Monday, May 23, 2016

مسجد اقصی پر حالیہ اسرائیلی حملہ اور عالم اسلام


مسجد اقصی پر حالیہ  اسرائیلی حملہ اور عالم اسلام

تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی


مسجد اقصی کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے؛ بل کہ یہ پورے عالم اسلام کا قضیۂ ہے۔ مسلمانان عالم شاید یہ بھول رہے ہیں کہ مسجد اقصی قبلہ اوّل ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد، جس مسجد کا نمبر ہے وہ مسجد اقصی ہے۔ یہ وہی مسجد اقصی ہے، جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے رات میں لائے گئے تھے۔ اسی مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء (علیہم السلام) کی امامت کی تھی۔ پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا مبارک سفر شروع ہوا تھا۔ یہ وہی مسجد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ،" کہ ایک شخص کی  مسجد اقصی کی ایک نماز (ثواب میں) پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث: 1413)
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد، عالم عرب ٹکڑوں میں تقسم ہوگیا۔ پھر 14/مئی 1948 کا وہ بدترین دن بھی آیا، جس دن قلب عرب میں، فلسطین کی 55 فیصد اراضی پر زبردستی "اسرائیل" کے نام سے ایک آزاد، غاصب اور ناجائز صہیونیت زدہ یہودی ریاست کے قیام کا اعلان ہوا۔ پھر اسرائیل کی طرف سے بار بار تھوپی جانے والی جنگ و جدل کے نتیجے میں، آج فلسطین نام کی ریاست کے لیے دس فی صد زمین بھی باقی نہیں رہی؛ بل کہ فلسطین اپنے وجود کی جنگ لڑرہا ہے اور وہ "اقوام متحدہ"  جس کی "جنرل اسمبلی" نے 1947 میں زبردستی فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا، آج خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ بہت احسان کیا تو ایک قرارداد منظور کروادیا جسے اسرائیل اپنے جوتوں کی نوک سے روند کر اپنی تخریبی کاروائی اور دہشت گردی میں منہمک رہتا ہے۔
اسرائیل کے قیام کے بعد سے آج تک کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان جنگوں میں لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہوا، ہزاروں شہروں  اور گاؤں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے اور ہر جنگ میں فلسطینی اراضی پر اسرائیلیوں نے قبضہ کیا ہے۔ 1967 کی چھ روزہ عرب-اسرائیل جنگ کے میں، اسرائیل نے ناجائز طریقے سے عرب کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا، جس میں مشرقی یرشلم بھی شامل ہے، جہاں مسجد اقصی واقع ہے۔ اس وقت سے مسجد اقصی سے اسرائیل کی نظر ہٹی نہیں ہے۔ اقصی پلازا پر یہودیوں کےلیے عبادت کی اجازت نہیں تھی۔ اب شدت پسند صہیونیوں کا اسرائیلی حکام سے یہ مطالبہ ہے کہ ان کو اقصی کے باہر والے کمپاؤنڈ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ یہ بیت المقدس کے مسلمانوں کو گراں گزرتا اور اس سے وہ مشتعل ہوتے ہیں اور یہ مشتعل ہونے کی بات بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکام کا بھی یہی ارادہ ہے کہ "مسجد اقصی" کو جلد از جلد اپنی نام نہاد عبادت گاہ کی میں تبدیل کردیں۔
یہودیوں کے نئے سال کی آمد کے موقع سے، 13/ستمبر 2015 کو فجر کے وقت، غاصب ریاست اسرائیل کی پولیس اور فوج نے مسجد اقصی کے احاطہ میں داخل ہوکر، آنسوں گیس اور دستی بم کی مدد سے یورش اور ہنگامہ شروع کردیا۔ پھر انھوں نے "مسجد اقصی" پر حملہ کرکے جانماز کو جلایا، توڑ پھوڑ کیا، عمارت کو نقصان پہنچایا اور درجنوں فلسطینیوں کو زخمی کیا۔ دو سیکوریٹی گارڈس کو گرفتار کیا؛ جب درجنوں نمازیوں کو قید کیا۔ 50/سال سے کم عمر کے ان نمازیوں کو جو "مسجد اقصی" میں نماز کےلیے جارہے تھے، ان کو جانے سے روک دیا۔ یہیں پر بس نہیں کیا؛ بل کہ اسرائیلی فوجیوں نے  مسجد کے اندرونی حصہ میں دھاوا بولتے ہوئے وہاں موجود درجنوں نمازیوں کو طاقت کے بل پر مسجد سے باہر نکال دیا۔ پھر اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کے بعد، مسجد بند کردی اور نمازیوں و عبادت گزاروں کو احاطۂ مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ لوگ پتھراؤ اور سنگ باری کر رہے تھے، جس کے جواب میں یہ سب ہوا۔ اس حملے کے بعد، اسرائیلی فوجیوں نے اب تک تقریبا 47/فلسطینیوں کو حراست میں لے رکھا ہے جس میں کئی معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
الجزیرہ کے نمائندہ اسکوٹ نے اس حالیہ حملے کے سلسلے میں کہا ہے کہ کچھ یہودی جماعتیں جن کو مسجد اقصی میں جانے اور عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہ وہاں داخل ہوگئیں، جو اوّلا تصادم و ہنگامہ کا سبب بنی۔ پھر اسرائیلی پولیس اور فوجیوں نے حملہ شروع کردیا۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق شروع میں کچھ قدامت پرست نو آباد یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کو اشتعال دلایا اور برانگیختہ کیا جب کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کے لیے مسجد جارہے تھے۔ پھر اسرائیلی پولیس اور فوج نے ان یہودیوں کی مدد کرتے ہوئے، حملہ شروع کردیا۔
وجہ جو بھی رہی ہو؛ لیکن پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ اسرائیلی پولیس اور افواج ہمیشہ جارحانہ، ظالمانہ اور دہشت گردانہ کاروائی میں یقین رکھتی ہے، جیسے وہ ماضی میں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل اور لاکھوں کے زخمی کرنے کی مجرم ہیں، اس بار بھی اس حملہ میں وہ ہمیشہ کی طرح مجرم ہیں۔ رہی بات قدامت پرست نو آباد یہودیوں کی؛ تو وہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کو بے لگام ہوکر سب کچھ کرنے کی اجازت ہے؛ کیوں کہ اسرائیلی حکام ان کے خلاف کوئی اکشن نہیں لے سکتے؛ بل کہ یہ کہنا چاہیے کہ انھیں اسرائیل حکومت کا کھلا تعاون حاصل ہے۔
جہاں تک فلسطینیوں کی طرف سے پتھراؤ کی بات ہے؛  تو یہ دنیا کو بیوقوف بنانے کا انوکھا طریقہ ہے۔ وہ بندوق، پستول، مشین گن، ٹینک اور طرح طرح کے مہلک ہتھیاروں اور بموں سے حملہ کریں؛ تو دفاع اور اگر کوئی اپنی جان، اپنے گھر اور اپنی عبادت گاہ کی حفاظت کےلیے سنگ باری اور پتھراؤ کرے؛ تو ظالم اور دہشت گرد ٹھہرے! یہ کہاں کا انصاف ہے! ابھی کل کی بات ہے کہ غاصب اسرائیل کی حکومت نے پولیس اور دیگر سیکوریٹی اداروں کے اراکین کو پتھراؤ کرنے والے فلسطینیوں پر گولی چلانے کی عام اجازت دے دی ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ نیا قانون اسرائیلی سیکوریٹی اہل کاروں کو بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا نیا لائسنس دینے کے مترادف ہے۔ مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو صبح و شام ٹھکرانے کے عادی لوگ، ان انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیان پر کب توجہ دے سکتے ہیں؟!
اس حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد جہاں ایک طرف کچھ انسانیت نواز لوگوں نے سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج درج کرایا، وہیں دوسری طرف مسلم حکمرانوں نے بھی اس ظالمانہ تخریب کاری اور جارحیت و بربریت پر بر وقت اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی کاروائی کے بعد، اگر تمام مسلم ممالک کے حکمراں بر وقت اپنی زبان کھولنے کے عادی ہوجائیں؛ تو امید ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ آئے گا اور اسرائیلی حکومت کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے بار بار اس کے ردّ عمل پر ضرور غور کرے گی۔
سعودیی عرب کے حکمراں، خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبد العزیز (حفظہ اللہ) نے کھل کر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ سعودی بادشاہ نے اس خطرناک اسرائیلی چڑھائی کی بھر پور مذمت کی۔ انھوں نے مسجد اقصی میں حملے کے بعد اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سیکوریٹی کونسل کے ممبران کو فوری سخت اقدام اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اس معاملہ کے حل کے لیے بین الاقوامی لیڈران سے بر وقت سنجیدہ کوشش کرنے اپیل بھی کی اور سیکوریٹی کونسل سے درخواست کی کہ اس تصادم و شورش کو ختم کرنے کےلیے فوری مداخلت کرے۔ انھوں کے کہا کہ عبادت گزاروں پر حملہ کرنا احترام مذاہب کے خلاف ہے جو دنیا میں شدت پسندی کو بڑھاوا دیگا۔ خادم حرمین شریفین نے باضابطہ فون کرکے برطانوی وزیر اعظم کیمرون، روسی صدر پتن اور فرانس کے صدر ہولانڈ سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیلی حملے کے خلاف سنجیدہ کوشش کریں!
اسی طرح اردن کی حکومت نے بھی اسرائیلی فوجیوں کے اس حملے اور فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ کاروائیوں کی مذمت کی ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قبلہ اوّل کا دفاع امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مسجد اقصی ماضی کی بنسبت اس وقت کہیں زیادہ خطرات سے دو چار ہے۔ اردن کی حکومت نے اس بات کو واضح طور پر کہا ہے کہ اب یہودی شرپسندوں کے ہاتھوں مسجد اقصی کی بے حرمتی اور اسرائیلی افواج کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں پر طاقت کے بے جا استعمال کے بعد خاموش رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
عرب لیگ نے بھی بروقت قدم اٹھایا ہے جو قابل ستائش ہے۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس 27/ستمبر کو نیو یارک میں ہونا طے پایا ہے۔ عرب لیگ کے سکریٹری جنری: نبیل العربی نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں فلسطنیوں پر اسرائیلی فوج کی ظالمانہ و دہشت گردانہ کاروائیوں، مسجد اقصی کے خلاف صہیونی سازشوں، اقصی کی مسلسل بے حرمتی کو روکنے پر غور و خوض کیا جائے گا۔
عرب لیگ کی طرح اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او، آئی، سی (Organization of Islamic Cooperation) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہنگامی طور پر 30/ستمبر اور یکم اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے۔ او، آئی، سی کے سکریٹری جنرل، جناب ایاد امین مدنی نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں 57/مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے اور تمام ممبران اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔
اللہ تعالی "عرب لیگ" اور "او، آئی، سی" کے ممبران کے دل میں کچھ ایسی باتیں ڈال دے کہ جس میں "قبلۂ اوّل" اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں خیر کا پیش خیمہ ہو۔ نہیں تو یہ فلسطینی اپنے ملک اور گھر میں رہ کر کب تک پناہ گزینوں اور قیدیوں کی سی زندگی گزاریں گے۔ آج کی تاریخ میں فلسطینیوں کی حیثیت پناہ گزینوں کی سی ہوگئی ہے؛ بل کہ کچھ اعتبار سے ان سے بھی بد تر ہے۔ ان کو کھانے کے لیے اناج کی سہولیت نہیں، پینے کے لیے صاف و شفاف پانی فراہم نہیں، مہینوں مہینوں تک بجلی کا انتظام نہیں، ان کے بچوں کےلیے کوئی عمدہ تعلیمی ادارہ نہیں۔ اگر بڑی محنت و مشقت اور قربانی کے بعد، کچھ کرتے بھی ہیں؛ تو ایک دن کی اسرائیلی دہشت گردانہ بمباری سے سب کچھ زمین بوس ہوجاتا ہے۔
ان مظلوم فلسطینیوں کو جس قوم کا سامنا ہے وہ نہایت ہی سرکش اور ضد و عناد سے بھری قوم ہے۔ اس قوم  کی سرشت  (Nature) میں یہ ہے ہی نہیں کہ وہ حق کو بخوشی قبول کریں؛ بل کہ ان کو اپنے مزعومہ "عظیم اسرائیل" کے خواب شرمندۂ تعمیر کرنے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس بے بہبود قوم کے ضد و عناد کے حوالے سے قرآن کریم میں فرمایا ہے: "وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ۔" (سورہ بقرہ، آیت: 120) ترجمہ: "اور ہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہود اور نصاری، جب تک تم تابع نہ ہو ان کے دین کا۔"  یعنی  یہود و نصاری اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ ان کو امرحق سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ اپنی ضد پر اڑے رہیں گے اور کبھی بھی حق کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔ ہاں، ایک صورت یہ ہے کہ آپ ان کے تابع ہوجائیں؛ تو ہی وہ آپ سے خوش ہوں گے؛ جب کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ ان کے تابع ہوجائیں؛ لہذا ان سے موافقت کی امید رکھنا بیکار کی بات ہے۔ جناب محمد رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم- کے زمانے میں جن یہودیوں کی یہ حالت ہو، آج ان کی اولاد سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ حق کو قبول کرلیں گے اور ان کے ساتھ مذاکرات کیا جائے!
اس حقیقت کے باوجود کچھ ذوالوجہین قسم کے لوگ ہمیشہ ان صہیونیت زدہ یہودیوں سے مذاکرات کے میز پر بیٹھ کر قضیۂ فلسطین اور قضیۂ مسجد اقصی کا حل نکالنے کی تلقین کرتے نہیں تھکتے ہیں؛ جب کہ یہ ایسی قوم ہے جو مذاکرات کی زبان نہیں سمجھتی۔ یہ بزدل قوم کبھی بھی امن پروگرام کو منظور نہیں کریگی۔ پھر ان سے مذاکرات کس لیے؟ ابھی اسی حالیہ حملہ کا ایک شرمناک واقعہ پڑھیے! اس حملہ کے موقع سے ناپاک اسرائیلی وزیر زراعت ان درجنوں شدت پسند صہیونیوں کے ساتھ تھے، جو مسجد میں موجود نمازی، طلبہ اور معصوم بچوں کو بغیر کسی رحم و کرم کے زخمی کرکے مسجد سے باہر جانے پر مجبور کررہے تھے۔ جس ملک کا وزیر اور منسٹر عام شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ ہوکر معصوموں پر ظلم و زیادتی کو روا رکھے، وہاں کی حکومت سے مذاکرات اور ڈائیلاگ چہ معنی دارد۔ قضیۂ فلسطین اور مسجد اقصی کا واحد حل یہ ہے کہ اہالیان فلسطین کو مکمل آزادی سے رہنے کی اجازت  دی جائے، فلسطین فلسطینیوں کے حوالے کیا جائے، اسے مکمل ریاست کا حق دیا جائے اور مسجد اقصی کو مسلمانوں کی عبادت گاہ سمجھ کر مسلمانوں کے حوالے کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو دنیا کی کوئی طاقت قضیۂ فلسطین اور مسجد اقصی کا حل پیش نہیں کرسکتی۔  ٭٭٭
(بہ تاریخ: 22/ستمبر 2015)
(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

دو افسوسناک حادثے اور سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش


بسم اللہ الرحمن الرحیم
دو افسوسناک حادثے اور سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش

تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی


وہ مسلمان جو اللہ کے مہمان بن کر، حج کی نیت سے اس سال مکہ مکرمہ گئے تھے، ان میں سے کچھ لوگوں کو دو مختلف حادثے میں شہادت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک مومن کے لیے شہادت کی موت سے بہتر کوئی موت نہیں ہوسکتی۔ صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم- تمنا کرتے تھے کہ وہ شہادت کی موت پاکر، اپنے رب کی نظر میں سرخرو ہوجائیں۔ شہادت کی موت ایسی موت ہے کہ اس کے لیے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمنا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں: (ترجمہ:) "اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں تمنا کرتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں لڑوں، پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کردیا جاؤں (پھر لڑوں) پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کردیا جاؤں (پھر لڑوں) پھر قتل کردیا جاؤں"۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 7227)

اس سال (1436 ھ=2015 ء) کے حج کے دوران، حجاج کرام کے ساتھ دو غمناک حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ 11/ستمبر کو عصر و مغرب کے دوران، اس وقت پیش آیا، جب موسم نہایت ہی خراب تھا، آندھی طوفان بھی بہت زبردست طریقے آیا۔ اللہ تعالی کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ تعمیراتی کام کے لیے استعمال ہونے والی کرین پر بجلی گری، پھر وہ کرین "مطاف" کے ایریا میں چھت کو توڑتے پھوڑتے زمین پر آگرا۔ پھر منٹوں میں کئی درجن حجاج کرام شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، 107/افرادشہید اور 238/ لوگ زخمی ہوئے۔

دوسرا حادثہ 24/ستمبر کو "جمرات کی رمی" (کنکری مارنے کے عمل) کے دوران افرا تفری اور بھگدڑ مچنے کی وجہ سے، منی کی 204 نمبر شاہراہ پر پیش آیا۔ ان دنوں مکہ مکرمہ میں گرمی شدید ہے؛ لہذا حکومت نے پیشگی یہ اطلاع کردی تھی کہ حجاج کرام کنکری مارنے کا عمل عصر کے بعد کریں۔ اب جب حجاج کنکریاں مار رہے تھے، کچھ کنکریاں مارنے جارہے تھے اور کچھ کنکریاں مارکر واپس آرہے تھے کہ اچانک ایک گروپ نے موقع اور جگہ کے اعتبار سے کچھ عجیب و غریب ٹائپ کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ وہ گروپ صرف نعرہ بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا؛ بل کہ یک طرفہ راستہ(One Way)  جس سے صرف جانے کی ہی اجازت تھی، اس یک طرفہ راستہ سے ہی مخالف سمت میں آنا شروع کردیا۔ پھر بھگدڑ اور افرا تفری  (Stampede)کی صورت پیدا ہوگئی۔ حجاج ہڑبڑا کر دوڑنے لگے۔ ہر  شخص اپنی جان کی حفاظت کے لیے بھاگنے لگا؛ چناں چہ اس حاثہ میں سعودی وزارت صحت کی رپورٹ کے مطابق اب تک 769 /حجاج کے شہید ہونے؛ جب کہ 934  سے زائد افراد کے  زخمی ہونے کی خبر ہے۔

ان دو حادثوں کے بعد، بہت سے لوگوں نے غم و اندوہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شہداء کے ورثاء کو تعزیت پیش کی اور سعودی حکومت کی حجاج کرام کے حوالے پیش کی جانے والی سہولیات و انتظامات کو سراہتے ہوئے ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی۔ مگر کچھ ناعاقبت اندیش اور عناد و تعصب کا عینک لگائے لوگ ان حادثے کو سعودی حکومت کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی نبھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ایرانی حکومت اور کچھ ایران نوازلوگ سر فہرست ہیں؛ تا آں کہ آج نیو یارک میں، ایرانی صدر حسن روحانی نے یہاں تک سوال کردیا کہ کیا سعودی حکومت پر حج کی ذمے داری نبھانے کے  سلسے میں اعتماد کیا جاسکتا ہے؟

جو لوگ سعودی حکومت کی اہلیت اور انتظام و انصرام کی صلاحیت پر انگلی اٹھارہے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ کسی کے گھر دس مہمان آئے ہوں اور ان کے لیے دس کرسیوں کا انتظام کرلیا اور ایک روم میں بیٹھا کر کھانا کھلا کر اور کبھی صرف پانی پر ہی اکتفا کرکے رخصت کردیا۔ حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد کم و بیش دو ملین (بیس لاکھ) ہوتی ہے، جہاں ہر ایک حج کرنے والا "ایک مخصوص عمل کےلیے، ایک محدود وقت میں، ایک مخصوص سمت میں ہی جاتے ہیں"؛ لہذا ایام حج میں حجاج کی آمد و رفت کو کسی دوسری تقریب اور دوسرے راستوں پر قیاس کرنا بالکل ہی غلط ہے۔ ایام حج میں حجاج کی خدمت اور ان کے رہنے سہنے اور ہر رکن  کی ادائیگی کےلیے آمد و رفت کا انتظام و انتصرام سنبھالنا کوئی معمولی بات نہیں۔ مگر جن کا منشا اور مقصد صرف سعودی حکومت کے ساتھ عناد و دشمنی ہو، تو ایسے لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور اس طرح کے غمناک اور افسوسناک واقعہ کو بھی ایک قضیہ بناکر اپنا سر اونچا کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے، جب کچھ ایسے لوگ بھی کسی ایسے قضیہ میں اپنی گندی زبان کو لگام نہیں دے پاتے اور کھل کر تنقیص کرتے ہیں، جن کا اس قضیہ اور مسئلہ سے کچھ لینا دینا ہی نہیں۔ چناں چہ اس "رمی جمرات" والے حادثے کے بعد، کچھ دہریہ اور ملحد قسم کے لوگوں نے حج کی مشروعیت پر ہی سوال اٹھانا شروع کردیا۔ ان میں سرفہرست ہندوستان کی سرزمین پر جلا وطنی کی زندگی گزار رہی بد بخت بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین بھی ہے۔ اس ناپاک عورت نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے فریڈم آف اسپیچ کی آڑ میں، اسلام مخالف اپنی گندی زبان اور غیر سنجیدہ قلم کا خوب استعمال کیا۔ اس حادثہ کے فورا بعد، اس نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کئی سارے ایسے ٹویٹس کی کہ مسلمانوں کے جذبات کو بھرکانے اور ان  کوورغلانے کے لیے کافی تھے اور کچھ عقل کے دشمن لوگ اس کی ہاں میں ہاں بھی ملاتے رہے۔ اس حادثہ کے بعد سے تسلیمہ نسرین نے مسلمانوں، حج اور اللہ تعالی کی پاک ذات کے حوالے جو کچھ ٹویٹ کیا ہے، اسے میں یہاں نقل کرنے سے قاصر ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے!

وہ لوگ جو ہر موقع سے اپنی دشمنی اور عناد کی وجہ سے مخصوص ذہنیت کے ساتھ ہر مسئلہ پر رائے زنی کے عادی ہیں، انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سعودی حکومت جس منظم و مرتب طریقے سے حج کا پروگرام انجام دیتی ہے، اسے خدائی مدد اور موجودہ حکومت کی حد درجہ دانائی ہی کہا جاسکتا ہے۔ جن کو اللہ تعالی نے حج کی سعادت سے سرفراز کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ الحمد للہ، سعودی حکومت کی طرف سے ارکان حج کی ادائیگی کے لیے جو سہولیات دی جاتیں ہیں اور انتظامات کیے جاتے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ حجاج کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت فضا میں ہیلی کاپٹرس گشت کرتے رہتے ہیں، ہر چند قدم پر رہنمائی کےلیے بڑی بڑی اسکرینیں اور بورڈس لگے ہوتے ہیں، ہر سمت میں جانے کے لیے درجن سے بھی زیادہ کشادے راستے کی تعمیر، پھر ہر طرف مدد کے لیے دفاتر کا قیام، ہر طرف موجود حفاظتی دستے ہوتے ہیں جو ضرورت کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ حجاج کرام کی خدمت کے حوالے سےسعودی حکومت اتنا اچھا انتظام کرتی ہے کہ ان کی زبانیں حکام سعودیہ عربیہ کے لیے دعا کرتی رہتی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ سعودی حکومت کو اس حوالے سے طعن و تشنیع کرے؛ تو میرے خیال میں وہ شخص عقل و خرد سے خالی ہوگا۔

کرین حادثہ کے فورا بعد کچھ لوگوں نے عوامی رابطے کی سائٹس پر شہید ہونے والوں کے وارثین کو "معاوضہ" (Compensation) دینے کی بات کرنے لگے اور ان کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے گزر گئے ہیں، مگر اب تک سعودی حکومت نے معاوضہ کا اعلان نہیں کیا ہے؟! یعنی ان کی نظر میں یہ حجاج جن کا انتقال ہوا وہ گویا خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبد العزیز (حفظہ اللہ)  کا کام کرنے گئے تھے؛ لہذا ان کی موت پر ان کے فیملی ممبرس کو معاوضہ دیا جائے۔ اس طرح کی موت میں معاوضہ کی بات کہاں سے آگئی؟! مگر اللہ تعالی نے ان لوگوں کی زبان ایسی بند کروائی کہ شاید اب اس طرح کے موقع سے ان کی زبان کھلے ہی نہیں۔ ہوا یہ کہ سعودیہ کے صالح اور متواضع حکمراں، خادم حرمین شریفین نے بطور معاوضہ اتنی بڑی رقم کا اعلان کیا کہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو۔ ملک سلمان بن عبد العزیز نے ہر شہید ہونے والے کے کنبہ کو ایک ملین (دس لاکھ) سعودی ریال دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ ان کی فیملی کے دو افراد کو شاہی مہمان کی حیثیت سے آئندہ سال حج کرانے کا بھی وعدہ کیا۔ یہ خادم حرمین شریفین کی ایسی فراخدلی اور سخاوت و فیاضی ہے کہ اس حوالے سے بہت ہی کم حکمراں  ان کے شریک و سہیم ہوں گے۔

اس طرح کے حادثات کو موضوع بناکر سعودی حکومت کے خلاف محاذ کھولنا کسی طرح بھی دانشمندی نہیں ہے۔ حج و عمرہ کے لیے جانے والے حجاج کے لیے "آل سعود  حکومت "نے شروع سے اب تک جو خدمات پیش کی ہیں، وہ آپ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اس میں کسی طرح کی بے جا تعریف و توصیف نہیں ہے۔ خاص طور پر جب سے ملک سلمان بن عبد العزیز  (حفظہ اللہ) نے حکومت کا باگ و ڈور سنبھالا ہے، اس وقت سے تو بہت سے ایسے مثبت فیصلے لیے گئے ہیں، جن کے اچھے اثرات نظر آنے شروع ہوگئے ہیں۔ ابھی چند ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور پولیس کے ہاتھوں مسجد اقصی اور فلسطینیوں پر ہوئے ظلم و جبر کے خلاف انھوں نے کھل کر اسرائیل کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سیکوریٹی کونسل کے ممبران کو فوری سخت اقدام اٹھانے کی اپیل کی ہے۔  اللہ تعالی ان کو ثابت قدم رکھے!

اس افسوسناک حادثہ کے حوالے سے حکومتی سطح پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ روزنامہ "الشرق الاوسط" نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ایرانی حج مشن کے ایک عہدیدار نے یہ اعتراف کیا ہے کہ "تقریبا تین سو ایرانی حجاج نے اسمبلی پوائنٹ سے متعلق ہدایات  (Instructions) پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے ان حاجیوں نے جمرات سے الٹے پاؤں واپسی کی کوشش کی، جو منی کی 204 نمبر شاہراہ میں حادثہ کا سبب بنی۔ اس حادثہ کے بعد کچھ ذی فہم لوگوں نے اس اندیشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہ حادثہ کسی سازش کا نتیجہ ہوسکتاہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ماضی میں کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ، سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی غرض سے ایسا کرچکے ہیں۔

        اب اگر اس طرح سے لوگ بدنظمی پیدا کریں؛ تو حکومت اور انتظام و انصرام سے اس کا کیا تعلق ہے! یہ تو لوگوں کی بے عقلی ہے کہ وہ ہدایات پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے؛ اس لیے جن ممالک سے لوگ حج کے لیے جاتے ہیں، ان ممالک کی حج کمیٹیوں کو چاہیے کہ حج کا تجربہ رکھنے والے حجاج اور ماہر معلمین کی نگرانی میں خوب سے خوب تر حج کے لیے جانے والے لوگوں کی تربیت کی جائے اور ان کو اس بات کی بھی ٹریننگ دی جائے کہ اگر خدا نخواستہ کوئی افراتفری کی صورت ہو، یا کہیں سے بھگدڑ کی اطلاع آئے تو وہ کیا کریں، خود کو کیسے کنٹرول کریں اور دوسرے حجاج کی کس طرح مدد کریں۔

        خیر جو لوگ ان حادثات میں شہید ہوئے ہیں، ان کے لیے اس بڑی کوئی اورسعادت نہیں ہوسکتی کہ اللہ کے مہمان ہونے کی حالت میں، احرام پہنے ہوئے اپنے ربّ کے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔ موت تو مومن کا تحفہ ہے۔ اللہ تعالی ان  شہداء کو جنت میں اعلی سے اعلی مقام عنایت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے! جن لوگوں کا آئندہ حج کے لیے جانے کا ارادہ ہو، ان کو اس بات پر پوری توجہ دینی چاہیے کہ حکومت کی طرف سے وضع کردہ اصول کی خلاف ورزی ہرگز نہ کریں، نہیں تو ایک شخص کی بے اصولی درجنوں لوگوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔   ٭٭٭

(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

Islamic Madrasas: Role and Importance



Islamic Madrasas: Role and Importance

By: Khursheed Alam Dawood Qasmi*
Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in
Introductory Words:
Thanks to the sincere efforts of Maulana Muhammad Qasim Nanautavi (1832-1879), a good number of Islamic Madrasas were founded following the establishment of Darul Uloom, Deoband (Est. 1866), in India, pre and post Indias freedom which are and were run with the contributions and donations of the Muslim community. Following the establishment of the British rule in India, all Islamic educational institutes were closed down because they were being run with munificent grants from the Mughal court and from Muslim nobles only. That was the reason; it had been decided at the time of foundation of Darul Uloom, Deoband that the entire financial burden of running Madrasa should be borne by the Muslims themselves.
Shedding light on the final collapse of the Mughal Empire and the ruin of the Islamic seminaries by the British rule in India with the events of 1857, ex- Mufti of Darul Uloom, Deoband, Mufti Muhammad Zafiruddin Miftahi (1926-2011) writes:
“…The educational institutions that had been imparting instruction to the Muslim youth in cities like Delhi, Lahore, Agra, and Jaunpur and similarly at many places in the provinces of Gujarat, Bihar, Madras and Bengal had all closed down after the establishment of British rule. This was mainly because they were being run with munificent grants from the Mughal court and from Muslim nobles. They also received financial aid from charitable trusts that had been founded in the past for this very purpose, and that had all stopped functioning or had been confiscated by the government after the establishment of British rule in India. (Darul Ulum Deoband: A Brief Account of its Establishment and Background, P.: 08)
Now, one can find a good number of Islamic Madrasas not only in India, Pakistan and Bangladesh; but even in the UK, USA, and many African and European countries, which follow the same syllabus and system of Darul Uloom, Deoband with little bit difference of the omission and addition into the curriculum and are run with the donations of the Muslims themselves to teach Islamic theology.
Muslims’ Current Situations:
There are a good number of Madrasas throughout the world, which are busy in spreading the Islamic messages and equip the Muslim kids and adults with Islamic theology. Though there is no official data available, but it is believed that there may be more than 50,000 Madrasas only in India. But after so many Madrasas, when you analyse the Muslims social and religious current situation, you will find that many of them are not aware of the real concept of Aqaaid (Believes), Ahkaam (rulings), Ma’amlaat (Dealings) Faraaidh (Obligations) etc. If one goes ahead and claims that in the country like India even a good number of Muslims dont know Shahaadtein (Islamic declaration of belief in the unity of Allah and Prophethood of Muhammad Sallallahu Aleihi Wa Sallam) properly, he will not be wrong.
The fact is that a Muslim as an individual must know Islam and its requirements as mentioned above to please his Creator, Allah in regard to his day-to-day affairs. The Muslims collectively, as being the best nation, must play a positive role in the society to spread the peace and convey the true messages of Islam to those who are unaware of. Because, this is the reason that Allah has addressed them in the Glorious Quraan as “You are the best Ummah (nation) ever raised for mankind. You bid the Fair and forbid the Unfair, and you believe in Allah.” (The Quran: Aal Imraan, Verse: 110)
Present problem is that when the Muslims themselves dont know believes, rulings, dealings, obligations etc., how can they be good Muslims and how can they convey the messages of Islam? We need to look into the main cause of the worst situation of Muslims. It’s a truth that most of the Muslim families don’t prefer Madrasas education. The students in Madrasas are commonly from few poor and middle class families. From upper class family, hardly one goes to the Madrasas. On top of that, those who go to Madrasa for learning are just four percent. The report of Sachar Commitee says: “Only four per cent of Muslims students actually go to Madrasas primarily because primary state schools do not exist for miles. Therefore, the idea that Muslims prefer Madrasa education was found to be not true.”
Inferiority Complex:
Common Muslim families in general and the upper class families in particular dont prefer Madrasas education. They dont want to let their children learn Islamic education. They are scared that after spending a long period of 6-8 years in a Madrasa, whatever their children will learn cant be enough to get a luxurious job with lucrative salary. Actually, they have mistaken thinking so. The goal and aim of learning in a Madrasa is not to get a luxurious job with lucrative salary. Madrasa education is not job or career-oriented. We, Muslims, never learn Islamic sciences as means to seek job. We learn to know Allah, His rights, and his sent messages that are in the Quraan and Hadeeth. We learn it for being a good human being. It helps us to lead a better life. We learn traditional sciences so that we can be able to convey the messages of Islam to those who are yet uninformed. So, we should not be in inferiority complex; rather we should understand the aims and objectives of religious education.
Sometimes, a Madrasas graduate himself raises the same question and goes up to extend to say, “I have lost so and so precious years of my life being in Madrasa.” This question comes only to the minds of those who join Madrasa unknowingly the objective, or he is facing inferiority complex. If one gets admission in a Madrasa knowing its goal, he will never complain of the same.
Value of Madrasas:
When one thinks deeply, he comes to know that we need to create awareness among the members of the Muslim community to know the value and significance of Madrasas and to make their children enrolled in it. We need to connect more and more Muslim families with Madrasas. When they get attached with Madrasas and start learning, Allah willing, above problem will be solved itself. It is, therefore, big task to encourage those 96% Muslims to join Madrasas to learn Islam. If a Muslim gains everything, like fame, wealth and high office; but he is unaware of the Creator and Islam, as a result, he gained nothing. This worldly life is only for taste, the real life and world will start after death, as we believe truly. Allah, the Almighty will question for the worldly life. That is why, we need to know Islam and learn Islamic theology as it will help to spend the life in the world in accordance with the will of Allah, the Supreme Lord. Islamic Madrasas are the best sources to learn Islamic knowledge. They are the fort of Islam. The Madrasas are the important vehicle for carrying a sense of separate identity for Muslims. Keeping this point in the view, we must appreciate and acknowledge the works and contributions of Islamic Madrasas.
Madrasas’ Curriculum:
There are some so-called intellectuals and thinkers who always talk about the curriculum of Madrasas. They say that Madrasas in the present condition are not relevant for the mainstream employment opportunities as the scope and curriculum is very limited. They always ask the curriculum must be modified and harmonized with the current condition and modern sciences should be included in it; while it’s a reality that they have never been in a Madrasa. They dont know even the ABC of Madrasa. As far as the changing or replacing of a book instead of a present book in the curriculum is concerned, owing to the language and method, its done occasionally. But their demand of changing by excluding some Islamic sciences or its assisting ones from the assigned curriculum by including modern sciences, is difficult and it can never happen, because, it is against the main objective of a Madrasa. As they arent fully informed with the purpose of the establishment of Madrasa, they put their demand in such manner.
What is the objective of the establishment of a Madrasa and why the modern sciences were and are not included in Madrasas curriculum? Lets read the speech of Darul Uloom, Deobands founder to know its reason satisfactorily. Presenting the report of Darul Uloom, Deoband in 1873, Maulana Nanautavi said:
“Why, in the pursuit and acquisition of knowledge, was this policy adopted? Why were the modern sciences excluded? Among others, due consideration (whether in general education or specialised training) must be given to the aspect that needs greatest attention owing to its neglect in the past. Now anyone with the least knowledge of history knows that in the modern age, owing to the increase in the number of government institutions, the teaching of the new sciences has received the kind of attention that was denied to the traditional sciences even in the days of the best rulers of the past. There has, however, been an equally remarkable decline in the teaching of the traditional sciences of religion. Under such circumstances, to most people the establishment of one more institution of modern learning would appear to be futile and redundant. Only those branches of modern knowledge have been made a part of the syllabi at Darul Uloom which lead to more effective learning of religious sciences.” (Speech by Nanautwi in Ruedad-e-Madrassah Islami-Arabi, 1873 AD)
Maulana Nanautavis speech makes it loud and clear that the purpose of Madrsa is not to teach the modern sciences as for it there are many colleges and universities; rather to give full attention to the religious education which had been completely declined from a long time. If a person demands that the medical sciences should be taught to the engineering students or vice versa, as everyone is aware of its value, the same thinkers will say that this person seems to be foolish as here is specialization in Engineering or Medical; but the same intellectuals fail to understand that the Madrasas curriculum is also for the specialization in Islamic sciences.
Conclusive Words:
Today, without a doubt, Islamic Madrasas are playing a key role to impart Islamic teachings, to reform the society and to make an Allah-fearing human being to lead a better life. The pivotal role of Madrasas in Muslim community can never be declined. As it was needed before, we need it today more than ever. But, we have to say with sorrow that few so-called intellectuals are always trying to defame the Madrasas and ignore its services to the community. While on the other hand, we find that previous intellectuals and thinkers appreciated the role of Madrasas wholeheartedly and always highlighted its need. We conclude this piece of writing with the some statements of the elderly scholars, thinkers and philosophers.
Celebrated Islamic scholar Allamah Sayyid Sulaiman Nadvi (1884-1953) writes: I frankly say we would be in greater need of the Arabic Madrasas in India going to be transformed in different shapes, than we need them today. These Madrasas would be treated as the foundation and centers of Islam in India. People, like today, would be engrossed roaming around offices and jobs and flattering the authorities in power, and these crazy people would remain on alert tomorrow like today. It is, therefore, the greatest responsibility of Muslims to run and take care of these Madrasas wherever and whatever condition they might be. If these Arabic Madrasas have no alternate benefit and role, it is not a petty thing that these Madrasas are a source to impart knowledge to the poor people freely. Having benefited by them, our poor class get elevated a bit and their next generation improves a bit more and this progression continues. A deep thinking will unravel this point of view.”
Hakeemul Ummat Hazrat Thanvi (1863-1943) is of the opinion about these Madrasas: “Today, for Muslims, the existence of Islamic Madrasas is a great boon, not imaginable greater than this. If a system exists in the world for survival of Islam, it is Madrasa.” (Huqooqul Ilm, P.: 51)
The Great Eastern poet and philosopher, Dr. Muhammad Iqbal (1877-1938) said: “Let these Makaatib and Madrasas be left to work independently. Let poor Muslims' children be allowed to study in these Madrasas. If these Mullahs and dervishes are no more, what will happen, do you know? Whatever will happen, I have observed with my eyes. If the Indian Muslims are deprived of the influence of these Madrasas, the same will happen, happened in Spain despite 800-year of Muslims' rulings. Today, except the ruins of Granada, Cordoba and the signs of Alhambra, there are no signs of Muslims and the influences of Islamic civilization. There would be no sign of 800-year rulings of Muslims and their civilization even in Hindustan, except the Taj Mahal of Agra and the Red Fort of Delhi.” (Deeni Madrasas: Maazi, Haal aur Mustaqbil, P.: 49)

* Teacher: Moon Rays Trust School, Zambia