Saturday, November 30, 2019

یومُ الارض اور تحریک حق واپسی


یومُ الارض اور تحریک حق واپسی

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

اس بار فلسطینی"قَومی یومُ الارض" کے موقع سے،شروع ہونے والی "تحریک حق واپسی"  میں، بے شمار فلسطینیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ  ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صہیونیت نواز  صدر مسٹر ٹرمپ کے 6/دسمبر 2017 کو  بیت المقدس کو اسرائیل کا دار الحکومت تسلیم کرنے کے بعد سے، غاصب صہیونی ریاست نے اپنے وسیع تر منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لیے مقبوضہ بیت المقدس کے بعد، جہاں  کچھ دوسری اہم جگہوں کو قبضہ کرنے کی کوشش  تیز کردی ہے، وہیں دوسری طرف غزہ کی پٹی کا مزید سخت محاصرہ کرکے اہالیان غزہ کی زندگی اجیرن کررکھا ہے۔

 

فلسطینی قوم ہرسال مارچ کے آخری ہفتے اور خاص طور پر 30/مارچ کو ، چاہے وہ اندروں فلسطین میں ہوں یا دنیا کے کسی کونے میں مقیم ہوں، "قَومی یومُ الارض" مناتے ہیں۔ اس کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی قوم اپنےبنیادی حقوق کے دفاع، خود ارادیت (Self-Determination)، حق واپسی اور غصب شدہ اراضی کے حصول کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور اقوام عالم کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ فلسطینی قوم کے پاس بھی صدیوں پرانا  اپنا وطن اور اپنی زمین ہے،گرچہ آج غاصب ریاست اسرائیل نے ان سے ان کی زمین ووطن کو اپنے ظلم وجبر اور قوت وسطوت کا استعمال کرکے، زبردستی چھین کر، لاکھوں فلسطینوں کو بے گھر کردیا ہے۔

 

غاصب صہیونی ریاست  اپنے قیام کے روز اول سےہی اہالیان فلسطین پر ظلم وجبر کے لامتناہی سلسلے کے ساتھ، ان کی زمینوں کو زبردستی قبضہ کرنے اور ہتھیانے کے لیے مختلف سازشیں رچی اور مختلف حربے استعمال کی جو تا ہنوز جاری ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی 1970ء کے آس پاس، نام نہاد ترقیاتی پروگرام کی آڑ میں، "الجلیل ڈیولپمنٹ" کے نام سے، صہیونی غاصب ریاست نے ایک پروجیکٹ کا افتتاح کیا؛ تاکہ کسی طرح سے الجلیل شہر کو قبضہ میں لیا جاسکے۔ فلسطینی عوام نے غاصب صہیونی ریاست کے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے، بڑے پیمانے پر احتجاج اورمظاہرہ شروع کردیا؛ کیوں کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ ترقیاتی پروگرام کے نام پر، یہ عیار ومکار صہیونی حکمراں ان کے شہر کو قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس عوامی مظاہرہ کو کچلنے اور احتجاج کی لہر کو دبانے کے لیے فوج نے حکومت کی سرپرستی میں، 30/مارچ 1976ء کو، اپنی دہشت گردانہ کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے جہاں اپنی گولیوں سے 6/معصوم فلسطینیوں کو شہید کیا، وہیں متعدد مظاہرین کو زخمی اور سیکڑوں کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ اس حادثہ کے بعد سے، فلسطینی قوم، ہر سال مارچ کے آخری ہفتے اور خاص طور پر 30/مارچ کو "قَومی یومُ الارض" مناتے ہیں۔

 

غاصب یہودی ریاست کی سازش یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کی زمین کوکبھی طاقت کے بل پر اور کبھی کسی اور بہانے سے قبضہ کرتی رہے یا پھر تقسیم در تقسیم کرتی رہے اور ذلیل وخوار،صہیونیت زدہ یہودیوں کو لاکر آباد کرتی چلی جائے اور کسی طرح فلسطینیوں کو فلسطین کے شہروں اور علاقوں میں، ایک اقلیت سماج (Minority Community)   میں تبدیل کردے۔ اس سازش میں صہیونی ریاست بہت حد تک کام یاب بھی نظر آرہی ہیں؛ کیوں کہ تازہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ آج کی تاریخ میں غاصب صہیونی ریاست "فلسطینی رقبے  کے 85 فی صد" پرقابض ہے؛ جب کہ فلسطینیوں کے پاس "صرف 15 فی صد "فلسطینی اراضی بچی ہے اور آج بھی وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آئی ہے؛ بل کہ فلسطینی علاقوں کو مزید قبضہ کرنے اور تقسیم کرنے کا عمل ہے تا ہنوز جاری ہے۔

 

خیر اس بار "قَومی یومُ الارض" کے موقعے سے، فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد نے ملک کے طول وعرض میں، غاصب صہیونی ریاست کی ریاستی دہشت گردی، اراضی کے ناجائز قبضے کے خلاف اور اپنے دوسرےبنیادی حقوق کے دفاع کے لیے  "حق واپسی مارچ" کے عنوان سے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے؛ تاکہ غاصبوں کو معلوم ہوجائے کہ فلسطینی عوام اپنے حق سے دست بردار ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے؛ بل کہ ایک دن اپنے حقوق لےکر رہیں گے۔

 

غاصب ریاست کا آرمی چیف جنرل گیڈی آئزن کوٹ، فلسطینی جیالوں کی اس حق واپسی کی تحریک  کے آغاز سے پیشتر ہی گھبرا کر ، اپنی فوجی کاروائی کی نگرانی کی ذمے داری خود اپنے سر لی۔ جب تحریک شروع ہوئی؛ تو آرمی چیف نے فوجیوں کو پوری طرح چھوٹ دیدی اور فوجیوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے بہانے، اپنی طاقت کا وحشیانہ استعمال، ان نہتے مظاہرین کے خلاف کرنا شروع کردیا، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ان فوجیوں کی وحشیانہ فائرنگ سے اب تک تقریبا 34/افراد کو شہید اور تقریبا 3100/افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ اس پر مزید بے حیائی اور دیدہ دلیری یہ ہے کہ آرمی چیف اس وحشیانہ کاروائی کا ذمےدار  حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ) کو قرار دے رہا ہے۔

 

چند دنوں کے دوران، معصوم شہریوں کی اتنی بڑی تعداد کی جانوں سے کھیلنے اور  ہزاروں کو زخمی کرنے  کے بعد بھی، ان خونخوار بھیڑیوں کی پیاس نہیں بجھی؛ چناں چہ ان درندہ صفت فوجیوں نے 12/اپریل کو غزہ کے مشرقی علاقے "الزیتون" کالونی میں توپ کے 15/گولے برسائے، تاکہ کچھ مزید معصوموں کا خون پی کر، اپنی پیاس بجھا سکیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس گولہ باری میں کسی بھی شخص کے ہلاکت کی خبر ہے نہ ہی زخمی ہونے کی؛ البتہ چند مکانات کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔

 

"قومی یوم الارض" کے موقع سے، صہیونی فوج نے جس طرح نہتے فلسطینیوں پر اپنی طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا ہے کہ اس حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ"  (Human Rights Watch) نے کہا ہے کہ غزہ کے علاقے میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں آتا ہے؛ لہذا تنظیم نے عالمی برادری سےمطالبہ کیا کہ ان بےگناہ شہریوں کی ہلاکت کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے۔ اس صورت حال پر، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ اس اجلاس میں صہیونی فوج کےتشددانہ کاروائی کی تحقیقات، اقوام متحدہ سے کرانے کی تجویز پر مشتمل قرارداد پیش کی گئی؛ مگر امریکہ بہادر نے اس قرارداد کو منسوخ (Veto)  کرکے، نہتے فلسطینی شہریوں کے قاتلوں کی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مدد کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کیا۔

 

حقیقت یہ ہے کہ غاصب صہیونی ریاست کے حکام ہوں یا ان کے درندہ صفت فوجی، ان کی نظر میں، جمہوریت اور جمہوری طریقے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر ان کی نظر میں اس کی اہمیت ہوتی؛ تو وہ اس طرح سے اپنی وحشیانہ طاقت کا استعمال، ان نہتے احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کے خلاف ہرگز نہیں کرتے؛ بل کہ ان کے اس حق کا احترام کرتے؛ کیوں کہ عوامی احتجاج ومظاہرہ،  آج کی دنیا میں اپنی بات رکھنے کا ایک جمہوری حق ہے۔  ان حالات کو پیش نظر رکھ کر، اس بات پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی ریاست کی  آئے دن اِن وحشیانہ کاروائی کے باوجود بھی کچھ لوگ "حماس" کے قائدین کو "مذاکرات ومکالمات" کی تلقین کرتے نہیں تھکتے ہیں۔ اب تو اس سے بھی بڑھ کر "حماس" کے قائدین سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ صہیونی غاصب ریاست کے خلاف کسی بھی طرح کی "مزاحمت" سے دست کش ہوکر، ان کے پاس جو کچھ بھی اسلحے ہیں، ان اسلحوں کو نام نہاد امن پسند لوگوں کے حوالے کردیں۔

 

اگر غاصب صہیونی ریاست کی شب وروز کی ظالمانہ کاروائیوں کا منصفانہ تجزیہ کیا جائے؛ تو کوئی بھی منصف تجزیہ نگار ہرگز یہ مشورہ نہیں دے سکتا ہے کہ ان درندہ صفت صہیونیوں سے "مذاکرات" کی راہ ہموار کی جائے؛ بل کہ وہ یہ مشورہ دیں گے اگر اہالیان فلسطین کو اپنے حقوق چاہیے؛ تو مانگنے کے بجائے اپنے حقوق ان سے چھین کر لیں اور "مذاکرات" کے بجائے "مزاحمت" کی راہ اپنائے؛ کیوں کہ ان صہیونیوں کے نزدیک "مذاکرات، امن، پیس" جیسے الفاظ بے معنی ہوچکے ہیں۔ شاید یہی وجہہ ہے کہ ابھی حالیہ "حق واپسی مارچ" کی مناسبت سے، غزہ  کی پٹی میں قائم "اللاتین چرچ" کے سابق بشپ اور مشہور فلسطینی عیسائی مذہبی پیشوا، امانویل مسلم نے فلسطینی قوم کی ان دنوں جاری "حق واپسی مارچ" کی نہ یہ کہ مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے؛ بل کہ "مرکزاطلاعات فلسطین" کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو  کے دوران  انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ "فلسطینی قوم کے پاس اپنے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے 'مسلح مزاحمت' کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا ہے۔ 'مسلح مزاحمت' ہی فلسطینی قوم کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔"

 

        یہ افسوس کا مقام ہے کہ عیسائی مذہبی رہنما، امانویل مسلم؛ تو غاصب صہیونی ریاست کی وحشت وبربریت کے خلاف کھل کر اپنی رائے کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں؛ بل کہ حمایت کا بھی اعلان کرتے ہیں۔ مگر مسلم قائدین ورہنما اپنی خاموشی توڑ کر، اپنے مخصوص آقا کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے۔ مسلم قائدین شاید اس بات سے ڈرے سہمے رہتے ہیں کہ اگر وہ فلسطین، بیت المقدس اور مسجد اقصی کی حمایت میں بولیں گے؛ تو کہیں ان کا تختہ نہ پلٹ دیا جائے۔ ہماری ان قائدین سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے دل سے ڈر وخوف کو نکال دیں  اور اہالیان فلسطین، بیت المقدس اور مسجد اقصی کی حمایت میں کھل کر بولیں،  ان کی مادی اور معنوی ہر طرح کی معاونت کریں اور ان پر ہورہے ظلم وجور کے حلاف بین الاقوامی سطح پر اپنا احتجاج درج کرائیں؛ کیوں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے،یہ ہماری ذمے داری ہے۔ ہم جس نبی صادق ومصدوق –صلی اللہ علیہ وسلم– کے ماننے والے ہیں، انھوں اپنے بھائیوں کی مدد کا حکم صادر فرمایا ہے۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کا فرمان ہے: "اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔" (صحیح  بخاری، حدیث: 2444) یہاں تو صورت حال روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے بھائی مظلوم ہیں۔

 

٭ ہیڈ اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

No comments: