Monday, May 8, 2017

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب کا ایک دعوتی سفر اور ایک سردار کا قبول اسلام



مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب کا ایک  دعوتی سفر اور ایک سردار کا قبول اسلام

از:خورشید عالم داؤد قاسمی ٭

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ مولانا جس طرح ہندوستان میں مشہور ومعروف ہیں، اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ حضرات جو دینی اور دعوتی مزاج رکھتے ہیں، ان کے سامنے تو آپ کی اچھی خاصی شناخت ہے۔ مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہمنے ابھی  چند دنوں قبل، یکے بعد دیگرے تین افریقی ممالک: "زامبیا"، "ملاوی" اور "ساؤتھ افریقہ" کا  دورہ کیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کے دورہ "زامبیا"کے حالات ضبط تحریر میں لانا مقصود ہے۔

"زامبیا" ایک چھوٹا سا افریقی ملک ہے، جو افریقی برِّاعظم کے ساؤتھ سینٹرل حصے میں واقع ہے۔زامبیا کی شمالی سرحد "ری پبلک آف کونگو" اور "تنزانیہ" سے ملتی ہے؛ جب کہ مشرقی سرحد "ملاوی" سے ملتی ہے، جنوب مشرقی سرحد "موزمبق" سےاور جنوب میں زمبابوے اور بوسٹوانا؛ جب کہ مغربی حصہ "انگولا" سے ملتا ہے۔  یہاں تقریبا 70/زبانیں بولی جاتی ہیں: جن میں مشہور زبانیں: نیانجا، بیمبا، لوزی اور ٹونگا ہیں۔  اس ملک کی کل آبادی 11.26 ملین ہے۔ مون ریز ٹرسٹ ، زامبیا کا ایک مشہور غیر حکومتی ٹرسٹ ہے جو تعلیمی ورفاہی کام میں پیش پیش رہتا ہے۔ اسی ٹرسٹ کے "شعبہ دعوت" کے ایک "دو روزہ  دعوتی کانفرنس" میں شرکت کے لیے  مولانا موصوف نے "زامبیا" کا دورہ کیا ہے۔

ہمارے رفیق محترم، عالم نوجوان مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی شولاپوری، صدر جمعیۃ علماء، شولاپور، ان دنوں مون ریز ٹرسٹ کی دعوت پر  زامبیا میں چند مہینے کے لیے مقیم ہیں۔ مولانا شولاپوری کا مولانا صدّیقی سے گہرا تعلق ہے۔ مولانا شولاپوری کی کوشش اور مون ریز ٹرسٹ کےچیرمین: جناب شیخ شاہد متالا صاحب حفظہ اللہ کی دعوت پر، مولانا صدّیقی دامت برکاتہم نےمذکورہ کانفرنس مغقدہ: 26-27/نومبر 2016 میں شرکت کے لیے یہ دورہ کیا۔

مولانا صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم اپنے خادم جناب نوید صاحب (MBA)  کی معیت میں، "کینیاائرلائنس" سے 23/نومبر 2016 کو زامبیا کی دارالحکومت "لوساکا" (Lusaka) تشریف لائے اور دوسرے  دن ڈومیسٹک ایرلائن (Domestic Airline) سے مپلنگو (Mpulungu) کے لیے روانہ ہوگئے۔ مپلنگو لوساکا سے 1060کلو میٹرس کے فاصلے پر واقع ہے۔ پلین (Plane) نےکساما (Kasama) ایر پورٹ پرلینڈنگ کی۔ مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کے استقبال اور ریسیو (Receive) کرنے کے لیے، شیخ عبداللہ، مولانا محمدابراہیم قاسمی، مولانا وقاری محمد افضل کلوا، شیخ موسی جوبا اورمولانا شاہد گنگات صاحبان کساما میں موجود تھے۔ مقررہ پروگرام کے تحت مولانا کو کساما سے کچھ دوری پرواقع ایک قصبہ: "ساما" میں،  ایک پروگرام  کے لیے لےجایا گيا۔

ساما کے پروگرام کی نوعیت:
کچھ افریقی ممالک میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہر قبیلے میں ایک چیف (سردار) ہوتا ہے۔جب ایک چیف کا انتقال ہوجاتا ہے؛ تو کسی انتخاب اور الیکشن کے بغیر، اس کی جگہ، اسی قبیلہ اور خاندان سے ایک لائق فائق نامزدشخص کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے۔ اس چیف کی ماتحتی میں کئی "ڈپٹی چیفس" (Deputy Chiefs) ہوتے جن کو چیف خود نامزد کرتا ہےاور ان ڈپٹی چیفس کے ماتحت ہر گاؤں میں ایک"ہیڈ مین" (Head Man)  ہوتا ہے۔مقامی لوگوں کے درمیان، چیف کی بڑی حیثیت ہوتی ہے۔ چیف اپنے قبیلے کے کسی بھی اہم قضیّہ میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے؛ بل کہ اس کےعلاقے کی زمین وجائداد کی خرید وفروخت بھی، اس کی اجازت کے بغیر ناممکن ہے۔

بہ ہرحال، یہ تقریب ایک نئے چیف  کی مسند نشینی  کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ وہ چیف مون ریز ٹرسٹ کے تحت چلنے والے "مون ریز ٹرسٹ اسکول" میں چند دنوں قبل ٹرسٹ کے چیرمین: جناب شیخ شاہد متالا صاحب  حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ اس موقع سےمختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی اور موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے، چیف کو اسلام کی دعوت بھی دی گئی۔ اسی میٹنگ میں، چیف نے اپنی تقریب ِمسند نشینی کا بھی ذکر کیا۔ مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی نے اس کی تقریب میں شرکت کا وعدہ کرلیا تھا؛ تاکہ وہاں موجود لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جاسکے۔ تقریب مسند نشینی 25/نومبر 2016 کو منعقد ہوئی؛ لہذا مولانا محمد کلیم صاحب صدّیقی  دامت برکاتہم کو اس پروگرام میں شرکت کے لیے لے جایا گیا۔
چیف (سردار) کا قبول اسلام:
مولانا صدیقی صاحب دامت برکاتہم جب وہاں تشریف لے گئے؛ تو چیف نے بڑی خوشی ومسرت کے ساتھ مولانا اور  ان کے رفقاء سفر کا استقبال کیا۔ پروگرام صبح دس بجے سے ہونا طے تھا؛ چناں چہ اس پروگرام سے پہلے چیف کے ساتھ، مولانا صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم اور رفقاء  کی خصوصی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے دوران، اسلام کے متعلق بات چیت ہوئی اورالحمد للہ چیف نے" کلمہ شہادت" پڑھ کر، مولانا کے ہاتھ پراسلام قبول کرلیا۔ پھر مولانا صدّیقی صاحب، اس کی مسند نشینی کے پروگرام میں شریک ہو کر، اس کو مبارکبادی اور تحفہ پیش کیا۔

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب دامت برکاتہم کو یہ خیال آیاکہ اگر چیف کچھ دنوں کے لیے ہندوستان تشریف لاتے ہیں؛ تو  ان کو اسلامی تعلیمات سے آسانی سے روشناس  کرایا جاسکتا ہے؛ تاکہ ان کو دین پر جمنے میں آسانی ہو اور واپس آکر اپنے علاقے میں اسلام کی شعائیں پھیلا سکیں؛ اس لیے مولانا صدّیقی صاحب نے چیف کو کہا کہ ہم آپ کے ٹکٹ اور ویزا وغیرہ کا انتظام کریں گے اور تقریبا ایک مہینے کے لیے آپ کو ہندوستان تشریف لانا ہے۔ پھر ہندوستان سے ہم آپ کو مکّہ مکرمہ "عمرہ" کے بھیجنا چاہتے ہیں۔ چیف موصوف نے مولانامحترم کی دعوت کو خوشی خوشی قبول کیا اور ہندوستان جانے کے لیے تیار ہوگئے اور ساتھ ہی مولانا کو لوٹتے وقت اپنی روایت کے مطابق ایک بکرا ہدیہ میں پیش کیا۔ اس چیف کے اسلام قبول کرنے کو لوگوں نے ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا۔ یہ تحریر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں تقریبا 80/ فی صد شہری عیسائی ہیں اور کچھ شہری باپ دادا سے چلی آرہی روایات کو ہی اپنا مذہب سمجھتے ہیں۔ وہ مذکورہ چیف بھی دین عیسوی کے پیروکار یعنی عیسائی تھے۔مذکورہ پروگرام کے بعد، مولانا محمد ابراہیم قاسمی، شیخ عبداللہ اور قاری محمد افضل کلوا صاحبان کی معیت میں، رات کے تقریبا آٹھ بجے، مولانا صدّیقی صاحب  دامت برکاتہم مپلنگو تشریف لائے اور پروگرام کے مطابق چیرمین صاحب کے دولت خانے پر قیام کیا۔

شعبہ دعوت کا دو روزہ دعوتی  کانفرنس:
26-27/دسمبر 2016 کو ،شعبہ دعوت کی دو روزہ کانفرنس شروع ہوئی، جس میں ملک میں دعوت کی لائن سے کام کرنے والے علماء وشیوخ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس پروگرام میں دونوں دن مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم کا بیان رکھا گیا؛  تاکہ مولانا موصوف اپنے داعیانہ تجربہ کی روشنی میں، نو عمر داعیوں کو مفید مشورے سے نوازیں۔

مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم نے پہلے دن کی آخری نشست میں فرمایا جس کا حاصل یہ تھا کہ: سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امت نے دعوت کا کام چھوڑ دیا ہے۔ اگر ایک مسجد کا امام ،امامت نہ کرائے اور دوسری ہر طرح کی ذمے داریاں بحسن وخوبی نبھائے؛ تو یہ ایک المیہ ہوگا؛ اسی طرح اگر امت مسلمہ  دعوت کے کام کوچھوڑ کر ہر  کا م بحسن وخوبی انجام دے؛ تو یہ بھی ایک بڑا المیہ ہو گا اور امت بحرانی کیفیت سے دوچار ہوگی۔

مولانا صدّیقی صاحب نے دوسرے دن کی پہلی نششت میں اپنے بیان میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ: ہمیں جب اس بات کا یقین ہے کہ اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کریں گے۔ جو شخص شرک کے ساتھ دنیا سے جائے گا، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ تو روزانہ تقریبا ایک لاکھ چون ہزار لوگ وفات پاتے ہیں، جن میں سے تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار غیر مسلم ہوتے ہیں۔ماہر سماجیّات کا کہنا ہے کہ ایک گاؤں تقریبا دو ہزار لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر روز تقریبا 62/گاؤں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں جارہے ہیں۔ اگر ایک جانور بھی جل جائے؛ تو اس کا ہمیں احساس ہوتا ہے؛ مگر اتنے سارے لوگ روزانہ جہنم کا ایندھن بن رہے ہیں، جس کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہورہا ہے!!!

اس پروگرام سے فراغت کے بعد، 28/نومبر کو مولانا صدّیقی صاحب  دامت برکاتہم کی ایک میٹنگ ٹرسٹ کے چیرمین اور شعبہ دعوت کے کارکنان کے ساتھ طے تھی؛ چنا ں چہ وہ میٹنگ چیرمین صاحب کی آفس میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں مولانا صدّیقی صاحب دامت برکاتہم نے شعبہ دعوت کے ذمےداروں سے دعوتی لائن سے کام کرنے کے طریقے کار پر روشنی ڈالی اور ان کو مفید مشورے سے نوازا۔ اس میٹنگ کے ختم ہونے کے بعد، پروگرام کے مطابق، مولانا موصوف کو تنگانیکا جھیل (Tanganyika Lake) میں واقع ،  جزیرہ کروکوڈائل (Crocodile Island)  میں، مون ریز ٹرسٹ کے تحت چل رہے مکتب ومسجد کی بنیاد ڈالنی تھی؛ لہذا علماء وشیوخ کی معیت میں جزیرہ کروکوڈائل تشریف لے گئے۔

جزیرہ کروکوڈائل کے لوگوں کو پروگرام کی اطلاع پیشگی دیدی گئی تھی؛ لہذا وہاں کے مسلم باشندوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مولانا صدیقی صاحب  دامت برکاتہم نےکوئی طویل تقریر کرنے کے بجائے، کلمہ شہادت کی اہمیت وافادیت پر مختصر روشنی ڈالی اور لوگوں کے دنیا میں آنے کا مقصد سمجھایا۔ مولانا کی اس مختصر باتوں کا ترجمہ، چیرمین صاحب کے صاحبزادے، حافظ ابرار احمد متالا سلمہ اللہ نے مقامی زبان میں پیش کیا۔ اس کے بعد، مولانا نے شہادتین کی تلقین کرائی ۔ وہاں موجود سیکڑوں لوگوں نے مولانا کے ساتھ شہادتین پڑھا۔ پھر اس کے بعد، حافظ ابرار احمد متالا نے شہادتین کا ترجمہ مقامی زبان میں کیا، جسے سب لوگوں نے پھر ایک بار اپنی زبانوں سے دہرایا۔ اللہ تعالی ان لوگوں کو ایمان پر قائم ودائم رکھے! آمین! الحمدللہ ربّ العلمین!

مذکورہ بالا پروگرام کے بعد، ہم سب وہاں سے مولانا محمد کلیم صاحب صدّیقی   دامت برکاتہمکی معیت میں مپلنگو واپس آئے۔ پھر رات میں مولانا موصوف نے مپلنگو میں قیام کیا اور صبح "کساما" کے لیے روانہ ہوگئے۔ کساما سےمولانا صدّیقی صاحب کے ساتھ  مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی  اور ان کے خادم جناب نوید صاحب لوساکا کے لیے روانہ ہوگئے۔

لوساکا میں، مولانا صدیقی صاحب   دامت برکاتہم  کے ظہرانے کا انتظام ٹرسٹ کے نائب چیرمین: جناب نجمل صاحب نے دارالعلوم، لوساکا پر کیا تھا۔ ظہرانے کے بعد، مولانا "پیٹاؤکے" کے لیے روانہ ہوگئے اور رات میں پٹاؤکے میں ہی قیام کیا اور صبح 29/نومبر 2016 کو مکاتب کے معلمین کے درمیان مختصر بیان کیا اور پھر ناشتے کے بعد، پیٹاؤکے سے "چپاتا" تشریف لے گئے۔ چپاتا میں شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریّا صاحب کاندھلوی (1898-1982) رحمہ اللہ  کے خلیفہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رحمہ اللہ کے مزار پر فاتحہ پڑھ کر ،اپنے میزبان جناب مولانا یعقوب اگھرادر صاحب کے گھر پر لنچ تناول فرمایا اور اسی دن مولانا یعقوب صاحب اور مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی کے ساتھ "ملاوی" کے لیے روانہ ہوگئے۔ ملاوی میں ایک  دن قیام کرکے، ساؤتھ افریقہ تشریف لے گئے۔ ساؤتھ میں جہاں جہاں مولانا تشریف لے گئے، ہر جگہ لوگوں نے ان  کے بیان سے استفادہ کیا اور ایک ہفتہ قیام کرکے ہندوستان واپس چلے گئے۔

مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب  دامت برکاتہم " یوپی" کے مردم خیز ضلع: "مظفّرنگر" میں واقع ایک معروف قصبہ: "پھلت" (Phulat)  سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ خاندانی رئیس ہیں؛ مگر بہت ہی سادگی کی زندگی گزارتے ہیں۔ آج بھی آپ پچاسو ں ایکڑ ز زمین کے مالک ہیں؛ جس کی دیکھ ریکھ آپ کا بھانجا: جناب عادل صاحب کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں مکمل کی۔ پھرBsc. Chemistry مکمل کی اور بی یو ایم ایس کا اہلیتی امتحان پاس کیا؛ مگر اللہ تعالی کو آپ سے کچھ اور ہی  کام لینا تھا؛ لہذا آپ نے کسی یونیورسیٹی میں داخلہ نہیں لیا؛ بل کہ  دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنئو چلے گئے۔ ندوہ میں تقریبا دو سال مفکّر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (1914-1999) رحمہ اللہ کی سرپرستی میں رہے۔ حضرت ندوی رحمہ اللہ کی ہی ایماء پر، حضرت مولانا عبد اللہ حسنی ندوی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ "سونی پت" کے علاقے میں دعوتی کام شروع کیا؛ جب کہ اس علاقے میں ارتداد کی لہر چل رہی تھی۔ واضح رہے کہ "پھلت" مسند الہند، حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی  (1703-1762) رحمہ اللہ اور ملّا محمود صاحب رحمہ اللہ  استاذ: شیخ الہند محمود حسن دیوبندی (1851-1920) رحمہ اللہ کا آبائی وطن ہے۔

راقم الحروف کو مولانا محمد کلیم صدّیقی صاحب   دامت برکاتہم کو پہلی بار، اتنے قریب سے دیکھنے، سننے اور گفتگو کرنے کا موقع میسر ہوا۔ آپ بہت ہی نرم دل اور تواضع وانکساری کے پیکر ہیں۔ ان کے ساتھ چند ایّام گزار کر بہت خوشی ہوئی۔ ان کی اکثر مجلسوں میں غیر مسلموں  کے درمیان دعوت وتبلیغ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ باتیں آئیں؛ جو مجھے بہت پسند آئیں۔ میری دعا ہے اللہ تعالی مولانا صدّیقی صاحب   دامت برکاتہمکو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر نصیب فرمائے اور ان سے خوب سے خوب کام لے! آمین!

٭ ہیڈ: اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

No comments: