Saturday, October 3, 2020

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ : حیات وخدمات

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب ؒ  : حیات وخدمات

 

بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

دار العلوم مرکز اسلامی کے بانی ومدیر ،ہمارے مشفق ومربی حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب   – رحمہ اللہ– تقریبا اسّی سال کے تھے۔ اس عمر میں بھی آپ اپنی ذمے داریوں کو بر وقت انجام دینے کے حوالے سے بہت ہی متحرک ونشیط تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجودبھی، آپ ہمیشہ تندرست وتوانا نظر آتے تھے۔ قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہو۔  بہرحال، 31/جولائی 2020 ء کوآپ کے بارے میں ایک مختصر سی خبر واٹس ایپ پر پڑھنے کو ملی کہ آپ دو دوز سے کچھ علیل چل رہے ہیں۔ پھر5/اگست کو یہ خبر ملی کہ آپ تقریبا چار بجے کواپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! سوشل میڈیا کے توسط سے آپ کی وفات کی خبر صبح ہوتے ہوتے ہند وبیرون ہند میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ مرکز اسلامی کے فضلا اور آپ کے محبین ومتعلقین کی طرف سے سوشل میڈیا پر دعائیہ اور  تعزیتی پیغامات موصول ہونے لگے۔

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ ایک نیک، صالح،منکسر المزاج،خوش اخلاق، ملنسار اور بزرگ عالمِ دین تھے۔ آپ کی سادگی، شرافت، حسن اخلاق، خاکساری اور تواضع کا ہر کوئی معترف تھا۔آپ بڑے  سیدھے سادھے اور بھولے بھالے انسان تھے۔اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد عربی –صلی اللہ علیہ وسلم–کی حدیث: «المؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ» (ترمذی: 1964)(ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور نیک دل ہوتا ہے۔) آپ پر پورے طور پر منطبق ہوتی ہے۔ آپ سے  ملاقات کے بعد، دلی  احساس کچھ اس طرح ابھر کر سامنے آتا تھا کہ

بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

        اللہ تعالی نے حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ کے دل میں اہل علم،  علما وفضلا اور اولیاء اللہ کے لیے بڑی محبت ودیعت فرما رکھی تھی۔ آپ اہل علم اور بزرگانِ دین سے بڑی محبت کرتے تھے۔ آپ علماء کرام اور بزرگان دین کو دعوت دیتے اور مرکز اسلامی میں مدعو کرتے۔ جب کوئی عالم وفاضل اور بزرگ شخصیت کی علاقے کے کسی ادارے میں آمد ہوتی؛  تو آپ ان کو مرکز اسلامی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ان سے بڑی محبت کا  اظہار فرماتے۔ ان کے سامنے خود کو اس طرح پیش کرتے کہ گویا ایک تلمیذ رشید اپنے شفیق استاذ کے سامنے کھڑا ہو۔ اپنے گھر سے کھانے کا انتظام کرتے اور ان کی ضیافت کرتے۔ جب طلبہ کو خطاب کرتے اور اکابر علما میں سے کسی کا کوئی واقعہ سناتے؛ تو آپ بڑے ادب واحترام اور پیار کے ساتھ ان کا نام لیتے۔ رویدرا میں حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ کے نکاح کی مجلس تھی۔ حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلیفہ حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈوی ؒ(شیخ الحدیث: مدرسہ  عربیہ امدادیہ، مراد آباد) نکاح سے قبل حاضرین مجلس کو خطاب  کر رہے تھے۔ انھوں نے دوران خطاب کوئی واقعہ بیان کیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ حضرت مولانا فورا کھڑے ہوئے، اپنی جیب سے رومال نکالا اور ان کے آنکھوں سے آنسو پوچھنے لگے۔ یہ تھی حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ  کی ایک عالمِ دین کے ساتھ محبت کا عالم۔

        حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ نمازکے بڑے پابند تھے۔ آپ پیرانہ سالی کے باوجود چاہے موسم گرما یا سرما یا موسم برسات آپ نماز  مدرسہ کی مسجد میں آکر ادا کرتے تھے۔  فجر کے وقت کبھی کبھی آپ خود ہی طلبہ کو بیدار بھی کرتے تھے۔  عصر کی نماز کے بعد، عام طور پر دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کے ساتھ بیٹھ جاتے اور ان کے ساتھ کچھ مذاکرہ کرتے۔دفتر اہتمام میں بھی بڑی پابندی کے ساتھ،آپ وقت پر تشریف لاتے۔ آپ صبح میں دفتر پہنچ جاتے اور چھٹی کے وقت تک رہتے۔ جو بھی کام ہوتا اسے بروقت انجام دیتے۔ آپ چھٹی کے وقت اپنے گھر جاتےاور اپنے گھر پر ہی کھانا تناول فرماتے۔ مدرسہ میں آکر ظہر کی نماز با جماعت ادا کرتے اور پھر دفتر میں داخل ہوجاتے اور  جو کام ہوتا اسے انجام دیتے۔ چاہے جتنا بھی کام کا بوجھ ہوتا، مگر آپ کسی طرح کی جھنجھلاہٹ کا اظہار نہیں کرتے۔ آپ ہمیشہ خوش نظر آتے۔

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ اور آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ  بندے  کےساتھ جو شفقت وکرم فرمائی اور پیار ومحبت کا معاملہ کرتے، اپنے گھر کے ایک فرد جیسا سلوک کرتے، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے بحیثیت مدرس تقریبا ڈھائی سال اس ادارہ میں خدمت انجام دی۔ مدرسہ میں کوئی پروگرام ہوتا؛ تو عام طور پر پروگرام کی نظامت کی ذمے داری اس راقم کو سپرد کرتے۔ ایک بار مرکز اسلامی کے جلسہ دستار بندی کی نظامت کی ذمے داری بھی اس بندے کو سپرد کی۔ اس جلسہ کی صدارت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی (دامت برکاتہم) فرما رہے تھے۔

جب کسی ادارہ میں کسی تقریب کا انعقاد ہوتا؛ تو اس راقم کو اس تقریب میں شرکت کے لیے ضرور بھیجتے۔  جب وہاں سے واپس آتا؛ تو دفتر میں بلا کر، تقریب کی پوری کارگزاری سنتے۔ اس طرح بندہ کو گجرات کے کئی مدارس کی زیارت کاموقع ملا۔ جب کہیں سے کوئی نئی کتاب یا رسالہ آتا؛ تو اس راقم کے حوالے کرتے،اس کی خواندگی کا حکم کرتے اور فرماتے کہ بھیجنے والوں کو شکریہ کا خط لکھ دوں۔

حضرت  کی انسانیت نوازی، خلوص اور اپنائیت آج کے دور میں تلاش بسیار کے بعد بھی مشکل سے ملتی ہے۔ بہرحال، اب آپؒ اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک کامیاب زندگی گزارکر ، آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مجھے  یقین ہے کہ آپ کے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے بہت سے آپ کے محبین ومتعلقین اور خاص طور پر مرکز اسلامی سے استفادہ کرنے والے سیکڑوں طالبان علوم نبوت آپ کو مدتوں یاد کریں گے۔

کچھ ایسی ہستیاں بھی عالمِ فانی میں آتی ہیں

فنا  کے  بعد بھی  جن کو زمانہ  یادکرتا ہے

اس جہان اور ہم سب کے خالق ومالک اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت مولانا موسی صاحب ماکروڈؒ کے لیے یہی وقت اور تاریخ مقرر کررکھا تھا؛ چناں چہ وہ اپنے وقت پر چلے گئے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مرکز اسلامی کی آبیاری میں صرف کیا۔ اللہ کے فضل وکرم سے، انھوں نے اس  ادارہ کو ایک چھوٹے سے پودے کی شکل میں شروع کیا اور اسے ایک بڑا ثمر آور درخت بنایا ۔ اس ادارہ سے سیکڑوں طالبان علوم نبوت نے استفادہ کیا اور کر رہے ہیں۔ اب ان کی ذمے داری ہے کہ وہ حضرت والا کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، ان کے لیے ایصالِ ثواب کریں، اپنی استطاعت کے مطابق ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کریں اور ان کے پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کریں۔

آپ کی ولادت اور آبائی وطن:

        حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب کی پیدائش مورخہ: 22/نومبر 1939 کو اپنے آبائی گاؤں:"دیوا"، ضلع: بھروچ، گجرات  میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام جناب اسماعیل ماکروڈ تھا۔آپ کے والد ماجد معاش کی تلاش میں، ہندوستان سے افریقی ملک ساؤتھ افریقہ کے لیے رخت سفر باندھا۔ پھر ساؤتھ افریقہ کے مشہور شہر: ڈربن میں  مقیم رہ کر، اپنے اہل عیال کی کفالت کے لیے جد وجہد میں لگے رہے۔

تعلیم وتعلم:

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی۔ پھر ثانوی درجے کی تعلیم کےحصول کے لیے سن 1952 میں، جامعہ حسینیہ، راندیر، سورت میں داخلہ لیا۔ آپ نے اس ادارہ سے فضلیت تک کی تعلیم کی حاصل کی۔  سن 1959ء میں، آپ نے  دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگردحضرت مولانا احمد صاحبؒ سے بخاری شریف پڑھی اور اجازتِ حدیث حاصل کی۔

جامعہ حسینیہ سے فراغت کے بعد، دار العلوم دیوبند کے اساتذۂ کرام سے استفادہ کےلیے "دیوبند" کا سفر کیا۔ آپ تقریبا دو سال تک دیوبند میں مقیم رہے۔ اس دوران آپ نے اساتذۂ دار العلوم، دیوبند  کے اسباق میں شرکت کرکے استفادہ کیا۔ آپ نے حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی صاحبؒ، حضرت علامہ فخر الدین صاحبؒ اور حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ  کے دروس میں خاص طور پر شرکت کرکے استفادہ کیا۔ دیوبند میں قیام کے دوران، آپ دار العلوم کے کبار اساتذہ کرام کی مجلسوں میں بھی شرکت کرتے  اور ان کے ملفوظات سے استفادہ کرتے۔

بیعت وسلوک اور اجازت وخلافت:

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ کا ایک طویل زمانے تک حضرت تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحبؒ سے اصلاحی تعلق رہا۔ ان کی وفات کے بعد، حضرت شیخ الحدیث کے خلیفہ اجل، حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈویؒ، (سابق شیخ الحدیث: مدرسہ عربیہ امدادیہ، مرادآباد، یوپی) سے اصلاحی تعلق رہا۔ ان کی وفات کے بعد، آپ نے  شیخ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی مدظلہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ حضرت مولانا الہ آبادی –مدظلہ العالی–اور حضرت مولانا منیر صاحب–دامت برکاتہم–نے آپ  کو خلافت سے بھی نوازا، الحمد للہ۔

آپ کی وفات:

حضرت مولاناکروڈ صاحبؒ مختصر سی علالت کے بعد،  5/اگست 2020 کو، صبح چار بجے، انکلیشور میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔

آپ کے پس ماندگان

حضرت مولاناموسی ماکروڈ صاحبؒ کو اللہ تعالی نے تین بیٹے اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ آپ کے ایک صاحب زادے: حضرت مولانا اسماعیل ماکروڈ صاحبؒ نائب مدیر: دار العلوم مرکز اسلامی وڈائریکٹر: مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر تھے جن کی وفات 17/نومبر2018 کو، جودھپور سے انکلیشور آتے ہوئے ایک کار حادثہ میں ہوگئی۔مولانا مرحوم کو اپنے اس صاحبزادے سے بہت امیدیں وابستہ تھی۔ مگر اللہ سبحانہ وتعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بہرحال، جب تک مولانا اسماعیل صاحب آپ کے ساتھ رہے،آپ  کے بڑے ہی معاون، بہت سے تعلیمی وانتظامی کاموں میں آپ کے رفیق  اور سیکڑوں کام کی انجام دہی  میں وہ آپ کا ہاتھ  بٹاتے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک بیٹے کے لیے اپنے والد کا  جنازہ اٹھانا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا ایک بوڑھے باپ کے لیے اپنے جوان بیٹے  کا جنازہ اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا موسی صاحبؒان کی وفات سے بہت متاثر ہوئے۔  ان کی وفات کے بعد، جب بھی مولانا سے میری بات ہوتی؛ تو  وہ اپنے صاحبزادے کا ذکر خیر ضرور کرتے ۔

آمدم بر سر مطلب! مولانا اسماعیل صاحب کی وفات کے بعد،آپ کے  پس ماندگان میں، آپ کی  اہلیہ محترمہ–حفظہا اللہ –،دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ آپ کےایک صاحبزادے جناب اقبال موسی ماکروڈصاحب ہیں جو اپنی اہلیہ کے ساتھ لیسٹر، انگلینڈ میں مقیم تھے۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ کی وفات کے بعد، اپنے والد کے معاون ومددگار کی حیثیت سے دار العلوم مرکزاسلامی میں، خدمت انجام دینا شروع کیا اور اب تک مرکز سے منسلک ہیں۔  دعا ہے کہ اللہ پاک آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے!

آپ کے دوسرے صاحبزادےجناب زبیر موسی ماکروڈ صاحب ہیں۔ وہ نیو یارک، امریکہ میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ آپ کی چار بیٹیوں میں سے ایک  بلقیس یوسف ٹوپیا ہیں۔ وہ ایک خاتونِ خانہ ہیں۔ وہ   گلاسٹر، انگلینڈ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ پھر آپ کی دوسری صاحبزادی  نفیسہ سعید حجازی ہیں جو نیویارک، امریکہ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ آپ کی تیسری صاحبزادی ہاجرہ جاوید جوگیات ہیں جو  نونیٹن، برطانیہ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ آپ سب سے چھوٹی صاحبزادی  خدیجہ سعید پٹیل ہیں۔ وہ بھی اپنے خاوند کے ساتھ نیو یارک، امریکہ میں مقیم ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور ان کے  پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے! آمین!

حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب ؒ  کی تعلیمی خدمات

دار العلوم مرکز اسلامی کا قیام:

ہمارے حضرت مولاناموسی ماکروڈ صاحبؒ نے چھوٹی بڑی درجنوں خدمات امت کے لیے انجام دی۔ ہم آپ کی  تعلیمی خدمات کو یہاں مختصرا پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کی خدمات کا عظیم شاہ کار دار العلوم مرکزِ اسلامی کا قیام ہے۔ آپ نے اس ادارہ کی تاسیس وقیام کے روز اول سے اپنی موت تک، اپنے چند رفقاء کرام کی معیت میں، اس ادارہ کو احسن طریقے سے چلایا۔ یہ ادارہ کیسے قائم ہوا اور کیوں قائم ہوا، ہم ذیل میں اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ پھر اس ادارہ کی خدمات کو بھی مختصرا ہم پیش کریں گے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کرام کو معلوم ہوسکے کہ مولانا ماکروڈؒ نے اس ادارہ کو کیوں قائم کیا اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ پھر اس ادارہ نے  امت کے لیے کیا خدمات پیش کی۔

گجرات کی سرزمین پر "دار العلوم مرکزِ اسلامی، انکلیشور" ایک جانا پہچانا نام ہے۔اس ادارہ کی تاسیس کے حوالے حضرت مولانا موسی صاحب رحمہ اللہ بتایا کرتے تھے کہ وہ ذریعۂ معاش کے لیے، اپنے گاؤں کے قریب کے شہر"انکلیشور" میں، ایک اسٹیشنری کی دوکان کا آغاز کیا اور اس میں مشغول ہوگئے۔ آپ کے استاذ حضرت مولانا محمد سعید صاحب راندیریؒ، مھتمم: جامعہ حسینیہ، راندیر، سورت،نے آپ کو مشورہ دیا کہ دوکان کے ساتھ ساتھ، آپ انکلیشور میں، ایک مکتب قائم کریں اور وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں! حضرت راندیریؒ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے، آپ نے سن 1975ء میں، انکلیشور مسافر خانہ میں"انوار الاسلام" کے نام سے ایک مکتب قائم کیا اور اپنی دوکان چلانے کے ساتھ ساتھ، جز وقتی طور پر  بچے اور بچیوں  کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف ہوگئے۔

کچھ سالوں کے بعد، طلبہ کی کثرت کی بنا پر مسافر خانے کی جگہ تنگ ہونے لگی؛ لہذا دوست واحباب کے مشورے سے آپ نے انکلیشور میں ایک بڑی جگہ پر، ایک ادارہ قائم کرنے کی نیت کرلی۔آپ نے انکلیشور میں جی جی سی ایل (گجرات گیس کمپنی لمیٹیڈ) کے قریب، بتوفیق خداوندی ایک بڑی زمین کا انتظام کرلیا۔ پھر سن1405ھ = مطابق: 1984ء میں،"دار العلوم مرکزِ اسلامی" کے نام سےاس ادارہ کا سنگ بنیاد، وقت کی دو عظیم شخصیات حضرت مولانا رضا احمد صاحب اجمیری ؒ، شیخ الحدیث: دار العلوم اشرفیہ، راندیر، سورت، گجرات اور حضرت مولانا معین الدین صاحب گونڈویؒ، شیخ الحدیث: مدرسہ عربیہ امدادیہ، مراد آباد کے ہاتھوں ڈلوایا۔

جب تک یہ اکابرباحیات رہے، ادارہ ان کی سرپرستی میں چلتا رہا۔ حضرت مولانا رضا احمد اجمیری صاحبؒ کی وفات کے بعد، حضرت مولانا معین الدین صاحبؒ گونڈوی اس ادارہ کی سرپرستی کا فريضہ انجام دیتے رہے۔ حضرت گونڈوی کی وفات کے بعد، اس وقت ادارہ کی سرپرستی شیخِ طریقت حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی (حفظہ اللہ) فرمارہے ہیں۔ حضرت شیخ طریقت کی سرپرستی اور حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحب –رحمہ اللہ– کے زیر اہتمام، اب تک یہ ادارہ  دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر رہا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس ادارہ کو حضرت مولانا  کا نعم البدل عطا فرمائے اور مستقبل میں مزید ترقیات سے نوازے اور یہ دین کا قلعہ ہمیشہ سر سبزو شاداب رہے!

دار العلوم مرکزِ اسلامی میں، اردو کے ابتدائی درجات سے عالمیت تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وقت اور تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے "نصاب" میں قدرے ترمیم کرکے، عربی چہارم تک کے طلبہ کے لیے انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی تعلیم کا بھی نظم ہے۔ اب تک اس ادارے  سے تقریبا پانچ سو طلبہ کرام عالمیت کی تکمیل کے بعد، ہند وبیرون ہند میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

عالمیت کے علاوہ، اس ادارہ میں  حفظ القرآن الکریم کے گیارہ حلقے ہیں۔ان حلقوں میں 260 طلبہ کرام، 11 ماہر اساتذۂ حفظ کی زیر نگرانی، کلام اللہ شریف کو زبانی یاد کرتے ہیں۔ اب تک دار العلوم کے شعبہ حفظ سے 536 طلبہ نے حفظ القرآن الکریم کی تکمیل کی ہے۔

قرآن کریم کو صحیح طریقے سے تجوید کے ساتھ پڑھنا لازم اور ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو تجوید کے ساتھ نہیں پڑھتا؛ تو وہ گنہگار ہے۔حضرت مولانا موسی صاحبؒ نے اس بات کا خیال کرتے ہوئے، مرکز میں تجوید وقرات کا ایک شعبہ قائم کیا۔ سن 1440ھ کی رپورٹ کے مطابق، اس شعبے سے 120 طلبہ نے حفص، 94 طلبہ نے سبعہ، 42 طلبہ نے ثلاثہ اور 9/طلبہ نے عشرۂ کبیر کی تکمیل کرکے قاری کی سند حاصل کی ہے۔ یہ طلبہ ہند وبیرون ہند میں تجوید کی تدریس اور مساجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

دار العلوم مرکزِ اسلامی سے فارغ ہونے والے طلبہ میں، فقہ وفتاوی کی دل چسپی کو محسوس کرتے ہوئے، دار العلوم نے سن 2010ء میں "تخصص في الفقہ" کا شعبہ قائم کیا۔ اس شعبہ میں طلبہ کرام داخل ہوکر، مفتیان کرام کی نگرانی میں، فقہ اسلامی میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ اب تک  29/علماء کرام نے یہاں سے مفتی کی سند حاصل کی ہے اور وہ قوم وملت کی خدمت میں مشغول ہیں۔

جو طلبۂ کرام دار العلوم میں زیر تعلیم ہیں، ان میں تقریری وتحریری صلاحیت پیدا کرنے کے لیے دار العلوم میں تین انجمنیں بھی ہیں جن کا ہفت واری پروگرام، اساتذۂ کرام کی نگرانی میں، بڑی پابندی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ "انجمن تربیت الطلبہ" کے نام سے جو انجمن ہے، اس کے تحت طلبہ اردو زبان میں تقریر وتحریر کی مشق کرتے ہیں۔ عربی زبان میں تقریری وتحریری صلاحیت کو بیدار کرنے کے لیے "النادي الأدبي" کے نام سے ایک انجمن قائم ہے۔ اسی طرح تلاوت، اذان، امامت اور خطبۂ جمعہ وغیرہ کی تربیت کے لیے بھی ایک انجمن ہے جسے "انجمن تحسین القرآن الکریم" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سن 1984ء  میں طلبہ اور اساتذہ کی معمولی تعداد سے،حضرت مولانا موسی ماکروڈ صاحبؒ نے دار العلوم مرکز اسلامی قائم کیا۔ اللہ تعالی نے اس ادارے کو مقبولیت سے نوازا  اور آج اس ادارے میں تقریبا 550/ طلبہ کرام مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنھیں دار العلوم تعلیم اور حسن اخلاق کے زیور سے سنوارتا ہے۔ ان طلبہ کی تعلیمی وذہنی آبیاری کے لیے جہاں 44/اساتذۂ کرام شب وروز مشغول رہتے ہیں، وہیں دوسرے 15/ملازمین مطبخ، واشنگ روم، صفائی وغیرہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب اللہ پاک کی مہربانی اور حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ کے حسن انتظام کا نتیجہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی خدمات کو قبول فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور اس ادارہ کو ہر طرح کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے!

مرکزِ اسلامی گجراتی اسکول کا قیام:

عصر حاضر میں اسلامی اسکول کی اہمیت وافادیت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا؛ بل کہ آج بہت سے مفکرین واہل قلم حضرات اپنے خطابات ومقالات میں وقت کی اس اہم ضرورت کی جانب توجہ دلاتے ہیں کہ جس شخص یا تنظیم وادارہ کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اسلامی اسکول چلاسکتے ہیں؛ تو وہ ضرور چلائیں۔  الحمد للہ،  حضرت مولانا ماکروڈ صاحبؒ نے اس ضرورت کو بہت پہلے محسوس کیا اور تقریبا چار دہائی قبل، سن 1984 میں، دار العلوم مرکزِ اسلامی کے زیر انتظام، ایک اسلامک  اسکول بہ نام: "مرکزِ اسلامی گجراتی اسکول" قائم کیا۔یہ اسکول "گویا بازار، انکلیشور" میں، دار العلوم کی عمارت میں چل رہا ہے۔اس اسکول کا مقصد مسلم بچوں کو اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے ساتھ حسن اخلاق سے بھی سنوارنا ہے۔یہ اسکول گجرات حکومت سے دسویں جماعت تک منظور ہے۔ اس میں تقریبا 432/ طلبہ، 15 اساتذہ کرام کی نگرانی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ اس اسکول سے تعلیم کی تکمیل کے بعد، مختلف کالجز اور یونیور سٹیز میں اعلی تعلیم کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔ الحمد للہ علی ہذا!

مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کا قیام:

عصر حاضر میں انگریزی زبان کی اہمیت وافادیت چاہے وہ مختلف علوم وفنون کو جاننے اور سمجھنے کے حوالے سے ہو یا پھر دین متین کی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے،کسی بھی اہل عقل وخرد پر مخفی نہیں ہے۔ چناں چہ حضرت مولانا موسی صاحبؒ نے اپنے چھوٹے صاحبزادےحضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ "مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، دہلی" میں انگریزی زبان کے حصول کے لیے بھیجا۔ انھوں نے اس ادارے میں رہ کر انگریزی زبان سیکھی۔ پھر جب اپنے وطن لوٹے؛ تو انھوں مرکز المعارف کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔حضرت مولانا اسماعیل صاحبؒ نے اپنے والد ماجدؒ کو علماء کرام کے لیے انگریزی زبان وادب کی اہمیت وافادیت کا بار بار ذکر کرتے رہے۔ کئی بار آپ نے اپنے والد صاحبؒ  کو ادارہ قائم کرنے کی جانب متوجہ بھی کیا۔

دوسری طرف حضرت مولانا موسی صاحبؒ کے ذہن میں بھی یہ بات آئی کہ مدارس اسلامیہ ہندیہ سے ہر سال کئی ہزار طلبہ فارغ ہوتے ہیں۔ ان جدیدفارغین کو انگریزی سکھانے کے لیے صرف ایک مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کافی نہیں ہے؛ بل کہ اس ادارے کے طرز اور نہج پر اور بھی اداروں  کا قیام  وقت کی اہم اور اشد ضرورت ہے؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ فضلاء مدارس اسلامیہ انگریزی زبان وادب سے مسلح ہوکر، عصر حاضر میں، بغیر کسی جھجھک کے کسی سے بھی مخاطب ہوکر، بہ سہولت دینی ودعوتی خدمات انجام دے سکیں۔

حضرت مولانا موسی صاحبؒ شعبہ انگریزی کے قیام کے لیے تیار ہوگئے؛ مگر انھوں نے قیام سے قبل یہ مناسب سمجھا کہ اکابر علما کرام سے اس سلسلے میں مشورہ کرلیا جائے کہ دار العلوم کے احاطہ میں اس شعبہ کا قیام کیسا رہے گا۔ پھر حتمی طور پر ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا جائے۔ پھر آپ نے متعدد اکابر علما سے درخواست کی کہ وہ حضرات اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ان اکابر نے انگریزی زبان کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے، اس شعبہ کے قیام کی موافقت کی۔ ان علما کی موافقت سے ہمت وحوصلہ پاکر، حضرت مولانا موسی صاحب نے احاطۂ دار العلوم مرکز اسلامی میں اس شعبہ کے قیام کا پختہ ارادہ کرلیا۔

سینٹر کی تاسیس:

مشورہ کے بعد، مولانا ماکروڈ صاحبؒ نے اس شعبے کے قیام کےلیے منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس منصوبے کے تحت دار العلوم مرکزِ اسلامی، انکلیشور کے زیر انتظام، دار العلوم کے ہی احاطے میں "مرکزِ اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر" کے نام سے انگریزی زبان وادب کے شعبے کاقیام عمل میں آیا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ انگریزی زبان وادب کا دوسالہ کورس ایک دینی مدرسہ کے احاطہ میں قائم ہورہا تھا۔  اس شعبے کی نظامت کی ذمہ داری  مولانا ماکروڈ صاحبؒنے اپنے صاحبزادے مولانا اسماعیل صاحبؒ کو سپرد کی۔ مولانا اسماعیل صاحب ؒنے اس خاکہ میں رنگ بھرنے کی پیہم کوشش شروع کردی؛ چناں چہ اپنے ہی ایک ساتھی حضرت مولانا شمس الہدی صاحب قاسمی کی تقرری اس شعبہ کے استاذ اور ہیڈ ٹیچر کے طور پر کی۔ اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف مدارس وجامعات کے نو فارغ، ان فضلا کو داخلہ دیا گیا جن کو دعوت وتبلیغ اور زبان وادب کے سیکھنے میں دل چسپی تھی۔ پھر اس ادارہ نے عملی طور پر اپنی خدمات شروع کی۔

سینٹر کے فیض یافتگان کی تعداد اوران کی خدمات:

ہر سال مختلف مدارس اور جامعات سے فارغ ہونے والے علما کی ایک بڑی تعداد، اس شعبے میں داخلے کے لیے کوشش کرتی ہے؛  تاکہ وہ دینی ودعوتی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر انگریزی زبان سیکھ سکیں۔ شروع میں تو تقریبا پچیس علما کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ اب چند سالوں سےتقریبا30-35/ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ،  یہ ادارہ تقریبا 17/سالوں سےمدارس وجامعات کے فضلا کو انگریزی زبان وادب سے مسلح کر رہا ہے۔ اس قلیل مدت میں اب تک اس ادارے سے جتنے علماء کرام نے انگریزی زبان وادب کےحوالے سے استفادہ کیا ہے، ان کی تعدادتقریبا"دو سو ستر" ہے، الحمد للہ۔ ان میں سےاکثر علما تدریسی خدمات میں مشغول ہیں۔ ان میں سے درجنوں دوسرے ممالک مثلا: برطانیہ، امریکہ، کناڈا، ساؤتھ افریقہ، زامبیا، زمبابوے، بوسٹوانا، آسٹریلیا وغیرہ میں تدریسی اور دینی ودعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور شعبہ کی نیک نامی کا ذریعہ بنائے! آمین!●●●