Friday, April 3, 2015

دعوت و تبلیغ: ایک اہم فریضہ

دعوت و تبلیغ: ایک اہم فريضہ

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

حرف آغاز:
جب اللہ سبحانہ و تعالی نے اس عالمِ رنگ و بو اور جہانِ نور و نکہت کی تزئین کے لیے جدّ اکبر سیّدنا آدم   ـ علیہ السلام ـ کے پتلے میں روح  پھونک کر فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو فرشتوں نے فورًا اس حکم کی تعمیل کی؛ جب کہ ابلیس مردود نے اپنی برتری اور فوقیت ثابت کرنے کے لیے، حضرت آدم  ـ علیہ السلامـ کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا؛ بل کہ فرمانِ خداوندی کو ٹھکرادیا اور ذات واجب الوجود سے بغاوت کرنے پر کمر بستہ ہوگیا۔ اللہ نے اس حکم سے سرتابی پر ابلیس ملعون کو ہمیشہ کے لیے اپنے دربار سے دھتکار دیا۔ اس پر ابلیس نے بارگاہ ایزدی میں چیلنج کیا کہ وہ تا قیامت آنے والے بندگانِ خدا کو صراط مستقیم سے ہٹاکر، ضلالت و گمراہی کی راہ پر لانے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کرے گا اور ہر طرف سے تاک میں لگا رہے گا، جہاں کہیں بھی موقع پائے گا ، انھیں مقصد تخلیق سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ تعالی نے ابلیس کے اس دعویٰ کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ‘‘قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ۔ ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ۔’’ (سورۃ اعراف، آیت: ۱۶۔۱۷) ترجمہ: ‘‘بولا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے،میں بھی  ضروری بیٹھوں گا ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر۔ پھر ان پر آؤں گا ان کے آگے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور نہ پائے گا تو اکثروں کو ان میں سے شکر گزار۔’’

اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر احسان عظیم کرتے ہوئے، ابلیس ملعون کے مکر و فریب سے بچانے کے لیے انبیاء و رسل ــ علیہم السلام ــ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ہر قوم اور ہر خطہ میں موقع بہ موقع ، انبیاء و رسل ـ علیہم السلامـ  کی آمد و رفت ایک طویل زمانے تک جاری رہی اور سب سے آخر میں پیارے رسول محمد ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو انسان کو شرک و بت پرستی کے بھنور سے وحدانیت و توحید کے دعوت و تبلیغ کے لیے خاتم النبیین و المرسلین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آقاء مدنی ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کے بعد یہ سلسلہ ختم کردیا گیا اور اس دعوت و تبلیغ کی ذمے داری اس ‘‘امّت محمدیہ ’’کے کندھے پر ڈال دی گئی؛ یہی وجہہ ہے کہ اس امّت کو ‘‘خیر ِامّت ’’ کے لقب سے نوازا گیا۔

انبیاء علیہم السّلام اور دعوت و تبلیغ:
اللہ تعالی نے حضرات انسان کو اس روئے زمین پر پیدا کرکےیوں بے کار نہیں چھوڑا؛ بل کہ ان کی ہدایت و رہنمائی  کے لیے وقفے وقفے سے ہر زمانہ میں، ہر جگہ اور خطہء ارضی پر انبیاء و رسل ـ علیہم السلام ـ کو صحف و کتب کے ساتھ مبعوث فرماتا رہا۔ قرآن کریم کہتا ہے: ‘‘لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٌ۔’’ (سورہ رعد، آیت: ۷) ترجمہ: ‘‘ہر قوم کے لیے ہادی ہے۔’’اور دوسری جگہ ارشادِ خداوندی ہے:‘‘و لِکُلِّ أُمَّۃٍ رَسُوْلٌ۔’’ (سورہ یونس، آیت:۴۷) ترجمۃ: ‘‘ہر امت کے لیے رسول ہے۔’’ چنانچہ انبیاء و رسل ـ علیہم السلام ـ نے اپنی اپنی قوم میں، اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی، اللہ کے احکام ، ان تک پہونچایا، ان کو برائیوں سے روکا اور اچھے کاموں کے کرنے کا حکم دیا۔

اللہ  تعالی نے سب سے اخیر میں جناب محمّد عربی ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو آخری نبی و رسول بنا کر بھیجا اور ان کی ہی ذاتِ اقدس پر نبوت و رسالت کا یہ مبارک سلسلہ ختم ہو گیا۔ انؐ کے بعد اب تک نہ کوئی نبی و رسول آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ارشاد ربانی ہے: ‘‘مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔’’ (سورۃ احزاب، آیت: ۴۰) ترجمہ: ‘‘محمد  تم میں سے کسی کے باپ نہیں؛ لیکن وہ اللہ کے بندے اور خاتم النبیین ہیں۔’’ جناب نبی کریم ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو اللہ تعالی نے کسی ایک قوم یا ملک کا نبی و رسول بنا کر نہیں بھیجا؛ بل کہ ساری دنیا میں اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کی پیغام رسانی کے لیے بھیجا۔ قرآن کریم نے صاف لفظوں میں اس حقیقت کا یوں اعلان کیا ہے: ‘‘قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ’’(سورۃ اعراف: ۵۸) ‘‘کہہ دیجئے! اے انسانو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔’’ رسول اللہ ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ نے اپنے منصب نبوت اور عہدہ رسالت کو بخوبی نبھایا، اللہ کے بندے کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی اور ایک بہت بڑی تعداد کے قلوب کو شمع ایمان سے منور کرکے، گوشہ اسلام میں داخل کردیا۔ آپ ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کی وفات کے بعد صحابہ کرام ــرضی اللہ عنہمــ نے دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلایا۔

امت محمدیہ اور دعوتی مشن:
یہ امت محمدیہ اس خدائی ارض پر کسی سبزہ خود رو کی طرح نہیں ہےاور نہ یونہی پیدا کی گئی ہے؛ بل کہ اللہ سبحانہ و تعالی کو، اس دین کو قیامت تک باقی رکھنا تھا اور انبیاء و رسل ـ علیہم السلام ـ کا سلسلہ بھی آپ کی مبارک ذات پر ختم کردیا؛ اس لیے اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے دنیا کی قیادت و سیادت، قوم و ملت کی رہنمائی و نگرانی اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فريضہ کو انجام دینے کے لیے اس امت کو پیدا فرمایا۔ اسی کام و عمل اور فريضہ کی وجہ سے اللہ نے قرآن کریم میں اس کو خیر الامم کے معزز لقب سے خطاب فرمایا، ارشاد خداوندی ہے: ‘‘کُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ۔’’ (القرآن: سورۃ آل عمران: ۳، آیۃ: ۱۱۰)  ترجمہ: ‘‘تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو بُرے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر۔’’

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی ثمّ پاکستانیؒ رقم طراز ہیں: ‘‘اے مسلمانو! خدا تعالی نے تم کو تمام امتوں میں بہترین امت قرار دیا ہے۔ اس کے علم ازلی میں پہلے سے یہ بات مقدر ہو چکا تھا، جس کی خبر بعض انبیائے سابقین کو بھی دیدی گئی تھی کہ جس طرح نبی آخر الزماں ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ سب نبیوں سے افضل ہوں گے، آپ کی امت بھی جملہ امت و اقوام پر سبقت لے جائے گی؛ کیوں کہ اس کو سب سے اشرف و اکرم پیغمبر نصیب ہوگا۔ ادوم و اکمل شریعت ملےگی۔ علوم و معارف کے دروازے ان پر کھول دیے جائیں گے۔ ایمان و عمل اور تقوی کی تمام شاخیں اس کی محنت اور قربانیوں سے سر سبز شاداب ہوںگی۔ وہ کسی خاص قوم و نسب یا مخصوص ملک و اقلیم میں محصور نہ ہوگی، بل کہ اس کا دائرہ عمل سارے عالم کو اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہوگا۔ گویا اس کا وجود ہی اس لیے ہوگا کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور جہاں تک ممکن ہو انہیں جنت کے دروازوں پر لا گھڑا کرے۔ منکر (برے کاموں) میں کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ، فسق و فجور اور ہر قسم کی بد اخلاقی اور نا معقول باتیں شامل ہیں۔ ان سے روکنا بھی کئی طرح سے ہوگا۔ کبھی زبان سے، کبھی ہاتھ سے، کبھی قلم سے، کبھی تلوار سے، غرض ہر قسم کا جہاد اس میں داخل ہوگیا۔ یہ صفت جس قدر عموم و اہتمام سے امت محمدیہ میں پائی جاتی ہے، پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔’’ (تفسیر عثمانی)

آج جب سوسائٹی اور معاشرہ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ اولاد آدم کا ہر قدم غلط اور ہر لفظ غیر مناسب ہے، ہر طرح کی برائیوں میں ملوث ہے، شرک و کفرکی دلدل میں پھنسی ہے، بدعات و خرافات ، ان کی زندگی کا محبوب مشغلہ ہے، رسم  و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور رشوت خوری، فریب دہی، جعل سازی اور خیانت  جیسے جرائم کے ارتکاب پر آمادہ ہے اور سب سے افسوس کی بات یہ کہ کار نبوت کی حامل خیر الامم جسے گم گشتہ راہ لوگوں کو صراط مستقیم پٹری پر لانے کے لیے ذمے داری تفویض کی گئی تھی اور مسیحا کی حیثیت سے بھیجا گیا تھا، وہ خود ہی بیمار ہو چکی ہے؛ اس لیے اس بیمار حال امت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مرض سے شفایاب ہو کر، فرمان خداوندی کی اہمیت ، خصوصیت اور فضیلت کو سمجھے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم )، تابعین عظام، ائمہ مجتہدین، اور سلف و صالحین کی طرح خلق ِخدا کو بندوں کی بندگی کےبجائےاللہ کی غلامی و پیروی کا درس دے، مختلف باطل مذاہب و ادیان میں بھٹکنے کے بجائے دین اسلام (جو عین دین فطرت ہے) کا سبق سکھائے اور دنیا کی تنگ کوٹھری کے حرص و لالچ کے بجائے جنت کے محلات اور حور و قصور کی ترغیب دے؛ تب یہ خیر امت اپنے مشن کو رو بہ عمل لانے والی ہوگی اور یہی اس سے مطلوب و مقصود ہے۔

علمائے کرام کی دوہری ذمے داری:
          حضور پاک   ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ نے فرمایا: ‘‘إِنَّ العُلماءَ وَرَثۃُ الأنبیاءِ، و إِنَّ الأنبیاءَ لم یُوَرِّثُوا دِینارًا و لا دِرھمًا؛ و إنَّما ورّثوا العلمَ؛ فمن أَخَذَ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافرٍ۔’’ (مشکاۃ، ج: ۱، ص: ۳۴) ترجمہ: ‘‘یقینا علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء دینار و درہم کا وارث نہیں بناتے؛ بل کہ وہ علم ہی کا وارث بناتے ہیں؛ لہذا جس شخص نے اسے حاصل کرلیا، اس نے ایک بڑا حصہ حاصل کرلیا۔’’ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ علماء انبیاء ــعلیہم السلام ــکے علمی وارث ہیں؛ لہذا دینِ اسلام کی نشرو اشاعت، افرادِ امت کو اچھے کاموں کی رہنمائی اور برے کاموں سے روکنا اور اللہ سبحانہ و تعالے کے احکام کی اطاعت اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تبلیغ کرنا: یہ تمام چیزیں علماء کرام کی ذمّےداریوں میں شامل ہیں۔ اس حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے کہ علماء کرام کی یہ دوہری ذمّے داری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں تا قیام قیامت‘‘امت محمدیہ’’ کو اسلام و ایمان سے روشناس کرائیں اور جو لوگ پیغام اسلام کے حوالے تشنہ لب ہیں ، ان کی تشنگی بجھائیں۔ اگر کوئی دولت ایمان سے مالا مال ہے  اور فرائض و واجبات ، اعمال صالحہ، تقوی و پرہیزگاری میں کوتاہی کرتا ہی تو اسے اس طرف بھی توجہ دلائی جائے۔

دعوت و ارشاد کے طریقے:
          کار ِ دعوتِ دین جس قدر اہم اور ضروری ہی اسی طرح حکمت و دانائی، دستور العمل اور طور و طریقے کا متقاضی بھی ہے؛ چنان چہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء و رسل  ــعلیہم الصلاۃ و السلام ــ کو مختلف مواقع سے اس کے اصول و ضو ابط سکھلائے، جسے آج امت کے دعاۃ و مبلغین کے لیے بھی اپنانا ضروری ہے۔  اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول محمد ــ صلی اللہ علیہ وسلم ــ کو دعوت و تبلیغ کا طریقہ سکھلاتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ‘‘ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ’’ (سورہ  نحل، آیت: ۱۲۵) ترجمہ: ‘‘بلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو۔’’ حضرت مفتی شفیع صاحبؒ آیت کریمہ مذکورہ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ‘‘آیت مذکورہ میں دعوت کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہے: اول: حکمت، دوسرے: موعظت اور تیسرے: مجادلہ بالتی ھی احسن۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایاکہ یہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بناء پر ہیں۔ دعوت بالحکمہ، اہل علم و فہم کے لیے، دعوت بالموعظہ، عوام کے لیے، مجادلہ ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوں، یا جو عناد اور ہٹ دھرمی کے سبب با ت ماننے سے منکر ہوں۔’’ مفتی صاحبؒ مزید رقم طراز ہیں: ‘‘دعوت الی اللہ در اصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے، امت کے علماء اس منصب کو ان کے نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے کرتے ہیں۔ تو لازم ہے کہ اس کے آداب  اور طریقے بھی انہیں سے سیکھیں، جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے، وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ و جدال کا موجب بن جاتی ہے۔(معارف القرآن، ج: ۵، ص: ۱۰ـ۴۰۹)

اللہ تعالی نے اپنے محبوب ترین بندے اور جلیل القدر نبی، حضرت موسی  ــعلیہ السلام ــ کو جب فرعون کو دعوت دینے کے لیے بھیجا تو ان کو یہ حکم فرمایا: فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى’’ (سورہ طٰہ، آیت : ۴۴) ترجمہ:‘‘سو کہو اس سے بات نرم شاید وہ سوچے یا ڈرے۔’’ اس آیت کریمہ میں  فرعون جیسے ظالم و جابر اور جفا کار کے پاس بھی دعوت کے وقت نرم گفتاری، رقت انگیزی، سلیقہ مندی اور خوش آہنگی کا درس دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت مخاطب کے اعتبار سے دی جائے گی اور انبیاء ــعلیہم السلام ــکے طریقے کو پیش نظر رکھ کر دعوت دی جائے گی، اگر اس راستے سے ذرہ برابر بھی بے توجہی کی گئی، تو داعی ناکام و نا مراد اور بے نیل و مرام رہے گا اور اس کی دعوت بے کار اور رائیگاں ہوگی۔

ترک دعوت تباہی کا پیش خیمہ:
          آج یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر مسلمان نان شبینہ کے محتاج ہیں، قتل و غارت گری کے شکار ہیں، ان پر ظالم و جابر حکمراں مسلط ہیں، ان کے ملکوں پر غاصبانہ قبضہ ہو رہا ہے، اپنے وطن میں رہتے ہوئےغیروں سے خائف ہیں، عزیز کو ذلیل کیا جا رہا ہے، مقدس مقامات: مساجدو خانقاہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے اور مدارس و مکاتب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سب تباہی و بربادی کا سلسلہ لگا ہوا ہے اور مسلمان دفاعی قوت سے بھی محروم ہے، چہ جائے کہ اپنے دشمن کو مغلوب کرسکے۔ اس کی بنیادی وجہہ اور مرکزی سبب یہ ہے کہ مسلمانان عالم نے دعوت و تبلغ جیسی اہم ذمے داری کو ترک کردیا ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ ترک دعوت کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:‘‘امت محمدیہ جب اس کام کو چھوڑ دےگی تو سخت مصائب و آلام اور ذلت و خواری میں مبتلا کردی جائےگی اور ہر قسم کی غیبی نصرت و مدد سے محروم ہوجائیں گی، اور یہ سب کچھ اس لیے ہوگا کہ اس نے اپنے فرض منصبی کو نہیں پہچانا اور اس کی قدر نہ کی اور جس کام کے انجام دہی کی ذمہ داری تھی اس سے غافل رہی اور اس کو بھلائے رکھنے سے سستی و کاہلی عام ہوجائےگی، گمراہی و ضلالت کی شاہراہیں کھل جائےگی، آپس میں پھوٹ پڑجائےگی، آبادیاں ویران ہوجائیں گی۔ مخلوق تباہ و برباد ہوجائےگی۔ اور یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن اس تباہی و بربادی کی خبر اس وقت ہوگی، جب میدان حشر میں خدا کے سامنے باز پرس کے لیے بلاجائےگا۔ (قرآنی افادات، ص: ۹۳)

حرف آخر:
          اس مضمون میں جو کچھ بیان کیا گیا اس سے یہ بات واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ اس امت کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت اور اعانت طلب کرتے ہوئے دعوت ِ دین کے کام کو مضبوطی سے پکڑ لے، اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کی حفاظت کا فرض ادا کرے اور اس سے چشم پوشی سی اجتناب کرے، نہیں تو یہ کوئی دشوار کام نہیں کہ اللہ تعالی اپنے دین حنیف کی نشر و اشاعت اور حفاظت  و صیانت کے لیے کسی دوسرے کومنتخب کرکے ہمیں اپنے دربار سے گزشتہ امم و اقوام کی طرح مردود و مطرود کردے اور پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں؛ کیوں کہ ہم اس ذات کے محتاج ہیں، وہ ہمارا محتاج نہیں؛ بل کہ وہ غنی اور بے نیاز ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے: ‘‘يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ۔ إِن يَّشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ۔ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزٍ’’ (سورہ فاطر، آیت: ۱۵، ۱۶، ۱۷) ترجمہ: ‘‘اے لوگو تم ہو محتاج اللہ کی طرف اور اللہ وہی ہے بے پروا سب تعریفوں سے، اگر چاہے تم کو لے جائے اور لے آئے ایک نئی خلقت اور یہ بات اللہ پر مشکل نہیں۔’’


(مضمون نگار ،مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی، دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

No comments: