Tuesday, April 21, 2015

کوئی بھی شخص مسلمانوں کاووٹنگ کا حق نہیں چھین سکتا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کوئی بھی شخص مسلمانوں کاووٹنگ کا حق نہیں چھین سکتا

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

مادر وطن ہندوستان کی آزادی میں مسلم شہریوں کی قربانی، پھر ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ان  کا کردار اور کارنامہ کسی بھی دوسرے مذاہب کے ماننے  والے شہریوں سے کم نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ، جب بھی کوئی شخصی و انفرادی موضوع ہوتا ہے ؛ تو کچھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دشمن اور  گنگا جمنی تہذیب کے قاتل کی زبان وقلم سے سارے مسلم شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا قلم و زبان صرف زہر ہی اگلتی ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں  کی وطن دوستی اور حب الوطنی تک پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور کچھ نفرت کے سوداگر یہاں تک کہہ  دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا حقّ رائے دہی کو منسوخ و مسترد کردیا جائے اور ان کا یہ حق چھین لیا جائے۔ یہ زہر افشانی کرنے والے کبھی حزب اقتدار کے لیڈر مسٹر سبرامانین سوامی ہوتے ہیں، تو کبھی  شیوسینا کے راجیہ سبھا کے رکن اور پارٹی کے اخبار روزنامہ "سامنا" کے  ایکزیکٹیو  ایڈیٹر: مسٹر  سنجے راؤت اور ان کی تائید میں بی جے پی کے "اترپردیش" کے "انّاؤ" حلقہ سے لوک سبھا کے منتخب رکن مسٹر ساکشی مہاراج بھی آجاتے ہیں۔

گزشتہ 12/اپریل کو شیو سینا کے روزنامہ "سامنا" میں مسٹر  سنجے راؤت نے  ایک مضمون : "ممبئی میں اویسی کی اچھل کود-ساؤدھان- بل میں سپونلے ہیں" کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ "مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافی کے خلاف جد و جہدکے نام پر ووٹ بینک کی سیاست کی جارہی ہے۔ جب تک ان (مسلمانوں)  کا استعمال ووٹ بینک کے طور پر ہوتا رہے گا، وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے۔مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا،  جب تک وہ ووٹ بینک کی سیاست کے طور پر استعمال کیے جاتے رہیں گے؛ لہذا ایک بار بالا صاحب نے کہا تھا کہ مسلمانوں سے حق رائے دہی چھین لی جائے۔ " جو کچھ انہوں نے کہا تھا ، وہ درست ہے"۔

ایسا لگتا ہے کہ مہاراشٹرا کی سرزمین پر گزشتہ اسمبلی انتخابات میں مجلس اتحاد المسلمین کی آہٹ  نے ان لوگوں کو کچھ زیادہ ہی بوکھلا دیا ہے۔ اور پھر ابھی ضمنی انتخاب میں مجلس نے اپنا امیدوار کو پیش کرکے،  ان لوگوں کے سوچنے کی قوت کو بھی ختم کردیا ہے؛ اسی لیے جو کچھ زبان و قلم پر آرہا ہے،  اسے کہتے اور چھاپتے چلے جارہے ہیں۔  اسی مضمون میں مسٹر راؤت نے اپنے بوگھلاہٹ کا مزید ثبوت دیتے ہوئے یہاں تک پوچھ لیا کہ "مسلمانوں کو ایسے اویسیوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ انھیں کوئی کام کرنے والا اچھا لیڈر کیوں نہیں ہضم ہوتا؟" ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں نے آزادی سے آج تک،  بغیر کسی بھید بھاؤ کے جو لیڈر ملا اسے قبول کیا ہے، ان میں معدودے چند کو مستثنی کیا جاسکتا ہے۔  یہی وجہہ ہے کہ آج مسٹر راؤت  کا قلم اتنی روانگی سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے؛ نہیں تو ایسے جملے لکھنے سے پہلے، ان کو  سو بار سوچنا ہوتا۔

جہاں تک اویسی برادران کا تعلق ہے؛  تو ان کو سارے ہندوستانی مسلمانوں نے اپنا نمائندہ نہیں بنا رکھا؛بل کہ وہ ایک پارلیمانی حلقہ کے منتخب نمائندہ ہیں۔  مگر مسلمان اس بات سے بخوبی واقف  ہیں کہ یہی اویسی ہے جو روڈ سے لیکر پارلیامنٹ تک مسلمانوں کے مسائل کو اٹھاتے ہیں اور ان کو ان کا حق دلانے کی بات کرتے ہیں۔مہاراشٹرا اسمبلی میں اویسی برادران نہیں ہیں، مہاراشٹرا کے مسلمانوں نے اویسی برادران کوپارلیامنٹ اور اسمبلی کے لیے منتخب بھی نہیں کیا ہے۔ انھوں نے اویسی کے علاوہ دوسرے لیڈروں کو ہضم کیا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پچھلی سرکار نے مسلمانوں  کے لیے جو ریزرویشن طے کیا تھا، اسے موجودہ حکومت نے ختم کردیا؛  جب کہ مراٹھیوں کے لیے جو ریزرویشن متعین کیا گیا تھا وہ جوں کا توں باقی ہے؟ مسٹر راؤت اپنی زہر افشانی میں تنہا  اور واحد نہیں ہیں؛ بل کہ اس طرح کی بات کرنے والے اوربھی ہیں۔

مسٹر را‎ؤت کے بیان پر جب ساکشی مہاراج کی رائے پوچھی گئی؛ تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے زہریلے بیان سے اپنے زبان کو آلودہ کیے بغیر نہیں رہ سکے اور یہاں تک کہہ دیا کہ "میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا صفایا کردیاجائے؛ لیکن ہر کوئی کےلیے یکساں سول کوڈ اور فیملی پلاننگ لازمی طور پر ہونی چاہیے۔ جب ہم چار بچے کا معاملہ اٹھاتے ہیں، تو لوگ بہت ہی شور و شرابہ کرتے ہیں اور جب وہ (مسلمان) چار بیویوں سے چالیس بچے پیدا کرتے ہیں؛  تو کوئی اس کو کچھ نہیں کہتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا: "فیملی پلاننگ ہونی چاہیے۔ جب ملک آزاد ہوا تھا اس وقت صرف تیس کڑور کی آبادی تھی، آج ایک سو تیس کڑور کی آبادی ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟  ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی:  سب کے لیے یکساں قانوں ہونا چاہیے۔  چاہے ایک، دو، تین یا چار بچے ہوں، جب تک ہم سب کے لیے یکساں قانون نافذ نہیں کرتے، ملک کو فائدہ نہیں ہوسکتا؛ لہذا حزب اقتدار اور حزب مخالف کو  اجتماعی طور پر ایک  سخت قانون نا‌فذ کرنا چاہیے اور وہ لوگ جو اس قانون پر عمل نہیں کریں ان کا حق رائے دہی چھین لیا جائے۔"

میں ان کے اس متنازعہ بیان پر تبصرہ  کرنا نہیں چاہتا، مگر اتنا بتا دیتا ہوں کہ مسٹر مہاراج  یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے کچھ ہی دنوں  قبل بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو  محب وطن اور وطن دوست قرار دینے کی وجہ سے پارلیامنٹ میں معافی مانگنے پر مجبور کیے گیے تھے۔ یہی نہیں؛ بل کہ یہ وہی آدمی ہے جس نے ہندو آبادی  میں اضافہ کے لیے ہندو خواتین کو چار چار بچے جنم دینے کا مشورہ بھی دیا تھا، جس پر ہر چہار جانب سے ان کے بیان کی مذمت کی گئی تھی اور بی جے پی نے ان کی اس حرکت پر، ان کو شو کاؤز نوٹس جاری کیا تھا؛ لیکن پھر بھی مسٹر مہاراج کی زبان ہے کہ زہر اگلنے سے باز نہیں آتی ۔

اسی طرح  16/جولائی 2011 کو "جنتا دل" کے سابق صدر مسٹر سبرامانین سوامی نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ  "ہمیں بحیثیت ہندو، اسلامی دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے یکساں ذہنی سوچ کی ضرورت ہے۔ اگر ایک مسلمان اپنے ہندو  نسل سے ہونے کا اعتراف کرتا ہے؛ تو ہم ہندو اسے ایک عظیم ہندو سماج کے طور پر قبول کرسکتے ہیں جو کہ ہندوستان ہے۔ اور دوسرے جو اس کا اعتراف نہیں کرتے ، یا وہ غیر ملکی جنھوں نے  رجسٹریشن کے ذریعے ہندوستانی شہریت حاصل کی ہے،  وہ ہندوستان میں رہ تو سکتے ہیں؛ لیکن حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرسکتے (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نمائندہ  منتخب نہیں کیے جاسکتے)"۔

جس طرح ان لوگوں کو اویسی چبھ رہا ہے اور مسلمانوں سے الٹا سیدھا سوال کرتے ہیں اور حق رائے دہی کے سلب کرنے کی بات کرتے ہیں، ان سے بھی تو یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو پورے ہندوستانیوں کا ترجمان اور نمائندہ کس نے بنارکھا ہے؟ آپ کو یہ کیسے معلوم کہ مسلمانوں کو کوئی اچھا لیڈر ہضم نہیں ہوتا ہے؟ کیا آپ کو اپنے بڑوں کی غلطی پر فخر ہے کہ آپ اسے دہرارہے ہیں اور سالوں پرانی بات کو لوگوں کےخانۂ خیال میں لارہے ہیں؟ اگر کوئی خود کو ہندو نسل سے نہیں مانتا ہے یا فیملی پلاننگ کے حق میں نہیں ہے؛ تو اس کا حق رائے دہی کس قانون کی بنیاد پر ختم کیا جائے گا؟

ان جیسے لوگوں کی زہریلی تحریر اور متنازعہ بیان بازی سے تو کوئی  صاحب عقل و دانش اتفاق نہیں کرسکتا۔ ہاں، یہ واضح  ہے کہ یہ لوگ اپنی سیاسی روٹی سیکنے اور خود کو قومی سطح کا لیڈر اور قائد بننے کے زعم میں اس طرح کی تحریر اور بیان بازی وقتا فوقتا کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت، بہت سے مسلمانوں نے ہندوستانی  شہری بن کر رہنا پسند کیا۔  اگر وہ چاہتے تو ان کو یہ اختیار تھا کہ وہ پاکستان ہجرت کرجاتے۔آج یہ کون ہوتے ہیں جو مسلمانوں کی  حب الوطنی کا امتحان لیں اور ان کےووٹنگ کے حق کو چھینیں؟ جو حق ملک کا دستور ایک شہری کو دے رکھا ہے، اسے کیسے کوئی سرپھرا چھین سکتا اور منسوخ کرنے کی بات کرسکتا ہے۔ اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے مسلمانوں کا  وہی حق ہے،  جو دوسروں کا ہے۔ صرف ووٹنگ ہی کیا، ان کا  کوئی بھی حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی مسلمانوں کے ساتھ ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے؛  تو یہ اس کی ضمیر فروشی  اور ذمے داری سے منھ پھیرنے والی بات ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے،  تو وہ اس سے  بخوبی واقف  ہیں کہ ان کے لیے اچھاکیا ہے اور برا کیا ہے۔ وہ اپنا فیصلہ اپنے حساب سےکرنے کا حق رکھتے ہیں ۔

لوگ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی اکٹریس نے  نیوز چینل اور اخباروں کی ہیڈ لائنس میں چھانے کےلیے،کسی چوپاٹی پر برہنہ ہوکر گھومنا شروع کردی۔ پھر کیا تھا، وہ ہفتوں  نیوز چینلس اور اخبارات میں چھائی رہیں۔ ہمارے کچھ مفاد پرست سیاستداں بھی اس روش پر گامزن لگ رہے ہیں، نہیں تو یہ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کی تحریر اور بیان بازی  سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی ذہنیت کے لوگ معاشرہ و سوسائٹی اور ملک کے امن و امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اگر ان کی بر وقت اصلاح نہیں کی گئی؛ تو صدیوں سے چلی آرہی ملک کی گنگا جمنی تہذیب مٹی میں مل جائے گی اور اس کی  ذمے دارحکومت ہوگی۔


(مضمون نگار دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ کے استاذ ہیں۔ ان سے qasmikhursheed@yahoo.co.in    پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

None Can Dare to Revoke Voting Rights of Muslims

None Can Dare to Revoke Voting Rights of Muslims

By: Khursheed Alam Dawood Qasmi



Unquestionably the sacrifices made by Muslims citizens aren’t less than the sacrifices made by any other citizen of the country in the freedom struggle of India. Following the independence, the Muslims have no fewer roles in India’s development and growth than others. Certainly the patriotism and nationalism of Muslims are above the question. It doesn’t need an evidence to prove as it’s as clear as crystal. Having such fact, Muslims are put on acid test by so-called nationalists very often. Whenever an issue related to Muslim community comes in the light, the so-called nationalists begin to accuse and paint the whole Muslim community with something which they have never done. Accusation isn’t just enough, but even they start spreading poison against the whole community stoking a controversy and putting the communal harmony at the risk. To my utter surprise, even some hatemonger people go ahead to suggest revoking the voting rights of Muslims. Such poisonous statement is made from the self-proclaimed champion of the Hindus rights like the Harvard-educated economic scholar, Mr. Subramanian Swamy and a Rajiya Sabha Member of Parliament of Shiv Sena and Executive Editor of the party mouthpiece, “Saamana”, Mr. Sanjay Raut. On the top, such view is backed and supported by another Member of Parliament like Sakshi Maharaj.

On April 12, The Shiv Sena mouthpiece, “Saamana” daily published an editorial by its Executive Editor, Mr. Sanjay Raut, wherein he writes targeting Barrister Asaduddin Owaisi, a Lok Sabha MP from Hyderabad and the whole Muslim community: “If Muslims are only being used this way to play politics, then they can never develop. Muslims will have no future till they are used to play vote bank politics and thus Balasaheb (Ex-Chief of Shive Sena Late Mr. Bala Thackeray) had once said to withdraw Muslims voting rights. What he said is right.”

The “secular masks” of all the so-called secular political parties will be worn out, once their voting rights are withdrawn, the editorial said. Taking a dig at All India Majlis-e-Ittihadul Muslimeen (AIMIM) MP Asaduddin Owaisi for challenging Sena president Uddhav Thackeray to come to Hyderabad, the editorial said, “Owaisi dares us to come to Hyderabad. But we want to ask him if Hyderabad is in India or in Lahore, Karachi or Peshawar….” “By saving the hiding place of snakes, you cannot kill them. Owaisi and his party are like a snake which, if fed, will do no good to the nation. AIMIM is an old snake,” it said as reported in The Times of India.
           
It seems the arrival of AIMIM at the land of Maharashtra in the last year concluded Assembly Elections had made some people like Mr. Raut frustrated; therefore, whatever is coming at the pen and the tongue, they write and publish without care. In the same editorial Mr. Raut has gone to extend to ask the Muslim Community: “Why do the Muslims need such Owaisies? Why they don’t digest some good leaders who work for the development and prosperity?” It shows that Mr. Raut has not deep knowledge about the Muslims’ political affairs. It’s Muslims who have accepted each and everyone as their political leaders without any pre-condition and question since the freedom struggle. If Muslims would have put pre-condition to accept someone as their leader from the beginning, they would not have been in such worst condition today and Mr. Raut would not have dared to write such poisonous editorial. It should also be noted that only few days back the Shiv Sena suggested Muslims to go to Pakistan for special treatment as Mr. Owaisi talked about reservation to Muslims in Maharashtra.

As for Mr. Owaisi, the all Indian Muslims have not chosen him as their leader, rather he is an elected leader from a parliamentary constituency merely. In spite of that, Indian Muslims know well that it’s Mr. Owaisi among few leaders who fight for the rights and against the injustice meted out to the minority entirely from the road to the Parliament. It’s well-known that Mr. Owaisi is not in the Maharashtra Assembly. Maharashtra Muslims haven’t elected him for Assembly or Parliament. They had and have digested the leaders other than Owaisi. Then why are the situations of the Muslims in the same condition like of other states in India? Why has the BJP-Sena government scrapped just five percent reservation to Muslims in education announced by the previous Congress-NCP government; whereas the same BJP-Sena government has passed a law to grant the quota for Marathas, while it was scrapped by the court?

Mr. Raut isn’t alone to write such piece of write-up, but one can find in the great India few more people like him. On 16th July, 2011, the Harvard-educated economist and ex-President of Janta Party Mr. Subramanian Swamy penned an extremely anti-Muslim article in the DNA expressing his poisonous opinion. He wrote: “We need a collective mindset as Hindus to stand against the Islamic terrorist.... If any Muslim acknowledges his or her Hindu legacy, then we Hindus can accept him or her as a part of the Brihad Hindu Samaj (greater Hindu society) which is Hindustan. Others, who refuse to acknowledge this, or those foreigners who become Indian citizens by registration, can remain in India, but should not have voting rights (which means they cannot be elected representative).”

Asked about Mr. Raut’s editorial published in “Saamana”, Mr. Sakshi Maharaj, Bharatiya Janata Party Member of Parliament from Unnao in Uttar Pradesh said on 12th April in the evening, “I have not gone through his statement.” But he said targeting the Muslim community: “I don’t say Muslims and Christians should be sterilised. But there should be family planning and a uniform law for all. When we talk of four-child issue, there is a lot of hue and cry, and when they have 40 children from four wives no one says anything.” Speaking on the population growth as a major challenge before the country, he said, “There should be family planning. When the country gained independence, the population was only 30 crore. Today it is 130 crore. Who is responsible for it?...There should be one law for everyone be it Hindus, Muslims, Sikhs or Christians.”

“Whether for one, two, three or four kids... unless we have a common law for everyone, the country will not benefit...So both the government and the opposition should come together to bring a strict law and those who don’t follow it should be stripped of their voting right,” Mr. Maharaj said as reported by the Rediff.com.

Without making a comment at the above statement of Mr. Maharaj who is famous for his controversial statements, just I would like to mention that he is the very leader who had drawn flak for describing the assassin of Mahatma Gandhi, Nathuram Godse as a “patriot” and was forced to apologise in the Parliament only few month ago. It’s him who was earlier at the centre of a controversy when he asked Hindu women to have at least four-child. The BJP on its part had distanced itself from his remarks. Despite that, Mr. Maharaj isn’t controlling his tongue in issuing such communal statement which can harm communal harmony.

As they are posing such bogus questions to Muslims and presenting such opinions regarding Muslims about revoking the voting rights of Muslims, they can also be questioned, why do they are afraid of someone who raises Muslims’ issues? Who has made them the representatives and advocates of the whole nation to utter such poisonous statements? How do they know that Muslims need just the leaders like Mr. Owaisi? How do they know that Muslims don’t digest any good leader who works for development? How and on what basis if any Muslim refuses to acknowledge his Hindu legacy can remain in India, but shouldn’t have voting rights? On what basis the voting right should be stripped of those who don’t follow family planning? Actually such thoughts and opinions are rubbish to be thrown in the bin.

It’s loud and clear that most of the people will never agree with such statements. In fact such leaders have no any place in the Indian society where people have been staying together without discrimination in the most cases. They are just trying to have media’s attention and unfortunately it’s done by the media group. For the information of such leaders, I do want to mention a fact. When India got freedom and unfortunately partition took place, at that time the Muslims had option either to migrate to newly created Pakistan or remain in India. So, Muslims remained in India being Indian citizens with their choice. Had they wanted, they would have migrated to Pakistan. This was the choice of Muslims, not a chance. They have equal rights in India like any other citizen without discrimination according to the constitution. None can dare to revoke the voting rights of Muslims as it’s granted to each citizen of 18-year old. If a particular political party takes Muslims as a vote bank and it plays vote bank politics with them, then such party should be held responsible for such grave mistake not the Muslim community. As the Muslims are concerned, they don’t need suggestion coming out form the poisonous minds, but they have full right to take their own decisions.

It’s said, once an actress ran out on Chaupati without clothes to hit the news headlines as she had gone into oblivion by the media and post the incident, she remained in news for several weeks, our so-called self-claimed nationalist leaders are like of such crazy actress to have media attention and get the level of national leader by spreading hatred. It’s a fact that they will get nothing except being in the news for some days or months. But it’s also a reality that such people pose danger to the nation. If such thoughts are being appreciated and cherished, India will perish. So, such thoughts and persons must be reformed before the damage is made, otherwise the government will be held responsible for it. ***


(The author is a Darul Uloom, Deoband alumnus and presently teacher of Moon Rays Trust School, Zambia, Africa. He can be reached at qasmikhursheed@yahoo.co.in)

Sunday, April 5, 2015

الأَحْكَامُ الْمُتَعَلِّقَةُ بِاللِّحْيَةِ

الأَحْكَامُ الْمُتَعَلِّقَةُ بِاللِّحْيَةِ
تَتَعَلَّقُ بِاللِّحْيَةِ أَحْكَامٌ مِنْهَا:
إِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ:
7 - إِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ مَطْلُوبٌ شَرْعًا اتِّفَاقًا، لِلأَحَادِيثِ الْوَارِدَةِ بِذَلِكَ، مِنْهَا حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ (2) ، وَمِثْلُهُ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ بِلَفْظِ: جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى، خَالِفُوا الْمَجُوسَ (3) ، وَمِنْهَا حَدِيثُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ (4) ، فَعَدَّ مِنْهَا " إِعْفَاءَ اللِّحْيَةِ ".
قَال ابْنُ حَجَرٍ: الْمُرَادُ بِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ مُخَالِفَةُ الْمَجُوسِ فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقُصُّونَ لِحَاهُمْ، وَمِنْهُمْ مَنْ كَانَ يَحْلِقُهَا، وَقَال: ذَهَبَ الأَْكْثَرُونَ إِلَى أَنْ " أَعْفُوا " بِمَعْنَى كَثِّرُوا، أَوْ
__________
 (2) حديث ابن عمر: " خالفوا المشركين، وفروا اللحى، وأحفوا الشوارب ". أخرجه البخاري (فتح الباري 10 / 349) .
(3) حديث أبي هريرة: جزوا الشوارب، وأرخوا اللحى. . . ". أخرجه مسلم (1 / 222) .
(4) حديث عائشة: " عشر من الفطرة ". أخرجه مسلم (1 / 223) .

وَفِّرُوا، وَنُقِل عَنِ ابْنِ دَقِيقِ الْعِيدِ: تَفْسِيرُ الإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ مِنْ إِقَامَةِ السَّبَبِ مُقَامَ الْمُسَبَّبِ لأَنَّ حَقِيقَةَ الإِعْفَاءِ التَّرْكُ، وَتَرْكُ التَّعَرُّضِ لِلِّحْيَةِ يَسْتَلْزِمُ تَكْثِيرَهَا.
وَقَال ابْنُ عَابِدِينَ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ: إِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ تَرْكُهَا حَتَّى تَكِثَّ وَتَكْثُرَ (1) .
تَكْثِيرُ اللِّحْيَةِ بِالْمُعَالَجَةِ
8 - قَال ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ: لاَ أَعْلَمُ أَحَدًا فَهِمَ مِنَ الأَمْرِ فِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْفُوا اللِّحَى تَجْوِيزَ مُعَالَجَتِهَا بِمَا يُغْزِرُهَا، كَمَا يَفْعَلُهُ بَعْضُ النَّاسِ، قَال: وَكَأَنَّ الصَّارِفَ عَنْ ذَلِكَ قَرِينَةُ السِّيَاقِ فِي قَوْلِهِ فِي بَقِيَّةِ الْخَبَرِ وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ قَال ابْنُ حَجَرٍ: وَيُمْكِنُ أَنْ يُؤْخَذَ ذَلِكَ مِنْ بَقِيَّةِ طُرُقِ الْحَدِيثِ الدَّالَّةِ عَلَى مُجَرَّدِ التَّرْكِ (2) .
الأَْخَذُ مِنَ اللِّحْيَةِ:
9 - ذَهَبَ بَعْضُ الْفُقَهَاءِ، مِنْهُمُ النَّوَوِيُّ إِلَى أَنْ لاَ يُتَعَرَّضَ لِلْحَيَّةِ، فَلاَ يُؤْخَذُ مِنْ طُولِهَا أَوْ عَرْضِهَا لِظَاهِرِ الْخَبَرِ فِي الأَمْرِ بِتَوْفِيرِهَا، قَال: الْمُخْتَارُ تَرْكُهَا عَلَى حَالِهَا، وَأَنْ لاَ يُتَعَرَّضَ لَهَا بِتَقْصِيرٍ وَلاَ غَيْرِهِ.
وَذَهَبَ آخَرُونَ مِنْهُمُ الْحَنَفِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ إِلَى أَنَّهُ إِذَا زَادَ طُول اللِّحْيَةِ عَنِ الْقَبْضَةِ يَجُوزُ أَخْذُ
__________
(1) فتح الباري 10 / 351، وحاشية ابن عابدين 2 / 205.
(2) فتح الباري 10 / 351.

الزَّائِدِ، لِمَا ثَبَتَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ إِذَا حَلَقَ رَأْسَهُ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ أَخَذَ مِنْ لِحْيَتِهِ وَشَارِبِهِ (1) ، وَفِي رِوَايَةٍ " كَانَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَل أَخَذَهُ ". قَال ابْنُ حَجَرٍ: الَّذِي يَظْهَرُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ لاَ يَخُصُّ هَذَا بِالنُّسُكِ بَل كَانَ يَحْمِل الأَمْرَ بِالإِعْفَاءِ عَلَى غَيْرِ الْحَالَةِ الَّتِي تَتَشَوَّهُ فِيهَا الصُّورَةُ بِإِفْرَاطِ طُول شَعْرِ اللِّحْيَةِ أَوْ عَرْضِهِ (2) .
قَال الْحَنَفِيَّةُ: إِنَّ أَخْذَ مَا زَادَ عَنِ الْقَبْضَةِ سُنَّةٌ، جَاءَ فِي الْفَتَاوَى الْهِنْدِيَّةِ: الْقَصُّ سُنَّةٌ فِيهَا، وَهُوَ أَنْ يَقْبِضَ الرَّجُل عَلَى لِحْيَتِهِ، فَإِنْ زَادَ مِنْهَا عَنْ قَبْضَتِهِ شَيْءٌ قَطَعَهُ، كَذَا ذَكَرَهُ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، قَال: وَبِهِ نَأْخُذُ (3) .
وَفِي قَوْلٍ لِلْحَنَفِيَّةِ: يَجِبُ قَطْعُ مَا زَادَ عَنِ الْقَبْضَةِ وَمُقْتَضَاهُ كَمَا نَقَلَهُ الْحَصْكَفِيُّ (4) ، الإِثْمُ بِتَرْكِهِ.
وَقَال الْحَنَابِلَةُ: لاَ يُكْرَهُ أَخْذُ مَا زَادَ عَنِ الْقَبْضَةِ مِنْهَا، وَنَصَّ عَلَيْهِ أَحْمَدُ، وَنَقَلُوا عَنْهُ
__________
(1) أثر ابن عمر " أنه كان إذا حلق رأسه في حج أو عمرة أخذ من لحيته وشاربه ". أخرجه مالك في الموطأ (2 / 396) ، والرواية الأخرى أخرجها البخاري (فتح الباري 10 / 349) .
(2) فتح الباري 10 / 350.
(3) الفتاوى الهندية 5 / 358، وابن عابدين 2 / 113، 205 و5 / 261.
(4) ابن عابدين 2 / 113.

أَنَّهُ أَخَذَ مِنْ عَارِضَيْهِ (1) .
وَذَهَبَ آخَرُونَ مِنَ الْفُقَهَاءِ إِلَى أَنَّهُ لاَ يَأْخُذُ مِنَ اللِّحْيَةِ شَيْئًا إِلاَّ إِذَا تَشَوَّهَتْ بِإِفْرَاطِ طُولِهَا أَوْ عَرْضِهَا، نَقَلَهُ الطَّبَرِيِّ عَنِ الْحَسَنِ وَعَطَاءٍ، وَاخْتَارَهُ ابْنُ حَجَرٍ وَحَمَل عَلَيْهِ فِعْل ابْنَ عُمَرَ، وَقَال: إِنَّ الرَّجُل لَوْ تَرَكَ لِحْيَتَهُ لاَ يَتَعَرَّضُ لَهَا حَتَّى أَفْحَشَ طُولُهَا أَوْ عَرْضُهَا لَعَرَّضَ نَفْسَهُ لِمَنْ يَسْخَرُ بِهِ، وَقَال عِيَاضٌ: الأَخَذُ مِنْ طُول اللِّحْيَةِ وَعَرْضِهَا إِذَا عَظُمَتْ حَسَنٌ، بَل تُكْرَهُ الشُّهْرَةُ فِي تَعْظِيمِهَا كَمَا تُكْرَهُ فِي تَقْصِيرِهَا (2) ، وَمِنَ الْحُجَّةِ لِهَذَا الْقَوْل مَا وَرَدَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ طُولِهَا وَعَرْضِهَا (3) ، أَمَّا الأَخْذُ مِنَ اللِّحْيَةِ وَهِيَ دُونَ الْقَبْضَةِ لِغَيْرِ تَشَوُّهٍ فَفِي حَاشِيَةِ ابْنِ عَابِدِينَ: لَمْ يُبِحْهُ أَحَدٌ (4) .

حَلْقُ اللِّحْيَةِ:
10 - ذَهَبَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ: الْحَنَفِيَّةُ وَالْمَالِكِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ، وَهُوَ قَوْلٌ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ، إِلَى أَنَّهُ يَحْرُمُ حَلْقُ اللِّحْيَةِ لأَنَّهُ مُنَاقِضٌ لِلأَْمْرِ النَّبَوِيِّ
__________
(1) شرح المنتهى 1 / 40، ونيل المآرب 1 / 57 الكويت، دار الفلاح 1403هـ.
(2) فتح الباري 10 / 350.
(3) حديث: " أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأخذ من لحيته من طولها وعرضها ". أخرجه الترمذي (5 / 94) من حديث عمرو بن العاص وقال: هذا حديث غريب، وذكر ابن حجر في الفتح (10 / 350) تضعيف أحد رواته.
(4) ابن عابدين 2 / 113.

بِإِعْفَائِهَا وَتَوْفِيرِهَا، وَتَقَدَّمَ قَوْل ابْنِ عَابِدِينَ فِي الأَْخْذِ مِنْهَا وَهِيَ دُونَ الْقَبْضَةِ: لَمْ يُبِحْهُ أَحَدٌ، فَالْحَلْقُ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ.
وَفِي حَاشِيَةِ الدُّسُوقِيِّ الْمَالِكِيِّ: يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُل حَلْقُ لِحْيَتِهِ، وَيُؤَدَّبُ فَاعِل ذَلِكَ، وَقَال أَبُو شَامَةَ مِنَ الشَّافِعِيَّةِ: قَدْ حَدَثَ قَوْمٌ يَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، وَهُوَ أَشَدُّ مِمَّا نُقِل عَنِ الْمَجُوسِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَقُصُّونَهَا.
ثُمَّ قَدْ جَاءَ فِي الْفَتَاوَى الْهِنْدِيَّةِ: وَلاَ يَحْلِقُ شَعْرَ حَلْقِهِ، وَنَصَّ الْحَنَابِلَةُ كَمَا فِي شَرْحِ الْمُنْتَهَى عَلَى أَنَّهُ لاَ يُكْرَهُ أَخْذُ الرَّجُل مَا تَحْتَ حَلْقِهِ مِنَ الشَّعْرِ أَيْ لأِنَّهُ لَيْسَ مِنَ اللِّحْيَةِ (1) .
__________
(1) الفتاوى الهندية 5 / 358، وحاشية الدسوقي على الدردير 1 / 90، 422، 423، وفتح الباري 10 / 351، وشرح المنتهى 1 / 40.


الموسوعة الفقهية الكويتية، صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت

Friday, April 3, 2015

دعوت و تبلیغ: ایک اہم فریضہ

دعوت و تبلیغ: ایک اہم فريضہ

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

حرف آغاز:
جب اللہ سبحانہ و تعالی نے اس عالمِ رنگ و بو اور جہانِ نور و نکہت کی تزئین کے لیے جدّ اکبر سیّدنا آدم   ـ علیہ السلام ـ کے پتلے میں روح  پھونک کر فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو فرشتوں نے فورًا اس حکم کی تعمیل کی؛ جب کہ ابلیس مردود نے اپنی برتری اور فوقیت ثابت کرنے کے لیے، حضرت آدم  ـ علیہ السلامـ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا؛ بل کہ فرمانِ خداوندی کو ٹھکرادیا اور ذات واجب الوجود سے بغاوت کرنے پر کمر بستہ ہوگیا۔ اللہ نے اس حکم سے سرتابی پر ابلیس ملعون کو ہمیشہ کے لیے اپنے دربار سے دھتکار دیا۔ اس پر ابلیس نے بارگاہ ایزدی میں چیلنج کیا کہ وہ تا قیامت آنے والے بندگانِ خدا کو صراط مستقیم سے ہٹاکر، ضلالت و گمراہی کی راہ پر لانے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کرے گا اور ہر طرف سے تاک میں لگا رہے گا، جہاں کہیں بھی موقع پائے گا ، انھیں مقصد تخلیق سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ تعالی نے ابلیس کے اس دعویٰ کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ‘‘قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ۔ ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ۔’’ (سورۃ اعراف، آیت: ۱۶۔۱۷) ترجمہ: ‘‘بولا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے،میں بھی  ضروری بیٹھوں گا ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر۔ پھر ان پر آؤں گا ان کے آگے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور نہ پائے گا تو اکثروں کو ان میں سے شکر گزار۔’’

اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر احسان عظیم کرتے ہوئے، ابلیس ملعون کے مکر و فریب سے بچانے کے لیے انبیاء و رسل ــ علیہم السلام ــ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ہر قوم اور ہر خطہ میں موقع بہ موقع ، انبیاء و رسل ـ علیہم السلامـ  کی آمد و رفت ایک طویل زمانے تک جاری رہی اور سب سے آخر میں پیارے رسول محمد ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو انسان کو شرک و بت پرستی کے بھنور سے وحدانیت و توحید کے دعوت و تبلیغ کے لیے خاتم النبیین و المرسلین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آقاء مدنی ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کے بعد یہ سلسلہ ختم کردیا گیا اور اس دعوت و تبلیغ کی ذمے داری اس ‘‘امّت محمدیہ ’’کے کندھے پر ڈال دی گئی؛ یہی وجہہ ہے کہ اس امّت کو ‘‘خیر ِامّت ’’ کے لقب سے نوازا گیا۔

انبیاء علیہم السّلام اور دعوت و تبلیغ:
اللہ تعالی نے حضرات انسان کو اس روئے زمین پر پیدا کرکےیوں بے کار نہیں چھوڑا؛ بل کہ ان کی ہدایت و رہنمائی  کے لیے وقفے وقفے سے ہر زمانہ میں، ہر جگہ اور خطہء ارضی پر انبیاء و رسل ـ علیہم السلام ـ کو صحف و کتب کے ساتھ مبعوث فرماتا رہا۔ قرآن کریم کہتا ہے: ‘‘لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٌ۔’’ (سورہ رعد، آیت: ۷) ترجمہ: ‘‘ہر قوم کے لیے ہادی ہے۔’’اور دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے:‘‘و لِکُلِّ أُمَّۃٍ رَسُوْلٌ۔’’ (سورہ یونس، آیت:۴۷) ترجمۃ: ‘‘ہر امت کے لیے رسول ہے۔’’ چنانچہ انبیاء و رسل ـ علیہم السلام ـ نے اپنی اپنی قوم میں، اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی، اللہ کے احکام ، ان تک پہونچایا، ان کو برائیوں سے روکا اور اچھے کاموں کے کرنے کا حکم دیا۔

اللہ  تعالی نے سب سے اخیر میں جناب محمّد عربی ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو آخری نبی و رسول بنا کر بھیجا اور ان کی ہی ذاتِ اقدس پر نبوت و رسالت کا یہ مبارک سلسلہ ختم ہو گیا۔ انؐ کے بعد اب تک نہ کوئی نبی و رسول آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ارشاد ربانی ہے: ‘‘مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔’’ (سورۃ احزاب، آیت: ۴۰) ترجمہ: ‘‘محمد  تم میں سے کسی کے باپ نہیں؛ لیکن وہ اللہ کے بندے اور خاتم النبیین ہیں۔’’ جناب نبی کریم ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو اللہ تعالی نے کسی ایک قوم یا ملک کا نبی و رسول بنا کر نہیں بھیجا؛ بل کہ ساری دنیا میں اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کی پیغام رسانی کے لیے بھیجا۔ قرآن کریم نے صاف لفظوں میں اس حقیقت کا یوں اعلان کیا ہے: ‘‘قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ’’(سورۃ اعراف: ۵۸) ‘‘کہہ دیجئے! اے انسانو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔’’ رسول اللہ ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ نے اپنے منصب نبوت اور عہدہ رسالت کو بخوبی نبھایا، اللہ کے بندے کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی اور ایک بہت بڑی تعداد کے قلوب کو شمع ایمان سے منور کرکے، گوشہ اسلام میں داخل کردیا۔ آپ ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کی وفات کے بعد صحابہ کرام ــرضی اللہ عنہمــ نے دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا۔

امت محمدیہ اور دعوتی مشن:
یہ امت محمدیہ اس خدائی ارض پر کسی سبزہ خود رو کی طرح نہیں ہےاور نہ یونہی پیدا کی گئی ہے؛ بل کہ اللہ سبحانہ و تعالی کو، اس دین کو قیامت تک باقی رکھنا تھا اور انبیاء و رسل ـ علیہم السلام ـ کا سلسلہ بھی آپ کی مبارک ذات پر ختم کردیا؛ اس لیے اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے دنیا کی قیادت و سیادت، قوم و ملت کی رہنمائی و نگرانی اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فريضہ کو انجام دینے کے لیے اس امت کو پیدا فرمایا۔ اسی کام و عمل اور فريضہ کی وجہ سے اللہ نے قرآن کریم میں اس کو خیر الامم کے معزز لقب سے خطاب فرمایا، ارشاد خداوندی ہے: ‘‘کُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ۔’’ (القرآن: سورۃ آل عمران: ۳، آیۃ: ۱۱۰)  ترجمہ: ‘‘تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو بُرے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر۔’’

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی ثمّ پاکستانیؒ رقم طراز ہیں: ‘‘اے مسلمانو! خدا تعالی نے تم کو تمام امتوں میں بہترین امت قرار دیا ہے۔ اس کے علم ازلی میں پہلے سے یہ بات مقدر ہو چکا تھا، جس کی خبر بعض انبیائے سابقین کو بھی دیدی گئی تھی کہ جس طرح نبی آخر الزماں ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ سب نبیوں سے افضل ہوں گے، آپ کی امت بھی جملہ امت و اقوام پر سبقت لے جائے گی؛ کیوں کہ اس کو سب سے اشرف و اکرم پیغمبر نصیب ہوگا۔ ادوم و اکمل شریعت ملےگی۔ علوم و معارف کے دروازے ان پر کھول دیے جائیں گے۔ ایمان و عمل اور تقوی کی تمام شاخیں اس کی محنت اور قربانیوں سے سر سبز شاداب ہوںگی۔ وہ کسی خاص قوم و نسب یا مخصوص ملک و اقلیم میں محصور نہ ہوگی، بل کہ اس کا دائرہ عمل سارے عالم کو اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہوگا۔ گویا اس کا وجود ہی اس لیے ہوگا کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور جہاں تک ممکن ہو انہیں جنت کے دروازوں پر لا گھڑا کرے۔ منکر (برے کاموں) میں کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ، فسق و فجور اور ہر قسم کی بد اخلاقی اور نا معقول باتیں شامل ہیں۔ ان سے روکنا بھی کئی طرح سے ہوگا۔ کبھی زبان سے، کبھی ہاتھ سے، کبھی قلم سے، کبھی تلوار سے، غرض ہر قسم کا جہاد اس میں داخل ہوگیا۔ یہ صفت جس قدر عموم و اہتمام سے امت محمدیہ میں پائی جاتی ہے، پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔’’ (تفسیر عثمانی)

آج جب سوسائٹی اور معاشرہ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ اولاد آدم کا ہر قدم غلط اور ہر لفظ غیر مناسب ہے، ہر طرح کی برائیوں میں ملوث ہے، شرک و کفرکی دلدل میں پھنسی ہے، بدعات و خرافات ، ان کی زندگی کا محبوب مشغلہ ہے، رسم  و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور رشوت خوری، فریب دہی، جعل سازی اور خیانت  جیسے جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہے اور سب سے افسوس کی بات یہ کہ کار نبوت کی حامل خیر الامم جسے گم گشتہ راہ لوگوں کو صراط مستقیم پٹری پر لانے کے لیے ذمے داری تفویض کی گئی تھی اور مسیحا کی حیثیت سے بھیجا گیا تھا، وہ خود ہی بیمار ہو چکی ہے؛ اس لیے اس بیمار حال امت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مرض سے شفایاب ہو کر، فرمان خداوندی کی اہمیت ، خصوصیت اور فضیلت کو سمجھے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم )، تابعین عظام، ائمہ مجتہدین، اور سلف و صالحین کی طرح خلق ِخدا کو بندوں کی بندگی کےبجائےاللہ کی غلامی و پیروی کا درس دے، مختلف باطل مذاہب و ادیان میں بھٹکنے کے بجائے دین اسلام (جو عین دین فطرت ہے) کا سبق سکھائے اور دنیا کی تنگ کوٹھری کے حرص و لالچ کے بجائے جنت کے محلات اور حور و قصور کی ترغیب دے؛ تب یہ خیر امت اپنے مشن کو رو بہ عمل لانے والی ہوگی اور یہی اس سے مطلوب و مقصود ہے۔

علمائے کرام کی دوہری ذمے داری:
          حضور پاک   ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ نے فرمایا: ‘‘إِنَّ العُلماءَ وَرَثۃُ الأنبیاءِ، و إِنَّ الأنبیاءَ لم یُوَرِّثُوا دِینارًا و لا دِرھمًا؛ و إنَّما ورّثوا العلمَ؛ فمن أَخَذَ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافرٍ۔’’ (مشکاۃ، ج: ۱، ص: ۳۴) ترجمہ: ‘‘یقینا علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء دینار و درہم کا وارث نہیں بناتے؛ بل کہ وہ علم ہی کا وارث بناتے ہیں؛ لہذا جس شخص نے اسے حاصل کرلیا، اس نے ایک بڑا حصہ حاصل کرلیا۔’’ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ علماء انبیاء ــعلیہم السلام ــکے علمی وارث ہیں؛ لہذا دینِ اسلام کی نشرو اشاعت، افرادِ امت کو اچھے کاموں کی رہنمائی اور برے کاموں سے روکنا اور اللہ سبحانہ و تعالے کے احکام کی اطاعت اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تبلیغ کرنا: یہ تمام چیزیں علماء کرام کی ذمّےداریوں میں شامل ہیں۔ اس حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے کہ علماء کرام کی یہ دوہری ذمّے داری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تا قیام قیامت‘‘امت محمدیہ’’ کو اسلام و ایمان سے روشناس کرائیں اور جو لوگ پیغام اسلام کے حوالے تشنہ لب ہیں ، ان کی تشنگی بجھائیں۔ اگر کوئی دولت ایمان سے مالا مال ہے  اور فرائض و واجبات ، اعمال صالحہ، تقوی و پرہیزگاری میں کوتاہی کرتا ہی تو اسے اس طرف بھی توجہ دلائی جائے۔

دعوت و ارشاد کے طریقے:
          کار ِ دعوتِ دین جس قدر اہم اور ضروری ہی اسی طرح حکمت و دانائی، دستور العمل اور طور و طریقے کا متقاضی بھی ہے؛ چنان چہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسل  ــعلیہم الصلاۃ و السلام ــ کو مختلف مواقع سے اس کے اصول و ضو ابط سکھلائے، جسے آج امت کے دعاۃ و مبلغین کے لیے بھی اپنانا ضروری ہے۔  اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول محمد ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو دعوت و تبلیغ کا طریقہ سکھلاتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ‘‘ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ’’ (سورہ  نحل، آیت: ۱۲۵) ترجمہ: ‘‘بلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو۔’’ حضرت مفتی شفیع صاحبؒ آیت کریمہ مذکورہ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ‘‘آیت مذکورہ میں دعوت کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہے: اول: حکمت، دوسرے: موعظت اور تیسرے: مجادلہ بالتی ھی احسن۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایاکہ یہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بناء پر ہیں۔ دعوت بالحکمہ، اہل علم و فہم کے لیے، دعوت بالموعظہ، عوام کے لیے، مجادلہ ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوں، یا جو عناد اور ہٹ دھرمی کے سبب با ت ماننے سے منکر ہوں۔’’ مفتی صاحبؒ مزید رقم طراز ہیں: ‘‘دعوت الی اللہ در اصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے، امت کے علماء اس منصب کو ان کے نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے کرتے ہیں۔ تو لازم ہے کہ اس کے آداب  اور طریقے بھی انہیں سے سیکھیں، جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے، وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ و جدال کا موجب بن جاتی ہے۔(معارف القرآن، ج: ۵، ص: ۱۰ـ۴۰۹)

اللہ تعالی نے اپنے محبوب ترین بندے اور جلیل القدر نبی، حضرت موسی  ــعلیہ السلام ــ کو جب فرعون کو دعوت دینے کے لیے بھیجا تو ان کو یہ حکم فرمایا: فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى’’ (سورہ طٰہ، آیت : ۴۴) ترجمہ:‘‘سو کہو اس سے بات نرم شاید وہ سوچے یا ڈرے۔’’ اس آیت کریمہ میں  فرعون جیسے ظالم و جابر اور جفا کار کے پاس بھی دعوت کے وقت نرم گفتاری، رقت انگیزی، سلیقہ مندی اور خوش آہنگی کا درس دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت مخاطب کے اعتبار سے دی جائے گی اور انبیاء ــعلیہم السلام ــکے طریقے کو پیش نظر رکھ کر دعوت دی جائے گی، اگر اس راستے سے ذرہ برابر بھی بے توجہی کی گئی، تو داعی ناکام و نا مراد اور بے نیل و مرام رہے گا اور اس کی دعوت بے کار اور رائیگاں ہوگی۔

ترک دعوت تباہی کا پیش خیمہ:
          آج یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر مسلمان نان شبینہ کے محتاج ہیں، قتل و غارت گری کے شکار ہیں، ان پر ظالم و جابر حکمراں مسلط ہیں، ان کے ملکوں پر غاصبانہ قبضہ ہو رہا ہے، اپنے وطن میں رہتے ہوئےغیروں سے خائف ہیں، عزیز کو ذلیل کیا جا رہا ہے، مقدس مقامات: مساجدو خانقاہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے اور مدارس و مکاتب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب تباہی و بربادی کا سلسلہ لگا ہوا ہے اور مسلمان دفاعی قوت سے بھی محروم ہے، چہ جائے کہ اپنے دشمن کو مغلوب کرسکے۔ اس کی بنیادی وجہہ اور مرکزی سبب یہ ہے کہ مسلمانان عالم نے دعوت و تبلغ جیسی اہم ذمے داری کو ترک کردیا ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ ترک دعوت کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:‘‘امت محمدیہ جب اس کام کو چھوڑ دےگی تو سخت مصائب و آلام اور ذلت و خواری میں مبتلا کردی جائےگی اور ہر قسم کی غیبی نصرت و مدد سے محروم ہوجائیں گی، اور یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ اس نے اپنے فرض منصبی کو نہیں پہچانا اور اس کی قدر نہ کی اور جس کام کے انجام دہی کی ذمہ داری تھی اس سے غافل رہی اور اس کو بھلائے رکھنے سے سستی و کاہلی عام ہوجائےگی، گمراہی و ضلالت کی شاہراہیں کھل جائےگی، آپس میں پھوٹ پڑجائےگی، آبادیاں ویران ہوجائیں گی۔ مخلوق تباہ و برباد ہوجائےگی۔ اور یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن اس تباہی و بربادی کی خبر اس وقت ہوگی، جب میدان حشر میں خدا کے سامنے باز پرس کے لیے بلاجائےگا۔ (قرآنی افادات، ص: ۹۳)

حرف آخر:
          اس مضمون میں جو کچھ بیان کیا گیا اس سے یہ بات واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ اس امت کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت اور اعانت طلب کرتے ہوئے دعوت ِ دین کے کام کو مضبوطی سے پکڑ لے، اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کی حفاظت کا فرض ادا کرے اور اس سے چشم پوشی سی اجتناب کرے، نہیں تو یہ کوئی دشوار کام نہیں کہ اللہ تعالی اپنے دین حنیف کی نشر و اشاعت اور حفاظت  و صیانت کے لیے کسی دوسرے کومنتخب کرکے ہمیں اپنے دربار سے گزشتہ امم و اقوام کی طرح مردود و مطرود کردے اور پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں؛ کیوں کہ ہم اس ذات کے محتاج ہیں، وہ ہمارا محتاج نہیں؛ بل کہ وہ غنی اور بے نیاز ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے: ‘‘يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ۔ إِن يَّشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ۔ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزٍ’’ (سورہ فاطر، آیت: ۱۵، ۱۶، ۱۷) ترجمہ: ‘‘اے لوگو تم ہو محتاج اللہ کی طرف اور اللہ وہی ہے بے پروا سب تعریفوں سے، اگر چاہے تم کو لے جائے اور لے آئے ایک نئی خلقت اور یہ بات اللہ پر مشکل نہیں۔’’


(مضمون نگار ،مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی، دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)