Sunday, May 30, 2021

زکاۃ اسلام کا خوب صورت معاشی نظام

زکاۃ اسلام کا خوب صورت معاشی نظام

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی

 

Email: qasmikhursheed@yahoo.co.in

 

زکاۃ اسلام کا خوب صورت نظام:

زکاۃ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے۔ وہ ایک ایسا کمیاب نظام ہے، جو فقیروں کی ترقی کا ضامن اور مسکینوں کی خوش حالی کا کفیل ہے۔زکاۃ اسلام کا ایسا اہم نظام ہے کہ اس کے ذریعے سماج سے غربت کا خاتمہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اس سے امیروں اور فقیروں کے درمیان محبت والفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ غریبوں اور مسکینوں کی مدد اور تعاون کا یہ ایک ایسا نظام ہے کہ اس میں ان کو کسی طرح کا سود نہیں دینا ہوتا۔ زکاۃ یہ وہ حق ہے، جسے کائنات کے خالق نے اپنے فقیر ومسکین اور ان جیسے بندوں کے لیے متعین کیا۔  زکاۃ اسلام کا وہ خوب صورت اقتصادی ومعاشی نظام ہے جو اقتصادی ومعاشی سطح پر کمزور اور مجبور لوگوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اس تحریر میں اسلام کے اس خوب صورت نظام کو مختصرا آسان طریقے سے پیش کیا جارہا ہے۔

زکاۃ کی تعریف:

زکاۃ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا معنی طہارت وپاکی، نشو ونما اور بڑھوتری واضافہ کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں "زکاۃ: مخصوص مال میں سے، مخصوص مقدار کا، شریعت کے بیان کیے ہوئے مصارف میں خرچ کرنا"۔ (قاموس الفقہ، فقہی اصطلاحات: 1 / 280)

زکاۃ کا حکمِ شرعی:

زکاۃ کا حکم شرعی یہ ہے کہ زکاۃ اسلام کے فرائض میں سے ایک فرض ہے اور دین کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ ایک صاحب نصاب عاقل بالغ مسلمان پر زکاۃ کی ادائیگی فرض ہے۔ اس کی فرضیت قرآن کریم، احادیث شریفہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں اس کی فرضیت کا ذکر ہے، مثلا: وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ. (بقرۃ: 43) ترجمہ: "اور نماز قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو"۔ اسی طرح متعدد حدیثیں زکاۃ کی فرضیت پر دلالت کرتی ہیں، مثلا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ہدایت دی تھی: «فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ». ترجمہ: انھیں بتادیں کہ اللہ تعالی نے ان کے مال میں صدقہ (زکاۃ) فرض کیا، جو ان کے اہل ثروت سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء کے درمیان بانٹا جائے گا۔ (صحیح البخاری: 1395) جو شخص بھی زکاۃ کی فرضیت کا انکار کرےگا، وہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔

زکاۃ کب فرض ہوئی؟

اس میں اختلاف ہے کہ زکاۃ کی فرضیت کب ہوئی۔ مگر جمہور کا مذہب یہ ہے کہ زکاۃ کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی۔ "اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رمضان کے روزے کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی؛ اس لیے کہ جو آیت اس کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے، اس کے مدنی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں اور حضرت قیس بن سعد کی حدیث سے ثابت ہے، وہ فرماتے ہیں: «أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا نَزَلَتِ الزَّكَاةُ لَمْ يَأْمُرْنَا وَلَمْ يَنْهَنَا وَنَحْنُ نَفْعَلُهُ» (سنن النسائي عن قیس بن سعد: 2507) ترجمہ: "زکاۃ کا حکم نازل ہونے سے قبل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ الفطر کا حکم دیا۔ پھر زکاۃ کی فرضیت نازل ہوئی؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ حکم دیا نہ منع کیا اور ہم لوگ اسے ادا کرتے تھے۔" (موسوعہ فقہیہ: 23/ 280)

زکاۃ کن لوگوں پر فرض ہے:

کسی شخص پر زکاۃ کے فرض ہونے کے لیے سات شرائط ہیں۔ وہ شرطیں جس آدمی میں پائی جائیں گی، زکاۃ اس پر فرض ہوجائے گی۔ وہ شرطیں یہ ہیں کہ وہ شخص " آزاد ہو؛ کیوں کہ غلام سرے سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ عاقل ہو؛ پتہ چلا کہ دیوانہ اور مجنوں پر زکاۃ فرض نہیں ہے۔ بالغ  ہو، اس سے یہ معلوم ہوا کہ نابالغ بچہ گرچہ صاحب نصاب ہو، مگر اس پر زکاۃ فرض نہیں ہوگی۔ مسلمان ہو؛ کیوں کہ زکاۃ ایک عبادت اور غیر مسلم سے عبادت متحقق نہیں ہوتی۔  مقدار نصاب کا مالک ہو،اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص مال کی ایسی مخصوص مقدار کا مالک جو اس کو مستغنی کردے اور دوسرے کے نزدیک ہاتھ پھیلانے کا محتاج نہ ہو۔ ملک تام ہو، مطلب یہ ہے کہ مال کا ایک شخص مالک بن گیا ہو ، وہ مال اس کی ملکیت میں اوراس پر پورا قبضہ بھی ہو اور اس میں تصرف کا اختیار رکھتا ہو۔مال نصاب پر قمری سال مکمل ہوگیا ہو، وہ اس لیے کہ زکاۃ ایسے مال میں فرض ہےجو نامی ہو اور بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اور یہ اندازہ کرنے کے لیے کہ مال بڑھا یا گھٹا اس کے لیے ایک مدت درکارہے؛ لہذا شریعت نے اس کے لیے ایک سال کی مدت متعین کیا ہے۔

وہ مال جس میں زکاۃ فرض ہوتی ہے:

وہ مال جس میں زکاۃ فرض ہوتی ہے، اس مال کی کچھ شرطیں ہیں۔ اگر وہ شرطیں کسی مال میں پائی جاتیں ہیں؛ تو زکاۃ اس میں فرض ہوگی۔ اگر وہ شرطیں نہیں پائی جاتیں ہیں، تو اس مال میں زکاۃ فرض نہیں ہوگی۔ وہ شرطیں یہ ہیں: " ۱ – وہ مال کسی متعین شخص کی ملکیت ہو۔ ۲ – اس کی ملکیت علی الاطلاق ہویعنی اس پر ملکیت بھی ہو اوروہ قبضہ میں بھی ہو۔ ۳ – وہ (مال) بڑھنے والا ہو۔ ۴ – وہ (مال) بنیادی ضروریات سے زائد ہو۔ ۵ – اس پر (ایک مکمل قمری) سال گذر جائے۔ ۶ – وہ نصاب کے بقدر (وہ مقدار جس میں زکاۃ فرض ہوتی ہے) ہو اور ہر قسم کے مال کا نصاب اس کے اعتبار سے ہوگا۔ ۷ – کوئی مانع موجود نہ ہو اور مانع یہ ہے کہ مالک پر کوئی ایسا قرض ہو، جو نصاب کو کم کردے۔"  (موسوعہ فقہیہ: 23/ 289)

بنیادی ضروریات کیا ہیں؟:

ان شرائط میں ایک اہم بات جو کہی گئی ہے، وہ بنیادی ضروریات ہیں۔ بنیادی ضروریات کو حاجت اصلیہ بھی کہا جاتا ہے۔ بنیادی ضروریات اور حاجت اصلیہ کو بھی سمجھنا ضروری ہےکہ وہ کیا ہیں؟  حاجت اصلیہ کی دو قسمیں ہیں۔ (۱)حاجت اصلیہ حقیقیہ  اس کے اندر وہ اشیاء شامل ہوتی ہیں، جس کے بغیر انسان کو ہلاکت کا خطرہ ہے، مثلا ضروری نفقہ، اخراجات اور رہائشی مکانات اور آلات جنگ اور سردی وگرمی کے وہ کپڑے جن کی اپنے موسم کے اعتبار سے ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ (۲) حاجت اصلیہ تقدیریہ اس کے اندر وہ اشیاء داخل ہوتی ہیں، انسان جن کے بارے میں ہر وقت صحیح معنی میں متفکر رہتا ہے، مثلا واجب الادا قرض، اور پیشہ اور کاریگری کے اوزار وآلات اور گھر کے ضروری اثاث وسامان اور سواری کے جانوراور علماء کے لیے دینی کتابیں۔ یہ سب حوائج اصلیہ میں شامل ہیں۔ (فتاوی قاسمیہ 10/274)

نصاب کیا ہے؟

زکاۃ کے فرض ہونے کے لیے مال کا "نصاب" کے برابر ہونا ضروری ہے۔ مال کا نصاب کیا ہے؟ "نصاب" مال کی ایک معین مقدار ہے۔ وہ معین مقدار موجودہ اوزان کے اعتبار سے 87 گرام، 480 ملی گرام سونا ہے۔ اسی طرح موجودہ اوزان کے اعتبار سے 612 گرام، 360 ملی گرام چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد روپے ہیں یا کسی تاجر کے پاس اس قدر وقیمت کے برابر کا سامان تجارت ہے۔ اگر کوئی شخص مال کی مذکورہ معین مقدار کا مالک ہے؛ تو اس کےمال میں زکاۃ فرض ہے۔ اب اسے چاہیے کہ بطور زکاۃ اس مال کا ڈھائی فی صد زکاۃ کے مصارف میں سے کسی کو دے کر، اس کا مالک بنادے۔

زکاۃ کے مصارف:

زکاۃ کے مصارف کا مطلب یہ ہوتا ہے وہ افراد اور لوگ جن کو زکاۃ دینا شرعی طور پر درست اور صحیح ہے۔جن لوگوں کو زکاۃ دینا درست ہے، وہ کون لوگ ہیں؟ ان کو قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ. (التوبۃ: ۶۰) ترجمہ:  صدقات تو در اصل حق ہے فقیروں کا، مسکینوں کا، اور ان اہلکاروں کا جو صدقات کی وصولی پر مقرر ہوتے ہیں، اور ان کا جن کی دلداری مقصود ہے۔ نیز انھیں غلاموں کو آزاد کرنے میں، اور قرض داروں کے قرضے ادا کرنے میں، اور اللہ کے راستے میں، اور مسافروں کی مدد میں خرچ کیا جائے۔ یہ ایک فريضہ ہے اللہ کی طرف سے! اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔

قرآن کریم کی اس ہدایت کے مطابق زکاۃ کے مصارف یا جن کے لیے زکاۃ لینا درست ہے یا جن کو زکاۃ دی جاسکتی ہے، وہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں۔ ان کو ذیل میں مختصرا بیان کیا جاتا ہے:

۱۔ فقراء: فقیر کی جمع ہے۔ فقیر اس شخص کو کہیں گے، جس کے پاس کچھ مال تو ہو، مگر اتنا مال نہ ہو کہ وہ صاحب نصاب ہو۔ ایسے شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر کوئی شخص فقیر ہے، مگر صحتمند ہے اور کما کر اپنی روزی روٹی کا انتظام کرسکتا ہے؛ تو ایسے شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز تو ہے، مگر اسے چاہیے کہ محنت ومزدوری کرکے اپنی ضروریات پوری کرے۔ یہی اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

۲۔ مساکین: مسکین کی جمع ہے۔ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ ایسا شخص بھی زکاۃ کا حقدار ہے۔

۳۔ عاملین: عامل کی جمع ہے۔ اسلامی حکومت جس کو زکاۃ جمع کرنے کےلیے مقرر کرے، اس کو عامل کہا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی تنخواہ اور حق الخدمت زکاۃ کی رقم سے دی جائے گی۔

۴۔  مولفۃ القلوب: اب یہ مصرف باقی نہیں رہا۔ وہ اس لیے کہ اسلام کے غلبہ اور اسلامی تعلیمات کے عام ہوجانے کے بعد، اب تالیف قلب کی ضرورت نہیں رہی۔ ہاں، اگر کوئی شخص نیا مسلمان ہو اور مال ودولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ فقیر ومسکین یا مصارف زکاۃ کے کسی دوسرے زمرے میں آتا ہے؛ تو اس شخص کو زکاۃ دی جائے گی۔

۵۔ غلام: "جس زمانے میں غلامی کا رواج تھا،  اس دور میں بعض غلاموں کے آقا ان سے یہ کہہ دیتے تھے کہ اگر تم اتنی رقم لاکر ہمیں دے دو؛ تو تم آزا ہو۔ ایسے غلاموں کو بھی آزادی حاصل کرنے کے لیے زکاۃ کا مال دیا جاسکتا تھا۔ "

۶۔ مقروض: "اس سے مراد وہ مقروض لوگ ہیں جن پر اتنا قرضہ ہو کہ ان کے اثاثے قرضے کی ادائیگی کے لیے کافی نہ ہوں، یا اگر وہ اپنے سارے اثاثے قرض میں دے دیں؛ تو ان کے پاس نصاب، یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال باقی نہ رہے۔"

۷۔ اللہ کے راستے : "اللہ کے راستے" کا لفظ قرآن کریم میں اکثر جہاد کے لیے استعمال ہوا ہے۔ لہذا اس سے مراد وہ شخص ہے جو جہاد پر جانا چاہتا ہے؛ لیکن اس کے پاس سواری وغیرہ نہ ہو۔ بعض دوسرے حاجت مند لوگوں کو بھی فقہاء نے اس حکم میں شامل کیا ہے، مثلا: جس شخص پر حج فرض ہوچکا ہو؛ لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہ رہے ہوں کہ وہ حج کرسکے۔"

۸۔ مسافر:  "مسافر" سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس چاہے اپنے وطن میں نصاب کے برابر مال موجود ہو؛ لیکن سفر میں اس کے پاس اتنے پیسے نہ رہے ہوں جن سے وہ اپنی سفر کی ضروریات پوری کرکے واپس وطن جاسکے۔" (آسان ترجمۂ قرآن تشریحات کے ساتھ)

خاتمہ:

ہم نے درج بالا تحریر میں زکاۃ کے تعارف واحکام کو مختصرا بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی نے اگر ایک مسلمان کو مال ودولت سے نوازا  کر، "نصاب کا مالک"بنا دیا ہے؛ تو اب اس شخص کی یہ ذمے داری ہے کہ فقیروں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کو زکاۃ دے۔ زکاۃ دینے والے کو زکاۃ لینے والوں سے اس زکاۃ کے عوض کسی طرح کے دنیوی منافع یا احسان وشکریہ کی امید نہیں رکھنی چاہیے؛ بلکہ ذات واجب الوجود سے اجر وثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالی زکاۃ دینے والوں کو جہاں آخرت میں اجر وثواب عطا فرمائیں گے، دنیا میں بھی ان کو بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات دیں گے۔ زکاۃ دینے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زکاۃ کو مستحقین تک بحسن وخوبی پہنچانے کی پوری کوشش کریں۔ اگر زکاۃ دینے والے لوگ منظم طریقے سے اپنی زکاۃ مستحقین تک پہنچانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں؛ تو امید قوی ہے کہ سماج  کا کوئی بھی فقیر ومسکین اور ضرورتمندشخص بھوکا نہیں سوئے گااور بہت جلد سماج کے فقراء ومساکین کی معاشی صورت حال کو سدھارا جاسکتا ہے،  ان شاء اللہ۔ اس تحریر کو جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان پر ختم کرتا ہوں جس میں آپؐ نے فرمایا: «حَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ، وَدَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةَ، وَاسْتَقْبِلُوا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ» (رواه أبو دا ؤد سليمان السِّجِسْتاني في مراسيلہ: 105) ترجمہ: زکاۃ کی ادائیگی کے ذریعے اپنے اموال کی مضبوطی سے حفاظت کرو،  صدقہ کے ذریعے اپنے مریضوں کا علاج کرو اور دعا وگریہ و زاری کے ذریعے مصیبتوں کے طوفانوں کا مقابلہ کرو۔ ***

No comments: