Thursday, March 23, 2023

صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے

 

صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے

 

از: خورشید عالم داؤد قاسمی٭

 

تمہید:

انسان مدنی الطبع ہے۔ وہ اجتماعی ومعاشرتی زندگی کو پسند کرتا ہے۔ وہ فطرۃ اپنے معاشرے اور سماج کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا خوگر ہوتا ہے۔  سماج اور معاشرہ میں مختلف طبیعت کے لوگ رہتے ہیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ ایک انسان کی ہر بات دوسرے  کو پسند آئے۔ ایسی صورت میں اختلاف کا ہونا لازمی ہے۔ اختلاف جب تک اختلاف رہے، اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کی بات سن کر، دوسرے کے نفس میں اضطراب اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ پھر جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ چلتا ہے  اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد، ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ یہی اختلاف مخاصمت ومخالفت اور دشمنی وعناد میں بدل جاتا ہے۔ پھرتکرار وبحث اور لڑائی وجھگڑاکی نوبت آجاتی ہے۔ یہ حالت غیر پسندیدہ اور قابل مذمت ہے۔   جب ایسی صورت حال پیدا ہونے والی ہو؛ تو ایک شخص کو چاہیے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے، وہ خاموشی اختیار کرے اور صبر وتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرے۔  صبر وتحمل ایک قابل تعریف وصف ہے۔ قرآن وحدیث میں کئی جگہوں پر، مقام مدح میں،  صبر وتحمل کا ذکر آیا ہے۔

صبر کی تعریف:

"صبر" عربی زبان کا لفظ ہے؛ مگر اردو میں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ "صبر " کے معانی "روکنا، باندھنا، برداشت کرنا، عفو ودرگزر کرنا اور ثابت قدم رہنا " وغیرہ ہیں۔ جہاں تک اصطلاحی معنی کا تعلق ہے تو"قرآن وسنت کی اصطلاح میں نفس کو اس کی ناجائز خواہشات سے روکنے کا نام صبر ہے؛ اس لیے مفہوم صبر میں، تمام گناہوں اور خلاف شرع کاموں سے پرہیز آگیا۔" (معارف القرآن 4 / 598)

صبر کی اہمیت:

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جگہ جگہ پر صبر وتحمل کا ذکر کیا ہے۔ اللہ پاک نے صبر کے حوالے سے اپنے متعدر انبیاء ورسل علیہم السلام کا ذکر، مقام مدح میں فرمایا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے: ﴿وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِينَ. (أنبياء: 85) ترجمہ: "اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل کو دیکھو! یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے"۔ صبر کے اجر کے بارے ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ. (زمر: 10) ترجمہ: "جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، ان کا ثواب انھیں بے حساب دیا جائے گا"۔ ان جیسی آیات قرآنیہ کی وجہ سےایک مسلمان کی نظر میں، صبر کی اہمیت وعظمت اور اس کے دنیوی واخروی فوائد مسلم ہیں۔جب مسلمان صبر جیسے انبیائی صفت سے کام لے گا؛ توپھر اللہ تعالی اسے بے حساب  اجر وثواب سے نوازیں گے۔

شدائد پر صبر کا حکم:

اللہ تعالی نبی اکرمؐ کو شدائد پر صبر کا حکم دیتے ہوئےفرماتے ہیں: ﴿وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ. (سورۃ یونس: 109) ترجمہ: اور جو وحی تمھارے پاس بھیجی جارہی ہے، تم اس کی اتباع کرو، اور صبر سے کام لو، یہاں تک کہ اللہ کوئی فیصلہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: "اس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ حق کو قبول نہ کریں تو اپنے کو ان کے غم میں نہ گھلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالی کے احکام کی پیروی کرتے رہیےاور تبلیغ وغیرہ کے کام میں لگے رہیےاور جو شدائد اس راستے میں پہنچیں ان پر صبر کیجیےمخالفین کی ایذا رسانیوں کو تحمل کرتے رہنا چاہیے۔ یہاں تک خدا آپ کے اور ان کے درمیان بہترین فیصلہ کردےیعنی حسب وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منصور وغالب کرے یا جہاد کا حکم بھیج دے"۔ (تفسیر عثمانی)

حبّ جاہ کا علاج صبر ہے:

علماء اہل کتاب کے دلوں میں جاہ یعنی منزلت ومنصب  اور مال ودولت کی محبت اس طرح گھس چکی تھی کہ سچائی کے کھل کر سامنے آنے کے بعد بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ اللہ پاک نے قرآن عظیم میں حبّ جاہ اور مال ودولت  کی محبت کا علاج بتا دیا کہ  صبر سے مال ودولت کی محبت  دل سے نکلے گی اور نماز سے منزلت ومنصب کی محبت دل سے نکلے گی۔ ارشاد فرمایا: ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ. (بقرة: 45) ترجمہ: "اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے، مگر ان لوگوں کو جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں۔"

تفسیر عثمانی میں ہے: "علماء اہل کتاب جو بعد وضوح حق بھی آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے، اس کی بڑی وجہ حبّ جاہ اور حبّ مال تھی۔ اللہ تعالی نے دونوں کا علاج بتا دیا، صبر سے مال کی طلب اور محبت جائے گی اور نماز سے عبودیت وتذلل آئے گا اور حب جاہ کم ہوگی۔ " (تفسیر عثمانی)

صبر کرنے والوں کا خصوصیت سے ذکر:

اللہ تعالی نے بہت سے نیکوکار مثلا: اللہ کی محبت میں رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں پر مال خرچ کرنے والے، راہ گیروں اور سائلوں پر مال صرف کرے والے، غلاموں کو آزاد کرانے والے، اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ صبر کرنے والوں کو قابل تعریف شمار کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ. (بقرۃ: 177) ترجمہ: اور تنگی اور تکلیف میں، نیز جنگ کے وقت، صبر واستقلال کے خوگر ہوں۔ ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ  لکھتے ہیں: "اس سب نیکوکار لوگوں میں خصوصیت سے قابل مدح صابرین ہیں؛ کیوں کہ صبر ہی ایک ایسا ملکہ اور ایسی قوت ہے جس سے تمام اعمال مذکورہ میں مدد لی جاسکتی ہے۔ اس طرح آیت مذکورہ میں دین کے تمام شعبوں کے اہم اصول بھی آگئے ہیں اور بلیغ اشارات سے ہر ایک کی اہمیت کا درجہ بھی معلوم ہوگیا"۔ (معارف القرآن 1 / 433)

صبر کی نصیحت:

اللہ پاک نے حضرت لقمان کو عقل وفہم اور دانائی سے نوازا تھا اوران کو اچھی اور بری چیزوں میں شناخت کا ملکہ عطافرمایا تھا۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو چند نصیحتیں  فرمائی۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو منعم حقیقی کے احسانات پر ادائے شکر، شرک سے باز رہنے، نماز پڑھنے اور  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے میں جو تکلیف پیش آئے، اس پر صبر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ یہ سب قرآن کریم میں محفوظ ہیں: ﴿يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ. (لقمان: 17) ترجمہ: "بیٹا! نماز قائم کرو اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو، اور برائی سے روکو، اور تمھیں جو تکلیف پیش آئے، اس پر صبر کرو! بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔"

تفسیر عثمانی میں ہے: "یعنی دنیا میں جو سختیاں پیش آئیں، جن کا پیش آنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اغلب ہے، ان کو تحمل اور اولوالعزمی سے برداشت کر۔ شدائد سے گھبرا کر، ہمت ہار دینا ، حوصلہ مند بہادروں کا کام نہیں"۔ (تفسیر عثمانی)

صبر کا مقام بدلہ سے بلند تر ہے:

دعوت وتبلیغ کی راہ میں، اگر تکلیف اور سختی پہنچتی ہے؛ تو آدمی کو صبر سے کام لینا چاہیے؛ کیوں کہ صبر کا مقام بدلہ سے بلند تر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:  ﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ. (سورۃ النحل: 126) ترجمہ:  "اور اگر تم لوگ (کسی ظلم کا) بدلہ لو، تو اتنا ہی بدلہ لو، جتنی زیادتی تمھارے ساتھ کی گئی تھی۔ اور اگر صبر ہی کرلو؛ تو یقینا یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت بہتر ہے۔"

اس آیت کی تفسیر میں ہے: "یعنی دعوت وتبلیغ کی راہ میں ، اگر تم کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں؛ تو قدرت حاصل ہونے کے وقت برابر کا بدلہ لے سکتے ہو،اجازت ہے، لیکن صبر کا مقام اس سے بلند تر ہے۔ اگر صبر کروگے، تو اس کا نتیجہ تمھارے حق میں اور دیکھنے والوں کے، بلکہ خود زیادتی کرنے والوں کے حق میں بہتر ہوگا"۔ (تفسیر عثمانی)

صبر اور عمل صالح کرنے کا صلہ:

صبر اور عمل صالح: یہ دو ایسی صفتیں ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں گی، وہ بندہ کامل انسان  ہوجائے گا۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ. (ہود: 11) ترجمہ: "ہاں! مگر جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، اور نیک عمل کرتے ہیں، وہ ایسے نہیں ہیں۔ ان کو مغفرت اور بڑا اجر نصیب ہوگا۔

یہ عام انسانی کمزوریوں میں سے ہے کہ جب نعمت کے بعد تکلیف آجائے؛ تو انسان رحمت سے ناامید ہوکر، ناشکری کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ جس ذات حق نے پہلے نعمت دی تھی، وہ پھر بھی دے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر تکلیف ومصیبت کے بعد کوئی راحت اور نعمت مل جائے؛ تو وہ اکڑنے اور اترانے لگتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگتا ہےکہ یہ نعمت تو میرا حق ہے، مجھے ملنا ہی چاہیے اور میں ہمیشہ اسی طرح رہوں گا۔ "اس عام انسانی کمزوری  سے وہ لوگ مستثنی ہیں جن میں دو صفتیں پائی جائیں، ایک صبر، دوسرے عمل صالح۔" جن میں یہ دو صفتیں پائی جاتیں ہیں، وہ لوگ کامل انسانوں میں سے ہیں۔  پھر اسی آیت کے اختتام پر اللہ تعالی نے ان کامل انسانوں کا انعام اور صلہ یوں بیان فرمایا ہے کہ " ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ان کی خطائیں بخش دی جائیں گی اور ان کے نیک عمل کا بہت بڑا بدلہ ان کو ملے گا۔" (خلاصہ از: معارف القرآن 4 /597-598)

صبر اور معافی ہمت کے کاموں میں سے ہے:

صبر اور معافی کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالی نے ان کو ہمت کے کاموں میں شمار فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ. (الشورى: 43) ترجمہ: "اور حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی صبر سے کام لے، اور درگزر کرجائے؛ تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے"۔ اس آیت کی تفسیر میں ہے: "غصہ کو پی جانا اور ایذائیں برداشت کرکے، ظالم کو معاف کردینا، بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس بندہ پر ظلم ہو اور محض اللہ کے واسطے اس سے درگذر کرے، تو ضرور ہے کہ اللہ اس کی عزت بڑھائے گا اور مدد کرے گا۔" (تفسیر عثمانی)

اب تک صبر سے متعلق چند آیات قرآنیہ پیش کی گئیں۔ ان آیات میں صبر وتحمل کا عظیم سبق موجود ہے۔ ہمیں ان پر غور وفکر اور تدبر سے کام لینا چاہیے۔ جب آدمی کو کوئی مصیبت اور پریشانی آئے؛ تو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور صبر سے کام لے۔ یہ ہماری کامیابی کی ضمانت ہوگی، ان شاء اللہ۔

اب صبر کے حوالے سے چند احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام  پیش کی جارہی ہیں۔ نبی اکرمؐ معلمِ انسانیت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپؐ جب تک دنیا میں رہے، اپنی امت کی صلاح وفلاح کا کام عظیم پیمانے پر انجام دیا۔ آپ ؐنے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی تربیت کی کہ رہتی دنیا تک کسی بھی درس گاہ کا معلم اپنے شاگردوں کی ایسی تربیت نہیں کرسکتا۔ آپؐ نے جس حوالے سے بھی اپنے صحابہ کی تربیت کی، عملی طور پر اسے کرکے بھی دکھایا۔ صبر وتحمل کے حوالے سے بھی آپؐ کی پوری زندگی ایک عظیم نمونہ ہے۔ آپؐ نے کبھی بھی نفسانی جذبات کا استعمال نہیں کیا۔ اب جب آپ ؐ اس دنیا سے رخصت فرماگئے؛ تو آپ ؐ کے ارشادات امت کی تربیت اور ہدایت کے لیے اکسیر ہیں۔ ان ارشادات میں صبر وتحمل کے حوالے سے بہت سے اسباق ہیں۔  ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

صبر پسندیدہ عمل ہے:

ایک حدیث شریف میں صبر کو روشنی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: «وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ». (صحیح مسلم: 223) ترجمہ:  اور صبر روشنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت میں صبرمحبوب، پسندیدہ اور محمود عمل  ہے۔ صبر کرنے والے کو ہمیشہ درستگی کی طرف رہنمائی اور روشنی ملتی رہتی ہے۔

نقصان پر صبر کرنا:

مومنین کے بارے میں حدیث میں ہے کہ ہر حال میں ان کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ مگر مومن کو یہ سمجھنا ہوگا ہر صورت کو اپنے حق میں خیر کیسے بنائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی خوشی کا موقع ہو؛ تو اللہ کا شکر ادا کرے اور ثواب حاصل کرے۔ اگر کوئی نقصان پہنچے؛ تو اس پر صبر کرے، اس پر بھی ثواب ملتا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں: «عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ». (صحیح مسلم: 2999) ترجمہ: مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں کہ اگر اسے کوئی خوشی ملی؛ تو اسے نے شُکر ادا کیا؛ تو اس کے لیے اس میں ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا؛ تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے۔

بچہ کی موت پر صبر کی تلقین:

جب آپ ؐ کی صاحبزادی: حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا بیٹا مرنے کے قریب تھا ؛ تو انھوں نے آپؐ کو آنے کو خبر بھیجا۔ اس پر آپؐ نے ان کو جو پیغام بھیجا، اس میں صبر کی تلقین فرمائی: «إِنَّ لِلّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ.» (صحیح البخاري: 1284) ترجمہ: بے شک اللہ تعالی ہی کی ملک ہے جو انھوں نے لیا اور اسی پاک ذات کی ملک ہے جو انھوں  نے دیا اور ہر چیزان کے پاس وقتِ مقررہ کے ساتھ ہے۔ پس صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔

بچے کی وفات پر صبر کرنے پر جنت کی خوش خبری:

تین بچے انتقال کرجائیں اور والدین ثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کرے ، جزع وفزع نہ کرے؛ تو ایسے والدین جنت میں داخل ہوں گے۔ رسول اکرمؐ نے انصار کی عورتوں سے فرمایا: «لَا يَمُوتُ لِإِحْدَاكُنَّ ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَتَحْتَسِبَهُ، إِلَّا دَخَلَتِ الْجَنَّةَ» فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: أَوِ اثْنَيْنِ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «أَوِ اثْنَيْنِ». (صحیح مسلم: 2632) ترجمہ: تم میں سے جس کسی کے بھی تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ ثواب کی امید پر صبر کرے؛ تو جنّت میں داخل ہوگی۔ ان میں سے ایک عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ! اگر دو مرجائیں؛  تو آپؐ نے فرمایا: " دو"، (یعنی دو میں بھی جنت کی مستحق)۔

صبر مصیبت کی ابتدا میں کرنی چاہیے:

کسی مصیبت کے اول وقت میں صبر کرنا مشکل اور دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے۔ وقت ٹلنے کے ساتھ ساتھ صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے؛ بلکہ ایسے موقع سے تو صبر خود بھی آجاتا ہے؛ اس لیے جب پہلی بار کسی مصیبت کی خبر آئے یا مصیبت کا سامنا ہو؛ تواسی وقت صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔  یہ حقیقی صبر ہے اور ایسے صبر پر ثواب دیا جاتا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو (اپنے بچے کی) قبر کے پاس رو رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: «اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي». یعنی "اللہ سے ڈرو اور صبر کرو!" اس عورت نے کہا:  مجھ سے ہٹ؛ کیوں کہ آپ پر مجھ جیسی مصیبت نہیں آئی (اس خاتون کا بچہ فوت ہوگیا تھا۔)؛ جب کہ اس خاتون نے نبی اکرمؐ کو نہیں پہنچانا تھا۔ اسے کہا گیا: یہ نبیؐ ہیں۔ پھر وہ نبیؐ کے دروازے پر آئی۔ اس خاتون کو وہاں کوئی دربان نہیں ملا۔  اس نے فرمایا: میں آپ کو پہچان نہیں سکی (اسی لیے میں نے جو کہا وہ کہا)۔ پھر آپؐ نے فرمایا: «إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى». یعنی: "صبر تو صدمہ کے ابتدائی وقت میں ہے"۔ (صحیح بخاری: 1283)

طاعون پھیلنے کی صورت میں اپنے ہی شہر میں صبر کرتے ہوئے رہنا:

اگر کسی شہر میں طاعون کا مرض پھیل جاتا ہے اور وہاں کا باشندہ اپنے ہی شہر میں صبر کے ساتھ، اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے ٹھہرا رہتا ہے۔ طاعون سے ڈر کر، کسی دوسرے شہر بھاگنے کی کوشش نہیں کرتا؛ بلکہ اس کا یہ پختہ یقین ہے کہ جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھا ہے، وہی ہوگا؛  تو ایسے شخص کو ایک شہید کے برابر ثواب ملے گا۔ نبی اکرمؐ کی زوجۂ مطہرہ ماں عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ انھوں نے آپؐ سے طاعون کے بارے میں پوچھا؛ تو آپؐ نے فرمایا: «أَنَّهُ عَذَابٌ يَبْعَثُهُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، وَأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ، فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا، يَعْلَمُ أَنَّهُ لاَ يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ شَهِيدٍ». حیح البخاري: 3474) ترجمہ: یہ ایک عذاب ہے، جسے اللہ جس پر چاہتا ہے، بھیجتا ہے۔ بیشک اللہ نے اسے مومنین کے لیے رحمت بنادیا ہے۔  اگر کسی کے یہاں طاعون پھیل جائے؛ پھر وہ اپنے شہر میں ہی صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے ٹھہرا رہتا ہے؛  اس بات پر یقین رکھتا کہ اس کے ساتھ وہی ہوگا جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ رکھا؛  تو اسے ایک شہید کے برابر ثواب ملے گا۔

آنکھ کی بینائی ختم ہونے پر صبر کرنا:

اگر کسی شخص کی آنکھ سے بینائی ختم ہوجائے اور وہ شخص اس پر صبر کرے؛ تو اللہ تعالی اس شخص کو ان دو آنکھوں کے بدلے جنت عطا فرمائیں گے۔ حدیث قدسی میں ہے: "إِنَّ اللَّهَ قَالَ: إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِي بِحَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ، عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الجَنَّةَ". يُرِيدُ: عَيْنَيْهِ. حیح بخاری: 5653) ترجمہ: " اللہ تعالی کا ارشاد ہے: جب میں اپنے کسی بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں (دو آنکھوں) کے حوالے سے آزماتا ہوں(دیکھنے کی قوت سلب کرلیتا ہوں)، پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے؛  تو ان دونوں کے بدلے میں اسے جنت عطا فرماتا ہوں۔"

لوگوں  کی ایذا پر مومن کا صبر کرنا:

کچھ ایسے مومنین ہیں جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتےاورتنہائی کی زندگی گذارتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کچھ ایسے مومنین ہوتے ہیں جو لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں اور پھر  ان سے جو کوئی ایذا پہونچتی ہے، اس پر صبر کرتے ہیں، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالی بڑے اجر سے نوازتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ» (سنن ابن ماجہ: 4032) ترجمہ: جو مومن لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی ایذا پر صبر کرے، اسے زیادہ ثواب ملے گا، اس مومن کی بہ نسبت جو لوگوں سے میل جول نہ رکھے اور ان کی ایذا پر صبر نہ کرے ۔

خاتمہ:

ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ انسا مدنی الطبع ہے۔ وہ ایک معاشرہ میں رہتا ہے۔ ایک ساتھ رہنے میں کبھی کبھی شریف انسان  کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ اَن بَن، رنجش اور ناموافقت ہوہی جاتی ہے۔ آدمی کے اپنے گھر میں بھی کبھی کبھی بھائی وبہن، چچا وبھتیجا، شوہر وبیوی،بچے اور والدین کے درمیان رنجیدگی، بگاڑ اورناچاقی ہوجاتی ہے۔ ایسے مواقع سے ہمیں غیظ وغضب میں آکر، کوئی فیصلہ نہیں لینا چاہیے۔ ہمیں صبر وتحمل اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ ایک دوسرے کی غلطی اور خطا کو معاف اور درگزر کرکے، آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس پر جہاں اللہ تعالی کی جانب سے ثواب ملےگا، وہیں معاشرہ اور گھر میں بہت سے مفاسد کا سدّباب آسانی سے ہوجائے گا۔ ہر وقت ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دیر یا سویر"صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے"۔ ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم معمولی  باتوں پر، جذبات کی رَو میں آکر، بہت سے فیصلے لے لیتے ہیں۔ ان فیصلوں کی وجہ سے ہم اپنا چین وسکون کھودیتے ہیں اورپھر ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔  اگر ہم پرسکون اور کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں؛ تو ہمیں عفو ودرگزر،  صبر وتحمل اور برداشت کے حوالے سے قرآن وحدیث کی ہدایات پر عمل کرناہوگا۔ اللہ تعالی اپنے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ. (أحقاف: 35) ترجمہ: غرض (اے پیغمبر!) آپ اسی طرح صبر کیے جائیں جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا۔ ***

 

٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

No comments: