Monday, August 21, 2023

تاریخ عالم کا ایک یادگار اور مخلصانہ واقعہ

 

تاریخ عالم کا ایک یادگاراور مخلصانہ واقعہ

 

خورشید عالم داؤد قاسمی

 

اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایک سال میں دو عیدیں منانے کا موقع دیا ہے۔ ان میں ایک عید الفطر ہے، جو ماہ رمضان کی تکمیل پر، ماہ شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ دوسری عید کو ہم عید الاضحی کہتے ہیں۔ یہ عید اللہ تعالی کے پیغمبر: حضرت ابراہیم –علیہ السلام– کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل –علیہ السلام– کو اللہ کی رضا کی خاطر، قربان کرنے کی یاد کے طور پر، اسلامی سال کے بارہویں مہینے: ذو الحجہ کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ امت مسلمہ کے لیے ان دو عیدوں کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں ہے۔ اگر کوئی تیسری عید منائی جاتی ہے؛ تو وہ عید غیر اسلامی اور بدعت ہے۔

 

ہر شادی شدہ آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اسے اولاد کی عظیم نعمت سے نوازیں؛ تاکہ اس اولاد سے اس کی آنکھیں ٹھنڈی اور قلب مطمئن ہو۔ وہ اولاد اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے اور برے وقت میں معاون و مددگار ثابت ہو۔ حضرت ابراہیم –علیہ السلام– کو جوانی میں بچے کی عظیم نعمت نہیں مل سکی۔ ان کی خواہش تھی کہ اللہ پاک انھیں بچے کی عظیم نعمت سے نوازیں۔ آپ –علیہ السلام– نے اللہ سبحانہ وتعالی سے بچہ کے لیے دست دعا دراز کی۔ انھوں نے دعا میں حسین وجمیل اور ذہین وچالاک بچہ نہیں مانگا؛  بل کہ انھوں نے اللہ سے ایک نیک و صالح، پارسا ودیانتدار اور متقی وپرہیزگاربچہ مانگا۔ اللہ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو ایک متحمل مزاج، حلیم وبردبار اور صابر وشاکر بیٹے سے نوازنے کی خوش خبری دی۔ آپ بڑھاپے میں والد بن گئے۔ اس نومولود کا نام اسماعیل رکھا گیا۔

 

والدین نے اس بچے (حضرت اسماعیل –علیہ السلام–) کی پرورش کی۔ نومولود کی پرورش میں، انھیں  جو مشقتیں پیش آئيں، انھوں نے برداشت کی۔ پھر وہ بچہ اپنے بچپنے سے آگے نکل گیا۔ وہ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا۔ ان کی عمر تیرہ سال کی ہوگئی۔ اب وہ لڑکا قوت بازو بن کر، باپ کا سہارا ہونے کے قابل ہوچکا ہے۔ اب اس حالت میں والد بزرگوار حضرت ابراہیم –علیہ السلام– نے اچانک خواب میں دیکھا کہ اللہ کا حکم ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو، اللہ کی رضا کی خاطر قربان کردیں۔ یہ ایک مشکل امتحان کی گھڑی تھی۔ قربان کرنا ہو یا قربان ہونا ہو، اس کٹھن امتحان میں  پیغمبر کے علاوہ شاید ہی کوئی پاس ہو سکے۔ حضرت ابراہیم –علیہ السلام– نے وہ خواب اپنے لخت جگر اسماعیل –علیہ السلام–کے سامنے بیان کیا۔ بیان کرنے کا مقصد کیا تھا؟ اس کا مقصد یہ تھا کہ باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ وہ اس جاں فرسا امتحان میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔ ایک عظیم المرتبت نبی کا مطیع وفرمانبردار بیٹا، جسے مستقبل میں منصب نبوت پر فائز ہونا تھا۔ پھر وہ بیٹا کیسے اس حکمِ خداوندی کا انکار کرسکتا تھا۔ حضرت اسماعیل –علیہ السلام– کوئی قیل و قال، سوال و جواب اور ٹال مٹول کے بغیر؛ بل کہ سنجیدگی سے جواب دیا کہ آپ بلا تامل وہ کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا گيا ہے۔ جب قربانی کا وقت آئے گا، تو میں ادھر ادھر نہیں بھاگوں گا، راہ فرار نہیں اختیار کروں گا۔  اس حکم خداوندی کو انجام دینے میں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ قربانی کے وقت مجھے روتا بلکتا نہیں پائیں گے؛ بل کہ بمشیت خداوندی آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائيں گے۔ یعنی اس بچہ نے خوش دلی کے ساتھ، اس قربانی کے لیے خود کو پیش کردیا۔ اس واقعے کو اللہ پاک نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے:

 

﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (102) فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (103) وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (105) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (107). (سورة الصافات: 102 – 107)

 

ترجمہ: "پھر جب وہ لڑکا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا؛ تو انھوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ، تمھاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ، آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ چناں چہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا۔ اور ہم نے انھیں آواز دی کہ اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔ اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا۔"

 

ان آیات کریمہ کی تفسیر میں ہے: "یہ اگر چہ ایک خواب تھا، لیکن انبیائے کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس لیے حضرت اسماعیل –علیہ السلام– نے اسے اللہ تعالی کا حکم قرار دیا۔ باپ بیٹے دونوں نے تو اپنی طرف سے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں یہی ٹھان لی تھی کہ باپ بیٹے کو ذبح کرے گا، اس لیے حضرت ابراہیم –علیہ السلام– نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا، تاکہ چھری پھیرتے وقت ان کی صورت دیکھ کر، ارادے میں کوئی تزلزل نہ آجائے۔ چوں کہ باپ بیٹے دونوں اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں، اپنے اختیار کا ہر کام کرچکے تھے، اس لیے امتحان پورا ہوگیا تھا۔ اب اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا کہ چھری حضرت اسماعیل –علیہ السلام– کے بجائے ایک مینڈھے پر چلی، جو اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے وہاں بھیج دیا اور حضرت اسماعیل –علیہ السلام– زندہ سلامت رہے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

 

حضرت ابراہیم –علیہ السلام– نے نہ صرف بیٹے اسماعیل کو قربان کرنے والے کٹھن امتحان کو پاس کیا؛ بل کہ آپ کی پوری زندگی قربانیوں پر مشتمل ہے۔ حضرت ابراہیم –علیہ السلام– نے اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا کی خاطر، اپنے وطن، اہل و عیال اور خویش و اقارب سب کو چھوڑ دیا۔ آپ کو آگ کے جلتے انگارے میں ڈالا گیا۔ آپ –علیہ السلام– دعوت و تبلیغ کے لیے اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے پیارے لڑکے کو مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر، ایسے وقت میں دوسری جگہ کا قصد کیا، جس وقت مکہ مکرمہ میں زندگی گذارنے کے لیے دوسری سہولتیں تو دور، پینے کا پانی بھی آسانی سے میسر نہ تھا۔ اللہ پاک نے آپ کو مقبولیت کا وہ مقام عطا فرمایا کہ مسلم، یہودی اور عیسائی سب کے سب آپ کو اللہ کا عظیم پیغمبر شمار کرتے ہیں اور اس سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو "خلیل اللہ" کا لقب دے کر، اپنا دوست بنا لیا۔

 

ان عظیم باپ اور بیٹے (علیہما السلام) کی عظیم قربانی اللہ پاک کو بہت پسند آئی۔ اس کی یاد کے طور پر، قربانی امت محمدیہ کے ہر "صاحبِ نصاب" شخص کے لیے واجب قرار دی گئی۔ اس وقت سے یہ قربانی کی عظیم یاد گار اب تک منائی جاتی ہے اور رہتی دنیا تک منائی جاتی رہے گی، ان شاء اللہ۔ جو شخص صاحبِ نصاب ہے اور قربانی نہیں کرتا ہے؛ تو اس سے اس حوالے سے قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔

 

آج کے دورٍِ جدید میں، ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر تولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ خدائی احکام میں بھی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور اس کی عقلی دلیل تلاش کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر کسی خدائی احکام کے پیچھے، کوئی عقلی دلیل نہ ملے؛ تو کچھ لوگ اس حکمِ خداوندی پر عمل کرنا ترک کردیں گے۔ یہ طریقہ کار تقاضائے ایمانی کے خلاف ہے۔ اگر ایسا کیا جائے؛ تو اسے دین اور احکام خداوندی پر عمل کرنا شمار نہیں کیا جائے۔ اللہ کے احکام کی فرمانبرداری اور تسلیم واطاعت وہ ہے جسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے کر دکھایا۔ پھر اللہ پاک کو ان باپ اور بیٹے کی یہ قربانی والی ادا اتنی پسند آئی کہ اسے رہتی دنیا تک کے لیے یاد گار بنا دیا اور آج دنیا میں لاکھوں لوگ ہر سال اس عظیم قربانی کو عملی طور پر یاد کرتے ہیں۔

 

شریعت محمدیہ میں، اللہ کی رضا کے حصول اور جناب نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کے طریقہ کار کی پیروی کے لیے، قربانی ہر صاحبِ نصاب شخص پر واجب کردی گئی ہے۔ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لیے ہر سال قربانی کیا کرتے تھے۔ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– کی راہ ہدایت کی اتباع کرتے ہوئے اللہ کی رضا کی خاطر صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم– بھی ہر سال قربانی کیا کرتے تھے۔

 

اس قربانی کی حقیقت کو ایک حدیث شریف میں کس طرح بیان کیا گا ہے، اسے بھی ملاحظہ فرمائے۔ حضرت زید بن ارقم –رضی اللہ عنہ –نے فرمایا کہ رسول اللہ–صلی اللہ علیہ وسلم– کے اصحاب –رضی اللہ عنہم–  نے دریافت فرمایا : "يَا رَسُولَ اللهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: "سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ" قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: "بِكُلِّ شَعَرَةٍ، حَسَنَةٌ" قَالُوا: فَالصُّوفُ؟ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ، حَسَنَةٌ." (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3127)

 

ترجمہ: "اے اللہ  کے  رسول–صلی اللہ علیہ وسلم–! یہ قربانی کیا ہے ؟  آپ –صلی اللہ علیہ وسلم–نے فرمایا: "یہ تمھارے باپ ابراہیم  (علیہ السلام) کی سنت ہے۔" انھوں نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا (ثواب)ہے ؟ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے جواب مرحمت فرمایا: "ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے ۔" (پھر) انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول –صلی اللہ علیہ وسلم– اون (والے بال) کا (بدلہ ) کیا ہے؟  آپ–صلی اللہ علیہ وسلم–نے فرمایا: "ہر اون والے بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔"

 

اسلام میں قربانی کی بڑی حیثیت اور اہمیت ہے۔ مسلمانوں کو جانور کی قربانی کرتے رہنا چاہیے تاکہ جب ضرورت پڑے؛ تو اسلام کی خاطر کسی بھی پیاری چیزکو  قربان کرسکیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی نظام عالم بغیر قربانی کے عروج نہیں کرتا ہے۔ وہ قوم جس میں قربانی دینے کی عادت ہو، وہ آسانی سے کام یابی کی چوٹی پر پہنچ سکتی ہے۔ مگر یہ قربانی اخلاص کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ ریا و نمود سے بالکل اجتناب کیا جانا چاہیے۔ مگر آج المیہ یہ ہے کہ ہماری قربانی میں اخلاص اور روحانیت کی کمی ہوتی ہے؛ کیوں کہ عید الاضحی کے موقع سے جانور قربان کرتے وقت، لوگ  شہرت وناموری کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ جانور خریدتے وقت آپس میں تقابل کرتے ہیں۔ اگر کسی نے پندرہ ہزار کا جانور خریدا، تو اس کا پڑوسی بیس ہزار کا جانور خریدنے کی کوشش کرتا ہے؛ تاکہ وہ لوگوں کو محسوس کراسکے کہ وہ اس شہر یا علاقے کا ایک ممتاز اور نمایاں شخص ہے۔ پھر لوگ اس کی تعریف کریں کہ اس نے اتنا قیمتی جانور قربانی میں ذبح کیا ہے! ہم قربانی کے دنوں میں جانور ضرور قربان کرتے ہیں؛ مگر ہم اپنی نیت کو خالص رکھنے میں کام یاب نہیں ہوپاتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ اپنی نیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جس رقم سے جانور خرید رہے ہیں وہ رقم جائز ہے یا ناجائز۔

 

قربانی کرتے وقت ہماری نیت خالص ہو۔ ہم نہایت ہی متواضع ہوں۔ ہمیں ہمیشہ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ یہ ہماری یہ قربانی آپ کی طرف سے قبولیت کی محتاج ہے، آپ اسے قبول فرمالیجیے! جانور کو قربان کرنے سے پہلے ہمیں ابراہیم –علیہ السلام– اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل –علیہ السلام– کی جانفشانی اور آزمائش کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔  ہمیں صحابۂ کرام –رضی اللہ عنہم– کے سچے جذبے کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔ پھر ہمیں جانور کی قربانی کرنی چاہیے۔ پھر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اللہ پاک ہماری قربانی قبول فرمائیں گے! ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم جس جانور کو قربان کرتے ہیں اس کا خون، گوشت، چرم، کھال وغیرہ اللہ پاک کے پاس نہیں پہنچتا؛ بل کہ وہ چیز جو اللہ تک پہنچتی وہ ہمارا تقوی ہے، ہمارا اخلاص ہے اور ہمارا سچا جذبہ ہے؛ چناں چہ جانور کی قربانی سے پہلے، ہمیں اپنی نیت درست کرنی چاہیے۔ ہماری نیت یہ ہونی چاہیے کہ یہ قربانی صرف اللہ پاک کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ. (سورة الحج: 37) ترجمہ:  "اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون؛ لیکن اس کے پاس تمھارا تقوی پہنچتا ہے۔" ●●●●

No comments: