور بجا ثابت کرے؛ تو پھر وہ اپنے حریف کے اسپتال پر حملے کرنے سے کیوں گریز کرے گی! اب اگر کوئی تحقیقاتی کمیٹی، یہ ثابت بھی کردے کہ الاہلی اسپتال پر وحشیانہ بمباری کا ذمے دار اسرائیل ہے؛ تو اس کے خلاف اکشن کون لے سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسرائيل نے متعدد بار، فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے؛ مگر اس کے خلاف آج تک کوئی اکشن نہیں لیا گیا۔ جنھیں قضیہ فلسطین سے دلچسپی ہے، ان کو معلوم ہوگا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے لبنان کے مغربی بیروت میں"صبرا اور شاتیلا" دو کیمپ تھے۔ اسرائیلی صہیونی افواج نے ان کیمپوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ پھر انھوں نے 16-18 ستمبر 1982 کے درمیان، ان کیمپوں پر اپنے توپوں اور طیاروں سے حملے شروع کردیا۔ مزید یہ کہ لبنان کے دایاں بازو کے گروپوں کو ان کیمپوں میں داخل کردیا گیا؛ تاکہ وہ ان پناہ گزینوں کا قتل عام کرسکیں۔ اس حملے میں تقریبا پچیس سو فلسطینی پناہ گزیں اور لبنانی شہید کیے گئے، جن میں بہت سے بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ صہیونی ریاست کے "کاہان کمیشن" کی رپورٹ  نے اس حملہ کے لیے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم"مناخیم بیگن"، اس کی حکومت کے ارکان اور صہیونی فوج کا کمانڈر کو ذمے دار ٹھہرایا۔ مگر اس رپورٹ کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔ پچیس سو لوگوں کے قتل عام کے ذمے داروں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ مگر تاریخ نے اسے ریکارڈ کرلیا ہے۔ اب یہ صہیونی ریاست کی پیشانی پر ایک بدنما داغ بن کر، ہمیشہ کے لیے باقی رہے گا۔ اب اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن یہ ثابت کردے کہ "الاہلی اسپتال" پر صہیونی ریاست نے بمباری کی ہے؛ تو اس کے خلاف کون کاروائی کرے گا!

 

اس حالیہ جنگ کے دوران، جس طرح امریکہ کے وزیر خارجہ اور صدر نے حسب ترتیب صہیونی ریاست اسرائیل کا دورہ کیا، ٹھیک اسی طرح برطانیہ کے وزیر خارجہ اور ہند نزاد وزیر اعظم رشی سونک نے حسب ترتیب وہاں کا سفر کیا۔ یہ سب صہیونی ریاست پہنچ کر، وہاں کی حکومت کو یقین دلا رہے ہیں کہ غزہ کے خلاف جو جنگ چھیڑی گئی ہے، اس میں وہ سب اس کے ساتھ ہیں۔ مزید یہ کہ حماس کے حملے میں مرنے والے اسرائیلی شہریوں کے اہل خانہ کے سوگ میں، وہ  شریک ہیں۔ دوسری طرف گذشتہ دو ہفتے (سات اکتوبر) سے غزہ میں، بمباری جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں، اب تک صرف مغربی کنارےتقریبا 75  افرادکے شہید ہوئے ہیں؛ جب کہ 1284 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی افواج نے اب تک چھ سو سے زیادہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے۔ اس بمباری میں، غزہ میں 20/ اکتوبر تک تقریبا 4137 لوگوں کے شہید ہونے کی اطلاع ہے، جن میں 1542بچے ہیں۔ وہ لوگ جو زخمی ہوئے ہیں، ان کی تعداد تقریبا بارہ ہزار بتائی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ مگر ان بے گناہ فلسطینی شہریوں، معصوم بچوں اور خواتین کے قتل کے حوالے سے ان کی زبان سے کوئی جملہ نہیں نکلتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں، ان کے ہونٹ سل چکے ہیں اور زبانیں گنگ ہوچکی ہیں۔

 

صہیونی ریاست کی بمباری کی وجہ سے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ غزہ کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عزہ پٹی میں غذائی قلت کے پیش نظر، وہاں کے ہزاروں لوگ صرف ایک وقت کا کھانا کھا رہے ہیں۔ ان کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے؛ چناں چہ وہ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بمباری کے نتیجے ہزاروں زخمی لوگ اسپتال میں ہیں۔ دن بہ دن زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسپتالوں میں طبی سہولیات ختم ہوچکی ہیں۔ مریضوں کے علاج کے لیے ادویات دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ اسپتالوں میں، بغیر بے ہوش کیے، مریضوں کا آپریشن کیا جارہا ہے۔ یہ ان مظلوم لوگوں کی داستان جو اپنی عبات گاہوں کی حفاظت، اپنی مقبوضہ اراضی کی بازیابی اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں۔

 

فلسطینی مسلمانوں کو طرح طرح کی آزمائش کا سامنا ہے۔ انھیں ان آزمائشوں پر صبر کرنا چاہیے اور وہ صبر کر بھی رہے ہیں، الحمد للہ۔ جو لوگ صبر کریں گے، ان کے لیے خوشخبری بھی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ. (بقرۃ: 155) ترجمہ:  "اور دیکھو، ہم تمھیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کرکے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں، ان کو خوشخبری سنادو۔" ( بقرہ: 155) مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یقین ہے کہ ان مشکلات کے بعد، آسانیاں ضرور آئیں گی اور ان کا جو جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے، اس کے عوض ان کے درجات بھی بلند ہوں گے۔ جناب  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُشَاكُ شَوْكَةً، فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا كُتِبَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ.» ترجمہ: "جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھ جائے یا اس سے بڑھ کر (کوئی تکلیف پہنچے)؛ تو اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتے ہیں یا اس کا ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔"  (صحیح مسلم: 2572) آج جو مصائب و آلام کے پہاڑ فلسطینیوں پر ٹوٹ رہے ہیں، اللہ پاک ان کے عوض انھیں بہترین بدلہ عنایت فرمائیں! ●●●●

 

 

Tuesday, October 24, 2023

امریکہ اور عالمی برادری کی ایک بڑی ناکامی

 

امریکہ اور عالمی برادری کی ایک بڑی ناکامی

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

 

برطانیہ اور امریکہ جیسی وقت کی کچھ بڑی طاقتوں نے مشرق وسطی میں، فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے، زبردستی ایک صہیونی ریاست بنام اسرائیل قائم کروائی۔  مگر اسی موقع پر، فلسطین نام کی کوئی ریاست قائم نہیں کی گئی۔ دو ریاستی حل اب تک صرف ایک جملہ رہا جس کا  زمین پر کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر دو ریاستی حل کوئی حقیقی منصوبہ تھا؛ تو اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی، فلسطین نام کی ریاست، اسی وقت قائم کی جانی چاہیے تھی۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ در اصل کچھ طاقتوں نے عرب کے قلب میں، ایک صہیونی ریاست اپنے مفاد کے لیے قائم کیا۔ وہ طاقتیں آج تک مشرق وسطی میں امن قائم نہیں کرواسکی۔ فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں ملے۔ فلسطینی عوام کے بنیادی مفادات کا آج تک کوئی خیال نہیں رکھا۔ امریکہ نے اس اہم تنازع کو حل کرنے کے بجائے، اس خطے کا ہیرو بن کر، پورے خطے پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ وہ آج تک کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں کراسکا، جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ فلسطین کے حوالے سےامریکہ اور عالمی برادری کی یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔

 

اس حالیہ جنگ میں  ہی غور کیا جائے، جو سات اکتوبر کو شروع ہوئی؛ تو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ امریکہ مشرق وسطی میں، صرف اپنے مفاد کے لیے اسرائیل کو بڑھاوا دے رہا ہے۔  وہ آنکھ بند کرکے، صہیونی ریاست کی حمایت کررہا ہے۔ یہ جنگ ایک ہفتے سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق،  اس مدت میں،اسرائیلی بمباری میں، 1300سے زیادہ عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔ مزید 7503 مکانات کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ وہ قابل رہائش نہیں رہے۔ تقریبا 89 اسکولوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔ یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ اب تک امریکہ اور عالمی برادری نے واضح لفظوں میں اسرائیل سے یہ نہیں پوچھا یہ سب اسرائیل کیوں کررہا ہے؟ جب کہ قابض ریاست کا ان رہائشی عمارتوں اور اسکولوں پر حملہ کرنا، عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 

غاصب ریاست نے ایسے بھیانک حملے کرکے، ہزاروں مکینوں کو بے گھر کرنے کے بعد، اب شمالی غزہ پٹی کے شہریوں کو باضابطہ نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو خالی کرکے، جنوبی غزہ ہجرت کرجائیں۔ اسرائیل کی ڈیفینس فورس  نے بروز: جمعہ، 13/ اکتوبر 2023 کو ایک بیان جاری کیا۔ اس میں غزہ کے باشندوں کو مخاطب کرکے وارننگ دی گئی ہے کہ "لوگ اپنی اور اپنے کنبہ کی حفاظت کے لیے غزہ شہر کے جنوبی حصے میں منتقل ہوجائیں اور اپنے کنبوں کو حماس کے دہشت گردوں سے دور رکھیں، جو آپ کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ آپ شہر میں تب ہی واپس آئیں گے، جب اگلا بیان جاری کرکے، آپ کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔" جن اہالیان غزہ کو اپنے علاقے سے منتقل ہونے کا حکم صادر کیا گیا ہے، ان کی تعداد گیارہ لاکھ کے قریب ہے۔ انھیں چوبیس گھنٹے میں اپنے گھروں کو چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔ یہ بیان صرف قابض فوجی کی ہی طرف سے نہیں آیا ہے؛ بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نے بھی غزہ پر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ فلسطینی غزہ کو خالی کردیں۔ قابض ریاست کی اس حرکت پر بڑی طاقتوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ غزہ کے شہریوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر، دوسری جگہ جانے کا حکم صادر کرنے والی غاصب اسرائیلی ریاست کے باشندے خود اپنے اس وطن اصلی کی طرف کیوں نہیں واپس چلے جاتے ہیں، جہاں سے وہ آکر، زبردستی فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے بسے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے ملکوں کو واپس چلے جاتے ہیں؛ تو جس مسئلے سے مشرق وسطی کا پورا خطہ دوچار ہے، وہ ختم ہوجائے گا اور مشرق وسطی مامون ہوجائے گا۔

 

اقوام متحدہ نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ سے شہریوں کے انخلا کا الٹی میٹم واپس لے؛ کیوں کہ اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ خبر رساں ادارے "العربیہ" کے مطابق، سعودی دفتر خارجہ نے بروز: جمعہ، 13/ اکتوبر کو بیان میں کہا ہے کہ"غزہ کے باشندوں کو پر وقار زندگی کے بنیادی تقاضوں سے محروم کرنا، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے غزہ کو درپیش المیہ اور بحران زیادہ گہرا اور دھماکہ خیز ہوجائے گا۔" بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "سعودی عرب کا مطالبہ ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کی جائے، زخمی شہریوں کو وہاں سے نکالا جائے۔ بین الاقوامی انسانی قانون، عالمی روایات اور ضوابط کی پابندی کی جائے۔" اردن کے شاہ عبداللہ نے بروز: بدھ، 11/ اکتوبرکو اپنی نئی پارلیمان کے افتتاحی اجلاس میں کہا: " اس خطے میں استحکام، سلامتی اور امن صرف اس صورت میں ممکن ہوگا، اگر اس سر زمین پر ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے، جہاں 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے کنٹرول سنبھال لیا تھا۔" قابض ریاست کی اس غیر قانونی وارننگ پر، روسی صدر مسٹر ولادیمیر پوتین نے اپنے سخت ردّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ پوتین نے کہا ہے: "یہ فلسطینیوں کی زمین ہے جہاں انھیں رہنا ہے۔ غزہ فلسطین کی تاریخی سرزمین کا حصہ ہے۔ غزہ سمیت آزاد فلسطینی ریاست قائم کرنی ہوگی۔ فلسطینیوں کوغزہ پٹی سے نکل کر مصر کے علاقہ سنیائی جانے کا کہنے سے امن قائم نہیں ہوسکتا۔"

 

جس طرح اسرائیلی فوج وارننگ دے کر، غزہ کے شہریوں کو جنوبی غزہ میں پناہ لینے کو کہہ رہی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل چاہ رہا ہے کہ وہ کسی طرح غزہ کو خالی کروالے اور وہ شہری مجبور ہوکر، کسی طرح مصر میں پناہ لینے پر مجبور ہوں۔  پھر 1948 کی ہجرت والی صورت حال پیش آئے اور غزہ، اسرائیل کے لیے خالی میدان بن جائے۔ پھر طاقت کے زور پر، وہ اپنے آبادکاروں کو وہاں بسانا شروع کردے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شمالی غزہ میں تقریبا گيارہ لاکھ لوگ رہتے  ہیں۔ اتنی بڑی تعداد، کہاں جاسکتی ہے؟وہاں کے اسپتال زخمی مریضوں سے بھرے ہیں۔ ان مریضوں کا کیا ہوگا؟ اسرائیلی ریاست کی اس وارننگ کے بعد، بہت سےبہادر لوگوں نے اپنی رہائش گاہوں کو چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔ انھوں نے ہر صورت میں شمالی غزہ میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔ شمالی غزہ کے کچھ شہری اسرائیلی فوج کی اس وارننگ اور دہشت گردی سے عاجز آکر، با دل ناخواستہ اپنی جان بچانے کے لیے جنوبی غزہ کے لیے نقل مکانی کر رہے تھے۔ ان کے تین قافلوں پر اسرائیلی لڑاکا طیارے نے بمباری شروع کردی۔ اس بمباری کے نتیجے میں، ستّر شہریوں کے شہید ہونے اور تقریبا دوسو لوگوں کے  زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ جب انھوں نے  نقل مکانی شروع کی ہوگی، اس وقت ان کو یہ کہاں معلوم رہا ہوگا کہ اپنے گھر کو چھوڑ کر، امن کے متلاشی مسافر کو، کسی مامون جگہ پر پہنچنے سے پہلے ہی، اسرائیل اپنی بمباری میں ختم کردے گا۔

 

ابھی صورت حال یہ ہے کہ غزہ کی پٹی ، فلسطینیوں کے خون سے سیراب ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ اس کا ذمہ دار، قابض ریاست اسرائیل، اس کا بے لگام حکمراں اور ظلم وتعدی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کچھ بڑی بڑی تنظیمیں اور بہت سے ممالک "انسانی حقوق"، "بچوں کے حقوق" جیسے لفظوں کا استعمال کرکے، عام لوگوں کو حقوق کا درس دیتے ہیں۔ مگر آج ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ اسرائیل کو بتائے کہ  وہ حقوق انسانی کی پامالی کررہا ہے۔ وہ معصوم لوگوں کا خون بہا رہا ہے۔ وہ جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ اس کے برخلاف یہ مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ لوگ اسرائیل پہنچ کر، اس کی حوصلہ افزائی کرکے، انسانیت کے قتل میں برابر کے شریک ہو رہے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی اسرائیل سے اظہار ہمدردی کے لیے بروز: جمعرات، 12/ اکتوبر 2023 اسرائیل پہنچ کر، اپنے ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اظہار یک جہتی کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ وہ 12/ اکتوبر 2023 کو اسرائیل پہنچا۔ وزیر خارجہ نے کہا: "میں اپنے ساتھ جو پیغام لایا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ خود اپنے دفاع کے لیے کافی مضبوط ہوسکتے ہیں؛ لیکن جب تک امریکہ موجود ہے، آپ کو کبھی اپنا دفاع نہیں کرنا پڑے گا۔ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے شانہ بشانہ رہے گا اور سکیورٹی مدد فراہم کرے گا۔" اس دورے میں امریکی وزیر خارجہ نے فخریہ طور پر یہ بھی کہا: "میں یہاں بطور امریکی اسٹیٹ سکریٹری ہی نہیں؛ ایک یہودی کے طور پر بھی آیا ہوں۔" اگر کسی مسلم ملک کے لیڈر کی طرف سے اس طرح کا بیان دیا جاتا؛ تو پوری دنیا میں طوفان مچا ہوتا، مگر اس صہیونیت زدہ وزیر کے اس جملے پر کسی نے گرفت نہیں کی۔ جرمن چانسلر اولاف شولس نے بروز: جمعرات، 12/ اکتوبر کو ایک بیان میں کہا: "جرمنی کے لیے اب واحد جگہ یہی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ اس وقت جرمنی کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ وہ اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہو۔"

 

اس وحشیانہ بمباری میں، بہت سے نہتے بچے بھی شہید ہو رہے ہیں۔ سیکڑوں فلسطینی مغربی غزہ میں، تباہ شدہ رہائشی عمارتوں کے ملبے میں، اپنے رشتے داروں کی باقیات اور لاشیں تلاش رہے ہیں۔ غزہ شہر لاشوں سے پٹ گیا ہے۔ غزہ پٹی کے "الشفاء" اسپتال کے مردہ خانے میں، شہید ہونے والے فلسطینیوں کی لاشیں رکھنے کی اب گنجائش نہیں ہے۔ اسپتال کے باہر لاشوں کا ڈھیر ہے۔ اب تک تقریبا 724 بچے شہید ہوچکے ہیں۔ قابض اسرائیلی فوج فلسطینیوں کی نسل کشی پر اتر آئی ہے؛ مگر کسی کی زبان نہیں کھل رہی ہے۔ مگر مشرق وسطی میں اپنے ناجائز مفاد کی حفاظت اور قابض اسرائیل  کے  دفاع کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن بھی جھوٹی خبر  کا سہارا لیتے ہیں۔ بائیڈن نے حماس کی جانب سے 40 کے قریب بچوں کو قتل کرنے کی غلط خبر کو دہراتے ہوئے کہا کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دہشت گردوں کی جانب سے بچوں کے سر قلم کرنے کی تصاویر دیکھنے اور ان کی تصدیق کرنا پڑے گی۔ جب کہ یہ خبر جھوٹی تھی۔ چناں چہ وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر کے بیان کی تردید کی۔ مگر بائیڈن کے اس بیان سے حماس اور فلسطین کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔ یہ جھوٹی خبر، "سی این این" کی نمائندہ، سارہ سدنیر نے 11/ اکتوبر کو، اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے حوالے پھیلائی تھی۔پھر 13/ اکتوبر کو اس  حوالے سے وہ معافی مانگ چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس والے نے جن کو یرغمال بنایا ہے، ان کو اب تک کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچایا ہے۔مگر غزہ میں جن معصوم بچوں کا اسرائیل قتل کر رہا ہے، اس پر بائیڈن کی زبان پر تالا لگا  ہوا ہے۔

 

فلسطین وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق، اس اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں، 14/ اکتوبر تک، 2215 معصوم شہری،قتل کیے جاچکے ہیں جن میں 724 بچے بھی شامل ہیں؛ جب کہ زخمیوں کی تعداد 8714 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ تیرہ سو اسرائیلی شہریوں کی بھی جانیں گئی ہیں۔اسرائیلی حملے میں، اب تک نو صحافی کی جانیں بھی جاچکی ہیں۔ ان حالات کے باوجود، مسئلہ فلسطین کا حل نکالنے کے بجائے، کچھ عالمی طاقتیں کھلے طور پر، دفاع کے خوبصورت لفظ میں چھپ کر، قابض اسرائیل کی حمایت اور "حماس" کی مذمت کر رہی ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بار بار"حماس" کو ختم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ مگر راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس طرح سے مسئلہ فلسطین حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، نہ مشرق وسطی میں امن ہوسکتا ہے اور نہیں"حماس" کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ظلم و ناانصافی کے ساتھ امن وسلامتی ایک خواب ہے۔ جب ظلم وناانصافی ہوگا؛ تو حماس جیسی مزاحمت پسند جماعتیں وجود میں آتی رہیں گی اور ہر کسی کو جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی فلسطینیوں کا حامی و ناصر ہو! ●●●●

 

امریکہ اور عالمی برادری کی ایک بڑی ناکامی






 

حماس کے حیران کن حملے سے کھلبلی

 

حماس کے حیران کن حملے سے کھلبلی

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

 

ہم نے اپنے بچپن میں، شیخ سعدی شیرازی (589–691 ھ)  کی کتاب "گلستاں" پڑھی تھی۔ اس کتاب کے "باب اول" کے شروع میں عربی زبان میں ایک شعر ہے۔ اس شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ "جب آدمی ناامید ہوجاتا ہے؛ تو اس کی زبان لمبی ہوجاتی   جیسے عاجز  بلی کتے پر حملہ کرتی ہے۔"  آج کل فلسطین کے معصوم شہری مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔ وہ عاجز وپریشان ہیں۔ وہ ہر طرف سے ناامید ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کے قائدین نے قابض اسرائیلی ریاست کے حکمرانوں کے ساتھ "امن معاہدے" کیے۔  اب یہ معاہدے درست تھے یا غلط،یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ انھیں امن معاہدے سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔  دن بہ دن اسرائیل کے پنجے مضبوط ہوتے گئے۔ اسرائیلی ریاست  دن بہ دن فلسطینی اراضی کو قبضہ کرتی رہی اور صہیونی آبادکاروں کو بساتی رہی۔ قابض اسرائیلی ریاست فلسطینی شہریوں کو قید کرکے، دہائیوں اپنے جیلوں میں رکھتی ہے، ان کی زندگی کے خوب صورت ایام کوتباہ وبرباد کر دیتی ہے۔ جب وہ جیل کی کوٹھری سے باہر آتے ہیں؛ تو وہ ماں باپ جن کو وہ گھر پر زندہ چھوڑ کر گئے تھے، انھیں قبروں میں مدفون پاتے ہیں۔ اسرائیلی جیل میں جاتے وقت، جن بھائی اور بہن کو اپنے گھر پر چھوڑ کر گئے تھے ، جب کئی سالوں بعد، اسرائیلی جیل سے واپس آتے ہیں؛ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھائی بہن، قابض اسرائیلی فوج کی گولی کا نشانہ بن کر، اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اپنی غیر قانونی گرفتاری سے قبل، جس مسجد میں، ایک فلسطینی پانچ وقت کی نماز ادا کررہا ہوتا ہے؛ جب وہ آزاد ہوکر، واپس آتا ہے؛ تو وہ مسجد اسرائیلی بمباری میں شہید ہوچکی ہوتی اور اس کی جگہ کسی دوسرے نقش ونگار والی مسجد نظر آتی ہے۔ جب ایک فلسطینی شہری بغیر کسی جرم کے  اسرائيلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوکر، اسرائیلی جیل کے لیے روانہ ہوتا ہے؛ تو اس وقت وہ اپنے باغ میں ہرے بھرے لہلہاتے درختوں کو چھوڑ کر جاتا ہے، جب واپس آتا ہے؛ تو وہ باغ ویران نظر آتا ہے۔ اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں کو کوئی امید کی کرن نہیں آتی؛بلکہ وہ ناامیدی کے شکار ہوتے ہیں۔ پھر وہ اب اپنے وطن، اپنی عبادت گاہوں،اپنے باغات ،  جان ومال اور عزت وآبرو  کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے حالات و مصائب سے دوچار  ہوکر، "آپریشن طوفان الاقصی" جیسی کاروائی کرتے ہیں، جو سات اکتوبر 2023 کو ہوئی۔ پھر  حماس کےاس طرح کے حیران کن حملے سے، کچھ لوگوں کے درمیان کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسے دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر وہ اس حملے کے اسباب و عوامل پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے۔

 

حماس کے اس "آپریشن طوفان الاقصی" کے بعد، کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ حماس کے مزاحمت کاروں کو ایران نے ہتھیار فراہم کیا ہے۔  ایران نے اس کاروائی اور ہتھیار کی فراہمی کے حوالے سے صریح طور پر انکار کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ  جس کے پاس تھوڑی بھی عقل ہوگی، وہ اس حقیقت سے واقف ہوگا کہ غاصب ریاست اسرائیل نے "غزہ کی پٹی" کی سخت ناکہ بندی کررکھا ہے۔ اسرائیل کی اجازت کے بغیر، وہاں کے شہری علاج ومعالجہ اور تعلیم وتعلم کے لیے بھی باہر جانے سے قاصر ہیں۔ عزہ کی سرحد جو مصرسے لگتی ہے، وہ کئی سالوں سے بند ہے۔ پھر  ایران کس طرح غزہ میں ہتھیار بھیج سکتا ہے۔ یہ افواہ بھی پھیلائی جارہی ہے کہ "ترکیہ" اور "شام" نے اپنے لڑاکے طیارے، ایران کے تہران بین الاقوامی طیران گاہ پر بھیجنا شروع کردیا ہے؛ تاکہ وہ فلسطینیوں کی مدد کرسکیں۔مگر امریکہ کیا کررہا ہے،اس پرکسی کی نگاہ نہیں جارہی ہے۔

 

امریکہ نے قابض اسرائیل کے لیے طیارے بردار جنگی بحری بیڑے روانہ کرچکا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا ہے: "یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ کا رخ اسرائیل کی طرف کردیا گیا ہے۔ چھ جہازوں کے امریکی بیڑے میں گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر اور گائیڈڈ میزائل کروزر بھی شامل ہیں۔" پنٹاگون کے مطابق، "امریکہ مشرق وسطی میں موجود لڑاکا طیاروں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ طیاروں میں ایف 16، ایف 15، ایف 35 اور اے ٹین شامل ہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ "اسرائیل کی مدد کے لیے جنگی بحری بیڑے روانہ کررہے ہیں۔" ایف 35 ، امریکہ کا سب سے خطرناک لڑاکا طیارہ ہے۔ ابھی 11/اکتوبر کو یہ خبر آئی ہے کہ امریکہ ایک بحری بیڑے کی تعیناتی کے بعد، اب دوسرا طیارہ بردار بحری جہاز بھی خطے میں بھیج رہا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام پر، کسی کو کوئی تعجب نہیں ہورہا ہے۔ امریکہ نے وہ سارے مہلک ہتھیار اسرائيل کی مدد کے لیے روانہ کیے ہیں۔ مزید یہ کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور فرانس نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی اپنے دفاع کے لیے غیرمشروط حمایت کریں گے۔

 

کچھ ممالک حماس کے اس آپریشن کی مذمت کر رہے ہیں۔ کچھ یورپی ممالک بھی اس حوالے سے پیش پیش ہیں۔ 9/ اکتوبر کو یورپی یونین کے کچھ ممبر ممالک نے فلسطین کی معاشی امداد روکنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ مگر یورپی یونین کے اس فیصلے کو دوسرے یورپی ممالک: اسپین، آئرلینڈ وغیرہ نے روک دیا ہے۔ تاریخ یہ بات نوٹ کرے گی کہ اسرائیلی ریاست نے اپنے دہشت گردانہ حملے میں ہزاروں معصوم فلسطینیوں کو شہید کرتا رہااوران کی  رہائشی عمارتوں، عبادت گاہوں، اسکولوں کو اپنے خطرناک بموں سے تباہ و برباد کرکے ملبے میں تبدیل کرتا رہا؛ مگر ولایات متحدہ امریکہ، یوکے اور یورپی یونین وغیرہ کے کسی اعلی ذمے دار نے یہ ہمت نہیں جٹائی کہ وہ اسرائیل کی مذمت کرتا۔

 

اسرائیلی ریاست بروز: سنیچر، سات اکتوبر 2023 سے ہی غزہ کی پٹی پر انتہائی ہی خطرناک بمباری شروع کرچکی ہے، جس میں بڑی تعداد میں شہری شہید ہورہے ہیں۔ اس حملے میں سفید فاسفورس جیسا ممنوعہ مہلک بم بھی استعمال ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس عالمی قانون نے اس کی اجازت دی ہے کہ جان بوجھ کر، اس طرح شہریوں پر بم برسائے جائیں، چاہے جنگ ہی کیوں نہ ہو؟ مزید یہ کہ اس نے بروز: پیر، 9/ اکتوبر سے غزہ کا سخت اور مکمل محاصرہ بھی کر رکھا ہے۔ اس محاصرے کے نتیجے میں، غزہ  پٹی میں خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی فراہمی بالکل منقطع ہوچکی ہے۔ 11/ اکتوبر سے غزہ پاور پلانٹ نے ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے کام کرنا بند کردیا ہے۔ کسی بھی جنگ کے موقع سے اس طرح کا مکمل محاصرہ عالمی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کا غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ، جس سے شہری زندگی کی بقا کے لیے ضروری اشیا سے محروم ہوجائیں، عالمی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ قابض ریاست اپنے فضائی حملوں میں غزہ کے رہائشی عمارتوں، اسکولوں اور اقوام متحدہ کی عمارتوں کو بھی نشانہ بنارہی۔ اس وجہ سے بہت سے معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ اسرائیل کا وزیر دفاع غزہ کے باشندوں کو انسانی جانور سے تعبیر کرہا ہے۔ اس نے اپنی فوج سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی عالمی قوانین کی پاسداری نہ کرے۔ اس اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں، خاندان کے خاندان ختم ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور  (او سی ایچ اے) کی اطلاع کے مطابق، اسرائیل کے اس دہشت گردانہ حملے میں، اب تک تقریبا ایک لکھ ستاسی ہزار غزہ پٹی کے مکیں اپنا گھر چھوڑ نے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

 

غزہ کے مظلوم و معصوم شہریوں پر اسرائیل دہشت گردانہ حملے کے خلاف، مختلف ممالک میں لوگ سڑکوں پر نکل کر، اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مظاہرہ امریکہ میں وائٹ ہاؤس کے باہر، شکاگو، نیویارک میں بھی ہوا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ عالمی برادری اس حملے کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مظاہرین نے اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امریکی امداد بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کی رہائی اور شہریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ یورپی ملک آسٹریا میں بھی عوام نے سڑکوں پر نکل کر، فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا اور اور ان کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک:اردن، یمن، لبنان، عراق وغیرہ میں بھی اس صہیونی اسرائیلی حملے کے خلاف لوگوں نے مظاہرے کیے۔  مظاہرین نے فلسطینیوں کے قتل عام کو فوری روکنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ ترکیہ کے شہر "استنبول" میں بھی اظہار یکجہتی کی ریلی نکالی گئی۔

 

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل سے غزہ پر بمباری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ معصوم شہریوں کی اموات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے  غزہ کی ناکہ بندی کو ناقابل قبول قراردیا ہے۔انھوں نے امیر قطر سے بھی ٹیلی فون کیا اور جنگ کی تازہ صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے امیر قطرسے کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطینی صدر محمود عباس کوفون کیا جس دوران انھوں نے بتایا کہ وہ اسرائیل فلسطین تنازع کی توسیع روکنے پر کام کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب جائز حقوق اور دیرپا امن کے حصول کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ کویت کے سرکاری خبررساں ادارے "کونا" کے مطابق، سفیر کویت برائے اردن نے "انروا" میں تعلقات خارجہ کی ڈائریکٹر سمارا الرفاعی کو کویت کی طرف سے دو ملین ڈالر کا چیک پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ کویتی قیادت فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد اور فلسطینی کاز کی حمایت کے حوالے سے اپنے غیر متزلزل موقف پر قائم ہے۔ اونروا کی مالی اعانت کا مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنے فرض کی ادائیگی ہے۔ واضح رہے کہ اونروا اقوام متحدہ کے تحت، فلسطینی پناہ گزینوں کی سماجی سلامتی، صحت نگہداشت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے لیے تعاون کرتی ہے۔

 

اب تک اس اسرائیلی دہشت گردانہ حملے میں، فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق، تقریبا 1055  فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں؛ جب کہ پانچ ہزار نو سو شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ غزہ کے سارے اسپتال زخمیوں سے بھرچکے ہیں۔ غزہ کی صورت حال انتہائی خوفناک ہے۔ اسی طرح مغربی کنارے میں تقریبا 23/فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور تقریبا 130 زخمی ہوئے ہیں۔ حماس کے اس اچانک اور حیران کن حملے میں، اسرائیلی کرنل سمیت تقریبابارہ سو  اسرائیلی شہری کی موت ہوچکی ہے، جن میں سو سے زاید فوجی اور پولیس اہل کار شامل ہیں اور اٹھائیس سو کے قریب  شہریوں کے  زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اس اسرائیلی حملے میں، رپورٹنگ کے دروان ، اب تک سات صحافی بھی  جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ●●●●

 

٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ