Monday, May 23, 2016

مسجد اقصی پر حالیہ اسرائیلی حملہ اور عالم اسلام


مسجد اقصی پر حالیہ  اسرائیلی حملہ اور عالم اسلام

تحریر: خورشید عالم داؤد قاسمی


مسجد اقصی کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے؛ بل کہ یہ پورے عالم اسلام کا قضیۂ ہے۔ مسلمانان عالم شاید یہ بھول رہے ہیں کہ مسجد اقصی قبلہ اوّل ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد، جس مسجد کا نمبر ہے وہ مسجد اقصی ہے۔ یہ وہی مسجد اقصی ہے، جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے رات میں لائے گئے تھے۔ اسی مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء (علیہم السلام) کی امامت کی تھی۔ پھر یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا مبارک سفر شروع ہوا تھا۔ یہ وہی مسجد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ،" کہ ایک شخص کی  مسجد اقصی کی ایک نماز (ثواب میں) پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث: 1413)
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد، عالم عرب ٹکڑوں میں تقسم ہوگیا۔ پھر 14/مئی 1948 کا وہ بدترین دن بھی آیا، جس دن قلب عرب میں، فلسطین کی 55 فیصد اراضی پر زبردستی "اسرائیل" کے نام سے ایک آزاد، غاصب اور ناجائز صہیونیت زدہ یہودی ریاست کے قیام کا اعلان ہوا۔ پھر اسرائیل کی طرف سے بار بار تھوپی جانے والی جنگ و جدل کے نتیجے میں، آج فلسطین نام کی ریاست کے لیے دس فی صد زمین بھی باقی نہیں رہی؛ بل کہ فلسطین اپنے وجود کی جنگ لڑرہا ہے اور وہ "اقوام متحدہ"  جس کی "جنرل اسمبلی" نے 1947 میں زبردستی فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا، آج خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ بہت احسان کیا تو ایک قرارداد منظور کروادیا جسے اسرائیل اپنے جوتوں کی نوک سے روند کر اپنی تخریبی کاروائی اور دہشت گردی میں منہمک رہتا ہے۔
اسرائیل کے قیام کے بعد سے آج تک کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان جنگوں میں لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہوا، ہزاروں شہروں  اور گاؤں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے اور ہر جنگ میں فلسطینی اراضی پر اسرائیلیوں نے قبضہ کیا ہے۔ 1967 کی چھ روزہ عرب-اسرائیل جنگ کے میں، اسرائیل نے ناجائز طریقے سے عرب کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرلیا، جس میں مشرقی یرشلم بھی شامل ہے، جہاں مسجد اقصی واقع ہے۔ اس وقت سے مسجد اقصی سے اسرائیل کی نظر ہٹی نہیں ہے۔ اقصی پلازا پر یہودیوں کےلیے عبادت کی اجازت نہیں تھی۔ اب شدت پسند صہیونیوں کا اسرائیلی حکام سے یہ مطالبہ ہے کہ ان کو اقصی کے باہر والے کمپاؤنڈ میں عبادت کی اجازت دی جائے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے کہ یہ بیت المقدس کے مسلمانوں کو گراں گزرتا اور اس سے وہ مشتعل ہوتے ہیں اور یہ مشتعل ہونے کی بات بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکام کا بھی یہی ارادہ ہے کہ "مسجد اقصی" کو جلد از جلد اپنی نام نہاد عبادت گاہ کی میں تبدیل کردیں۔
یہودیوں کے نئے سال کی آمد کے موقع سے، 13/ستمبر 2015 کو فجر کے وقت، غاصب ریاست اسرائیل کی پولیس اور فوج نے مسجد اقصی کے احاطہ میں داخل ہوکر، آنسوں گیس اور دستی بم کی مدد سے یورش اور ہنگامہ شروع کردیا۔ پھر انھوں نے "مسجد اقصی" پر حملہ کرکے جانماز کو جلایا، توڑ پھوڑ کیا، عمارت کو نقصان پہنچایا اور درجنوں فلسطینیوں کو زخمی کیا۔ دو سیکوریٹی گارڈس کو گرفتار کیا؛ جب درجنوں نمازیوں کو قید کیا۔ 50/سال سے کم عمر کے ان نمازیوں کو جو "مسجد اقصی" میں نماز کےلیے جارہے تھے، ان کو جانے سے روک دیا۔ یہیں پر بس نہیں کیا؛ بل کہ اسرائیلی فوجیوں نے  مسجد کے اندرونی حصہ میں دھاوا بولتے ہوئے وہاں موجود درجنوں نمازیوں کو طاقت کے بل پر مسجد سے باہر نکال دیا۔ پھر اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کے بعد، مسجد بند کردی اور نمازیوں و عبادت گزاروں کو احاطۂ مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ لوگ پتھراؤ اور سنگ باری کر رہے تھے، جس کے جواب میں یہ سب ہوا۔ اس حملے کے بعد، اسرائیلی فوجیوں نے اب تک تقریبا 47/فلسطینیوں کو حراست میں لے رکھا ہے جس میں کئی معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
الجزیرہ کے نمائندہ اسکوٹ نے اس حالیہ حملے کے سلسلے میں کہا ہے کہ کچھ یہودی جماعتیں جن کو مسجد اقصی میں جانے اور عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہ وہاں داخل ہوگئیں، جو اوّلا تصادم و ہنگامہ کا سبب بنی۔ پھر اسرائیلی پولیس اور فوجیوں نے حملہ شروع کردیا۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق شروع میں کچھ قدامت پرست نو آباد یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کو اشتعال دلایا اور برانگیختہ کیا جب کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت کے لیے مسجد جارہے تھے۔ پھر اسرائیلی پولیس اور فوج نے ان یہودیوں کی مدد کرتے ہوئے، حملہ شروع کردیا۔
وجہ جو بھی رہی ہو؛ لیکن پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ اسرائیلی پولیس اور افواج ہمیشہ جارحانہ، ظالمانہ اور دہشت گردانہ کاروائی میں یقین رکھتی ہے، جیسے وہ ماضی میں ہزاروں فلسطینیوں کے قتل اور لاکھوں کے زخمی کرنے کی مجرم ہیں، اس بار بھی اس حملہ میں وہ ہمیشہ کی طرح مجرم ہیں۔ رہی بات قدامت پرست نو آباد یہودیوں کی؛ تو وہ اس سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کو بے لگام ہوکر سب کچھ کرنے کی اجازت ہے؛ کیوں کہ اسرائیلی حکام ان کے خلاف کوئی اکشن نہیں لے سکتے؛ بل کہ یہ کہنا چاہیے کہ انھیں اسرائیل حکومت کا کھلا تعاون حاصل ہے۔
جہاں تک فلسطینیوں کی طرف سے پتھراؤ کی بات ہے؛  تو یہ دنیا کو بیوقوف بنانے کا انوکھا طریقہ ہے۔ وہ بندوق، پستول، مشین گن، ٹینک اور طرح طرح کے مہلک ہتھیاروں اور بموں سے حملہ کریں؛ تو دفاع اور اگر کوئی اپنی جان، اپنے گھر اور اپنی عبادت گاہ کی حفاظت کےلیے سنگ باری اور پتھراؤ کرے؛ تو ظالم اور دہشت گرد ٹھہرے! یہ کہاں کا انصاف ہے! ابھی کل کی بات ہے کہ غاصب اسرائیل کی حکومت نے پولیس اور دیگر سیکوریٹی اداروں کے اراکین کو پتھراؤ کرنے والے فلسطینیوں پر گولی چلانے کی عام اجازت دے دی ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے بین الاقوامی قوانین کی سخت خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ نیا قانون اسرائیلی سیکوریٹی اہل کاروں کو بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا نیا لائسنس دینے کے مترادف ہے۔ مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو صبح و شام ٹھکرانے کے عادی لوگ، ان انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیان پر کب توجہ دے سکتے ہیں؟!
اس حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد جہاں ایک طرف کچھ انسانیت نواز لوگوں نے سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج درج کرایا، وہیں دوسری طرف مسلم حکمرانوں نے بھی اس ظالمانہ تخریب کاری اور جارحیت و بربریت پر بر وقت اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی کاروائی کے بعد، اگر تمام مسلم ممالک کے حکمراں بر وقت اپنی زبان کھولنے کے عادی ہوجائیں؛ تو امید ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ آئے گا اور اسرائیلی حکومت کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے بار بار اس کے ردّ عمل پر ضرور غور کرے گی۔
سعودیی عرب کے حکمراں، خادم حرمین شریفین ملک سلمان بن عبد العزیز (حفظہ اللہ) نے کھل کر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ سعودی بادشاہ نے اس خطرناک اسرائیلی چڑھائی کی بھر پور مذمت کی۔ انھوں نے مسجد اقصی میں حملے کے بعد اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور سیکوریٹی کونسل کے ممبران کو فوری سخت اقدام اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اس معاملہ کے حل کے لیے بین الاقوامی لیڈران سے بر وقت سنجیدہ کوشش کرنے اپیل بھی کی اور سیکوریٹی کونسل سے درخواست کی کہ اس تصادم و شورش کو ختم کرنے کےلیے فوری مداخلت کرے۔ انھوں کے کہا کہ عبادت گزاروں پر حملہ کرنا احترام مذاہب کے خلاف ہے جو دنیا میں شدت پسندی کو بڑھاوا دیگا۔ خادم حرمین شریفین نے باضابطہ فون کرکے برطانوی وزیر اعظم کیمرون، روسی صدر پتن اور فرانس کے صدر ہولانڈ سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیلی حملے کے خلاف سنجیدہ کوشش کریں!
اسی طرح اردن کی حکومت نے بھی اسرائیلی فوجیوں کے اس حملے اور فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ کاروائیوں کی مذمت کی ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قبلہ اوّل کا دفاع امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مسجد اقصی ماضی کی بنسبت اس وقت کہیں زیادہ خطرات سے دو چار ہے۔ اردن کی حکومت نے اس بات کو واضح طور پر کہا ہے کہ اب یہودی شرپسندوں کے ہاتھوں مسجد اقصی کی بے حرمتی اور اسرائیلی افواج کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں پر طاقت کے بے جا استعمال کے بعد خاموش رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
عرب لیگ نے بھی بروقت قدم اٹھایا ہے جو قابل ستائش ہے۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس 27/ستمبر کو نیو یارک میں ہونا طے پایا ہے۔ عرب لیگ کے سکریٹری جنری: نبیل العربی نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں فلسطنیوں پر اسرائیلی فوج کی ظالمانہ و دہشت گردانہ کاروائیوں، مسجد اقصی کے خلاف صہیونی سازشوں، اقصی کی مسلسل بے حرمتی کو روکنے پر غور و خوض کیا جائے گا۔
عرب لیگ کی طرح اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او، آئی، سی (Organization of Islamic Cooperation) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہنگامی طور پر 30/ستمبر اور یکم اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے۔ او، آئی، سی کے سکریٹری جنرل، جناب ایاد امین مدنی نے کہا ہے کہ اس اجلاس میں 57/مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے اور تمام ممبران اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔
اللہ تعالی "عرب لیگ" اور "او، آئی، سی" کے ممبران کے دل میں کچھ ایسی باتیں ڈال دے کہ جس میں "قبلۂ اوّل" اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں خیر کا پیش خیمہ ہو۔ نہیں تو یہ فلسطینی اپنے ملک اور گھر میں رہ کر کب تک پناہ گزینوں اور قیدیوں کی سی زندگی گزاریں گے۔ آج کی تاریخ میں فلسطینیوں کی حیثیت پناہ گزینوں کی سی ہوگئی ہے؛ بل کہ کچھ اعتبار سے ان سے بھی بد تر ہے۔ ان کو کھانے کے لیے اناج کی سہولیت نہیں، پینے کے لیے صاف و شفاف پانی فراہم نہیں، مہینوں مہینوں تک بجلی کا انتظام نہیں، ان کے بچوں کےلیے کوئی عمدہ تعلیمی ادارہ نہیں۔ اگر بڑی محنت و مشقت اور قربانی کے بعد، کچھ کرتے بھی ہیں؛ تو ایک دن کی اسرائیلی دہشت گردانہ بمباری سے سب کچھ زمین بوس ہوجاتا ہے۔
ان مظلوم فلسطینیوں کو جس قوم کا سامنا ہے وہ نہایت ہی سرکش اور ضد و عناد سے بھری قوم ہے۔ اس قوم  کی سرشت  (Nature) میں یہ ہے ہی نہیں کہ وہ حق کو بخوشی قبول کریں؛ بل کہ ان کو اپنے مزعومہ "عظیم اسرائیل" کے خواب شرمندۂ تعمیر کرنے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس بے بہبود قوم کے ضد و عناد کے حوالے سے قرآن کریم میں فرمایا ہے: "وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ۔" (سورہ بقرہ، آیت: 120) ترجمہ: "اور ہرگز راضی نہ ہوں گے تجھ سے یہود اور نصاری، جب تک تم تابع نہ ہو ان کے دین کا۔"  یعنی  یہود و نصاری اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ ان کو امرحق سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ اپنی ضد پر اڑے رہیں گے اور کبھی بھی حق کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔ ہاں، ایک صورت یہ ہے کہ آپ ان کے تابع ہوجائیں؛ تو ہی وہ آپ سے خوش ہوں گے؛ جب کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ ان کے تابع ہوجائیں؛ لہذا ان سے موافقت کی امید رکھنا بیکار کی بات ہے۔ جناب محمد رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم- کے زمانے میں جن یہودیوں کی یہ حالت ہو، آج ان کی اولاد سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ حق کو قبول کرلیں گے اور ان کے ساتھ مذاکرات کیا جائے!
اس حقیقت کے باوجود کچھ ذوالوجہین قسم کے لوگ ہمیشہ ان صہیونیت زدہ یہودیوں سے مذاکرات کے میز پر بیٹھ کر قضیۂ فلسطین اور قضیۂ مسجد اقصی کا حل نکالنے کی تلقین کرتے نہیں تھکتے ہیں؛ جب کہ یہ ایسی قوم ہے جو مذاکرات کی زبان نہیں سمجھتی۔ یہ بزدل قوم کبھی بھی امن پروگرام کو منظور نہیں کریگی۔ پھر ان سے مذاکرات کس لیے؟ ابھی اسی حالیہ حملہ کا ایک شرمناک واقعہ پڑھیے! اس حملہ کے موقع سے ناپاک اسرائیلی وزیر زراعت ان درجنوں شدت پسند صہیونیوں کے ساتھ تھے، جو مسجد میں موجود نمازی، طلبہ اور معصوم بچوں کو بغیر کسی رحم و کرم کے زخمی کرکے مسجد سے باہر جانے پر مجبور کررہے تھے۔ جس ملک کا وزیر اور منسٹر عام شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ ہوکر معصوموں پر ظلم و زیادتی کو روا رکھے، وہاں کی حکومت سے مذاکرات اور ڈائیلاگ چہ معنی دارد۔ قضیۂ فلسطین اور مسجد اقصی کا واحد حل یہ ہے کہ اہالیان فلسطین کو مکمل آزادی سے رہنے کی اجازت  دی جائے، فلسطین فلسطینیوں کے حوالے کیا جائے، اسے مکمل ریاست کا حق دیا جائے اور مسجد اقصی کو مسلمانوں کی عبادت گاہ سمجھ کر مسلمانوں کے حوالے کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو دنیا کی کوئی طاقت قضیۂ فلسطین اور مسجد اقصی کا حل پیش نہیں کرسکتی۔  ٭٭٭
(بہ تاریخ: 22/ستمبر 2015)
(مضمون نگار  دارالعلوم، دیوبند کے فاضل اور مون ریز ٹرسٹ اسکول ، زامبیا کے استاذ ہیں۔ ان سے   qasmikhursheed@yahoo.co.in  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

No comments: