Tuesday, December 12, 2017

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محّبت



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محّبت


بہ قلم: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

افضل البشرؐ سے محبّت:
قرآن کریم کی مختلف آیات کریمہ اور متعدد احادیث شریفہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کو اللہ سبحانہ وتعالی، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام سے بے انتہا محبت کرنی چاہیے۔  در حقیت یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئےہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص اللہ تعالی سے محبت کرے، مگر اس کے پیارے رسول محمدؐ سے محبت نہ کرے یا اس کے بھیجے ہوئے دین اسلام سے محبت نہ کرے،یا اللہ کے رسولؐ سے محبت کرے اور اللہ تعالی اور دین اسلام سے محبت نہ کرے۔ اس تحریر میں ہم "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت " کے حوالے سے کچھ عرض کرتے ہیں؛ کیوں کہ آپؐ سے محبت کرنا واجب ولازم ہے اور کمال ایمان اسی پر موقوف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپؐ کےنبی ورسول ہونے کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالی نے آپؐ ایک ایسا انسان بنایا تھا جوکسی بھی طرح کے نقص سے پاک تھا۔ آپؐ  کو من جانب اللہ حسن وجمال، لیاقت وکمال اوراحسان ونوال کا اتنا وافر حصہ ملاتھا کہ آپؐ کے علاوہ کسی شخص کو میسر نہیں ہوا۔ آپؐ اس دنیا کے کامل ومکمل انسان اور افضل البشر تھے۔ پھر  آدمی آپؐ سے محبت کیوں نہ کرے!

محبت کا مفہوم ومطلب:
علامہ نووی (631-676 ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محبت کی اصل یہ ہے کہ (دل) کسی ایسی چیز کی طرف  مائل ہوجو مرغوب وپسندیدہ  ہو۔ پھر (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس میں انسان لذت محسوس کرتا ہواور اسے حسین سمجھتا ہو، جیسے حسن صورت اور کھانا وغیرہ اور (دل کا) میلان کبھی ایسی چیز کی طرف ہوتا ہے جس کی لذت باطنی وجوہ کی بنا پر اپنی عقل سے معلوم کرتا ہو جیسے صلحا، علماء اور اہل فضل کی مطلق محبت اور کبھی دل کا میلان کسی کی طرف اس کے احسان  اور اس سے کسی تکلیف دہ اور ناپسندیدہ چیزوں دور کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے"۔ (المنھاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 2/14)

علامہ عینی (1361-1451ء) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دل کا تعلق اورمیلان کسی چیز کی طرف ہونا، اس تصور سے کہ اس میں کو‏ئی کمال اور خوبی وعمدگی ہے، اس طرح کہ وہ شخص اپنے رجحان اورآرزووخواہش   کا اظہار اس چیز میں کرے جو اس کو اس سے قریب کردے"۔  (عمدۃ القاری 1/142)

"الحبّ" اور "المحبّۃ" یہ دونوں (عربی کے) الفاظ ایسے معنی کو ادا کرتے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے، جو دوسری صفات کے مقابلہ میں اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اپنی تاثیر کے اعتبار سے، سب سے زیادہ عظیم ہے؛ کیوں کہ اس میں دل کا میلان اور محبوب کی طرف کھچاؤ پایا جاتا ہے اور وہ انسان کی طبیعت میں ایسا شعور اور سلوک کا جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ کبھی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے؛ بل کہ اپنے محبوب کی محبت میں، وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنی صفات چھوڑ کر محبوب کی صفات اختیار کرلیتا ہے"۔ (محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایمان میں سے ہے، ص: 10)

قرآن کریم میں آپؐ  سے محبت کا تذکرہ:
قرآن کریم میں رسول اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کی محبت کے حوالے سے ارشاد خداوندی ہے: ( ترجمہ) "ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں۔" (الأحزاب: 6)

مفتی محمد شفیع عثمانی (1897-1976) صاحب آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: " نبیؐ  مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس اور ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں؛ کیوں کہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہونچاتا ہے، کبھی نقصان؛ کیوں کہ اگر نفس اچھا ہے، اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے؛ تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے؛ تو خود اپنا نفس ہی اپنے لیے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے کہ آپؐ کی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے۔ اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو، پھر بھی اس کا نفع، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفع کے برابر نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ اپنے نفس کو تو خیر وشر اور مصلحت ومضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کو مصالح ومضار کا پورا علم بھی نہیں، بخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپؐ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں اور جب نفع رسانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں؛ تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپؐ کی ہر کام میں اطاعت کریں اور آپؐ کی تعظیم وتکریم تمام مخلوقات سے زیادہ کریں"۔ (معارف القرآن 7/85-86)

ایک دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: )ترجمہ( "آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہواور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو؛ تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سےاور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں؛ تو تم منتظر رہو۔یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم (سزائے ترک ہجرت کا) بھیج دیں۔ اور اللہ تعالی بے حکمی کرنے والے لوگوں کو ،ان کے مقصود تک نہیں پہنچاتا۔" (التوبۃ: 24)

اس آیت کریمہ کے تحت حضرت مولانا منظور نعمانی (1905-1997) صاحب رقم طراز ہیں: "پس قرآن مجید کی اس پر جلال آیت کا تقاضا اور مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایمان والوں کو اپنی تمام قابلِ محبت چیزوں سے زیادہ، اللہ ورسولؐ کی اور اس کے دین کی محبت ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر اللہ کی رضا اور اس کی خاص ہدایت حاصل نہیں ہوسکتی اور ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔"

آپ مزید لکھتے ہیں: "کھلی ہوئی بات ہے کہ جس کو یہ دولت نصیب ہوجائے، اس کے لیے ایمان کے سارے تقاضوں کا پورا کرنا اور اللہ ورسولؐ کے احکام پر چلنا نہ صرف یہ کہ آسان ہوجاتا ہے؛ بل کہ اس راہ میں جان عزیز تک دے دینے میں بھی وہ ایک لذت محسوس کرے گا اور اس کے برخلاف جس کے دل پر اللہ ورسولؐ  کی محبت کا ایسا غلبہ نہ ہوگا، اس کے لیے روزمرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہوگی اور جتنا کچھ وہ کرے گا بھی، تو اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابندی کی سی ہوگی، پس اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ جب تک اللہ ورسولؐ کی محبت دوسری ساری چاہتوں اور محبتوں پر غالب نہ ہوجائے، ایمان کا اصل مقام نصیب نہیں ہوسکتا اور ایمان کی حلاوت حاصل نہیں ہوسکتی"۔ (معارف الحدیث 1/93)

آپؐ سے محبّت کمال ایمان:
ابوہریرہ –رضی اللہ عنہ– بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ– صلی اللہ علیہ وسلم– نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کواپنے  والد (ماں اور باپ) اور اپنی اولاد سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں"۔ (صحیح البخاری: 14)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا،  جب تک کہ اس کو اپنے والد (ماں اور باپ)، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں"۔ (صحیح البخاری: 15)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کو اپنے مال ودولت، اہل وعیال اور تمام لوگوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہوجاؤں"۔ (سنن النسائي: 5014)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا، جس میں تین باتیں ہوں: (1) اللہ اور اس رسول کی محبت اس شخص میں تمام ماسوا سے زیادہ ہو، (2) یہ کہ کسی شخص سے بھی محبت کرے، توصرف اللہ کے لیے کرے اور (3) یہ کفر کی طرف لوٹنے کو ایسے ہی ناپسند کرے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرے"۔ (صحیح البخاری: 16)

مذکورہ بالا آیات کریمہ اور  احادیث کا حاصل یہ ہے کہ ایک مومن اپنے اہل وعیال، مال ودولت، خویش اقارب اور دنیا کی دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبت اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات، دین متین سے کرے۔ اگر کسی دوسرے سے محبت کرتا ہو؛ تو وہ محبت بھی اللہ کی خاطر ہو۔  جب تک  اللہ اور اللہ کے رسول  اور دین سے سب سے زیادہ محبت نہیں ہوگی، کوئی بھی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا ہے۔

ایک سوال :
اوپر کی سطروں میں کئی احادیث نقل کی گئیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ "جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں، ایمان کامل نہیں ہوسکتا"؛ جب کہ بسا اوقات طبعی طور پر ایک آدمی کا قلبی لگاؤ اور دل کا میلان اپنے والدین، خویش واقارب اور بیوی  بچوں کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی مسلمان "کامل مومن" نہیں ہے؟ محدثین کرام نے اس حوالے سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ محبت کی تین قسمیں ہیں:

محبت طبعی: یہ غیر اختیاری محبت ہے۔  والدین، خویش واقارب اور بیوی بچوں سے جو محبت ہوتی وہ محبت طبعی یعنی غیر اختیاری ہوتی ہے۔ حدیث میں یہ "محبت طبعی" مراد نہیں ہے۔
محبت ایمانی: یہ اختیاری محبت ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک کام کے کرنے سے طبیعت انکار کرتی ہے؛ مگر ایمان یہ تقاضا کرتا ہے، یہ کام شریعت کا حکم ہے؛ اس لیے ہمیں یہ کام کرنا ہے۔
محبت عقلی: یہ بھی اختیاری محبت ہے۔ اس حاصل یہ ہے کہ بسا اوقات طبیعت کا میلان کسی کام یا حکم کی  ادائیگی کی طرف نہیں ہوتا ہے؛ مگر عقل رہنمائی کرتی ہے اس حکم کے بجالانے میں ہمارا فائدہ ہے؛ لہذا ہم اسے کرتے۔ حدیث میں جس محبت کا ذکر ہے، وہ یہی محبت اختیاری یعنی محبت ایمانی اور محبت  عقلی کا ذکر ہے؛ چناں چہ ہماری عقل ہمیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ ہم آپؐ سے سب سے زیادہ محبت کریں؛ کیوں کہ وہ ہمارے اس دنیا کے محسن اکبر ہیں اور آخرت میں شفیع اعظم ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی (1372-1448) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "والمراد بالمحبة هنا حب الاختيار لا حب الطبع" یعنی حدیث جس محبت کا ذکر ہے، اس سے مراد  محبت اختیاری ہےنہ کہ محبت طبعی۔(فتح الباری 1/59)

محبت کے اسباب:
        عام طور ایک آدمی کسی سے تین اسباب میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ  کی وجہہ سے محبت کرتا ہے۔ وہ اسباب : حسن وجمال، لیاقت وکمال اوراحسان ونوال ہیں۔ جب ہم ان وجوہ واسباب کو آپؐ کی مبارک ذات میں تلاشتے ہیں؛ تو بدرجہ اتم پاتے ہیں۔ ان اسباب کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:

حسن وجمال: ایک آدمی کسی سے محبت اس کی ظاہری خوب صورتی وجمال کی وجہہ سے کرتا ہے، جیسا کہ زلیخا نے حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام سےحسن وجمال کی وجہہ سے محبت کی۔ نبی اکرمؐ تو دنیا کے حسین ترین انسان تھے۔ آپؐ کے حسن وجمال کی گواہی متعدد صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم– نے دی ہے۔ ملاحظہ فرمائے چند احادیث:

حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں: "ایک چاندنی رات میں، میں اللہ کےرسولؐ کو دیکھ رہا تھا، پھر میں اللہ کےرسولؐ اور چاند کی طرف دیکھنے لگا؛ جب کہ آپؐ سرخ جوڑے میں ملبوس تھے۔ آپؐ مجھے چاند سے زیادہ حسین لگے"۔ (سنن الترمذي: 2811)
ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "اللہ کے رسولؐ اپنی ذات کے اعتبار سے عظیم تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ ومرتبہ والے تھے۔ آپؐ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔"(شعب الإيمان: 1362)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد تھے: قد کے اعتبار سے نہ لمبے تھے، نہ بونے۔ آپؐ خوب صورت جسم والے تھے۔ آپؐ کے بال نہ بالکل پیچ دار تھے، نہ بالکل سیدھے۔ آپ گندمی رنگ کے تھے۔ جب آپؐ چلتے تھے؛ تو جھک کر چلتے تھے۔ (شمائل ترمذي: حدیث: 2) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوب صورت کوئی چیز نہیں دیکھی، گویا سورج آپؐ کے چہرے میں رواں (چہرہ نہایت ہی منور) تھا۔ (شمائل ترمذی: 116)

کمال: کسی سے محبت کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر کوئی کمال ولیاقت رکھتا ہے اورخوبی وعمدگی کا مالک ہے، جیسے علم وفضل اور صلاحیت وصالحیت وغیرہ۔ آپؐ میں ایک دو کمال نہیں؛ بل کہ سیکڑوں کمالات تھے۔ آپؐ پر نبوت ختم ہوئی اور آپؐ خاتم النبیین تھے۔ آپؐ نے فرمایا: "مجھ پر نبوت ختم ہوئی اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"۔ (المعجم الأوسط: 3274)  اللہ تعالی نے آپؐ کو اولین وآخرین کے علم سے نوازا تھا۔ پھر مخلوقات میں جتنےبھی  کمالات ہیں وہ سب آپؐ کے ہی واسطے سے ہیں؛ کیوں کہ آپؐ ہی مبلغ اور قاسم ہیں۔ آپؐ نے   فرمایا: "إنّما أنا قاسم والله يعطي". (صحیح البخاری: 71)

احسان: ایک آدمی کسی کے احسان کی وجہہ سے بھی اس سے محبت کرتا ہے۔صفت احسان بھی نبی اکرمؐ میں حد درجہ پائی جاتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب رمضان کا مہینہ آتا؛ تو آپؐ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے تھے۔ (اور خاص طور پر رمضان میں) آپؐ کی سخاوت ہوا سے بھی زیادہ تیز ہوتی تھی۔ (مسند احمد: 3469)

ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں فرماتے ہیں: "جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا؛ تو اللہ کے رسول ہر قیدی کو رہائی بخشتے اور ہر سائل کی مراد پوری فرماتے"۔ (مشکاۃ: 1966)

علامہ نووی  (631-676 ھ) رحمہ اللہ محبت کے وجوہ واسباب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "یہ سارے اسباب نبیؐ کی ذات میں موجود ہیں؛ کیوں کہ آپؐ جمال ظاہری وباطنی،  کمال اور ہر طرح کے فضائل  کو جامع ہیں اور آپؐ نے خاص طورسے مسلمانوں کو صراط مستقیم، دائمی نعمت اور جہنم سے دور رہنے کی ہدایت کرکے احسان فرمایا ہے۔ (المنھاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 2/14)

آپؐ سے محبت کا تقاضا:
صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اور نبی اکرمؐ سے دل وجان سے محبت کرتے ہیں، کافی نہیں ہے؛ بل کہ آپؐ سے  محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان احکام خداوندی کو بجا لائیں جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا اور ان چیزوں سے رک جائیں جن سے ذات باری تعالی نے منع فرمایا ہے۔قرآن کریم کی ہدایات کو اپنے سینے سے لگائیں۔ ہم رسول اکرمؐ کی سنتوں پر عمل کریں، آپؐ کی زندگی کو ہم اپنے لیے نمونہ بنالیں اور اسی کے مطابق ہر کام انجام دیں۔ آپؐ کے شمائل وسیرت کا مطالعہ کریں۔ آپؐ کا خوب ذکر کریں اور آپؐ پر درود وسلام کا نذرانہ پیش کریں۔ مختصر یہ کہ ایک مسلمان آپؐ کا اتباع میں ہی اپنی کام یابی سمجھے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  (ترجمہ)  "آپ فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو؛ تو تم لوگ میرا اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمھارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور اللہ تعالی بڑے معاف کرنے والے، بڑے عنایت فرمانے والے ہیں"۔ (سورہ آل عمران: 31)

حرف آخر:
ہر مسلمان کی  یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا ایمان پر خاتمہ ہو اور اس دار فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد، جب دار جاودانی میں پہنچے؛ تو وہاں اس کا حشر انبیاء ورسل، صحابہ وتابعین ، شہداؤصدیقین اور اولیاء واتقیا کے ساتھ ہو۔ اگر ہم ایسا حشر چاہتے ہیں؛ تو  اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان حضرات سے محبت کریں،  ہم ان کو دل وجان سے چاہیں  اور ہم ان کے ہدایات کے مطابق عمل کریں۔ پھر ہمارا حشر ان حضرات کے ساتھ ہوگا۔ صادق ومصدوق رسول اکرمؐ کی حدیث ہے: "المرءمع من أحبَّ" (صحیح البخاری: 6168) یعنی انسان کا حشر اس شخص کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہ حدیث بھی ہمیں رہنمائی کررہی ہے کہ اگر ہم اپنا حشر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چاہتے ہیں؛ تو دل وجان سے آپؐ سے محبت کریں۔

٭ ہیڈ اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

No comments: