Tuesday, December 12, 2017

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محّبت



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محّبت


بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

افضل البشرؐ سے محبّت:
قرآن کریم کی مختلف آیات کریمہ اور متعدد احادیث شریفہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کو اللہ سبحانہ وتعالی، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام سے بے انتہا محبت کرنی چاہیے۔  در حقیت یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئےہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص اللہ تعالی سے محبت کرے، مگر اس کے پیارے رسول محمدؐ سے محبت نہ کرے یا اس کے بھیجے ہوئے دین اسلام سے محبت نہ کرے،یا اللہ کے رسولؐ سے محبت کرے اور اللہ تعالی اور دین اسلام سے محبت نہ کرے۔ اس تحریر میں ہم "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت " کے حوالے سے کچھ عرض کرتے ہیں؛ کیوں کہ آپؐ سے محبت کرنا واجب ولازم ہے اور کمال ایمان اسی پر موقوف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپؐ کےنبی ورسول ہونے کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالی نے آپؐ ایک ایسا انسان بنایا تھا جوکسی بھی طرح کے نقص سے پاک تھا۔ آپؐ  کو من جانب اللہ حسن وجمال، لیاقت وکمال اوراحسان ونوال کا اتنا وافر حصہ ملاتھا کہ آپؐ کے علاوہ کسی شخص کو میسر نہیں ہوا۔ آپؐ اس دنیا کے کامل ومکمل انسان اور افضل البشر تھے۔ پھر  آدمی آپؐ سے محبت کیوں نہ کرے!

محبت کا مفہوم ومطلب:
علامہ نووی (631-676 ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محبت کی اصل یہ ہے کہ (دل) کسی ایسی چیز کی طرف  مائل ہوجو مرغوب وپسندیدہ  ہو۔ پھر (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس میں انسان لذت محسوس کرتا ہواور اسے حسین سمجھتا ہو، جیسے حسن صورت اور کھانا وغیرہ اور (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس کی لذت باطنی وجوہ کی بنا پر اپنی عقل سے معلوم کرتا ہو جیسے صلحا، علماء اور اہل فضل کی مطلق محبت اور کبھی دل کا میلان کسی کی طرف اس کے احسان  اور اس سے کسی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیزوں دور کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے"۔ (المنھاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 2/14)

علامہ عینی (1361-1451ء) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دل کا تعلق اورمیلان کسی چیز کی طرف ہونا، اس تصور سے کہ اس میں کو‏ئی کمال اور خوبی وعمدگی ہے، اس طرح کہ وہ شخص اپنے رجحان اورآرزووخواہش   کا اظہار اس چیز میں کرے جو اس کو اس سے قریب کردے"۔  (عمدۃ القاری 1/142)

"الحبّ" اور "المحبّۃ" یہ دونوں (عربی کے) الفاظ ایسے معنی کو ادا کرتے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے، جو دوسری صفات کے مقابلہ میں اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اپنی تاثیر کے اعتبار سے، سب سے زیادہ عظیم ہے؛ کیوں کہ اس میں دل کا میلان اور محبوب کی طرف کھچاؤ پایا جاتا ہے اور وہ انسان کی طبیعت میں ایسا شعور اور سلوک کا جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ کبھی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے؛ بل کہ اپنے محبوب کی محبت میں، وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنی صفات چھوڑ کر محبوب کی صفات اختیار کرلیتا ہے"۔ (محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان میں سے ہے، ص: 10)

قرآن کریم میں آپؐ  سے محبت کا تذکرہ:
قرآن کریم میں رسول اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کی محبت کے حوالے سے ارشاد خداوندی ہے: ( ترجمہ) "ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں۔" (الأحزاب: 6)

مفتی محمد شفیع عثمانی (1897-1976) صاحب آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: " نبیؐ  مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس اور ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں؛ کیوں کہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہونچاتا ہے، کبھی نقصان؛ کیوں کہ اگر نفس اچھا ہے، اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے؛ تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے؛ تو خود اپنا نفس ہی اپنے لیے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے کہ آپؐ کی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے۔ اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو، پھر بھی اس کا نفع، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفع کے برابر نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ اپنے نفس کو تو خیر وشر اور مصلحت ومضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کو مصالح ومضار کا پورا علم بھی نہیں، بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپؐ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں اور جب نفع رسانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں؛ تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپؐ کی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپؐ کی تعظیم وتکریم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں"۔ (معارف القرآن 7/85-86)

ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: )ترجمہ( "آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہواور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو؛ تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سےاور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں؛ تو تم منتظر رہو۔یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم (سزائے ترک ہجرت کا) بھیج دیں۔ اور اللہ تعالی بے حکمی کرنے والے لوگوں کو ،ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا۔" (التوبۃ: 24)

اس آیت کریمہ کے تحت حضرت مولانا منظور نعمانی (1905-1997) صاحب رقم طراز ہیں: "پس قرآن مجید کی اس پر جلال آیت کا تقاضا اور مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایمان والوں کو اپنی تمام قابلِ محبت چیزوں سے زیادہ، اللہ ورسولؐ کی اور اس کے دین کی محبت ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر اللہ کی رضا اور اس کی خاص ہدایت حاصل نہیں ہوسکتی اور ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔"

آپ مزید لکھتے ہیں: "کھلی ہوئی بات ہے کہ جس کو یہ دولت نصیب ہوجائے، اس کے لیے ایمان کے سارے تقاضوں کا پورا کرنا اور اللہ ورسولؐ کے احکام پر چلنا نہ صرف یہ کہ آسان ہوجاتا ہے؛ بل کہ اس راہ میں جان عزیز تک دے دینے میں بھی وہ ایک لذت محسوس کرے گا اور اس کے برخلاف جس کے دل پر اللہ ورسولؐ  کی محبت کا ایسا غلبہ نہ ہوگا، اس کے لیے روزمرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہوگی اور جتنا کچھ وہ کرے گا بھی، تو اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابندی کی سی ہوگی، پس اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ جب تک اللہ ورسولؐ کی محبت دوسری ساری چاہتوں اور محبتوں پر غالب نہ ہوجائے، ایمان کا اصل مقام نصیب نہیں ہوسکتا اور ایمان کی حلاوت حاصل نہیں ہوسکتی"۔ (معارف الحدیث 1/93)

آپؐ سے محبّت کمال ایمان:
ابوہریرہ –رضی اللہ عنہ– بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ– صلی اللہ علیہ وسلم– نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کواپنے  والد (ماں اور باپ) اور اپنی اولاد سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں"۔ (صحیح البخاری: 14)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا،  جب تک کہ اس کو اپنے والد (ماں اور باپ)، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں"۔ (صحیح البخاری: 15)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کو اپنے مال ودولت، اہل وعیال اور تمام لوگوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں"۔ (سنن النسائي: 5014)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا، جس میں تین باتیں ہوں: (1) اللہ اور اس رسول کی محبت اس شخص میں تمام ماسوا سے زیادہ ہو، (2) یہ کہ کسی شخص سے بھی محبت کرے، توصرف اللہ کے لیے کرے اور (3) یہ کفر کی طرف لوٹنے کو ایسے ہی ناپسند کرے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرے"۔ (صحیح البخاری: 16)

مذکورہ بالا آیات کریمہ اور  احادیث کا حاصل یہ ہے کہ ایک مومن اپنے اہل وعیال، مال ودولت، خویش اقارب اور دنیا کی دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبت اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات، دین متین سے کرے۔ اگر کسی دوسرے سے محبت کرتا ہو؛ تو وہ محبت بھی اللہ کی خاطر ہو۔  جب تک  اللہ اور اللہ کے رسول  اور دین سے سب سے زیادہ محبت نہیں ہوگی، کوئی بھی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا ہے۔

ایک سوال :
اوپر کی سطروں میں کئی احادیث نقل کی گئیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ "جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں، ایمان کامل نہیں ہوسکتا"؛ جب کہ بسا اوقات طبعی طور پر ایک آدمی کا قلبی لگاؤ اور دل کا میلان اپنے والدین، خویش واقارب اور بیوی  بچوں کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی مسلمان "کامل مومن" نہیں ہے؟ محدثین کرام نے اس حوالے سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ محبت کی تین قسمیں ہیں:

محبت طبعی: یہ غیر اختیاری محبت ہے۔  والدین، خویش واقارب اور بیوی بچوں سے جو محبت ہوتی وہ محبت طبعی یعنی غیر اختیاری ہوتی ہے۔ حدیث میں یہ "محبت طبعی" مراد نہیں ہے۔
محبت ایمانی: یہ اختیاری محبت ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک کام کے کرنے سے طبیعت انکار کرتی ہے؛ مگر ایمان یہ تقاضا کرتا ہے، یہ کام شریعت کا حکم ہے؛ اس لیے ہمیں یہ کام کرنا ہے۔
محبت عقلی: یہ بھی اختیاری محبت ہے۔ اس حاصل یہ ہے کہ بسا اوقات طبیعت کا میلان کسی کام یا حکم کی  ادائیگی کی طرف نہیں ہوتا ہے؛ مگر عقل رہنمائی کرتی ہے اس حکم کے بجالانے میں ہمارا فائدہ ہے؛ لہذا ہم اسے کرتے۔ حدیث میں جس محبت کا ذکر ہے، وہ یہی محبت اختیاری یعنی محبت ایمانی اور محبت  عقلی کا ذکر ہے؛ چناں چہ ہماری عقل ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ ہم آپؐ سے سب سے زیادہ محبت کریں؛ کیوں کہ وہ ہمارے اس دنیا کے محسن اکبر ہیں اور آخرت میں شفیع اعظم ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی (1372-1448) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "والمراد بالمحبة هنا حب الاختيار لا حب الطبع" یعنی حدیث جس محبت کا ذکر ہے، اس سے مراد  محبت اختیاری ہےنہ کہ محبت طبعی۔(فتح الباری 1/59)

محبت کے اسباب:
        عام طور ایک آدمی کسی سے تین اسباب میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ  کی وجہہ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اسباب : حسن وجمال، لیاقت وکمال اوراحسان ونوال ہیں۔ جب ہم ان وجوہ واسباب کو آپؐ کی مبارک ذات میں تلاشتے ہیں؛ تو بدرجہ اتم پاتے ہیں۔ ان اسباب کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:

حسن وجمال: ایک آدمی کسی سے محبت اس کی ظاہری خوب صورتی وجمال کی وجہہ سے کرتا ہے، جیسا کہ زلیخا نے حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام سےحسن وجمال کی وجہہ سے محبت کی۔ نبی اکرمؐ تو دنیا کے حسین ترین انسان تھے۔ آپؐ کے حسن وجمال کی گواہی متعدد صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم– نے دی ہے۔ ملاحظہ فرمائے چند احادیث:

حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں: "ایک چاندنی رات میں، میں اللہ کےرسولؐ کو دیکھ رہا تھا، پھر میں اللہ کےرسولؐ اور چاند کی طرف دیکھنے لگا؛ جب کہ آپؐ سرخ جوڑے میں ملبوس تھے۔ آپؐ مجھے چاند سے زیادہ حسین لگے"۔ (سنن الترمذي: 2811)
ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "اللہ کے رسولؐ اپنی ذات کے اعتبار سے عظیم تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ ومرتبہ والے تھے۔ آپؐ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔"(شعب الإيمان: 1362)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد تھے: قد کے اعتبار سے نہ لمبے تھے، نہ بونے۔ آپؐ خوب صورت جسم والے تھے۔ آپؐ کے بال نہ بالکل پیچ دار تھے، نہ بالکل سیدھے۔ آپ گندمی رنگ کے تھے۔ جب آپؐ چلتے تھے؛ تو جھک کر چلتے تھے۔ (شمائل ترمذي: حدیث: 2) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوب صورت کوئی چیز نہیں دیکھی، گویا سورج آپؐ کے چہرے میں رواں (چہرہ نہایت ہی منور) تھا۔ (شمائل ترمذی: 116)

کمال: کسی سے محبت کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر کوئی کمال ولیاقت رکھتا ہے اورخوبی وعمدگی کا مالک ہے، جیسے علم وفضل اور صلاحیت وصالحیت وغیرہ۔ آپؐ میں ایک دو کمال نہیں؛ بل کہ سیکڑوں کمالات تھے۔ آپؐ پر نبوت ختم ہوئی اور آپؐ خاتم النبیین تھے۔ آپؐ نے فرمایا: "مجھ پر نبوت ختم ہوئی اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"۔ (المعجم الأوسط: 3274)  اللہ تعالی نے آپؐ کو اولین وآخرین کے علم سے نوازا تھا۔ پھر مخلوقات میں جتنےبھی  کمالات ہیں وہ سب آپؐ کے ہی واسطے سے ہیں؛ کیوں کہ آپؐ ہی مبلغ اور قاسم ہیں۔ آپؐ نے   فرمایا: "إنّما أنا قاسم والله يعطي". (صحیح البخاری: 71)

احسان: ایک آدمی کسی کے احسان کی وجہہ سے بھی اس سے محبت کرتا ہے۔صفت احسان بھی نبی اکرمؐ میں حد درجہ پائی جاتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب رمضان کا مہینہ آتا؛ تو آپؐ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ (اور خاص طور پر رمضان میں) آپؐ کی سخاوت ہوا سے بھی زیادہ تیز ہوتی تھی۔ (مسند احمد: 3469)

ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں فرماتے ہیں: "جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا؛ تو اللہ کے رسول ہر قیدی کو رہائی بخشتے اور ہر سائل کی مراد پوری فرماتے"۔ (مشکاۃ: 1966)

علامہ نووی  (631-676 ھ) رحمہ اللہ محبت کے وجوہ واسباب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "یہ سارے اسباب نبیؐ کی ذات میں موجود ہیں؛ کیوں کہ آپؐ جمال ظاہری وباطنی،  کمال اور ہر طرح کے فضائل  کو جامع ہیں اور آپؐ نے خاص طورسے مسلمانوں کو صراط مستقیم، دائمی نعمت اور جہنم سے دور رہنے کی ہدایت کرکے احسان فرمایا ہے۔ (المنھاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 2/14)

آپؐ سے محبت کا تقاضا:
صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اور نبی اکرمؐ سے دل وجان سے محبت کرتے ہیں، کافی نہیں ہے؛ بل کہ آپؐ سے  محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان احکام خداوندی کو بجا لائیں جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا اور ان چیزوں سے رک جائیں جن سے ذات باری تعالی نے منع فرمایا ہے۔قرآن کریم کی ہدایات کو اپنے سینے سے لگائیں۔ ہم رسول اکرمؐ کی سنتوں پر عمل کریں، آپؐ کی زندگی کو ہم اپنے لیے نمونہ بنالیں اور اسی کے مطابق ہر کام انجام دیں۔ آپؐ کے شمائل وسیرت کا مطالعہ کریں۔ آپؐ کا خوب ذکر کریں اور آپؐ پر درود وسلام کا نذرانہ پیش کریں۔ مختصر یہ کہ ایک مسلمان آپؐ کا اتباع میں ہی اپنی کام یابی سمجھے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  (ترجمہ)  "آپ فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو؛ تو تم لوگ میرا اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمھارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور اللہ تعالی بڑے معاف کرنے والے، بڑے عنایت فرمانے والے ہیں"۔ (سورہ آل عمران: 31)

حرف آخر:
ہر مسلمان کی  یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا ایمان پر خاتمہ ہو اور اس دار فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد، جب دار جاودانی میں پہنچے؛ تو وہاں اس کا حشر انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین ، شہداؤصدیقین اور اولیاء واتقیا کے ساتھ ہو۔ اگر ہم ایسا حشر چاہتے ہیں؛ تو  اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان حضرات سے محبت کریں،  ہم ان کو دل وجان سے چاہیں  اور ہم ان کے ہدایات کے مطابق عمل کریں۔ پھر ہمارا حشر ان حضرات کے ساتھ ہوگا۔ صادق ومصدوق رسول اکرمؐ کی حدیث ہے: "المرءمع من أحبَّ" (صحیح البخاری: 6168) یعنی انسان کا حشر اس شخص کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہ حدیث بھی ہمیں رہنمائی کررہی ہے کہ اگر ہم اپنا حشر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چاہتے ہیں؛ تو دل وجان سے آپؐ سے محبت کریں۔

٭ ہیڈ اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

Sad Demise of a High-Ranking Scholar of Hadith: Sheikh Riyasat Ali Bijnori (1940-2017)

Sad Demise of a High-Ranking Scholar of Hadith: Sheikh Riyasat Ali Bijnori (1940-2017)


By: Khursheed Alam Dawood Qasmi


Sheikh Riyasat Ali Zafar Bijnori (1940-2017), was a highly respected personality and a high-ranking scholar of Hadeeth at famous Islamic University: Darul Uloom, Deoband, India. Following the order of his Exalted Creator, he left for heavenly abode without any prior information to his near, dear and loved ones. Human beings are under the power and will of the Almighty Allah. They will have to abide by His decision without any excuse when the time of death comes. This is an irrefutable fact that when some persons die, its effect remains for a short while and the people forget. But there are some other personalities when they die, its outcome reaches far and wide in the world and he is remembered for a long time because of his dynamic personality and rich contribution for an institution or a community. Respected Sheikh Riyasat Ali Zafar Bijnori was from the second category and he will be remembered for a long period of time as he was held in high esteemed by his students and colleagues in Darul Uloom, Deoband, because his remarkable and outstanding works and services. Because of his sudden and sad demise not only his family has suffered a terrible loss; but it is a heavy loss for the Muslim Ummah and his students spread all over the world too. May Allah the Supreme Lord forgive his sins and grant him the best place in Jannah! Aameen!

Sheikh Bijnori was originally from “Habib Wala” of District: Bijnor in UP state of India. He was born on 9th March 1940, in “Hakeem Saraye” of Ali Gadh where his respected father Minshi Firasat Ali (Rahimahullah) was residing with his family members as he was employed there as a teacher.

Sheikh acquired his elementary education at his native place. He passed the exam of the fourth standard of the primary in 1951. Following the completion of fourth standard, he accompanied his uncle (husband of paternal aunt), Sheikh Sultanul Haq Zakir Faruqi (Deceased: 1408 AH), Librarian of Darul Uloom, Deoband. He was granted admission in Darul Uloom, Deoband in 1951. He continued quenching his thirst of knowledge from the flowing stream of Islamic knowledge, Darul Uloom, Deoband. Thus he completed his graduation in Islamic Studies in 1958 with flying colours from Darul Uloom in Deoband.

Sheikh Bijnori was educated at Darul Uloom, Deoband, by Sheikhul Hadeeth Sheikh Fakhruddin Ahmad Muradabadi (1307-1393 AH), Allahmah Muhammad Ibrahim Baliavi (1886-1967), Sheikh Basheer Ahmad Khan Buland Shahri (Deceased: 1966) Hakimul Islam Qari Muhammad Tayyab Qasmi (1897-1983), ex-VC of Darul Uloom, Deoband, Allamah Muahmmad Husein Bihari (1905-1991), Sheikh Jalil Ahmad Kairanvi (Deceased: 1968) and Sheikh Zahoor Ahmad Deoband (1900-1963) (May Allah have mercy on them). After the graduation, Sheikh Bijnori continued benefiting from his highly esteemed teacher of Hadith, Sheikh Fakhruddin Ahmad for 13 years. In the meantime, he passed examinations of “Adeeb Kaamil” securing the 1st position and was awarded “Sir Sayyid Medial”.

While on the one hand, Sheikh Bijnori’s efforts and his teachers’ helpful guidance played an important role in developing his education skill, his uncle: Maulana Sultanul Haq Faruqi (Rh.A)’s style of upbringing was a key factor in shaping his personal and educational quality on the other. Appreciating his uncle’s upbringing and patronage, Sheikh Bijnori writes attributing his compilation of Sahih Bukhari’s commentary: Eizahul Bukhari to his uncle: “Following the real doer of things (Allah), beloved uncle: Maulana Sultanul Haq Zakir Farnuqi Rahimahullah (Deceased: 1407AH), ex-librarian of Darul Uloom, Deoband was the biggest patron of this writer in this world. For this, how much sadness and diligence he had to bear, Allah knows it better. On this occasion, I attribute this humble work of mine to hm.” (Eizahul Bukhari 1/3)

Sheikh Bijnori was recruited to teach in Darul Uloom, Deoband in 1972. Without seeking he was offered different offices and he rendered his sincere services to Darul Uloom in different capacities along with teaching for 45 years. Whichever responsibility was assigned to him, he performed it with good management and sound policy. He acted in his capacity as the Editor of Urdu monthly magazine “Darul Uloom” from 1982 to 1984. He was nominated Naazime Majilise Taalimaat (Administrator of Educational Board) in 1985. In 1988, Majlise Shura (the governing body) of Darul Uloom, Deoband selected him as the patron of Shaikhul Hind Academy, the Journalism and Research Department. In his period, the academy published several authentic and scholarly books. Along with holding several offices, he taught most of the books of Darse Nizaami. Currently, he was teaching the first volume of Sunan Tirmidhi of famous Muhaddhith Abu Eisa Muhammad bin Eisa bin Saurah bin Musa (Deceased: 279 AH) and Al-Balaghatul Wazihah. May the Exalted Allah accept his great services!

Sheikh Bijnori didn’t pen a good number of books; but whichever books he compiled, were authentic and in eloquent, simplified and easy language. His well-known work is “Shuraa Ki Shariaee Haithiyat” which is unique and only book on the topic available in the market. He is co-author of an Arabic booklet, on Ussoolul Fiqh: “Tasheelul Usool” for beginners, which is a part of the fourth year of Arabic in Darul Uloom, Deoband. His work is also published as “Muqaddamah Tafheemul Quraan Ka Tahqiqi Wa Tanqidi Jaaizah”. His love and interest in Hadith was exemplary. So, as he taught the Hadith books like Mishkaatul Masaabeeh, Ibne Majah, Tirmidhi etc. for several years, he also authored the commentary of Ibne Majah, Misbahuz Zujajah, wherein he explained the difficult Hadith and highlighted the necessary points. Moreover, he compiled and edited Sahih Bukhari’s lessons of his benevolent teacher Sheikh Fakhruddin Ahmad (Rahimahullah) namely “Eizahul Bukhari” in 10 volumes. This commentary is presenting rich material and is one among the finest commentaries of Sahih Bukhari in Urdu language, because of detailed explanation, unique points and fluent language presented in it.

With being the prominent scholar of Hadith and good at management, Sheikh Bijnori was experienced prose and poet writer of Urdu language whose poetry is compiled and published. Be it poem or prose, his writing was considered high classification literature. In poetry, he was one amongst the renowned students of Maulana Muhammad Uthman Kashif Al-Hashmi. He had control over all categories of poetry. He composed little poetry, but whatever he composed was appreciated by prose and poem writers. On the occasion of Darul Uloom, Deoband’s “Diamond Jubilee” in 1980, he composed the anthem of Darul Uloom. I don’t think an anthem of any orgnisation or institution would have gotten such fame as the said anthem got. His poetries were compiled and published namely “Naghmae Sahar” some year back. It was received and welcomed by poet and prose writers.

During the 45-year long period of Sheikh Bijnori’s teaching at Darul Uloom, many students quenched their thirst of knowledge from him. His love and affection for the students were matchless. Whenever a student or a visitor used to visit him, he used to receive him pleasingly with open arms. He was kind teacher and well advisor like a father for the students. His language was sweet. He used to address the students as “Bete” (sons). When he was pronouncing the word “Bete”, it was easy to guess that his heart is full with love and affection for the students. Sometimes, he used to address some students as “Bhai” (brother), but it was just for humour in the class. As he was kind and affectionate for the students, the students had also great admiration and appreciation for him.

In accordance with the instruction of our beloved Nabi Muhammad (Sallallahu Aeihi Wa Sallam), “Salaam” (Greeting) should be our common practice. When we meet, we should greet one another and preach greeting amongst us. It is sign of humbleness. But people don’t practice “Salaam” as it was the habit of our beloved Nabi (SAWS) and his companions (May Allah be pleased with them). Sheikh Bijnori was accustomed with “Salaam” whomever he met. It was commonly observed that Sheikh Bijnori used to greet first to anyone, be his students or any other visitors. It was almost impossible for someone to exceed Sheikh Bijnori in greeting. This feeling is not a personal one or a single person’s realization only, but it was also generally observed by the students in Darul Uloom, Deoband.

In 2003, I was in the final year in Darul Uloom Deoband. Luckily, I learnt from Sheikh Bijnori “Ibne Majah” of known Muhadith Ibne Majah Abu Abdullah Muhammad bin Yazid Al-Qazwini (273 AH). In 2004, I learnt “Al-Balaghatul Wazihah” in Takmeel Adab from Sheikh. Following his arrival in Takmeele Adab classroom, a student used to read the text first. Latter, Sheikh used to explain the read text. At end of each lesson, there is an exercise in Al-Balaghah Al-Wazihah. In the beginning of the academic year, the students were trying to do the exercise in Urdu language. Sheikh used to remind “Now you are students of Arabic Language and Literature. You must do the exercise in Arabic language.” Whatsoever, the students had to do the exercise in Arabic language. When a student was mistaking, he used to control him softly without expressing anger and unhappiness. We never felt even the sign of displeasure at his face. He was more caring and more loving for the students. He never tried to hurt the feelings of the students deliberately.

Sheikh breathed his last at the age of 77 years. Currently his health was deteriorating day-by-day and he grew weaker due to the old age. Some months back he fell seriously ill, but Allah the Almighty cured him and he recovered. This time, his worldly time was over, so without any serious illness, he breathed his last early in the morning on 20th May 2017. His funeral prayer was led by one of his colleagues, Maulana Qari Sayyid Muhammad Usman Mansoorpuri, teacher of Hadeeth at Darul Uloom, Deoband on the same day at 3:30 pm around in “Ihatae Molsari”. Thousands of people, relatives and students attended the funeral. He was buried in “Qasmi Graveyard”, nearby Darul Uloom, Deoband. Now, Sheikh is no more amongst us. We are sure that his students, sons and relative will pray for Sheikh. It will be a cause of elevation of his status in the hereafter, In Shaa Allah. May Allah the Almighty shower His blessing and mercy upon his grave and grant him the choicest place in Jannatul Firdaus! Ameen!···